جمال الدین افغانی اور اقبال

جمال الدین افغانی اور اقبال سید جمال الدین اسد آبادی افغانی انیسویں صدی عیسوی کے صف اول کے با اثر مسلمان زعما میں سے تھے۔ علامہ اقبال نے ا ن کی مساعی و نظریات کا بڑا اثر قبول کیا ہے۔ علامہ مرحوم نے اپنی تصانیف اور بیانات میں افغانی کاکئی بار ذکر کیا اور ان کی متنوع اور انقلابی خدمات کو سراہا ہے۔ ’’بمبئی کرانیکل ‘‘ کے ایک نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے پین اسلامزم کی اصلاح سے بحث کی اور ا فغانی کی اس فکر صائب کو سراہا کہ افغانستان، ایران اور ترکی کو برطانیہ کے استعماری عزائم کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے [1]۔
اپنے انگریزی خطبات میں علامہ نے ایک جگہ افغانی کی تحریک اتحاد عالم اسلامی کی طرف ضمنی اشارہ کیا اور اسی کتاب کے چوتھے خطبے ’’انسانی انا، اس ی حریت اور باقا‘‘ میں فرمایا ہے :’’ ہمارا فرض ہے کہ ماضی سے اپنا رشتہ توڑے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر کے دوبارہ غور کریں۔ بظاہر شاہ ولی اللہ دہلوی نے سب سے پہلے بیداریِ روح کا احساس دلایا مگر اس کام کی اہمیت کا اندازہ شید جمال الدین افغانی کو تھا جو اسلام کی ملی حیات اور ذہنی تاریخ میں عمیق نظر رکھنے کے علاوہ انسانی عادات و خصائل کا بے نظیر تجربہ رکھتے تھے۔
ان کی نظر میں بری وسعت تھی اس لئے ان کی ذات ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک زندہ رابطہ بن سکتی تھی۔ اگر ان کی عدیم النظیر صلاحیتیں اس کا (اسلامی اجتہاد) کی خاطر وقف ہوتیں اور وہ اسلامی علم و عمل کی قوتوں کو مزید نمایاں کر لیتے، تو ہم مسلمان آج فکری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکتے تھے۔ ‘‘[2]۔
اقبال کی نگاہ میں جمال الدین افغانی کا مقام
اقبال کے دوسرے بیان میں بھی افغانی کا ارادت مندانہ ذکر ملتا ہے۔ 1934 ء۔ 1935ء میں انہوں نے احمدیت اور قادیانیت کے بارے میں چند بیانات دیئے۔ عجیب بات ہے کہ آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو بھی اپنے خاص مقاصد کے تحت اس معاملے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ پنڈت جی کے ایک بیان کے جواب میں علامہ نے تجدید دی کے موضوع پر گفتگو فرمائی اور متاخر مسلمان مصلحین کا ذکر کیا۔ آپ نے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی، سر سید احمد خاں، مفتی عالم جان، سید جمال الدین افغانی اور مفتی شیخ محمد عبدہ کے بارے میں فرمایا کہ
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو مذہبی اور روحانی پیشوائیت کے دعویداروں کے ہاتھوں اور ملوکیت کے چنگل سے نجات پانے کی راہ بتائی اور ان ہی کی مساعی کے نتیجے میں سعد زاغلول پاشا،مصطفی کمال پاشا اتاترک اور شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی اصلاحات ممکن ہو سکی ہیں۔ اس سیاق میں آپ فرماتے ہیں :’’ قدرت خداوندی کے انداز بھی حیرت انگیز ہیں دینی فکر و عمل کے لحاظ سے موجود ہ دور کا سب سے ترقی یافتہ مسلمان افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔۔۔ ‘‘
مولانا سید جمال الدین افغانی نے لکھا کم اور کہا بہت ہے اور اس طریقے سے انہوں نے عالم اسلام کے جن با استعداد افراد سے ملاقات کی، انہیں اس بلا خیز شخصیت اور اسلام کے بطل جلیل نے چھوٹے چھوٹے ’جمال الدین ‘ بنا دیا۔ انہوں نے کبھی بھی مجدد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا مگر اس زمانے میں ’روح اسلام ‘ کو ان سے زیادہ کسی دوسرے نے تڑپ نہیں دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی بے قرار روح اب بھی سرگرم عمل ہو گی اور کیا خبر ان سرگرمیوں کی انتہا کیا ہو گی؟‘‘[3]۔
