مندرجات کا رخ کریں

الازہر یونیورسٹی

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 23:43، 23 جولائی 2025ء از Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

الازہر یونیورسٹی جامعۂ الازہر عربی: (جامعة الأزهر الشريف) قاہر ، مصر میں ایک عوامی یونیورسٹی ہے۔ قاہرہ المعز میں الازہر مسجد کے ساتھ وابستہ یہ مصر کی سب سے قدیم ترین سند دینے والی یونیورسٹی ہے اور اسلامیات سیکھنے کے لیے سب سے مشہور یونیورسٹی کے طور پر مشہور ہے۔ اس میں اعلی تعلیم کے علاوہ الازہر تقریباً 20 لاکھ طلبہ والے اسکولوں کے قومی نیٹ ورک کی نگرانی کرتا ہے۔ 1996ء تک مصر میں 4،000 سے زیادہ تدریسی ادارے اس یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ دولت فاطمیہ کے ذریعہ 970ء یا 972ء میں اسلامی تعلیم کے ایک مرکز کی حیثیت سے قائم کیا گیا تھا۔ یہاں قرآن و شریعت کے ساتھ ساتھ منطق ، نحو و صرف ، بلاغت اور اسلامیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ آج یہ دنیا بھر میں عربی ادب اور اسلامیات کا مرکزی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔

تعارف

فاطمی حکومت کے چوتھے خلیفہ"المعز الدین اللہ" شمالی افریقہ سے بحر اوقیانوس تک کی ریاست کو دولت فاطمیہ کے تحت لانے کے بعد مصر کی طرف متوجہ ہوئے، چنانچہ انھوں نے مصر کو اپنی حکومت کے تحت لانے کے لیے "جوہر صقلی" کو ایک ہزار فوج کا رئیس بناکر اس کی طرف روانہ کر دیا، اس کے ہاتھوں فاطمی حکومت کو 17؍ شعبان 358ھ مطابق 969ء میں مصر پر فتح حاصل ہوئی۔

مصر کی نئی راجدھانی کے لیے جوہر صقلی ہی نے ایک مسجد قائم کی اور اس کا نام "جامع القاہرۃ" رکھا، کچھ صدی کے بعد یہ مسجد جامع القاہرۃ کی بجائے "الجامع الازہر" کے نام سے مشہور و معروف ہوئی، اس مسجد کی بنیاد 24 جمادی الاولی 359ھ مطابق اپریل 970ء میں رکھی گئی اور 7 رمضان 361ھ مطابق 23 جون 972ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی،

فاطمی حکومت کے دور 969ء سے 1170ء تک تشیع افکار و تعلیمات غالب رہیں، مگر جب 1171ء میں مصر کی باگ و دوڑ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ میں آئی، تواہل سنت و جماعت کے افکار و عقائد غالب ہوئے۔

وجہ تسمیہ

جامعہ الازہر اس وقت عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ تاریخ دان اس کا نام الازہر رکھے جانے میں اختلاف کرتے ہیں۔ ہر کوئی اس کی الگ وجہ بیان کرتا ہے۔ کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا نام الازہر اس لیے رکھا گیا کیونکہ جس وقت اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اس جگہ پر خوبصورت مکانات بنے ہوئے تھے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا نام حضرت فاطمتہ الزہرہ سے عقیدت و محبت کی بناء پر رکھا گیا۔

یہی توضیح زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس وقت کے مسلمان حکمران حضرت فاطمتہ الزہرہ کے خاندان سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ مسجد کی تعمیر کے ساڑھے تین سال بعد یہاں مختلف علوم کی با قاعدہ کلاسز شروع کی گئیں۔ خلیفہ المعاذ کے ہی دور میں (رمضان 365 ہجری ) میں امام ابوحنیفہ کے بیٹے قاضی القضاء ابوالحسن علی النعمان الخیر وائی نے اپنے والد کی لکھی گئی کتاب الاختصار پڑھی جس سے سینکڑوں لوگوں نے استفادہ کیا۔

