مندرجات کا رخ کریں

نہج البلاغہ(کتاب)

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 22:12، 8 نومبر 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
نہج البلاغہ(کتاب)
نامنَهجُ البَلاغه
مؤلفین/ مصنفینسید رضی
زبانعربی
زبان اصلیعربی

نہج البلاغہامیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خطبات، خطوط، مختصر جملوں اور حکیمانہ اقوال پر مشتمل ایک کتاب ہے جسے دین اسلام اور شیعیت کی شناخت کے لیے ایک اہم اور غنی منابع شمار کیا جاسکتا ہے۔ نہج البلاغہ کو جناب سید رضیؒ برادر شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مرتب فرمایا تھا۔ آپ شیعہ علماء میں سے ایک تھے گرچہ آپ علیہ السلام کے تمام خطبات اس میں شامل نہیں بلکہ سید رضی کچھ خطبات اور خطوط منتخب کیے تھے جن کی حیثیت مستند و مصدقہ تھی۔ اس کتاب کا مقام عربی ادب اور صحافت و بلاغت میں بہت بلند ہے۔ شیعوں کے نزدیک اسے قرآن و حدیث کے بعد اعلیٰ مذہبی مقام حاصل ہے۔

تعارف

نہج البلاغہ میں علی ابن ابی طالب کے 241 خطبات، 79 خطوط اور 489 مختلف چھوٹی تقریریں اور حکمت بھری مختصر کلمات شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر ان کی اپنی خلافت کے زمانہ میں مسجد کوفہ میں دیے جانے والے خطبات ہیں۔ خطبات کے بنیادی موضوعات توحید، قیامت کی نشانیاں، دنیا کی پیدائش، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور وغیرہ ہیں۔

نہج البلاغہ کی تالیف

نہج البلاغہ شیعوں کی ایک مستند کتاب کا نام ہے جس میں امام علی علیہ السلام کے اقوال اور کلمات کا انتخاب جمع کیا گیا ہے۔

کتاب کی زبان

نہج البلاغہ کتاب کی زبان وہی ہے جو امام علی علیہ السلام کی بولی اور لکھی گئی زبان ہے، یعنی عربی زبان۔ اس کتاب کا فارسی، انگریزی، فرانسیسی، ترکی، اردو، مالائی، جاپانی، چینی، ہسپانوی سمیت دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور مختلف پبلشرز نے اسے شائع کیا ہے۔ نیز اس کتاب کے بارے میں بہت سی تفسیریں لکھی گئی ہیں، بعض کا کہنا ہے کہ ان تفسیروں کی تعداد 300 سے زائد ہے۔

نہج البلاغہ کے حصے

سید رضی نے نہج البلاغہ کے مواد کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

خطبات

نہج البلاغہ کا پہلا حصہ امیر المومنین کے 241 خطبوں پر مشتمل ہے، جو آپ کی زندگی کے مختلف مراحل میں دیے گئے تھے اور مختلف موضوعات جیسے الہیات، عالمی نظریہ، انسانی خصوصیات، حکومت وغیرہ کا احاطہ کرتے ہیں۔ امام علیہ السلام سب سے نمایاں اور معروف خطبوں میں سے ہم خطبہ شقشقیہ اور خطبہ متقین کا ذکر کر سکتے ہیں۔

خطوط

نہج البلاغہ کا دوسرا حصہ امیر المومنین علیہ السلام کی 72 خطوط پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں امام علیہ السلام کی وصیتیں، احکامات، افراد کے لیے احکامات، معاہدے اور امام کے تحریری خطوط جمع کیے گئے ہیں۔ اہم ترین اور مشہور خطوط میں سے ہم امام علی علیہ السلام کی امام حسن علیہ السلام کو وصیت اور مالک اشتر کے حکم کا ذکر کر سکتے ہیں۔

حکمتیں

نہج البلاغہ کا تیسرا حصہ امام علی علیہ السلام کی 480 مختصر اور نصیحت آمیز تقاریر پر مشتمل ہے۔ مختلف تراجم میں اس حصے کے لیے کلمات قصار،حکمت اور نصیحتیں وغیرہ کے عنوانات شامل کیے گئے ہیں۔ یہ قیمتی مجموعہ جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے اور روشن خیالات کے ابھرتے ہوئے اس کی قدر میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ یہ حضرت علی علیہ السلام کی تقاریر، دعاؤں، وصیتوں، خطوط اور مختصر جملوں کا انتخاب ہے۔ علامہ سید شریف رازی رحمۃ اللہ علیہ نے سینکڑوں کتابوں اور منابع میں سے اس لازوال کام کو مرتب و ترتیب دیا[1]۔

نہج البلاغہ کا نام

سید رضی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کو نہج البلاغہ کہا ہے جس کا مطلب بلاغت روش اور راستہ کا ہے۔ کیونکہ یہ کتاب قاری پر بلاغت کے دروازے کھولتی ہے اور بلاغت کے متلاشیوں کو اپنے قریب لاتی ہے۔ اس سے محققین اور طالب علم کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے اور فصیح و عرفان کی خواہش ختم ہو جاتی ہے۔ اس دن سے جب یہ کتاب تہذیب و ادب کی دنیا میں داخل ہوئی، علماء، خطباء اور اہل ادب میں مشہور ہوگئی اور شام، عراق، نجد اور تہامہ میں اس کا ستارہ چمکا [2]۔

نہج البلاغہ میں علی ابن ابی طالب کے 241 خطبات، 79 خطوط اور 489 مختلف چھوٹی تقریریں اور حکمت بھری مختصر کلمات شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر ان کی اپنی خلافت کے زمانہ میں مسجد کوفہ میں دیے جانے والے خطبات ہیں۔ خطبات کے بنیادی موضوعات توحید، قیامت کی نشانیاں، دنیا کی پیدائش، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور وغیرہ ہیں۔

جارج جرداق و نہج البلاغہ

جارج جرداق ایک مشہور عیسائی عرب مصنف ہے۔ اس نے اپنی کتاب "روائع نہج البلاغہ" میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کے بعد یہ سب سے زیادہ فصیح کلام صحیح البخاری ہے۔

دانشمندان جہان و نہج البلاغہ

معروف مصری عالم اور مفتی مصر شیخ محمد عبدہ

معروف مصری عالم اور مفتی مصر شیخ محمد عبدہ (م: 1905 ء) نے کہا کہ : کلام اللہ اور کلام النبی کے بعد حضرت علی کا کلام سب سے بلیغ اور برگزیدہ (اشرف)ہے. عزالدین عبد الحمید ابن ابی الحدید معتزلی جو ساتویں صدی میں اہل سنت کے مشہور ترین دانشور ہیں۔

انھوں نے ایک جگہ (برزخ کے متعلق 221 ویں خطبہ کے ذیل میں) حضرت علی کے بعض کلام کی شرح کے بعد کہا ہے: ”و ینبغی لو اجتمع فصحاء العرب قاطبة فی مجلس و تلی علیھم ، ان یسجدوا لہ کما سجد الشعراء لقول عدی ابن الرقاع: قلم اصاب من الداوة مدادھا ․․․ فلما قیل لھم فی ذلک قالوا انا نعرف مواضع السجود فی الشعر کما تعرفون مواضع السجود فی القرآن “ ۔

اگر عرب کے تمام فصحاء ایک مجلس میں جمع ہوجائیں اور اس خطبہ کا یہ حصہ ان کے سامنے پڑھا جائے توان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اس کے سامنے سجدہ کریں (جیسا کہ روایت بیان ہوئی ہے) جس وقت عرب کے شعرا نے ”عدی بن الرقاع“ کے مشہور شعر کو سنا تو اس کے لیے سجدہ کیا جب ان سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہم شعر میں سجدہ کی جگہ کواسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح تم قرآن مجید میں سجدہ کی جگہ کوپہچانتے ہو۔

ابن ابی الحدید معتزلی

ابن ابی الحدید کہتے ہیں : اس جملہ میں غور و فکر کرو اور دیکھو کہ ابن نباتہ کے پورے خطبہ کے درمیان یہ جملہ کس طرح فریاد کررہا ہے اور اپنی فصاحت و بلاغت کو سننے والوں کے سامنے اعلان کررہا ہے کہ یہ اس خطبہ کے خزانہ کا حصہ نہیں ہے ، خدا کی قسم اسی ایک جملہ نے ابن نباتہ کے خطبہ کو ایسی زینت بخشی ہے جس طرح کسی خطبہ میں قرآن کریم کی ایک آیت پورے خطبہ پر نور افشانی کرتی ہے [3]۔

آخر کار ان کی بات کو ان کی کتاب کے مقدمہ میں ایک جملہ پر ختم کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : ”و امام الفصاحة فھو (علیہ السلام) امام الفصحاء و سید البلغاء و فی کلامہ قیل : دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوقین و منہ تعلم الناس الخطابة والکتابة “ ۔

ان کی فصاحت ،فصحاء اور بلغاء کی فصاحت کی سردار ہے لہذا ان کے کلام کے متعلق کہا گیا ہے : کہ یہ خالق کے کلام سے کم اور مخلوق کے کلام سے زیادہ ہے اور لوگوں نے خطابت کی راہ و رسم اسی کتاب سے سیکھی ہے [4]