حضرت افغانی کے افکارو نظریات کا ایک معنی خیز خلاصہ علامہ اقبال کی شاہکار تالیف ’’جاوید نامہ‘‘ کے ’’فلک عطارد‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پورے باب میں افغانی اور ان کے ایک معتقد شہزادے سعید حلیم پاشا (مقتول 4 دسمبر 1921ء) کی تعلیمات کا عصارہ موجود ہے مگر اس کی کیفیت بیان کرنے کی خاطر افغانی کی حیات، تصانیف اور افکار کے بارے میں ایک تحقیقی شذرہ پیش کرنا اور ان ے بارے میں اردو، انگریزی، عربی اور فارسی میں موجود مآخذ پر ایک نظر ڈالنا ناگزیر ہے۔ البتہ اس گفتگو کو مجمل و مختصر رکھا جائے گا۔
استعمار کے خلاف جد وجہد
وہ ایک ترقی پسند اور ہمہ گیر اجتہادی نقطہ نظر رکھنے والے مسلمان تھے، دوسروں کی اندھا دھند تقلید کے بے حد مخالف تھے، نتائج ے بے پروا ہو کر حق گوئی، اسلامی اتحاد و اخوت اور مشترکہ دفاعی قوتوں کے یکجا ہونے کی خاطر کام کرنا، عالم اسلام کے مسلمانوں کو ممکن حد تک استعمار پسندوں کے عزائم یس آگاہ کرنا اور ان کی قوتوں کو میدان عمل میں گامزن کرنے کی خاطر سعی کرنا، افغانی کی سیرت و فعالیت کے خاص پہلو میں، ان کی نگاہوں میں جذب و تاثیر، زبان اور قلم میں غیر معمولی زور اور ظاہری رعب و جلال تھا۔
وہ کم خور و کم خواب شخص تھے، صرف دوپہر کا کھانا کھاتے، رات کو بہت کم سوتے اور آہ سحری سے بہرہ ور تھے، کاتکوف روسی، ارنسٹ ریناں، بلنٹ اور ای، جی، براؤن جیسے مستشرقین ان کی معنوی صفات سے بے حد اثر پزیر ہوئے ہیں، ارنسٹ ریناں لکھتا ہے کہ اس نے ایسا منفرد اور انقلابی مسلمان پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، براؤن نے انہیں ایک زبردست صحافی، صاحب قلم، عظیم مفکر، خطیب اور سیاست دان کے طور پر یاد کیا ہے، افغانی بڑے خود دار اور خود شناس شخص تھے، افغانستان، ایران، ترکی اور مصر کے حکام و سلاطین کے ساتھ ان کے برابر کے روابط تھے۔
افغانی اور اقبال
اتحاد عالم اسلامی کے سلسلے میں افغانی کی مساعی اور افکار کی ایک جھلک ہم نے پیش کر دی ہے، اقبال اور افغانی کے درمیان یہ ایک بہت بڑا مشترک عامل ہے۔ افغانی، شیخ محمد عبدہٗ اور سعید حلیم پاشا کے بعد غالباً ہی وہ عظیم مفکر ہیں جنہوں نے پین اسلامزم کی خاطر بے حد توانائی صرف کی ہے اور اس کے ذکر سے علامہ مرحوم کی کوئی ایک شعری یا نثری رہے اور اسلامی اجتہادی فکر ونظر کے سلسلے میں بھی دونوں کے افکار یکساں ہیں۔ غرض افغانی سے علامہ فکری اور عملی دونوں لحاظ سے بے حد متاثر ہوئے اور اس کی نمایاں ترکیفیت ’’جاوید نامہ‘‘ میں نظر آتی ہے۔
سید السادات مولانا جمال
وھو ھذا: فلک قمر سے گزرنے کے بعد اقبال، مولانا جلال الدین رومی کی معیت میں فلک عطارد پر پہنچتے ہیں۔ یہاں انہیں آواز اذان سنائی دی، وہ آگے بڑھ کر کیا دیکھتے ہیں کہ جمال الدین افغانی امامت فرما رہے ہیں اور سعید حلیم پاشا تاتار اقتدار کر رہے ہیں۔ رومی نے فرمایا: عصر حاضر کے مشرق میں ان دو افراد سے بہتر لوگ عالم وجود میں نہیں آئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر جان کھپائی ہے:
| سید السادات مولانا جمال | زندہ از گفتارِ او سنگ و سفال |
| ترک سالار آں حلیم درد مند | فکرِ او مثلِ مقامِ او بلند |
ایک سیدالسادات جمال الدین جن کی گفتگو سے پتھر میں جان پڑ جائے،دوسرے تر کی نژاد،دردمند، ترک سالار (حلیم پاشا) جن کی فکر ان کے مقام کی طرح بلند ہے۔ رومی اور اقبال بھی شریک نماز ہو جاتے ہیں۔
سورۂ و النجم و آں دشتِ خموش!
