صاحب زادہ فضل کریم

صاحب زادہ فضل کریم محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد قادری کے صاحبزادے اور پاکستان کے ایک مذہبی سیاست دان تھے وہ مرکزی جمعیت علماء پاکستان اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ تھے آپ کے والد گرامی محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد قادری، اہل سنت بڑا عالم دین مولانا محمد احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی کے شجرہء طریقت سے فیض یافتہ تھے۔

سوانح عمری

صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کے والدین مشرقی پنجاب کے شہر گورداس پور سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے دادا جٹ قبیلے کے ایک بڑے زمیندار اور صوفی منش انسان تھے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان آنے والے قافلوں پر حملوں کے دوران ان کے خاندان کے بارہ افراد شہید ہوئے۔ پاکستان میں آکر ان کے والدین نے اس وقت کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی۔ جھنگ بازار میں ان کی رہائش گاہ تھی اور اسی گھر میں1955ء میں صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے فیصل آباد کے جھنگ بازار میں واقع اپنے والد کی گھر آنکھ کھولی ان کے والد گرامی محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد، امام احمد رضا خان بریلوی کے خاص شاگردوں میں شامل تھے۔ چھ بہنوں اور تین بھائیوں میں صاحبزادہ فضل کریم کا نمبر تیسرا تھا۔ ان کے بڑے بھائی صاحبزادہ فضل رسول اپنے والد کے سجادہ نشین ہیں اور دوسرے بڑے بھائی صاحبزادہ فضل احمد بزنس کے ساتھ تبلیغ بھی کیا کرتے تھے، ان کا پہلے ہی انتقال ہوچکا ہے۔

تعلیم

آپ نے دین کی ابتدائی تعلیم شیخ الحدیث مولانا غلام رسول رضوی، مفتی محمد نواب الدین اور مولانا عرفان الحق سے حاصل کی۔ 1987ء میں انہوں نے جامعہ رضویہ فیصل آباد سے دینی تعلیم مکمل کی، ان کی شادی 1977ء میں ہوئی، اس وقت ان کی عمر بائیس سال تھی اور ان کا نکاح مولانا شاہ احمد نورانی نے پڑھایا تھا۔ آپ انہوں نے انیس صد ستاسی میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد سے اسلامک سٹیڈیز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور دینی علوم کے علاوہ 1987ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری بھی حاصل کی اور عملی زندگی کا آغاز ایک کاروباری شخصیت کے طور پر کیا۔

سیاسی سرگرمیاں

انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جمیعت علمائے پاکستان کے اسٹیج سے اس زمانے میں جب یہ جماعت پاکستان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی تھی۔ اکتوبر 1978ء میں ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ہونے والے کل پاکستان تاریخی سنی کانفرنس میں 15 ہزار علماء اور 10 لاکھ عوام کی موجودگی میں صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کو جماعت اہل سنت پاکستان کا مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ وہ 14 برس تک جماعت اہلسنت پاکستان کے سیکرٹری جنرل کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ چار برس عالمی جماعت اہل سنت کے بھی سیکرٹری جنرل رہے۔ اس دوران انہوں نے برطانیہ، فرانس، اٹلی، امریکہ، ہالینڈ، مصر، سعودی عرب، دبئی اور کینیڈا کے تبلیغی دورے کئے۔

انہوں نے جمعیت علماء پاکستان میں مولانا عبدالستار خاں نیازی کے ہمراہ سینئر نائب صدر کی حیثیت سے سیاسی جدوجہد کرتے رہے، آپ 1993ء میں پہلی بار فیصل آباد سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ اس کے بعد 1997ء کا الیکشن لڑ کر دوبارہ رکن صوبائی اسمبلی بنے اور انہیں صوبائی وزیر اوقاف کا قلمدان دیا گیا۔ انہی کی وزارت کے دور میں حضرت داتا گنج بخش کے مزار کی تزئین و آرائش اور توسیع کی گئی۔ بعد میں صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم فیصل آباد کے این اے 82 سے دو بار مسلسل قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2008ء میں سابق وزیراعلٰی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی حکومت میں انہیں متحدہ علماء بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا، لیکن بعد میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ دہشت گردی، سانحہ داتا دربار اور کالعدم تنظیموں کے مسئلے پر اختلافات میں شدت آنے پر صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے متحدہ علماء بورڈ کے عہدے سے استعفٰی دے دیا اور مسلم لیگ (ن) سے اتحاد ختم کرکے اپنے سیاسی راستے جدا کر لئے۔

2009ء میں اہل سنت کی 30 جماعتوں نے متحد ہو کر صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی سربراہی میں سنی اتحاد کونسل قائم کی۔ صاحبزادہ فضل کریم نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے طالبانائزیشن اور مزارات اولیاء پر حملوں کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی دہشت گردی اور پاکستان میں امریکی مداخلت کے خلاف زور دار آواز اٹھائی۔ یکم جولائی 2010ء کو برصغیر کے سب سے بڑے روحانی مرکز دربار حضرت داتا گنج بخش پر بم دھماکے کے خلاف صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی قیادت میں بھرپور تحریک چلائی گئی، 27 اکتوبر 2010ء کو آپ کی قیادت میں مزارات اولیاء پر حملوں اور دہشت گردی کے خلاف دربار بری امام اسلام آباد سے دربار داتا گنج بخش لاہور تک تاریخی لانگ مارچ کیا گیا۔

اپریل 2011ء کو مینار پاکستان گراؤنڈ میں فضل کریم کی زیر صدارت ملک گیر استحکام پاکستان سنی کانفرنس منعقد کی گئی، 14 اکتوبر 2012ء کو صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کی زیر قیادت ناموس رسالت کے تحفظ، ڈرون حملوں، دہشت گردی، مہنگائی کے خلاف کراچی سے راولپنڈی تک ٹرین مارچ کیا گیا ۔ آپ نے حضور نبی کریم (ص) کے گستاخانہ خاکوں اور امریکہ میں تیار ہونے والی گستاخانہ فلم کے خلاف بھی احتجاجی تحریک کی قیادت کی۔ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ پر بھی صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم مسلسل میدان میں رہے، نومبر 2012ء میں جماعت اہل سنت پاکستان کے زیراہتمام گستاخان فلم کے خلاف راولپنڈی سے کراچی تک لبیک یارسول اللہ لانگ مارچ کی قیادت کرنے والوں میں بھی صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم شامل تھے۔ انہوں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفٰی میں بھی بنیادی کردار ادا کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ تحریک ختم نبوت میں بھی صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے تاریخی کردار ادا کیا [1]۔

اتحاد امت کے لیے جد و جہد

صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے بھی سربراہ تھے۔ ان کی زیر نگرانی فیصل آباد میں عظیم دینی درسگاہ جامعہ رضویہ نصف صدی سے دینی علوم کی ترویج واشاعت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کے والد گرامی کے مریدین اور شاگرد پوری دنیا میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے مسلم لیگ (ن) سے سیاسی راستے جدا کرنے کے بعد مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر رکھا تھا اور وہ فیصل آباد حلقہ این اے 82 سے امیدوار بھی تھے، انہوں نے ایک بیوہ، چار بیٹے اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑی ہے، ان کے بڑے بیٹے صاحبزادہ حامد رضا کی عمر 35 برس ہے جو اب اپنے والد کی وفات کے بعد حلقہ این اے 82 سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ ان کے چاروں بیٹے دینی و دنیاوی علوم سے آراستہ ہیں، ان کا بڑا بیٹا اور بیٹی شادی شدہ ہیں جبکہ باقی بیٹے غیر شادی شدہ ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب یہ جماعت مختلف دھڑوں کا شکار ہوئی تو آپ نے اپنی جماعت الگ منظم کی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کر کے چار دفعہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شہباز شریف کے سابقہ دور میں وہ وزیر اوقاف بھی رہے اور انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنا دور نبھایا۔ چند سال قبل جب ملک میں دہشت گردی کی وبا عام ہوئی اور مختلف گروہوں اور تنظیموں نے اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تو صاجب زادہ نے سید حسین الدین شاہ کے ایماء اور ہدایت پر اہل السنّت والجماعت کے دھڑوں کو منظم کرنے کی سعی بلیغ کی اور بالآخر سنی اتحاد کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اہل السنّت والجماعت کے مطالبات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد سے ان کے مخالف ہوئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے آخری دنوں میں مسلم لیگ (ق) سے اپنے روابط بڑھائے [2]۔ انہوں نے خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے ساتھ ساتھ لاہور کے داتا دربار سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، فضل کریم جمیعت علما پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہے، انہوں نے امریکا ،برطانیہ،مصر،شام سمیت بہت سے ملکوں کے دورے بھی کیے۔ صاحبزادہ فضل کریم انیس سو ترانوے سے ستانوے تک پنجاب اسمبلی کے رکن جب کہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ جب کہ انہوں نے دوہزار دو میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کامیابی حاصل کی پھر اسی نشست پر دوہزار آٹھ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ صاحبزادہ فضل کریم کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق موقف بھی واضح رہا،دوہزار تیرہ کے انتخابات کے لیے ن لیگ سے اختلافات کے باعث وہ پیپلزپارٹی اور قاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں تھے۔

وفات

سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اور مذہبی رہنما صاحبزادہ فضل کریم 15 اپریل 2013ء پیر کو فیصل آباد میں انتقال کر گئے۔ وہ جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور 4 اپریل سے فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال میں زیر علاج تھے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کی عمر 59 سال تھی اور وہ ایک اہم مذہبی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہیں جھنگ بازار فیصل آباد میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام کے احاطے میں دفن کیا گیا [3]۔

جانشین

صاحبزادہ فضل کریم کے صاحبزادے حامد رضا ان کے جانشین ہوں گے، ان کے سوگواران میں بیوہ، ایک بیٹی اور 4 بیٹے شامل ہیں۔

  1. رپورٹ: تصور حسین شہزاد، صاحبزادہ فضل کریم کی زندگی پر ایک نظر، islamtimes.org
  2. ادریہ، ماہنامہ ضیائے حرم، ص 10 مئی 2013ء
  3. waqtnews.tv