سید عارف حسین الحسینی

سید عارف حسین الحسینی پاکستان کے مشہور شیعہ عالم، وحدت مسلمین کے علمبردار، تحریک جعفریہ پاکستان کے صدر اور شیعہ قوم کے محبوب قائد تھے۔ آپ نجف اور قم کے حوزات علمیہ میں وہاں کے مشہور فقہاء من جملہ امام خمینی کے شاگردوں میں سے تھے۔ علامہ عارف حسین حسینی پاکستان میں عوام کے مذہبی، ثقافتی اور عبادی ضروریات فراہم کرنے کے علاوہ صحت اور معیشت کے لحاظ سے بھی ان کے مسائل کو حل کرتے تھے۔ وہ 5 اگست سنہ انیس سو اٹھاسی کو پشاور میں اپنے مدرسے میں صبح کی نماز کے بعد نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔

سید عارف حسین الحسینی
سید عارف حسین الحسینی.jpg
پورا نامسید عارف حسین الحسینی
دوسرے نامقائد شہید
ذاتی معلومات
پیدائش1946 ء، 1324 ش، 1364 ق
یوم پیدائش25نومبر
پیدائش کی جگہپارا چنار پاکستان
وفات19988 ء، 19366 ش، 19955 ق
یوم وفات5 اگست
وفات کی جگہپارا چنار
اساتذہ
  • امام خمینی
  • آیت اللہ سید علی خامنہ ای
  • شہید آیت اللہ ہاشمی نژاد
  • شہید آیت اللہ مطہری
  • آیۃ اللہ وحید خراسانی
مذہباسلام، شیعہ
اثراتتحریک نفاذ فقہ جعفریہ
مناصبتحریک جعفریہ پاکستان

ولادت اور نسب

سید عارف حسین بن سید فضل حسین 25 نومبر 1946 عیسوی کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ کے ایک مذہبی، علمی اور سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی گاؤں پیواڑ پاک ۔افغان سرحد پر واقع ہے جس میں "غُنڈی خیل"، "علی زئی" اور "دوپر زئی" نامی قبائل آباد ہیں۔ سید عارف حسینی پختونوں کے طوری قبیلے کی شاخ "دوپرزئی" سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب شاہ شرف بو علی قلندر بن سید فخر ولی تک پہنچتا ہے جن کا نسب شرف الدین بوعلی شاہ قلندر ابن ابوالحسن فخر عالم تک پہنچتا ہے۔ بو علی شاہ کا مدفن ہندوستان کے شہر پانی پت اور فخر عالم کا مدفن پاراچنار کے نواحی گاؤں کڑمان ہے۔ چونکہ ان کا سلسلۂ نسب حسین الاصغر ابن علی بن الحسین(ع) تک پہنچتا ہے، لہٰذا ان کا خاندان "حسینی" کے عنوان سے مشہور ہے [1]۔ ان کے آباء و اجداد ـ جن میں سے متعدد افراد علمائے دین اور مبلغین میں سے تھے ،ـ اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کی غرض سے پیواڑ اور قریبی علاقوں میں سرگرم عمل رہے ہیں۔

حالات زندگی

آپ نے اپنی طفولیت کا زمانہ اپنے آبائی گاؤں میں گذارا جہاں انہوں نے قرآن کریم اور ابتدائی دینی تعلیمات اپنے والد کے حضور مکمل کرلی۔ ان کے والد بھی علماء میں سے تھے۔ بعدازاں انہوں نے اسکول میں داخلہ لیا اور پرائمری اور متوسطہ کے بعد پاراچنار کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ سنہ 1964 میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد علوم آل محمد سے روشناس ہونے کیلئے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں داخلہ لیا۔ جہاں انہوں نے "لقمان خیل" کے گاؤں "یوسف خیل" کے رہنے والے حاجی غلام جعفر سے کسب فیض کا آغاز کیا اور مختصر سے عرصے میں مقدمات (ادبیات عرب) مکمل کر لئے۔ آپ کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ فارسی، عربی اور اردو پر بھی عبور حاصل تھا۔

نجف میں

آپ سنہ 1967 میں نجف اشرف مشرف ہوئے اور نجف اور بعدازاں قم میں عربی ادب کے نامور استاد مدرس افغانی کے ہاں ادبیات عرب کے تکمیلی مراحل طے کئے اور ساتھ ہی مختلف اساتذہ کے ہاں فقہ اور اصول فقہ کے اعلیٰ مدارج طے کئے۔

