سید دلدار علی نقوی (غفران مآب)(1166_1235 ھ) غفران مآب کے لقب سے مشہور، برصغیر کے معروف شیعہ عالم، مجتہد، فقیہ اور متکلم ہیں۔ آپ کا شمار پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں ہوتا ہے اسی لئے آپ کو ہندوستان میں مجدّد الشریعہ کا لقب دیا گیا۔ ہندوستان کے علما میں اخباریوں کے مقابلے میں آپ پیش پیش تھے اور اسی وجہ سے آپ کو برصغیر میں اصولی مکتب کا بانی اور مؤسس بھی سمجھا جاتا ہے۔ دینی علوم کے حصول میں آپ نے عراق اور ایران کا بھی سفر کیا۔ آپ کو برصغیر میں سب سے پہلے نماز جمعہ قائم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مختلف علوم میں آپ کی کئی تالیفات بھی ہیں جن میں منتہی الافکار، مسکن القلوب، حسام الاسلام، دعائم الاسلام، آثارۃ الاحزان و شہاب ثاقب زیادہ اہم تصنیفات ہیں [1]۔

تعارف

سید دلدار علی نقوی (غفران مآب) برصغیر پاک و ہند کے معروف ترین شیعہ عالم دین ، مرجع اور مجتہد اعظم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ غفران مآب آپ کے معروف ترین القاب میں سے ہے نیز آپ کو مجدد الشریعہ کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ آپ نے بارھویں صدی کی آخری چار دہائیوں اور تیرھویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بہاریں دیکھیں۔ پاک و ہند میں مذہب اثنا عشریہ کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے علما میں سے سر فہرست شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کو پاک و ہند میں علم اصول فقہ کے مکتب کا بانی اور بنیاد گزار مانا جاتا ہے۔ دیگر تالیفوں کے ساتھ ساتھ علم اصول فقہ میں بھی اساس الاصول کے نام سے آپ کی تصنیف موجود ہے۔ پاک و ہند میں آپ نے مذہب حقہ کی ترویج کیلئے جہاں دن رات ایک کیا وہاں مذہب کے حقہ کے دفاع میں تالیفیں لکھ کر اس مذہب کو محکم بنیادیں فراہم کیں اور مذہب اثنا عشریہ کی حقانیت کو پاک و ہند میں دوام بخشا یہان تکہ سید دلدار علی سمیت اس دور کے علما کی دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔

اجداد

آپ حضرت امام حسن عسکری کے بیٹے اور حضرت امام زمانہ علیہم السلام کے بھائی جعفر کی اولاد میں سے ہیں جنہیں امامت کے جھوٹے دعوے کی نسبت سے کذاب اور بعد میں توبہ کرنے کی وجہ سے تواب کہا گیا ۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں مذکور ہوا ہے :

سيد دلدار علی بن محمد معين بن عبد الہادی بن إبراہيم بن طالب بن مصطفی بن محمود بن إبراہيم بن جلال الدين بن زكريا بن جعفر بن تاج الدين بن نصير الدين بن عليم الدين بن علم الدين بن شرف الدين بن نجم الدين بن علی بن أبي علي بن أبی يعلی محمد بن أبي طالب حمزة بن محمد بن الطاہر بن جعفر ابن امام علی الہادی ملقب بالنقی بن محمد جواد بن علی رضا بن موسی كاظم بن جعفر الصادق بن محمد باقر بن علی بن حسين بن علی بن أبی طالب ع رضوی نصيرآبادی [2]۔ آپ کے اباؤ اجداد امراء، نواب اور شجاع افراد مانے جاتے تھے ۔ آپ کے اجداد میں سے نجم الدین سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو ایران کے شہر سبزوار سے سپہ سالار مسعود غازی کی مدد کیلئے ہندوستان آئے جنکے توسط سے ادیانگر نامی قلعہ فتح ہوا اور انہوں نے لکھنؤ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر جای عیش نامی جگہ کو اپنا مسکن قرار دیا جو بعد جایس کے نام سے مشہور ہو گئی ۔مسعود غازی سلطان محمود غزنوی کے جرنیلوں میں سے تھا۔ آپ کے اجداد میں سے سید زکریا نے تباک پور یا پتاک پور کو اپنے قبضے میں لیا تو اس کا نام اپنے جد نصیر الدین کے نام کی مناسبت سے نصیر آباد رکھ دیا۔

ولادت

آپ کی تاریخ ولادت کا سن 1166 ھ ق مذکور ہے لیکن تاریخ اور مہینہ مذکور نہیں ہے اگرچہ ورثۃ الانبیاء [3]۔ میں دی گئی تصویر کے مطابق تاریخ ولادت 17 ربیع الثانی 1166ھ ہے [4]۔ آپ کی ولادت کے موقع پر موجود شخص کے بیان کے مطابق آپ جمعہ کے روز پیدا ہوئے اور آپکی ولادت کے موقع پر نور ساطع کا مشاہدہ کیا گیا [5]۔ آپ کا پیدائشی شہر نصیر آباد ہے آپ کی مقام ولادت لکھنؤ سے تین منزل کی مسافت پر جائس اور نصیر آباد واقع ہے [6]۔

تعلیم

اپنے خاندان میں آپ ہی پہلے شخص ہیں جو علم دین کی طرف مائل ہوئے چنانچہ سنڈیلہ ضلع ہردوئی میں آپ نے ملا حیدر علی پھر الہ آباد میں سید غلام حسین اور رائے بریلی میں ملا باب اللہ سے علوم عقلیہ اور نقلیہ کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد آپ نے فیض آباد اور لکھنؤ کا سفر کیا ـ اور وہاں جن علما سے بھی آپ کی ملاقات ہوئی ان سے آپ نے کسب فیض کیاـ

سفرعراق

ہندوستان میں مختلف علما سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اعلیٰ علمی مدارج کی تحصیل کے لیے عراق کا سفر کیا اور کربلا میں جاکر سکونت اختیار کی، وہاں آپ نے آیت اللہ محمد باقر بہبہانی، آیت اللہ سید علی طباطبائی (صاحب کتاب ریاض المسائل) اور آیت اللہ مرزا محمد مہدی شہرستانی کے دروس میں شرکت کی ۔ اس کے بعد آپ نے نجف اشرف کا رخ کیا ،ـ وہاں بھی آپ نے ایک مدت تک قیام کیا اور آیت اللہ سید مہدی بحرالعلوم وغیرہ کے درس میں حصہ لیا ۔ اس کے بعد آپ ایران کے شہر مشہد آ گئے، وہاں بھی آپ نے زیارت کے بعد ایک عرصہ تک قیام کیا اور آیت اللہ سید محمد مہدی بن ہدایۃ اللہ خراسانی کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے آپ کے لیے ایک بہترین اجازہ اجتہاد تحریر کیا۔

ذکاوت وذہانت

علوم عقلیہ سے دلچسپی کا یہ عالَم تھا کہ جہاں بھی کسی مشہورعلم منطق کے عالم کی خبر ملتی اسکے پاس چلے جاتے اور اس سے بحث و مباحثہ کرتے ۔اسی سبب سے مختلف مقامات کا سفر کیا۔