جامعہ الازہر، عالم اسلام کی قدیم یونیورسٹی

مصر کی الازہر یونیورسٹی اپنے علمی و ادبی معیار کی بدولت عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ الازہر یونیورسٹی کی بنیاد ایک مسجد پر رکھی گئی جس کا نام مسجد الازہر ہے۔ جب فوج کے ایک کمانڈر نے خلیفہ المعز کے حکم پر مصر کو فتح کیا تو اس نے 969ء بمطابق358ھ میں قاہرہ کی بنیاد رکھی جس میں الازہر نامی مسجد بھی تعمیر کی گئی۔ مسجد کی تعمیر میں دو سال کا عرصہ لگا۔ اس مسجد میں پہلی نماز سات رمضان المبارک 361ھ کو پڑھائی گئی۔

مسجد یونیورسٹی میں تبدیل

اس مسجد کو بعد میں یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا جو بعد ازاں جامعہ الازہر کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔ جامعہ الازہر اس وقت عالم اسلام کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے۔ تاریخ دان اس کا نام الازہر رکھے جانے میں اختلاف کرتے ہیں۔ کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کا نام الازہر اس لیے رکھا گیا کیونکہ جس وقت اس شہر کی بنیاد رکھی گئی اس جگہ پر خوبصورت مکانات بنے ہوئے تھے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کانام حضرت فاطمہ الزہرہؓ سے عقیدت و محبت کی بنا پر رکھا گیا۔

یہی توجیح زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس وقت کے مسلمان حکمران حضرت فاطمہ الزہرہؓ کے خاندان سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔ مسجد کی تعمیر کے ساڑھے تین سال بعد یہاں مختلف علوم کی باقاعدہ کلاسز شروع کی گئیں۔ جامع الازہر میں ہونے والے سیمینار مذہبی موضوعات پر ہوتے تھے۔ تاہم ان پر سیاسی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ خلیفہ العزیز باللہ کے دور حکومت میں جامعہ الازہر میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں۔ جامعہ میں خواتین کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ جامعہ کو دو سو سال تک عدالتی کارروائیوں اور ٹیکسوں کے نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور اس سلسلے میں جامعہ سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔

تعلیمی نظام

بغداد اور اندلس میں اسلامک کلچرل مراکز کی تباہی تک جامعہ کو اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ جامعہ میں ہونے والے سیمینار پہلے دن سے ہی خالصتاً تعلیمی و ادبی نوعیت کے تھے۔ ان سیمینارز میں شرکت بالکل مفت تھی اور بعض افراد کو وظائف بھی دیے جاتے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے جامعہ کے باقاعدہ اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین کو بھی لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا۔ سیاحتی اساتذہ کے ذریعے تعلیم دینے کا یہ نظام اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میں مشرق و مغرب کے دیگر تعلیمی اداروں نے بھی اپنا لیا۔مملوکوں کے دور اقتدار میں جامعہ الازہر نے بہت ترقی کی۔

مملوکوں نے جامعہ کی بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔ وسط ایشیا پر مغلوں کے حملے اور اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عالموں اور دانشوروں کے لیے زمین تنگ پڑ گئی۔ اس دوران زیادہ تر دانشوروں نے جامعہ الازہر میں پناہ لی۔ ان علما کے آنے سے جامعہ نے بہت زیادہ ترقی کی۔ 8 ویں اور 9 ویں صدی ہجری میں جامعہ اپنے علمی معیار کی وجہ سے عروج پر تھی۔ جامعہ نے سائنسی علوم کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ کے کچھ دانشوروں اور اساتذہ نے علم الادویات، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور تاریخ کی ترقی کے لیے بہت محنت کی۔ جامعہ ،مصر میں سیاسی انتشار کے باوجود علمی و ادبی خدمات سر انجام دیتی رہی۔

سلطنت عثمانیہ کے دور میں جامعہ الازہر کو ملنے والے عطیات کی وجہ سے جامعہ خودمختار ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ علما کو نئے نئے موضوعات پر تحقیق کرنے کے لیے بھرپور مواقع میسر آئے۔ اس طرح جامعہ اسلامی اور عربی علوم کا مرکز بن گئی۔ عثمانی حکمرانوں نے جامعہ معاملات میں مداخلت نہ کی اور نہ ہی جامعہ کے بڑے \"امام\" پر اپنی مرضی کے آدمی لانے کی کوشش کی۔ اس بڑے عہدے کو مصریوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا تاکہ کوئی باہر کا آدمی جامعہ پر اپنا حق نہ جتا سکے۔