افغانی سورہ ’’النجم‘‘ کی قرأت فرما رہے تھے اور ان کا سوز قرأت حد بیان سے باہر ہے۔ اقبال(زندہ رود) نماز کے بعد از راہ عقیدت افغانی کی دست بوسی کرتے ہیں اور افغانی ان سے عالم اسلام کے بارے میں پوچھتے ہیں:
| قرأت آں پیر مردے سخت کوش | سورۂ و النجم و آں دشتِ خموش! |
دل از و در سینہ گردد ناصبور
شور الا اللہ خیزد از قبور!
من ز جابر خاستم بعد از نماز
دستِ او بوسیدم از راہِ نیاز
زندہ رود! از خاکدانِ مابگوے
از زمین و آسمانِ ما بگوے
خاکی و چوں قدسیاں روشن بصر!
از مسلماناں بدہ ما راخبر
اس دشت خموش میں اس عظیم انسان (افغانی) سورۂ والنجم کی تلاوت کر رہے تھے جن کی قرأت کے سوز سے دل تڑپ جایئے اور قبروں سے ’’الا اللہ‘‘ کا شور بلند ہو۔ میں نے نماز کے بعد ان کا ہاتھ کو عقیدت مندی سے بوسہ دیا۔ انہوں نے زندہ رود(اقبال) سے کہا کہ ہماری دھرتی کا کچھ پتہ بتا اور زمین و آسماں کا حال سنا۔ انسان خاکی تو ہے لیکن فرشتوں کی طرح روشن بھر ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں مجھے کچھ خبر دے۔
اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان اس وقت ضعف ایمان اور نا امیدی کا شکار ہیں۔ چند بڑے بڑے فتنے جنہوں نے مسلمانوں کو تباہ کر رکھا ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں : افرنگ مآبی، ملوکیت کا استبداد اور اشتراکیت (جس کا تجربہ 1917ء سے روس میں شروع ہے )۔ افغانی فرماتے ہیں : اہل مغرب نے وطنیت کے نظریے کے ذریعے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کر رکھی ہے۔
در حدودِ ایں نظارہ چار سو
خس و خاشاک بھی زمین گیر نہیں رہتا اور ہوا آنے پر پرواز کر جاتا ہے۔ کیا مسلمان اس سے بھی زیادہ گیا گزرا ہے کہ ایک خطۂ زمین ہی سے خود کو وابستہ کر لے ؟ آفتاب مشرق سے طلوع ہو کر ساری کائنات کو مستنیر کر دیتا ہے، اسے کوئی مشرق کیوں کہے گا؟ مومن کی بھی ایسی ہی آفاقی شان ہے کہ وہ ایک خطۂ خاک سے منسوب ہونے کے باوجود بھی کہتا ہے کہ ’’مومن کا جہاں ہر کہیں ہے ‘‘:
تو اگر داری تمیز خوب وزشت
دل نہ بندی باکلوخ و سنگ و خشت
می نگنجد آں کہ گفت اللہ ھو
در حدودِ ایں نظارہ چار سو
تجھے اگر اچھے برے کی تمیز ہے تو اینٹ پتھر (یعنی زمین) سے دل نہ لگا۔ جس نے ’’اللہ ھو‘‘ کہا وہ نظامِ چار سو کے حدود میں گرفتار نہیں رہ سکتا۔
ہر دویزداں ناشناس آدم فریب
اشتراکیت و ملوکیت دونوں استبدادی نظام ہیں جو کہ باہمی انسانی ہمدردی اور احساس اخوت کے لئے زہر ہلال ہیں۔ روحانی اقداران نظامون سے فروغ نہیں پاتے۔
رنگ و بو از تن نگیرد جانِ پاک
جز بہ تن کارے ندارد اشتراک
ہم ملوکیت بدن را فربہی است
سینۂ بے نورِ او از دل تہی است!
ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب
ہر دویزداں ناشناس آدم فریب
زندگی ایں را خروج آں را خراج
درمیان ایں دو سنگ آدم زجاج
جانِ پاک تن سے رنگ و بو حاصل نہیں کر سکتی اور اشتراکیت کا واسطہ صرف تن سے ہے اسی طرح بدن کی فربہی ہے جس سے سیہ بے نور اور دل سے خالی ہے۔ دونوں کا حاصل بے چینی اور اضطراب ہے۔ دونوں حق نا شناس اور انسان کو فریب دینے والے ہیں۔ ایک زندگی کے لئے خروج (بغاوت) ہے اور دوسرے خراج (استحصال) ہے اور انسان ان دو پتھروں کے درمیان شیشے کے مانند ہے۔
می دہد قرآں جہانے دیگرش!
یہاں سعید حلیم پاشا شرق و غرب کے معنوی فرق پر روشنی ڈالتے اور مسلمانوں کو رجوع الی القرآن کی دعوت دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ علامہ کا اشارہ پاشائے مرحوم کی کتاب ’’اسلام الشمق‘‘ اور ان کے واحد اصلاحی (۱۰) مقالے کی طرف ہے۔ علامہ نے اس کا خلاصہ پیش کر دیا ہے۔
بندۂ مومن ز آیاتِ خداست
ہر جہاں اندر برِ او چوں قباست!
چوں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانے دیگرش!
مرد مومن آیات قراں کا امین ہے اور اس سے جسم پر ہر جہاں کی قبا چست ہوتی ہے۔ جب ایک جہاں (کا لباس) اس کے جسم پر پرانا ہو جاتا ہے تو قرآن اسے دوسرا جہاں عطا کرتا ہے۔ (یعنی زمانے کے تغیر کے باوجود اس کا وجود ایک نئے انداز سے باقی رہتا ہے )
حرف اِنّی جاعل تقدیرِ او
اقبال فرماتے ہیں کہ ’’جہانِ قرآنی‘‘ سے عصر حاضر کے مسلمان واقف کہاں ہیں ؟ ورنہ وہ ایسا جہانِ رعنا ہے کہ اس کے چند ہی مناظر حضرت عمر فاروق میں مکمل تبدیلی لے آئے تھے، یہاں حضرت عمر ص کے اسلام لانے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے اپنی بہن سے سورہ ’’طہٰ‘‘ کی چند آیات سنیں اور اسلام لے آئے تھے، اس پر افغانی ’’جہان قرآنی‘‘ کے چہار گانہ محکمات پر روشنی ڈالتے ہیں : خلافت آدم، حکومت الہٰی، ارض ملک خداست اور حکمت خیر کثیر است، انسان کو خدا نے نیابت و خلافت کی جو اہلیت بخشی، وہ اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آنحضرت ا کی روش حقہ کی پیروی میں جلوت و خلوت کی زندگی میں ایسا تعادل و توازن رکھیں کہ وہ خَلعت خلافت کے سزاوار ہو سکیں اور شرف انسانیت کے بھی
حرف اِنّی جاعل تقدیرِ او
از زمیں تا آسماں تفسیرِ او
بر تر از گردوں مقامِ آدم است
اصلِ تہذیب احترامِ آدم است
مصطفیٰ ا اندر حرا خلوت گزید
مدتے جز خویشتن کس را ندید
نقشِ مارا در دلِ اور ریختند
ملتے از خلوتش انگیختند
می توانی منکرِ یزداں شدن
منکر از شانِ نبی ا نتواں شدن
گرچہ داری جانِ روشن چوں کلیم
ہست افکار تو بے خلوت عقیم
از کم آمیزی تخیل زندہ تر
زندہ تر، جویندہ تر، یابندہ تر
صاحبِ تحقیق را جلوت عزیز
صاحبِ تخلیق را خلوت عزیز
آنچہ در آدم بگنجد عالم است
آنچہ در عالم نگنجد آدم است!
