عصر حاضر کے منادیان وحدت وحدت دین مبين اسلام کے بنیادي اصولوں ميں سے ايک ہے که جسے قرآن مجيد نے توحيد کے ساتھ ذکر کيا هے اور متعدد جگوں پر مسلمانوں کو اتحاد اور یکجهتي کى سفارش کى هے اور اس حقيقت پر بهترين اور واضح ترين دليل جو هر عام وخاص سب کے لیے قابل فهم اور قابل ديد هے وه خود پيغمبر اسلام اور انکے ولي برحق اميرالمومنين مولي الموحدین علي عليه السلام کى عملي سيرت اور انکے ارشادات هيں.

وحدت

اسي طرح علماء اسلام نے بھى تاريخ اسلام ميں نبي اکرم اور ائمه معصوميں ؑکى سيرت طيبه پر چلتے هوئے وحدت کى راه ميں شایان شان خدمات پيش کى هيں اور هميشه عالم اسلام ميں موجوده خود ساخته؛ بے بنیاد مذهبي اور فرقائي اور قومي تعصبات کو ۔ که جسے استکبار اور دشمنان دین نے بطور ايندھن همارے لیے تیار کيا هے ۔ختم کرنے اور اس ميں تبديلي لانے اور مسلمانوں کو اختلافات سے بچانے کے لئے برسر پیکار رهے هيں ۔کىونکه جس طرح اميرالمومنين علی عليه السلام فرماتے هيں که اختلاف :

  • ھواي نفس کى پيروي ۔
  • دستور خدا کے خلاف حکم لگانے ۔
  • ناشائيسته لوگوں کے الهي دستور کے خلاف برسر اقتدار آنے سے پيدا هوتا هے ۔

پھر فرماتے هيں ۔اگر حق باطل کے لباس سے نکل آتا ؛اور دشمنوں کى زبانيں بند هو جا تيں ليکن بعض لوگ حق سے کچھ اور باطل سے کچھ لينے کے بعد اسے مخلوط کر ليتا هے اب اس صورت ميں شيطان اپنے چاهنے والوں پر غالب آجاتا هے [1]. تاريخ اسلام کا مطالعه کرنے سے هميں يه معلوم هوتا هے که سب سے پهلے تاريخ اسلام ميں مسلمانوں کے درميان بني اميه نے مذهبي اور قومي احساسات کو بھڑکایا اور اموي حکومت کو مضبوط کرنے کى خاطر امت اسلاميه کو مختلف قومي ؛ قبيلي؛ زباني؛ نژادي اور فکري اور نظریاتي اختلافات کى بنیاد پر تقسيم کيا اور انهي طبيعي اختلافات کو ذريعه بنا کر امت اسلاميه کو آپس ميں لڑوانے اور انھيں داخلي نزاعات ميں مشغول رکھنے کے لیے اپنے تمام تر شيطاني حربے استعمال کيے تاکه امت مسلمه ايک دوسرے کو کاٹنے ميں مشغول رهيں اور اموي سلطنت کے گٹھا ٹوپ مظالم کے خلاف کسي کو سوچنے تک کا بھى موقعه نه ملے اوربني اميه کے نا مراد سلاطين یکى بعد ديگر مسند نبوتؐ پر بيٹھ کر مسلمانوں کے معنوي اور مادي نعمتيں لوٹنے ميں مشغول رهيں ۔

