مندرجات کا رخ کریں

سینٹ پیٹرزبرگ کی پہلی بین الاقوامی مذہبی کانفرنس

ویکی‌وحدت سے
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
سینٹ پیٹرزبرگ کی پہلی بین الاقوامی مذہبی کانفرنس
واقعہ کی معلومات
واقعہ کا نامسینٹ پیٹرزبرگ کی پہلی بین الاقوامی مذہبی کانفرنس
واقعہ کی تاریخ2025ء
واقعہ کا دن24ستمبر
واقعہ کا مقام
  • سینٹ پیٹرزبرگ، روس
عواملسینٹ پیٹرزبرگ اور شمال مغربی روس کی مسلم مذہبی انتظامیہ ، حکومت، سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی، ماسکو پیٹریارکیٹ چرچ کے شعبہ برائے خارجی تعلقات اور اسلامی ثقافت، تعلیم اور سائنس کی معاونت کے فنڈ۔
اہمیت کی وجہا لہی ادیان اور اسلامی مختلف مذاهب کے درمیان اتحاد اور اتفاق کا سبب


سینٹ پیٹرزبرگ کی پہلی بین الاقوامی مذہبی کانفرنس، جس کا مرکزی موضوع "جدید دنیا میں مذہبی، روحانی اور اخلاقی اقدار کا تحفظ اور مذاہب کے درمیان مکالمے کی ترقی" تھا، روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں 50 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جن میں: ایران، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، عراق، ترکی، مراکش، یمن، گیمبیا، صومالیہ، یوگنڈا، چاڈ، فرانس، جرمنی اور اٹلی شامل تھے، ساتھ ہی روس کے مختلف مذاہب اور فرقوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ یہ کانفرنس سینٹ پیٹرزبرگ اور شمال مغربی روس کی مسلم مذہبی انتظامیہ کی کوششوں سے، اور حکومت، سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی، ماسکو پیٹریارکیٹ چرچ کے شعبہ برائے خارجی تعلقات اور اسلامی ثقافت، تعلیم اور سائنس کی معاونت کے فنڈ کے تعاون سے، بدھ کے روز 24 ستمبر ، منعقد ہوئی۔

ایرانی اسلامی جمہوریہ کے سفارت خانے کے کلچرل کونسلر کا خطاب

مسعود احمدوند، جو روسی فیڈریشن میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل کونسلر ہیں، نے ان نشستوں اور مکالموں کے انعقاد کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو موجودہ دنیا میں انسان کو درپیش مشکلات سے نکلنے میں مدد کر سکتے ہیں، کہا: "جدید انسان اور روایتی انسان کے درمیان ٹوٹ پھوٹ کا مرکزی نقطہ کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں انسان دوستی (Humanism) اور خدا پرستی (Theism) کے دو بنیادی اجزاء یعنی غیر مذہبی ثقافت میں انسان کی مرکزیت پر یقین اور مذہبی ثقافت میں خدا کی مرکزیت پر یقین کی طرف لوٹتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "انسان کے لیے محض دنیاوی نقطہ نظر جو کہ خود بنیادی پر مبنی ہے، دینی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے جو خدا کو کائنات کی بنیاد قرار دیتی ہیں۔" انہوں نے ایسے افکار کی ترقی کے نتیجے کو آج کے بحرانوں کی وجہ قرار دیا، جن میں انسانی معاشروں میں معنی اور شناخت کا بحران بھی شامل ہے، اور کہا: "تمام آسمانی مذاہب میں، سب سے اہم موضوع 'خدا' ہے، اور مختلف مذاہب کے نمائندے لوگوں کو اس نقطۂ اتصال کی طرف بلا کر آج کے انسان کی بیداری میں مدد کر سکتے ہیں۔" انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں کہا: "موجودہ دنیا کے انفرادی اور سماجی بحرانوں اور چیلنجز، جیسے کہ خاندان کے ادارے کا کمزور پڑنا، میڈیا میں بے حیائی اور بداخلاقی کا فروغ، اور ظلم و ناانصافی کا پھیلاؤ، جیسا کہ آج غزہ اور لبنان کے بے گناہ لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے، کی جڑیں تقدس سے دوری اور دین اور اس کی تعلیمات کو باطنی اور ظاہری زندگی کے دائرے سے باہر نکالنے میں پیوست ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "آج مظلوم غزہ اور لبنان کے لوگوں کو جس صورتحال کا سامنا ہے وہ بشری اخلاقیات اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے والے اداروں کے زوال کو ظاہر کرتا ہے؛ لیکن ان تمام جرائم اور مظالم کے باوجود، ہم خدا پر یقین رکھنے والے اس وعدۂ الٰہی کو نہیں بھولے ہیں کہ خدا کے پیروکار فتح یاب ہوں گے۔"