علوم عقلیہ کے متبحر نہایت متعصب اور صوفی المسلک سنی مولوی عبد العلی سے ملاقات کیلئے شاہجہان پور گئے اور وہاں مولوی عبد العلی نے قضیہ شرطیہ کی بحث کے متعلق مولوی حمد اللہ کے بارے میں اعتراض کیا ۔اس اعتراض کا جواب شافی و وافی اسکے دو شاگردوں مولوی صبغۃ اللہ اور دوسرے کا نام یاد نہیں رہا کے سامنے دیا۔ یہ بات ان سالوں کے مدرسہ کے طلاب کے درمیان مشہور تھی۔ دہلی کے شاہجہان آباد کی مسجد جامع میں مولوی حسن بیٹھا تھا۔ مولوی ممدوح نے ملا شیرازی شرح ہدایہ الحکمہ پر تعلیقہ لگایا جس میں اس نے جزو کی ادلہ باطلہ ذکر کیں۔ آپ نے مولوی حسن کے سامنے ان میں سے ایک دلیل پر اعتراض کیا ۔لیکن مولوی حسن اس کا جواب دینے سے قاصر رہا۔ فقہی مسائل کی باریک بینیوں کو درک کرنے کی استعداد یوں تو شروع سے ہی آپ کی ذات میں پائی جاتی تھی ۔جب عراق و ایران زیارات عالیہ سے مشرف ہونے کیلئے گئے تو وہاں آیات عظام کی موجودگی میں ایسے واقعات پیش آئے جس سے آپ کی یہ خصوصیت آیات عظام کیلئے واضح ہو گئی ۔مثلا: ایک روز صاحب ریاض المسائل آیت اللہ سید علی طباطبائی نماز میں رکوع کے اضافے سے بطلان نماز کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ آپ نے سوال کیا یہاں رکوع سے معنی مصدری مراد ہے یا معنی حاصل مصدر مراد ہے ؟حاضرین اس سوال کو نہ سمجھے اور متعجب ہوئے۔ آپ نے اپنے سوال کی دونوں شقوں کی وضاحت کی۔آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی تعریف کی اور معنائے رکوع کی وضاحت فرمائی۔

ایک روز آیت اللہ سید علی طباطبائی نے عورت کے مرد کے برابر ہونے یا مرد کے سامنے موجودگی کی صورت میں نماز کے جائز نہ ہونے کا مسئلہ بیان کیا اور کہا کہ بعض فقہا نے حضرت عائشہ کی حدیث سے نماز کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے کہ جس کا مضمون یہ ہے " حضرت عائشہ حالت حیض میں رسول خدا کے سامنے اس طرح پاؤں پھیلا کر لیٹی ہوئی تھیں کہ رسول اللہ جب سجدے میں تشریف لے جاتے تو پہلے آپؐ ان کے پاؤں اکٹھے کرتے اور پھر سجدہ کرتے"۔سید علی طباطبائی نے کہا "اس حدیث سے نماز کے جائز ہونے پر استدلال کرنے کی کوئی مناسب وجہ موجود نہیں ہے۔ کیونکہ کہاں مصلے کے سامنے عورت کا سونا اور کہاں عورت کا نماز پڑھنا ؟ ہاں اگر حدیث میں حضرت عائشہ کے نماز پڑھنے کا ذکر ہوتا تو اس حدیث سے استدلال کرنا صحیح تھا ۔" آپ نے کہا: ان فقہا کی دلیل جواز ہو سکتا ہے قیاس اولویت ہو چونکہ حالت حیض میں مصلے کے سامنے سونے کی نسبت عورت کا نماز پڑھنا زیادہ اولویت رکھتا ہے ۔ آیت اللہ سید علی طباطبائی نے اس توجیہ کو قبول کیا اور آپ کیلئے تعریفی کلمات بیان کئے۔ مشہد میں آیت اللہ مرزا محمد مہدی اصفہانی کے درس میں یہ مسئلہ پیش آیا کہ جس شخص کے پیٹ کے شکن آپس میں ملے ہوئے ہوں تایسے شخص کو غسل ارتماسی میں چاہئے کہ وہ اس حصے سے جسم کو جدا کرے اور پھر وہاں پانی پہنچائے۔آقای اصفہانی یا کسی دوسرے نے اس مسئلے میں یوں دقت فرمائی کہ جب وہ شخص پیٹ کے شکم کو ہاتھوں سے جدا کرے گا تو اس کی وجہ سے پانی کی حرکت کے درمیان لحظہ کیلئے انفصال زمانی متحقق ہو گا [7]۔ آپ نے کہا:قاعدۂ کلیہ ہے کہ جس طرح انطباق آنی ہوتا ہے اسی طرح انفصال بھی آنی ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو حرکت سے حاصل ہوتی ہے وہ زمانی ہو گی پس جب انفصال بھی حرکت سے ہوگا تو خواہ نخواہ وہ بھی زمانی ہی ہو گا ۔حضرت آیت اللہ سید علی طباطبائی نے آپ کی اس دلیل کو قبول فرمایا۔

اولاد

خدائے ذو الجلال اکرام نے آپ کو پانچ فرزند عطا کئے جن کے اسما درج ذیل ہیں: سلطان العلما آیت اللہ سید محمد معروف رضوان مآب(1199 ھ-1284ھ) سید علی(1200ھ-1259ھ) سید حسن.(1205ھ-1260). سید مہدی۔ آپ کی ندگی میں ہی 23 سال زندگی کر کے فوت ہوئے۔ آیت اللہ سید حسین علیین.(1211ھ-1273ھ))

اساتذہ

برصغیر پاک و ہند آپکے شاگردوں کے بیان کئے گئے احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہندوستان کے فاضل علما سے علوم عقلیہ حاصل کئے جن کے اسما درج ذیل ہیں: سید غلام حسین حسینی دکنی الہ آبادی: آپ کے اساتذہ میں سے ہیں جن سے آپ نے اکثر درسی کتب پڑھیں۔

مولوی حیدر علی سندیلوی: شرح تصدیقات سلّم العلوم معروف بہ حمد اللہ اس کے پاس پڑھی ۔مولوی حیدر علی 1225ھ کے رجب میں فوت ہوا۔

مولوی باب اللہ:کچھ درسی کتابیں مولوی حمد اللہ کے شاگرد مولوی باب اللہ کے پاس پڑھیں۔غلام حسین حسینی دکنی کی وفات کے بعد بریلی آئے اور یہاں باب اللہ کے پاس پڑھا۔ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ہندوستان میں رائج دروس نظامی اور عقلی علوم جن علما سے حاصل کئے وہ اکثر مذہبی لحاظ سے حنفی اور عقیدتی لحاظ سے ماتریدی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ۔

ایران و عراق

پاک و ہند کے مدارس میں رائج درس نظامی کی کتب اور علوم عقلیہ میں ید طولی پیدا کرنے کے بعد عتبات عالیہ کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور وہاں جن اساتذہ سے علم حاصل کیا : آیت اللہ محمد باقر بہبہانی مشہور وحید بہبہانی:شیخ طوسی کی استبصار کا کچھ حصہ اور رسالۂ فوائد حائریہ دور حاضر کے مرجع آیت اللہ باقر محمد بہبہانی کے سامے قرآت کیا اور ان کے درس میں شریک ہوئے۔

آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی: شرح مختصر نافع یعنی شرح کبیر کو آیت اللہ مولانا سید علی طباطبائی سے سنا۔

سید محمد مہدی بن ابی القاسم شہرستانی:کربلا میں ان سے بھی استفادہ کیا۔

آیت اللہ سید محمد بن مرتضی یعنی مہدی طباطبائی:نجف میں مولائے متقیان کی زیارت اور آیت اللہ سید محمد بن مرتضی یعنی مہدی طباطبائی کی مکہ سے واپسی پر نجف میں الوافی اور معالم الاصول کی ان کے سامنے قرآت کی ۔