جارج جرداق

جارج جرداق: لبنان کے مشہور عیسائی مصنف نے اپنی قیمتی کتاب ”الامام علی صوت العدالة الانسانیة“ میں حضرت علی (علیہ السلام) کی شخصیت کے متعلق اس طرح کہا ہے : بلاغت میں آپ کا کلام سب سے بلیغ ہے ، آپ کا کلام ، قرآن کے مقام سے کم ہے جس میں عربی زبان کی تمام خوبصورتیاں جمع ہو گئی ہیں [5] ،یہاں تک کہ مولی علی (علیہ السلام) کے متعلق کہاہے : ان کا کلام ، خالق کے کلام سے کم اور مخلوق کے کلام سے زیادہ ہے [6]۔

جاحظ

جاحظ جن کا شمار عرب کے بزرگ ادبا اور نوابغ میں ہوتا ہے، انھوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب "البیان والتبیین" میں حضرت علی کے کچھ کلمات کو نقل کیا ہے اور آپ کی تعریف و توصیف بیان کی ہے ،جس وقت اپنی کتاب کی پہلی جلد میں مولی کے ایک کلمات قصار(قیمة کل امرء ما یحسنہ انسان کی قیمت وہ ہنر ہے جو اس شخص میں ہے پر پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں :

اگر اس کتاب میں صرف یہی جملہ ہوتا تو کافی تھا ، بلکہ کفایت کی حد سے زیادہ کہا ہے : کیونکہ بہترین بات یہ ہے کہ آپ کو اس کی کم مقدار ، زیادہ سے بے نیاز کر دے اور اس کا مفہوم ظاہر اور آشکار ہو ،گویا خداوند عالم نے اپنی عظمت و جلالت کا جامہ اور نور و حکمت کا پردہ اس کے اوپر ڈال رکھا ہے جو بولنے والے کی پاک و پاکیزہ نیت، بلندفکر اور بے نظیر تقوی سے سازگار ہے [7]۔

امیر یحیی علوی

کتاب ”الطراز “ کے مصنف (امیر یحیی علوی) نے اپنی کتاب میں جاحظ کا یہ جملہ نقل کیا ہے جس میں کہا ہے : یہ مرد جو فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہے، انھوں نے اپنے بیانات میں اس طرح کہا ہے : مولی علی علیہ السلام کے کلام کے علاوہ کبھی بھی میرے کانوںنے خدا اور پیغمبر اکرم کے کلام کے بعد ایسا کلام نہیں سنا جس کا میں نے مقابلہ نہ کیا ہو لیکن مولی علی کے کلام سے مقابلہ کرنے کی مجھ میں کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

مولی کا ایساکلام جس میں آپ نے فرمایا : ” ما ھلک امرء عرف قدرہ“۔ جو اپنے وجود کی قیمت کو پہچان لے وہ کبھی ہلاک نہیں ہوگا ۔ ” من عرف نفسہ عرف ربہ“ ۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کوپہچان لیا ۔ ” المرء عدو ما جھل“ ۔ انسان جس چیز کو نہیں جانتا اس کا دشمن ہوتا ہے ۔ ” و استعن عمن شئت تکن نظیرہ و احسن الی من شئت تکن امیرہ و احتج الی من شئت تکن اسیرہ“۔جس سے بھی تم کچھ چاہتے ہو اس سے بے نیاز ہوجاؤ تاکہ اسی کے جیسے ہو جاؤ اور جس کے ساتھ چاہو نیکی کرو تاکہ اس کے امیر اور سردار ہوجاؤ اور جس کے چاہو اس کے محتاج ہوجاؤ تاکہ اس کے غلام اور سیر بن جاؤ !۔

اس کے بعد مزید کہتے ہیں : جاحظ اپنی اس بات میں انصاف کے ساتھ نظر کرو اوراس کی کوئی دلیل نہیں ہے مگر یہ کہ علی کرمﷲ وجہہ کی بلاغت نے ان کے کانوں کے پردے ہلا دیے ہیں اور اعجاز و فصاحت کی وجہ سے ان کی عقل حیران ہو گئی ہے ، جب جاحظ جیسے آدمی کا یہ حال ہے جن کو بلاغت میں ید بیضا حاصل ہے تو پھر دوسروں کی تکلیف واضح اور روشن ہے [8]

محمد غزالی

امام محمد غزالی نے اپنی مشہور کتاب ”نظرات فی القرآن“ میں سازجی کی سفارش کو نقل کیا ہے اس کی عین عبارت یہ ہے : ” اذا شئت ان تفوق اقراتک فی العلم والادب صناعة الانشاء فعلیک بحفظ القرآن و نہج البلاغہ“ ۔ اگرتم چاہتے ہو کہ علم ،ادب اور تحریر میں سب سے برتر و بلند ہوجاؤ تو قرآن کریم اور نہج البلاغہ کو حفظ کرنے کی کوشش کرو۔