اور يهي سياست بني اميه کے زوال کے بعد عباسي ؛فاطمي ؛ عثماني ؛ صفوي ؛قاجاري ؛ اور ديگر نالائق مسلم حکمرانوں کےمختلف مناطق پر انکے سياسي پالسي کا نصب العيں بني رهي اور اپني تحت وتاج کى حفاظت اور اپنے حکم کے نفوذ ي کى خاطر مختلف فکري اور فقهي مکاتب فکر کے درميان اجتھادي اختلافات کے دامن پھيلانے اور اسے ايک دشمني اور ناچاکى ميں تبديل کرنے کى بھر پور کوشش کرتے رهيں ۔چناچه يقين کے ساتھ کهه سکتے هيں که مسلمانوں کےدرمیاں موجوده اختلافات اور ايک دوسرے کى نسبت بد گماني اور سوء تفاههم کى بنیاد رکھنے والے وهي فاسد حکمران تھے اور آج بھى عرب ممالک سعودي عرب؛ مصر؛ بحرين؛ لبنان؛ امارات وغيره ميں يهي فاسد اور امریکه و اسرائیل اور صهيونيزم کے آله کار اور خود فروخته حکمران شب وروز وسيع پيمانے پر مسلمانوں کے درميان مذهبي ؛قومي ؛ نژادي ؛ زباني اور فرقه اي احساسات کو بھڑکانے؛ ايک دوسرے کے درميان فتنه پھلانے اور دشمني ايجاد کرنے کى خاطر عربون پيسے خرچ کرتے هيں تاکه ان اختلافات کے سائے ميں دین ومذهب کے نام پر جبکه انکا اسلام سے دور سے بھى ٹيچ نهيں هے مسلمانوں پر اپني حکومت برقرار رکھ سکے اور بسا اوقات اپنے اس شيطاني مقاصد کو عملي بنانے کے لیے درباري ملاوں اور علمائ سوء کے موجودگي سے سوءاستفاده کرتے هيں تاکه انکے تکفيري فتوؤں کے سائے ميں اپنے ناپاک عزائم کو عملي جامه پھنا سکے۔

ليکن هر دور ميں ايسے حق شناش ؛دین شناس اور مصلح وبيدار علماء موجود رهے هيں جنهوں نے هر دور ميں امت مسلمه کو مذھبي ؛قومي ؛ زباني اختلافات کے ايندھن ميں گرکر جلنے سے بچانے کى انتھک کوششيں کى هے ۔تا هم يهاں ان سیکڑوں علمائ عظام ميں سے اهل تسنن اورمکتب اهل بيت ؑسے تعلق رکھنے والے بعض ايسے شخصیات کا تذکره کريں گے جو اپنے دور ميں وحدت کے علمبردار رهيں هيں اور اپني پوري زندگي کو مسلمانوں کے درميان وحدت اور یکجهتي اور بھائي چارگي برقرار کرنے ميں گزار لي هيں ۔

سید جمال الدين اسد آبادی

دور حاضر کے عظيم شخصيتون ميں سے اپنے دور کے منفرد شخصيت که جسنے تن وتنها امت اسلاميه کوناچاکى اور تفرقه کے خواب غفلت سے بيدار کرنے اور استعمار کے خلاف متحد کرنے کى خاطر قیام کيا اوراسي جرم ميں مختلف اسلامي ممالک سے جلا وطني تحمل کرتے هوئے اسي راه ميں شھيد هوئے ۔ آپ نے مسلمانوں کو بيدار کرنے اور متحد کرنے کى خاطر افغانستان سے ايران ؛ ايران سے هندستان ؛عراق ؛ ترکىه اور مصر اور بعض دوسرے اسلامي ممالک سے گزرتے هوئے فرانس پهنچے اور آخر کار دشمنان دین واسلام کے هاتھوں شھيد هوئے۔

آپ عقيده رکھتے تھے که( قومي؛ مذھبي ؛مسلکى ؛ نژادي اور ديگر قسم کے اختلافات فاسد اور مستبد سلاطين اور حکمرانوں نے تقريبا چوده قرن کے اندر اور استعمار نے عصر حاضر ميں تين یا چارصدي کے اندر وجود ميں لايے هيں) لهذا هميں متحد اور منسجم هو کر ان موجوده اختلافات کے ساتھ مبارزه کر نے کى ضرورت هے چونکه ايک هي روح تمام اسلامي ممالک اور مختلف اسلامي فکري اور فقهي مذاهب پر حاکم هے لهذا هميں صرف بيدار اور متحد هو کر غارتگر استعمار اور انکے آله کار استعماري کارندوں کے مقابله کرنے کى ضرورت هے۔ [2].