1194 ھ میں عراق کی زیارتوں کے بعد مشہد زیارت کیلئے آئے۔ سید مہدی بن ہدایت اللہ اصفہانی:مشہد میں ان سے علوم معقول و منقول کا استفادہ کیا۔

شاگردان

  • سید احمد علی محمد آبادی
  • سید محمد بن محمد حامد کنتوری معروف سید محمد قلی
  • مرزا فخر الدین احمد خان مشہور میرزا جعفر
  • سید یاد علی مؤلف تفسیر قرآن در زبان فارسی
  • میر مرتضیٰ مؤلف اسرار الصلات و اوزان شرعیہ
  • مرزا محمد خلیل
  • سید غلام حسن
  • سید محمد باقر واعظ
  • سید شاکر علی
  • سید علی
  • سید نظام الدین حسین (مرحوم)
  • مرزا جواد علی
  • مرا علی شریف خان
  • سید مرتضی
  • مرزا محمد رفیع غافل معروف مرزا مغل
  • سید علی اصغر بن سید بہاؤ الدین
  • حکیم مرزا علی
  • سید حمایت حسین کنتوری معروف میر علی بخش
  • مرزا اسماعیل
  • مرزا محمد علی
  • سید سجاد علی جائسی
  • سید احسنان علی
  • میر کاظم علی
  • مرزا زین الدین احمد خان بہادر معروف مرزا محسن
  • سید اعظم علی
  • علی نقی قزوینی
  • مولوی سید علی نقی
  • آفرین علی خان [8]۔

حضرت غفران مآب اور دین کا احیاء

آپ نے اخباریت اور صوفیت کے خلاف جہاد کیا اور شیعیت کو ان دونوں سے پاک کیا تا کہ گروہ حق میں کوئی حق چھپ نہ پائے اور نہ ہی کوئی باطل داخل ہو پائے۔ بر صغیر میں شرعی عدالت ، جمعہ و جماعت کا قیام اور عزاداری کا فروغ آپ ہی کا کارنامہ تھا ، شیعہ فقہی اور کلامی مکتب کو تقویت پہنچائی ۔ حوزہ علمیہ لکھنؤ کو قائم کیا۔ نہ صرف حوزہ علمیہ لکھنؤ بلکہ حوزہ علمیہ نجف اشرف کو بھی تقویت پہنچائی۔ متعدد اہم موضوعات پر ایسی قلم فرسائی کہ جس کا جواب آج تک ممکن نہ ہو سکا۔

جب آپ نجف سے وطن واپس لوٹے تو شمالی ہند میں سیاسی آشوب کا زمانہ تھا ۔ احمد شاہ ابدالی دہلی کو تاراج کر چکا تھا۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے تعلیماتِ محمدؐ و آلِ محمد ؑ کے خلاف کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم دشمنی بھی بڑھ رہی تھی۔ مرہٹے اور مسلمان راجے برسر پیکار تھے اور انگریز اس سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھا کر بنگال پر قابض ہو چکے تھے۔ ایسے میں اودھ میں شیعہ نواب کی حکومت معاشی اور سیاسی استحکام کا نمونہ تھی جس نے لکھنؤ کو علم و ثقافت کا مرکز بنا دیا تھا۔

علامہ سید دلدار علی نقوی نے لکھنؤ میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی اور مکتبِ اہلبیت ؑ کی ترویج کیلئے کمر بستہ ہو گئے۔ آپ نے عقائدِ حقہ کی وضاحت کیلئے ”عماد الاسلام“ کے عنوان سے ضخیم کتاب تصنیف فرمائی جس میں اشعریوں کے امام فخر الدین الرازی کے کلامی نطریات کا رد کیا۔ اصولِ فقہ پر اپنی کتاب ”اساس الاصول“ میں ملا امین استر آبادی کی ”فوائدِ مدنیہ“ کا رد کیا۔

علم كلام اور دفاع حق كے ساتھ ہی آپ نے دوسری جانب بدعت كا بھی مقابلہ كیا كیوں كی اس دور میں ایك طرف عقاید تشیع پر حملہ تھا تو دوسری طرف صوفیوں نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر مفلوج بنا دیا كہ ایك مجاہد قوم مجاور بن گئ اور دین کے نام پر وسیع جاگیریں ہتھیا کر عوام کے اذہان کو جہلِ مرکب كا شكار كر دیا ۔ وحدت الوجود کے تصور کے مطابق جسمانی لذتوں کو خدا کی تجلی قرار دیا جا رہا تھا اور خانقاہوں میں مختلف قسم کی نشہ آور چیزوں کا استعمال عام تھا۔

ابنِ عربی (متوفیٰ 1240ء) کی فصوص الحکم اور دیگر کتابوں کے علاوہ مولوی رومی اور جامی وغیرہ کی شاعری پڑھائی جاتی۔ معصوم نوجوانوں کو روحانی ریاضت کے نام پر مختلف قسم کی جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی جاتیں۔ علومِ عقلیہ کے نام پر فلوطین (متوفیٰ 270ء) وغیرہ کے خیالات پڑھائے جاتے تھے۔ مغل سلطنت کے قیام سے پہلے ہی برصغیر کے شیعوں کو اسماعیلی صوفیوں اور مریدوں نے تصوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ علامہ سید دلدار علی ؒکے زمانے میں اودھ کے شیعوں میں صوفیوں کو بہت اثر و رسوخ تھا۔

صوفیوں کے کشف و کرامات اور نام نہاد باطنی علوم کے دعوے مشہور تھے اور سیاسی عدم استحکام کے دور میں راجے اپنے اقتدار کی بقا کیلئے ان کی آشیرواد لینا ضروری سمجھتے تھے۔ مختلف درگاہوں کو وسیع جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔ مفلوک الحال عوام وجد و حال اور دھمال کی محفلوں میں شرکت کرتے اور خواص فلسفے اور وحدت الوجود کے تصور میں مست رہتے تھے۔ اس دوڑ میں ہندو جوگی اور بابا بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔

1786ء میں غفران مآب امامِ جمعہ ہوئے تو آپ نے اہلِ تصوف کے عقائد و اعمال کو خطبات کا موضوع بنایا۔ اس وجہ سے صوفی آپ کے دشمن ہو گئے اور اپنے مریدوں کو آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے روکنے لگے۔ جب وہ آپ کے علمی دلائل کا سامنا نہ کر سکے تو سیاسی دباؤ ڈال کر آپ کو روکنے کی کوشش کی۔

تمام تر مخالفتوں کے باوجود آپ کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی اور آپ نے عربی زبان میں اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کے اس علمی جہاد کا ہی اثر تھا کہ ماحول میں واضح تبدیلیاں آنے لگیں اور آپ کی بابرکت زندگی کے انجام تک شیعیانِ حیدر کرار ؑ کی اچھی تعداد نے خانقاہوں سے منہ موڑ لیا۔

الشہاب الثاقب

یہ کتاب فصیح عربی زبان میں لکھی گئی ہے، جو علامہ موصوف کے عربی زبان پر عبور کا اظہار ہے۔ اس کا انتساب وزیراعظم جناب حسن رضا خان کے نام کیا گیا ہے۔

