"ذوالقعدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 20: سطر 20:
ذوالقعدہ کے اتوار کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے نکلے اور فرمایا: ’’اے لوگو! کون توبہ کرنا چاہتا ہے؟" سب نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر فرمایا: غسل کرو، وضو کرو اور چار رکعت نماز پڑھو۔ ہر رکعت میں ایک بار سورہ حمد، تین بار سورہ اخلاص اور ایک بار سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد 70 مرتبہ استغفار کریں اور پھر کہیں۔
ذوالقعدہ کے اتوار کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے نکلے اور فرمایا: ’’اے لوگو! کون توبہ کرنا چاہتا ہے؟" سب نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر فرمایا: غسل کرو، وضو کرو اور چار رکعت نماز پڑھو۔ ہر رکعت میں ایک بار سورہ حمد، تین بار سورہ اخلاص اور ایک بار سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد 70 مرتبہ استغفار کریں اور پھر کہیں۔


لا حول و لاقوة الا بالله العلی العظیم کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھیں:
'''لا حول و لاقوة الا بالله العلی العظیم''' کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھیں:
 
'''
یا عزیز یا غفار اغفر لی ذنوبی و ذنوب جمیع المؤمنین و المؤمنات فانه لا یغفر الذنوب الا انت
یا عزیز یا غفار اغفر لی ذنوبی و ذنوب جمیع المؤمنین و المؤمنات فانه لا یغفر الذنوب الا انت'''


پھر فرمایا: جس نے یہ عمل کیا ہے اسے آسمان سے آواز آئے گی: اے بندے خدا تیری توبہ قبول ہوئی اور تیرے گناہ معاف ہو گئے، اپنے عمل کو دوبارہ شروع کر۔
پھر فرمایا: جس نے یہ عمل کیا ہے اسے آسمان سے آواز آئے گی: اے بندے خدا تیری توبہ قبول ہوئی اور تیرے گناہ معاف ہو گئے، اپنے عمل کو دوبارہ شروع کر۔


اس نماز کے بہت سے انعامات بیان کیے گئے ہیں جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ سید ابن طاووس نے اپنی کتاب اقبال الامال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے یہ نماز پڑھی؛ اس کی توبہ قبول ہو اور اس کے گناہ معاف ہو جائیں، قیامت کے دن اس کے دشمن اس سے راضی ہوں، وہ ایمان کے ساتھ مرے گا، اس سے اس کا دین اور ایمان نہیں لیا جائے گا۔ اس کی قبر کشادہ اور روشن ہے اور اس کے والدین اس سے مطمئن ہیں۔ بخشش میں اس کے والدین اور اس کی اولاد کی حالت شامل ہے۔ رزق کی ترقی؛ الموت کا بادشاہ موت کے وقت اس کے ساتھ صبر کرے اور اسے آسانی سے موت دے۔
اس نماز کے بہت سے انعامات بیان کیے گئے ہیں جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ سید ابن طاووس نے اپنی کتاب اقبال الامال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے یہ نماز پڑھی؛ اس کی توبہ قبول ہو اور اس کے گناہ معاف ہو جائیں، قیامت کے دن اس کے دشمن اس سے راضی ہوں، وہ ایمان کے ساتھ مرے گا، اس سے اس کا دین اور ایمان نہیں لیا جائے گا۔ اس کی قبر کشادہ اور روشن ہے اور اس کے والدین اس سے مطمئن ہیں۔ بخشش میں اس کے والدین اور اس کی اولاد کی حالت شامل ہے۔ رزق کی ترقی؛ الموت کا بادشاہ موت کے وقت اس کے ساتھ صبر کرے اور اسے آسانی سے موت دے۔
'''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم''' نے فرمایا: جس نے حرمت والے مہینے کے تین دن جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کے روزے رکھے، اللہ تعالیٰ اس پر ایک سال کی عبادت لکھ دے گا۔
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:ذی القعده]]
[[fa:ذی القعده]]
[[زمرہ: قمری مہینے]]
[[زمرہ: قمری مہینے]]

نسخہ بمطابق 10:07، 15 مئی 2023ء

ذی القعده.jpg

ذوالقعدہ ہجری کیلنڈر کا گیارہواں اور چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے جن میں جنگ و جدال حرام ہے۔ "ذی" کے معنی "مالک" و "صاحب" کے اور "القعدہ" کے معنی "بیٹھنے" کے ہیں۔ اس مہینے میں جنگ حرام ہونے کے پیش نظر عرب اس مہینے میں جنگ اور قتال ترک کرکے بیٹھ جایا کرتے تھے اسی وجہ سے اسے ذو القعدۃ الحرام کا نام دیا گیا۔