اسي طرح کهتے تھے قوم پرستي؛ نژاد پرستي دوسري اصطلاح ميں ناسيونا ليزم آج عربسيزم ؛ ايرانيزم ؛ ترکىزم ؛ هندوزم وغيره وغيره کى شکل ميں اسلامي ممالک ميں استعمار نے بڑے پيمانے پر تبليغ کى هے اور هر جگه مذهبي اختلافات خصوصاً شيعه اور سني کے نام پر ان مذهبي اختلافات کو خوب پروان دیا هے تو دوسري طرف امت مسلمه کو چھوٹے چھوٹے ملکوں اور متنازعه حدودوں ميں تقسيم کيا هے ۔ اب ان تمام مفاسد اور استعماري شيطاني مقاصد کى ريشه کني صرف اور صرف اتحاد اور اسلامي وحدت کے زريعے ممکن هے۔ مير [3].

علامه محمد اقبال لاهوری

مفکراور شاعر مشرق علامه محمد اقبال لاهوری مسلمانوں کے آپس ميں مذهبي ؛ نژادي ؛ قومي؛ لساني ؛ علاقائي اور ديگر بناوٹي اختلافات کى وجه سے جو تفرقه اور ايک دوسرے کى نسبت بے دردي اور ناچاکى کا شکار هوے هيں اس حالت سے سخت رنجیده اور نالان تھے اور هميشه مسلمانوں کو قومي ؛نژادي؛ علاقائي؛ لساني اختلافات کو چھوڑ کر قرآن اور سنت کے سائے ميں ايک پليٹ فارم پر جمع هونے کى دعوت دیتے تھے اور اس بارے ميں کهتے تھے ميرے نزديک وه شخص مسلمان نهيں جو کسي مسلماں سے یا للمسلميں کا استغاثه سنے ليکن اپنے هم دردي اور پيوستگي کا ثبوت نه دے [4]. اور کهتے تھے مسلمانوں کے درميان يه ساري قوميت ؛ وطنيت ؛لسانيت کى نام پر حدودیں غرب ؛ استعمار اور اسلام دشمن کے خود ساخته بت هیں جسکا دین مبين اسلام ميں کوئي جگه نهيں بلکه جب سب کا خدا ايک کتاب ايک قبله ايک هے اور سب ايک هي رسولؐ کى پيروکار هيں توپھر کىوں کر مختلف گروهوں اور جماعتوں اور فرقوں کى شکل ميں بھٹے رهيں اور خوساخته نطريات و عقائد ؛حدود اوربے بنیاد وجوهات کى بنا پر ايک دوسرے سے جدا هو جاييں اس بارے ميں آپکے فارسي اور اردو ميں اشعار اب بھى عالم اسلام کے لیے سبق آميز هيں چنانچه آپ فرماتے هيں:

منفعت ايک هے اس قوم کى نقصان بھى ايک ايک هي سب کا نبي ٬ دین بھى ٬ ایمان بھى ايک حرم پاک بھى ٬ اﷲ بھى ٬ قرآن بھى ايک کچھ بڑي بات تھي هوتے جو مسلمان بھى ايک فرقه بندي هے کهيں اور کهيں ذاتيں هيں کيا زمانے ميں پنپنے کى يهي باتيں هيں ؟ [5].

