امام
امام ام عربی زبان میں ماں کو کہتے ہیں چونکہ ماں بچہ کی اصل ہوتی ہے عربی زبان میں امام دو الفاظ ام سے مرکب ہو کر بنا ہے ام کے لفظی معنی ابتداء انجام اصل جز کے ہیں۔ پس امام کے معنی ابتدا، اصل اور جڑ کے ہے اس لئے انسان کی ابتدا سے لے کر انجام تک یعنی شروع سے لے کر قیامت تک لے جانے والے صرف امام ہی ہیں اس لئے اسلامی فرقوں میں ان اماموں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
امام کے معنی
راہنما، بادی، پیش رو ( جمع ائمہ ) متکلمین کے نزدیک وہ شخص جو دین کو قائم رکھتے ہیں رسول اللہ کا خلیفہ ( نائب ) ہو محدثین کے نزدیک امام سے مراد محدث اور مفسروں کی اصطلاح میں حضرت عثمان کے حکم پر لکھے گئے قرآن مجید کے نسخے امام بھی کہلاتے ہیں قرآن مجید کی رو سے لوح محفوظ ، راستے اور علمبردار شخص کو بھی امام کہتے ہیں امام کا لفظ خاصے وسیع مفہوم کا حامل ہے عام طور پر اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی پیروی کی جائے یا جس کی اقتداء کی جائے۔ مسجد میں نماز پڑھانے والے کو بھی امام کہا جاتا ہے۔ جہاد میں سپہ سالار کو بھی امام ہی کہا جاتا ہے نیز دینی علوم کے ان ماہرین کو بھی امام کہا جاتا ہے جنہوں نے اجتہاد سے کام لے کر فقہ وحدیث تفسیر کلام وغیرہ کی علمی بنیاد میں استوار کیں۔
اہل تشیع کے نزدیک امام
اہل تشیع کے نزدیک امام کا خطاب حضرت علی اور ان اولاد کے لئے مخصوص ہے ان کا فرقہ اثنا عشری حضرت علی کے بعد ان کی اولاد میں سے پہلے گیارہ افراد کو امام برحق سمجھتے ہیں فرقہ سبیہ کے نزدیک اس کے مستحق پہلے سات امام ہیں۔
اہل سنت کے نزدیک امام
اہل سنت کے نزدیک امام کا متجہد ہونا ضروری ہے چار امام مجتہد اور امام، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل کچھ مجتہد فی الذہب میں امام ابن تیمیہ، امام ابو یوسف، امام ابو داؤد، امام بخاری وغیرہ، دیگر علمائے شریعت مثلاً امام غزالی، امام رازی وغیرہ۔ لغات ولسانیات کے کچھ علماء بھی امام کہلاتے ہیں شیعوں کے عقیدے کے مطابق ایک امام غالب ہیں جو قیامت کے نزدیک مہدی کی صورت میں ظہور پذیر ہوں گے انہیں امام مہدی کہا گیا ہے۔ امامیہ (اہل تشیع) کے نزدیک نام نائب ہر صدی میں ہوتا ہے۔ اسماعیلی آغا خانی اور بوھرے فرقوں میں تو امامت تو تسلسل کے ساتھ چلی آرہی ہے [1]۔
عقیدہ امام
جوکسی امام کا مقلد ہوگا قیامت میں رب تعالٰی بھی اپنے بندوں کو اماموں کے ساتھ پکارے گا رب فرماتا ہے اس دن ہم ہر شخص کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ انبیاء ورسول کا کام خالق کے پیغام کو مخلوق تک پہنچاتا ہے کیونکہ اس خالق کا فرض تھا کہ وہ مخلوق کے لئے بھی کسی ہستی کو پیدا کرتا جو مخلوق کو خالق تک لے جاتا اس ہستی کو امام کہتے ہیں۔ گویا رسول اور نبی کا کام یہ ٹہرا کہ وہ خالق کا پیغام خلوق کو پہنچائے اور امام کا کام مخلوق کو خالق تک لے جائے۔ قیامت کے روز لوگ اپنے اپنے اماموں کے ساتھ پیش ہوں گے۔
اماموں کے متعلق نظریات
اسماعیلیہ کہتے ہیں کہ امام اس غرض سے ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ذات وصفات کی شناخت کرائے اسماعیلیہ امام کو اللہ کی معرفت کا معلم قرار دیتے ہیں۔ امامیہ کہتے ہیں کہ معصوم یعنی امام کی طرف حاجت معرفت الہی کی تعلیم کے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے ہےکہ وہ واجبات عقلی وشرعی کے ادا کرنے اور قبائح عقلی وشرعی سے بچنے میں خدا کی طرف سے ایک لطف و کرم ہے۔
اہل سنت
سنی فرقہ کے نزدیک تقرر امام کا وجود مخلوق پر دلیل سمعی ( شرعی ) سے ثابت ہے ( نوٹ ) سنی امام کو معصوم نہیں کہتے اہلِ تشیع اور اہلِ سنت کا امام کے متعلق یہی اختلاف ہے۔ شیعہ اثنا عشری اماموں کو مانتے ہیں اسماعیلیہ اور اثنا عشری کے نزدیک امام کا معصوم ہونا واجب ہے۔ اسلام میں اماموں کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ اماموں نے دین کی باتیں سمجھائیں اور مذہب کا قانون اتنا سلجھا دیا کہ کسی مسئلہ میں الجھاؤ نہیں ہوتا امام کے بتائے ہوئے مسئلوں اور طریقوں کے سہارے ہر ایک دین کی بات بتانا آسان ہو گئی۔
