ہدایت الرحمن
ہدایت الرحمن
امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت کی علامت ہے
کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے ذریعے نہ صرف ایران کو بیدار کیا بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں خصوصاً فلسطینی عوام کیلیے آواز بلند کی۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امیر جماعت اسلامی بلوچستان و رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا ہے کہ امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت کی علامت ہے۔ دیانتداری و اخلاص سے عوامی حقوق کے حصول ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فلسطینی غزہ کے مسلمانوں پر مظالم کے ذمہ دار امریکہ و اسرائیل کیساتھ مسلم حکمران و سپہ سالار بھی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ لاکھوں افواج اسلحہ و گولہ بارود اور ایٹم بم تک ہونے کے باوجود غزہ میں نسل کشی جاری ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں بانی انقلاب اسلامی آیت اللہ روح اللہ خمینی (ر) کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت، اور اسلامی غیرت کی علامت ہے۔ مظلوموں کوحقوق دلانے کیلئے انقلاب کی ضرورت ہے۔ امام خمینی نے انقلاب اسلامی کے ذریعے نہ صرف ایران کو بیدار کیا بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں خصوصاً فلسطینی عوام کے لیے آواز بلند کی۔
انہوں نے کہا کہ امام خمینی کا پیغام آج بھی ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے اور فلسطین کی آزادی امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے[1]۔
عوام میں مقبولیت
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ آج کل بلوچستان کی سیاست میں خاصی اہمیت حال کرچکے ہیں، اس اہمیت کی وجہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں گوادر کے شہر میں پے در پے جلسے جلوس، دھرنے اور مارچ ہیں۔ مولانا کا تعلق پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت (جماعت اسلامی ) سے ہے، ماضی میں جماعت اسلامی کو بلوچستان میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جو مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں حالیہ دھرنوں کی وجہ ملی ہے۔ اس پذیرائی کی وجہ مولانا کا جماعت اسلامی کی بنیادی پالیسیز اینٹی قوم پرست نظریات سے یکسر مختلف ہونے کی وجہ بھی ہے کیونکہ جماعت اسلامی جن نظریات کی روز اول سے نفی کرتی آ رہی تھی مولانا نے بلوچستان میں اسی سوچ کو اپناتے ہوئے پارٹی پالیسیز کی سیاست سے ہٹ کر کام کیا اور اس حکمت عملی کا خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھا لیا ہے۔
مولانا کی تقریریں بظاہر ریاستی اداروں پر کھلم کھلا تنقید ہے گو کہ جماعت اسلامی بھی وقتاً فوقتاً اداروں پر تنقید کرتی آ رہی ہے مگر یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما نے قوم پرست سوچ و نظریات کو بنیاد بنا کر اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا جس کی وجہ سے مولانا کے گرد ہجوم در ہجوم کی صورت میں لوگ جمع ہونے لگے۔ جماعت اسلامی شاید مولانا کی تقاریر و بلوچ ازم کو قبول ہرگز نہ کرتی مگر اب مولانا کو جماعت اسلامی کی اتنی ضرورت نہیں رہی بلکہ مولانا جماعت کی مجبوری بن چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے جماعت اسلامی سمجھوتہ کی طرف جا چکی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کس حد تک کامیاب ہوچکے ہیں اصل سوال یہ ہے کہ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو مولانا کی ابھرتی شخصیت سے کس حد نقصان پہنچ چکا ہے۔ یہ درست ہے ایک عرصہ سے ایسی دو ٹوک اور واضح الفاظ میں بلوچستان کے مسائل پر بولنے والی قیادت کا فقدان رہا۔ یہ فقدان گوادر میں اور بھی زیادہ رہا جس خلا کو مولانا نے بڑے احسن انداز سے پر کر دیا ہے۔ یہ بات بھی بجا ہے کہ وقتاً فوقتاً اختر مینگل کی تلخ و کڑک آواز اسمبلی فورم سے گونجتی سنائی دی ہے۔
مگر بی این پی کی اجتماعی سیاست گزشتہ تین سوالوں میں سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے، سب سے پہلے وفاق میں حکومتی اتحاد جس نے خاطر خواہ فائدہ نہ پہنچایا اس کے فوراً بعد آرمی چیف کی مدت بڑھانے کے حق میں بی این پی کا حمایت میں ووٹ دینا۔ بی این پی کے حالیہ سیاسی پس منظر پر بات کریں تو بلوچستان میں بی این پی نے باپ پارٹی کے رہنماء موجودہ وزیراعلی قدوس بزنجو کی حمایت کر کے اپنے کارکنان ہی نہیں بلکہ بلوچ قوم پرست نظریات کے حامل ہر فرد کی نظر میں سوالیہ نشان بن کر ابھری ہے۔
ایسے میں مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت کا ابھرنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ المختصر قیادت کے فقدان کا مولانا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہت کامیاب بھی رہے۔ یہ کہنا بالکل بھی مبالغہ آرائی میں شمار نہ ہو گا کہ مذہبی نظریات اور بالخصوص جماعت اسلامی کے رہنماء ہونے کے باوجود بلوچستان میں مولانا کی شخصیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور پورے بلوچستان کے عوام کی نظریں مولانا کے احتجاج اور دھرنوں پر ہے۔ ذاتی رائے کے مطابق مولانا بلوچستان کی سیاست میں ایک قدآور سیاسی شخصیت بن کر ابھرے ہیں جس کے بعد قوم پرست سیاسی جماعتوں کو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔
مگر کچھ اور بھی ہے!
وہ کچھ اور یہ کہ مولانا اگرچہ سیاسی طور بلوچ قوم کی نظر میں اہمیت حاصل کرچکے ہیں جبکہ دوسری طرف قوم پرست سیاسی جماعتوں نے بلوچ عام آدمی کو کافی حد تک مایوس کر دیا ہے۔ مگر بلوچستان میں دو گروپ نہیں بلکہ ایک تیسرا گروپ بھی ہے۔ وہ تیسرا گروپ مکمل اپنے معاملات سے بخوبی آگاہ ہی نہیں بلکہ اپنے نظریات و سوچ میں مکمل واضح بھی ہے۔ وہ جانتا ہے قوم پرست سیاسی جماعتیں بخوشی یا مجبوراً سمجھوتوں کا شکار ہوجاتی ہیں کیونکہ انہیں سیاست میں زندہ رہنا ہوتا ہے۔
انہیں اپنی پارٹی پالیسیز کے ماتحت چلنا پڑتا ہے۔ جبکہ مولانا ہی جدوجہد دراصل حقوق کی جدوجہد نہیں بلکہ مسائل کی جدوجہد ہے۔ مولانا اپنے حساب سے بہتر کام کر رہے ہیں مگر ان کی ریلیاں اور دھرنے کہاں اختتام پذیر ہونے ہیں مولانا کی جدوجہد کا آخری و حتمی نتیجہ کیا نکلنا ہے وہ سب کھلی کتاب کی طرح ہے۔ مولانا لاکھ بھی اداروں پر تنقید کرے مگر ادارے بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کی تنقید کا حتمی نتیجہ کیا نکلنا ہے۔
اور اس حتمی لکیر سے مولانا کبھی آگے نہیں جا سکتے کیونکہ ایک مقام پر آ کر مولانا کی جدوجہد خود بخود دم توڑ جائے گی اور مولانا اسے اپنی جہد کی آخری لکیر سمجھتے ہیں۔ یہ تمام ڈر صورتحال گو کہ ظاہری طور اداروں اور ریاست کی ناراضگی کا سبب ہے مگر یہ جہدوجہد درحقیقت کسی بھی موڑ پر پہنچ کر ریاستی موقف کی تقویت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس لئے تیسرا گروہ مولانا کو زیربحث لانا ہی نہیں چاہتا وقتی مسائل کے حل تک پورا بلوچستان مولانا کی حمایت کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ جس کی مخالفت کوئی بھی ذی شعور بلوچ نہیں کر سکتا۔
جبکہ قوم پرست سیاسی جماعتیں سمجھوتہ کی نظر ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے عام نظریاتی و سیاسی سنگت مایوس ہو کر پیچھے ہٹ رہا ہے۔ ایسے بھی تیسرا گروہ اگر غیر پارلیمانی سیاست کو لے کر سامنے آ جاتا ہے اور میدان میں آ کر جہدوجہد تیز کرتا ہے تو قوم پرست جماعتیں اور مولانا دونوں کے ہاتھ خالی رہ جائیں گے۔ مگر جو مشکلات انہیں درپیش آنی ہیں وہ مولانا کے لاکھ کامیاب جلسے بھی ہوں انہیں درپیش نہیں آنی۔ اس لئے مولانا کے لئے اداروں کی پالیسی یکسر مختلف ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کے لئے مختلف، اور تیسرے گروپ کے لئے ریاست نے الگ پالیسیز اپنا رکھی ہیں جن میں حد درجے کی مشکلات آ رہی ہیں اور آتی رہیں گی۔
فی الحال مولانا ایک انتہائی اہمیت کے حامل ہیں مگر یہ سب ایک حد تک ہے اور وقتی ہے جس کے بعد خاموشی ہی خاموشی ہے۔ مولانا سے اداروں کو کوئی مسئلہ نہیں نہ ہی مولانا اداروں کے لئے کوئی مسئلہ بن سکتا ہے جہاں تک بنیادی مسائل کی بات ہے وہ یقینی طور پورے بلوچستان کے مسائل ہیں اگر مولانا اسی روش پر چلتا رہا تو کافی اہمیت حاصل کرنے کے امکانات واضح ہیں اور آنے والے الیکشن میں مولانا کی جیت یقینی بن جائے گی۔
- ↑ امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت کی علامت ہے، مولانا ہدایت الرحمٰن- شائع شدہ از: 9 جون 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 جون 2025ء