ایران

ویکی‌وحدت سے

اسلامی جمہوریہ ایران جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔ اسلام ملک کا سرکاری مذہب اور فارسی ملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے اور اس کے سکے کو ریال کہتے ہیں۔ فارسوں، آذربائیجانی ترک، کردوں (کردستانی)، لروں (لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک میں سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں اور ایران کے سیاسی نظام اسلامی ہے جو ایران میں فروری 1357 سے قائم ہوا ہے۔ یہ نظام کے دو ستوں اسلامیت جو مشروعیت کی بنیاد اور جمہوریت جو حکومت ولی فقیہ کی مقبولیت کی بنیاد ہے، جو ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب (22 بہمن 1357) کی فتح کے بعد وجود میں آیا۔ 1957 کے انقلاب کے بعد اس سیاسی نظام کو، آمرانہ سامراجی اور شاہی نظام کا جانشین، 12 اپریل 1358 کو ہونے والے ریفرنڈم میں باضابطہ شکل دی گئی، جس میں ووٹ دینے کے اہل افراد میں سے 98.2 فیصد نے حصہ لیا، جن میں سے 97 فیصد سے زائد نے ووٹ دیا۔ اسلامی جمہوریہ کے لیے اس ریفرنڈم میں کل438 ،20،422 نے ہاں میں، 367،604نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ اس ریفرنڈم کے اختتام کے ساتھ ہی رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے 12 اپریل 1358 کو 24:00 بجے اپنے ایک پیغام میں اس دن کو زمین پر خدا کی حکومت کا دن قرار دیا اور باضابطہ اسلامیہ جہوریہ کے قیام کا اعلان فرمایا اور تہران میں ایران کے دار الحکومت شہر ہے۔

جغرافیا

عرف عام میں ایران اور موجودہ فارسی نام: جمهوری اسلامی ایران جو جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔ اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام اور فارسی ملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے اور اس کے را‏ئج سکے کو ریال کہتے ہیں۔ فارسوں، آذربائیجانی ترک، کردوں (کردستانی)، لروں (لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک میں سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں جو اس ملک میں زںدگی کرتے ہیں۔ ایران جغرافیائی اعتبار سے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اس کےدامن میں پوشیدہ ہیں۔ رقبہ کے اعتبار سے ایران دنیا میں 17ویں نمر پر ہے یہ ملک دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہےجو مدائن سلطنت 678 ق۔م سے لے کرصفوی سلطنت و پہلوی سلطنت تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایران اپنے تہذیب تمدن کے اعتبار سے ایشیا میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے پر قابض ہے۔ یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ یہ ملک اقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلب آریاؤں کی سرزمین ہے۔ ریاست ایران 1648195 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ایران کی کل آبادی 85 ملین ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ایران دنیا میں ستارہویں نمبر پر ہے۔

انتظامی تقسیم

ایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں یا استان میں تقسیم کیا گیا ہے۔

  • صوبہ اردبیل
  • صوبہ البرز
  • صوبہ آذربایجان شرق
  • صوبہ آذربایجان غربی
  • صوبہ بوشہر
  • صوبہ چهارمحال و بختیاری
  • صوبہ فارس
  • صوبہ گیلان
  • صوبہ گلستان
  • صوبہ ہمدان
  • صوبہ ہرمزگان
  • صوبہ ایلام
  • صوبہ اصفہان
  • صوبہ کرمان
  • صوبہ کرمانشاہ
  • صوبہ خراسان شمالی
  • صوبہ خراسان رضوی
  • صوبہ خراسان جنوبی
  • صوبہ خوزستان
  • صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد
  • صوبہ کردستان
  • صوبہ لرستان
  • صوبہ مرکزی
  • صوبہ مازندران
  • صوبہ قزوین
  • صوبہ قم
  • صوبہ سمنان
  • صوبہ سیستان و بلوچستان
  • صوبہ تہران
  • صوبہ یزد
  • صوبہ زنجان

ایران ترقی کے راستے پر

یہ ملک مشرق وسطی میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قزوین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس اور خلیج اومان جبکہ مغرب میں عراق اور ترکی واقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہیں۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھی بحیرہ قزوین کے اردگرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھ کوہ البرس واقع ہیں۔