یا کهيں اور قوميت؛ نژادیت وغيره کى اصل ماهیت بیان کرتے هوئے فرماتے هيں کى قوم پرستي اور نژاد پرستي ايک بت هے جسے اسلام کے دشمن اور مغربي تهذيب نے همارے لیے بنایا هے جسکا مقصد هم ميں اختلاف ڈال کر هماري مادي اورمعنوي ثروتوں کو غارت کرکے لے جانا هے کهتے هيں : يه بت که تراشيده تهذيب نوين هے غارت گرٍ ِ کاشانه دين نبوي هے [6]. هو قيد ٍ مقامي تو نتيجه هے تباهي ره بحر ميں آزاد وطن صورت ماهي هے ترک وطن سنت محبوب الهي دے تو بھى نبو ت کى صداقت په گواهي گقتار سياست ميں وطن اور هي کچھ هے ارشاد نبوت ميں وطن اور هي کچھ هے... [7].

اسي طرح کسي اور مقام پرقوم پرستي اور نژاد پرستي وغيره کے نقصانات بیان کرتے هوے فرماتے هيں : اقوام جهان ميں هے رقابت تو اسي سے خالي هے صداقت سے سياست تو اسي سے کمزور کا گھر هوتا هے غارت تو اسي سے اقوام ميں مخلوق خدا بنتي هے اسي سے قوميت اسلام کى جڑ کٹتي هےاسي سے... [8]. اے مصطفوي خاک ميں اس بت کو ملا دے۔

شيخ محمود شلتوت

علامه شيخ محمود شلتوت ٲزھر انٹرنشنل يونيورسٹي کے رئيس اور وحدت اسلامي کے بارز ترين مناديوں ميں سے شمار هوتے تھے ۔آپ کا نظريه تھا اگرچه مختلف اسلامي نظریاتي اور فقهي مذاهب کے درميان جزئي مسائل ميں ضرور اختلاف پائے جاتا هے ليکن ان کے درميان مشترکه اصول اور قواعد اتنے ذیاده هيں که تمام اسلامي مذاهب کے ماننے والے پيروکار سب ايک پليٹ فارم پر جمع هو سکتے هيں اور علماء اور دیني ليڈروں کى سب سے اهم ذمه داري يه هے که مختلف فکري اور فقهي فرقوں کے افکار اور نظریات کے متعلق صحيح اور درست آشنائي حاصل کريں اور ايک دوسرے کے متعلق حاصل شده سوء ظن اوربد گمانيوں کو دور کر کے ايک دوسرے کو سب وطعن تکفير وتفسيق کرنے سے بچانے کى کوشش کريں ۔ [9].چنانچه انھوں نے اپني تاریخي فتوے ميں باقاعده رسمي طور پر پانچ فقهي اسلامي مذاهب يعني جعفري ؛حنبلي ؛ حنفي ؛مالکى اور شافعي ميں سے جس کسي کى بھى تقلید کو جائز اور برئ الذمه هونے کا اعلان کيا ۔

شيخ سليم البشري

داعي وحدت اور اتحاد کے علم بردارعلامه شيخ سليم البشري اپنے دور ميں جامعۃ الازھر کے رئيس هوتے هوئے مسلمانوں کے درميان پھيلي هوئي بد گمانيوں اور سوء تفاهم کو دورکرنے کى خاطر لبنان کےمشهور شيعه عالم علامه سید عبدالحسين شرف الدين کے ساتھ اختلافي مسائل کے بارے ميں خط وکابت کا سلسله جاري رکھا جو بعد ميں المراجعات کے نام پر چھاپ چکى هے ۔

شيخ حسن البناء

اخوان مسلمين کے موسس اور بنیاد گزار جنهوں نے مصر ميں سب سے پهلے دار التقرب کى بنیاد رکھا اور عملي طور پر مناسک حج کو پانچ اسلامي فرقوں کے مسائل پر مشتمل کتاب کى شکل ميں چھاپي اور اسي وقت حج بيت الله کے دوران حجاج کرام کے درميان هزاروں کى تعداد ميں نسخے تقسيم کىے [10].