امام خمینی(رح) سے واقفیت

نجف اشرف میں شہید محراب آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ حضرت امام خمینی (رح) سے متعارف ہوئے ۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی (رح) کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ 1974 ء میں آپ پاکستان واپس آئے، لیکن ان کو واپس عراق جانے نہیں دیا گیا تو قم کی دینی درسگاہ میں حصول علم میں مصروف ہوگئے ۔ قم میں آپ نے شہید آیت اللہ مطہری، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ وحید خراسانی جیسے علمائے اعلام سے کسب فیض کیا۔ آپ علم و تقوی کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ قم میں امام خمینی (رح) کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے چنانچہ قا‏ئد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اور شہید آیت اللہ ہاشمی نژاد کے خطبات و دروس میں بھی شامل ہوتے رہے۔ آپ کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ شاہی خفیہ پولیس ساواک نے گرفتار کیا۔ آپ 1977ء میں پاکستان واپس گئے اور مدرسۂ جعفریہ پاڑہ چنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب 1979 ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو آپ نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کرنے اور امام خمینی (رح) کے انقلابی مشن کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

وطن واپسی اور شادی

وطن واپسی کے بعد تقریبا 10 مہینوں تک پاراچنار میں تبلیغ دین میں مصروف رہے۔ انھوں نے اسی عرصے میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا [2]۔

قم میں حصول علم کا تسلسل

سنہ 1974 عیسوی میں انھوں نے دوبارہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اور نجف جانے کا فیصلہ کیا لیکن حکومت عراق نے انہیں ویزا دینے سے انکار کیا؛ چنانچہ وہ اسی سال قم روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ شہید استاد مرتضی مطہری، آیات عظام مکارم شیرازی، وحید خراسانی، میرزا جواد تبریزی، محسن حرم پناہی اور سید کاظم حائری سے فلسفہ، کلام، فقہ، اصول اور تفسیر جیسے علوم میں کسب فیض کیا [3]۔

ایران سے ملک بدری

قم میں رہائش اور حصول علم کے دوران وہ پہلوی حکومت کے خلاف علماء اور عوام کے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتے تھے لہذا انہیں گرفتار کیا گیا۔ انہیں ایک ضمانت نامے پر دستخط کرنے کیلئے کہا گیا کہ "وہ مظاہروں اور انقلابی قائدین کی تقاریر میں شرکت نہیں کریں گے اور انقلابی راہنماؤں سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے" لیکن انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا چنانچہ جنوری سنہ 1979 عیسوی میں انہیں ایران چھوڑ کر پاکستان واپس جانا پڑا۔

وطن واپسی

وہ سنہ 1979 سے 1974 عیسوی تک مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں تدریس میں مصروف رہے۔ وہ جمعرات کے دن مدرسہ جعفریہ سے پشاور جاکر جامعۂ پشاور میں اخلاق اسلامی کی تدریس کیا کرتے تھے۔

قیادت

ان کا دور قیادت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کی جد و جہد کے دور سے مطابقت رکھتا تھا۔ چنانچہ آپ نے پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے طویل جد و جہد کی۔ اس سے قبل پاکستانی سیاست میں علما کا مؤثر کردار نہیں تھا، لیکن شہید عارف حسینی نے اپنے ملک گیر دوروں ، لانگ مارچ کے پروگراموں، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے دین اور سیاست کے تعلق پر زور دیتے ہوئے (بقول علامہ اقبال؎ ہو سیاست دین سے جدا تو بن جاتی ہے چینگزی) کے مصداق جو زندہ کرتے ہوئے اپنی قوم کو سیاسی اہمیت کا احساس دلایا، اس سلسلے میں لاہور کی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس قابل ذکر ہے۔ آپ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سیاسی و اجتماعی امور میں ہر مسلک و مکتب اور زبان و نسل سے تعلق رکھنے والوں کی شرکت کو ضروری سمجھتے تھے۔ علامہ عارف حسین حسینی نے پاکستان میں امریکی ریشہ دوانیوں کو نقش بر آب کرنے اور قوم کو سامراج کے ناپاک عزائم سے آگاہ کرنے کے لئے بھی موثر کردار ادا کیا۔ علامہ شہید عارف حسین حسینی اتحاد بین المسلمین کے عظیم علمبردار تھے، آپ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے شدید مخالف تھے، اس سلسلے میں آپ نے علمائے اہل سنت کے ساتھ مل کر امت مسلمہ کی صفوں میں وحدت و یک جہتی کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔

اخلاق

آپ کی ہمہ گیر شخصیت آپ کے مکتب میں فیض حاصل کرنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک کامل نمونے کی حیثیت رکھتے تھی، آپ صبر و حلم، زہد و تقوی، ایثار و فداکاری، شجاعت و بہادری اور حسن خلق جیسے اعلی انسانی صفات سے متصف عظیم انسان تھے۔ آپ کی شہادت کی خبر پاکستان بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اسلامیان پاکستان میں صف ماتم بچھ گئی اور عالم اسلام کے گوشے گوشے میں اس بھیانک قتل پر غم و اندوہ کا اظہار کیا گیا۔ شہید عارف سے بچھڑنے کا غم بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) پر بھی گراں گذرا چنانچہ آپ نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہوگیاہوں " واقعا" شہید عارف امام خمینی (رح) کے روحانی فرزند تھے، آپ کو امام امّت سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، شہید عارف نے انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ہی نجف اشرف سے ہی اپنے مجتہد و ولی فقیہ امام انقلاب خمینی بت شکن سے فیض حاصل کی تھی، شہید عارف انہی ایام میں نجف پہنچے تھے، جب امام خمینی (رح) جلاوطن ہوکر عراق پہنچے تھے۔

عالمی سامراج سے مقابلہ

وه نے پاکستان کی مسلْمان ملّت کو امریکی پٹھو و ڈکٹیٹر ضیا کے خلاف متحد و منظم کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کیں اورامریکہ و ضیا مخالف تحریک کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اگست 1983ء میں تحریک کے قائد علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد 1984ء میں پاکستان کے جیّد علما و اکابرین کے ایما پر علامہ شہید عارف حسینی کو ان کی قائدانہ صلاحیتوں، انقلابی جذبوں اور اعلی انسانی صفات کی بناپر تحریک کا نیا قائد منتخب کیا گیا۔ رات کی تاریکیوں میں خداوند عالم سے راز و نیاز اور دن کو اسلام و مسلمین کی خدمت کا جذبہ آپ کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھا، اس سلسلے میں آپ اپنے جد گرامی حضرت علی (ع) کی پیروی کرتے تھے۔ علامہ شہید سید عارف حسین حسینی ایک عظیم قائد، نڈر اور بےباک رہنما، پر خلوص اور جذبۂ خدمت سے سرشار انسان اور باعلم عالم دین تھے، ان کی یاد تاریخ اور اسلام سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔

اتحاد امت اور داعی آزادی فلسطین

مملکت خداداد پاکستان میں اتحاد بین المسلین کے علمبردار اور مظلومین کی حمایت بالخصوص فلسطین و انتفاضہ کی حمایت کے لئے موثر ترین آواز اور ضیا کے بدترین آمریت میں فلسطین و القدس کے لئے رمضان کے آخری جمعے کو القدس ریلیاں نکالنے والے نڈر عالم دین علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن مظلوموں اور فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے شہید آج بھی پاکستانی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ یاد رہے ضیا کی بدترین آمریت میں مظلوموں کے لئے آواز اٹھانا اور ریلی و جلوس نکالنا ناممکنات میں سے تھا اور اس وقت پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں کے اہلکار و قیادت یا تو ضیا آمریت کے ڈر سے روپوش تھے یا بھاگ چکے تھے۔ ایسے میں شہید عارف حسین الحسینی کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت اور اتحاد امت کا ایجنڈا ضیا کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ( یاد رہے ضیا نے بحثیت برگیڈئیر اردن میں تعیناتی کے دوران امریکی سی آئی اے و اسرائیلی موساد کی ایما پر اردن میں مقیم فلسطینی مہاجرین کا بے دریغ قتل عام کیا تھا۔ جس کی رپورٹیں اب تک میڈیا پر آر ہی ہیں)۔ اس لئے ضیا نے پاکستان میں بھی سی آئی اے و اسرائیلی موساد کی ایما پر پانچ اگست سن انیس سو اٹھاسی کو آپ کو شہید کروا دیا۔ لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز اور مظلوم علامہ عارف حسین الحیسنی کے خون کا معجزہ دیکھئے کہ آپ کی شہادت کے صرف بارہ دن بعد بدترین ڈکٹیٹر ضیا اپنے امریکی ساتھیوں سمیت سترہ اگست سن انیس سو اٹھاسی کو بہاولپور کے مقام پر فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئیے۔ اور پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد نے جس طرح ضیا کو بحثیت برگیڈئیر اردن تعینااتی کے دوران فلسطینی مہاجرین کا بیہمانہ قتل عام کروایا اور پھر جب ضیا جرنیل بن گئیے تو اسلام اور خلافت و نام نہاد امیر المیومنین کے عنوان سے پاکستانی قوم پر مسلط کرکے امریکی سی آئی اے کے شروع کردہ روس کے خلاف جہاد میں استعمال کرکے تکفیری سوچ و دہشت گردی کو پروان چڑھایا۔ اسی طرح آج بھی اردن میں امریکی سی آئی اے و اسرائیلی موساد خلافت کے نام پر داعش جیسے دہشت گرد گروہ اور اس کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی کو اسرائیل کے مفادات میں استعمال کرہا ہے۔

