طوفان الاقصیٰ

ویکی‌وحدت سے
طوفان الاقصی -2.jpg

طوفان الاقصیٰ(آپریشن طوفان الاقصیٰ) 7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، غزہ-اسرائیل رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازع ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس آپریشن کو کامیاب آپریشن قرار دیا۔ اسی طرح حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی نے اس کے آپریشن کے بعد مسلمانان پر اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔

آپریشن طوفان الاقصیٰ

آپریشن طوفان الاقصیٰ7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، غزہ-اسرائیل رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازع ہے۔ جنگ کا آغاز صبح سویرے اسرائیل کے خلاف راکٹوں اور گاڑیوں کے ذریعے اسرائیلی سرزمین میں داخلے کے ساتھ کیا گیا تھا، جس میں ارد گرد کے اسرائیلی شہری علاقے اور اسرائیلی فوجی اڈوں پر کئی حملے کیے گئے تھے۔ بعض مبصرین نے ان واقعات کو تیسری فلسطینی انتفاضہ کا آغاز قرار دیا ہے۔ 1973 کی جنگ یوم کپور کے بعد پہلی بار اسرائیل نے باضابطہ طور پر جنگ کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے اپنے جوابی عمل کو آپریشن آہنی تلوار کا نام دیا ہے ۔

فلسطینیوں کا حملہ، غزہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بڑی خرابی کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ جنگ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مہینوں کی جھڑپوں کے بعد شروع ہوئی ہے ، جن میں جنین اور مسجد اقصی بھی شامل ہے، جس میں تقریباً 250 فلسطینی اور 32 اسرائیلی مارے گئے؛حماس نے ان واقعات کو حملے کا جواز بنایا ہے۔ محمد ضیف، حماس کی عسکری شاخ، عزالدین القسام بریگیڈز کے کماندار، نے فلسطینیوں اور عرب اسرائیلیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "قابضین کو نکال باہر کریں اور گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دیں "۔ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد مغربی کنارے میں ایک ہنگامی اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس نے جنگ کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل میں یش عتید کے يائير لپید نے فلسطینی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد کی حکومت کے قیام کی وکالت کی ہے۔ غزہ کی پٹی سے کم از کم 3,000 راکٹ فائر کیے گئے۔ جب حماس کے مجاہد سرحدی رکاوٹوں کو توڑ کر اسرائیل میں داخل ہوئے، جس سے کم از کم 700 اسرائیلی ہلاک ہوئے.

اور اسرائیل کی حکومت کو ہنگامی حالت کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حملوں کے آغاز کے بعد ایک قومی خطاب میں کہا کہ اسرائیل ’جنگ میں ہے‘۔اسرائیل میں داخل ہونے والے فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب کیبوتس کے ساتھ ساتھ سدیروت شہر کو بھی اپنی عملداری میں کرلیا۔ اسرائیل نے سٹریٹجک عمارتوں اور گھروں پر بمباری کرکے حملے کے خلاف جوابی کارروائی کی۔ غزہ میں حماس کی زیر قیادت فلسطینی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل نے کم از کم 400 فلسطینیوں کو دوبدو لڑائی اور فضائی حملوں میں شہید کیا ہے، جن میں عام شہری، 78 بچے اور 41 خواتین شامل ہیں۔ فلسطینی اور اسرائیلی میڈیا دونوں ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو، جن میں بچے بھی شامل ہیں، فلسطینی مجاہدین نے جنگی قیدی بنا لیا ہے؛ ان میں سے کئی یرغمالیوں کو مبینہ طور پر غزہ کی پٹی لے جایا گیا ہے۔ حماس کے حملے کے آغاز کے بعد ایک ہسپتال اور ایمبولینس سمیت شہری اہداف پر اسرائیلی بمباری ہوئی جس میں تقریباً 200 افراد مارے گئے [1]۔

فلسطینی حملہ

راکٹ بیراج

اکتوبر 2023ء کو اسرائیل 06:30 بجے، حماس نے آپریشن کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل میں 20 منٹ کے اندر اندر 5000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ سے کم از کم 3000 پروجیکٹائل داغے گئے ہیں۔ راکٹ حملوں میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ دھماکوں کی اطلاع غزہ کے آس پاس کے علاقوں اور سہل شارون کے شہروں بشمول غدیرا، ہرتزیلیا، تل ابیب اور عسقلان میں موصول ہوئی تھی۔ بئر سبع، یروشلم، رحوووت، ریشون لصیون اور پاماچیم ایئربیس میں بھی فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے۔ حماس نے جنگ کی کال جاری کی، جس میں اعلیٰ فوجی کماندار محمد ضیف نے ہر جگہ مسلمانوں کو اسرائیل میں حملہ کرنے کی اپیل کی۔

فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیلی کشتیوں پر بھی فائرنگ کی، جب کہ غزہ کی سرحدی باڑ کے مشرقی حصے میں فلسطینیوں اور آئی ڈی ایف کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ شام کو حماس نے اسرائیل کی طرف تقریباً 150 راکٹوں کا ایک اور بیراج داغ دیا، جس میں یفنہ، جفعاتایم، بت یام، بیت دگان، تل ابیب اور رشون لیزیون میں دھماکوں کی اطلاع ہے۔ اس کے بعد 8 اکتوبر کی صبح ایک اور راکٹ بیراج ہوا، جس میں ایک راکٹ عسقلان کے برزیلائی میڈیکل سینٹر پر گرا۔ حماس نے سدیروت پر 100 راکٹ بھی فائر کیے ہیں۔ 9 اکتوبر کو حماس نے تل ابیب اور یروشلم کی سمت میں ایک اور بیراج فائر کیا، ایک راکٹ بین گوریون ہوائی اڈے کے ٹرمینل کے قریب گرا

اسرائیل میں فلسطینی حملہ

تقریباً 1000 فلسطینی مجاہدین نے ٹرکوں، پک اپ، موٹر سائیکلوں، بلڈوزروں، اسپیڈ بوٹس اور پیرا گلائیڈر کے ذریعے غزہ سے اسرائیل میں دراندازی کی۔ تصاویر اور ویڈیوز میں سیاہ رنگت والے پک اپ ٹرکوں میں ملبوس بھاری مسلح اور نقاب پوش مجاہدین کو دکھایا گیا ہے جنہوں نے سدیروت میں فائرنگ کرتے ہوئے کئی اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ دیگر ویڈیوز میں اسرائیلیوں کو قیدی بناتے اور جلتے ہوئے اسرائیلی ٹینک، کے ساتھ ساتھ مجاہدین کو اسرائیلی فوجی گاڑیوں میں سوار دکھایا گیا ہے۔ اس صبح، ریئم کے قریب ایک آؤٹ ڈور میوزک فیسٹیول میں ایک قتل عام ہوا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے، بہت سے لوگ ابھی تک لاپتہ اور روپوش ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار عسکریت پسند فرار ہونے والے شرکاء پر فائرنگ کر رہے تھے، جو پہلے ہی راکٹ فائر کی وجہ سے منتشر ہو رہے تھے جس سے کچھ شرکاء زخمی ہو گئے تھے۔

کچھ کو یرغمال بھی بنا لیا گیا۔ حملہ آور افواج کو نیر اوز، بیری اور نیتیو ہاسارا میں،نیز غزہ کی پٹی کے ارد گرد کبوتزم میں، بھی دیکھا گیا، جہاں انہوں نے مبینہ طور پر یرغمال بنائے اور گھروں کو آگ لگا دی،۔ نتيف عشرہ حملے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ افکیم میں بھی یرغمال بنائے جانے کی اطلاع ملی، جبکہ سدیروت میں گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ حماس نے کہا کہ اس نے اسرائیل کو اپنے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے مجبور کرنے کے لیے قیدیوں کا سہارا لیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے کافی تعداد میں اسرائیلی قیدی بنائے ہیں۔

آپریشن طوفان الاقصیٰ کے حوالے سے سید علی خامنه ای کا موقف

طوفان الاقصی ایسا تباہ کن زلزلہ تھا جس نے غاصب صیہونی حکومت کی بنیادوں کو تباہ کردیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے منگل کو تہران کی امام علی کیڈٹ یونیورسٹی کی سالانہ تقریب سے خطا ب میں استقامتی فلسطینی محاذ کے آپریشن طوفان الاقصی کی قدردانی کی۔ ایران کے سپریم لیڈر نے فرمایا کہ سات اکتوبر کو غاصب صیہونی حکومت کو فوجی اور اینٹیلیجنس دونوں لحاظ سے ایسی شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔آپ نے فرمایا کہ صیہونی حکومت کی شکست کی بات سب کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ شکست ناقابل تلافی ہے [2].