انسان کی تقدیر خلافت ہے اور ساری کائنات حرف ’’انّی جاعلٌ‘‘ کی تفسیر ہے، مقامِ آدم آسمانوں سے بلند تر اور تہذیب کی بنیاد احترام آدم ہے، مصطفی ا نے ایک مدت غارِ حرا میں گزاری اور خلوت میں غور و فکر میں مصروف رہے، قلت کا نقش اسی خلوت سے ظاہر ہوا، خدا کا انکار ممکن ہو سکتا ہے لیکن نبی ا کی شان کا انکار نہیں ہو سکتا، گو تو کلیم ں (موسی ں ) کی طرح روشن جان رکھتا ہے لیکن بغیر خلوت کے تیرے افکار بے ثمر ہیں، کم آمیزی (خلوت) سے تخیل زندہ ہوتا ہے۔
صاحبِ تحقیق کے لئے جلوت اور صاحبِ تخلیق کے خلوت عزیز ہوتی ہے،۔ عالم (آفاق)
آدم کے اندر سما سکتا ہے، لیکن آدم، عالم میں نہیں سما سکتا۔ (گم نہیں ہو سکتا)
دہ خدایاں فربہ ودہقاں چو دوک!
’’حکومت الہٰی‘‘ کے بارے میں افغانی فرماتے ہیں کہ انسانوں کا بنایا ہوا کوئی قانون وحی منزّل کا مقابلہ کیسے کر سکے گا؟ مغربی ممالک میں رائج مختلف استبدادی نظاموں کے دساتیر کی قدر مشترک یہی ہے کہ قوی کو قوی تر اور کمزور کو کمزور تر بنا دیا جائے، حکومت الہٰی کا قانون البتہ ہر کہ ومہ کا مساویانہ خیال رکھتا ہے۔ ’’لایراعی لایخاف‘‘ اس کا طرۂ امتیاز ہے۔
عقلِ خود بیں غافل از بہبودِ غیر
سودِ خود بیند نہ بیند سودِ غیر
وحی حق بینندۂ سودِ ہمہ
در نگاہش سود وبہبود ہمہ
غیرِ حق چوں ناہی وآمر شود
زور ور بر ناتواں قاہر شود
حاصلِ آئین ودستورِ ملوک!
دہ خدایاں فربہ ودہقاں چو دوک!
وائے بر دستورِ جمہور فرنگ
مردہ ترشد مردہ از صورِ فرنگ!
خود بین عقل دوسروں کی بہبود سے غافل رہتی ہے، وہ صرف اپنا ہی فائدہ دیکھتی ہے اور دوسروں کے فائدے سے بے نیاز ہوتی ہے، لیکن وحئی حق کی نظر میں ساری خلق خدا کی بہبود رہتی ہے، جب غیر حق کو اقتدار اور قوت حاصل ہو جائے تو طاقتور کمزور کے کئے قاہر (ظلم کرنے والا) بن جاتا ہے، ملوک (آمروں ) کا آئین و دستور زمیندار کو طاقتور اور دہقان (کسان) کو مزور بنا دیتا ہے، جمہورِ فرنگ کے دستور پر افسوس کہ اس کے صور سے مردہ، مردہ تر بن جاتا ہے۔
وہ خدایا! نکتہ از من پزیر
’’ارض ملک خداست‘‘ میں ’’ارض‘‘ کا لفظ وسیع تر معاشی اور معاشرتی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے، ’’الارض للہ‘‘ کے عنوان سے ’’بال جبریل‘‘ میں بھی اقبال نے اس کی روشنی میں ایک قطعہ لکھا ہے، ماحصل یہ ہے کہ مضاربت کرنے والوں کو زمین کے جملہ حقوق اور اس سے استفادہ ملے، زمین کے تمام وسائل انسانوں کا وسیلہ زیست (متاع) ہیں جس سے وہ کھانے اور مرنے کے بعد عام صورت میں اس کے کسی گوشہ میں دفن ہوتے ہیں، یہ غیر معمولی استفادہ کی ہوس اور زمین کو اپنی ملکیت میں لینے کے جھمیلے وجود انسانیت کا ناسور ہیں، ا تنازعوں میں اگر توانائی صرف نہ کی جائے تو کتنے ہی دیگر مفید کام انجام پا سکتے ہیں
حق زمیں را جز متاعِ مانگفت
ایں متاعِ بے بہا مفت است مفت
وہ خدایا! نکتہ از من پزیر
رزق وگور از وے بگیراور ا مگیر
باطن الارض للہ ظاہر است
ہر کہ ایں ظاہر نہ بیند کافر است
از طریقِ آزری بیگانہ باش
بر مرادِ خود جہان تو تراش
مردنِ بے برگ وبے گور وکفن؟
گم شدن در نقرہ وفرزند وزن!
