"فلسطین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 12: سطر 12:
| کرنسی = روپیہ
| کرنسی = روپیہ
}}
}}
'''فلسطین''' مغربی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں  مسلمانوں کا قبلہ اول [[مسجد اقصی|مسجد اقصیٰ]] ہے ۔اس پر 1948 سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت بیت المقدس ہے۔
'''فلسطین''' مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جہاں  مسلمانوں کا قبلہ اول [[مسجد اقصی|مسجد اقصیٰ]] ہے ۔اس پر 1948 سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت بیت المقدس ہے۔


تاریخ میں فلسطین کی سرزمین مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سے آباد رہی ہے ۔  فلسطین میں اسلام، [[عمر بن خطاب]] کے دور خلافت میں آیا۔ فلسطین میں اسلام کی آمد کے بعد امویوں، عباسیوں، فاطمیوں اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر غلبہ حاصل کیا۔ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں پر عیسائیوں کی فتح کے بعد فلسطین کی حکومت کچھ وقت کے لیے عیسائیوں کے پاس چلی گئی۔ لیکن کچھ عرصہ  کے بعد مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ پہلے یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا اور پہلی جنگ عظیم  تک اس کی یہی حیثيت رہی۔
تاریخ میں فلسطین کی سرزمین مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں سے آباد رہی ہے ۔  فلسطین میں اسلام، [[عمر بن خطاب]] کے دور خلافت میں آیا۔ فلسطین میں اسلام کی آمد کے بعد امویوں، عباسیوں، فاطمیوں اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر غلبہ حاصل کیا۔ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں پر عیسائیوں کی فتح کے بعد فلسطین کی حکومت کچھ وقت کے لیے عیسائیوں کے پاس چلی گئی۔ لیکن کچھ عرصہ  کے بعد مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ پہلے یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا اور پہلی جنگ عظیم  تک اس کی یہی حیثيت رہی۔


فلسطین پر 1948 سے اسرائیلی حکومت کا قبضہ ہے اور اس کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے  اس پر کئی جنگیں مسلط کی گئی ہیں۔
فلسطین پر 1948 سے اسرائیلی حکومت کا قبضہ ہے اور اس کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے  اس پر کئی جنگیں اور قتل عام  مسلط کئے گئے۔


اس ملک میں  [[شیعہ]]  بھی رہتے ہیں۔ لیکن ان  کی آبادی کے متعلق درست اعداد و شمار موجود نہیں ہے۔ اسلامی جہاد موومنٹ اور صابرین موومنٹ کو شیعوں سے متاثر فلسطینی گروپ سمجھا جاتا ہے ۔ [[حماس]] اور [[تحریک فتح|الفتح]] اس ملک کی دوسری جماعتیں ہیں۔
اس ملک میں  [[شیعہ]]  بھی رہتے ہیں۔ لیکن ان  کی آبادی کے متعلق درست اعداد و شمار موجود نہیں ہے۔ تحریک  جہاد اسلامی صابرین موومنٹ کو شیعوں سے متاثر فلسطینی گروپ سمجھا جاتا ہے ۔ [[حماس]] اور [[تحریک فتح|الفتح]] اس ملک کی دوسری جماعتیں ہیں۔
== جغرافیہ ==
== جغرافیہ ==
فلسطین کا رقبہ 10419 مربع میل ہے  جو بحر متوسط کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں اردن، شام، مصر اور لبنان سے ملتی ہیں <ref>محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء، ص616</ref>۔
فلسطین کا رقبہ 10419 مربع میل ہے  جو بحر متوسط کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں اردن، شام، مصر اور لبنان سے ملتی ہیں <ref>محمد اعظم چوہدری، بین الاقوامی تعلقات نظریہ اور عمل، 2004ء، ص616</ref>۔
سطر 26: سطر 26:
فلسطین کی سرزمین مسلمانوں کے درمیان مختلف وجوہات کی بنا پر ایک خاص مقام رکھتی ہے۔جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ  اس ملک میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلہ اول) ہے۔  سرزمین فلسطین کو [[قرآن]] میں "مقدس سرزمین" اور "مبارک سرزمین" کہا گیا ہے۔
فلسطین کی سرزمین مسلمانوں کے درمیان مختلف وجوہات کی بنا پر ایک خاص مقام رکھتی ہے۔جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ  اس ملک میں مسجد اقصیٰ (مسلمانوں کا قبلہ اول) ہے۔  سرزمین فلسطین کو [[قرآن]] میں "مقدس سرزمین" اور "مبارک سرزمین" کہا گیا ہے۔


فلسطین  میں بہت سے انبیاء مدفون ہیں۔ مثال کے طور پر، حضرت مریم کی  قبر  شہر  ناصرہ  میں ہے اور حضرت یحیی  سامریہ اور ابراہیم  شہر حبرون میں دفن  ہے۔  فلسطین کے دارالحکومت  بیت المقدس سے  ہی یہودیت اور عیسائیت کا ظہور ہوا ۔ مختلف انبیاء کی قبروں کے علاوہ مقام حضرت موسیٰ، مسجد اقصیٰ، مسجد صخرہ بھی  اسی شہر میں واقع ہیں۔اریحا اور [[غزہ]] کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ چار سنی فقہاء میں سے ایک  محمد بن ادریس شافعی، فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے۔
فلسطین  میں بہت سے انبیاء مدفون ہیں۔ مثال کے طور پر، حضرت مریم کی  قبر  شہر  ناصرہ  میں ہے اور حضرت یحیی  سامریہ اور حضرت  ابراہیم  شہر الخلیل میں دفن  ہے۔  فلسطین کے دارالحکومت  بیت المقدس سے  ہی یہودیت اور عیسائیت کا ظہور ہوا ۔ مختلف انبیاء کی قبروں کے علاوہ مقام حضرت موسیٰ، مسجد اقصیٰ، مسجد صخرہ بھی  اسی شہر میں واقع ہیں۔اریحا اور [[غزہ]] کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ چار سنی فقہاء میں سے ایک  محمد بن ادریس شافعی، فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے۔