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ یہ ایسا تباہ کن زلزلہ تھا جس نے غاصب صیہونی حکومت کی بنیادوں کو تباہ کردیا اور ان بنیادوں کی تعمیر آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں فلسطینی نوجوانوں اوراس آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے ذہین اور مدبر جوانوں کی پیشانی اور بازوؤں کو بوسہ دیتا ہوں اور جو یہ کہتے ہیں کہ یہ رزمیہ کارنامہ فلسطینیوں کا کام نہیں ہے، وہ اپنے اندازوں میں غلطی کررہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ مصیبت اپنے اوپر صیہونی خود اپنی کارکردگی سے لائے ہیں ۔ جب ظلم و جرائم حد سے گزرجائے، جب درندہ خوئی آخری حد کو پہنچ جائے تو طوفان کا منتظر رہنا چاہئے ۔

سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ فلسطینیوں کا دلیرانہ اور فداکارانہ اقدام غصب دشمن کے ان جرائم کا جواب ہے جس کا ارتکاب اس نے برسوں کیا ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران ان میں شدت آگئی تھی ۔ اس کی ذمہ دار موجودہ صیہونی حکومت بھی ہے اور ماضی کی حکومتیں بھی ہیں۔ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ خبیث اور ظالم دشمن اب طمانچہ کھانے کے بعد خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ دوسرے بھی اس کی مدد کررہے ہیں ، یہ مظلوم نمائی حقیقت کے برعکس اور جھوٹ ہے۔ اور یہ کوشش اس لئے کی جارہی ہے کہ فلسطینی مجاہدین غزہ کے محاصرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور صیہونیوں کے فوجی اور غیر فوجی مراکز تک پہنچ گئے ۔ آپ نے سوالیہ انداز میں فرمایا کہ " وہ مظلوم ہے؟ یہ حکومت غاصب ہے ، مظلوم نہیں ظالم ہے ، جارح ہے، جاہل ہے ، ہرزہ سرائی کرتی ہے، مظلوم نہیں ظالم ہے اور کوئی بھی اس شیطان صفت دیو کو مظلوم بنا کے نہیں پیش کرسکتا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ مظالم اورجرائم ، بہادر فلسطینی جوانوں اور فداکار فلسطینیوں کے عزم و ارادے کو محکم تر کریں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دن چلا گیا جب وہ آتے تھے تاکہ ظالم کے ساتھ نشست وبرخاست کرکے، بات کرکے، فلسطین میں اپنے لئے کوئی جگہ بنالیں ۔ وہ دور اب نہیں رہا۔ آج فلسطینی بیدار ہیں ، فلسطینی نوجوان بیدار ہیں اور فلسطینی منصوبہ ساز پوری مہارت کے ساتھ اپنے کام میں مشغول ہیں ۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن کا یہ اندازہ اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ وہ خود کو مظلوم ظاہر کرکے اپنے مجرمانہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھ سکیں گے۔

حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی کا اسرائیل کے خلاف جهاد کا کا فتوی

آیت اللہ سیستانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم دنیا آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں لیکن کوئی انکو روکنے والا نہیں ہے.[3] فلسطین کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے آیت اللہ سیستانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم دنیا آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں لیکن کوئی انکو روکنے والا نہیں ہے ۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا کو اس گھناؤنے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، ورنہ جارحین کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی۔ آیت اللہ سیستانی نے تاکید کی کہ فلسطینیوں کو جائز حقوق دینا اور قبضے کا خاتمہ ہی خطے میں سلامتی کے حصول کا واحد راستہ ہے.

رد عمل

ایران

اقوام متحدہ میں ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کی تقریر: اسرائیل صھیونیست حکومت غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے۔ طوفان اقصی آپریشن صرف ایک اسرائیلی صھیونیستی جرائم کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل صھیونیست کا حق دفاع ایک مذاق ہے۔ اسرائیل صھیونیست ہر جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ امریکہ کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر منطقے میں جنگ بھڑکاؤ گے تو خود بھی امان میں نہیں رہو گے۔

