صفر

ویکی‌وحدت سے
ماه صفر2.png

صفر (صفر الخیر یا صفر المظفر) اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ صفر کے معنی خالی ہونے کے ہیں۔ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ مہینہ محرم کے مہینے کے بعد ہے اور زمان جاہلیت میں کیونکہ لوگ محرم میں جنگ نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ مہینہ جنگ کے لئے حرام تھا، اس لئے صفر کے شروع ہوتے ہی لوگ جنگ کی طرف رجوع کرتے تھے اور گھر خالی ہو جاتے تھے اس لئے اس مہینے کو صفر کا نام دیا گیا ہے.

اہمیت مہینہ بھی اہل تشیع

ماہ محرم کے بعد، یہ مہینہ بھی اہل تشیع کے نزدیک غم و حزن کا مہینہ ہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت، امام حسن مجتبی (ع)، امام رضا (ع) کی شہادت اور اربعین حسینی اسی مہینے میں ہیں۔

مشہور ہے کہ صفر کا مہینہ بالخصوص اس مہینے کا آخری بدھ نحس ہے، لیکن اس کے بارے میں کوئی خاص روایت موجود نہیں ہے۔ [1]. کچھ منابع کے مطابق حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ماہ صفر کے بارے میں یوں فرمایا ہے: جو شخص بھی اس مہینے کے ختم ہونے کی خبر مجھے سنائے گا، میں اس کو بہشت کی بشارت دوں گا. اس روایت کی کوئی صحیح سند موجود نہیں لیکن عام طور پر اس روایت کے راوی کو ابوذر غفاری سے نسبت دی گئی ہے.

صفر کی نحوست

کتاب مفاتیح الجنان کے مصنف شیخ عباس قمی نے ماہ صفر کے اعمال کے باب میں کہا ہے: آگاہ رہو کہ یہ مہینہ نحوست اور برائیوں کو دور کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ کرنا، صدقہ دینے اور دعاؤں اور دعاؤں سے بہتر کوئی چیز نہیں، اور اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس مہینے کی آفات سے محفوظ رہے جیسا کہ فیض وغیرہ نے فرمایا ہے۔ روزانہ دس مرتبہ يَا شَدِيدَ الْقُوىٰ کی دعا پڑھیں۔ علامہ مجلسی نے بھی اپنی چالیس کتابوں میں 28 صفر کا ذکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے کیا ہے۔

ماہ صفر کے اہم واقعات

  • اسیران کربلا و شہداء کے سروں کو شام میں داخل کیا گیا۔ (1 محرم سنہ 61 ہجری)
  • شہادت امام حسن مجتبی علیہ السلام (ایک روایت کے مطابق) (7 صفر سنہ 50 ہجری)
  • ولادت امام موسی کاظم علیہ السلام (7 صفر سنہ 128 ہجری)
  • چہلم امام حسین علیہ السلام (20 محرم سنہ 61 ہجری)
  • وفات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (28 صفر سنہ 11 ہجری)
  • شہادت امام حسن مجتبی علیہ السلام (28 صفر سنہ 50 ہجری)
  • شہادت امام علی رضا علیہ السلام (آخر صفر سنہ 203 ہجری)
  • شہادت حضرت زید بن علی (2 صفر سنہ 101 ہجری)
  • بروایت وفات بی بی فضہ (25 صفر)

حوالہ جات

  1. مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق، داغر، اسعد، قم، دار الهجرة، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق