سید حسن نصر اللہ حزب اللہ لبنان کے بانی اور اس تنظیم کے موجودہ سربراہ ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم صور میں حاصل کی اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ وہاں ان کی سید عباس موسوی اور سید محمد باقر الصدر سے ملاقات ہوئی۔ سید حسن نصر اللہ 1989ء میں حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے۔ آپ کی قیادت میں حزب اللہ اسرائیل کے خلاف مقاومت اور ایک منظم ترین تنظیم کے طور پر ابھری۔ انہوں نے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور دینی تربیت۔ تعلقات عامہ اور ذرائع ابلاغ میں حزب اللہ کی صلاحیتوں اور فعالیت میں اضافہ کیا۔ جب 1992ء میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد آپ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ حزب اللہ سید حسن نصر اللہ کے دور قیادت میں بہت زیادہ کامبیاں حاصل کی ہیں اور حزب اللہ علاقائی طاقت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس وقت آپ نے پوری دنیا بالخصوص عرب ممالک میں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی ہیں۔

سید حسن نصر اللہ
سید حسن نصر الله.jpg
پورا نامسید حسن نصر اللہ
دوسرے نامسید مقاومت
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہلبنان
اساتذہسید عباس موسوی
مذہباسلام، شیعہ
مناصب
  • صدر حزب اللہ

سوانح عمری

سید حسن نصر اللہ 1960ء میں جنوبی لبنان میں بیروت کے قریب ایک کیمپ میں ایک غریب خاندان کے گھر میں پیدا ہوا۔ آپ کے والد سید عبد الکریم پھیری لگا کر سبزی اور پھل فروخت کیا کرتے تھے۔ مالی حالت بہتر ہونے پر انہوں نے اپنے گھر کے قریب پھل اور سبزیوں کی ایک دکان کھول لی۔ ان کے والد نے دکان میں امام موسی صدر کی ایک تصویر آویزاں کر رکھی تھی۔ نصر اللہ فارغ وقت میں اپنے والد کا کاروبار میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ دکان پر بیٹھنے کے دوران امام موسی صدر کی تصویر کو بڑے غور سے دیکھا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا دھیان اس تصویر پر رہا کرتا تھا۔ سید نصر اللہ کے بقول تصویر کو دیکھنے کے دوران وہ خوابوں کی وادی میں اتر جایا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ امام صدر کے نقش قدم پر چلیں۔

سید حسن بچپن سے ہی اپنے ہم عمر بچوں سے مختلف تھے۔ وہ عام بچوں کی طرح فٹ بال کھیلنے یا تیراکی میں کو‏ئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے بچپن کے زمانے میں قارطینہ میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت نواحی علاقوں سن الفیل، باروج، حمود اور نابع کے علاقے میں موجود مساجد میں گزارتے تھے۔ اپنے خاندان کے باقی ارکان کے برعکس وہ انتہائی مذہبی نوجوان تھے۔ جب حسن کی عمر نو سال ہوئی تو بیروت کے شہر کے شہداء چوک میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر ایرانی کتابوں کی دکانوں سے کتابیں خریدا کرتے تھے۔ ہر وہ کتاب پڑھنے کے شوقین تھے جو اسلام کے بارے میں ہو جب وہ ایک کتاب پڑھتے ہو‎‎ئے تھک جاتے تو اسے دوسری طرف رکھ کر نئ کتاب پڑھنا شروع کر دیتے۔ کتابیں پڑھتے پڑھتے یہ بچہ ایک خصوبصورت نوجوان میں تبدیل ہو گیا [1]۔

تعلیم

انہوں نے نجف سکول سے میڑک کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران 1975ء میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ان کا خاندان قاراطینہ سے ہجرت کرکے اپنے آبائی گاؤں منتقل ہو گیا۔ حسن نصر اللہ نے صور پبلک سکول سے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔

تنظیمی زندگی

قاراطینہ سے ہجرت سے قبل ان کا خاندان ایک غیر سیاسی خاندان تھا۔ حالانکہ اس زمانے میں اس علاقے میں بہت ہی فلسطینیوں اور لبنانی سیاسی پارٹیاں سرگرم تھیں۔ بصوریہ میں قیام کے دوران انہوں نے الامل میں شرکت کرلی۔ الامل میں شرکت کا فیصلہ ایک فطری عمل تھا کیونکا وہ امام موسی صدر کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔ 15 سالہ لڑکا جلد ہی الامل میں اہم مقام حاصل کر گیا۔ انہیں تنظیم نے ان کے گاؤں کا نمائندہ منتخب کرلیا۔

حوزہ علمیہ نجف میں

صور کی مسجد میں ان کی سید محمد الغاراوی سے ملاقات ہوئی جو اس زمانے میں مسجد سے ملحقہ مدرسے کے سرابراہ تھے۔ انہوں نے الغاراوی سے عراق کے شہر نجف میں واقع ممتاز مذہبی تعلیم کے ادارے اہواز میں قرآنی تعلیمات کے حصول کے لیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اہواز کے مدرسے کی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر طالب علم کو اپنی مرضی کے مطابق استاد کے انتخاب کا حق حاصل ہوتا ہے۔ الغاراوی ممتاز عراقی مذہبی راہنما سید محمد باقر الصدر کے دوست تھے۔ انہوں نے نو عمر طالب علم کو ان کے نام کا ایک سفارش خط دیا۔ وہ بذریعہ ہوائی جہاز بغداد اور وہاں سے بس میں بیٹھ کر نجف پہنچے جب وہ نجف پنہچے تو ان کے پاس روٹی کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔

اس اجنبی شہر میں اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہ تھی۔ حسن نصر اللہ کے بقول اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے جو انکساری اور پاکپازی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ پانی کےساتھ روٹی کھاتے اور مسجد کی صف پر رات کو سوتے۔ اہواز پہنچنے پر لبنانی شہریوں سے ملاقات کی اور سید محمد باقر الصدر تک خط پہنچانے کے طریقے کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا۔ ان کے ہم وطنوں نے مشورہ دیا کہ سید عباس موسوی واحد شخصیت ہیں جو سفارشی خط سید صدر تک پہنچا سکتے ہیں۔ انہون نے موسوی سے ملاقات کا فیصلہ کرلیا۔ پہلی نظر میں گہری رنگت کے حامل موسوی انہیں عراقی لگے۔ انہوں نے نہایت کلاسیک عربی زبان میں ان سے گفتگو شروع کی۔ موسوی کو جلد اندازہ ہو گیا کہ نوارد شاگرد انہیں عراقی تصور کر رہا ہے۔ انہوں نے سید حسن کو کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ لبنانی ہیں۔ نصر اللہ کی خواہش پر سید باقر الصدر نے موسوی کو ان کا استاد مقرر کیا۔ سید محمد الغاراوی کے سفارشی خط دیکھنے کے بعد شہید صدر نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس ضروریات زندگی کے لیے پیسے ہیں؟ حسن نصر اللہ نے جواب دیا کہ ان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ نصر اللہ کا جواب سن کر شہید صدر نے موسوی کو ہدایت کی انہیں رہنے کے لیے کمرہ مہیا کیا جائے اور ان کا خیال رکھا جائے۔ پھر سید باقر الصدر نے کپڑے اور کتابیں خریدنے کے لیے انہیں پیسے دئیے اور ان کی ضروریات زںدگی کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا۔

جید علماء سے ملاقاتیں

حسن نصر اللہ نے جید علماء اور سیاسی شخصیت سے ملاقاتیں کیں، ان میں روح اللہ خمینی جیسی عہد ساز شخصیت بھی شامل ہے۔ نجف میں قیام کے دوران مقتدی الصدر کے والد سید صادق الصدر سے بھی ملاقات ہوئی جو ان کے استاد تھے۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات آیت اللہ سید علی سیستانی سے بھی ہوئی۔

شادی

انہوں نے 1979ء میں شادی کی، ان کی بیوی کی ننھیالی عزیزہ ہیں، ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے ہادی نے 1997ء میں جنوب لبنان میں یہودیوں سے ایک جھڑپ میں جام شہادت نوش کیا۔

عراق سے ملک بدر

1978ء میں عراقی حکومت نے عراق میں تعلیم حاصل سینکڑوں لبنانی طلباء اور اساتذہ کو ملک بدر کردیا، ان میں نصر اللہ اور عباس موسوی بھی شام تھے۔ موسوی نے لبنان میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔ نصر اللہ نے اس مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور یہاں استاد بھی رہے۔ حوزہ علمیہ نجف میں 2 سالہ قیام نے نصر اللہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

اسرائیل کے مسلح جد و جہد کا آغاز

1982ء میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کے خلاف مسلح جد و جہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے منتشر جہادی گروپوں کو متحد کیا اور حزب اللہ کا جہادی ونگ ترتیب دیا اور اسرائیل مخالف جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔

حوزہ علمیہ قم ایران میں

1987ء لبنان میں ایک بار پھر تشدد کی لہر پھیل گئی۔ انہوں نے حالات سے مایوس ہوکر اپنی مذہبی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایران چلے گئے جہاں انہوں نے قم کے عالمی شہرت کے حامل ادارے سے اسلامی قانون اور فقہ کی ڈگری حاصل کی۔ 1989ء میں لبنان واپس آگئے اور اپنی جہادی سرگرمیوں میں دوبارہ مصروف ہوگئے۔ انہیں ممتاز لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھنے کا انتہائی شوق ہے جن میں اسرائیلی رہنما ایریل شیرون اور ناتن یاہو بھی شامل ہیں۔ وہ اسرائیلی رہنماؤں کی سوانح عمریاں اس لیے پڑھتے تھے تاکہ وہ اپنے دشمن کے مقاصد اور ان کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ سکیں۔ لبنان واپسی پر شام کے لبنان میں کردار کے حوالے سے ان کے اپنے استاد اور حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کے ساتھ اختلافات شروع ہوگئے۔ موسوی لبنان میں شام کے کردار کے حامی جبکہ نصر اللہ اس کے مخالف تھے۔ نصر اللہ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ حزب اللہ نے پارٹی کے دو گروپوں میں تقسیم ہونے کے اندیشے کے پیش نظر، نصر اللہ کو حزب اللہ کا تہران میں نمائندہ مقرر کرکے ایران بھیج دیا۔ 1991ء میں عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اسی سال نصر اللہ بھی واپس آگئے لیکن اب شام کے بارے میں ان کے خیالات میں اعتدال آچکا تھا۔ 1992ء میں حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری موسوی اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہوگئے اور ان کی جگہ حسن نصر اللہ کو حزب اللہ کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا [2]۔

طوفان الاقصی اور سید حسن نصر اللہ

لبنان کی عوامی تحریک حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے یوم شہداء کے موقع پر اپنے خطاب میں قدس کی غاصب اور جابر صیہونی حکومت کی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ استقامتی محاذ کو ہر میدان میں کامیابی مل رہی ہے اور اگر آج لبنان اور فلسطین میں استقامتی محاذ کی طاقت ہے تو وہ یقینی طور پر ایران کے دلیر اور بہادر حکمرانوں کے منطقی موقف اور شہید قاسم سلیمانی کی عظیم قربانی کی وجہ سے ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن جاری ہے اور استقامتی محاذ نے دشمن کے مختلف ٹھکانوں پر حملہ کیا اور دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا اور استقامتی محاذ کی کارروائیاں بدستور جاری ہیں۔

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ آج آپ کے بھائی اور بیٹے بلا خوف و خطر فرنٹ لائن پر جاکر دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں اور وہ شہادت پسندانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے مجاہدین کتنے بہادر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کے محاذ پر استقامتی محاذ کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور استقامتی محاذ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حملہ آور ڈرون کا استعمال کیا گیا اور وہ 200 سے 500 کلو تک دھماکہ خیز مواد صیہونیوں پر گراتے ہیں اور اسرائیل نہیں بتا رہا کہ اسے اب تک کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ان جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، یہ بڑے جرائم اسرائیل کی وحشیانہ انتقامی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں [3]۔

سید نصر اللہ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے!

صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل بہت ذہین شخص ہیں اور انہوں نے اسرائیلیوں کے حیران ہونے کی بابت خبردار کیا ہے۔ صیہونی حلقے لبنان اور فلسطین کی موجودہ صورتحال کے بارے میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے ذہین اور مبہم موقف سے پریشان ہیں۔ صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایہود باراک ک کہنا ہے کہ سید حسن نصر اللہ بہت ہوشیار اور سمجھدار انسان ہیں اور وہ کوئی بھی اقدام کر کے اسرائیل کو حیران کر سکتے ہیں۔ ایہود باراک کا کہنا ہے کہ سید نصراللہ ایک ذہین شخص ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ وہ ہمیں پرسکون کرکے کوئی حیران کن اقدام کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ اور غزہ کے ساتھ بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ غاصب حکومت کے سابق فوجی کمانڈر موشی شلونسکی کا کہنا تھا کہ اسرائیل، نصراللہ کی تقریر کے دباؤ میں تھا اور ان کی تقریر سے قبل ہیجانی کیفیت ہر جگہ محسوس کی گئی عبرانی میڈیا حیران، [4]۔