علامہ کا کہنا تھا کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے حاکموں نے تصوف کو مسلمانوں میں اسلئے رواج دیا تاکہ عوام کا معارف الہیٰہ کے حصول کیلئے اہلبیت علیہم السلام کے در پر جانا کم کیا جائے اور اس سلسلے میں ائمہ طاہرین ؑ کا متبادل صوفیوں کو قرار دیا جا سکے۔ وہ اس سلسلے میں خلیفہ مامون عباسی کے دربار میں امام علی رضا ؑ کےمناظرے کی مثال لاتے تھے۔ وہ ائمہ ؑ کی کچھ احادیث بھی نقل کرتے ہیں جن میں صوفیوں کو شیطان کا پیروکار اور اہلبیت ؑ کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

کتاب کے پہلے حصے میں آٹھ ابواب ہیں۔ اس میں صوفیوں، فلسفیوں اور متکلمین کے یہاں وجود کے تصور پر اختلاف کو عقل و منطق کی رو سے پرکھا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ وحدت الوجود کا نظریہ عقل کی میزان پر پورا نہیں اترتا۔ وہ اس حصے میں ملا صدرا کی کتاب شواہد الربوبیہ اور جامی کے خیالات پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ وہ تنزلاتِ وجود کی کیفیات پر جرح کر کے صوفیوں کی ذہنی الجھنوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔

دوسرا حصہ چھ فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں سید حیدر آملی (متوفیٰ 1385ء) کے نظریات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور سید حیدر آملی اور دیگر صوفیوں کی جانب سے قرآنی آیات کی تفسیر بالرائے کو باطل ثابت کیا گیا ہے

تیسرے حصے میں صوفیوں کے کشف و شہود کے دعوے زیرِ بحث ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ ان میں حق اور باطل کی تمیز کرنا دشوار امر ہے۔ نیز یہ چیزیں کوئی علمی حیثیت اور حجیت نہیں رکھتیں۔

صوفیوں کا یہ دعویٰ بھی غلط قرار دیا گیا ہے کہ وہ کشف کے ذریعے احادیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کو سمجھ سکتے ہیں۔

آگے چل کر صوفیوں کی بدعتوں اور ان کے عملی انحرافات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کی طرف سے موسیقی اور رقص و سرود کی محفلوں کے انعقاد کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ وہ صوفیوں کے مختلف فرقوں کا زمانی اعتبار سے ذکر کرتے ہیں اور ان کے سنگین اختلافات کا ذکر کر کے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ان حضرات کو حق کا شہود ہوتا تھا تو ان میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟

چوتھے حصے میں فقہاء پر صوفیوں کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ خاتمے میں آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے واجب ہونے اور اہلِ بدعت سے دوری اختیار کرنے کے اسلامی احکام بیان کرتے ہیں اور دین کے دشمنوں کی پیروی کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ آپ وحدت الوجود اور حلول جیسے نظریات کو ارتداد کا موجب کہتے ہوئے صوفیوں پر لعنت کو جائز قرار دیتے ہیں اور انہیں توبہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

اس کتاب کی خاص بات ملا صدرا کے نظریات پر علامہ محترم کی مضبوط گرفت ہے جن کی ایک کتاب پر انہوں نے حاشیہ بھی لگایا تھا۔ یہ نظری پہلو اس کتاب کو برصغیر میں ردِ صوفیت پر لکھی گئی باقی کتب سے ممتاز کرتا ہے۔

پروفیسر اطہر رضوی کا تبصرہ

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق استاد اور مغلیہ تاریخ کے ماہر پروفیسر سید اطہر عباس رضوی (متوفیٰ 1994ء) لکھتے ہیں:

”مولانا دلدار علی (1753ء – 1820ء) نے صفوی دور کے علمائے شیعہ کے راستے پر چلتے ہوئے تصوف کی شدید مخالفت کی۔ اُن علماء کی طرح وہ بھی اِسے شیعیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے الشہاب الثاقب کے عنوان سے صوفی عقائد کی تردید اور معروف صوفیاء کی مذمت میں ایک تفصیلی کتاب لکھی۔

مولانا وحدت الوجود پر صوفیوں کے دلائل کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر ایک کو رد کرتے ہیں۔ وہ اس بارے میں سید حیدر آملی کے خیالات کو باطل ثابت کرتے ہیں اور شریف جزجانی اور صدرالدین شیرازی (ملا صدرا) کے خیالات کو بھی نادرست قرار دیتے ہیں۔

اس کتاب میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کی بہترین معرفت صرف آئمۂ اہلبیت ؑ کے فرامین میں ملتی ہے۔ ان کے مطابق خدا کی ذات زمان و مکان سے ماوراء ہے، جو خود سے ظاہر ہے اور اس کی ذات کا ظہور دنیاوی اشیاء میں نہیں ہوتا [9]۔

غفران مآب نے شیعوں کو بحیثیت قوم کے الگ شناخت دی

مولانا کلب جواد نقوی نے امام باڑہ غفران مآب کے بانی آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآبؒ کے بارے میں کہا کہ جس عہد میں ہندوستان میں شیعوں کی بحیثیت قوم کے کوئی پہچان نہیں تھی ،اس وقت حضرت غفران مآب نے شیعوں کو بحیثیت قوم کے الگ شناخت دی۔ مجلس کے آغاز میں مولانانے امام باڑہ غفران مآب کے بانی آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآبؒ کے بارے میں بیان کیا ۔انہوں نے کہاکہ جس عہد میں ہندوستان میں شیعوں کی بحیثیت قوم کے کوئی پہچان نہیں تھی ،اس وقت حضرت غفران مآب نے شیعوں کو بحیثیت قوم کے الگ شناخت دی ۔عزداری کے خدوخال متعین کئے ۔نماز جمعہ و جماعت کا قیام کیا ۔مکتب تشیع کے فروغ کے لئے متعدد کتابیں لکھیں ۔ایسےشاگرد تیار کئے جنہوں نے پورے ہندوستان میں مکتب تشیع کی ترویج و تبلیغ کی ۔

مولانا نے کہاکہ حضرت غفران مآب تبلیغ دین میں کبھی کسی حکومت اور بادشاہ سے مرعوب نہیں ہوئے ۔یہی روش ان کے بیٹوں نے برقراررکھی ۔اس کے بعد مولانا نے امام حسینؑ کے مدینے سے سفر کے اسباب اور کوفے کےسیاسی حالات پر تقریر کی۔مجلس کے آخر میں مولانانے سفیر امام حسینؑ حضرت مسلم بن عقیل کی کوفے میں مظلومیت اور عبیداللہ ابن زیاد کے ظلم و ستم کو بیان کیا [10]۔

پاک و ہند کی تشیع کا اہم موڑ

اخباری عالم دین محمد امین استر آبادی کی کتاب الفوائد المدنیہ کے بر صغیر میں آنے اور یہاں دیگر اصولی کتب کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاک و ہند کی شیعیت میں اخباریت رائج تھی لہذا اسی سبب سے آپ بھی ابتدائی طور پر اخباری تھے اور ایران و عراق کی زیارات پر جانے سے پہلے تک اس مسلک کے عقائد و نظریات پر کار بند رہے ۔