ابو الاعلي المودودی

بر صغير ميں جماعت اسلامی کے موسس اور بنیاد گزار علامه ابو الاعلي المودودی آپ هميشه کها کرتے تھے مختلف فکري اور فقهي مسالک سے تعلق رکھنے والے اسلامي اصلاحي گروهوں کو چاهے مذهبي اور مسلکى تعصبات اور تنگ دائرے سے نکل کر قرآن وسنت يعني اساس دین کے ارد گرد جمع هو جاييں اور اپنے مشترکه دشمن کے مقابلے ميں متحد هو جاييں [11]. اور يه عقيده رکھتے تھے که شھادتيں کا اقرار اسلامي اخوت اور بھائي چارگي کا معیار هے [12].

ايۃ الله العظمي بروجردي

مکتب اهل بيت ؑ سے تعلق رکھنے والے علماء کم بيش اکثراً سيرت اهل بيت اطهارؑ کى پيروي کرتے هوےهر دور ميں سخت ترين حالات ميں بھى وحدت صفوف اور وحدت کلمه بين المسلميں کے پابند تھے اور هميشه اپنے ماننے والوں کو وحدت اور دوسروں کے ساتھ مدارات اور سعه صدر کے ساتھ پيش آنے کى تلقين کرتے رهے هيں ۔ اس بات پر بهترين ثبوت حوزه علميه نجف اشرف کے تمام علماء کا متحد هو کر استعمار کے خلاف عثماني حکومت کے ساتھ دینا هے جبکه عثماني حکومت شيعوں کے ساتھ بهت هي جابرانه اور انتهائي طالمانه سلوک کے ساتھ پيش آتي تھي اور انکے فاسد حکمرانوں کى فسادات ؛ انحرافات اور انکى نا اهلي کو ديکھکر اهل سنت علماء نے انکى پشت خالي کر دي تھي ۔اسي طرح عصر حاضر ميں فلسطين کا مسئله جسے شيعه بڑے بڑے علماءسيد محسن حکىم جيسے کاشف الغطاء جيسے امام خميني جيسے امام خامنه اي جيسوں نے اپنانصب العين قرار دیتے هوے اتحاد اسلامي کا شاندار موقف پيش کىے هيں يهاں تک علامه شيخ محمد حسين کاشف الغطاء کا جمله مشهور هے آپ فرماتے تھے ۔بني السلام علي کلمتين : کلمة لتوحيد و توحيد الکلمة اسلام کى بنیاد دوچيزوں پر رکھي هے ايک کلمه توحيد يعني یکتا پرستي هے تو دوسري توحيد کلمه هے يعني اتحاد ویکجهتي هے [13]. اور انهي بزرگ هستيوں ميں سے ايک فقيه بزرگوار علامه ايۃ ا۔۔۔۔ العظمي بروجردي تھے آپ اپنے دور ميں اھل تشيع کے شناخته شده مرجع عالم تھے آپ وحدت اسلامي کى نه صرف تآئيد کرتے تھے بلکه دلباخته تقريب بين مذاھب تھے انکا عقیدۃ تھا دشمن اسلام اور استعمار نے مختلف مذاھب اور خصوصاً شيعه اور اھل تسنن کے درمیاں نا محدود سوء تفاهم ؛ بد گماني ايجاد کى هے لھذا اسکا علاج صرف اور صرف اور تنها راسته سوء تفاهم کى جگه حسن تفاهم ايجاد کرنے کى ضرورت هے اور اسي واسطے ازھرشريف کے بزرگ علماء شيخ عبد الجيد سليم اور علامه شيخ محمود شلتوت سے دوستانه رابطه قائم کيا اور خط وکتابت کا سلسله جاري کيا يهاں تک که انھوں نے اپني آخري عمر ميں وحدت اسلامي اور دار التقريب کى تقويت کى وصيت کرتے هوے دار فاني سے وداع کرگے [14].