جولائی 1789ء میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعہ کے تعلیمی معیار اور نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا۔ نپولین نے اپنی ذاتی ڈائری میں جامعہ الازہر کے تعلیمی معیار کو پیرس کی سوربون یونیورسٹی کے معیار کے برابر قرار دیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کو عوام اور ملک کے لیے عظیم سرمایہ قرار دیا۔ نپولین نے مصر پر قبضہ کرنے کے بعد دیوان کے نام سے ایک مشاورتی کونسل بنائی جو حکومتی معاملات میں مشورے دیتی تھی۔ اس کونسل میں نو علما شامل تھے جس کے چیئرمین شیخ عبداللہ تھے جو الازہر یونیورسٹی کے بڑے امام تھے۔

دیگر نو علما جامعہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نپولین کی نظر میں جامعہ کے علما کی کیا وقعت تھی۔ 1805ء میں مصر میں محمد علی پاشا کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مصر کو جدید ریاست بنانے کا ارادہ کیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے جامعہ الازہر پر انحصار کرنا پڑا۔ اس نے جامعہ کے طلبا کو وظائف پر پڑھنے کے لیے یورپی ممالک میں بھیجا۔ یہ ادارہ پوری شان و شوکت کے ساتھ آپ بھی قائم دائم ہے[1]۔

جامعہ الازہر میں ہونے والے سیمینار

اس لیکچر میں شرکت کرنے والے تمام افراد کے نام یادداشت کے طور پر محفوظ کر لیے گئے۔ ابوالحسن پہلے شخص تھے جنہیں چیف جسٹس (قاضی القضاء) کے لقب سے نوازا گیا۔ الازہر میں ہونے والے اس سیمینار کی تقلید میں دوسرے تعلیمی اداروں میں بھی سیمینار کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

جامعہ الازہر میں ہونے والے سیمینار مذہبی موضوعات پر ہوتے تھے۔ تاہم ان پر سیاسی رنگ نمایاں نظر آتا تھا۔ خلیفہ العزیز باللہ کے دور حکومت میں جامعہ الازہر میں تعلیمی اصلاحات کی گئیں۔ اسی دور میں خلیفہ العزیز باللہ کے وزیر یعقوب ابن کلیس نے جامعہ الازہر میں قانون کے متعلق اپنی کتاب الرسالہ العزیزیہ پڑھ کر سنائی۔ یعقوب ابن کلیس نے جامعہ میں تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے 30 قانون دانوں کو نوکری دی اور ان کے لیے ماہانہ تنخواہ اور جامعہ کے قریب رہائش گاہوں کا بندوبست کیا۔

جامعہ میں خواتین کی اخلاقی تربیت کے لیے بھی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ جامعہ کو دو سو سال تک عدالتی کارروائیوں اور ٹیکسوں کے نظام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اور اس سلسلے میں جامعہ سے ہر قسم کی رہنمائی حاصل کی جاتی رہی۔ بغداد اور اندلس میں اسلامک کلچرل مراکز کی تباہی تک جامعہ کو اسلامی دنیا کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی۔

الازہر میں ہونے والے سیمینار پہلے دن سے ہی خالصتنا تعلیمی و ادبی نوعیت کے تھے۔ ان سیمینارز میں شرکت بالکل مفت تھی اور بعض افراد کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے جامعہ کے باقاعدہ اساتذہ کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین کو بھی لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا۔ سیاحتی اساتذہ کے ذریعے تعلیم دینے کا یہ نظام اتنا کامیاب ہوا کہ بعد میں مشرق و مغرب کے دیگر تعلیمی اداروں نے بھی اسے اپنا لیا۔

مملوکوں کے دور اقتدار میں

مملوکوں کے دور اقتدار میں جامعہ الازہر نے بہت ترقی کی۔ انہوں نے جامعہ کی بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔ وسط ایشیا پر مغلوں کے حملے اور اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد عالموں اور دانشوروں کے لیے زمین تنگ پڑ گئی۔ اس دوران زیادہ تر دانشوروں نے جامعہ الازہر میں پناہ لی۔ ان علماء کے آنے سے جامعہ نے بہت زیادہ ترقی کی۔