بصرہ سے نجف جاتے ہوئے راستے میں ایک عرب سے ملاقات ہوئی ۔اسکے ساتھ اخبار و اصول کے موضوع پر بات ہوئی تو آپ اخباریت اور عرب مکتب اصول کی نمایندگی کرتا رہا یہانتک کہ اس نے نجف میں آیت اللہ جعفر کاشف الغطا کو اس کی خبر دی۔ غفران مآب نجف میں آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملے تو ہند میں اخباریت کے رواج کے سبب کی بات کی ۔انہوں نے وہان کی اخباریت کے رواج کا سبب امامیہ مکتب کی علم اصول کی کتب سے اطلاع نہ رکھنا بیان کیا اور فوائد مدنیہ کے رد میں نور الدین عاملی کی کتاب الشواہد المکیہ مطالعے کیلئے سید دلدار علی کو دی۔اسکے مطالعے سے بھی تشفی نہ ہوئی۔

آیت اللہ جعفر کاشف الغطا سے ملاقات کے دوران حجیت خبر واحد کے متعلق بات ہوئی لیکن پھر بھی مطمئن نہ ہوئے۔ دوبارہ آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملاقات کے دوران کہا کہ اصولیوں کے پاس اس بات پر کیا دلیل کہ تمام علما اگر کسی مسئلے میں باطل پر اجماع کر لیں تو کیوں امام زمانہ پر واجب ہے کہ حق کو ظاہر کریں؟آیت اللہ سید محسن بغدادی نے کہا ان کے پاس معصوم کی حدیث ہے جس کی بنا پر وہ قائل ہیں۔ یہ سن کر خاموشی اختیار کی۔ کربلا پہنچ کر خود اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا ارادہ کیا اور دونوں مکتبوں کا مطالعہ شروع کیا جس میں امین استرآبادی کی بعض خطاؤں پر متوجہ ہوئے۔آہستہ آہستہ حقائق جاننے کے بعد اصولیوں کے متعلق موجود دغدغہ ختم ہوا او اصولی مسلک کی حقانیت کو جان گئے ۔ لکھنؤ واپسی پر سب سے پہلے اساس الاصول کے نام سے فوائد مدنیہ کا ایسا استدلالی جواب لکھا کہ بہت عرصے تک کسی اخباری میں اس کا جواب لکھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔اساس الاصول نے ہند میں رواج پیدا کیا اور مدارس میں اسے پڑھایا جانے لگا۔اس طرح لکھنؤ اور اس کے گردو نواح میں اخباریت کا خاتمہ ہوا اور اصولی مکتب یہاں رائج ہوا ۔

دور دور تک آپ کی شہرت ہوئی تو مرزا محمد اکبر آبادی (ہندی) اخباری(1233ہ) نے اساس الاصول پر معاول العقول لقطع اساس الاصول کے نام سے بہت ہی سخت لہجے میں حاشیہ لگایا جسے قلع الاساس (12)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،کو لکھنؤ بھیجا۔آپ کے شاگردوں نے مطارق الحق و الیقین لکسر معاول الشیاطین کے نام سے اس کا جواب لکھا ۔


آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے [11]۔

حضرت غفران مآب، ایک عہد ایک تاریخ

حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے، ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا۔

لکھنؤ آکر علمائے فرنگی محل کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ۔یہ وہ عہد تھاکہ جب شیعہ و سنّی ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے ۔ شیعوں کا اپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا ۔ حضرت غفران مآبؒ سے پہلے جو مدرسے ہندوستان میںسر گرم تھے ان میں اہل سنت و الجماعت علما تدریس فرماتے تھے۔ بعض شیعہ علما نے حالت تقیہ میں ان مدارس میں تدریس کی لیکن شیعوں کااپنا الگ کوئی مدرسہ نہیں تھا جہاں ان کی فقہ پڑھائی جاتی ہو۔اکثر شیعہ علماء اپنے گھروں پریا بادشاہوں کے محلوں اور رئیسوں کی ڈیوڑھیوں میں پڑھایا کرتے تھے ۔

دکن میں میر فتح اللہ شیرازی جیساعظیم عالم اور سائنس داں علی عادل شاہ کا اتالیق مقرر کیا گیا ،جن کی تعلیم و تربیت نے دکن میں انقلاب برپا کیا۔اسی طرح شیخ مبارک کا مدرسہ عہد اکبری میں خاصا گرم رہا ۔اس مدرسے کے پروردہ شیخ فیضی اور ابوالفضل جیسے دانشور تھے ۔اس کے بعد شیخ فیضی اور ابوالفضل نے امراء و روساء کے بچوں کی تربیت کی ،جس کے شواہد اس عہد کی تاریخ میں جابہ جا موجود ہیں ۔یہ تمام لوگ اپنے عہد میں تقیہ میں تھے اور برملا اپنے عقائد کا اظہار نہیں کرتے تھے۔اس بناپر یہ دعویٰ درست ہےکہ حضرت غفران مآب سے پہلے کسی شیعہ مدرسے کی بنیاد نہیں رکھی گئی ۔ ایسا مدرسہ جس میں معارف آل محمد کی تعلیم دی جاتی ہو۔ان سے پہلے درسی کتب میں بھی عمومیت تھی لہذا انہوں نے امامیہ عقاید و تعلیمات پر مبنی اپنا الگ نصاب ترتیب دیا ۔

آپ کے تبحر علمی اور مروجہ علوم میں ان کی مہارت پر اس وقت کے مشہورعالم اور فلسفی مولانا عبدالحیٔ فرنگی محلی نے کہا تھاکہ ’’ جب میں جناب غفران مآب کے حاشیہ صدرا کو دیکھتا ہوں تو متاخرین فلاسفہ پر ان کو ترجیح دیتاہوں‘‘۔(معراج العقول۔سید مرتضیٰ فلسفی ) ان کا یہ مقولہ آپ کے عراق اور ایران جانے سے پہلے کاہے ،اس تناظر میں حضرت غفران مآب کی علمی و فلسفیانہ لیاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

تبلیغ

تکمیل علم کےبعد انہوں نے نہ صرف لکھنؤ کو اپنا تعلمی و تبلیغی مرکز قرار دیا بلکہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کا سفر بھی کیا ۔ترویج شیعیت کے لئے یہ اسفار نہایت اہم تھے ۔ سفر کے دوران انہوں نے مختلف اخباری اور سنّی علماء سے مناظرے و مباحثے کئے ۔ ہندوستان میں اس وقت اخباریت اپنے عروج پر تھی ،جس کا آپ نے قلع قمع کیا ۔اسی طرح تصوف کے خلاف بھی علمی و فکری محاذ آرائی کی ۔اخباریت اور تصوف کے رواج کی بنیاد پر شیعیت کی اپنی الگ کوئی شناخت نہیں تھی ۔بلکہ یوں کہاجائے کہ شیعیت صوفیت کے لبادے میں لپٹی ہوئی تھی ۔عزاداری اور دیگر عقاید و احکامات تصوف کے سلسلے کے زیر اثر انجام پذیر ہوتے تھے ۔لکھنؤ تو خاص کر تصوف کا مرکز تھا ۔بلاتفریق نذرونیاز میں شیخ سدّو کا بکرا،احمد کبیر کی گائے،شیخ فرید کی شیرینی،اور اس طرح کی رسومات عام تھیں۔انہوں نےان کی جگہ عمل گوسفند،حضرت عباس کی حاضری،علم و تعزیے بنام شہدائے کربلا جاری کروائے ۔نماز جمعہ اور جماعت کو اخباریت کے زیر اثر حرام تصور کرلیاگیاتھا ۔

یہ دور نہایت کشمکش اور فکری تذبذب کاتھا جس میں آپ نے امامیہ عقائد کی تبلیغ و ترویج کا بیڑا اٹھایا ۔نوابین اودھ بھی تصوف کے مشرب پر عمل پیراتھے ۔شیعی عقائداور معارف اہلبیتؑ کی تدریس و تبلیغ کے لئے کوئی علمی مرکز موجود نہیں تھا ۔اس لئے حضرت غفران مآب نے نوابین اودھ سے بھی رابطہ قائم کیا ۔نواب آصف الدولہ اور نواب حسن رضاخاں جیسے افراد نے انہیں تبلیغ کی آزادی فراہم کی ۔

اس وقت عیدین اور جمعہ کی نمازیں اہل سنت پڑھاتے تھے ۔شیعوں کی بحیثیت قوم کوئی پہچان نہیں تھی ۔سنّی مفتی اور قاضی نکاح ،طلاق ،تجہیز و تکفین اور دیگر اہم امور سنّی طریقے پر انجام دیتے تھے ۔شیعوں میں پیری مریدی ،عرس ،قوالی اور صوفیانی نیرنگیاں عام تھیں ۔اپنے مسلکی امتیازات سےبے خبر دوسروں کے مسلکی امتیازات پر عمل ہورہا تھا ۔تعزیہ داری عام تھی لیکن اس میں بھی اصلاح کی گنجائش تھی ۔اس وقت آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ شیعی عقائد کی تعلیم و تدریس کے لئے مدرسےکی بنیاد رکھی ۔ابتدا میں انہوں نے خود اس مدرسے میں درس دیا ۔رفتہ رفتہ شاگردوں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی جس میں ان کے بیٹے سیدالعلما سید حسین اور سلطان العلماء سید محمد جیسے زبردست علماء شامل تھے ۔ آپ کو ہندوستان میں تبلیغ کے لئے شاگردوں کی فوج کی ضرورت تھی ،اس لئے انہوں نے اپنی زیادہ تر توجہ شاگرد سازی پر مرکوز کی ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ۱۲۰۰ ھ کے بعد جتنے علماء نظر آتے ہیں وہ بلاواسطہ یا بالواسطہ حضرت غفران مآبؒ کے شاگرد ہوتے ہیں ۔

نواب حسن رضا خاں ایک خدا ترس اور دین دار آدمی تھے ۔انہوں نے حضرت غفران مآب کو تبلیغ دین میں سہولیتں فراہم کیں اور نوابین اودھ کے مزاج کو بھی آپ کے لئے سازگار بنایا۔

شیعہ قومیت کی تشکیل

اس وقت ہندوستان میں شیعوں کی بحیثیت قوم کے کوئی پہچان نہیں تھی ۔کوئی علمی و تبلیغی مرکز قائم نہیں تھا ۔اس لئے آپ نے مدرسہ کی بنیاد رکھی جہاں معارف اہلبیتؑ کی تدریس و تبلیغ شروع ہوئی ۔ساتھ شیعوں کے لئے الگ قبرستان قائم کیا جس کے بعد متعدد الگ قبرستان شیعوں کے لئے وقف کئے گئے ۔یہی وہ عہد تھاکہ جب نواب حسن رضاخاں کی مدد سے حضرت غفران مآب نے شیعوں کی نماز جماعت قائم کی ۔

۱۳ رجب المرجب ۱۲۰۰ھ کو نواب حسن رضا خاں کی کوٹھی میں نماز جماعت شروع ہوئی ،جس میں مع نواب صاحب کے چند افراد موجود تھے ۔اس کے بعد ۲۷ رجب کو جمعہ کی نماز بھی شروع کردی اور اس کی ترویج کے لئے نہایت جدوجہد کی ۔اخباریت کی رد کے ساتھ نماز جمعہ کے وجوب پر رسالہ تحریر کیا تاکہ فتنوں کی سرکوبی کردی جائے۔رفتہ رفتہ نماز جمعہ میں لوگوں کا ہجوم امڈنے لگا۔اس وقت آپ نے موعظہ کی ابتداکی ۔ان موعظوں کا یہ اثرہواکہ نوابوں کے ساتھ ساتھ بہتوں نے غیر شرعی حرکات سے اجتناب شروع کیا ۔خاص طورپر لکھنؤ میں افیون اور دیگر نشے عام تھے ۔حضرت غفران مآبؒ کی تحریک کے بعد نشے کی لت پر روک لگی ۔اس کے باوجود بعض افیونی رہ رہ کے نشے کے جوازپر اصرارکرتے رہے ۔طرح طرح کے بہانے تراشے گئے لیکن حضرت غفران مآب ،ان کے بیٹوں اور شاگردوں نے کبھی نشے کی حلیت کا حکم نہیں دیا ۔ اور نہ مصلحت کا شکار ہوکر اُمراءاور رئیسوں سے مرعوب ہوئے ۔علامہ کنتوری کے بقول:’’انہوں نے بھنگ نوشی کے چبوتروں پر سجّادے بچھوادیے ‘‘۔

اس تحریک کا نتیجہ یہ ہواکہ نوابین اودھ شریعت کےاس قدر پابند ہوئے کہ سلطان العلماء سید محمد کے عہد میں نواب امجد علی شاہ نے اپنا تاج ان کے قدموں پر رکھ دیا ۔حکومت اودھ ایک فقیہ کے سپرد کردی گئی جس کا قلق آج تک مورخین کوہے ۔سلطان العلما کی عدالت تاریخ میں الگ شہرت رکھتی ہے ۔اس قدر منصفانہ رویہ اختیارکیاکہ کئی بار بادشاہ کو بھی تاوان بھگتنے کے لئے عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔(حیات رضوان مآبؒ ص ۳۹۔م)اسی بناپر بعض متعصب مورخ امجد علی شاہ کو اودھ کا کمزورترین بادشاہ قراردیتے ہیں کیونکہ وہ نہایت متشرع تھے ۔ان کے نزدیک وہ بادشاہ حکومت کا اہل ہے جو شریعت کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ظلم و جبر،ناانصافی ،شراب و شباب اور انسانی زندگی میں مداخلت کی کھلی اجازت دیدے ۔ آپ نے اپنی حیات میں مختلف علمی،فکری اور سماجی محاذوں پر جنگ لڑی ۔اودھ کے متصوفانہ معاشرے میں انقلاب برپا کیا ۔شریعت کو حکومتی اداروں میں رواج دیا ۔علوی نظام حکومت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جس کے لئے سلطان العلماسید محمد نے بھی تگ و دو کی ،لیکن انگریزی حکومت کے بڑھتے ہوئے عمل دخل نے اس تحریک کو بہت کامیاب نہیں ہونے دیا۔علامہ مفتی محمد قلیؒ کی کتاب’احکام عدالت علویہ‘ کا مطالعہ یہ ظاہر کرتاہے کہ کس طرح اس عہد میں علماء نے علوی نظام حکومت کو رائج کرنے کی سعی کی ۔اودھ میں جس قدر علمی و ادبی سرگرمیاں نظر آتی ہیں اس کا سہرا علماکے سربندھتاہے ۔ورنہ ۱۲۰۰ھ سے پہلے اودھ میں مرثیہ نگاری اور عزاداری کی کوئی قابل ذکر تاریخ نہیں ہے ۔

بہر کیف!آج حضرت غفران مآبؒ کے عہد اور اس کے دائرۂ اثر پر تحقیق کی ضرورت ہے ۔ایک مدت تک ہماری تحقیقی و تالیفی کتب میں منابع کے طورپر حضرت غفران مآب اور ان کے بعد کے علما کی کتابوں کا ذکر ہوتاتھا ،لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ سمٹ گیا ۔آج عالم یہ ہے کہ ہمارے بیشتر علمااور محققین اپنی میراث سے بے خبر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے علمی و تحقیقی امتیازات کو پیش کرنے کے بجائے احساس کمتری یا شرمندگی کا شکار ہیں ۔