8 اپریل کی تاریخ ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے مناسبت رکھتی ہے۔ اس دن مقامی ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں شروع کیے جانے سے مناسبت سے منایا جاتا ہے ۔ اس بڑی سائنسی کامیابی کے اعلان کے بعد اس ملک کے ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کی منظوری اور ایران کے جوان دانشوروں کی قابل افتخار کوششوں کی قدردانی کے مقصد سے 8 اپریل کی تاریخ کو ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے موسوم کیا گیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا اطلاق، ایٹم کے شگاف اور انھیں جوڑنے کی توانائی کے ذریعے قدرتی یورینیم کو افزودہ یورینیم میں تبدیل کرنے کی توانائی پر ہوتا ہے۔ پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ایران سنہ 1958ء میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968ء میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔

سیاست

محمد رضا شاہ پہلوی، ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلےاس ملک کے بادشاہ تھے۔ ایران کے موجودہ آئین 1979ء کے انقلاب کے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر انقلاب (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آج کل آیت اللہ علی خامنہ ای اس ملک کے سپریم لیڈر ہیں۔ رہبر کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس (مجلس خبرگان رہبری) کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما منتخب کیے جاتے ہیں۔ رہبر معظم مسلح افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔ حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے اور صدر کو پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسیحیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لیے شوریٰ نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔

شوری نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شوری نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو ویٹو کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔ قانون سازی کے حوالے سے مجلس شورای اسلامی اور شوری نگہبان کے درمیان میں پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے 1988ء میں "مجمع تشخیص مصلحت نظام" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔ اگست 1989ء سے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر کا مشیر ادارہ بن گئی ہے اور اس کے سربراہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہیں اور اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شوری نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ رہبر تین سال کے لیے ارکان نامزد کرتا ہے۔ مجلس کے بڑے گروہوں کو عموما اصلاح طلب "اصلاح پسند" اور اصول گرا "قدامت پرست" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت مجلس میں "آبادگران" کا اتحاد غالب ہے۔ یہ قدامت پرست ہیں۔

یورینییم کی افزدوگی

تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورینییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں، یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔

جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی

جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی، فیوز یعنی پگھلانے والی مشین تیار کرنا ہے۔ ایران اس وقت اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔

امید کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا، توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے۔

ایران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہان تک کہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے۔

بین الاقوامی تعلقات

1997ء میں صدر سید محمد خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔ 1998ء میں برطانیہ اور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کا سلمان رشدی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 1999ء میں برطانیہ اور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔

ایران اور امریکا کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے ہے ۔ جولائی 2001ء میں امریکا نے ایران اور لیبیا پر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کے لیے توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو "بدی کے محور" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطی کے امن کو خراب کرنے کے خواہش مند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نانو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے جس کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ مطالب قارئین کی معلومات افزائی کے لیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ ائرواسپیس ایٹمی ٹیکنالوجی نانو ٹیکنا لوجی کلوننگ میڈیکل دفاعی

عراق سے تعلقات

1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن اس نے اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا عراق کی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرف معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں عراق کی مدد کر رہا ہے۔ 30 نومبر 2004ء کو عراق میں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب، کویت، ترکی، اردن اور مصر کے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔

افغانستان

ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آ رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پزیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اسرائیل

1979ء میں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے اقدامات پر بھی اعتراضات کرتا رہتا ہے اور مبینہ طور پر فلسطین اور لبنان کے ان اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔

آبادیات

ایران ایک متنوع ملک ہے جہاں بہت سے نسلی گروہ پائے جاتے ہیں، ان میں فارسی بولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایران کی آبادی تیزی سے بڑھی، 1956ء میں ایران کی آبادی صرف 19 ملین تھی جو 2009ء تک 79 ملین تک جاپہنچی۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں ایران کی شرح پیدائش میں نمایا کمی آئی ہے 2012ء میں لیے گئے اندازے کے مطابق ایران کی شرح پیدائش 1.29 فیصد رہی۔

ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر افغانستان اور عراق میں جاری جنگوں کے باعث ایران آئے ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق حکومتِ وقت پر ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں جن میں جان و مال کا تحفظ، طبی سہولیات، معزور افراد کی دیگ بال، وغیرہ شامل ہیں اور ان چیزوں پر خرچہ بجٹ کے ذریعے حاصل کردہ ریونیو (سالانہ آمدنی) سے کیا جاتا ہے۔

زبانیں

ملک کی اکثریت باشندے فارسی زبان بولتے ہیں جو اکثریتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سرکاری زبان بھی ہے۔ ایران میں بولے جانے والے زبانیں اکثر ہند-ایرانی زبانیں ہیں۔ اقلیتی زبانوں کی بات کی جائے تو ایران کے شمال مغرب میں آذربائجانی، شمال میں ترکمن اور مشرق میں پاکستانی سرحدوں کے قریب علاقے میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔

ایران میں 53 فیصد افراد کی فارسی، 16 فیصد کی آذربائجانی، 10 فیصد کی کردی، 7 کی فیصد گیلکی اور مزدارین، 7 فیصد کی لوری، 2 فیصد کی عربی اور 2 فیصد کی بلوچی مادری زبان ہے۔ تاہم ان تمام مادری زبانوں کا استعمال صرف بطور علاقائی زبان کیا جاتا ہے باقی ملک بحر میں فارسی ہی استعمال ہوتی ہے۔

مذہب

تفصیلی مضمون کے لیے ایران میں مذہب ملاحظہ کریں۔ مزار امام رضا کے شہر مشہد۔ آتش کدہ یزد قرہ کلیسا

تاریخی طور پر زرتشتیت ایران کا قدیم مذہب تھا خاص کر ہخامنشی سلطنت، سلطنت اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے لگ بگ مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں سے آتش پرست ساسانی سلطنت کا سقوط ہو گیا، مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ ایران میں لوگ 15ویں صدی تک سنی اسلام کے پیروکار تھے، تاہم 1501ء میں صفوی سلطنت قائم ہو گیا جس نے 16ویں صدی میں مقامی سنی مسلم آبادی کو دباؤ کے ذریعے اثنا عشریہ اہل تشیع مسلم میں تبدیل کیا۔[9]

آج اثنا عشرہ شیعہ اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کے پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی کے 2 فیصد غیر مسلم ہیں۔ مذہب % از کل آبادی تعدادِ افراد اسلام 99.4% 74,682,938 نہیں بتایا گیا 0.4% 205,317 مسیحیت 0.16% 117,704 زرتشتیت 0.03% 25,271 یہودی 0.01% 8,756 دیگر 0.07% 49,101

قدرتی آفات

تہران عجائب گھر برائے عصری فنون، اس عجائب گھر کو مغربی نودرات کے حوالے سے یورپ اور شمالی امریکا کے بعد سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔[10]

ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔

آئین

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کا مجوزہ متن ماہرین اور دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو عبوری حکومت (جون 1358) کی طرف سے دستیاب کرایا گیا اور 1358 میں عام انتخابات کے ذریعے اس کے حتمی جائزے کے لیے آئینی ماہرین کی اسمبلی تشکیل دی گئی۔ آئین کا آخری ورژن اسی سال دسمبر میں تھا، ایک ریفرنڈم ایران کے معزز لوگوں نے منظور کیا تھا [1]۔

آئین پر نظر ثانی

کچھ ابہام اور ناپختگیوں کی موجودگی اور آئین میں کچھ ترمیم کی ضرورت کے باعث امام خمینی نے پارلیمنٹ کے اراکین اور سپریم جوڈیشل کونسل کی درخواست پر آئین پر نظر ثانی کے لیے ایک کونسل مقرر کی تاکہ آئین پر نظر ثانی کا کوئی حل فراہم کیا جا سکے۔ مذکورہ کونسل نے 7 مئی کو نظرثانی کا کام شروع کیا اور جون 1368 میں امام خمینی کی وفات کے بعد اس نے اپنا مشن جاری رکھا اور نظر ثانی شدہ اور ترمیم شدہ آئین کو اگست 1368 میں ایک ریفرنڈم میں قوم سے منظور کیا گیا [2]۔