حق تعالیٰ نے زمین کو آدم کی متاع قرار دیا ہے اور یہ متاعِ بے بہا اسے مفت حاصل ہوئی ہے، زمین سے تو اپنے لئے رزق اور قبر کی جگہ لے سکتا ہے لیکن اس پر تیرا حق نہیں، ’’زمین اللہ کی ہے ‘‘ کا نکتہ ظاہر ہے اور جس کی اس ظاہر پر نظر نہیں ہے وہ کفر میں مبتلا ہے، طریقِ آزری ترک کرے اور اپنے لئے ایک نیا جہاں تراش، مال، زن وفرزند کے چکر میں پھنس جانا، بے سرو ساماں اور بے گور وکفن موت کے مانند ہے۔
دل اگر بندد بہ حق، پیغمبری است
’’حکمت خیر کثیر است‘‘ در اصل رسالہ ’’ردّ دہریان‘‘ سے ماخوذ ومقتبس ہے، افغانی دیگر مصلحین اخلاق کی مانند ہمیشہ تلقین فرماتے رہے کہ علم وہی ہے جو عمل کے ساتھ توام ہو، جو زندگی کو سوز و ساز اور جنبش و تحریک دے، مسلمانوں نے ایک زمانے میں علوم و فنون کی برکت سے اخلاق و شرافت کو پھیلایا، اہل یورپ بھی علوم سے بہر ہ مند ہوئے مگر انسانی سوز و ہمدردی کے فقدان کی بنا پر وہ مخرب اخلاق مدنیت پھیلاتے اور مہلک ہتھیاروں کے ذریعے بنی نوع انسان کو راہ ہلاکت پر چلاتے رہتے ہیں، اس قسم کے خیالات کا خاکہ ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘ کے ایک اور مضمون میں بھی ملتا ہے جس کا عنوان ہے : ’’وذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین‘‘ اور اس بحث کو اقبال نے مثنوی ’’پس چہ باید کر د‘‘ میں زیادہ شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
علم حرف و صوت را شہپر دہد
پاکی گوہر بہ نا گوہر دہد
دل اگر بندد بہ حق، پیغمبری است
ور زحق بیگانہ گر دو کافری است!
علم را بے سوزِ دل خوانی شراست
نورِ او تاریکئی بحر وبراست
سینۂ افرنگ را نارے ازوست
لذت شنجون ویلغارے ازوست
سیرِ واژونے دہد ایام را
می برد سرمایۂ اقوام را!
علم، حرف و گفتار کو پرواز اور موتی کی چمک اور پاکی عطا کرتا ہے، علم کا رشتہ اگر حق سے استوار ہو تو وہ پیغمبری ہے اور اگر حق سے بیگانہ ہو جائے تو وہ کافری ہے، اگر سوزِ دل نہ ہو تو علم شر ہے اور اس کا نور، نور نہیں بلکہ بحر و بر کی تاریکی ہے، افرنگ کے سیہ میں آگ (اسی بے سوز علم کی وجہ) سے ہے، شبخون اور یلغار میں لذت اسی کی وجہ سے ہے، وہ وقت کو پیچھے کی طرف موڑ دیتا ہے اور قوموں کا سرمایہ تباہ کر دیتا ہے۔
دین حق اندر جہاں آمد غریب
افغانی نے جہانِ قرآن کے محکمات و مسلمات بیان کیے تو اقبال نے استفسار کیا کہ مسلمانوں کے موجودہ جمو دور کود کا کیا سبب ہے ؟ ایسی زندہ کتاب (قرآن مجید) کی حامل قوم خود کیوں مردہ ہو رہی ہے ؟ اس بات کا جواب سعید حلیم پاشا دیتے ہیں کہ جاہل مذہبی پیشواؤں کی کافر گری، تعلیم یافتہ اور با استبداد افراد کی افرنگ مآبی اور دین سے بے رغبتی کی بنا پر مسلمان جہانِ قرآن کی برکات سے محروم ہیں، اس کے بعد افغانی خطاب بہ اقبال فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر عصر کی کامل رہنمائی موجود ہے مگر اس کی خاطر اجتہادی نقطۂ نگاہ پیدا کرنے اور آیات قرآنی کی ندرت و جدت پر غور و فکر کی ضرورت ہے:
از حدیثِ مصطفی ا داری نصیب؟
دین حق اندر جہاں آمد غریب
بہر آں مردے کہ صاحب جستجو است
غربتِ دیں ندرتِ آیاتِ اوست
غربتِ دیں ہر زماں نوعِ دگر
نکتہ را در یاب اگر داری نظر
دل بآیاتِ مبیں دیگر بہ بند
تابگیری عصرِ نو را در کمند!