== اسلام سے پہلے فلسطین کی تاریخ ==
== اسلام سے پہلے فلسطین کی تاریخ ==
مؤرخین کے مطابق فلسطین  پتھر کے زمانے سے بنی نوع انسانی  سے آباد رہا ہے۔  فلسطین کا قدیم ترین نام "کنعان کی سر زمین" ہے جو  کنعانی عربوں سے لیا گیا ہے جو فلسطین میں تارکین وطن کا پہلا گروہ تھا۔  اس گروہ نے 3500 قبل مسیح میں ہجرت کے لیے فلسطین کا انتخاب کیا۔  فلسطین کا نام ان تارکین وطن قبائل سے لیا گیا ہے جو 1200 قبل مسیح کے آس پاس مغربی ایشیا سے اس سرزمین کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ فلسطین کے زیادہ تر باشندے کنعانی عرب تھے جو  آہستہ آہستہ  دوسرے عرب قبائل کے ساتھ گھل مل گئے۔ اس کے علاوہ،مختلف ادوار  میں فلسطین کے بعض علاقوں میں یہودی بھی حکومت کرنے آئے۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومیوں نے فلسطین پر غلبہ حاصل کیا اور یہودیوں کو اپنے زیر تسلط کر لیا۔  سن  30 عیسوی  میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ہوا ۔ انہوں  نے اپنی تعلیمات کی تبلیغ کا کام  شہر  بیت المقدس  سے شروع کیا۔  
مؤرخین کے مطابق فلسطین  پتھر کے زمانے سے بنی نوع انسانی  سے آباد رہا ہے۔  فلسطین کا قدیم ترین نام " سرزمین  کنعان" ہے جو  کنعانی عربوں سے لیا گیا ہے جو فلسطین میں مہاجرین کا پہلا گروہ تھا۔  اس گروہ نے 3500 قبل مسیح میں ہجرت کے لیے فلسطین کا انتخاب کیا۔  فلسطین کا نام مہاجر قبائل سے لیا گیا ہے جو 1200 قبل مسیح کے آس پاس مغربی ایشیا سے اس سرزمین کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ فلسطین کے زیادہ تر باشندے کنعانی عرب تھے جو  آہستہ آہستہ  دوسرے عرب قبائل کے ساتھ گھل مل گئے۔ اس کے علاوہ،مختلف ادوار  میں فلسطین کے بعض علاقوں میں یہودیوں نےبھی حکومت قائم کی۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومیوں نے فلسطین پر غلبہ حاصل کیا اور یہودیوں کو اپنے زیر تسلط کر لیا۔  سن  30 عیسوی  میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ہوا ۔ انہوں  نے اپنی تعلیمات کی تبلیغ کا کام  شہر  بیت المقدس  سے شروع کیا۔  


شہید مرتضی مطہری کے مطابق ، فلسطین کی سرزمین اپنی تاریخ میں کبھی بھی یہودیوں کی نہیں رہی، نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام کے بعد۔ صرف ایک عارضی دور میں، داؤد (ع) اور سلیمان (ع) نے وہاں حکومت کی۔ جب مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا تو فلسطین عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور مسلمانوں نے عیسائیوں سے صلح کر لی۔ امن معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ عیسائیوں نے کہا کہ فلسطین یہودیوں کو نہ دیا جائے۔
استاد شہید مرتضی مطہری کے مطابق ، فلسطین کی سرزمین اپنی تاریخ میں کبھی بھی یہودیوں کی نہیں رہی، نہ اسلام سے پہلے اور نہ اسلام کے بعد۔ صرف ایک عارضی دور میں، جناب داؤد (ع) اور جناب سلیمان (ع) نے وہاں حکومت کی۔ جب مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا تو فلسطین عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور مسلمانوں نے عیسائیوں سے صلح کر لی۔ امن معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ عیسائیوں نے کہا کہ فلسطین یہودیوں کو نہ دیا جائے۔
== اسلامی دور میں فلسطین ==
== اسلامی دور میں فلسطین ==
یوں تو  فلسطین میں اسلام ابو بکر کے دور میں آچکا تھا  تاہم یہ سرزمین سنہ 13 ہجری میں  عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خالد بن ولید کی قیادت میں اجنادین کی جنگ سمیت کئی لڑائیوں کے دوران فتح ہوئی ۔  
یوں تو  فلسطین میں اسلام ابو بکر کے دور میں آچکا تھا  تاہم یہ سرزمین سنہ 13 ہجری میں  عمر بن خطاب کے دور خلافت میں خالد بن ولید کی قیادت میں اجنادین کی جنگ سمیت کئی لڑائیوں کے دوران فتح ہوئی ۔  