یقینا اسی دلیل کی وجہ سے مشہور مفسر شہاب الدین آلوسی نے ( نہج البلاغہ کا تذکرہ کرتے ہوئے) کہا ہے ، اس کتاب کا یہ نام اس لیے ہے کہ یہ ایسے کلمات پر مشتمل ہے جس کے بارے میں انسان تصور کرتا ہے کہ یہ مخلوق کے کلام سے بلند اور خالق کے کلام سے کم ہے ، یہ ایسے کلمات ہیں جو اعجاز سے نزدیک ہیں اور حقیقت ومجاز میں ایجادات اور ابتکار سے کام لیا گیا ہے۔

شیخ محمد عبد

نہج البلاغہ کے مشہور و معروف شارح شیخ محمد عبد،اہل سنت کے بزرگ اور مشہور عالم ، عرب کے مشہور مصنف نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس بات کا اعتراف کرنے کے بعد کہ نہج البلاغہ سے ان کی آشنائی اتفاقی طور پر ہوئی ہے، نہج البلاغہ کے متعلق بہت بلند مطالب بیان کیے ہیں جیسے :

میں نے جب نہج البلاغہ کے بعض صفحات کا مطالعہ کیا اور اس کی بعض عبارتوں میں غور و فکر کیا اور اس کے مختلف موضوعات پر توجہ کی تو میری نظر میں اس طرح سے مجسم ہو گیا کہ گویا اس کتاب میں عظیم جنگ بپا ہے وحکومت بلاغت کے ہاتھ میں اور قدرت فصاحت کے اختیار میں ہے ، اوہام اور نصیحتیں بے ارزش ہیں ، خطابت کی فوج اور فصاحت کے لشکر نے اوہام پر حملہ کیا ہے اور قوی دلایل کے اسلحہ سے وسوسوں اور اوہام پر حملہ کیا ہے ۔

باطل قدرت کو ہر جگہ شکست دی ہے ، شک و تردیک کو درہم و برہم کر دیا ہے، اوہام کے فتنوں کو خاموش کر دیا ،میں نے دیکھا کہ اس حکومت کا حاکم اور کمانڈر اور اس کا کامیاب علمبردار صرف اور صرف امیرالمومنین علی بن ابی طالب ہیں۔

سبط بن جوزی

سبط بن جوزی جو خود اہل سنت کے ایک خطیب، مورخ اور مفسر ہیں ، نے اپنی کتاب تذکرة الخواص میں ایک چھوٹا سا جملہ تحریر کیا ہے : ” وقد جمع اللہ لہ بین الحلاوة والملاحة والطلاوة والفصاحة لم یسقط منہ کلمة و لا بارت لہ حجة ، اعجزالناطقین و حاز قصب السبق فی السابقین الفاظ یشرق علیھا نور النبوة و یحیر الافھام والالباب“۔

خداوند عالم نے حلاوت، خوبصورتی اور فصاحت کے امتیازات کو حضرت علی کے وجود میں جمع کر دیا ہے ،کوئی کلمہ ان سے ساقط نہیں ہوا ہے اورکوئی حجت و دلیل ان کے ہاتھ سے نہیں چھوٹی ہے ۔ انھوں نے تمام خطباء کو ناتوان کر دیا ہے گو یا انھوں نے سب پر سبقت حاصل کرلی ہے ،ایسے کلمات جن پر نبوت کا نور چمک رہا ہے ، افکار و عقول ان کلمات سے حیران ہو گئے ہیں.

شیخ بہائی

شیخ بہائی نے اپنے کشکول میں کتاب الجواہر سے ابو عبید کا قول نقل کیا ہے : علی (علیہ السلام) نے نو جملے کہے ہیں ، عرب کے فصیح اور بلیغ علما ان جیساایک جملہ بھی نہیں لا سکتے ، آپ نے تین جملہ مناجات میں ، تین جملہ علوم میں اور تین جملہ ادب میں بیان فرمائے ہیں پھر ان نو جملوں کی وضاحت کی ہے جن میں سے بعض نہج البلاغہ اور بعض کلمات دوسری کتابوں میں موجود ہیں [9]۔

نہج البلاغہ سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے اقوال کے مختلف مجموعات

نہج البلاغہ سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے اقوال کے مختلف مجموعات ترتیب دئے جاچکے تھے جیسے زیدبن وہب الجہنی (م:۱۶ھ)کا ترتیب کردہ ’’خطب امیر المؤمنین علیہ السلام ‘‘ ، اسی طرح الأصبغ بن نباتۃ (م:۱۰۰ ھ کے بعد) نے ایک مجموعہ ترتیب دیا تھا۔ نصر بن مزاحم النقری (م: ۲۰۲ھ) ، اسماعیل بن مہران (م:۵۰۲ھ)، الواقدی(م:۷۰۲ھ) اور مسعدۃ بن صدقۃ نے بھی حضرت علی کے اقوال کے مجموعات ترتیب دئے ہیں۔

الخطیب الراؤندی نے ایک حجازی عالم سے روایت کی ہے کہ انہوں مصر میں حضرت علی کے اقوال کاتقریباً اجزاء میں مجموعہ دیکھا ہے۔ یہ بات آقا بزرگ طہرانی نے بھی بیان کی ہے۔ اس طرح کے مختلف مجموعوں کی تعداد ( ۶۲) بتائی گئی ہے[10]۔

سید رضی

سید رضی نے اس کتاب میں جگہ جگہ پر نہج البلاغہ کے مضامین کی عظمت کی طرف اشارہ کیا ہے جو قابل ملاحظہ ہے، آپ اکیسویں خطبہ کے ذیل میں کہتے ہیں : "ان ھذا الکلام لو وزن بعد کلام اللہ سبحانہ و بعد کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بکل کلام لمال بہ راجحا و برز علیہ سابقا"۔ سید رضی فرماتے ہیں کہ کلام خدا و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا اور ہر حیثیت سے بڑھے چڑھے رہیں گے ۔

انھوں نے اکیسویں خطبہ "فان الغایة امامکم و ان ورائکم الساعة تحدوکم، تخفوا تلحقوا فانما ینتظر باولکم آخرکم"۔ تمھاری منزل مقصود تمھارے سامنے ہے،موت کی ساعت تمھارے عقب میں ہے جو تمھیں آگے کی طرف لے جارہی ہے، ہلکے پھلکے رہو تاکہ آگے بڑھنے والوں کو پا سکو ، تمھارے اگلوں کو پچھلوں کا انتظار کرایا جارہا ہے ۔ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کلام خدا و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد جس کلام سے بھی ان کلمات کا موازنہ کیا جائے تو حسن و خوبی میں ان کا پلہ بھاری رہے گا ۔

کلمات قصارکی 81 ویں حکمت کے ذیل میں بھی اسی معنی کے مشابہ بیان کیے ہیں اور کہا ہے : یہ ایک ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہو سکتا ہے [11]۔ نہج البلاغہ میں علی ابن ابی طالب کے 241 خطبات، 79 خطوط اور 489 مختلف چھوٹی تقریریں اور حکمت بھری مختصر کلمات شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر ان کی اپنی خلافت کے زمانہ میں مسجد کوفہ میں دیے جانے والے خطبات ہیں۔ خطبات کے بنیادی موضوعات توحید، قیامت کی نشانیاں، دنیا کی پیدائش، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور وغیرہ ہیں۔ نہج البلاغہ میں پیغمبر اسلام (ص) کی شخصیت پر غور انتہائی ضروری ہے

حوزہ / مدیر حوزہ علمیہ نے حوزہ اور معاشرے کے درمیان ربط کے لیے نظریہ پردازیِ واسط کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: رسالت «بلاغ مبین» کو موجودہ عالمی تحولات کے پیمانے پر دوبارہ بیان اور تعریف کرنا ضروری ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی کے مطابق، مدیر حوزہ علمیہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے امام خمینی (رح) علمی و تحقیقی انسٹی ٹیوٹ قم میں منعقدہ نئے تعلیمی سال کے افتتاحی تقریب میں اساتذہ، محققین اور طلاب کو نئے تعلیمی سال کی مبارکباد پیش کی اور میلاد پیامبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و امام جعفر صادق علیہ السلام اور پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پندرہ سوویں سالگرہ کی مناسبت سے تبریک پیش کی۔ ساتھ ہی انہوں نے مؤسسه امام خمینی (رحمہ اللہ علیہ) کی علمی و تحقیقی خدمات کو بھی سراہا۔

انہوں نے آیت اللہ مصباح یزدی (رحمہ اللہ علیہ) کی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: وہ امام خمینی (رحمہ اللہ علیہ) اور انقلاب اسلامی کے بزرگان میں سے تھے اور تاریخِ انقلاب کے ہر نشیب و فراز میں اسلامی فکر کے محافظ اور نظام اسلامی کے نظریات اور اقدار کے مدافع رہے۔ ولایت فقیہ کے دفاع میں وہ شجاع اور پیشتاز شخصیت تھے اور ان کی علمی میراث، حوزات علمیہ اور جامعات کے لیے قیمتی خزانہ ہے۔

فقہاء گارڈین کونسل کے اس رکن نے مزید کہا: نہج البلاغہ کی خطبات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت پر غور ضروری ہے۔ نہج البلاغہ کے ۴۵ مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ بعثت ایک مقامی واقعہ نہیں بلکہ عالمی اور تاریخ ساز واقعہ ہے۔

انہوں نے کہا: بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ رسالتِ پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف جزیرہ العرب کے زوال پذیر معاشرے تک محدود تھی حالانکہ نہج البلاغہ کے بیانات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ ان کی بعثت کا پیغام عالمگیر اور بشریت کے لیے نجات بخش تھا۔