اسلام میں امامت کا اختلاف
(1) جب حضرت محمد ﷺ کا وصال ہوا امامت اور خلافت کا جھگڑا اُسی وقت شروع ہو گیا۔ ایک فرقہ حضرت علی کو حضور کا جانشین کہتا تھا دوسرا فرقہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عثمان کو خلافت کا جانشین کہتا تھا۔ جو لوگ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کو مانتے تھے وہ گروپ (فرقہ ) سُنی کہلائے ۔ چونکہ سنی فرقہ کا یہ نظریہ تھاکہ یہ صحابی تھے اور ہر وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے۔ اس لیئے خلافت کا حق ان کا ہے دوسرا یہ کہ حضرت ابو بکر صدیق کی بیٹی حضرت عائشہ حضور کی ہوئی تھی اور یہ سنٹر تھے اور حضور کے صحابی بھی تھے اس لیئے اکثریت لوگوں کی ان کے ساتھ تھی۔
(۲) دوسرا گروپ جو حضرت علی کی خلافت کو جانشین مانتا تھا اُن کا نظریہ تھا کہ امامت صرف حضور کے خاندان کے علاوہ کسی اور کا حق نہیں وجہ یہ تھی کہ حضرت محمد نے اپنی زندگی میں خدا کے حکم سے امام علی علیہ السلام کی امامت کا اعلان فرمایا تھا اور شیعوں نے متعدد قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم حضرت محمد کے احادیث کے ذریعے امام علی علیہ السلام اور دیگر اماموں کی امامت ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے۔
(۳) تیسرا گروپ جو ان دونوں کو نہیں مانتا تھا اور وہ صرف حضور کو مانتا تھا وہ خارجی مسلمان کہلائے۔
(۴) چوتھا فرقہ پھر ایک صدی کے بعد معرض وجود میں آیا وہ تصوف (صوفی ازم ) کا اور یہ پیران شیخ طریقت کہلائے۔ اس طرح اسلام کے چار فرقے بن گئے اور یہ
لوگ صرف اپنے اپنے اماموں کو ماننے لگ گئے ۔
1۔ سنی فرقہ کے لوگ فقہ کے چار ائمہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل کو ماننے لگ گئے جو اپنا سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عثمان ،
حضرت عمر اور حضرت عائشہ تک مانتے ہیں۔
۲- شیعہ فرقہ حضرت علی علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد بارہ اماموں اثنا عشری کو ماننے اور اپنا سلسلہ حضرت علی سے حضور تک لے کر جانے لگ گئے ۔
۳۔ تصوف میں سلسلہ قادری، چشتی، سہروردی، نقشبندی کی تقلید کرنے لگ گئے اور ان میں سے پہلے تین سلسلے اپنا تعلق حضرت علی سے جوڑتے ہیں اور چوتھا
نقشبندی اپنا سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق سے ملاتے ہیں اس طرح اسلام میں امامت کے جھگڑے سے فرقوں کی بنیاد پڑی۔
نظریہ
وہ فیصلہ جو قرآن وحدیث میں نہ ہو اور خُدا رسول کے حکم کے خلاف بھی نہ ہو اس کا نام اجتہاد ہے اور جو کوئی ایسا فیصلہ کر سکے اسے محبتد کہتے ہیں۔ تو حاصل کلام یہ ہے کہ ان اماموں نے اسلام دین کی باتوں میں اپنے اجتہاد سے ایسی باریکیاں نکالیں کہ جو کوئی سنتا ہے ان کی عقل کی داد دیتا ہے۔ اور اسلام میں نظریہ یہ ہے کہ اگر امام دین کی باتوں کو نہ بتاتے تو دین اندھیرے میں رہ جاتا۔ کیونکہ ان اماموں نے شرعی عدالتی قانون بنائے اور بتائے بھی۔
اثنا عشری اماموں کی علامات وصفات
- امام آئندہ ہونے والے واقعات بتا دے (علم غیب)۔
- امام ہر زبان اور بولی کو جانتا ہو۔ انسانوں، حیوانوں، چرند، پرند کی بولیاں سمجھے
- امام وہ ہے جو مختون ( ختنہ شدہ ) پیدا ہو۔
- امام وہ ہے جو سامنے سے اور پیچھے بھی دیکھ سکے۔
- امام کی ولادت وفات پر دوسرے امام کا موجود ہونا ضروری ہے۔
- امام وہ ہوتا ہے جس کا جسم کو ظاہر سو رہا ہو مگر دل ہر وقت بیدار رہتا ہے۔
- ↑ اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ص257