سید ضیاء الدین رضوی

ویکی‌وحدت سے

شہید سید ضیاء الدین رضوی، آپ حجتہ الاسلام آغا میر فاضل شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند ہیں۔ آپ ابتدائی تعلیم کے بعد پاکستان کی مشہور درسگاہ حوزہ علمیہ جامعۂ المنتطر گئے اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مرکز علم قم مقدس چلے گئے قم میں دوران قیام کے محسن ملت سید صفدر حسین نجفی کی خواہش پر لندن بھی گئے لندن میں آپ نے درسی و تبلیغی خدمات انجام دیے اور لندن سے واپسی کے بعد گلگت میں خدمت دین میں مشغول ہوئے یہ نوجوان عالم دین اتحاد بین المسلمین کے حامی ہمیں جوان دل میں امنگیں بھی جوان ہیں۔ انقلابی ذہن کے مالک ہیں۔ آپ جہوری اسلامی ایران سے علوم دینی حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آگے۔ آپ مرکزی جامع مسجد امامیہ گلگت کے خطیب تھے۔ 8جنوری 2005ء کو آغا سید ضياء الدین رضوی اپنے تین محافظین کے ساتھ شہید ہوئے [1]۔

ضیاء الدین رضوی ولادت سے نوجوانی تک

حجة الاسلام آغا میر فاضل شاہ رضوی کے ہاں امپھری گلگت میں 1958ء میں سیادت و قیادت اور شہادت کی صفات کے ساتھ ایک نونہال خوش قسمت بچے نے علم وعمل کے اس خانوادے میں آنکھ کھولی اور اس نونہال کا نام ضیاء الدین رکھا گیا آپ نجیب الطرفین رضوی سید تھے اور اس خانوادے میں آپ آغا میر فاضل شاہ رضوی المعروف عادل سید کے ہاں پہلا بیٹا اور آغا میر احمد شاہ رضوی المعروف بڑوسید کے ہاں پہلا نواسہ اور آغا محمد علی شاہ المعروف بڑو آغا کے ہاں پہلا بھانجہ تھے [2]۔ اس لئے آپ کی کی پیدائش پیدا سے سب کو مسرت و شادمانی نصیب ہوئی کیونکہ حجۃ اسلام آغا میر فاضل شاہ نجفی کے ہاں بڑی دیر کے بعد آپ پہلی اولاد تھے۔ اس کے لئے علم وعمل کے اس خاص گھرانے نے دل کھول کر آپ کو پیار ومحبت سے نوازا اور ایسا پیار محبت فقط آپ کی قسمت تھی کیونکہ آپ کا چھوٹا ماموں آغا شمس الدین رضوی شہید بھی آپ کے ہم عمر تھے۔ راقم نے 1958ء اور 1960ء کے دوران اس دونوں شاہزادوں کو اپنی گود میں کھیلایا تھا آپ کا بچھپنا بڑے ناز نغم میں بسر ہوا ہے اور اس خانوادہ کے دینی اور روحانی ماحول میں آپ کی خصوصی نہج پر پرورش اور تربیت ہوتی رہی۔ جب آغا ضیاء الدین رضوی لڑکپنے کی منزل سے گزر رہے تھے اس دوران آپ کی سیادت اور مستقبل کی قیادت کی یوں تربیت ہو رہی تھی کہ محلہ اچھری کے ہم عمر لڑکے ہر نماز مغربین کے لئے زوار سنگی مرحوم کی مسجد میں جمع ہوتے تھے اور صحن مسجد میں چھوٹا صیاء الدین رضوی نماز مغربین کی امامت کراتے تھے اور آپکا چھوٹا ماموں آغا شمس الدین رضوی شہید نمازی بچوں پر کمان کرتے تھے اور یہ دونوں سید زادے ان بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے تھے اگر چہ آغا شمس الدین پڑھائی میں زیادہ تیر نہیں تھے مگر بلا کا خلص تھا اسی طرح ضیاء الدین رضوی سیادت و قیادت اور خدمت دین اسلام کے حوالے سے آپ کی یہ طرز زندگی آپ کی ابتدائی درس گا تھی۔

