احمد رضا خان قادری بریلوی

احمد رضا خاں قادری بریلوی فاضل بریلوی بر صغیر کی غالب مسلم اکثریت کے پیشوا محمد احمد رضا خاں بریلوی سنی حنفی قادری ہیں۔ ان کے معتقدین انہیں اعلیٰ حضرت اور فاضل بریلوی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مولانا کے آباؤ اجداد قندھار افغانستان کے قبیلہ بڑھیچ کے پٹھان تھے ۔مغلیہ دور میں ہندوستان آئے۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی ہندوستان کے بڑے عالم دین، فاضل اور بلند پایا صوفی اور شاعر تھے۔

احمد رضا خان بریلوی
احمد رضا خان قادری بریلوی.jpg
پورا ناماحمد رضا خان قادری بریلوی
دوسرے ناماحمد خان
ذاتی معلومات
یوم پیدائش14
پیدائش کی جگہبریلی انڈیا
یوم وفات28
وفات کی جگہبریلی
اساتذہنقی علی خان
شاگردظہر الدین بہاری، مفتی امجد علی اعظمی
مذہباسلام، سنی
مناصب
  • دارالعلوم منظر اسلام

سوانح عمری

آپ کی ولادت بریلی شریف کے محلہ جسولی میں 10 شوال المکرم 1272ھ بروز ہفتہ بوقت ظہر مطابق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔ سن پیدائش کے اعتبار سے آپ کا تاریخی نام المختار ہے۔ آپ کا نام محمد اور دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا تو اسی نام سے مشہور ہوئے۔

درسیات سے فارغ

جب عربی کی ابتدائی کتابوں سے فارغ ہوئے تو تمام درسیات کی تکمیل اپنے والد مولانا مفتی نقی علی خان قادری [متولد 1246 ھ متوفی 1297ھ] سے تمام کی اور تیرہ سال دس مہینہ کی عمر شریف میں 1286 ھ میں تمام درسیات سے فراغ پایا۔ فقیر پر تقصیر قادری اشرفی کہتا ہے کہ آج کے دور میں 13 یا 14 سال کی عمر میں بچوں کو صحیح طور پر صوم و صلوٰۃ، وضو و غسل اور دیگر ضروری باتوں کا علم نہیں ہوتا [1]۔

حفظ قرآن

آپ اچھے حافظے کے مالک تھے ۔ جب لوگوں نے ایک بار آپ کو حافظ کہا تو فرمایا کہ حافظ تو نہیں ہوں لیکن لوگوں کا کہا رائیگاں نہ جائے تو ایک ماہ کی قلیل مدت میں روزے کی حالت میں قرآن پڑھ کر رات کو تراویح میں قرآن سنا کر قرآن کریم کے باکمال حافظ بن گئے۔

دارالعلوم منظر اسلام کا قیام اور درس و تدریس

آپ نے درسیات سے فراغت کے بعد ہی منصبِ افتا پر پہنچے۔ کچھ عرصہ طلبہ کو پڑھایا۔ پھر تصنیف و تالیف اور کثرتِ کار کے سبب تدریس کا سلسلہ منقطع ہوگیا البتہ مخصوص شاگردوں کی تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس لحاظ سے آپ کے تلامذہ ہند و پاک، بنگلہ دیش، حجاز مقدس اور عرب و افریقہ میں پھیلے ہوئے ہیں [2]۔ 1903ء میں شہر بریلی میں آپ نے دارالعلوم منظر اسلام قائم کیا۔ فرزند اکبر مولانا محمد حامد رضا خان ( م ۱۹۴۳ء) اس کے مہتمم اوّل مقرر ہوئے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد رقم طراز ہیں: احمد رضا محدث بریلوی نے تحریر کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ تدریس کو بھی ذریعۂ تعلیم و تبلیغ بنایا، وہ دارالعلوم منظر اسلام کے بانی تھے انہوں نے یہ دارالعلوم اس وقت قائم کیا جب دُشمنِ اسلام حاکموں نے سنی مسلمانوں کے لئے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ ایک مثالی دینی مدرسے کے بانی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اخلاص ہو، وہ فکرِ صحیح کا مالک ہو، تعلیم کے بارے میں اس کے نظریات واضح اور مفید ہوں۔ جب ہم احمد رضا کی حیات و تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں ہم کو ان کے ہاں یہ ساری خوبیاں نظر آتی ہیں،اور دل گواہی دیتا ہے کہ کسی بھی مثالی دینی ادارے کا بانی ہو تو ایسا ہو[3]۔

تعلیم

احمد رضا خان ان علوم میں ماہر تھے:

  • تفسیر و اصول تفسیر،
  • ریاضیات،
  • طب ،
  • حدیث و اصول حدیث،
  • فقہ و اصول فقہ،
  • علم عقائد،
  • علم الکلام،
  • علم الفرائض،
  • رسم خط قرآن مجید،
  • عربی ادب ،
  • شاعری،
  • اسماء الرجال ،
  • لغت،
  • سیر، فضائل،
  • مناقب،
  • سلوک،
  • اخلاق،
  • تاریخ،
  • مناظرہ وغیرہ۔

انہوں نے ایک ہزار کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر اسلامی فقہ سے متعلق ہیں۔

تصانیف

مختلف علوم و فنون پر آپ نے کم و بیش ایک ہزار کتابیں لکھیں۔ لیکن ان میں سے کافی ساری کتب دستیاب نہ ہو سکیں۔ آپ کی جملہ تصانیف میں سے جن کو سب سے زیادہ مقبولیت و پذیرائی حاصل ہوئی کسی اور کو نہ ہوئی۔ان میں سے ایک العطایہ النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ہے۔ آپ نے 1286ھ سے 1320ھ تک ہزاروں فتوٰے لکھے۔ لیکن سب کو نقل نہ کیا جاسکا۔ جو نقل کرلئے گئے تھے ان کا نام العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رکھا گیا۔ فتاوٰی رضویہ جدید کی 33جلدیں ہیں جن کے کل صفحات 22000 سے زیادہ، کل سوالات مع جوابات 6837اور کل رسائل 206ہیں۔ قرآن و حدیث، فقہ، منطق اور علم کلام سے مزین ہے۔" نزول آیات فرقان بسکون زمین و آسمان" اس کتاب میں آپ نے سائنس دانوں کے اس نظریہ کو رد فرمایا جو زمیں کی گردش کے بارے میں ہے [4]۔ ترجمہ کنزالایمان پر مولانا مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی کا مختصر تفسیری حاشیہ بنام تفسیر خزائن العرفان بھی موجود ہے جو کنزالایمان شریف کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

برصغیر میں احمد رضا خان کے پیرو

اہلسنت والجماعت حنفی بریلوی نے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ہے۔آج برصغیر میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے علماء مشائخ بزرگ موجود ہیں جن کا فاضل حنفی بریلوی سے بظاہر کوئی علمی یا روحانی ناطہ نہیں ہے۔ لیکن ان کاسلسلہ طریقت یا سلسلہ تعلیم فاضل حنفی بریلوی تک پہنچتا ہے۔ مولانا احمد رضا خاں حنفی بریلوی اپنے وقت کے عالم، مصنف اور فقیہ اور مفتی تھے۔ انہوں نے چھوٹے بڑے سینکڑوں فقہی مسائل سے متعلق رسالے لکھے ۔ انہوں نے قرآن کریم کا بہت گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ شان نزول، ناسخ، منسوخ و تفسیر بالحدیث تفسیر صحابہ اور استنباط احکام سے پوری طرح باخبر تھے۔ قرآن مجید کا سلیس مقبول ترجمہ کنز الایمان فی ترجمہ القرآن بھی کیا، ہزار ہا فتووں، فقہ و نعت گوئی اور علم ریاضی میں تصنیف و تالیف پر صرف کی ، مولانا نے علوم و فنون میں تقریباً ایک ہزار کتابیں لکھیں تذکرہ علمائے ہند میں ان کا ذکر ہے مولانا احمد رضا خاں بریلوی اہل سنت کے مجتہد ہیں اور دنیائے اسلام کے اکابر علماء نے متفقہ طور پر مجدد وقت کا خطاب بھی دیا۔ وہ بلند پایہ مفسر، محدث، ریاضی دان ، ماہر علوم جفر و نجوم اور اعلی درجے کے نعت گو شاعر بھی تھے ۔ انہوں نے مختلف علوم وفنون میں سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔

فتاوی رضویہ

فتاویٰ رضویہ کے اردو ، فارسی ، عربی اور انگریزی چاروں زبانوں میں ترجمے ملتے ہیں۔ اس میں احکام شرعیہ و مسائل دینیہ کی تفصیل ہے۔ آپ نے علم تفسیر و علم حدیث علم فقہ وعلم الافلاک و المنطق کے حوالے سے کئی کتا بیں لکھیں ۔فاضل بریلوی نے اپنے آپ کو درس و تدریس تصنیف و تالیف اور دین اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دیا ۔ ترجمہ قرآن ہو یا تشریح احادیث، فقہ کی باریک بینی ہو یا شریعت و طریقت کی بحث ہو یا نعتیہ شاعری ہر جگہ عشق رسول کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے اور انہوں نے نظم و نثر دونوں کا سہارا لیا۔ انہوں نے حضور کی شان اقدس میں بڑے کامیاب قصائد لکھے اور مرفع نعتیں کہیں۔ علمائے عرب و عجم نے ان کو مجدد کے لقب سے یاد کیا۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی سے سلسلہ عالیہ قادریہ کو بہت فروغ حاصل ہوا آپ عالیہ قادریہ کے نامور شیخ طریقت تھے۔