اسلامی جمہوریہ کے مبانی

جمہوری نظام کے اصولوں میں چار اجزاء شامل ہیں: براہ راست یا بالواسطہ (پارلیمنٹ کے ذریعے) لوگوں پر حاکم کا انتخاب۔ حکمران کی حکمرانی کی مدت کی محدود مدت، جس کی وجہ سے اس کا دوبارہ انتخاب ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ ملک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ قانون کے سامنے حکمران کی برابری وہ قانون کے تابع بھی ہے اور اپنے تمام اعمال کا ذمہ دار بھی ہے۔ حکمران پر قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے [3]۔ ذکر کردہ اجزاء کو لاگو کرنے کے نتیجے میں، ہم مندرجہ ذیل امور کو دیکھیں گے: ملک کی حکمرانی اور نظم و نسق، خواہ رہنما کے انتخاب میں ہو (بالواسطہ ووٹ کے ذریعے) یا صدر کے انتخاب میں (براہ راست ووٹ کے ذریعے) نیز حکومت کی تشکیل (اسلامی کونسل کے اعتماد کا ووٹ)، عوامی ووٹوں کی بنیاد پر مبنی ہے۔ صدر کے عہدے کی مدت (ایک بار دوبارہ انتخاب کے امکان کے ساتھ) چار سال ہے؛ رہبر، صدر اور اقتدار میں موجود دیگر افراد قانون کے سامنے ملک کے دیگر افراد برابر ہیں۔ قیادت کے عہدے اور صدر اور وزراء کے لیے قانونی ذمہ داری (مقدمہ اور سزا کی حد تک) اور سیاسی ذمہ داری (مواخذے کی حد تک) ہے [4]۔

اسلامی جمہوریہ میں اسلام اور شیعیت کا مقام

اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا دیگر عام جمہوریہ نظاموں سے امتیازی خصوصیت اس نظام کا اسلامی اور مذہبی ہونا ہے، یعنی ایرانی عوام کی اکثریت نے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے، اسلام اور اسکی تعلیمات کو حکومت کے مواد اور بنیاد کے طور پر انتخاب کیا ہے۔ شیعہ اسلامی عقائد کے اصول (توحید، رسالت، قیامت، عدل اور امامت)اور کرامت انسانی اور آزادی جو انسانی ذمہ داری اصول کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام اور تسلسل کے ستون ہیں [5]۔ عدالت و انصاف، آزادی اور قومی یکجہتی نظام کے اعلیٰ مقاصد ہیں، اور ان کے حصول کے لیے اسلامی جمہوریہ کے آئین میں طریقے اور عمومی احکامات فراہم کیے گئے ہیں، جن میں: جامع فقہاء کا مسلسل اجتہاد، جدید انسانی علوم و تکنیک کا استعمال، اور آگے بڑھنے کی کوششیں وہ کسی بھی ظلم و جبر کی نفی کرتی ہیں (ملکی سطح پر ) اور تسلط و تسلط پذیری کی نفی (غیر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر )؛ (اصول 2 اور 152) اسلامی جمہوریہ کے نظام میں اسلام اور شیعہ اثناعشری مذہب کی رسمی اور حاکمیت کا تقاضا ہے کہ اس مذہب کے معیارات قانونی، عدالتی، سیاسی اور سماجی معاملات میں غالب اور موثر ہوں۔ اس کے باوجود دیگر اسلامی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی) کے پیروکاروں کے حقوق شیعوں کے برابر ہیں [6]۔ دوسرے مذاہب کے پیروکار جن میں زرتشتی، کلیمین اور عیسائی، جو اہل کتاب کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے بھی یہ حقوق ہیں: قانون کی حدود میں مذہبی تقریبات انجام دینے کی آزادی، اپنے مذہب کے مطابق ذاتی حالات اور مذہبی تعلیمات پر عمل کرنا، مذہبی، ثقافتی، سماجی اور فلاحی تنظمیں بنانا، اسلامی کونسل میں نمائندگی، اور سماجی، انتظامی اور روزگار کے حقوق [7]۔ غیر الہی مذہبی اقلیتیں، بشرطیکہ وہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازش نہ کریں، بعض حقوق [8]۔ کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق اور اسلامی انصاف سے بھی لطف اندوز ہونگے [9]۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا)