ترویج افکار خمینی

آپ نے مستقل شیعہ ڈاکٹرائن کا ذکر فرمایا کہ ہم ہر مظلوم کیساتھ ہیں چاہیے وہ غیر شیعہ ہی کیوں نہ ہوں اور ہر ظالم کیخلاف ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے ہمیشہ اپنے بیان کردہ اصولوں، قواعد، حکمت عملی اور پالیسی کو بیان فرماتے ہوئے، امام خمینی کا حوالہ دیتے ہوئے انکی ذات، افکار اور انقلاب کو پوری امت مسلمہ کیلئے آئیڈیل قرار دیتے۔ جیسا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے فرمایا کہ آپ شہید باقر الصدر کے اس قول کا مصداق تھے کہ امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہو جاو جیسے وہ اسلام میں ضم ہو چکے ہیں، شہید اسی طرح امام خمینی میں ضم ہوچکے تھے، جیسے امام خمینی اسلام میں ضم ہو چکے تھے۔ یہ آپ کی تعلیمات کا نچوڑ ہے کہ یہ عصر، عصر امام خمینی ہے، اگر اسلام سمجھنا چاہتے ہیں تو امام خمینی کی ذات، افکار اور انقلاب کو سمجھے بغیر یہ ممکن نہیں۔

شہید عارف حسین حسینی کی شہادت پہ امام خمینی نے فرمایا کہ میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہو گیا ہوں۔ امام خمینی نے یہ بھی فرمایا کہ شہید حسینی فرزند صادق امام حسین علیہ السلام تھے۔ امام خمینی کا یہ نوحہ بالکل ایسا ہی تھا کہ جیسے میدان کربلا میں حضرت عباسؑ کی شہادت پہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے عزیز بھائی کے بچھڑنے پہ درد بھرے جملے ارشاد فرمائے۔ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی نے شہید عارف حسینی کی پرنور شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ امام خمینی کے عشاق کی ایک کہکشاں تھی، جس میں شہید مطہری، شہید بہشتی، شہید چمران، شہید باقر الصدر اور شہید عارف حسینی جیسے لوگ تھے، استعمار نے ان ستاروں کو ایک ایک کر کے نشانہ بنایا۔ شہید عارف حسینی ایک منفرد عالم دین تھے، اہلبیت علہیم السلام کے عشق سے مغمور اور شہادت کے عاشق تھے۔ انتھک اور دردمند مجاہد اور مبارز تھے۔ ذوق عبادت اور محبت و عشقِ خدا آپ کی ذات کا خاصہ تھا۔ بارگاہ خدا میں خاضع اور سب کیساتھ تواضع آپ کی پہچان تھا۔ اسی لئے جو بھی آپ سے ملتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ جس طرح ذاتی طور پر مومن کی تمام صفات کا مظہر تھے اسی طرح اجتماعی زندگی میں کامیاب لیڈر تھے۔