عمر بن خطاب کے دور خلافت میں فلسطین اسلامی سرزمین کا حصہ بن گیا۔اس کے بعد اس سرزمین پر اموی اور عباسی خلفاء نے حکومت کی۔ 969 ء میں فاطمیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فاطمیوں نے مقامی انقلابیوں ، قرامطہ اور سلجوقی ترکوں کے ساتھ جنگ  کی۔ اس عرصے کے دوران، فلسطین پر تنازعہ جاری رہا، اس طرح کہ فلسطین کی حکومت  منگولوں ، مصر کے مملوکوں، اور عثمانیوں کے درمیان تبدیل ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ عثمانیوں نے 1516 عیسوی میں فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔   
عمر بن خطاب کے دور خلافت میں فلسطین اسلامی سرزمین کا حصہ بن گیا۔اس کے بعد اس سرزمین پر اموی اور عباسی خلفاء نے حکومت کی۔ 358  ھ میں فاطمیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فاطمیوں نے مقامی انقلابات ، قرامطہ اور سلجوقی ترکوں کا مقابلہ کیا۔ اس عرصے کے دوران، فلسطین پر تنازعہ جاری رہا، اس طرح کہ فلسطین کی حکومت  منگولوں ، مصر کے مملوکوں، اور عثمانیوں کے درمیان تبدیل ہوتی رہی یہاں تک کہ عثمانیوں نے 1516 عیسوی میں فلسطین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔   


صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد 1099 ء میں یورپی عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد 88 سال تک عیسائیوں کی حکمرانی جاری رہی۔ جنگ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ فلسطین پر عثمانی حکومت 1917 میں برطانیہ کے قبضے تک جاری رہی ۔ فلسطین پر  برطانیہ کا قبضہ 1948 تک جاری رہا، حالانکہ برطانیہ نے 1922 میں قبضے کے عنوان کو ایک محافظ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔  
صلیبی جنگوں اور تقریباً ستر ہزار مسلمانوں کے قتل کے بعد 1099 ء میں یورپی عیسائیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ صلیبی جنگوں کے بعد 88 سال تک عیسائیوں کی حکمرانی جاری رہی۔ جنگ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلمانوں نے فلسطین واپس لے لیا۔ فلسطین پر عثمانی حکومت 1917 میں برطانیہ کے قبضے تک جاری رہی ۔ فلسطین پر  برطانیہ کا قبضہ 1948 تک جاری رہا، حالانکہ برطانیہ نے 1922 میں قبضے کے عنوان کو ایک محافظ ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔  


فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی اور یہودیوں کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1931 (1310ھ) میں القدس اسلامی کانگریس کے نام سے ایک کانفرنس فلسطین کے مفتی اعظم محمد امین الحسینی نے بیت المقدس میں منعقد کی ۔  اس کانگریس کے نائب صدر اور سیکرٹریٹ کے سربراہ سید ضیاء الدین طباطبائی (وفات: 1348)، ایک ایرانی سیاست دان تھے۔  انہوں نے مسلمانوں کے  باہمی اتحاد پر زور دیا۔ اس کانفرنس میں اقبال لاہوری جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔  
فلسطین کو یہودیانے کی پالیسی اور یہودیوں کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے 1931 (1310ھ) میں القدس اسلامی کانگریس کے نام سے ایک کانفرنس فلسطین کے مفتی اعظم محمد امین الحسینی نے بیت المقدس میں منعقد کی ۔  اس کانگریس کے نائب صدر اور سیکرٹریٹ کے سربراہ سید ضیاء الدین طباطبائی (وفات: 1348)، ایک ایرانی سیاست دان تھے۔  انہوں نے مسلمانوں کے  باہمی اتحاد کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے  ہر ملت کی قومیت کے تحفظ  پر زور دیا۔ اس کانفرنس میں اقبال لاہوری جیسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔  


1936 میں فلسطینی عوام نے برطانوی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس انقلاب کو برطانوی اور صیہونی رکاوٹوں نے شکست دی۔  کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کی ناکامی کے ساتھ ہی برطانوی حکام نے امین الحسینی کو جلاوطن کر دیا اور دوسری قدس کانگریس کے انعقاد کو روک دیا۔  
1936 میں فلسطینی عوام نے برطانوی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔ لیکن اس انقلاب کو برطانوی اور صیہونی رکاوٹوں نے شکست دی۔  کہا جاتا ہے کہ اس بغاوت کی ناکامی کے ساتھ ہی برطانوی حکام نے امین الحسینی کو جلاوطن کر دیا اور دوسری قدس کانگریس کے انعقاد کو روک دیا۔  
سطر 48: سطر 48:


== فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی ==
== فلسطین پر یہودیت اور اسرائیل کے قبضے کی پالیسی ==
1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی  پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ انہیں بے حس کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن  کی اصطلاح استعمال کی ۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1 فیصدیہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8 فیصد یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2 فیصد ان کے اختیار میں تھا۔
1799 میں نپولین بوناپارٹ پہلا یورپی رہنما تھا جس نے یہودیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دی۔ برسوں بعد 1897 میں سوئٹزرلینڈ میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو یہودیانے کے لیے ایک بنیادی  پالیسی پر عمل ہونا چاہے۔ مسئلے کی حساسیت کو کم کرنے کے لیے انہوں نے یہودی ریاست کے بجائے یہودیوں کے وطن  کی اصطلاح استعمال کی ۔ تاہم، 30 سال بعد اور پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں، صرف 1 فیصدیہودیوں نے اس منصوبے کی حمایت کی اور یہ عملی طور پر ناکام رہا۔ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 8 فیصد یہودیوں کے لیے مختص تھا اور رقبے کے لحاظ سے پورے فلسطین کا صرف 2 فیصد ان کے اختیار میں تھا۔