نہج البلاغہ میں پیامبر اسلام (ص) کی شخصیت پر غور انتہائی ضروری ہے

مدیر حوزہ علمیہ نے کہا: اگر کوئی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بلند شخصیت کو پہچاننا چاہے تو اسے نہج البلاغہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے سوا کوئی ایسا نہیں جو اس عظیم مقام کی عمیق و دقیق تصویر پیش کرے۔ یہ بیانات نہ صرف بعثت کے سماجی پہلو کو آشکار کرتے ہیں بلکہ پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندانی و الٰہی مقام کو بھی بیان کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: امیرالمؤمنین علیہ السلام کے بیانات پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصی و خاندانی عظمت کو بھی نمایاں کرتے ہیں اور بعثت کے زمانے کا سماجی تجزیہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ دونوں جہات ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ فرد کی ارادی قوت، خاندانی طہارت اور اتصالِ الٰہی ہر طرح کے فساد اور مادی طاقتوں پر غالب آ سکتے ہیں۔

آیت اللہ اعرافی نے طلاب کو نہج البلاغہ سے انس رکھنے کی تاکید کی اور کہا: نہج البلاغہ طلاب کے ساتھ ہمیشہ ہونی چاہیے۔ یہ کتاب صرف بلند معارف کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ ادب فاخر، روحِ حماسی، جہادی اور اخلاقی مضامین سے آمیختہ ہے۔ یہاں اخلاق، مدیریت، حاکمیت اور حتیٰ کہ جنگ کے میدان سے جڑا ہوا ہے، اس لیے نہج البلاغہ ایک طرف معرفتی اور دوسری طرف عملیاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: رہبر معظم انقلاب کا پیغام، حوزہ علمیہ کے مستقبل کے لیے نقشۂ راہ ہے۔ یہ پیغام کمزوریوں کو نظر انداز نہیں کرتا بلکہ کامیابیوں کو اجاگر کرتا اور ضعف کو دور کرنے کی یاد دہانی بھی کراتا ہے۔ درست تفسیر یہ ہے کہ ہم متوازن نگاہ سے ایک طرف افتخارات و امکانات کو دیکھیں اور دوسری طرف اصلاحی کمزوریوں کو پورا کرنے کی بھی کوشش کریں[12]۔ == قائد ملت جعفریہ پاکستان کا "نہج البلاغہ کانفرنس 2025ء" کے لئے خصوصی پیغام؛ == امام عادل (ع) کے فصیح و بلیغ کلام کو آئندہ نسلوں بلکہ نسلِ انسانیت تک منتقل کرنا عہدِ حاضر کی نہایت اہم ضرورت ہے مرکز افکار اسلامی کی جانب سے پاکستان کے شہر جنڈ میں واقع دینی درسگاہ جامعہ جعفریہ جنڈ میں مدرسہ ہذا کا سالانہ اجتماع بعنوان "نہج البلاغہ کانفرنس 2025ء" منعقد ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، مرکز افکار اسلامی کی جانب سے پاکستان کے شہر جنڈ میں واقع دینی درسگاہ جامعہ جعفریہ جنڈ میں 2 نومبر 2025ء بروز اتوار مدرسہ ہذا کا سالانہ اجتماع بعنوان نہج البلاغہ کانفرنس 2025ء منعقد ہوا۔ جس میں علاقہ بھر کے علماء و مومنین نے بھرپور شرکت کی اور مختلف علماء و خطباء کے بیانات سے مستفید ہوئے۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے بھی اس کانفرنس کے نام اپنا خصوصی پیغام ارسال کیا۔جس کا متن حسبِ ذیل ہے:

جامعہ جعفریہ جنڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر گذشتہ کئی سالوں سے نہج البلاغہ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جو مرکز افکار اسلامی کے سربراہ جناب مولانا مقبول حسین علوی صاحب اور ان کے رفقاء کی شبانہ روز کاوشوں اور زحمات کا تسلسل ہے۔ جس کی وجہ سے بیرون ملک اور پاکستان میں سال بھر میں علم و حکمت سے لبریز خطبات امیر المومنین (ع) پر مشتمل عظیم خزانہ نہج البلاغہ کے تعارف اور اہمیت کے حوالے سے پروگرامز منعقد کئے جاتے رہتے ہیں۔ جس سے لوگوں کے فکر و شعور میں اضافہ ہو رہا ہے۔

امام عادل علیہ السلام کے فصیح و بلیغ کلام کو آئندہ نسلوں بلکہ نسل انسانیت تک منتقل کرنا عہد حاضر کی نہایت اہم ضرورت ہے اور اس کے لئے مرکز افکار اسلامی کے ذمہ داران کے ساتھ ہمکاری کرتا احسن عمل ہے۔ اس بار یہ اجتماع پیکر اخلاص، عالم ربانی مولانا سید رضی عباس ہمدانی مرحوم کی یاد منانے کے لئے بھی منعقد ہو رہا ہے۔ ہم مرحوم کے درجات کی بلندی اور پسماندگان کے صبر و حوصلہ کی دعا کرتے ہیں۔

مولائے کائنات کے معارف اسلامی پر مبنی خطبات فصاحت و بلاغت کا بے مثال نمونہ ہیں۔ اس کے عجیب ترین امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ یہ اپنے اصلی مآخذ قرآن مجید کی طرح فکری، سیاسی اور اخلاقی نظریات کے قدیم ہونے کے باوجود اس کے بیانات، تحلیل اور اس کی منطق تازہ اور جدید ہے۔ گویا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی زبان مبارک سے عہد حاضر ہی کے لئے صادر ہوئے ہیں۔

انسانی معاشرہ کے پیچیدہ مشکلات کے اس دور میں جب مختلف فکری مذاہب کے ظہور، دنیا پرستوں کی طرف سے اعتقادات، اخلاق، تقوی اور فضیلت پر حملے ہونے کا زمانہ ہے، ایسے میں نہج البلاغہ کا فصیح و بلیغ کلام ہدایت ورہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔

حقائق و معارف سے لبریز کم و بیش 241 خطبات میں عقائد، احکام، افراد، حیوانات، نباتات، افلاک و کواکب، معدنیات، تاریخی شہروں و واقعات کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ادعیہ کے بیان میں جو طرزِ اسلوب اور جاذبیت ہے وہ علم و کمال کے متلاشی افراد کے لئے مینارۂ نور ہے۔

حضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے سیاستِ الہیہ کو جس مفصل اور مدلل انداز میں بیان کیا وہ انتہائی بے مثال ہے۔ زندگی کے نئے طور طریقے سامنے آرہے ہیں۔ نہج البلاغہ کا مطالعہ کرتے وقت فکر و عمل کے نئے زاویوں کے بارے رہنمائی حاصل کی جائے۔ دنیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ نئے نئے مسائل اور چیلنجز سامنے آ رہے ہیں، نہج البلاغہ کا مطالعہ کرتے وقت ان مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھا جائے تو مسائل اور چیلنجز کا بہتر حل دریافت ہو سکتا ہے۔

آخر میں، میں نہج البلاغہ کانفرنس کے منتظمین اور جامعہ جعفریہ جنڈ کے مسئولین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی توفیقات خیر میں اضافے کے لئے دعاگو ہوں اور حاضرین سے بجا طور پر توقع کرتا ہوں کہ اس کانفرنس سے بھر پور استفادہ کریں گے اور خاص طور پر نوجوان نسل اپنی فکری و عملی تربیت کے لئے اس سے مستفیذ ہو گی۔

سید ساجد علی نقوی

2 نومبر 2025ء[13]۔

نہج البلاغہ علم و ادب، حکمت اور تہذیبی تربیت کا عظیم مکتب ہے

مدیر حوزہ‌ علمیہ نے کہا: ہم اس حقیقت کے قائل ہیں کہ نئی سمارٹ ٹیکنالوجیز میں بے مثال مواقع موجود ہیں لیکن فرد، خاندان، معاشرے اور نظامِ حکمرانی کے لیے سنگین خطرات بھی موجود ہیں لہذا ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔

مدیر حوزہ‌ علمیہ آیت اللہ علی رضا اعرافی نے قم المقدسہ میں نماز جمعہ کے خطبوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: علم حاصل کرنا اور دانش و ٹیکنالوجی کی سرحدوں کو وسیع کرنا ایک پسندیدہ اور درست عمل ہے اور اسلام نے ایسے اصول و ضوابط پیش کیے ہیں جو علمی حدود کی توسیع، تمام علمی و تکنیکی میدانوں میں انسانی پیشرفت اور عالمِ طبیعت سے مثبت استفادہ کی ترغیب دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا: بعض انحرافات انسان کو اخلاقی و دینی اقدار کی سرحدیں توڑنے کی طرف لے جاتے ہیں جس کا نتیجہ اخلاق، خاندان اور مؤمنانہ و سالم معاشرتی زندگی کا بکھر جانا ہے۔ ساتھ ہی یہ صورتحال عالمی خودمختار حکمرانی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ عالمی استعمار انہی ٹیکنالوجیز کو مختلف قوموں کے استقلال کو کمزور کرنے اور ان کی فکری و ثقافتی سمت تبدیل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ ان کی خود اعتمادی اور آزادی سلب کر لی جائے۔