پاکستان

پاکستان میں فلسطینی مزاحمت کے حامیوں کی جانب سے آپریشن "الاقصی طوفان" کی حمایت۔ آج پاکستانی نیوز نیٹ ورکس نے "الاقصیٰ طوفان" نامی آپریشن کے آغاز کے بعد مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال بتانے کے لیے اپنے روزمرہ کے پروگراموں کے دوران خصوصی رپورٹنگ کی۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے بھی غاصب صیہونی دشمن کے خلاف فلسطینی مزاحمت کے حامیوں کی جانب سے آپریشن "الاقصی طوفان" کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستانی جی ٹی وی نیٹ ورک نے اپنی بریکنگ نیوز میں اعلان کیا کہ صہیونی ’’اقصیٰ طوفان‘‘ آپریشن سے حیران ہیں۔ پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ، جامع اور دیرپا حل کا اعادہ کرتا ہے، ساتھ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی کلید کے طور پر دو ریاستی حل کی مسلسل وکالت کی ہے۔.[4]

جماعت اسلامی پاکستان

جماعت اسلامی کے نمائندے سینیٹر مشتاق احمد خان نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کی کامیابی پر فلسطینی عوام اور جنگجوؤں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور استقلال کے لیے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے کہا کی کہ فتح یقینی طور پر بہادر فلسطینی عوام کی ہے جبکہ شکست اور ذلت غاصب صیہونی افواج کا ابدی مقدر ہے۔

وحدت المسلمین

پارٹی کے سربراہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ "الاقصی طوفان" آپریشن فلسطین کے بہادر جوانوں کی ایمانی طاقت کے مقابلے میں کرپٹ اور ناجائز غاصب صیہونی حکومت کی ذلت اور بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام ہمیشہ اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں اور آج کے آپریشن کی کامیابی کے لیے خدا سے دعاگو ہیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی پر رہائش پذیر فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کو نہتے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی غاصب حکومت کی جارحیت کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔

فلسطین سپورٹ فاؤنڈیشن

پاکستان میں فلسطین سپورٹ فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل اور اراکین نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی مزاحمت کاروں کی کارروائیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل صابر ابو مریم نے کہا کہ اسلامی ممالک کی حکومتوں اور فوجوں کو فلسطینی جنگجوؤں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ آج کی کارروائی مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی صیہونی بے حرمتی کا جواب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الاقصیٰ طوفان آپریشن سے صیہونیوں کی تباہی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے اور غاصب صہیونیوں کے خلاف مزاحمت اسرائیل کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کے منصوبے کے خلاف انکار ہے۔[5]

ہندوستان

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: حماس کا اقدام اسرائیلی مظالم کا فطری رد عمل۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ جاری ہے، وہ بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے اوریہ واضح طور پر اسرائیل کی بدعہدی اوراس کی طرف سے ہونے والی زیادتی اور مسجد اقصی کی بے حرمتی کا فطری رد عمل ہے، اس رد عمل کو دہشت گردی کہنا ظالموں کو طاقت پہنچانا اور کےساتھ ناانصافی کرنا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جس کو مغربی نے خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد جبر و استبداد کے زیر سایہ قائم کیا۔[6]

حزب الله

حزب اللہ کے نمائندے حجت الاسلام الشيخ وائل علي العاملي اپنے نے اپنے خطاب میں طوفان الاقصی کے بارے میں مندرجہ ذیل نکات بیان کئے:

  • طوفان الاقصی اسرائیلی انٹیلیجنس کی بڑی ناکامی ہے اور پہلی بار جنگ اسرائیلی شہروں میں جا پہنچی ہے۔
  • دشمن کے اپنے اعتراف کے مطابق ہولوکاسٹ کے بعد اب سب سے بڑا جانی نقصان ہوا ہے۔
  • اسرائیل عالمی سطح پر اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے دنیا کے تیس ممالک سے ذیادہ میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں لندن کا لاکھوں کا اجتماع سرفہرست ہے۔
  • طوفان الاقصی عوامی بیداری کا سبب بنا ہے جس کی دلیل مصر اور اردن میں سید حسن نصر اللہ کو جنگ کی دعوت دینا ہے۔
  • شام کی جنگ میں حماس کے مقاومت کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو چکی تھی لیکن رہبر معظم اور حاج قاسم کی سٹریٹجی کیوجہ سے تعلقات مکمل قطع نہیں ہوے۔
  • رہبر معظم کے بقول فلسطینیوں کے ہاتھ حاج قاسم نے بھر دئے ہیں اور آج کی کامیابی کا کریڈٹ انہیں دیا جا سکتا ہے

[7].

اہم خصوصیات

الاقصیٰ طوفان آپریشن کی سب سے اہم خصوصیت صیہونی حکومت کی حیرانی و بے خبری ہے۔ سات اکتوبر 2023ء کو تحریک استقاومت و مزاحمت نے صیہونی حکومت کے خلاف طوفان الاقصیٰ نامی تاریخی آپریشن انجام دیا، جس نے اس حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اس آپریشن میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف نہ صرف زبردست راکٹ بلکہ حیران کن زمینی حملہ بھی کیا۔ قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضیف جو بہت کم بیان دیتے ہیں، انہوں نے اس حملے کا نام "الاقصیٰ طوفان" رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ مسجد الاقصیٰ پر بنیاد پرست یہودیوں کے مسلسل حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔ قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضیف کے بقول یہ حملہ مسجد اقصیٰ کے اسلامی تشخص کے دفاع میں کیا گیا۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی عید "سوکوت" کے نام پر کئی بار حملہ کیا، اس موقع پر فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس میں متعدد فلسطینی شہری زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ حملہ مسجد الاقصیٰ پر حملے کے حوالے سے فلسطینیوں کا فیصلہ کن ردعمل ہے۔

پہلی خصوصیت

الاقصیٰ طوفان آپریشن کی سب سے اہم خصوصیت صیہونی حکومت کی حیرانی و بے خبری ہے۔ یہ حملے ایسے وقت کیے گئے ہیں، جب فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل پر حملہ کرنے کا کوئی اشارہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قدس پر قابض حکومت کو اس حملے سے شدید ضربیں پہنچیں۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کی 75 سالہ تاریخ میں یہ سب سے بھاری فوجی شکست تھی۔ مرنے والوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں، لیکن صرف ایک دن میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے، جبکہ فلسطینی ذرائع اور حتیٰ کہ بعض اسرائیلی ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد 100 سے زائد بتائی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔

دوسری خصوصیت

اس حملے کی سب سے اہم بات اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، کیونکہ فلسطینیوں نے آسمان اور سرنگ دونوں کا استعمال کرتے ہوئے ہوا اور زمین دونوں سے حملہ کیا اور بہت سے قیدی نیز مال غنیمت بھی حاصل کیا۔ مرکاوا ٹینک اور آہنی گنبد جسے صہیونی اپنے لئے بہت اہم سمجھتے تھے، عملی طور پر ناکارہ ثابت ہوئے۔ فلسطینی راکٹ آہنی گنبد کو عبور کرتے ہوئے اہم اہداف کو تباہ کرتے رہے۔ تاہم، جو چیز اس حملے اور اسرائیل کی انٹیلی جنس کی ناکامی کو نمایاں کرتی ہے، وہ راکٹ حملے نہیں بلکہ غزہ کی پٹی کے ارد گرد اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں حماس کے مجاہدین کا ایک قابل ذکر تعداد میں داخل ہونا اور بعض اڈوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لیکر درجنوں فوجیوں کو گرفتار کرنا ہے۔ مجاہدین نے کچھ بکتر بند گاڑیوں اور فوجی سازوسامان پر قبضہ کرکے انہیں غزہ واپس لے گئے اور غزہ کی سڑکوں پر ان کی نمائش بھی کی۔

تیسری خصوصیت

الاقصیٰ آپریشن کی ایک اور اہم خصوصیت اس حملے کے لیے تحریک حماس کی بہترین منصوبہ بندی تھی۔ وقت کے لحاظ سے یہ حملہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا، کیونکہ اس وقت صیہونی حکومت داخلی انتشار کے عروج پر ہے۔ چونکہ یہ حملہ زمین اور آسمان دونوں سے کیا گیا تھا اور حماس کی افواج نے درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو پکڑ لیا، جس کے مستقبل میں دورس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اگر تل ابیب انہیں رہا کرانا چاہے گا تو اسے ان کے بدلے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ یہ حملہ یوم الکپور یا اکتوبر 1973ء کی جنگ کی سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا، جو اسرائیل کے خلاف عربوں کی نسبتاً فتح کا دن تھا۔

چوتھی خصوصیت

مزید یہ کہ الاقصیٰ آپریشن اس وقت انجام پایا، جب اسرائیلی اور سعودی حکام تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک معاہدے کے قریب آنے کی بات کر رہے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ الاقصیٰ آپریشن سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے میں خلل ڈالے گا یا نہیں، اس آپریشن نے ثابت کیا کہ فلسطینی نہ صرف نارمالائزیشن سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ اس سے ان کی ڈیٹرنس پاور زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ نارمالائزیشن سے اسرائیل کی سلامتی کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔[8]

حوالہ جات