اسلامی جمہوریہ کے نظام میں، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، حکومت اور قوم کے عمومی اور مسلسل متحرک ہونے کے ذریعے اس طریقہ کار کا نفاذ خوبیوں کے فروغ اور بدعنوانی کے رد کی بنیاد بن سکتا ہے۔ بورڈ آف گورنرز (قیادت اور تین حکمران طاقتیں) اس اصول کے نفاذ کے لیے ذمہ دار ہے، قیادت کی نگرانی اور سماجی اصلاحات کی پالیسیوں اور قوانین کی تشکیل، انتظامی نگرانی اور عدالتی کارروائی کے ذریعے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اصول کو حکومت پر لوگوں کی نگرانی کے طریقہ کار کے ذریعے لاگو کیا جانا چاہیے (بشمول پریس اور ذرائع ابلاغ، سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں، اور اجتماعات اور مارچ)۔ اسلامی جمہوریہ نظام میں حکمرانوں کی اخلاقی قابلیت اور اپنی تقدیر کے تعین میں عوام کی حاکمیت کے مفروضے کے ساتھ آٹھویں اصول میں نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا عوام کا باہمی فریضہ ہے۔ اس کا طریقہ باہمی نصیحت ہے، لیکن عملی اقدام اور سزا حکمران کا کام ہے، عوام کا نہیں [10]۔

خارجہ پالیسی

اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے اصول یہ ہیں: خارجہ پالیسی کے نفاذ میں قومی خودمختاری کی بالادستی (ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور تسلط جویی اور تسلط پذیری کو مسترد کرنے کی پالیسیوں پر عمل کرنے سے ممکن ہوسکتا ہے) دبنگ طاقتوں کے خلاف عدم عزم اور غیر متحارب ریاستوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے ذریعے بین الاقوامی اتحاد اور بقائے باہمی؛ اسلامی ممالک کا اتحاد جس کا مقصد عالم اسلام کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اتحاد (اسلامی دنیا کی امت) کو حاصل کرنا ہے بین الاقوامی سطح پر انسانی امداد، بشمول مسلمانوں، مظلوموں، پسماندہوں اور پناہ گزینوں کی حمایت [11]۔ خارجہ پالیسی کا اعلیٰ انتظام قیادت کی ذمہ داری ہے، جو خارجہ امور میں نظام کی عمومی پالیسیوں کا تعین کرنے، جنگ اور امن کا اعلان کرنے، افواج کو متحرک کرنے، اور ملک کے خارجہ امور کی قیادت کی نگرانی کے ذریعے کیا جاتا ہے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی منظوری اور اہم امور پر رہنمائی فراہم کرنا)۔ قیادت کے بعد، صدر، قومی خودمختاری کے مجسم اور ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی اتھارٹی کے طور پر اور خارجہ تعلقات قائم کرنے کا ذمہ دار ہے (سفیروں کو بھیجنے اور وصول کرنے اور بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے)، ملک کی خارجہ پالیسی کا انچارج ہے۔ اسلامی کونسل، بین الاقوامی معاہدوں کی نگرانی، خارجہ پالیسی کے قوانین کے قیام، خارجہ پالیسی کمیشن، اور نمائندوں کے ذریعے (خارجہ پالیسی کے مسائل پر تبصرہ، یاد دہانیوں، سوالات اور صدر اور وزیر سے خارجہ پالیسی کے میدان میں مواخذے کے ذریعے۔ خارجہ پالیسی میں ملک کی رائے کا اطلاق ہوتا ہے [12]۔