ہمارے علمانے علم کلام ،فلسفہ اور دیگر علوم میں بے پناہ آثار پس انداز کئے ہیں ۔ان آثار کے احیاکے لئے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اودھ میں موجود علمی و ادبی میراث دیگر خطوں سے زیادہ اور انفرادیت و امتیاز کی حامل ہے ،اس لئے اودھ کو فراموش کرنا گویا اپنی تاریخ کو فراموشی کے ملبے میں دفنادیناہے [12]۔

سید دلدار علی کا زمانہ

آیت اللہ سید دلدار علی کی دینی خدمات کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اس صورت میں لگایا جا سکتا ہے جب ہم اس زمانے کے حالات سے کسی حد تک واقف ہوں ۔اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے آئینۂ حق نما میں مذکور ہے:

اس زمانے میں پاک و ہند کے مسلمان عمدتا تین اصناف پر مشتمل تھے:- پہلی صنف:اہل تصوف کی تھی کہ جن کی بہت بڑی تعداد مذہب حنفی سے وابستہ تھی اور اس طائفے میں تو شیعہ حضرات برای نام ہی تھے ۔یہ لوگ نظریہ وحدت الوجود کے قائلین اور کشف و کرامات کے مدعی تھے۔

دوسری صنف:اہل سنت حضرات میں سے حنفی المذہب کی تھی جو شروع سے ہی حاکمان وقت کی وجہ سے تعداد کے لحاظ سے ہمیشہ اکثریت میں رہے ۔اس دور میں شیعہ حضرات کا اپنے مذہب سے دوری کا یہ عالَم تھا کہ وہ اپنی اکثر مذہبی عبادات صوم و صلات وغیرہ اور معاملات مثلا نکاح و طلاق وغیرہ حنفی تعلیمات کے مطابق انجام دیتے اور یہ صورتحال 1231ھ ق تک باقی رہی ۔

تیسری صنف:آیت اللہ سید دلدار علی کے اصولی مسلک اختیار کرنے سے پہلے برصغیر میں تشیع کی عمومی فضا پر اخباریت کی فضا قائم تھی ۔ آئینۂ حق نما کے بقول 1231ھ میں خاندان صفدری کی بدولت یہاں کے لوگ مذہب جعفریہ پر پابند ہیں اور پھر آیت اللہ سید دلدار علی کی عماد الاسلام، صوارم الہیات،ذوالفقار وغیرہ تالیفات کی بدولت اس خطے میں اکثر شیعیان مذہب حنفیہ کی عدم حقانیت سے آگاہ ہو چکے تھے اور لکھنؤ اور فیض آباد جیسے شہر ایران و خراسان کی مانند قابل رشک تھے۔ لوگوں میں مذہب تشیع کے رسوخ کا سبب حقیقت میں آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی علمی اور تبلیغی خدمات ہیں۔

دینی خدمات

آیت اللہ سید دلدار علی نے زیارات سے واپسی پر تبلیغ دین کا کام درس و تدریس اور مؤمنین کو درس تبلیغ کی صورت میں شروع کیا ۔مؤمنین کی تبلیغ کا کام ابتدا میں ہر ہفتہ ایام کی مانسبت سے تبلیغ دین کے فرائض انجام دیتے اور پھر نماز جمعہ کے شروع ہونے کے بعد یہ تبلیغ دین مستقل طور پر شروع ہوئی۔آپ ہر نماز جمعہ کے بعد تبلیغ دین کرتے جس میں مذہب صوفیت کی بدعات کی قباحتیں اور دوسرے مسائل بیان کئے جاتے ۔ اس تبلیغ کی برکات سے صوفیت کی صوت و غنا کی محفلوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ۔یہ تبلیغی تقاریر اکثر اپنی کتاب مواعظہ حسنیہ سے مزین ہوتیں ۔اس دور کے علما کہ جن میں آپ بھی شامل ہیں، کی دینی خدمات اور مذہب اہل بیت کی ترویجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تحفۂ اثنا عشریہ کے مقدمے میں تحفہ کے سبب تالیف بیان کرتے ہوئے مولوی عبد العزیز نے کہا: ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اثنا عشریہ کا غلغلہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بمشکل کوئی ایسا گھر ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی یہ مذہب اختیار نہ کر چکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو [13]۔

نماز جمعہ کا قیام

عتبات عالیہ کی زیارات سے واپسی پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کی(ایک روایت کے مطابق آپ لکھنؤ سے ہی زیارات کیلئے گئے تھے) ۔ یہاں طلبہ اور مؤمنین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے نیز اصولی اور فروعی مسائل کے متعلق نوشتہ جات بھی لکھنے شروع کئے جس میں اساس الاصول اور دیگر تالیفات شامل تھیں۔ اسی دوران اہالیان لکھنؤ نے مذہب اہل بیتؑ کی ترویج کیلئے آپ کی تحریری کاوشوں کی نشر و اشاعت کا ارادہ کیا اور آپ سے اس شہر میں نماز جمعہ کے اقامہ کی درخواست کی۔ جسے آپ نے اصرار کے بعد قبول کیا ۔اس سے پہلے آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو آئمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے ۔اس کار خیر کے موجب نواب شجاع الدولہ کے فرزند نواب آصف الدولہ،نواب مرزا حسن رضا خان،ملا محمد علی فیض آبادی اور علی اکبر صوفی بنے۔1200 ھ ق کے ماہ رجب کی تیرھویں تاریخ کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت ظہرین پڑھی گئی اور رجب کی ستائیسویں(27) تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی کی اقتدا میں پڑھی گئی۔

علمی آثار

یوں تو آپ نے شروع سے ہی تحریری کی صورت میں مذہب اہل بیت کی تبلیغ اور دفاع کا کا کام شروع کر دیا تھا لیکن زیارات سے واپسی کے بعد آپکی تالیفات کی تعداد میں قابل توجہ اضافہ ہوا۔ آپ کی تحریر خدمات میں درج ذیل کتابوں کے نام مذکور ہیں :