صیہونی حکومت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے

حزب اللہ کے سربراہ نے جمعے کی شام بیروت میں مظلوم فلسطینی عوام کے حامیوں کے اجتماع عظیم سے خطاب میں کہا کہ زبان، غزہ اور غرب اردن کے عوام کی عظمت، استقامت اور پائیداری کی تعریف سے قاصر ہے۔ انہوں نے استقامتی فلسطینی محاذ کے طوفان الاقصی آپریشن کے بارے میں کہا کہ یہ آپریشن سوفیصد فلسطینی آپریشن ہے جس کی منصوبہ بندی اور تیاری کرنے والوں نے حتی استقامتی محور سے بھی اس کو خفیہ رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن اتنا عظیم، اتنا دلیرانہ اور اتنا کامیاب تھا کہ اس سے ایسا سیکورٹی، فوجی، سیاسی اور نفسیاتی زلزلہ آیا ہے کہ جس کے آثار صیہونی حکومت پر ہمیشہ باقی رہیں گے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کچھ بھی کرلے اس عظیم آپریشن کے اثرات اور نتائج کو کم نہیں کرسکتی۔ انھوں نے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن نے ثابت کردیا کہ صیہونی حکومت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ کہاں گئی وہ ناقابل شکست فوج؟ وہ اپنے اسلحے اور جنگی وسائل پر فخر کہاں گیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ نے پہلے ہی دن مقبوضہ فلسطین بھیجنے کے لئے اپنے اسلحے کے گودام کھول دیئے اور ان کی سپلائي کا اجازت نامہ صادرکردیا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی حکومت لبنان اور فلسطین کے استقامتی گروہوں سے مقابلے کے تجربات سے عبرت حاصل نہیں کررہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ایسے بڑے اہداف کا اعلان کرتی ہے جس کی انجام دہی ناممکن ہے۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ اس بار بھی صیہونی حکام نے اعلان کیا ہے کہ حماس کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ کوئی عاقل انسان یہ بات کرسکتا ہے؟ جب اس وہم سے باہر نکلے تو کہا کہ وہ صیہونی قیدیوں کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آج غزہ اور فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ صیہونی حکام کی حماقت اور نادانی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس فوج کے پاس بھی چند جنگی طیارے اور چند میزائل ہوں وہ یہ کام کرسکتی ہے لیکن میدان جنگ میں اس سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کی تصاویر دیکھی جا رہی ہیں، یہ تصاویر صیہونیوں سے کہ رہی ہیں کہ غزہ میں کامیابی فلسطینی قوم کےلئے اور شکست دشمن کا مقدر ہے۔ انہوں نے کہا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صیہونی حکومت کی وحشیانہ ماہیت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی عورتوں اور بچوں نے عرب اور بین الاقوامی میڈیا کے چہرے سے نقاب اتار پھینکی اور صیہونیوں سے روابط کو معمول پر لانے کی ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا [5]۔

امریکہ کو حسن نصر اللہ کا انتباہ

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دے کر کہا کہ پہلے دن سے ہم امریکیوں کی دھمکیوں کو سنتے آ رہے ہیں کہ ہمیں بمباری اور گولہ باری کا نشانہ بنائیں گے لیکن ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔ ہمارے اقدامات غزہ میں صیہونی دشمن کے اقدامات کے برابر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی دشمن جان لے کہ ہمارے سامنے تمام آپشنز موجود ہیں۔ ہمیں ہر صورتحال کےلئے تیار رہنا ہوگا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکیوں سے کہوں گا کہ تمہاری دھونس دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ تمہارے بحری بیڑے سے ہم نہ ڈرے ہیں نہ ڈریں گے۔ تمہارے بحری بیڑے کو ڈبونے کے لئے مناسب ہتھیار تیار کر رکھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ جان لے کہ اگر جنگ پھیل گئی تو نہ تو تمہاری بحریہ تمہارے کام آئے گی نہ ہی تمہاری فضائیہ لہذا جنگ کو بند کرو جو تمہارے ہی کنٹرول میں ہے ورنہ اس کا نقصان براہ راست تمہارا ہوگا امریکہ کو [6]۔

حوالہ جات

  1. محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء،ص47
  2. سید شفقت شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک،الباقر پبلی کیشنز، اسلام آباد، 2021ء، ص310
  3. استقامتی محاذ کے مجاہدین بلا خوف و خطر فرنٹ لائن پر دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں: سید حسن نصر اللہ، sahartv.ir
  4. سید نصر اللہ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے!urdu.sahartv.ir
  5. سیدحسن نصراللہ: غزہ کے عوام کی استقامت کی قدردانی، صیہونی حکومت کچھ بھی کرے طوفان الاقصی آپریشن کے نتائج کو کم نہیں کرسکتی، urdu.sahartv.ir
  6. سیدحسن نصراللہ کا انتباہ، جنگ بند کرو ورنہ اس کا نقصان براہ راست تمہارا ہوگا، urdu.sahartv.ir