مدیر حوزہ‌ علمیہ نے کہا: ہم اس حقیقت کے قائل ہیں کہ نئی سمارٹ ٹیکنالوجیز میں بے مثال مواقع موجود ہیں لیکن فرد، خاندان، معاشرے اور نظامِ حکمرانی کے لیے سنگین خطرات بھی موجود ہیں۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ ہمارے خاندانی اور تعلیمی تربیتی نظام کو ایسا ہونا چاہیے کہ نئی نسل ان خطرات سے واقف ہو اور مناسب رہنمائی، نگرانی اور تربیت کے ساتھ پروان چڑھے۔

امام جمعہ قم نے نہج البلاغہ کو علم، سیرت اور مواقفِ امام علی علیہ السلام کی عظیم نشانی قرار دیتے ہوئے کہا: نہج البلاغہ کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اپنی اوج اور کمال پر ہے۔ یہ کتاب محض علمی موضوعات تک محدود نہیں بلکہ یہ ادب، حکمت اور تہذیبی تربیت کا عظیم مکتب بھی ہے جسے سید رضیؒ نے بغداد میں جمع کیا۔

خطیب جمعہ قم نے نہج البلاغہ کی گہرائی اور فکری پہلو کو اس کا دوسرا امتیاز قرار دیا اور کہا: نہج البلاغہ میں توحید، معاد، دنیا شناسی اور حکمرانی جیسے دقیق و عمیق معارف انتہائی دلکش اور ادبی قالب میں پیش کیے گئے ہیں۔ معارفِ الٰہیہ کے پاکیزہ چشمے اس کتاب سے پھوٹتے ہیں اور یہ امتیاز نہج البلاغہ کو منفرد اور بے نظیر بناتا ہے۔

آیت اللہ اعرافی نے نہج البلاغہ کے خطبہ 83 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: "الْآنَ عِبَادَ اللَّهِ وَ الْخِنَاقُ مُهْمَلٌ وَ الرُّوحُ مُرْسَلٌ فِی فَیْنَةِ الْإِرْشَادِ وَ رَاحَةِ الْأَجْسَادِ وَ بَاحَةِ الِاحْتِشَادِ وَ مَهَلِ الْبَقِیَّةِ وَ أُنُفِ الْمَشِیَّةِ' اے بندگانِ خدا! ابھی فرصت ہاتھ میں ہے، موت کی گرفت سخت نہیں ہوئی، روح آزاد ہے، بدن آسائش میں ہے، لہٰذا نیکی اور توبہ میں دیر نہ کرو کیونکہ کل بہت دیر ہو سکتی ہے اور شاید تمام مواقع چھن جائیں۔ انہوں نے کہا: امام علی علیہ السلام آگاہ کرتے ہیں کہ انسان کو تنگی، سختی اور آخرت کی طرف رخ کرنے سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح اور توبہ کر لینا چاہیے۔

امام جمعہ قم نے کہا: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے نزدیک ہیں اور یہ قرب صرف نسبی نہیں بلکہ ولائی، معرفتی اور روحانی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "أنا مدینة العلم و علی بابها" یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبوی علم و حکمت تک رسائی کا راستہ امام علی علیہ السلام کی ولایت اور پیروی میں ہے[14]۔

متعلقہ تلاشیں

حوالہ جات

  1. حسن منتظری، آشنایی با نهج‌البلاغه، مرکز مطالعات و پژوهش‌های فرهنگی حوزه علمیه.
  2. شرح نهج‌البلاغه، ص 7.
  3. شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج2، ص 84۔
  4. شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج1، ص 24۔
  5. ترجمہ و تنقید از کتاب الامام علی ندای عدالت انسانیت
  6. الطراز، ج 1، ص 165 ۔ 168۔
  7. الطراز، ج 1، ص 165 ۔ 168۔
  8. الطراز، ج 1، ص 165 ۔ 168۔
  9. کشکول، شیخ بہائی، ج 3، ص 397۔
  10. ڈاکٹر ظفرالاسلام خان ’حضرت علیؓ سے بغض رکھنے والا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ہے- شائع شدہ از: 6 جون 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 جنوری 2025ء۔
  11. عبقریة الشریف الرضی ،ج 1 ، ص 396۔
  12. نہج البلاغہ میں پیغمبر اسلام (ص) کی شخصیت پر غور انتہائی ضروری ہے- شائع شدہ از: 17 ستمبر 2025ّء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 17 ستمبر 2025ء
  13. امام عادل (ع) کے فصیح و بلیغ کلام کو آئندہ نسلوں بلکہ نسلِ انسانیت تک منتقل کرنا عہدِ حاضر کی نہایت اہم ضرورت ہے- شائع شدہ از: 4 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 4 نومبر 2025ء
  14. نہج البلاغہ علم و ادب، حکمت اور تہذیبی تربیت کا عظیم مکتب ہے، آیت اللہ اعرافی- شائع شدہ از: 8 نومبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 نومبر 2025ء