8 ویں اور نویں صدی ہجری میں جامعہ اپنے علمی معیار کی وجہ سے عروج پر تھی۔ جامعہ نے سائنسی علوم کی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ جامعہ کے کچھ دانشوروں اور اساتذہ نے علم الادویات، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور تاریخ کی ترقی کے لیے بہت محنت کی۔ جامعہ مصر میں سیاسی انتشار کے باوجود علمی و ادبی خدمات سرانجام دیتی رہی۔

سلطنت عثمانیہ کے دور میں

سلطنت عثمانیہ کے دور میں جامعہ الازہر کو ملنے والے عطیات کی وجہ سے جامعہ خود مختار ادارے کی حیثیت اختیار کر چکی تھی ۔ علماء کو نئے نئے موضوعات پر تحقیق کرنے کے بھر پور مواقع میسر آئے۔ اس طرح جامعہ اسلامی اور عربی علم کا مرکز بن گئی۔ عثمانی حکمرانوں نے کبھی بھی جامعہ کے معاملات میں مداخلت نہ کی اور نہ ہی جامعہ کے بڑے عہدے “امام” پر اپنی مرضی کے آدمی لانے کی کوشش کی۔ اس بڑے عہدے کو مصریوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا تاکہ کوئی باہر کا آدمی جامعہ پر اپنا حق نہ جتا سکے۔

نپولین بونا پارٹ کے حملہ کے دور میں

جولائی 1789ء میں جب نپولین بونا پارٹ نے مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعہ کے تعلیمی معیار اور نظم و نسق سے بہت متاثر ہوا۔ نپولین نے اپنی ذاتی ڈائری میں جامعہ الازہر کے تعلیمی معیار کو پیرس کی سوربون یونیورسٹی کے معیار کے برابر قرار دیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کو عوام اور ملک کے لیے عظیم سرمایہ قرار دیا۔ نپولین نے مصر پر قبضہ کے دوران قاہرہ میں “دیوان” کے نام سے ایک مشاورتی کونسل بنائی جو حکومتی معاملات میں مشورے دیتی تھی۔

اس کونسل میں وہ علماء شامل تھے جس کے چیئر مین شیخ عبداللہ الشرکادی تھے جو الازہر یونیورسٹی کے بڑے امام تھے۔ دیگر علماء بھی جامعہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نپولین کی نظر میں الازہر یونیورسٹی کے علماء کی کیا وقعت تھی۔

انقلاب فرانس کے دور میں

جب انقلاب فرانس برپا ہوا تو اسی جامعہ میں فرانسیسیوں اور انقلابیوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ اس کمیٹی کی صدارت شیخ محمد السادات نے کی۔ مذاکرات کی ناکامی پر انقلاب میں شدت آگئی جس کے نتیجہ میں بڑے امام اور دیگر علماء نے فیصلہ کیا کہ جامعہ کو نقصان سے بچانے کے لیے اسے بند کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

چنانچہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے طویل عرصہ کے لیے جامعہ بند کی گئی۔ تقریباً تین سال تک جامعہ میں کسی قسم کی تعلیمی سرگرمیاں نہیں ہوئیں۔ فرانسیسیوں کے جانے کے بعد حسب معمول تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

محمد علی پاشا کے دور میں

1805ء میں مصر میں محمد علی پاشا کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے مصر کو جدید ریاست بنانے کا ارادہ کیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے جامعہ الازہر پر انحصار کرنا پڑا۔ اس نے جامعہ کے طلباء کو وظائف پر پڑھنے کے لیے یورپی ممالک میں بھیجا۔ ان طلباء نے جدید تعلیم حاصل کی اور واپس آ کر ملکی ترقی میں بھر پور کردار ادا کیا۔

ان طلباء میں سعد زغلول پاشا (وزیر اعظم ) ، محمد عبدہ وغیرہ نمایاں ہیں۔ جامعہ الازہر پر ایک دور ایسا بھی آیا جب مسلمان اور عیسائی علما کر لوگوں سے خطاب کیا کرتے تھے اور اس قسم کے اجتماعات میں عوام شرکت کرتے تھے۔

19 ویں صدی کے آخری نصف میں مصر میں اسلامی تحریک شروع ہوئی جس نے جامعہ کو کافی متاثر کیا۔ 1872ء میں جامعہ نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت ڈگریاں جاری کی جانے لگیں۔ 1930ء میں دوسرا قانون پاس کیا گی[2]۔

عالم اسلام اس یونیورسٹی کا مقام

یہ مسجد اپنی گونا گوں دینی و ملی خدمات کی بدولت جامعہ کی شکل اختیار کر گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ جامعہ "جامعہ ازہر شریف" کے نام سے پوری دنیا میں مشہور و معروف ہو گیا، آج یہ جامعہ عالم اسلام کی وہ عظیم درس گاہ ہے جس میں دینی اور دنیوی تمام علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، دینی تعلیم کے لیے جامعہ ازہر شریف کو عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کا مرجع مانا جاتا ہے۔

اس وقت ازہر کے طلبہ کی ٹوٹل تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے جس میں تقریباً 50 ہزار غیر ملکی طلبہ ہیں۔ جن کا تعلق 100 سے زائد ممالک سے ہے ،ان طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے 6 ہزار سے زائد فقط مصر میں ازہر کے معاہد(انسٹیٹیوٹس) اور اسکولز عالم وجود میں آئے۔

مسلک اعتدال کے فروغ کے لیے امت اسلامیہ میں اہم کردار

مصر کی عظیم تاریخی یونیورسٹی الجامعة الازہر عالم اسلام کی واحد جامعہ ہے جسے پوری دنیائے اسلام میں بہت عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پوری امت کے ہونہار اس عظیم تاریخی درسگاہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسکی نسبت ”الازہری“ اپنے نام کے ساتھ بڑے فخر سے لاحق کرتے ہیں۔ اس درسگاہ کا ہمیشہ امتیاز رہا ہے کہ اس نے مسلک اعتدال کے فروغ کے لیے امت اسلامیہ میں اہم کردار ادا کیا ہے مختلف مذاہب کو باہم جوڑنے میں اس جامعہ کی کاوشیں قابل تعریف ہیں۔ اس نے شدت پسندی، تکفیریت اور دہشت گردی کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی ہے[3]۔

شعبہ جات

اس یونیورسٹی میں تعلیم سے متعلق تمام شعبہ جات کی تعداد تقریباً 70 ہیں۔ یہاں پر عصر حاضر کی عالمی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے جتنے شعبے ہیں وہ سب جامعہ ازہر میں بوجہ اکمل موجود ہیں ، یعنی میڈیکل، انجنیرنگ، ںسائنس اور دینی تمام قسم کے شعبے اور تخصصات مثلا تفسیر اور علوم قرآن ،حدیث اور علوم حدیث،، فقہ اور اصول فقہ ،کلام اور عقیدہ، دعوہ ، اسلامی معاشیات ،بینکاری،تجارت،عربی زبان و ادب ،تصوف ،تربیت،سیرت، قراءت و تجوید، افتاء ، فکر جدید اور مطالعہ غرب ،استشراق و تبشیر ،تقابل ادیان اور اسلامی ثقافت و حضارت وغیرہ سب کے سب تخصصات جامعہ ازہر میں موجود ہیں۔

مصری طلبہ کے لیے حضانہ یعنی نرسری 2 سال، پرائمری 6 سال اور ثانویہ یعنی ہائی اسکول 3 سال، اس کے بعد کلیہ یعنی بی اے 4 سال (بی اے کچھ کلیات میں 5 سال کا بھی ہے) پھر ماجستر یعنی ایم اے 4 سال جس کے اخیر کے 2 سال میں 400 ؍500 صفحہ کا رسالہ لکھوایا جاتا ہے، اس کے بعد پی ایچ ڈی کم از کم 3 سال کی ہوتی ہے اس میں بھی کسی موضوع پر رسالہ لکھوایا جاتا ہے۔

غیر ملکی طلبہ کے لیے نرسری اور پرائمری تو نہیں ہے، البتہ ان کے لیے ایک اضافی شعبہ "معھد الدراسات الخاصۃ للغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بہا" اور"مرکز تعلیم اللغۃ العربیۃ للوافدین" ہے، جس میں غیر ملکی طلبہ(جو مصر میں بغیر کسی معادلہ کے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں) شروع میں عربی زبان سیکھنے کے لیے داخل ہوتے ہیں، باقی ان کے دوسرے مراحل بھی مصری طلبہ ہی کی طرح ہوتے ہیں۔