احمد رضا خان کا نظریہ

احمد رضا خاں بریلوی نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی وہ ابوحنیفہ کے مقلد کی حیثیت سے فتوی دیتے اور مذہب حنفی کی تائید و حمایت میں ہی دلائل فراہم کرتے اور وہ تمام رسوم فاتحہ خوانی، چہلم، بری ، گیارہویں شریف، عرس، تصوف ، قیام ، میلاد، استمد اداز اہل اللہ ( مثلا شیخ عبد القادر جیلانی ) گیارہویں شریف کی نیاز وغیرہ کے قائل ہیں نماز میں ہاتھوں کو زیر ناف باندھتے آمین آہستہ کہتے ہیں۔ احمد رضا بریلوی مروجہ علوم دینیہ مثلاً تفسیر، حدیث ، فقہ ، کلام ، تصوف ، تاریخ، سیرت ، معانی، بیان، بدیع ، عروض،ریاضی، توقیت ، منطق ، فلسفہ وغیرہ کے یکتائے زمانہ فاضل تھے۔ صرف ان میں ہی نہیں بلکہ طب، علم جعفر، تکسیر، ز حبات ، جزر ، مقابلہ لو گارم ، جیومیٹری، منات کردی دایره علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ غرض یہ کہ ایک فقیہ کے لئے جن علوم کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب احمد رضا بریلوی کو حاصل تھے [5]۔

یا رسول الله

بریلوی حضرات کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کسی جگہ یا رسول اللہ لکھا ہوا ہو اور اسے مناتے ہوئے لفظ رسول اللہ بھی زد میں آگیا تو یہ ایک ایسی تو ہین ہے کہ مرتکب توہین رسالت کا ارتکاب کر گزرتا ہے جس کی تو یہ بھی شاید قبول نہ ہو۔ یا رسول اللہ میں گل تین الفاظ ہیں۔ (۱) یا (۲) رسول (۳) اللہ (1) یا یا پانچ حروف نداء میں سے ایک ہے جس سے منتظم کسی کو پکارتا ہے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور یہ بھی یادر ہے کہ حروف نداء میں سے کچھ وہ ہیں جو قریب شخص کو بلانے کے لئے استعمال ہوتے ہے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ لفظ یا کے معنی " آئے ہے اور اے اُسے کہا جاتا ہے جو آپ کی آواز سن رہا ہو اور حاضر ہو [6]۔ یا کے لفظ کا استعمال (1) صلوۃ و سلام پیش کرتے ہوئے ۔(۲) نعرہ رسالت لگاتے ہوئے (۳) نعتیہ کلام میں ۔ رسول یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کے معنی بھیجا ہوا اصطلاح شرع میں رسول سے مراد وہ انسان ہے جو صاحب کتاب ہو جس انسان کو اللہ کی طرف سے لوگوں کی حضور کی قبر انور پر حاضر ہو کر اور کبھی دور سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے [7]۔

یا اللہ

اس میں جلالت کی طرف اضافت اس مفہوم کو اور مضبوط بنادیتی ہے لفظ اللہ اس میں جلالت اللہ جل شانہ کا اسم ذاتی ہے۔ رضا احمد خان حنفی بریلوی نے اللہ تعالیٰ کو جسم ماننے والوں کے رد میں رسالہ مبارکہ قوارع القبار على الجسمة المجر تحریر کیا۔ دین اسلام کے مخالف، قدیم فلسفہ کے عقائد رد کرتے ہوئے مبسوط رسالہ الکلمة المتحد رقم فرمایا رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام ، اہل بیت عظام ، ائمہ دین ، مجنبد دین اور اولیاء کاملین کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا سخت محاسبہ کیا ۔ انہوں نے اصناف شعر و سخن میں سے حمد باری تعالی ، نعت اور منقبت کو منتخب کیا احمد رضا خاں صاحب اپنی اکثر و بیشتر تصنیفات کے خطبوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور درود شریف کے ساتھ ساتھ وہ مسئلہ بھی بیان فرما دیتے تھے ۔ اب پورے لفظ یا رسول اللہ کا مطلب یہ بنا کہ جب کوئی اُمتی کسی حال میں اپنے رسول کو پکارتا ہے تو گویا وہ حضور کو مخاطب کرنے کے ساتھ ساتھ رسول کی رسالت اور اللہ کی توحید کا اقرار بھی کرتا ہے۔ (۱) پاکستان میں حنفی بریلوی کی اکثریت ہے اور مسلکی طور پر امام ابوحنیفہ کے مائے والے ہیں [8]۔