  • مواعظہ حسنیہ:یہ کتاب اخلاقیات پر مشتمل فارسی زبان میں لکھی گئی ہے ۔
  • شہاب ثاقب: یہ کتاب مذہب صوفیت کے باطل نظریات خاص طور پر نظریۂ وحدت الوجود کے رد میں دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے مرتب ہے ۔
  • منتہی الافکار (علم اصول فقہ)
  • حاشیہ ملا حمد اللہ شرح سلم العلوم۔
  • اجازۂ مبسوطہ بہ حق سلطان العلماء۔
  • حاشیہ شرح ہدایۃ الحکمہ ملا صدر الدین شیرازی۔
  • اساس الاصول: یہ کتاب زیارات سے واپسی کے بعد جب اصولی مکتب اختیار کیا تو اسے تحریر کیا جس میں شرعی ادلہ اربعہ پر عقلی اور شرعی دلائل کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے نیز اس کتاب میں محمد امین استر آبادی کے بہت سے نظریات کا رد مذکور ہے ۔ یہ کتاب بہت سے نئے مطالب پر مشتمل ہے ۔
  • الوصیحۃ و النصیحۃ (وصیت نامۂ غفران ماب):آیت اللہ سید دلدار علی نقوی نے اپنے بیٹے آیت اللہ سید محمد معروف رضوان مآب کو وصیتنامہ لکھا جو حقیقت میں ایک اخلاقی موعظہ حسنہ ہے۔
  • شرح حدیقۃ المتقین (شرح باب الصوم اور باب الزکات)۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں مذکورہ ابواب کے علاوہ کچھ حصہ کتاب الطہارہ کا بھی شامل ہے۔
  • مرآۃ العقول معروف بنام عماد الاسلام: یہ کتاب فخر الدین رازی کی کتاب نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول کا جواب ہے جسے رازی نے اشاعرہ عقیدے کے دفاع میں تصنیف کیا۔آیت اللہ سید دلدار علی نے اس کتاب کو 5 جلدوں:توحید ،عدل، نبوت، امامت، قیامت، میں مرتب کیا ۔ اسکے تمام باطلہ نظریات کو عقلی اور قرآن و سنت کی ادلہ کے ساتھ رد کیا ہے ۔اس کتاب کے متعلق خود لکھتے ہیں یہ کتاب علوم کثیرہ،تحقیقات انیقہ،مباحث دقیقہ پر مشتمل ہے۔اس کتاب کو بعض سادات کے ہاتھوں مولوی عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا اگرچہ وہ ایک مدت تک زندہ رہا لیکن اس نے اپنے مذہب کے دفاع میں کچھ نہیں لکھا ۔
  • صوارم الالہیات فی قطع شبہات عابدی العزی و اللات معروف صوارم الٰہیات: یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے باب توحید کے جواب میں میں لکھی گئی ہے۔اس کتاب کو لکھنے کے بعد آیت اللہ دلدار علی نے بعض معظم سادات کے توسط سے عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا لیکن کتابیں حاصل کرنے کے بعد زندہ رہنے کے باوجود اپنے مذہب کے دفاع میں لکھنے سے عاجز رہا۔
  • حسام الاسلام: یہ کتاب مولوی عبد العزیز دہلوی کی تحفۂ اثنا عشریہ کے باب نبوت کا جواب ہے ۔صوارم اور حسام الاسلام 1218 ھ میں یہ 500 کی تعداد میں لکھنؤ سے چھپی۔یہ کتاب بھی اسے پہنچائی گئی لیکن اس نے جواب نہیں دیا ۔
  • خاتمۂ صوارم: یہ کتاب مولوی عبد العزیز کی کتاب کی بحث امامت کا جواب ہے لیکن یہ صوارم کے ساتھ چاپ نہیں ہوا ۔
  • کتاب احیاء السنۃ: یہ کتاب بھی مولوی عبد العزیز دہلوی کی کتاب تحفہ کے باب معاد اور اس کے متعلقات کا جواب ہے ۔
  • ذوالفقار: یہ کتاب تولا اور تبرا کے موضوع کے متعلق لکھی گئی جو تحفۂ اثنا عشریہ کے بارھویں باب کا جواب ہے ۔1218 ھ سے 5یا 6 سال پہلے لکھی اور اسے عماد الاسلام کے ہمراہ مولوی عبد العزیز دہلوی کے پاس بھیجا۔
  • رسالۂ غیبت: مولوی بعد العزیز دہلوی کے امام زمانہ کی نسبت اعتراضات کا جواب ہے ۔
  • رسالۂ جمعہ: اس رسالے کو نماز جمعہ کے اقامے سے پہلے تحریر کیا اور اس میں غیبت امام زمانہ میں نماز جمعہ کی جماعت کے قیام کو ادلہ واضحہ کے ساتھ بیان کیا ۔
  • مولوی صوفی محمد سمیع کے جواب میں صوفیت کے رد میں رسالہ تحریر کیا۔
  • مسکن القلوب: انبیائے کرام ، آئمہ معصومین علیہم السلام اور بعض علمائے حقہ کی مشکلات کے متعلق 1231 ھ کے ماہ ذی الحجہ کے آخر میں اپنے فرزند سید مہدی کی وفات کے بعد میں لکھا ۔
  • رسالۂ ارضین: اس نام سے معروف ہندوستان میں ہندؤں اور دیگران کے ساتھ املاک و دیگر معاملات کے مسائل کے متعلق رسالہ لکھا ۔ یہ رسالہ رسائل ارضیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا سن تحریر 1264 ھ ہے۔
  • رسالۂ ذہبیہ: اس میں سونے اور چاندی کے برتنوں سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں۔
  • اثارۃ الاحزان در احوال شہادت امام حسین علیہ السلام:اس احوال شہادت امام حسین علیہ السلام مذکور ہیں [14]۔

تعمیری خدمات

ایران و عراق کی زیارتوں سے واپسی ہر نصیر آباد میں ایک مسجد کی تعمیر کروائی۔ لکھنؤ میں ایک امام بارگاہ کی تعمیر مذہبی ترویج کے آثار میں شمار کیا جاتا ہے جو بعد میں امام باڑہ غفران مآب کے نام سے مشہور ہوا ۔اسکی تعمیر اول کا کام 1227ھ میں انجام پایا اور آپ کو اسی امام بارگاہ میں دفن کیا گیا ہے(18) ۔ نیز کئی دوسرے امام بارگاہوں کا سنگ بنیاد رکھا [15]۔

وفات

اودھ کے حاکم غازی الدین حیدر شاہ کی حاکمیت کے دوران 1235 ھ کے ماہ رجب کی 19 ویں شب کو لکھنؤ میں اس دار فانی کو صدائے حق کی آواز پر لبیک کہا ۔آپ کی مرقد مبارک لکھنؤ شہر میں آپ کے تعمیر کردہ امام بارگاہ دار التعزیہ میں ہے جسے امام بارگاہ یا امام باڑہ غفران مآب کہتے ہیں اور یہ مشہور امام بارگاہ باقر مرحوم کے پاس واقع ہے۔

  1. آیت اللہ العظمی سید دلدار علی غفران مآب، ulamaehind.in
  2. محسن امین عاملی ،اعیان الشیعہ ج6، ص425۔
  3. سید احمد نقوی، ورثۃ الانبیاء،ص 500۔
  4. بائیو گرافی سید دلدار علی
  5. احمد نقوی معروف بہ علامہ ہندی ،ورثہ الانبیاء حصۂ تذکرۃ العلماء ص242
  6. ورثۃ الانبیا حصہ تذکرۃ العلماء ص239
  7. حسن نجفی ،جواہر الکلام ،8/کراہۃ الصلاۃ مع تقدم المراۃ..../305و306۔محقق بحرانی ،الحدائق الناضرہ7/ہل یجوز تساوی الرجل/177
  8. بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۱۷، ص۱۶۶.
  9. مولانا مصطفیٰ علی خان، حضرت غفران مآب اور دین کا احیاء، hawzahnews.com
  10. مولانا کلب جواد نقوی، ur.hawzahnews.com
  11. احمد نقوی لکھنوی معروف علامہ ہندی،ورثۃ الانبیاءصص53/54۔
  12. عادل فراز، حضرت غفران مآبؒ : ایک عہد ایک تاریخ، hawzahnews.com
  13. مولانا خلیل الرحمان نعمانی،تحفۂ اثنا عشریہ(اردو) ص23۔
  14. سید دلدار علی نقوی (غفران مآب)، maablib.org
  15. احمد نقوی،ورثہ الانبیاء،ص41۔