ہاں ایک بات اوران سے مختلف ہوتی ہے وہ یہ کہ وافدین کو کلیہ کے مرحلہ میں ہر سال کم از کم ایک پارہ حفظ کرکے اس کا تحریری و تقریری امتحان دینا لازمی ہوتا ہے، مگر مصر ی طلبہ کا معاملہ وافدین سے مختلف ہوتا ہے، ان کو ہر سال ساڑھے سات پارے حفظ کرکے اس کا تحریری و تقریری امتحان دینا ضروری ہوتا ہے، اس طرح مصری طلبہ کلیہ کے مرحلہ میں ہی حافظ قرآن ہو جاتے ہیں۔

الازہر یونیورسٹی پاکستان میں اپنا کیمپس کھولے گی

کاشف عباسی شائع January 11, 2025 مصر کی الازہر یونیورسٹی پاکستان میں اپنا کیمپس کھولے گی تاکہ پاکستانیوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے عربی زبان سیکھنے میں مدد مل سکے، اسلام آباد میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے 2 روزہ کانفرنس ہفتہ (آج) سے شروع ہونے والی ہے۔ مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر نذیر محمد عیاد نے وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی درخواست پر پاکستان میں الازہر یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کا اعلان کیا۔

وفاقی وزیر اور ان کی ٹیم نے مصر کے مفتی اعظم کی قیادت میں پاکستان میں مصر کے سفیر ڈاکٹر احاب محمد عبدالحمید حسن پر مشتمل وفد سے ملاقات کی۔ لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق 2 روزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے 40 ممالک کے درجنوں دیگر اسکالرز اور ماہرین تعلیم پاکستان میں موجود ہیں۔

کانفرنس میں دیگر مسلم رہنماؤں کے علاوہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے عالمی شہرت یافتہ ملالہ یوسف زئی بھی شرکت کریں گی۔ نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی لڑکیوں کی تعلیم پر کلیدی خطاب کریں گی۔

مفتی اعظم مصر نے کہا کہ الازہر یونیورسٹی خواتین کی تعلیم کے کٹر حامیوں میں سے ایک ہے، یونیورسٹی پاکستان میں اپنے کیمپس کے ذریعے نہ صرف اسلامی تعلیمات، بلکہ عربی ثقافت کو بھی فروغ دے گی، تاکہ دونوں ممالک کو مزید قریب لایا جا سکے۔

ڈاکٹر نذیر محمد عیاد نے کہا کہ جامعہ الازہر میں 40 فیصد سے زائد طالبات زیر تعلیم ہیں، پاکستان کو چاہیے کہ وہ اسکالرز کو مصر بھیجے تاکہ وہ دنیا کے قدیم ترین اداروں میں سے ایک کے تجربات اور تعلیمات سے سیکھ سکیں۔

وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مصر اور پاکستان کے درمیان مضبوط اسلامی اور ثقافتی رشتہ ہے، دونوں ممالک کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہے، جامعہ الازہر عالم اسلام کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ غلط فہمی ہے کہ اسلام خواتین کی تعلیم کی اجازت نہیں دیتا، اسلام تمام مردوں اور عورتوں کی تعلیم پر یقین رکھتا ہے، حکومت پاکستان نے خواتین کو مساوی تعلیمی مواقع فراہم کرنے کو اولین ترجیح دی ہے۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ مصر اور پاکستان کو لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی شراکت داری اور کوششوں کو بڑھانا چاہیے۔ سیکریٹری تعلیم محی الدین احمد وانی نے کہا کہ وفاقی وزارت تعلیم الازہر کیمپس کے قیام کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی، لڑکیوں کی کانفرنس میں پاکستان بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی 2 ہزار سے زائد طالبات کو مدعو کیا گیا ہے۔

دریں اثنا کانفرنس کے آغاز سے ایک روز قبل پاکستان کے سرکردہ مذہبی اسکالرز، اسلامی نظریات برائے تعلیم پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمعہ کو جناح کنونشن سینٹر میں جمع ہوئے، اور ان سب نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کی۔

وزارت تعلیم کے مطابق اجلاس میں دیگر کے علاوہ مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ نے بھی شرکت کی۔