بریلویوں کا نظریہ

پہلا نظریہ

حنفی بریلوی کا نظریہ یہ ہے کہ جو بزرگ مر گئے ہیں جب ان کی قبروں پر جاتے ہیں اور اُن سے دُعا کرتے ہیں تو یہ بزرگ اللہ سے ہماری سفارش کریں گے تو ہمارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ حضور قبر انور کے اندرحیات حقیقی کے ساتھ زندہ ہیں وہاں عبادت بھی کرتے ہیں سلام کا جواب بھی فرماتے ہیں اور آپ قبر پر آنے والے کو پہچانتے بھی ہیں دُعائے مغفرت سے بھی امت کو نواز رہے ہیں وہاں سے نور نبوت سے امت کے حالات کا مشاہدہ بھی فرماتے ہیں۔

دوسرا نظریہ

حنفی بریلوی کا عقیدہ ہے کہ حضور پاک ہر جگہ پر موجود ہیں اور جب بھی ہم حضور کو بلائیں گے وہ حاضر ہو جائیں گے۔ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان حضور کوالہ یا صفت الوہیت کے ساتھ ہر جگہ موجود نہیں مانتے بلکہ حاضر و ناظر کا مطلب یہ ہے کہ حضور اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ ہر جگہ موجود اور جلوہ گر ہیں اور ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ جس طرح آسمان کا سورج اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر موجود ہے لیکن اپنی روشنی اور نورانیت کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہے اسی طرح نبوت کے آفتاب حضور روحانیت اور علمیت کے ساتھ ہر جگہ جلوہ گر ہیں۔

تیسرا نظریہ

حنفی بریلوی میں چشتی قادری، سہروردی، نقشبندی ، سیالوی ، معصومی ، نوشاہی یہ خاندانی سلسلے موجود ہیں۔

چوتھا نظریہ

تصوف شریعت و طریقت اور خانقاہی امور کو مانتے ہیں زیادہ تر سندھ، ملتان، پنجاب میں ان کا گڑھ ہے اور یہ کسی نبی ، رسول ، ولی اللہ کی شان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے۔۔

پانچواں نظریہ

حنفی بریلوی حضرات کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کا حصہ تمام انبیاء و تمام مخلوق سے اتم و اعظم ہے۔ مسئلہ علم غیب میں یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو علم غیب عنایت فرمایا اللہ عز وجل کی عطا سے حبیب اکرم ﷺ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ ہی جانتا ہے اور حضور کو علوم اولین و آخرین عطا فرمائے گئے۔

چھٹا نظریہ

احمد رضا بریلوی نے فرقہ بندی کی بھی بھر پور حوصلہ شکنی کی اور وحدت ملی پر زورد یا ان کی علمی اور تحقیقی مساعی کا محور ہی ملی اتحاد تھا [9]۔

اصلاح امت کے لیے جد و جہد

آپ کی فکر ونظر اور قرطاس وقلم کا مرکز ہمیشہ قرآنِ مجید اور سرکارِدو عالم ﷺ کی ذاتِ کریم رہی، آپ ترجمانِ علم وحکمت ، داعی حق وصداقت واتحاد بین المسلمین کے علم بردار تھے۔ آپ شیریں بیانی سے بچھڑے لوگوں کو قریب کرتے رہے۔ زورِتقریر سے بے دینوں کا منہ بند کرتے رہے۔ آپ نے گلشنِ عظمت مصطفیٰ ﷺ کو ہرابھرا بنایا،گمراہوں کو راہِ حق دکھانے میں بے پناہ محنت کی، ہزاروں بہکے ہوئے لوگوں کو درِبار نبی ﷺ پر لاکھڑا کیا۔ آپ دشمنانِ خدا اوردشمنانِ رسول ﷺ پر بجلی بن کر گرتے۔