سرکاری ادارے اور ڈھانچے

اسلامی جمہوریہ کے آئین میں حاکمیت الٰہی اور انسانی ہے۔ خدائی حاکمیت اس تعلیم سے ماخوذ ہے کہ حاکمیت اور قانون سازی صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کی اجازت کے بغیر جائیداد اور لوگوں اور قانون سازی پر قبضہ کرے۔ مذہبی اور فقہی بحثوں کے مطابق، امام عصر (ع) کی غیبت کے دوران، امام معصوم کے لیے دین کے اہم ماخذ کی بنیاد پر قانونی احکام کا استنباط کرنا، اور شریعت کی طرف سے اجازت یافتہ امور میں مداخلت کرنا جائز ہے۔ اس بنیاد کے ساتھ، ولایت فقیہ کی نگرانی میں اسلامی معیارات پر مبنی تمام ضوابط کا قیام، الہی حاکمیت کا ضامن ہے۔ حاکمیت کا انسانی پہلو خدا پر ایمان اور دنیا اور انسان پر اس کی مکمل حاکمیت پر یقین سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ کہ اس نے انسان کو اپنی تقدیر پر خود مختار بنایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کی اپنی سماجی اور سیاسی تقدیر پر حاکمیت ایک الٰہی حق ہے اور اس میں ان کی عملی اور ہمہ گیر شرکت کی ضرورت ہے۔ خودمختاری کے اس پہلو کے ضامن متعدد قانونی (صدر، اسلامی کونسل کے نمائندوں اور دیگر کے انتخاب میں عوام کی براہ راست اور بالواسطہ شرکت) اور سیاسی (تنظیموں اور جماعتوں اور سیاسی و تجارتی یونینوں کی آزادی کا حق) ہیں [13]۔

حکومت کی شکل

اسلامی جمہوریہ کے نظام میں حکومت کی شکل تین شاخیں (مجلس شورای اسلامی، (قانون ساز اسمبلی انتظامیہ) اور عدلیہ) ایک دوسرے سے آزاد اور رہبر (ولی فقیہ) کی نگرانی میں ہیں، اس لیے اس میں اختیارات کی علیحدگی کا طریقہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔اسی لحاظ سے روایتی نظاموں میں اختیارات کی علیحدگی کے لحاظ بنیادی اختلافات رکھتے ہیں۔ انداز سے حکومت نیم صدارتی اور نیم پارلیمانی ہے۔ یہ نیم صدارتی ہے کیونکہ عوام صدر کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ نیم پارلیمانی ہے کیونکہ صدر حکومت کے ارکان کو پارلیمنٹ میں تجویز کرتا ہے اور پارلیمنٹ ان کی منظوری دیتی ہے۔ نظام کی جامعیت اور دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اختیارات کی علیحدگی کے باوجود تینوں طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی ہو۔ اس مقصد کے لیے تینوں شاخوں کے تعلقات اور ان کی آزادی کی حدود کو واضح کیا گیا ہے اور ملازمتوں کی وصولی پر پابندی کے اصول کی پیشین گوئی کی گئی ہے [14]۔ رہبر کی نگرانی میں تین طاقتوں کے علاوہ، اسلامی جمہوریہ کی خودمختاری کے نفاذ میں خصوصی ادارے ہیں؛ ادارے جیسے اسلامی کونسلز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل، سپریم کونسل آف کلچرل ریوولوشن، اور ایکسپیڈینسی کونسل

  1. امام خمینی‌، ج‌۳، ص‌۴۸۶؛ روزها و رویدادها، ج‌۱، ص‌۸۱
  2. «متن کامل پیشنهادی پیش‌نویس قانون اساسی»، ص‌۵۶
  3. هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۵۳۵۴
  4. ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۶، ۸۷، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۳۳،
  5. رجوع کریں، هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۶۳۷۵
  6. آئین کے ان شقوں کا مطالعہ کریں: ۴۵، ۸، ۱۲، ۱۹۲۰، ۲۶، ۶۱، ۶۴، ۶۷، ۷۲، ۹۱، ۹۴، ۱۰۹، ۱۱۵، ۱۵۷، ۱۶۲۱۶۳، ۱۶۷
  7. اصول ۳، ۱۳، ۱۹۲۰، ۲۶
  8. اصول ۱۹۴۲
  9. مطالعہ کریں، هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۱۶۱۱۶۶
  10. مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۲۲۲۲۲۶، ۲۲۸۲۳۴
  11. مطالعہ کریں: ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۳، ۱۱، ۱۵۲، ۱۵۴،۱۵۵
  12. مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۴۱۲-۴۳۳؛ شفیعی‌فر، ص‌۸۴-۸۶
  13. هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۲، ص‌۱۷
  14. ہاشمی، 1925، جلد 2، ص1217