تعلیم

اسی طرح گھر کے اسلامی اور مذہبی ماحول میں آپ کی اخلاقی اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے 1974ء میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول نمبرا گلگت سے سائنس کے ساتھ اول پوزیشن میں میٹرک کا امتحان بھی پاس کیا۔ اس دوران راقم شعبہ تعلیم سے منسلک تھا اور امپھری گلگت کے پرائمری سکول میں ڈیوٹی کرتا تھا اور مرکزی انجمن امامیہ گلگت کا سکریٹری بھی تھا اور گلگت ہی رہائش پذیر تھا ایک دن حجۃ الاسلام آغا میر فاضل شاہ نجفی نے مجھ سے پاکستان کے مشہور دینی مدارس کے بارے میں تفصیلات پوچھے تو میں نے حوزہ علمیہ جامع المنتظر لاہور میں داخلے کی تجویز دی۔

دینی تعلیم

میٹرک پاس کرنے کے بعد آپ دینی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر صوبہ پنجاب چلے گئے اور مشہور دینی درسگاہ جامعۂ المنتظر لاہور میں داخلہ لیا۔ آپ جامع المقدمات کی ابتدائی کتابیں اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں تھیں آپ محنتی طالب علم تھے اور سرزمین گلگت میں آپ کے خانوادے کی علمی دینی اور تخلیقی خدمات کے پیش نظر حسن ملت علامہ سید صفدر حسین پرنسپل جامع المنتظر لاہور اور علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی وائس پرنسپل نے آپ کا خاص خیال رکھا اسی طرح آغا ضیاء الدین رضوی کو ضیاء بنانے میں دیگر اساتذہ کرام علامہ محمد شفیع نجفی اور موسی بیگ نجفی کی تعلیمی راہنمائی اور خصوصی توجہ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا خود بھی ذہن رسا رکھتے تھے اور اور محنتی طالب علم تھے اس لئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ پنجاب بورڈ سے ایف اے اور پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی میں نے سنا ہے کہ آپ دوران تعلیم نماز تہجد پڑھنے والے خاص طلباء میں شمار ہوتے تھے اور اس کے ساتھ چھوٹی جماعت کے طلباء کو پڑھا کر ان کی تعلیمی مد بھی کرتے تھے۔ چنانچہ 9 جنوری 1980ء میں انتظامیہ کی طرف سے پہلی بار گلگت میں شیعہ عبادات میں مداخلت ہوئی اور سانحہ چہلم رونما ہوا اور اس سانحہ میں علی محمد شہید ہوئے اور سید ہدایت حسین رضوی گولی لگنے سے زخمی ہوئے اس دوران گلگت میں ہنگامی حالات کا نفاذ ہوا راستے بند کر دیئے گئے تھے اور مرکزی انجمن امامیہ گلگت کی طرف سے مجھے اسلام آباد اور لاہور جانے کا حکم دیا اسی طرح میں لاہور پہنچا اس دوران آغا ضیاء الدین رضوی نے اس ریاستی ظلم و زیادتی کی عام تشہیر میں میری ہم کاری کی اس سلسلے میں ہم دونوں ماہنامہ المنتظر لاہور کے دفتر میں علامہ علی غضنفر کراروی صاحب سے ملے اور سانحہ چہلم اور گلگت کے حالات سے آگاہ کیا اور اس خاص میٹنگ میں گلگت انتظامیہ کی جانبداری اور علاقہ جات کی بے آئینی اور حکومت پاکستان کے نمائندوں کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے میں جذباتی ہوا تو کراروی صاحب نے اس موضوع کو سیاست کی جانب موڑ دیا۔

حوزہ علمیہ قم

اس سال کے آخر میں آپ نے لاہور کو خیر باد کہا اور حوزہ علمیہ قم ایران چلے گئےاسی طرح جب حوزہ علمیہ تم کے تعلیمی تعطیلات میں آغا ضیاء الدین رضوی گلگت آئے تو گلگت کے اندر تبلیغی پروگراموں کے انعقاد کے ساتھ مرکز میں باقاعدہ نماز جمعہ کا اہتمام ہوا کیونکہ آغا میر فاضل شاہ نجفی نماز جمعہ نہیں پڑھا سکتے تھے امامیہ آرگنا ئزیشن گلگت کے ممبران خصوصاً حاجی حسین اکبر مرحوم سید محبوب حسین رضوی سلیم رضا مرحوم اور راقم کی کوششوں سے گلگت کے بڑے علاقوں اور دیہاتوں کے تبلیغی دورے رکھے گئے اور آنا موصوف سے پورے سات مکسوہ کے دورے کرائے اسطرح مستقبل میں آپ کی روحانی اور مذہبی قیادت کے لیے زمینہ فراہم کیا گیا۔

اتحاد امت کے لیے جد و جہد

اور ان دوروں کا سلسلہ جاری رہا اس کے ساتھ اتحاد امت مسلمہ کی کوششیں بھی جاری رہی آغا ضیاء الدین رضوی نے انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات اور اثرات کو قریب سے دیکھا تھا نیز علما و اعلام اور اپنے اساتذہ کرام کے توسط سے انقلاب جمہوری اسلام ایران کے بارے میں معلومات کے بھی عالم تھے اور دل کی گہرائیوں سے فکر خمینی کے معتقد مقلد تھے اس لئے اس پیغام وحدت کی خصوصی ترویج کرتے تھے ربانی علماء اور مجتہدین کا یہ حکم ہے کہ وحدت مسلمین کو اہمیت دی جائے اور امام انقلاب خمینی بت شکن نے فرمایا ہے کہ فقہی فرعی فقہی اختلافات کو ترک کیا جائے اور وحدت کلمہ کے برکات کے سائے میں عالمی استکبار کے خلاف اتحاد کے ساتھ مقابلہ کیا جائے دنیا کی علمی سرعت رفتار کے اس دور میں کوئی شیعہ سنی کے نام سے فرعی فقہی اختلافات کی بات کرتا ہے وہ نہ شیعہ ہے نہ سنی وہ عالمی استکباری طاقتوں کا ایجنٹ ہے چونکہ آغا ضیاء الدین رضوی آپ کے مقلد تھے اور علاقے میں امن آشتی کی خاطر اس خدائی پیغام کی تشہیر کی خاص کوشش کرتے تھے بعض مقامی حضرات خصوصاً میجر حسین شاہ صاحب کی مشاورت سے دیوبندی مسجد گلگت کے خطیب اور اہل سنت گلگا و کوہستان کے امیر قاضی عبدالرازق کو مرکزی مسجد گلگت میں دعوت دینا چاہا تو راقم نے مقامی حالات کے تناظر میں اس کی حمایت نہیں کی تھی لیکن سب نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا اور قاضی صاحب کو دعوت دی گئی اور موصوف اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ جامع مسجد امامیہ تشریف لائے اس کے بعد آنا موصوف نے ابتدائی کلمات کے بعد وحدت المسلمین کی ضرورت پر بصیرت افروز روشنی ڈالی آخر میں قاضی صاحب کو موقعہ دیا گیا تو آپ موضوع سے ہٹ گئے اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد چائے پیئے بغیر چلے گئے وحدت مسلمین اور خطہ شمال میں امن و آشتی کے حوالے سے آپ کی فکر قابل ستایش تھی مگر آپ کی یہ کوشش بار آور نہیں ہوئی اسی طرح 1985 ء تک آپ حوزہ عالمیہ تم ایران میں زیر تعلیم رہے اور جید عالماء واستا تذہ کرام سے بھر پور کسب فیض کیا آپ کے خاص اساتذہ میں آیۃ اللہ وجدانی فخر، آیۃ اللہ اعتمادی، آیۃ اللہ خرم پنائی، اور آیۃ اللہ وحید خراسانی مدظلہ سرفہرست تھے اسیطرح علوم متداول اور سطحیات کے دوران آپ آیۃ اللہ العظمی شیخ محمد فاضل لنکرانی کے درس میں بھی شریک ہوتے تھے۔

انگلینڈ میں دینی اور تبلیغی خدمات

اس دوران مختلف ممالک میں مدارس دینیہ کے بانی اور حوزہ علمیہ جامع المنتظر لاہور کے پرنسپل محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی رحمۃ اللہ علیہ کا نظر انتخاب آپ پر پڑی کیونکہ آپ جامع المنتظر کا ہی پھول تھے اس لئے آپ کو اعزام کرا کے اپنا مدرسہ امام المنتظر پرسٹن انگلینڈ بھیج دیا اس طرح وہاں پر آپ درس و تدریس تبلیغ و ترویج اسلام کے ساتھ جماعت و جمعہ کی امامت بھی کراتے تھے مگر آپ کا روحانی ذہن اس مغربی تہذیب و ماحول کی رنگینیوں سے مطمعن نہ تھا اسلئے اعزام کے سال پورے کیئے بغیر سرزمین علم و روحانیت قم ایران واپس ہوئے۔

وطن واپسی

اور وہاں چند ماہ درس کا ایک دورہ کر کے وطن مالوف گلگت پاکستان واپس ہوئے پاکستان میں آنے کے بعد اپنی شریک حیات کی بیماری اور بے وقت موت سے آپ کو بڑا صدمہ پہنچا چنانچہ بغیر ماں کے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت ضعیف والدہ کی خدمت اور خطہ شمال گلگت کے حالات نے آپ کی سوچ پر دباؤ دالا اور قدموں میں مجبوری کی زنجیر ڈالدی اگرچہ 1989 میں شیخ محمد حسین علوی نے آپ کو دعوت دی تھی کہ آپ جامعۃ الشہید پشاور میں درس و تدریس کرے اس دعوت پر آپ نے مزکورہ بالا مشکلات اور پریشانیوں کا تذکرہ کیا مگر غور کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا چونکہ اس لئے گو مگو کے عالم میں شریک حیات کی موت اور سانحہ 1988ء کے بعد کے حالات اور قائد شہید سید عارف حسینی الحسینی کی شہادت نے آپ کے حساس زہن کو مغمحل کر دیا تھا اس گو مگو کے عالم تھے اس دوران جناب سید فاضل حسین موسوی نجفی شیخ تسلام حیدر نجفی شیخ مہربان علی نجفی مرحوم کے علاوہ بعض احباب کے اصرار پر آپ نے ینی جاری تعلیم کو چھوڑ کر گلگت میں ہمیشہ کے لئے رہنے کا حتمی فیصلہ کیا اسی طرح آپ گلگت میں آبادملت تشیع کے پریشان حال لوگوں کے لئے ایک حوصلہ مند سہارا بن گئے اور آپ کی روحانی اور مذہبی قیادت سے ستائی ہو سے ستائی آپ ہوئی ملت کو حوصلہ ملا اور آپ کے وجود سے شیعہ مرکز گلگت میں جان آئی اور ایک نو جوان عالم اور غیر سیاسی قیادت قوم کو مل گئی اسی طرح سات مکسوہ گلگت کے مومنین نے بھی آپ سے عقیدت ومحبت کی انتہا کر دی کیونکہ آپ کے خاندانی پس منظر کی بدولت بھی آپ سے لوگ محبت کرتے تھے اور خود آپ کی غیر سیاسی طرز ادا سے عوام الناس کے دلوں میں عقیدت واحترام کا ایک خاص جذبہ پیدا ہوا تھا [3]۔

مذہبی قیادت

انجمن امداد المسلمین حلقہ نمبر 3 گلگت کے چھے رکنی وفد نے آنا ضیاء الدین رضوی سے ان کے در دولت پر ملاقات کی اور انجمن کے مسائل کے حوالے سے مزاکرات کیلئے اس گفتگو کے بعد آغا موصوف نے خود دیگر علاقائی مسائل کے نو پورہ گلگت کے متنازعہ مجلس عزا اور اس بارے میں پیش آنے والے مسائل اور رکاوٹوں کے بارے میں اراکین انجمن کو آگاہ کیا تو اس دوران راقم نے بہت سخت الفاظ میں آپ کو بہت سخت ست کیا اور بتایا کہ مجلس عزا کے انعقاد کا مقصد بطور ابلاغ تبلیغ اور فلسفہ شہادت امام حسین کی ترویج کر ہوتا ہے اگر کوئی فقط آپ کی مخالفت میں آپ سے ذکر حسین علیہ السلام نہیں سننا چاہتا ہے تو یہ ضروری ہیں کہ آپ خود جا کر وہاں زبردستی تقریر کریں تبلیغ اور ترویج شہادت امام حسین کی خاطر مجلس پڑھنے کا متبادل بندوبست بھی کیا جا سکتا تھا کیونکہ مذہبی قیادت کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ملت مسلمہ کے اندر موجود نادان اور متعصب افراد کی اس روش کو نظر انداز کر کے وحدت مسلمین کی جانب قدم اٹھانا چاہئے میں نے کہا آپ کا صرف یہ کام نہیں کہ ایک جگہ مجلس پڑھے ایک جگہ نوحہ خوانی کرے اور دوسری جگہ سینہ زنی کرائے کے آپ کے ہاتھ میں قیادت ہے [4]۔

  1. غلام حسین انجم دینوری، شیعیت گلگت میں، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ دینور گلگت، 2006ء،ص249
  2. غلام حسین انجم، اسلام گلگت میں، 1194ء،ص88
  3. غلام حسین انجم، شہید ضياء الدین رضوی، خیر الناس ویلفیر ٹرسٹ گلگت، 2008ء، ص118
  4. ایضا،ص127