پہلی جنگ عظیم کے واقعات 1917 میں بالفور اعلامیہ کے اجراء کا باعث بنے۔ اس بیان میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنانے کا مطالبہ کیا۔ اسی وجہ سے فلسطین پر برطانوی حکومت کے دوران صیہونیوں کی ایک بڑی آبادی نے فلسطینی سرزمین کی طرف ہجرت کی۔ اس عرصے میں یہودیوں کی تعداد میں چھ گنا اضافہ ہوا۔
پہلی جنگ عظیم کے واقعات 1917 میں بالفور اعلامیہ کے اجراء کا باعث بنے۔ اس بیان میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنانے کا مطالبہ کیا۔ اسی وجہ سے فلسطین پر برطانوی حکومت کے دوران صیہونیوں کی ایک بڑی آبادی نے سرزمین فلسطین  کی طرف ہجرت کی۔ اس عرصے میں یہودیوں کی تعداد میں چھ گنا اضافہ ہوا۔


15مئی 1948ء کی رات فلسطین کے سینے میں صہیونیت نے اپنا خنجر گاڑ دیا <ref>یوسف ظفر، یہودیت، 1997ء، ص268</ref>۔
15مئی 1948ء کی رات فلسطین کے سینے میں صہیونیت نے اپنا خنجر گاڑ دیا <ref>یوسف ظفر، یہودیت، 1997ء، ص268</ref>۔
اس وقت یہودیوں کا فلسطین کی 78 فیصد زمین پر قبضہ تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطین کے شمال میں واقع الخلیل، بحیرہ روم کا ساحل، صحرائے نقب اور فلسطین کا وسطی علاقہ شامل تھا۔ چونکہ مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا اور غزہ بھی مصری حکومت کے زیر انتظام تھا ، اس لیے یہ دونوں علاقے صیہونیوں کے قبضے سے بچ گئے تھے۔ تاہم، 1967 سے 1995 تک، اسرائیل مغربی کنارے کے 60 فیصد اور غزہ کے 40 فیصد حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ نیز اس عرصے میں اسرائیل فلسطین کے 97 فیصد حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔
اس وقت یہودیوں کا فلسطین کی 78 فیصد زمین پر قبضہ تھا۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطین کے شمال میں واقع الخلیل، بحر متوسط  کا ساحل، صحرائے نقب اور فلسطین کا وسطی علاقہ شامل تھا۔ چونکہ مغربی کنارہ اردن کے زیر انتظام تھا اور غزہ بھی مصری حکومت کے زیر انتظام تھا اس لیے یہ دونوں علاقے صیہونیوں کے قبضے سے بچ گئے تھے۔ تاہم، 1967 سے 1995 تک، اسرائیل مغربی کنارے کے 60 فیصد اور غزہ کے 40 فیصد حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ نیز اس عرصے میں اسرائیل نے فلسطین کے 97 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔


اسرائیل کے قیام کے دن کو یوم نکبت یا تباہی کا دن کہا جاتا ہے  اور سال 1948 کو نکبت کا سال کہا جاتا ہے۔  نیز اسرائیل سے عرب ممالک (مصر، شام، اردن اور عراق) کی شکست کی وجہ سے سنہ 1967 کو "نکسہ" کا سال کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ 6 سال تک جاری رہی اور عرب ممالک کی شکست کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے کچھ علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔  
اسرائیل کے قیام کے دن کو "یوم نکبۃ" یا تباہی کا دن کہا جاتا ہے  اور سال 1948 کو نکبت کا سال کہا جاتا ہے۔  نیز اسرائیل سے عرب ممالک (مصر، شام، اردن اور عراق) کی شکست کی وجہ سے سنہ 1967 کو "نکسہ" کا سال کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ 6 دن  تک جاری رہی اور عرب ممالک کی شکست کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے کچھ علاقے اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔  


10 نومبر 1972 کو اسرائیل کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں امام خمینی نےکہا: اسرائیل کی تشلیل کے پیچھے  عظیم استعماری طاقتوں کا مقصد  صرف فلسطین پر قبضہ کرنا نہیں  ہے بلکہ اگر انہیں موقع دیا گیا تو وہ تمام عرب ممالک کو فلسطین  جیسا  حشر کریں گے۔
10 نومبر 1972 کو اسرائیل کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں امام خمینی نےکہا: اسرائیل کی تشکیل کے پیچھے  عظیم استعماری حکومتوں کا مقصد  صرف فلسطین پر قبضہ کرنا نہیں  ہے بلکہ اگر انہیں مل گیا گیا تو تمام عرب ممالک کا حشر فلسطین  جیساہوگا۔


== رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دینا ==
== رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دینا ==
امام خمینی، رہبر اسلامی جمہوریہ ایران  نے  1358 میں  اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی حمایت میں  رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دیا۔ ہر سال دنیا کے کئی ممالک جیسے عراق ، ایران ، ہندوستان اور ملائیشیا میں یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کی حمایت میں بڑے مظاہرے ہوتے ہیں۔  
امام خمینی، رہبر اسلامی جمہوریہ ایران  نے  1358 میں  اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی حمایت میں  رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دیا۔ ہر سال دنیا کے کئی ممالک جیسے عراق ، ایران ، ہندوستان اور ملائیشیا میں یوم قدس کے موقع پر فلسطینی عوام کی حمایت میں بڑے مظاہرے ہوتے ہیں۔  
== اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام ==
== اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام ==
1948 میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہمیشہ تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ دوسری چیزوں کے علاوہ اسرائیل نے کئی بار فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ 1948 میں اسرائیل نے 34 قتل عام کیے جن میں دیر یاسین کا سب سے مشہور قتل عام ہے۔ اس قتل عام میں 254 افراد بے دردی سے شہید کئے گئے۔ اسرائیل کا ایک اور جرم 1956 میں "خان یونس" کا قتل عام ہے۔ اس جرم میں 250 فلسطینی مارے گئے۔ تاریخ کے سب سے بڑے جرائم میں سے ایک صابرہ اور شتیلا کا قتل عام ہے ۔ یہ واقعہ 1982 میں پیش آیا تھا جس میں 3297 فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہو گئے تھے۔
1948 میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ہمیشہ تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ اسرائیل نے کئی بار فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ 1948 میں اسرائیل نے 34 قتل عام کیے جن میں دیر یاسین کا سب سے مشہور قتل عام ہے۔ اس قتل عام میں 254 افراد بے دردی سے شہید کئے گئے۔ اسرائیل کا ایک اور جرم 1956 میں "خان یونس" کا قتل عام ہے جس میں 250 فلسطینی مارے گئے۔ تاریخ کے سب سے بڑے جرائم میں سے ایک صبرہ اور شتیلا کا قتل عام ہے ۔ یہ واقعہ 1982 میں پیش آیا تھا جس میں 3297 فلسطینی خواتین اور بچے شہید ہو گئے تھے۔
== غزہ کی پٹی ==
== غزہ کی پٹی ==
اکتوبر 2023 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بارہ روزہ حملے کے دوران 135,000 سے زیادہ رہائشی مکانات کو مسمار کر دیا ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 3200 سے زائد فلسطینی شہید اور 11000 زخمی ہوئے۔  
اکتوبر 2023 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بارہ روزہ حملے کے دوران 135,000 سے زیادہ رہائشی عمارتوں  کو تباہ اور متعدد مکانات کو مسمار کر دیا ۔ ان حملوں کے نتیجے میں 3200 سے زائد فلسطینی شہید اور 11000 زخمی ہوئے۔  