بصیرت، شجاعت اور اصول پسندی کا مرقع تھے۔ انقلابیت و حرکتیت آپ کا خاصہ تھا۔ سچا پاکستانی ہونے کے ناطے آپ نے اسلام ناب محمدی اور خط ولایت پہ کاربند رہتے ہوئے ملت مظلوم پاکستان کو انسانیت دشمن اور اسلام دشمن سپرپاور امریکہ سے نجات کیلئے زندگی بھر جد و جہد کی۔ فرزند سید الشہداؑء اور نائب امام خمینی، شہید عارف حسینی نے ہمیشہ سرزمین پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل کا بہترین حل پیش کیا، ملکی سلامتی اور قومی وقار کو بحال رکھنے کی راہ دکھائی۔ پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام کا قیام آپ کا آرمان تھا۔ انقلاب اسلامی کے نتیجے میں اسلامی بیداری کے اثرات جس طرح دنیا میں پہنچے، پاکستان میں شہید حسینی کی ذات اور جد و جہد کی برکت سے جو اثرات ملت مظلوم پاکستان نے قبول کیے، سوائے لبنان کی اسرائیل دشمن مقاومت کے دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اسی طرح اس بات کا ہمیشہ اعتراف کیا جائیگا کہ آپ کی جد و جہد میں امامیہ طلبہ نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ آپ نے آئی ایس او کے نوجوانوں کو اپنے بازو اور بال و پر قرار دیا۔ شہید کا وجود ملت مظلوم پاکستان کے جسد میں روح کی مانند تھا اور امامیہ نوجوان اس کے اعضاء و جوارح کی طرح۔

اہلبیتؑ سے والہانہ عشق و محبت اور ایک اسلامی رہنماء کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جوبداہی کے احساس کی بدولت آپ تا دمِ شہادت، پاکستان میں پیروکاران امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔ یہ آپ کی ذات کا اعجاز تھا کہ ملت پاکستان امت کے جہانی وجود سے متصل ہوئی۔ آپ نے سرزمین پاکستان پر شیطان بزرگ امریکہ کو بے نقاب کرتے ہوئے استعمار کا مکروہ چہرہ عیاں کیا، امریکی جیرہ خوار حکمرانوں کو للکارا، مظلوموں کو ڈھارس دی، باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیا۔ عزاداری امام حسین علیہ السلام سے ملنے والی طاقت کے ذریعے یزیدان وقت کیخلاف سینہ سپر ہونیکی راہ سجھائی۔ شہید حسینی ولایت اہلبیتؑ کی بنیاد پہ مومنین سے شدید محبت کرتے تھے، خرافات کو سخت ناپسند فرماتے اور نرمی کیساتھ عوام کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ مومنین کی محافل میں تشریف لے جاتے، سادگی سے شریک ہوتے اور قدردانی کرتے۔ انحرافات اور خرافات سامنے آتے تو لوگوں کے دلوں میں موجود محبت اہلبیتؑ علیہم السلام کی تصدیق کرتے ہوئے، اس نعمت کی عظمت بیان فرماتے اور ساتھ ہی تعلیمات محمد و آل محمد علیہم السلام کے مطابق زندگی گذارنے کی تلقین فرماتے۔

شہادت امام حسین علیہ السلام کا ذکر فرماتے اور انقلاب اسلامی ایران، فلسطین و لبنان، افغانستان میں روس کیخلاف جاری مزاحمت اور کشمیر کے شہداء کا تذکرہ کرتے۔ افریقہ، لاطینی امریکہ سمیت دنیا بھر میں امریکی استعمار کیخلاف جاری آزادی کی تحریکوں کی حمایت کرتے ہوئے شیطان بزرگ امریکہ کیخلاف مظلومین جہاں کے اتحاد کو انسانیت کی نجات کی شرط قرار دیتے۔ شہید حسینی نے پاکستانی شیعہ مسلمان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری تین حیثیتیں ہیں اور تین ذمہ داریاں ہیں، مسلمان، پاکستانی اور شیعہ۔ مسلمان امریکہ سے سخت بیزار ہیں لیکن مسلمان حکمران امریکہ کے پٹھو ہیں، لہٰذا پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک میں اسلامی نظام کے قیام اور امریکی اثر رسوخ کا خاتمہ کرنیکے لیے تمام مسلمانوں کو بیدارکرنا ہماری ذمہ داری ہے، امام خمینی ہمارے قائد اور رہنماء ہیں۔ اسی طرح بطور پاکستانی آپ کی آرزو تھی کہ ہمارے فیصلے واشنگٹن کی بجائے اسلام آباد میں ہوں۔ بطور شیعہ شہید فرماتے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہمارے مقصد میں شامل ہے، لیکن شیعیانِ حیدرؑ کرار کو شامل کیے بغیر کوئی نظام قبول نہیں کریں گے، نہ ہی شیعہ ہونے کے ناطے بنیادی آہینی قوانین کے مطابق اپنے حقوق سے کبھی دستبردار ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح آپ نے مستقل شیعہ ڈاکٹرائن کا ذکر فرمایا کہ ہم ہر مظلوم کیساتھ ہیں چاہیے وہ غیر شیعہ ہی کیوں نہ ہوں اور ہر ظالم کیخلاف ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو۔ شہید قائد نے ہمیشہ اپنے بیان کردہ اصولوں، قواعد، حکمت عملی اور پالیسی کو بیان فرماتے ہوئے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیتے ہوئے انکی ذات، افکار اور انقلاب کو پوری امت مسلمہ کیلئے آئیڈیل قرار دیتے۔ جیسا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے فرمایا کہ شہید عارف حسین حسینی شہید باقر الصدر کے اس قول کا مصداق تھے کہ امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہو جاو جیسے وہ اسلام میں ضم ہو چکے ہیں، شہید حسینی اسی طرح امام خمینی میں ضم ہوچکے تھے، جیسے امام خمینی اسلام میں ضم ہو چکے تھے۔ یہ شہید حسینی کی تعلیمات کا نچوڑ ہے کہ یہ عصر، عصر امام خمینی ہے، اگر اسلام سمجھنا چاہتے ہیں تو امام خمینی کی ذات، افکار اور انقلاب کو سمجھے بغیر یہ ممکن نہیں۔ جس طرح امام خمینی کو حقیقی معنوں میں قائد شہید نے سمجھا اسی طرح شہید عارف حسین حسینی کو بھی سمجھنے والے امام خمینی ہی تھے۔ شہید قائد کی سیرت ملت پاکستان کیلئے نقش راہ اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضامن ہے [4]۔

