"محمد اقبال لاہوری" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 106: سطر 106:


جس دیس کے بندے‘ ہیں غلامی پہ رضا مند
جس دیس کے بندے‘ ہیں غلامی پہ رضا مند
اس کائنات کی تمام مخلوقات پر انسان کو بزرگی بخشی گئی ہے۔ انسان کے کردار اور اس کے وجود میں لانے والی قوت خود اس کے جذبات اور تخیل ہوتے ہیں۔ جذبات کو اعلیٰ تخیلات اور بلند افکار کے تابع کرنے کا نام دراصل تربیت ہے کیونکہ جب افکار اور تخیل پختہ ہو جاتے ہیں تو اعمال کی صورت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جب عمل بار بار کیا جاتا ہے تو عادت بن جاتی ہے۔ عادتوں ہی سے انسان کا کردار یا سیرت بنتے ہیں۔ چنانچہ اقبال مرحوم نے ہمیشہ عمل پر زور دیا اور مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہی بتایا کہ وہ اعمال سے گریز کرنے لگے ہیں۔ جب کوئی قوم عمل سے جی چراتی ہے تو اس کی قسمت کا ستارہ ہمیشہ ڈوب جایا کرتا ہے۔
یہی نکتہ اقبالؒ نے مندرجہ ذیل اشعار کے ذریعہ مسلمانوں کو سمجھانے کی کوششیں کی ہیں۔


ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
سطر 118: سطر 115:
بر آں صفت تیغ وپیکر نظر اس کی<ref>[https://dailypakistan.com.pk/17-Mar-2017/544016 مسلمان کا مقام علامہ اقبالؒ کی نظر میں]- شائع شدہ از: 17 اپریل 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔</ref>۔
بر آں صفت تیغ وپیکر نظر اس کی<ref>[https://dailypakistan.com.pk/17-Mar-2017/544016 مسلمان کا مقام علامہ اقبالؒ کی نظر میں]- شائع شدہ از: 17 اپریل 2017ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔</ref>۔
== عالم اسلام کا موجودہ بحران اور فکر اقبال کی اہمیت ==
== عالم اسلام کا موجودہ بحران اور فکر اقبال کی اہمیت ==
علامہ اقبال کے نام سے منسوب اس جلسہ میں تاریخوں کا – تاریخ کا نہیں – عجب اتفاق ہے۔ اسی ماہ یعنی نومبر کی 9؍ تاریخ کو 136؍ سال قبل علامہ اقبالؔ پیدا ہوئے تھے، اور [[محرم]] کی علامہ اقبالؔ  کے نام سے منسوب اس جلسہ میں تاریخوں کا – تاریخ کا نہیں – عجب اتفاق ہے۔ اسی ماہ یعنی نومبر کی 9؍ تاریخ کو 136؍ سال قبل علامہ اقبالؔ پیدا ہوئے تھے، اور محرم کی 10؍ تاریخ یعنی یوم عاشورہ بھی اسی ماہ کی 4؍ تاریخ کو آیا ہے۔
آج سے 1376؍ سال قبل کربلا کے میدان میں [[حسین بن علی|سیدنا حضرت حسینؓ]] کی شہادت ہوئی تھی۔ اسی وقت سے عالم اسلام میں بحران کا آغاز ہوا۔ حضرت حسینؓ کی شہادت دراصل عالم اسلام کے بحران کو روکنے کی جاں توڑ کوشش کا نام ہے۔ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا مبارک دور ختم ہو کر ملوکیت کا آغاز ہورہا تھا، حضرت حسینؓ نے اپنی جان پر کھیل کر اُسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ بحران رک نہ سکا، مگر حضرت حسینؓ کامیاب رہے۔ اپنی عظیم شہادت سے آپ نے جو درس دیا، اُس کو یاد رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی شدید ضرورت ہے:
آج سے 1376؍ سال قبل کربلا کے میدان میں [[حسین بن علی|سیدنا حضرت حسینؓ]] کی شہادت ہوئی تھی۔ اسی وقت سے عالم اسلام میں بحران کا آغاز ہوا۔ حضرت حسینؓ کی شہادت دراصل عالم اسلام کے بحران کو روکنے کی جاں توڑ کوشش کا نام ہے۔ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا مبارک دور ختم ہو کر ملوکیت کا آغاز ہورہا تھا، حضرت حسینؓ نے اپنی جان پر کھیل کر اُسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ بحران رک نہ سکا، مگر حضرت حسینؓ کامیاب رہے۔ اپنی عظیم شہادت سے آپ نے جو درس دیا، اُس کو یاد رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی شدید ضرورت ہے:


سطر 131: سطر 126:


ملوکیت کے دور کی تان بھی 1270؍ سال بعد ٹوٹ گئی جب پہلی عالمی جنگ کے بعد سن 1920ء  میں ترکی میں کمال اتاترک کی قیادت میں نادان ترکوں نے انگریزوں کے اشاروں پر خلیفہ کو معزول کردیا۔ مسلم دنیا پر اس سانحے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بالخصوص ہندوستا ن میں مسلمانوں کے ذہنوں پر بجلی کوند گئی، مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ ہمتیں جواب دے گئیں۔ مسلم قیادت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا۔ جس نے پورے ملک میں بحالئ خلافت کی تحریک چلائی تھی۔ ملت افراتفری کا شکار ہو گئی۔ اتحاد بکھر گیا۔ مسلمان بے بسی، بے کسی اور بے چارگی میں مبتلا ہو گئے<ref>[https://rafeeqemanzil.com/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%88%D8%AC%D9%88%D8%AF%DB%81-%D8%A8%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%81%DA%A9%D8%B1-%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7/ عالم اسلام کا موجودہ بحران اور فکر اقبال کی اہمیت]-شائع شدہ از: 20 نومبر 2014ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔</ref>۔
ملوکیت کے دور کی تان بھی 1270؍ سال بعد ٹوٹ گئی جب پہلی عالمی جنگ کے بعد سن 1920ء  میں ترکی میں کمال اتاترک کی قیادت میں نادان ترکوں نے انگریزوں کے اشاروں پر خلیفہ کو معزول کردیا۔ مسلم دنیا پر اس سانحے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بالخصوص ہندوستا ن میں مسلمانوں کے ذہنوں پر بجلی کوند گئی، مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ ہمتیں جواب دے گئیں۔ مسلم قیادت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا۔ جس نے پورے ملک میں بحالئ خلافت کی تحریک چلائی تھی۔ ملت افراتفری کا شکار ہو گئی۔ اتحاد بکھر گیا۔ مسلمان بے بسی، بے کسی اور بے چارگی میں مبتلا ہو گئے<ref>[https://rafeeqemanzil.com/%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%88%D8%AC%D9%88%D8%AF%DB%81-%D8%A8%D8%AD%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%81%DA%A9%D8%B1-%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7/ عالم اسلام کا موجودہ بحران اور فکر اقبال کی اہمیت]-شائع شدہ از: 20 نومبر 2014ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔</ref>۔
== اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد پر سامراجی ردِّعمل ==
ایک درویشِ خدا مست کے خطبۂ الٰہ آباد نے برصغیر کے خود مست سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ برطانوی سامراج کے ایوانِ اقتدار کے بلند ترین کنگروں میں بھی لرزشیں پیدا کر دی تھیں۔ پہلی گول میز کانفرنس کی امیدیں خاک میں مِل کر رہ گئی تھیں۔ پروفیسر ایڈورڈ تھامسن جیسے سامراج نواز دانشوروں کو ساری کی ساری دنیا مشرق مغرب کے پنجۂ استبداد سے آزاد اور خودمختار نظر آنے لگی تھی۔
برطانوی وزیراعظم سرریمزے میکڈانلڈ نے بصد یاس و حرماں اعتراف کیا تھا کہ اقبال کے اس خطبۂ الٰہ آباد نے پہلی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں ہماری کامیابی کو ناکامی میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ آکسفورڈ کے پروفیسر ڈاکٹر ایڈورڈ تھامسن نے اپنے اندیشہ ہائے دور و دراز پر مشتمل ایک طویل خط12 اکتوبر1931ء کولندن کے روزنامہ ٹائمز (Times) میں شائع کردیا تھا جس میں خطبۂ الٰہ آباد کو ساری کی ساری دنیائے مشرق میں برطانوی مفادات کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا۔