اگر اس حدیثِ مصطفی ا سے تجھے آگہی ہے کہ دین (اسلام) دنیا میں غربت کی حالت میں آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے لئے جو صاحبِ جستجو ہے، غربتِ دیں اس کی آیات کی قدرت کا نام ہے، اس قدرتِ دیں کی ہر زمانہ میں ایک نئی شان ہوتی ہے،اگر تو نظر رکھتا ہے تو اس نکتہ کو سمجھ لے، اس کی روشن آیات کو دل نشین کر لے تاکہ تو اپنے زمانہ پر کمند ڈال سکے۔
افغانی، اقبال سے فرماتے ہیں کہ اسرار قرآن مجید نہ جاننے کی بنا پر انسانیت نت نئے نظام قائم کرتی اور اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی ہے مثلاً حال ہی میں اہل روس نے اشتراکیت کے نام سے ایک نقشِ نو بنایا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم اس ملت کو میرا ایک پیغام پہنچا دو، افغانی نے ملت روسیہ کو جو پیغام دیا اس کا ماحصل یہ ہے کہ: مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے یقیناً گلو خلاصی حاصل کی جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اشتراکیت جیسے بے بنیاد اور نا پائیدار نظام کو قائم کیا جائے
چیست قرآں ؟ خواجہ را پیغامِ مرگ
جس نے ’’لا‘‘ پر تکیہ کر رکھا اور ’’اِلّا‘‘ کا منکر ہے، کائنات نفی کے ساتھ اثبات (لا الہ الا اللہ) کی حقیقت پر قائم ہے، رہی انسانی مساوات اور سب کو معاشی سہولتوں سے بہرہ مند کرنے کی بات تو اسے دین اسلام کے علاوہ کس نظام نے پیش کیا یا کر سکے گا؟ قرآن مجید اور سنت رسول کی رو سے تاریخ اسلام کے زرین دور میں جو معاشی نظام قائم ہوا، اس میں کبھی کسی کا استحصال نہیں ہوا مگر افسوس کہ خود مسلمان اس نظام کی برکات سے دوسروں کو مستفید کر دے، بہر حال ملت روسیہ کے لیے لمحۂ فکر یہ ہے کہ اسلامی معاشی نظام کا غائر مطالعہ کر کے اور ’’لا‘‘ (نفی) سے گزر کر ’’اِلّا‘‘ (اثبات) کی منزل کی طرف پیش قدمی کریں (ان باتوں کو اقبال نے مثنوی ’’پس چہ باید کر د‘‘ میں دوبارہ اور بانداز دیگر بیان فرمایا ہے، متعلقہ صفحات ملاحظہ ہوں )، پیغام افغانی کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
اے کہ می خواہی نظامِ عالمے
جستۂاور ا اساسِ محکمے ؟
داستانِ کہنہ شستی باب باب
فکر را روشن کن از اُمّ الکتاب
چیست قرآں ؟ خواجہ را پیغامِ مرگ
دستگیرِ بندۂ بے سازو برگ!
نقشِ قرآں تا دریں عالم نشست
نقشہائے کاہن وپایا شکست
بامسلماں گفت جاں برکف بنہ
ہرچہ از حاجت فزوں داری بدہ
آفریدی شرع وآئینے دگر
اند کے بانورِ قرآنش نگر
محفلِ ما بے مے وبے ساقی است
سازِ قرآں را نواہا باقی است
حق اگر از پیشِ ما برداردش
پیشِ قومے دیگرے بگزاردش
از مسلماں دیدہ ام تقلید وظن
ہر زماں جانم بلرزد در بدن!