آپ کے چند فرمودات

1. کیا ہم نے اپنا مقصد متعین کیا کہ ہم کس لیے پیدا کیے گئے ہیں؟ ہم خدا کیلئے پیدا کئے گئے ہیں،سب چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور انسان خدا کے لئے۔

2. اگر آپ دل سے اللہ اکبر کہتے ہیں، تو پھر جب اللہ آپ کے ساتھ ہے تو کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔جب اکبر، اللہ ہے جب وہ بڑا ہے تو جو بھی اس بڑے کے مقابلے میں آئے گاوہ انسان کو چھوٹا اور حقیر نظر آئے گا،پھر ان کی نظر میں امریکہ اور روس و اسرائیل کیوں اتنے بڑے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر کوئی بات ہوجائے تو یہ اپنے لحاف کے نیچے بھی امریکہ کہ خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے۔

3. جس کا ارتباط خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ امریکہ کو ایک چوہے کی مانند سمجھتا ہے جیسے ایک چوہا اپنے سوراخ سے نکل کر آپ کو دھمکی دے تو کیا آپ اس چوہے کی پرواہ کریں گے؟ نہیں !! اس لئے کے آپ چوہے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے لہٰذا وہ لوگ جن کا رابطہ خدا سے ہوتا ہے وہ امریکہ جیسی طاغوتی طاقتوں کو چوہا بھی نہیں سمجھتے۔

4. انبیاءؑ کی تعلیمات کے نتائج اور اثرات ہیں کہ لوگوں کے دلوں پر ایسا اثر کرتی ہیں کہ دنیا کی سب چیزوں کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔

5. حکماء اور فلاسفہ کا اثر لوگوں پر ہو تا ہے لیکن وہ لوگوں کے دلوں پر تسلط پیدا نہیں کر سکتے جبکہ انبیاءؑ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔

6. جن کے پاس معنوی آزادی نہیں وہ اگر اجتماعی آزادی کی باتیں کرتے ہیں تو سوائے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

7. جو چیز ہمارے لئے بہت ضروری ہے وہ مسلمانوں کاآپس کا اتحاد ہے کیونکہ ہمارے دشمن امریکہ اور اسرائیل ہیں جو ہر جگہ مختلف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں کو سرکوب کرنا چاہتے ہیں۔

8. نظام باطل، معاشرہ فاسد اور تربیتی اداروں میں تربیت کا کوئی پروگرام نہیں، اگر کوئی جوان دیندار اور حزب اللّہی نکلے تو یہ واقعی تعریف و ستائش کے لائق ہے۔

9. مکتب اہل بیت ؑمیں ایمان، عقیدہ اور عمل ِصالح لازم و ملزوم ہیں۔

10. ایک اور بیماری جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے وہ ہے رشوت، انسان کا جائز و معمولی سا کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

11. مومن کبھی بھی شکست نہیں کھاتااس کی لغت میں ناکامی کا لفظ نہیں ہے وہ ہمیشہ کامیاب ہے لہٰذا جو بھی مشکل آجائے اگر میدان میں ہے تو کہتا ہے الٰہی تیری رضا میری رضا ہے۔