فلسطینی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی حملے کے گیارہویں دن تک پانچ سو خواتین اور تقریباً سات سو بچے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ 17 اکتوبر کو اس حکومت نے غزہ کی پٹی کے سب سے اہم اسپتالوں میں سے ایک معمدانی اسپتال (الاھلی العربی) کو زمین بوس کردیا، جس میں 500 سے زائد افراد شہید ہوگئے۔  
فلسطینی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیلی حملے کے گیارہویں دن تک پانچ سو خواتین اور تقریباً سات سو بچے اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ 17 اکتوبر کو اس حکومت نے غزہ کی پٹی کے سب سے اہم اسپتالوں میں سے ایک معمدانی اسپتال (الاھلی العربی) کو زمین بوس کردیا، جس میں 500 سے زائد افراد شہید ہوگئے۔  
== اسرائیل کے خلاف فلسطینی انتفاضہ ==
== اسرائیل کے خلاف فلسطینی انتفاضہ ==
فلسطین پر قبضے  کے دوران اس سرزمین نے فلسطینی عوام کی بے شمار بغاوتیں دیکھی ہیں۔ فلسطینی عوام کی پہلی منظم  بغاوت 1976 میں  یوم الارض بغاوت کے نام سے ہوئی تھی۔ پہلا انتفاضہ 1987 میں مغربی کنارے اور غزہ میں ہوا۔ 2000 میں، ایک اور انتفاضہ، جسے الاقصیٰ انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی وجہ سے شروع ہوا۔ الاقصیٰ انتفاضہ کے سب سے اہم نعروں میں سے ایک فلسطینی ریاست کا قیام اور مغربی کنارے سے قابضین کا انخلاء تھا۔ 1987 کے انتفاضہ میں، جو چھ سال تک جاری رہا، 1540 افراد شہید اور 130,000 زخمی ہوئے۔ 2000 کے انتفاضہ میں 2800 افراد مارے گئے۔  
فلسطین پر قبضے  کے دوران اس سرزمین نے فلسطینی عوام کی بے شمار بغاوتیں دیکھی ہیں۔ فلسطینی عوام کی پہلی منظم  بغاوت 1976 میں  یوم الارض انتفاضہ کے نام سے ہوئی تھی۔ دوسرا انتفاضہ 1987 میں مغربی کنارے اور غزہ میں ہوا جو " پہلا انتفاضہ" یا "فلسطینی عوام کا اتفاضہ" کے نام سے مشہور ہوا ۔ 2000 میں، ایک اور انتفاضہ، جسے الاقصیٰ انتفاضہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجداقصیٰ میں داخل ہونے کی وجہ سے شروع ہوا۔ الاقصیٰ انتفاضہ کے سب سے اہم نعروں میں سے ایک فلسطینی ریاست کا قیام اور مغربی کنارے سے قابضین کا انخلاء تھا۔ 1987 کے انتفاضہ میں، جو چھ سال تک جاری رہا، 1540 افراد شہید اور 130,000 زخمی ہوئے۔ 2000 کے انتفاضہ میں 2800 افراد مارے گئے۔  
== 2021 میں اسرائیل کے خلاف میزائل حملے ==
== 2021 میں اسرائیل کے خلاف میزائل حملے ==
2021 میں مزاحمتی گروپوں اور اسرائیل کے درمیان تصادم ہوا جو 11 دن تک جاری رہا۔ اس تنازع میں حماس اور اسلامی جہاد تحریک نے راکٹوں کا استعمال کرتے ہوئے تل ابیب سمیت اسرائیل کے زیر قبضہ مختلف فلسطینی شہروں کو نشانہ بنایا۔  یہ تنازعہ فلسطینی مظاہروں کو دبانے کے ردعمل میں پیش آیا جنہوں نے اسرائیلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو شیخ جراح کا علاقہ چھوڑ کر اپنے گھر صہیونیوں کے حوالے کر دینے چاہئے۔  اگرچہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا اور متعدد مزاحمتی جوان اور شہری ہلاک اور زخمی ہوئے لیکن فلسطینیوں نے بھی جنگ بندی کے بعد اپنی فتح کا جشن منایا۔  
2021 میں مزاحمتی گروپوں اور اسرائیل کے درمیان تصادم ہوا جو 11 دن تک جاری رہا۔ اس تنازع میں حماس اور اسلامی جہاد تحریک نے راکٹوں کا استعمال کرتے ہوئے تل ابیب سمیت اسرائیل کے زیر قبضہ مختلف فلسطینی شہروں کو نشانہ بنایا۔  یہ تنازعہ فلسطینی مظاہرین کی سرکوبی کے ردعمل میں پیش آیا جو اسرائیلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو شیخ جراح کا علاقہ چھوڑ کر اپنے گھر صہیونیوں کے حوالے کر دینے چاہئے۔  اگرچہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں بہت زیادہ نقصان ہوا اور متعدد مزاحمتی جوان اور شہری شہید اور زخمی ہوئے لیکن فلسطینیوں نے بھی جنگ بندی کے بعد اپنی فتح کا جشن منایا۔  
== فلسطینی باشندے ==
== فلسطینی باشندے ==
تاریخی ذرائع کے مطابق فلسطین کے باشندے دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، عرب اور یہودی۔ عرب بھی مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر گروہوں میں تقسیم ہیں۔
تاریخی ذرائع کے مطابق فلسطین کے باشندے دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، عرب اور یہودی۔ عرب بھی مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر گروہوں میں تقسیم ہیں۔
سطر 76: سطر 76:
اعداد و شمار کے مطابق 1948 میں فلسطین میں رہنے والے عربوں کی تعداد تقریباً ایک ملین چھ لاکھ تھی جن میں سے 88.5 فیصد مسلمان ، 10.4فیصد عیسائی اور 1.1فیصد دیگر گروہ تھے۔ 1949 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینی عرب چار گروہوں میں تقسیم ہو گئے:  
اعداد و شمار کے مطابق 1948 میں فلسطین میں رہنے والے عربوں کی تعداد تقریباً ایک ملین چھ لاکھ تھی جن میں سے 88.5 فیصد مسلمان ، 10.4فیصد عیسائی اور 1.1فیصد دیگر گروہ تھے۔ 1949 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینی عرب چار گروہوں میں تقسیم ہو گئے:  


جنہوں نے 1948 کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی۔ اس گروپ کا نام گرین لائن کے رہائشیوں کے نام پر رکھا گیا تھا۔
* جنہوں نے 1948 کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی۔ اس گروہ کو گرین لائن کے رہائشیوں کا نام دیا گیا


دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کے رہائشی ۔  
* دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کے رہائشی ۔


گرین لائن، مغربی کنارے، غزہ، اردن، شام اور لبنان کے پناہ گزین جنہوں نے آباد کاری کے لیے ان علاقوں کا انتخاب کیا۔  
* گرین لائن، مغربی کنارے، غزہ، اردن، شام اور لبنان کے پناہ گزین جنہوں نے آباد کاری کے لیے ان علاقوں کا انتخاب کیا۔


فلسطینی تارکین وطن جو دوسرے عرب اور غیر عرب ممالک میں ہجرت کر گئے تھے۔
* فلسطینی مہاجرین جو دوسرے عرب اور غیر عرب ممالک میں ہجرت کر گئے تھے۔