فضیلت

سید ابن طاووس اس مہینے کی فضیلت کے بارے میں فرماتے ہیں: ذوالقعدہ کا مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں سختیوں میں نماز پڑھنے کا بہترین وقت ہے، اور یہ ظلم کو دور کرنے اور ظالم کے خلاف دعا کرنے کے لیے موثر ہے۔" ان کے مطابق اس مہینے کو "دعاوں کے جواب دینے کا مہینہ" کہا جاتا ہے [1]۔

شیخ مفید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حرمت والے مہینے میں جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کے تین روزے رکھے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک عبادت لکھ دے گا۔ سال یہ بھی نقل ہوا ہے کہ نو سو سال ایسے ہیں جن میں دن روزے اور راتیں سرکش ہیں [2] ۔

اجتماعی عبادت اور ضروریات کی درخواست

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: جو بھی گروہ اس دن اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے لیے جمع ہوتا ہے، علیحدگی سے پہلے ان کی ضرورتیں پوری کی جائیں گی۔ اس دن اللہ تعالیٰ لاکھوں رحمتیں بھیجتا ہے اور ان نعمتوں میں سے ننانوے ان لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ کو یاد کرنے، اس دن روزہ رکھنے اور اس دن کی رات عبادت میں مصروف رہے [3] ۔

ذوالقعدہ کے مہینے کے واقعات

ذوالقعدہ کا پہلا

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت سنہ 173 ہجری۔

11 ذوالقعدہ

امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت سنہ 148 ہجری میں ہوئی

25 ذوالقعدہ

امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ ذوالارد کا دن ہے (یعنی کعبہ کے نیچے سے پانی تک زمین کا پھیل جانا) اور اس رات اور دن میں عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے [4]۔

30 ذوالقعدہ

220ھ میں 25 سال کی عمر میں امام محمد تقی علیہ السلام کی شہادت

ماہ ذوالقعدہ کے اہم ترین ایام کے اعمال

ذوالقعدہ کے اتوار کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر سے نکلے اور فرمایا: ’’اے لوگو! کون توبہ کرنا چاہتا ہے؟" سب نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر فرمایا: غسل کرو، وضو کرو اور چار رکعت نماز پڑھو۔ ہر رکعت میں ایک بار سورہ حمد، تین بار سورہ اخلاص اور ایک بار سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد 70 مرتبہ استغفار کریں اور پھر کہیں۔

لا حول و لاقوة الا بالله العلی العظیم کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھیں: یا عزیز یا غفار اغفر لی ذنوبی و ذنوب جمیع المؤمنین و المؤمنات فانه لا یغفر الذنوب الا انت

پھر فرمایا: جس نے یہ عمل کیا ہے اسے آسمان سے آواز آئے گی: اے بندے خدا تیری توبہ قبول ہوئی اور تیرے گناہ معاف ہو گئے، اپنے عمل کو دوبارہ شروع کر۔

اس نماز کے بہت سے انعامات بیان کیے گئے ہیں جن میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ سید ابن طاووس نے اپنی کتاب اقبال الامال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے یہ نماز پڑھی؛ اس کی توبہ قبول ہو اور اس کے گناہ معاف ہو جائیں، قیامت کے دن اس کے دشمن اس سے راضی ہوں، وہ ایمان کے ساتھ مرے گا، اس سے اس کا دین اور ایمان نہیں لیا جائے گا۔ اس کی قبر کشادہ اور روشن ہے اور اس کے والدین اس سے مطمئن ہیں۔ بخشش میں اس کے والدین اور اس کی اولاد کی حالت شامل ہے۔ رزق کی ترقی؛ الموت کا بادشاہ موت کے وقت اس کے ساتھ صبر کرے اور اسے آسانی سے موت دے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حرمت والے مہینے کے تین دن جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کے روزے رکھے، اللہ تعالیٰ اس پر ایک سال کی عبادت لکھ دے گا۔

  1. سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ج1، ص306
  2. المراقبات، ص 369
  3. اقبال الاعمال، ص618-619
  4. مفاتیح الجنان، ص 248