اختر عباس شیخ الجامعہ حضرت آیت اللہ اختر عباس نجفی ؒ کا شمار پاکستان کے ان ممتاز ترین علمائے دین میں ہوتا ہے۔ جو ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں ترویج و تحفظ علوم دین کیلئے راہنما کی حیثیت سے یاد رہینگے اور جنکی زندگی علم اور عمل کے میدان میں آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو گئی۔

اختر عباس
اختر عباس.jpg
دوسرے نامشیخ الجامعہ، حضرت آیت اللہ اختر عباس
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہپاکستان
یوم وفات26 اپریل
وفات کی جگہسیالکوٹ
اساتذہحضرت آیت اللہ العظمیٰ خوئی آیت اللہ شہید محمد باقر الصدر، آیت اللہ شہید میرزا علی غرویؒ اور آیت اللہ موسوی اردبیلی
شاگردآیت اللہ العظمیٰ حافظ بشیر حسین نجفی(مرجع تقلید۔ نجف اشرف) محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم۔ حضرت علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی
مذہباسلام، شیعہ
مناصبمؤسس حوزہ علمیہ جامعہ المنتظر لاہور

سوانح عمری

علامہ اختر عباس نجفی سر زمین پنجاب کے ایک دور افتادہ علاقہ کوٹ ادو کے ایک نواحی گاؤں چاہ کورائی والا( منہاں شریف) میں پیدا ہوئے مشہور روایت کے مطابق آپکی پیدائش 1925ء میں ہوئی جبکہ بقول ان کے خانوادہ کے انہوں نے خود 1923ء بتائی تھی۔ آپ اصل بلوچ تھے کتب میں ملتا ہے کہ آپ کے جد امجد کورائی خان۔ امیر جلال خان کے بیٹے تھے جو اس علاقہ کی تاریخ میں بلوچ قوم کے ابتدائی فرد اور سربراہ تسلیم کئے گئے۔

آپ کے والد صدیق محمد بلوچ اپنی ذاتی تحقیق سے مذہب شیعہ اختیار کر چکے تھے۔ یہ ان کی دی ہوئی تربیت ہی کا اثر تھا کہ ان کے تینوں بیٹے علم دین حاصل کرنے کیلئے متوجہ ہوئے۔ جن میں محمد بخش ، احمد بخش اور عابد حسین شامل تھے۔ محمد بخش بعد میں مولانا محمد بخش باقری کے نام سے مشہور ہوئے اور قم (ایران) میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے کر محرم 1409ہجری میں واصلِ بحق ہوئے۔ اور عابد حسین اپنی نوجوانی ہی میں دوران تعلیم نجف اشرف (عراق) میں رحلت فرماگئے اور وادی السلام میں مدفون ہیں۔ جبکہ احمد بخش 1939ء میں اختر عباس کے نام سے موسوم ہوئے[1]۔

تعلیم

علامہ اختر عباس کی شخصیت ، بیک وقت و قار و دبدبہ اور شفقت و شگفتگی کا امتزاج تھی۔ وہ اسلاف کی نشانی تھے۔ علم و فضل کا پیکر تھے۔ دینی اور ملی امور میں ان سے رہنمائی اور استفادہ کیلئے پاکستان بھر سے علماء وقتا ً فوقتا ً حاضری دیا کرتے تھے۔ بیرون ملک سے بھی جب کوئی اہل علم تشریف لاتے تو زیارت کیلئے حاضر ہوتے۔ انہوں نے کبھی کوئی باقاعدہ عہدہ قبول نہ کیا خواہ اس کی پیش کش قومی وملی اداروں کی جانب سے ہوتی یا حکومت وقت کی طرف سے ۔ وہ اپنے علمی منصب کے پیش نظر یہ بہتر خیال کرتے تھے کہ کسی عہدہ کو حاصل کرنے کی بجائے سب کیلئے نقد و نظر کا فریضہ انجام دیں۔

اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ وہ دور اندیش ، صاحب ِ دلیل اور برجستہ شخصیت کے مالک تھے۔ ان کےمؤقف سے بعض اوقات کئی ذمہ دار افراد اختلاف بھی کرتے تھے مگر علامہ کے انتہائی علمی مرتبہ کے پیش نظر ہی نہیں بلکہ ان کے خلوص ِ نیت و عمل اور بزرگانہ شفقت کے باعث بھی احترام ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ انہوں نے ہر خاص و عام سے محبت اور پیار کا برتاؤ کیا۔

اختر عباس عربی ، فارسی ، اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ سرائیکی تو آپ کی مادری زبان تھی۔ جملہ زبانوں کے محاورں اور ضرب الامثال کا خوب استعمال کرتے۔ وہاں بیٹھا ہوا ہر شخص انہیں خود سے قریب پاتا۔ جب تنہا ہوتے تو مطالعہ کرتے رہتے۔ کبھی تلاوت قرآن حکیم فرماتے، کبھی علمی و ادبی کتب میں مستغرق ہوتے یا کتب کے تحریر و ترجمہ میں مشغول رہتے۔

زہد

آپ کے معمولات ، دل پذیر اصولوں سے عبارت تھے۔ نماز فجر کے بعد چائے کا ایک کپ اور آدھی خشک روٹی آپ کا ناشتہ تھا۔ جس کے بعد اس روز کے دروس کیلئے مطالعہ فرماتے اور بر وقت تیار ہو کر درس دینے کیلئے روانہ ہو جاتے۔ اگر سواری میسر نہ ہوتی تو پیدل ہی چل پڑتے۔ دہشت گردی کی پُر خوف فضا میں بھی کبھی خود حفاظتی کا تردد نہ کیا۔ 1998ءمیں مؤمن پورہ لاہور کے سانحہ میں بال بال زندہ بچ جانے کے فوراً بعد بغیر کسی خوف و ہراس اور حفاظتی انتظام کے جامعہ خدیجۃ الکبرؑیٰ پہنچے کیونکہ وہاں آپ کے درس کا وقت ہو چکا تھا ۔ ظہر کے بعد گھر واپسی ہوتی تو مختصر غذا تناول کرنے کے بعد کچھ دیر آرام کرتے۔ عصر کا وقت تلاوت قرآن کیلئے مخصوص تھا۔ نماز عصر کے بعد زیارت عاشور پڑھنا ان کا معمول تھا۔

اس کے بعد احباب ملاقات کیلئے حاضر ہوتے۔ نماز مغربین کے بعد ریڈیو سے پاکستان کی اور جملہ عالمی خبریں بھی باقاعدگی سے سنتے۔ پھر مطالعہ اور تالیف و ترجمہ میں رات گئے تک مصروف رہتے۔ آپ نہایت خود دار طبیعت کے مالک تھے۔ ساری زندگی علم و تدریس سے وابستہ رہے مگر آسودگی معاش کیلئے بھی محنت کی۔ ابتدائی تعلیم کے دوران لاہور میں ایک بٹن فیکٹری میں کام کیا ۔ بعد نجف ، لاہور اور قُم ، جہاں بھی گئے کتابوں کی دکان کھول کر گھر کا گزارہ کرتے رہے۔

اولاد کی تربیت

آپ اپنی اولاد کی تربیت سے بھی غافل نہ ہوئے۔ خوش قسمتی سے آپ کی اہلیہ بھی نہایت دینی ماحول کی پروردہ تھیں۔ اپنے بچوں کو دین و اخلاق کے ساتھ اعلیٰ دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ کیا اور ان کو ہمیشہ محنت اور دیانت کا سبق دیا۔ پردہ کے اتنے قائل تھے کہ اپنی ہر صاحبزادی کے نکاح کے وقت داماد پر ہمیشہ پردے کی شرعی پابندی کی شرط عائد کی۔

علمی سفر

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ ہی میں حاصل کی اور آبائی پیشہ کاشتکاری میں افراد خانہ کے معاون رہے لیکن 1938ء میں مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد علوم دین حاصل کرنے کا تہیہ کیا اور ملتان تشریف لے آئے۔جہاں مدرسہ باب العلوم میں داخلہ لے لیا۔ آپ کےابتدائی اساتذہ میں مولانا شیخ محمد یار اور مولاسید زین العابدین شامل تھے۔ مدرسہ باب العلوم ملتان میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اس دور میں علم و ادب کی ایک نابغہ روزگار ہستی استاذ العلماء مولانا سید محمد باقر چکڑالوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انکے خاص شاگردوں میں شامل رہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اختر عباس نے علم دین کو ہر پہلو سے کاملاً سمجھنے اور پرکھنے میں خوب تگ و دو کی۔ وہ 1940ء میں اہلسنت کے بریلوی مکتب فکر کی درسگاہ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں مولانا حافظ مہر محمد اچھروی کے پاس اور پھر دیوبند مکتب فکر کے مولانا عبد الخالق کی خدمت میں نڑہال (نزد کبیر والا) حاضر ہوئے اور انہی کے ہمراہ دیوبند بھی تشریف لے گئے۔

جہاں مولانا اعزاز علی امروہوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے کسبِ فیض کیا۔ وہاں سے شدید علالت کے باعث وطن واپس آنا پڑا۔ صحت یابی کے بعد علوم جعفریہ کی ایک اور نادر ہستی استاذ العلماء آیت اللہ سید محمد یار شاہ نجفی کی خدمت میں جلال پور ننگیانہ میں حاضری دی۔ پھر استاذ العلماء سید گلاب علی شاہ نقوی کے پاس ملتان میں دولت علم سے فیض یاب ہوئے۔ حتیٰ کہ 1945ء میں بروز عید ِغدیر، عازم نجف اشرف (عراق) ہوئے۔

نجف

یہ آپ کی علمی زندگی کا ایک یاد گار دور تھا۔ اُس دور میں جو علمی ہستیاں وہاں موجود تھیں ان میں سے بعض اس صدی کی سب سے نمایاں علمی ہستیاں شمار کی جا سکتی ہیں۔ علامہ اختر عباس ؒ نے وہاں اعلیٰ دینی علوم سے خود بھی اکتساب اور بعد میں وہاں آنے والوں کو مستفید بھی کیا۔ وہاں آپ کے اساتذہ میں آیت اللہ العظمیٰ شیخ مجتبیٰ لنکرانی ، آیت اللہ العظمیٰ ابو القاس رشتی، آیت اللہ العظمیٰ میرزا محمد باقر زنجانی اور آیت اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم الموسوی الخوئی جیسے بلند پایہ فقہاء اور مراجعین شامل تھے۔

جن سے آپ نے فقہ و اصول فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ آپ حضرت آیت اللہ العظمیٰ خوئی کے چند خاص شاگردوں میں شامل تھےاور آپ کا تذکرہ حضرت موصوف وقتا ً فوقتا ً اچھے الفاظ میں فرمایا کرتے تھے۔ آیت اللہ شہید محمد باقر الصدر ؒ، آیت اللہ شہید میرزا علی غرویؒ اور آیت اللہ موسوی اردبیلی (جو بعد میں اسلامی جمہوریہ ایران کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس رہے) بھی آپ کے ہم درس تھے۔ نجف اشرف ہی میں آپ مرجعِ دَوراں حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم طبا طبائی ؒ کے ساتھ بحثیت اردو ترجمان کے وابستہ رہے۔ یہ امر بعد مولانا صادق علی نجفی مد ظلہ سر انجام دیتے رہے۔

تاسیس جامعۃ المنتظر

تاسیس جامعۃ المنتظر 1954ء میں علامہ اختر عباس ؒزیارت معصومہ کیلئے قم پہنچے تو مرجعِ عصر آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی کی خدمت میں حاضری دی۔ وہاں لاہور سے تعلق رکھنے والے کچھ اصحاب یہ درخواست لے کر پہنچے ہوئے تھے کہ ہمارے ہاں ترویج علوم محمد ؐ و آل ؑ محمد ؐ کیلئے روحانی امداد فرمائے۔ آیت اللہ بروجردیؒ نے علامہ اختر عباس کو لاہور میں جا کر مدرسہ قائم کرنے کا حکم صادر فرمایا[2]۔

لاہور میں ایک انتہائی مخلص و مخیر شخصیت حاجی شیخ محمد طفیل مرحوم نے سہم امام علیہ السلام کی رقم سے مالی امداد کی اور چند دیگر احباب نے ابتداء میں ایک مکان کا انتظام کیا ۔ جس کے بعد حسینیہؑ ہال اندرون موچی دروازہ پھر وسن پورہ میں (باقاعدہ) جامعتہ المنتظر کی بنیاد رکھی گئی۔ قدیم احباب لاہور شاہد ہیں کہ علامہ صاحب نے یہاں باقاعدہ نماز با جماعت اور دروس و مجالس کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے بڑھ چڑھ کر تعاون کیا اور ایک ایسی روح بیدار ہوئی جو جامعہ کو موجودہ صورت اور مقام تک لے آئی۔ وہیں پر ملی فلاح کیلئے بارہ افراد کے صیغہ ء اخوت والا واقعہ پیش آیا جس میں علامہ صاحؒب کے علاوہ گیارہ اور اصحاب شامل تھے۔

اسی دوران میں آپ نے لاہور سےالمنتظر کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ شائع کرنےکا آغاز کیا۔ تاکہ عوام میں دینی فکر کو اجاگر کرنے کے ساتھ تازہ علمی و ملی سر گرمیوں سے آگاہی بھی دی جا سکے۔ اسی عرصہ میں آپ نے علماء اور زعمائے ملتِ شیعہ کو خدمت دین کیلئے متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1964ء تک دس سال آپ نے جامعہ میں بطور مدرّس اعلیٰ خدمات انجام دیں اور پھر واپس نجف اشرف تشریف لے گئے۔ جہاں تین سال قیام کیا۔

قُم میں آمد اسی زمانہ میں قم مقدس (ایران) میں اس وقت کے آیت اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم شریعتمداری نے ایک جامع علمی ادارہ دار التبلیغ اسلامی کے نام قائم کیا۔ علامہ صاحبؒ بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ علمائے ایران جن میں آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازیؒ مد ظلہ اور آیت اللہ جعفر سبحانی مد ظلہ شامل تھے۔ نجف اشرف تشریف لائے اور آپ کے ساتھ ملاقات میں آقائے شریعتمداریؒ کی طرف سے قم آنے کی دعوت دی۔ تاکہ دار التبلیغ کے شعبہ اردو میں معاونت لی جا سکے۔ قم میں آپ نے اپنی ذمہ داری سنبھالی تو آقائے موصوف کے دروس خارج میں بھی شرکت کی اور پہلی بار دروس کو ٹیپ ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا۔

پاکستان واپسی

پاکستان واپسی 1974ء میں آپ پاکستان تشریف لائے تو کوٹ ادو میں دار التبلیغ اسلامی جامعتہ الشیعہ کی بنیاد رکھی اور اپنے آبائی علاقے کا حق اس طرح علمی و دینی خدمت کے ذریعے ادا کیا۔ علامہ بتایا کرتے تھے کہ اس مدرسہ کیلئے دار التبلیغ اسلامی قم کی کسی قسم کی معاونت شامل نہیں تھی۔ 1987ء میں وہاں ایک شاندار اور وسیع مسجد کی بنیاد بھی رکھی جس میں ہزاروں افراد کی گنجائش ہے۔ شروع میں لوگ متعجب تھے کہ اتنے نمازی کہاں سے جمع ہونگے لیکن اب یہ مسجد نماز جمعہ، ماہ رمضان المبارک اور عیدین کی موقعوں پر لو گوں سے پُر ہو جاتی ہے۔ اس کی تعمیر ہنوز تشنہ ء تکمیل ہے۔

ملی اور سیاسی صورتحال

ملی اور سیاسی صورتحال ایک ذمہ دار عالم دین کی حیثیت سے علامہ اختر عباس ؒ نے کبھی بھی اپنے فریضہ ء شرعی میں تساہل نہیں برتا۔ تحفظ عقائد کا معاملہ ہو یا ملت کے تشخص کا یا ملک میں نفاذ اسلام کا ۔ علامہ مرحوم نے اپنی صوابدید کے مطابق اپنا کردار بھر پور اور بے باکانہ ادا کیا ۔ سن ساٹھ کے عشرے میں جب شیخی نظریات کو شیعیت میں مدغم کرنے کی کو شش ہوئی تو محراب و منبر کی سچی پاسداری کیلئے علماء نے اپنی آواز بلند کی۔ حضرت علامہ مفتی جعفر حسینؒ، مولانا محمد یار شاہ نجفی ؒ، مولانا گلاب علی شاہؒ، مولانا محمد حسین نجفی مد ظلہ ، مولانا حسین بخش آف جاڑا ؒ، اور مولانا حافظ سیف اللہ جعفری ؒ کے ساتھ علامہ اختر عباس ؒ کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔

1977ء میں پاکستان عام انتخابات کا غلغلہ ہوا تو اسلامی فکر رکھنے والی قوتوں نے نظام مصطفی ؐ کے عنوان سے تحریک کی صورت اختیار کر لی۔ علامہ اختر عباسؒ نے اس کی تائید کرتے ہوئے مفتی محمود مرحوم کے ساتھ کوٹ ادو میں جلسہ عام سے خطاب بھی کیا۔ اس سے پہلے تحریک ختم نبوت میں بھی انہوں نے نہایت سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے اسلامی نظام حکومت کیلئے ظاہری کاروائیاں شروع کیں تو شیعہ قوم نظر انداز کی جانے لگی۔

مفتی جعفر حسین مرحوم نے جو دینی و ملی و ملکی خدمات میں ہمیشہ نمایاں رہے تھے اور 1951ء کے مشہور بائیس نکاتی اعلان پر دستخط بھی کر چکے تھے، 1979ءمیں جنرل ضیا ء الحق کی اسلامی مشاورتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا۔ جس کے بعد ملت شیعہ جعفریہ میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی شیعہ قوم کے نمائندہ علماء اور زعماء ، خواص و عوام نے بھکر میں قصر زینبؑ کے مقام پر ایک کنونشن منعقد کیا جہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ وجود میں آئی اور مفتی جعفر حسین مرحوم کو قائد ملت جعفریہ کا درجہ دیا گیا۔

انقلاب اسلامی ایران

انقلاب اسلامی ایران اس صدی کا سب سے بڑا اسلامی انقلاب 1979ءمیں ایران میں وقوع پذیر ہوا۔ جس کے نتیجہ میں وہاں قدیمی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ انقلاب دنیا بھر میں جہاں غلامی اور آمریت کے خلاف تحریکوں میں رہنما ثابت ہوا، وہیں عالمِ اسلام کے تشخص کیلئے اس کا کردار قابل فخر رہا۔ علامہ مرحوم چونکہ ان دنوں میں قم سے پاکستان تشریف لائے تھے لہذا عوام الناس کے سامنے اس انقلاب کا بھر پور مثبت طریقے سے تعارف پیش کیا۔

اور جگہ جگہ انہوں نے اپنی تقاریر میں اسلامی انقلاب کے مؤقف کو اجاگر کیا۔ نجف اشرف میں جب رہبر انقلاب حضرت امام خمینیؒ جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے تو علامہ موصوف کے ان سے نزدیکی تعلق کے باعث ایران میں شاہ کی بد نامِ زمانہ پولیس (ساداک) نے آپ کی قم آمد پر آپ کیلئے مشکلات پیدا کیں اور پر سش بھی کی۔ آپ اپنی زندگی کے آخری ایام تک انقلاب اسلامی ایران کی مخالفت کو حرام سمجھتے تھے۔ اس بات پر ان کے متعدد احباب گواہ ہیں۔

کلیۃ القضاء کا قیام

کلیۃ القضاء کا قیامشیخ الجامعہ مرحوم سیاسی آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنی علمی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوئے بلکہ پاکستان میں جب حکومت نے اسلامی نظام کے نفاذ کا عندیہ دیا تو آپ نے علامہ سید صفدر حسین نجفی کے ساتھ مل کر فقہ جعفریہ کے مطابق شرعی عدالتوں کے جج کے منصب کیلئے موزوں اور اہل افراد تیار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس کیلئے سیٹھ نوازش علی نے بھر پور مالی معاونت کی۔ اس طرح 1982ءمیں لاہور میں کلیۃ القضاء (The Faculty of Islamic Laws)قائم کی گئی۔ آپ نے اس کے نگران اور مدرس اعلیٰ کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔

ابتداء میں پورے پاکستان سے تیرہ فاضل ترین طلباء کو خالصتاً ان کی علمی اور ذہنی استعداد کو جانچ کر داخلہ دیا گیا۔ کورس کی مدت دو سال مقرر ہوئی۔ طلباء کو قضاوت، قصاص، شہادات اور حدود تعزیرات کے بارے میں مکمل تعلیم دی جاتی تھی۔ علامہ نے کئی کورس اپنے طلباء کو مکمل کروائے۔ آپ کے دروس اپنے بیان ، تشریح، دلیل اور کاملیت میں خود اپنا جواب تھے۔ ان دروس کو باقاعدہ ویڈیو ریکارڈ کیا گیا ۔ علامہ نے چند سال قبل ایک بار راقم کو بتایا کہ رسائل کا درس شروع سے آخر تک مکمل طور پر برِ صغیر میں پہلی بار شاید انہوں نے دیا اور اس کے کئی دورے کروائے۔ کلیۃ القضاۃ میں ان کے درس و تدریس کا سلسلہ 11 اپریل 1999ءتک جاری رہا۔

دخترانِ ملت کی تربیت

دخترانِ ملت کی تربیت یہ دور تہذیب اور اخلاق کے لحاظ سے ابتلاء کا دور ہے اور سامان لہو و لعب، فکر انسانی کی غفلت کیلئے فراواں ہے۔ نوجوان نسل کسی بھی قوم و ملت کیلئے مستقبل کی امید ہوتی ہے۔ ایک صاحب فکر نے درست کہا تھا، آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو اچھی نسل کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت شیخ الجامعہ نے اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے اس طرف توجہ فرمائی اور ملت شیعہ کی بیٹیوں کیلئے دینی تعلیم کی ضرورت کو خصوصی اہمیت دی۔

انہوں نے 1994ءمیں لاہور میں جامعہ الخدیجۃ الکبرؑیٰ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس مقصد کیلئے اپنی ذاتی توجہ اور آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی مد ظلہ کے تعاون سے ماڈل ٹاؤن لاہور کے نزدیک ایک مکان کرایہ پر حاصل کیا اور یکم مئی 1994ءکو وہاں درس کا آغاز کر دیا۔ اس مدرسہ میں نصاب، درس نظامی مقرر کیا گیا جو تمام حوزہ ہائے علمیہ میں مروج ہے۔ شروع میں بیس طالبات تھیں جن کی رہائش کا انتظام بھی کیا گیا اور اس کو یقینی تحفظ فراہم کرنے کیلئے علامہ مرحوم نے خود وہاں رہائش اختیار کی۔ الحمد للہ کہ اب طالبات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ شیخ الجامعہؒ مرحوم نے اس درس کی برقرار کیلئے اپنے وصیت نامہ میں بھی خواہش کا اظہار کیا۔

شاگرد

تلامذہ دور حاضر کے بہت سےجید علماء کرام کو حضرت علامہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ ان میں چند ایک کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں۔ آیت اللہ العظمیٰ حافظ بشیر حسین نجفی(مرجع تقلید۔ نجف اشرف) محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم۔ حضرت علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی (پرنسپل حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور)۔ وکیلِ آل محمدؐ حضرت شہید علامہ غلام حسین نجفی (لاہور)۔ حضرت علامہ شیخ محمد شفیع نجفی مد ظلہ (لاہور)۔ مولانا شہید سجاد حسین خان (سیالکوٹ)۔ مولانا ظفر عباس مد ظلہ ( متحدہ عرب امارات)۔ مولانا احمد حسین نوری مد ظلہ (اسلام آباد)۔ مولانا سید حسن ظہیر نجفی مد ظلہ (لاہور) ۔ مولانا شہید غلام رضا ناصر نجفی( جوہر آباد) ۔ غرض اکثر علماء بذاتِ خود یا بالواسطہ آپ کے شاگرد رہے۔

علمی آثار

آپ نے طبع زاد کتب تحریر کرنے کی بجائے تراجم کی طرف زیادہ توجہ مبذول کی۔ ایک بار راقم نے استفسار کیا تو فرمانے لگے۔ عربی اور فارسی میں اتنا بڑا علمی ذخیرہ موجود ہے کہ نئی کتاب تصنیف کرنے کی بجائے انہی کا اردو ترجمہ کر دیا جائے تو کافی ہے۔ بہت مدت پہلے خاتم المحدثین آقا عباس قمی ؒ کی کتاب’’مفاتیح الجنان‘‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ جس کو بہت قبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی مؤمنین اس کو حرز جان بنائے رکھتے ہیں۔

حضرت علامہ کی بہت سی کاوشیں منظر عام پر آچکی ہیں اور کچھ مسودات ہنوز تشنہء اشاعت ہیں۔ شائع شدہ چند کتب درج ذیل ہیں :فضائل پنج تن پاک ؑ (از آیت اللہ مرتضیٰ فیروز آبادی) تین جلدیں۔آموزشِ دین ( از آیت اللہ ابراہیم امینی) چار دجلدیں۔ فاطمۃ الزہراؑ اسلام کی مثالی خاتون ( از آیت اللہ ابراہیم امینی) ۔ قیام مختار ( از آیت اللہ اردکانی)۔ خود سازی ( از آیت اللہ ابراہیم امینی)۔

علم فقہ اور علم قضاوت پر آیت اللہ العظمیٰ سید محمد شیرازی مد ظلہ کی تحریر کردہ مندرجہ ذیل کتب کا ترجمہ کیا :کتاب الدیات۔ کتاب الحدود و التعزیرات۔ کتاب الشہادات۔ کتاب القضاء(دو جلدیں)۔ کتاب القصاص ( دو جلدیں)۔ اس کے علاوہ تقریباً 800 ویڈیو کیسٹیں اور ہزاروں کی تعداد میں آڈیو کیسٹیں ان کی دروس پر مشتمل ریکارڈ ہو چکی ہیں اور جامعۃ المنتظر کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ مجالس عزا، تقاریر او ر دیگر گفتگوؤں پر مشتمل کیسٹ ریکارڈ ز اس کے علاوہ ہیں۔

خطابت

تحریر کے ساتھ ساتھ علامہ صاحب کی خطابت بھی منفرد تھی۔ ان کا اپنا ایک اسلوب تھا۔ اُس میں جہاں دقیق علمی نکتے بیان ہوتے وہاں تاریخی واقعات کا حوالہ بھی ہوتا ۔جہاں کسی معاملہ میں شدت اختیار کرتے وہاں برجستہ مزاح سے سامعین کو محظوظ بھی فرماتے۔ مصائب بیان کرتےتو لوگوں پر رقت طاری ہو جاتی ۔ پاکستان ہی میں نہیں۔ بلکہ بیرون ملک بھی متعدد مقامات پر مجالس سے خطاب کیا۔

لیکن کبھی مشاہرہ طے نہیں کیا۔ اگر کوئی خدمت کرتا تو اس کو اپنے واجبات اور سہم امام ؑ ادا کرنے کی نصیحت کرتے۔ ایسی رقوم کو ترویج علوم دین کیلئے استعمال کرتے۔ بعض مثالیں مستحقین کی مخفی امداد کرنے کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ اگر مجلس کے بعد کوئی ہدیہ نہ ملتا تو اصرار نہ کرتے۔ ایک بار بتایا کہ وہ اور مفتی جعفر حسین مرحوم کسی دور افتادہ دیہات میں ایک مجلس سے خطاب کیلئے تشریف لے گئے اور بانی مجلس کے زبانی شکریہ کے بعد دونوں بزرگ حضرات کی واپسی ہوئی۔ زادِ راہ کی قلت نے مشکل پیدا کی مگر پھر بھی کبھی مشاہرہ طے نہ کیا۔

وضع داری کا یہ عالم تھا کہ تقریباً چالیس سال قبل وزیر آباد اور سیالکوٹ میں عشرہ محرم الحرام کی مجالس پڑھنا شروع کیں اور پھر ساری زندگی عشرہ محرم وہیں پڑھا۔ تقریر کی خوبی یہ کہ بلا تفریق ِ مذہب ہزاروں افراد ان کی مجالس میں شرکت کرتے اور متاثر ہوتے ۔ ان شہروں کے باسیو ں نے ہر برس ان کا اتنظار کیا اور انہی شہروں میں عشرہ محرم پڑھتے اور حسین ؑ حسین کرتے آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

آخری ایام حضرت علامہؒ 1994ءسے عارضہ قلب میں مبتلا تھے جو روز بروز شدت اختیار کرتا گیا ۔ ان کی عالی ہمتی کا یہ عالم تھا کہ باوجود کہ پیرانہ سالی اور مرض کے اپنی معمول کی مصروفیات کو قطعا ترک نہ کیا۔ جناب امیر المؤمنینؑ کے قول ’’ مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے رہو‘‘ کے بمصداق انہوں نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور مجالس عزاء سے بھی خطاب فرماتے رہے۔

ملیّ و قومی امور کی طرف بھی متوجہ رہے۔ حتیٰ کہ زندگی کے آخری تین برس باقاعدگی سے زیارات ِ مقدسہ کیلئے عراق و ایران تشریف لے جاتے رہے۔ ایک بار ناسازی طبع کے باعث مشہد ومقدس (ایران) کے ایک ہسپتال میں زیر علام بھی رہنا پڑا۔ آخری دو ماہ میں مرض انتہا تک پہنچ گیا اور اس مرتبہ عشرہ محرم الحرام پڑھنے سے بھی خود کو معذور سمجھ رہے تھے لیکن اہلیان وزیر آباد و سیالکوٹ ک انتہائی اصرار پر وہاں تشریف لے گئے۔ محرم کی ابتدائی مجالس ہی میں آپ نے اس امر کی نشاندہی کر دی تھی کہ شاہد میں یہ عشرہ بھی پورا نہ کر سکوں۔

شیخ الجامعہ ؒ کی شبانہ روز جد و جہد کے نتیجہ سے پنجاب میں علمی مراکز کا قیام عمل میں آیا