1948 میں، تقریباً نصف فلسطینی عربوں (تقریباً 700,000 افراد) کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ مغربی کنارے، غزہ ، اردن ، شام ، لبنان ، مصر اور عراق کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 2023 میں مذکورہ علاقوں میں پناہ گزینوں کی تعداد 5,600,000 بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس سال فلسطین میں باقی ماندہ عرب فلسطین کی کل آبادی کا 14فیصد تھے۔ یورونیوز کے مطابق آج فلسطین میں باقی ماندہ عرب مقبوضہ فلسطین کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔  2002 کے اعدادوشمار کے مطابق فلسطینیوں کی کل آبادی 80 لاکھ تھی جن میں سے 52 فیصد دوسرے ممالک میں پناہ گزین تھے۔  
1948 میں، تقریباً نصف فلسطینی عربوں (تقریباً 7لاکھ افراد) کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ مغربی کنارے، غزہ ، اردن ، شام ، لبنان ، مصر اور عراق کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 2023 میں مذکورہ علاقوں میں پناہ گزینوں کی تعداد 56 لاکھ  بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس سال فلسطین میں باقی ماندہ عرب فلسطین کی کل آبادی کا 14فیصد تھے۔ یورونیوز کے مطابق آج فلسطین میں باقی ماندہ عرب مقبوضہ فلسطین کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔  2002 کے اعدادوشمار کے مطابق فلسطینیوں کی کل آبادی 80 لاکھ تھی جن میں سے 52 فیصد دوسرے ممالک میں پناہ گزین تھے۔  
== یہودی ==
== یہودی ==
1914 میں، یہودی فلسطین کی کل آبادی کا تقریباً 8 فیصد تھے۔ لیکن یہ تناسب 1943 میں بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا۔ 1948 میں اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد اس سرزمین کابیشتر آباد حصہ یہودیوں کو دے دیا گیا۔
1914 میں، یہودی فلسطین کی کل آبادی کا تقریباً 8 فیصد تھے۔ لیکن یہ تناسب 1943 میں بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا۔ 1948 میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد اس سرزمین کی بیشتر آباد ی یہودیوں پر مشتمل ہو گئی۔
== سیاسی جماعتیں ==
== سیاسی جماعتیں ==
=== اخوان المسلمون ===
=== اخوان المسلمون ===
اخوان المسلمین فلسطین 1948 میں مصر اور اردن کی اخوان المسلمین کی شمولیت سے قائم ہوئی تھی ۔ 1967 میں دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مصر اور اردن کی اخوان المسلمون کا فلسطین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہ فلسطینی اخوان المسلمین کی ترقی  کا سبب بنا۔  
اخوان المسلمین فلسطین 1948 میں مصر اور اردن کی اخوان المسلمین کی شمولیت سے قائم ہوئی تھی ۔ 1967 میں دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مصر اور اردن کی اخوان المسلمون کا فلسطین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہ فلسطینی اخوان المسلمین کی ترقی  کا سبب بنا۔  
=== اسلامی مزاحمتی تحریک ===
=== اسلامی مزاحمتی تحریک حماس ===
==== حماس ====
فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس  فلسطین کی سب سے نمایاں اسلامی مزاحمتی تحریک ہے۔ یہ تحریک اخوان المسلمون کی تحریک کا تسلسل ہے۔ تحریک حماس نے فلسطین میں اسلامی ریاست کے قیام کی  زمین ہمورا کرنے کے لیے افراد، خاندانوں اور معاشرے کی تعلیم و تربیت کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ اپنی تشکیل کے آغاز میں حماس کے پاس فلسطین پر قبضے کا مقابلہ کرنے کا کوئی خیال نہیں تھا۔ لیکن بعد میں وہ مسلح جدوجہد میں داخل ہو گئے۔  
فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس  فلسطین کی سب سے نمایاں اسلامی مزاحمتی تحریک ہے۔ یہ تحریک اخوان المسلمون کی تحریک کا تسلسل ہے۔ تحریک حماس نے فلسطین میں اسلامی ریاست کے قیام کی  زمینو ہمورا کرنے کے لیے افراد، خاندانوں اور معاشرے کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اپنی تشکیل کے آغاز میں حماس کے پاس فلسطین پر قبضے کا مقابلہ کرنے کا کوئی خیال نہیں تھا۔ لیکن بعد میں وہ مسلح جدوجہد میں داخل ہو گئے۔  
==== تحریک  جہاد اسلامی ====
==== اسلامی جہاد تحریک ====
اس تحریک نے فلسطین -اسرائیل تنازع کو اپنا نظریہ بنایا ہے۔ یہ تحریک 1980 میں شروع ہوئی۔ تحریک جہاد اسلامی اخوان المسلمین سمیت دیگر روایتی اسلامی تحریکوں سے اختلافات رکھتی ہے۔  
فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک:اس تحریک نے فلسطین -اسرائیل تنازع کو اپنا نظریہ بنایا ہے۔ یہ تحریک 1980 میں شروع ہوئی۔ اسلامی جہاد کی تحریک اخوان المسلمین سمیت دیگر روایتی اسلامی تحریکوں سے اختلافات رکھتی ہے۔  
==== قومی تحریک برائے آزادی فلسطین (فتح) ====
==== تحریک آزادی فلسطین (فتح) ====
تحریک فتح  فلسطین کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے۔ اس تحریک کی بنیاد 1965 میں یاسر عرفات نے رکھی تھی ۔ فلسطینی حکومت کے زیادہ تر عہدیدار اس جماعت کے رکن ہیں ۔  
تحریک فتح  فلسطین کی سب سے پرانی سیاسی جماعت ہے۔ اس تحریک کی بنیاد 1965 میں یاسر عرفات نے رکھی تھی ۔ فلسطینی حکومت کے زیادہ تر عہدیدار اس جماعت کے رکن ہیں ۔  
== مذہب ==
== مذہب ==
بین الاقوامی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق 85فیصد فلسطینی (مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس میں رہنے والے عربوں سمیت) مسلمان ہیں ۔   
بین الاقوامی اداروں کے اعدادوشمار کے مطابق 85فیصد فلسطینی (مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس میں رہنے والے عربوں سمیت) مسلمان ہیں ۔   