''پان اسلامک سازش'' کے عنوان سے شائع ہونے والے اس خط کے جواب میں علامہ اقبال نے تھامسن کے خط کے جواب میں اپنانقطۂ نظر شائع کر دیا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس کے ایک رکن کی حیثیت سے لندن میں مقیم تھے۔ اقبال گول میز کانفرنس میں جاری مذاکرات سے ناخوش تھے۔ برطانوی حکومت مصر تھی کہ وہ اپنے پیچھے ایک متحدہ ہندوستان چھوڑ کر جائے گی۔ چنانچہ حکومت ایک آل انڈیا فیڈریشن کاآئینی خاکہ تیار کرنے پر اُدھار کھائے بیٹھی تھی۔ اقبال متحدہ ہندوستان کے اس تصور کو مسلمانوں کے مفادات کے منافی سمجھتے تھے۔ تقریباً ایک برس پیشتر وہ اپنے خطبہ الٰہ آباد میں ہندوستانی مسلمانوں کو جدید معنوں میں ایک الگ قوم ثابت کرچکے تھے۔ اس جداگانہ مسلمان قوم کی اسلامی شناخت کی گہری فلسفیانہ بنیادیں اُجاگر کر چکے تھے
<ref>[https://hilal.gov.pk/view-article.php?i=5635 ہلال اردواقبال کے خطبۂ الٰہ آباد پر سامراجی ردِّعمل]- شائع شدہ از: 1 نومبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29 دسمبر 2024ء۔</ref>۔
== علامہ اقبال اور اسلامی بیداری ==
== علامہ اقبال اور اسلامی بیداری ==
ایک اچھے کلام، شعر یا نظریے کو زمان و مکان میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ بعض الفاظ اور نظریے آفاقی ہوتے ہیں اور انہیں (universal truth) عالمگیر سچائی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مشہور شاعر علامہ محمد اقبال جنہیں حکیم امت، شاعر مشرق، مصور پاکستان اور ان جیسے دوسرے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ایسے صاحب نظر  اور نظریہ پرداز شاعر و دانشور ہیں کہ ان کے کلام اور نظریے کی آفاقیت، محبوبیت اور مقبولیت آج بھی زبان زد خاص و عام ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو بنیادی کردار علامہ اقبال کے افکار و اشعار نے ادا کیا ہے تاریخ اسے فراموش نہیں کر سکتی۔ برطانوی سامراج کے چنگل میں فکری، نظری، ثقافتی اور سیاسی تسلط میں گرفتار امت مسلمہ کے لیے علامہ محمد اقبال نے جو چراغ روشن کیے اس کی روشنی اور کرنیں آج بھی با آسانی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے قرآنی تعلیمات اور صدر اسلام کو اپنا منشور اور آئیڈیل قرار دے کر بر صغیر پاک و ہند کی نوجوان نسل میں ایسی روح پھونکی کہ وہ نہ صرف اپنی خوابیدہ صلاحیتوں سے آشنا ہوا بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان عمل میں وارد ہوگیا۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو بنیادی کردار علامہ اقبال کے افکار و اشعار نے ادا کیا ہے تاریخ اسے فراموش نہیں کر سکتی۔ برطانوی سامراج کے چنگل میں فکری، نظری، ثقافتی اور سیاسی تسلط میں گرفتار امت مسلمہ کے لیے علامہ محمد اقبال نے جو چراغ روشن کیے اس کی روشنی اور کرنیں آج بھی با آسانی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے قرآنی تعلیمات اور صدر اسلام کو اپنا منشور اور آئیڈیل قرار دے کر بر صغیر پاک و ہند کی نوجوان نسل میں ایسی روح پھونکی کہ وہ نہ صرف اپنی خوابیدہ صلاحیتوں سے آشنا ہوا بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان عمل میں وارد ہوگیا۔