تر سم از روزے کہ محرومش کنند
آتش خود بر دلِ دیگر زنند!
اگر تمہیں ایک نئے نظام کی تلاش ہے تو کیا تم نے اس کی مضبوط بنیاد کی جستجو کی ہے ؟ تم نے ماضی کی داستان کے ہر ورق کو دھو ڈالا ہے، اب اپنی فکر کو ام الکتاب (قرآن) سے روشن کرو۔ قرآن کیا ہے ؟ حاکموں ار سرمایہ دارو۲ں کے لئے موت کا پیغام ! اور بے سرو سامان بندوں کا دستگیر! اس نقشِ قرآنی نے دنیا سے کہانت اور پاپائیت کے نقوش کو مٹا دیا۔ مسلمانوں سے کہا پنی جان ہتھیلی پر لئے رہو اور جو بھی تمہارے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے دوسروں کو دے دو۔ تم نے (دنیا کو) ایک نئی شرع اور آئین عطا کیا۔ ذرا اسے نور قرآن کی روشنی میں دیکھو۔ اب ہماری محفل میں نہ مئے باقی ہے اور نہ ساقی ہے لیکن ساز قرآن کی نوا باقی ہے۔
اگر (یہ امانت ) ہم سے چھین لی جائے تو دوسری قوم کے سپرد کی جائے گی (کیونکہ ذکرِ حق امتوں سے بے نیاز ہے۔ یہ اسی کا حق ہے جو اس کا اہل ہے )۔ جب میں مسلمان کو دیکھتا ہوں کہ وہ بندۂ تقلید وطن بنا ہوا ہے تو ہر وقت میری جان بدن میں لرزتی رہتی ہے۔ مجھے یہ ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں وہ اس شعلہ سے محروم نہ ہو جائے اور یہ آگ کسی دوسرے مقسوم نہ بن جائے۔‘‘
ملت روسیہ کو اقبال نے افغانی کی زبانی پیغام کیوں یا ہے ؟ اس کی متعدد توجیہیں کی جا سکتی ہیں۔ افغانی نے تین بار روس کا سفر کیا اور قفقاز نیز ماسکو میں طویل مدت تک قیام کیا، ان ہی کی مساعی سے قرآن مجید کا روسی ترجمہ اور متعدد دینی کتابیں وہاں طبع ہو سکی ہیں۔ اس طرح افغانی وہاں قرآنی پیغام پہنچا چکے تھے۔ وہ روسی زبان سے کس قدر آشنا(۱۱) اور اس ملت کی فعالیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اپنے ایک مقالہ ’’واطیعواللہ ورسولہ ولاتنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم ‘ ‘ مطبوعہ’’العروۃ الوثقیٰ ‘‘میں افغانی نے روسیوں کی مدافعانہ سرگرمیوں، مستقل مزاجی اور باہمی اتحاد کی اپنی مدافعت کر سکیں، وہ عصری تقاضوں کا خیال رکھیں اور کامل اتفاق رائے اور مستقل مزاجی ے کام لیں۔ تیسرے یہ کہ وہ دوسرے اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے افکار و آراء سے واقف ہوں اور ملت اسلامیہ پروار د ہونے والے تمام خطرات و حوادث کا متحداً مقابلہ کریں۔ ‘‘
سطور گذشتہ کی روشنی میں اقبال شناسی کی خاطر مطالعہ افغانی کی اہمیت واضح ہے۔ علامہ نے افغانی کے افکار سے بھر پور استفادہ فرمایا اور ہمارا مقصد یہی ہے کہ مطالعہ اقبال کے لئے جمال الدین افغانی کی حیات و نگارشات کو سامنے رکھنے کی ضرورت محسوس کی جائے[4]۔
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ Speeches and Statements of Iqbal مرتبہ Shamloo، ص164
- ↑ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ‘‘،اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی، بزم اقبال، لاہور، 1958ء، ص 152
- ↑ حرف اقبال‘‘ مرتبہ لطیف اللہ شروانی، لہ آباد، 1934ء
- ↑ ڈاکٹر محمد ریاض جمال الدین افغانی اور اقبال-اخذ شدہ بہ تاریخ: 28 ستمبر 2025ء