اس سیشن میں علم، مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کی اقدار کا جائزہ لیا گیا، جن کی جڑیں اسلامی روایات پر مبنی ہیں، اور یہ وہ اہم اصول ہیں جو سب کے لیے جامع تعلیم کو فروغ دیتے ہیں۔

اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین، مفتی تقی عثمانی، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا عبدالخبیر آزاد، ڈاکٹر نور الحق قادری اور مولانا طاہر اشرفی نے شرکت کی[4]۔

قاہرہ کا جامعہ الازہر پر شدید دباؤ، غزہ میں غذائی قلت اور صہیونی مظالم کے خلاف بیان حذف کیا گیا

قاہرہ کا جامعہ الازہر پر شدید دباؤ، غزہ میں غذائی قلت اور صہیونی مظالم کے خلاف بیان حذف کیا گیا مصری حکومت کے دباؤ پر شیخ الازہر احمد الطیب کو غزہ میں انسانی المیے پر بیان واپس لینا پڑا جس میں اسرائیل کو نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مصری حکومت کے شدید دباؤ کے نتیجے میں جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ احمد الطیب کو وہ بیان واپس لینا پڑا جس میں انہوں نے غزہ میں جاری انسانی بحران اور اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کی تھی۔

ذرائع کے مطابق، اس بیان میں اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے محاصرے، جان بوجھ کر غذائی قلت پیدا کرنے، امدادی مراکز پر اور مہاجرین کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے جیسے اقدامات کو نسل کشی قرار دیا گیا تھا۔ شیخ الازہر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انسانی ضمیر آج ایک سخت امتحان میں ہے، جہاں ہزاروں بےگناہ بچے اور شہری غزہ میں بےدردی سے قتل ہورہے ہیں، اور جو بچ جاتے ہیں، وہ بھوک، پیاس، بیماری اور طبی مراکز کی بندش کے باعث موت کے دہانے پر ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ اسرائیلی جرائم، خاص طور پر بھوک کو ہتھیار بنانے کی پالیسی نسل کشی کا واضح نمونہ ہے۔ جو بھی شخص، ملک یا ادارہ اس جرم میں خاموشی اختیار کرے یا صہیونی حکومت کو اسلحہ فراہم کرے وہ اس جرم میں شریک ہے۔ الازہر نے اس بیان میں عالمی برادری، اسلامی حکومتوں، بااثر شخصیات اور اداروں سے فوری اقدام کا مطالبہ کیا تھا کہ غزہ میں قتل و غارت کے سلسلے کو روکا جائے اور امدادی راہداریاں کھولی جائیں۔

یہ بیان جاری ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی الازہر کی تمام پلیٹ فارمز سے حذف کردیا گیا۔ سرکاری ذرائع نے دعوی کیا کہ بیان نظرثانی کے لیے روکا گیا ہے، لیکن بعد ازاں یہ دوبارہ جاری نہ ہوسکا۔ ذرائع نے بتایا کہ اعلی مصری حکام نے براہ راست شیخ الطیب سے رابطہ کرکے کہا کہ بیان کا سخت لہجہ مصر کی ثالثی پر مبنی سفارتی پالیسی سے متصادم ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب قاہرہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالثی کا کردار ادا کررہا ہے[5]۔


حوالہ جات

  1. عبد الواحد، جامعہ الازہر، عالم اسلام کی قدیم یونیورسٹی- شائع شدہ از: 1فروری 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 30 مئی 2025ء
  2. جامعہ الازہر، دانیال حسن چغتائی- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 مئی 2025ء
  3. مفتی گلزار نعیمی، شیخ الازہر ڈاکٹر احمد طیب اور مسلک تشیع- شائع شدہ از: 15 اگسست 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 مئی 2025ء
  4. الازہر یونیورسٹی پاکستان میں اپنا کیمپس کھولے گی، مفتی اعظم مصر ڈاکٹر نذیر محمد عیاد-شائع شدہ از: 11 جنوری 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 26 مئی 2025ء
  5. قاہرہ کا جامعہ الازہر پر شدید دباؤ، غزہ میں غذائی قلت اور صہیونی مظالم کے خلاف بیان حذف کیا گیا-شائع شدہ از: 23 جولائی 2025ء-اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 جولائی 2025ء