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا کہ شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس کی سرپرستی و رہنمائی میں وطن عزیز میں مکتب تشیع کی مایہ ناز علمی درس گاہ جامع المنتظر لاہور کی تاسیس اور بعد ازاں کلیة القضاة کا قیام ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بزرگ علماء کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ایسے پروگراموں کا انعقاد نہایت مفید ہے ۔ عوام خاص طور پر کتب تشیع سے وابستہ افراد کے اندر شعور و آ گھی بیدار کرنے اور دین اسلام کے اسرار و رموز اور کتب اہل بیت کی روشن اور واضح تعلیمات سے بہرہ مند کرنے میں اس زمانہ کی جن چیدہ صاحب علم فضل شخصیات کو آج بھی علم دوست حلقے انتہائی عزت و احترام سے یاد کرتے ہیں۔

ان میں منفرد نام اور نمایاں مقام کی حامل برجستہ شخصیت شیخ الجامعہ مرحوم کی ہے ۔ علامہ ساجد نقوی نے بیان کیا کہ تعلیم و تدریس تصنیف و تالیف تراجم اور خطابت جیسے شعبوں میں گرانقدر خدمات انجام دینے والے علامہ مرحوم کی شبانہ روز زحمت و کوشش اور جد و جہد کے نتیجہ میں صوبہ پنجاب میں مسلمہ حیثیت کے حامل مرد و خواتین کے علمی مراکز کا قیام عمل میں آیا جن کی بدولت چراغ سے چراغ جلے کے مصداق دین مبین اسلام اور کتب آل محمد کی تعلیمات کی ترویج واشاعت ہوئی اور یوں صرف ملک پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی آپ کے شاگردان اور عقیدت مندوں کا بڑا طبقہ اس وقت بھی دینی خدمات میں مشغول دکھائی دیتا ہے ۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان کا کہنا تھا کہ ایسی با صلاحیت ہمہ جہت اور ممتاز ترین علمی شخصیت کی یاد منانے انکی خدمات کو سراہنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے شاگردان عزیزان اور عقیدت مند ، ان کی حصول علم اور اس کے بعد تعلیم تربیت میں جدوجہد کو مشعل راہ بنا کر افراد کی دینی و مذہبی تربیت کے لئے میدان عمل میں آئیں اور دینی علوم کی ترویج و اشاعت کے لئے محنت و کوشش کریں۔

اور اس دور میں خاص طور پر نوجوان نسل کی فکری وملی تربیت کے لئے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات بروئے کار لائیں تا کہ دین اسلام کی حقانیت مکتب اہل بیت کی واضح و روشن تصویر سامنے آ سکے اور اسلامی تہذیب و تمدن اور اخلاقی اقدار کو پنپنے میں مدد ملے جس سے معاشرہ بے راہ روی و گمراہی سے پاک ہو سکے[3]۔

وفات

رحلت اور تدفین حضرت علامہ اختر عباسؒ آٹھ محرم الحرام 1420ہجری کی شام سیالکوٹ میں مجلس عزا سے خطاب کرنے کے بعد وزیر آباد تشریف لے گئے اور نویں محرم کی شب وہاں مجلس عزا سے خطاب کیا۔ یہ ان کی زندگی کی آخری مجلس تھی۔ وزیر آباد ہی میں نو محرم الحرام (26 اپریل 1999ء بروز دو شنبہ) کی صبح نماز فجر کیلئے وُضو کرتے ہوئے آخری مسح کے دوران حرکت قلب بند ہوگئی۔ اور اپنی جان، جان ِ آفریں کے سپرد کر دی[4]۔


حوالہ جات

  1. شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی ؒ کے مختصر حالات زندگی-شائع شدہ از: 18 مئی 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 مارچ 2025ء۔
  2. اختر عباس نجفی شیخ الجامعہ- شائع شدہ از: 29مئی 2020ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 مارچ 2025ء۔
  3. شیخ الجامعہ ؒ کی شبانہ روز جد و جہد کے نتیجہ سے پنجاب میں علمی مراکز کا قیام عمل میں آیا، علامہ ساجد نقوی- شائع شدہ از: 28 اپریل 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 مارچ 2025ء۔
  4. [https://wifaqtimes.com/17499/ شیخ الجامعہ علامہ اختر عباس نجفی ؒ کے مختصر حالات زندگی تحریر: سید حسن رضا نقوی قم المقدسہ]- شائع شدہ از: 18 مئی 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 10 مارچ 2025ء۔