مسلمانوں میں  بھی اکثریت  شافعی مذہب کی  پیروکار ہے۔فلسطینیوں کی طرف ناصبیت  کا انتساب یہودیوں کی  شیطنت ہے جس کا مقصد اہل  فلسطین کے ساتھ ہمدردی کو ختم کرنا ہے۔  [[اہل بیت |اہل بیت (ع)]] کے نام سے مختلف مساجد کا وجود جیسے  غزہ میں مسجد [[علی ابن ابی طالب|علی بن ابی طالب]] ، رفح، خان یونس اور نابلس، جیسے شہروں میں [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت زہرا (س)]] کے نام سے منسوب مساجد نیز  بچوں کے نام اہل بیت (ع) کے نام پر رکھنا دلیل ہے کہ فلسطینی مسلمان  اہل بیت ؑ سے محبت کرنے والے ہیں۔  
مسلمانوں میں  بھی اکثریت  شافعی مذہب کی  پیروکار ہے۔فلسطینیوں کی طرف ناصبیت  کا انتساب یہودیوں کی  شیطنت ہے جس کا مقصد اہل  فلسطین کے ساتھ ہمدردی کو ختم کرنا ہے۔  [[اہل بیت |اہل بیت (ع)]] کے نام سے مختلف مساجد کا وجود جیسے  غزہ،رفح ،خان یونس اورنابلس میں مسجد [[علی ابن ابی طالب|علی بن ابی طالب]] اور  غزہ ، رفح اور جنین  جیسے شہروں میں [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت زہرا (س)]] کے نام سے منسوب مساجد نیز  بچوں کے نام اہل بیت (ع) کے نام پر رکھنا دلیل ہے کہ فلسطینی مسلمان نہ صرف ناصبی نہیں ہیں بلکہ اہل بیت ؑ سے محبت کرنے والے ہیں۔  
== فلسطین میں شیعہ ==
== فلسطین میں شیعہ ==
فلسطین میں شیعوں کی موجودگی کا پس منظر شام میں جناب  ابوذر غفاری کی موجودگی سے ملتا ہے۔  مقدیسی نے اپنی کتاب "احسن التقاسیم" میں اور ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں نقل کیا ہے کہ ایک  زمانے  میں فلسطین کی اکثریت شیعہ تھی ۔ [[شیعہ]] مذہب فلسطین میں چوتھی صدی میں فاطمیوں کے دور میں پروان چڑھا۔  فاطمیوں کے چھٹے حکمران الحاکم بامر اللہ نے  [[بیت المقدس]] میں فاطمی دارالعلم قائم کیا ۔ اس  دار العلم نے فلسطین میں شیعیت کی نشو  ونماں میں  نمایاں کردار ادا کیا اور یہ فلسطین پر صلیبیوں کے قبضے تک اپنی سرگرمیاں انجام دیتا رہا۔ صلیبی جنگوں اور اس کے بعد  فلسطین اور شامات کے علاقوں  پر  سنی المذھب صلاح الدین ایوبی کے غلبہ کے باوجود فلسطین میں شیعوں کا وجود باقی  رہا اور عثمانی دور میں  فلسطینی شیعہ دوبارہ ابھرے۔  فلسطین میں شیعوں کو سب سے پہلے  صلاح الدین ایوبی نے کچلا۔ عثمانی دور میں شیعوں کی خوشحالی کے بعد احمد پاشا نے تقریباً دس سال تک شیعوں کے خلاف جنگ کی اور ان کی کتابیں جلا دیں۔
فلسطین میں شیعوں کی موجودگی کا پس منظر شام میں جناب  ابوذر غفاری کی موجودگی سے ملتا ہے۔  مقدیسی نے اپنی کتاب "احسن التقاسیم" میں اور ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں نقل کیا ہے کہ ایک  زمانے  میں فلسطین کی اکثریت شیعہ تھی ۔ [[شیعہ]] مذہب فلسطین میں چوتھی صدی میں فاطمیوں کے دور میں پروان چڑھا۔  فاطمیوں کے چھٹے حکمران الحاکم بامر اللہ نے  [[بیت المقدس]] میں فاطمی دارالعلم قائم کیا ۔ اس  دار العلم نے فلسطین میں شیعیت کی نشو  ونماں میں  نمایاں کردار ادا کیا اور یہ فلسطین پر صلیبیوں کے قبضے تک اپنی سرگرمیاں انجام دیتا رہا۔ صلیبی جنگوں اور اس کے بعد  فلسطین اور شامات کے علاقوں  پر  سنی المذھب صلاح الدین ایوبی کے غلبہ کے باوجود فلسطین میں شیعوں کا وجود باقی  رہا اور عثمانی دور میں  فلسطینی شیعہ دوبارہ ابھرے۔  فلسطین میں شیعوں کو سب سے پہلے  صلاح الدین ایوبی نے کچلا۔ عثمانی دور میں شیعوں کی خوشحالی کے بعد احمد پاشا نے تقریباً دس سال تک شیعوں کے خلاف جنگ کی اور ان کی کتابیں جلا دیں۔
confirmed
821

ترامیم