12. میں(عارف حسین) اپنا گھر بار سب کچھ حتی کہ جان تک قربان کر سکتا ہوں لیکن ناب محمدی اسلام و نظریہ ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا [5]۔

شہید قائد کا سیاسی سفر

آپ کو جو عزت، شرف، فضیلت، حیثیت، اعتماد، عروج۔ مقبولیت اور قبولیت حاصل ہے وہ ابھی تک کسی اور پاکستانی شخصیت کو تا حال میسر نہیں ہے. 1- آپ کو امام خمینی سے براے راست کسب فیض حاصل کرنے کا موقع ملا. آپ اپنی اکثر نمازیں امام خمینی کی اقتدا میں ادا کرتے تھے.

2-شہید کو امام خمینی نے 1973 میں وکالت نامہ مرحمت فرمایا.

3- شہید کو امام خمینی طرف سے پاکستان میں نمائندہ ولی فقیہ کی تقرری میں اولیت حاصل ہے.

4- امام خمینی نے پاکستان میں فقط شہید حسینی کے افکار کو زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے .

5- امام خمینی نے فقط شہید مطہری اور شہید حسینی کا اپنا بیٹا کہہ کر خراج تحسین پیش کیا. یہ چند سطریں لکھ کر واضح کر دیا ہے کہ شہید حسینی کے افکار و حکمت عملی کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے. اب موضوع پر بات کرتے ہیں. گو کہ گمبٹ کے اجلاس تحریک کی مرکزی کونسل نے قرارداد منظور کر کے سیاست میں تحریک کے کردار کا تعین کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود شہید حسینی نے مزید آراء حاصل کرنے کے لیے خصوصی سروے کروایا. اس میں متعدد سوالات پوچھے گئے. ان میں سے بیشتر جواب کو ایک کتابچہ " تحریک کا سیاسی سفر " میں سمو دیا گیا ہے. اس میں اہم جواب علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم کا تھا. انہوں نے لکھا اگر تحریک نے سیاست میں حصہ نہیں لینا تو اسے بند کر دینا چاہئے. 23 مارچ 1987 کو وفاق علماء شیعہ پاکستان کے اجتماع کے موقع پر علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے تجویز پیش کی کہ تحریک، وفاق، آئی ایس او، آئی او اور جمعیت طلباء جعفریہ کی جانب سے مشترکہ اجتماع منعقد ہو اور اس میں سیاسی منشور پیش کیا جاے. شہید نے تجویز کو سراہتے ہوے اسے 9.10 اپریل کو حیدر آباد سندھ میں ہونے والے تحریک کے تیسرے سالانہ کنونشن میں زیر غور لانے کا وعدہ کیا. کنونشن نے اس تجویز کو اس ترمیم کے ساتھ منظور کیا کہ اجتماع فقط تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے پلیٹ فارم سے منعقد کرنا چاہئے. شہید نے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قرآن وسنت کانفرنس کے عنوان سے لاہور میں چھ جولائی 1987 کو منعقد کرنے کا اعلان کر دیا اور منشور کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی. یوں منشور " ہمارا راستہ " تحریر ہوا جسے تحریک کی سپریم کونسل کے اجلاس منعقدہ بھکر میں منظور کیا. یہ منشور 6 جولائی 1987 کو مینار پاکستان کے میدان میں منعقدہ قرآن و سنت کانفرنس میں اعلان کیا. شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی حیات طیبہ میں ہی جنرل ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کر کے نوے دن میں انتخاب کروانے کا اعلان کر دیا تھا. شہید نے اسی حوالے مرکزی کونسل کا اجلاس 8 جولائی 1988ء کو جامعہ اہل بیت اسلام آباد میں طلب کیا تھا جو شہید کا آخری اجلاس ثابت ہوا. اس میں الیکشن حصہ لینے کے لیے حکمت عملی طے کرنے بر بات ہوئی. طویل بحث کے بعد انتخاب میں حصہ لینے اور حکمت عملی طے کرنے کا اختیار شہید کو دے دیا گیا. ( اس اجلاس کا تزکرہ شہید نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں جو پارا چنار میں منعقد ہوئی تھی, کیا تھا. یہ پریس کانفرنس شہید کی سیاسی تقاریر پر مشتمل کتاب، اسلوب سیاست، میں چھپ چکی ہے.) بندہ ناچیز کو اس اجلاس میں شرکت کی سعادت حاصل رہی ہے. شہید نے اس پریس کانفرنس میں الیکشن کے حوالے سے پوچھے گیے سوالات کے جوابات دیے ہیں. وہ درج زیل ہیں. سوال: کیا عام انتخابات کے لیے آپ عوام کو ایک منشور پیش کریں گے ؟ جواب: تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے سال گزشتہ 6 جولائی کو مینار پاکستان پر ایک منشور عوام کو دیا تھا. اس منشور میں نظام کے حوالے سے, اقتصاد کے حوالے سے اور جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں,ان کے حوالے سے ہم نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے. اب مزید دوسرے منشور کی ہمیں ضرورت نہیں ہے. البتہ ہمیں یہ احساس ہوا کہ اس میں کچھ ترامیم کرنی ہیں یا ان میں چیزیں زیادہ کرنی ہیں تو یہ ہم کر سکتے ہیں لیکن منشور جو ہم نے 6 جولائی کو مینار پاکستان پر دیا ہے. اس میں ہم نے ایک منشور کمیٹی بنائی تھی. انہوں نے قرآن وسنت اور مراجع عظام کے فتاویٰ کو مدنظر رکھ کر یہ منشور بنایا ہے. سوال: کیا آپ خود الیکشن میں حصہ لیں گے؟ جواب: اس سلسلے میں ابھی 8 جولائی کو گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد, جامعہ اہل بیت میں مرکزی کونسل کی ایک میٹنگ ہوئی. جس میں تفصیلی گفتگو ہوئی اور یہ ہم نے یہ طے کیا کہ ہم نے انتخابات میں حصہ لینا ہے لیکن ہم نے پہلے بھی ایک سیاسی سیل بنایا تھا جسے آپ الیکشن سیل کہہ سکتے ہیں. اس کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ توسیع دیں اور اس میں کچھ اور افراد بھی لے لیں اور حالات پر کڑی نظر رکھیں. مطالعہ کرتے رہتے رہیں. پھر ہم دیکھیں گے کہ حکومت کیا اعلان کرتی ہے [6]۔