مرزا قادیانی سے مقابلہ

آپ نے دینِ مبین کی راہ میں آندھیوں سے تیز اٹھنے والے فتنوں اورسیلاب کی طرح بڑھنے والی گمراہیوں کے سامنے دیوارآہن کا کام کیا، اس پُرآشوب دور میں میدانِ عمل میں کود پڑے، جب ہزاروں بیدرد اسلام کے ہرے بھرے چمن کو اجاڑ دینے کی کوششوں میں مصروف تھے، وہ مسلمانوں کا متاعِ ایمان لوٹنے پر تُلے ہوئے تھے۔ جب مرزا قادیانی (احمدیہ فرقہ کا بانی) انگریزوں کی ناپاک سازش کے عین مطابق پہلے امام مہدی اور پھر مسیح موعود اور پھر اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرکے مسلمانوں کو گمراہ کررہا تھا،ساری کارروائیاں اسلامی تبلیغ کے نام پر انجام دے رہا تھا، تو اس فتنے کا سدِباب کرنے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔

منحرف صوفیوں سے مقابلہ

آپ نے فاسق اور نام نہاد صوفیوں کے خلاف بھی اپنا فریضہ انجام دیا۔ آپ نے اپنی کتاب مقال العرفاء میں قرآن وحدیث اور اقوالِ علماء سے ثابت کیا کہ شریعت اصل ہے اور طریقت اس کی فرع ،شریعت منبع ہے اور طریقت اس سے نکلا ہوا،طریقت کی جدائی شریعت سے محال ودشوار ہے ،شریعت ہی طریقت کا دارومدار ہے اور شریعت ہی اصل معیار ہے۔ طریقت میں جوکچھ منکشف ہوتا ہے، شریعتِ مطہرہ ہی کی اتباع کا صدقہ ہے، جس حقیقت کو شریعت رَد فرمائے، وہ حقیقت نہیں ،بے دینی اور زندقہ ہے [10]۔

احمد رضاخان کی دینی ،علمی خدمات کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایاجائے

قرآن مجید نے عمل کو علم سے نہیں جوڑا بلکہ عمل کو ایمان سے جوڑا ہے۔ علم اچھی چیز ہے لیکن تم علم سیکھتے ہو دنیا کے چراغوں کی روشنی میں اور احمد رضا خاں بریلوی نے علم سیکھا ایمان کے چراغوں کی روشنی میں۔ وہ صاحب ایمان، صاحب علم، صاحب عمل تھے۔ جو دنیا کے علم والے ہیں وہ صرف سیاروں کی رفتار پڑھتے ہیں جو نبی کریم ؐکی کتاب پڑھنے والے ہیں لوح محفوظ پر چلتے ہوئے قلم کی آواز سن لیتے ہیں۔ وہ لوگ بڑے مقدس ہو کر ابھرے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احمد رضاخان کی دینی و ملی اور علمی خدمات کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایاجائے‘نسل نو کو اسلاف کے کارہائے نمایاں سے روشناس کرانے کیلئے سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کیا جائے۔ بریلوی کے اسلاف نے نہ صرف دین حق کی سربلندی کے لئے دنیا بھرمیں قریہ قریہ جاکر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا بلکہ ہر محاذ پر دین اسلام کا پرچم سربلند رکھنے میں ہراول دستے کا اکرداراداکیا [11]۔

حوالہ جات

  1. یوسف سلیم چشتی، تاریخ تصوف،لاہور، دارالکتاب،طبع اول: 2009ء، ص: 430۔
  2. محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر، دارالعلوم منظر اسلام، مطبوعہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی ۲۰۰۱ء، ص ۶۔۷
  3. احمد رضا خان، امام، الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ و المدینۃ، مشمولہ رسائل رضویہ، مطبوعہ ادارہ اشاعت تصنیفات رضا بریلی، ص۱۶۳
  4. محمد فیروز عالم علائی اشرفی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان: حیات و خدمات، avadhnama.com
  5. احمد رضا خاں بریلوی، فتاوی رضویہ جلدا، ناشر رضا فاؤنڈیش، جامعہ نظامیہ رضویہ
  6. مولا نا محمد فیض اللہ خان، یا رسول اللہ پکارنے کا ثبوت،مکتبہ جمال کرم لاہور
  7. علامہ بدرالدین افضل، سوانح حیات، نو را کیڈی چک ساده شریف گجرات
  8. سید محمد قاسم محمود، اسلامی انسائیکلو پیڈیا، الفیصل اردو بازار لاہور۔
  9. مولا نا افتخار احمد قادریبراهین اہل سنت ، جامعیه اسلامیه یکیاسی مستونگ
  10. ریاض ندیم نیازی، مولانا احمد رضا خان بریلوی ؒ، jang.com.pk
  11. علامہ ریاض حسین شاہ، امام احمد رضاخاں ؒ کی دینی ،علمی خدمات کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایاجائے، .nawaiwaqt.com.pk