عالمی کونسل برای تقریب مذاہب اسلامی کے نماینده کا بیان

عالمی کونسل برای تقریب مذاہب اسلامی کے نماینده حجۃالاسلام والمسلمین جمشیدی نے اس اجلاس میں بیان کیا: "صہیونی حکومت نے تمام بنیادی اصولوں کو پامال کر دیا ہے اور کسی قانون یا ضابطے کو نہیں مانتی؛ لہٰذا حکمرانوں اور علماء پر فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم غزہ کے عوام کے مصائب کے سامنے خاموش نہ رہیں۔" انہوں نے توحیدی ادیان کے مشترکات کی بنیاد پر اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا: "یہ یکجہتی مشترکہ اخلاقی اصولوں جیسے انسانی کرامت اور عدالت پر قائم ہے، اور یہ محض ایک ساتھ رہنے سے کہیں زیادہ، آج کی دنیا میں ایک تزویراتی (اسٹریٹجک) ضرورت سمجھی جاتی ہے۔" جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن نے کہا: "آج انسانیت کو ایک مشترکہ آواز اور انسانی و روحانی اقدار کی بحالی کی ضرورت ہے؛ لہٰذا ان مشترکات کے محور پر گفتگو اور تمام مذاہب اور ادیان کے درمیان تعلقات کو آسان بنانا عالمی چیلنجوں سے نکلنے کے لیے ایک اہم حکمت عملی ہے۔"

اختلافات سے گریز اور وحدت پر توجہ

اس شیعہ عالم نے واضح کیا: "اختلاف اور انتشار بہت سے مسائل کا سبب ہے جو متحد گروہ اور جماعت کی حیثیت کو ختم کر دے گا، یہ ایک کلی اصول ہے جو مذاہب اور ادیان تک محدود نہیں بلکہ ہر گروہ اور جماعت پر لاگو ہوتا ہے۔ لہٰذا، یہ تجویز دی جاتی ہے کہ ہم آہنگی، تعاون اور وحدت کے لیے زیادہ کوشش کی جائے، اور وحدت کو مستحکم کرنے کی راہ میں نقصان دہ اور کمزوری پیدا کرنے والے عوامل سے پرہیز کیا جائے، اور توجہ ہم خیالی اور یکجہتی پر مرکوز کی جائے۔"

جدید دنیا کے چیلنجز اور غزہ کی صورتحال

انہوں نے تسلیم کیا: "آج کی جدید دنیا کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے؛ جیسے دنیا پرستی، خواہشات میں ڈوب جانا اور ترقی، کمال اور انسانیت سے دوری، جس نے خدا پرستی، انسانیت، اخلاقیات اور وحدت کے عنصر پر توجہ کے صحیح اور معمول کے راستے کو نظر انداز کر دیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "بلاشبہ، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو تمام سہولیات اور نعمتیں بھیجی ہیں، وہ معاشرے اور خاندان کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے کمال اور زیادہ سے زیادہ استعمال کے لیے ہیں؛ لیکن بدقسمتی سے، ہم غزہ کے مسلمانوں اور دیگر ادیان کے لوگوں کی المناک صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ صہیونی حکومت نے تمام بنیادی اصولوں کو پامال کر دیا ہے اور کسی قانون اور ضابطے کو قبول نہیں کرتی۔"

حکمرانوں اور علماء کی ذمہ داری

عالمی کونسل برای تقریب مذاهب اسلامی کے نمائندے نے آخر میں تاکید کی: "اہل اسلام کے حکمرانوں، علماء، دانشوروں اور مفکرین اور توحیدی ادیان کے پیروکاروں اور جو بھی انبیاء کے مکتب کے پیروکار ہیں، ان سب پر یہ فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم غزہ کے عوام کے مصائب کے سامنے خاموش نہ رہیں؛ انہیں آواز اٹھانی چاہیے، عالمی برادری کو جوابدہ بنانا چاہیے اور اپنی الٰہی اور انسانی ذمہ داری کو سنجیدگی سے پورا کرنا چاہیے۔

مفتی سینٹ پیٹرزبرگ اور شمال مغربی روس کا بیان

سینٹ پیٹرزبرگ اور شمال مغربی روس کے مفتی، شیخ راویل پنچایف نے کہا: "آج اس محفل میں ہم روحانی اور اخلاقی اقدار کے تحفظ اور فروغ سے متعلق ایک اہم اور بنیادی موضوع پر بات کر رہے ہیں؛ ایک ایسا موضوع جو نہ صرف روس کے لیے اہم ہے بلکہ ایک عالمی موضوع بھی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ اجلاس، اپنی پہلی نشست کے طور پر، ممالک کے باہمی تعاون کی ترقی کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل پر توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ انہیں انسانی، روحانی اور اخلاقی تعلیمات سے روشناس کرایا جا سکے۔

اس طرح کے کانفرسوں کے انعقاد کی ضرورت

افتتاحی اجلاس میں بعض دیگر مقررین نے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ بعض ممالک میں روایتی اور اخلاقی اقدار کو سہل انگاری (Laisser-faire) کے نظریے سے بدل دیا گیا ہے، اس طرح کے بین الاقوامی تقریبات کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دنیا کے مذاہب کے نمائندوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا موقع ملے اور روایتی مذاہب کے اخلاقی اصولوں کو جدید دنیا کی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں تجربات کا تبادلہ کیا جا سکے۔

تصویری جهلکیاں

بیرونی روابط

متعلقه تلاشیں

حوالہ جات

  1. نخستین اجلاس بین‌المللی دینی در سن‌پترزبورگ روسیه گشایش یافت، وب‌سایت خبرگزاری جمهوری اسلامی ایران(زبان فارسی)درج شده تاریخ: 24/ستمبر/ 2025ء اخذ شده تاریخ: 25/ستمبر/2025ء
  2. رژیم صهیونیستی تمام اصول بنیادین را زیر پا له کرده است، وب‌سایت مجمع جهانی تقریب مذاب اسلامی (زبان فارسی) درج شده تاریخ: 24/ستمبر/ 2025ء اخذ شده تاریخ: 25/ستمبر/2025ء