پاکستان میں امام خمینی کے نمائندے

سید عارف حسین حسینی پاکستان میں امور حسبیہ اور وجوہات شرعیہ میں امام خمینی کے نمائندے اور وکیل تھے [7]۔

شہادت

علامہ سید عارف حسین حسینی مورخہ 5 اگست سنہ 1988 عیسوی کو اپنے مدرسے "دارالمعارف الاسلامیہ میں نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔

امام خمینی(رح) کا پیغام

امام خمینی نے شہید کے جنازے میں شرکت کے لئے ایک وفد پاکستان روانہ کیا اور ان کی شہادت کے موقع پر پاکستان کے علماء اور قوم و ملت کے نام ایک مفصل پیغام جاری کیا،[8] اور انہیں اپنا "فرزند عزیز" قرار دیا۔[9] ادھر پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پشاور جاکر شہید کے جنازے میں شرکت کی۔ آیت اللہ جنتی بھی ایک اعلی سطحی ایرانی وفد کی سربراہی میں پشاور پہنچے اور نماز جنازہ کی امامت کی۔ بعدازاں شہید کی میت ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے آبائی شہر منتقل ہوئی اور ان کی تدفین ان کے آبائی گاؤں پیواڑ میں ہوئی [8]۔

حوالہ جات

  1. زندگی نامہ علامہ شہید عارف حسین الحسینى از ولادت تا شہادت، تہیہ كنندہ: مؤسسہ شہید الحسینى، قم: نشر شاہد، 1369ہجری شمسی
  2. رضا خان، سفیر نور، ص44۔
  3. شہید سید عارف حسین الحسینی، maablib.org
  4. تنویر حیدر بلوچ، شہید علامہ عارف حسین الحسینی، islamtimes.org
  5. پانچ اگست علامہ سید عارف حسین الحسینی کی برسی، taghribnews.com
  6. سید نثار علی ترمذی، شہید قائد کا سیاسی سفر
  7. صحیفہ امام ج14 ص506، موضوع: مجوز استفاده از سهم امام (ع) در امور تبلیغات اسلامی در پیشاور پاکستان؛ مخاطب: سید عارف حسین، حسینی
  8. حسین عارف نقوى، تذكرہ علماى امامیہ پاكستان، ترجمہ محمدہاشم، مشہد 1370 ہجری شمسی