روح الله الخميني الموسوي

امام خميني کو دوست ودشمن سب قرن حاضر کے مصلح اور احیاگر اسلام مانتے هيں اورانکى سياسي اور اجتماعي زندگي کا مطالعه هميں يه بتاتا هے آپ اسلامي اخوت اور مسلمانوں کے درميان اتحاد ووحدت کو شرعاً اور عقلاً واجب سمجھتے تھے اور غارت گر استعماري اغراض و مقاصد کے ساتھ مقابله اور امت مسلمه کے خود کفيل اور قدرت مند هونے کا تنها نسخه وحدت اور اعتصام به حبل الله کى لڑي ميں ديکھتے تھے اور اتحاد کو صرف سياسي یا استراتيجي نگاه سے نهيں ديکھتے تھے بلکه قرآني نگاه سے ديکھتے تھے اور اعتصموا بحل الله کے مضمون ميں ديکھتے تھے اور فرماتے تھے دوسو تين سو سال گزرنے کے بعد بھى همارا دشمن همارے درميان تفرقه پھلانے اور اختلاف ڈالنے ميں کامیاب هے اور اسي راستے سے هم پر غالب آیا هے کىوں که هماري ناچاکى اور اختلاف انکے هم پر غالب آنے کا ضامن هے ۔ ليکن دوسري طرف ايک مستقل اور قدرت مند مسلم سوسائٹي کے وجود ميں لانے پھر اسکى بقاء اور دوام کا ضامن بھى همارے اتحاد اور اخوت اسلامي هے هم يهاں امام خميني کى نگاه ميں اسلامي وحدت اور بھائي چارگي کے چند اهم خصوصيات بهت هي اختصار کے ساتھ ذکر کرتے هيں:

کلمه توحيد اور توحيد کلمه

امام خميني فرماتے تھے تمام انبیاء عظام کے بيجھے جانے اور ادیان الھي کے اس روئے زمين پر آنے کا ايک اهم ترين مقصد عقيده توحيد کو فروغ دینا اور وحدت کلمه هے اور يه اس وقت قابل تحقق هے که جب مختلف افکار واغراض ونفسیات اور ذهنیات ميں بکھرے هوئے لوگوں کے درميان اتحاد واخوت پيدا هو جائے [15].

حبل الله سے اعتصام

آپکا عقیدۃ تھا که مسلمانوں کا صرف کسي مشترکه اهداف کے خاطر یا متحدۃ دشمن کے مقابلے ميں ايک پليٹ فارم پر جمع هونا کافي نهيں هے بلکه يه اتحاد اور یکجهتي قرآن وسنت کى تعليمات کى روشني ميں عقيده اور فکر سے ناشي هو اور اسکا محور صرف اور صرف خدا اور اعتصام به حبل الله هو نا چاهيے [16].

وحدت عقلي اور شرعي ذمداري

امام خميني اجتماعي اور سياسي زندگي ميں وحدت کى ضرورت اور اور اسکے بے تحاشا فوائدکو مد نظر رکھتے هوئے اسلامي وحدت کو شرعي اور عقلي تکليف اور وظيفه سمجھتے تھے [17].

اسلامي اجتماعي نظام کا تحقق

امام خميني کے ايک منحصر به فرد اور برجسته ترين خصوصيات ميں سے ايک خصوصيت که جسکى غيبت کبري ميں کوئي نظير نهيں ملتي وه خصوصيت نظام اور حکومت اسلامي کا وجود ميں لے آنا هے انکے نزدیک حکومت اسلامي کا قیام شرعي اور عقلي نگاه سے واجب هے ليکن اس شرعي اور عقلي ذمداري اور اتحاد وانسجام کے درميان ملازمه هے وه اس طرح که معاشرے ميں ايک اسلامي اجتماعي اور سياسي نظام کا تحقق اس وقت ممکن هے که جب معاشرے ميں مختلف اسلامي مذاهب اور اقوام کے درمیاں وحدت پائي جاتي هو اور دوسري طرف مسلمانوں کے درمیاں اتحاد اور همدلي اس وقت ممکن هے جب اسلامي معاشرے ميں قدرت مند اسلامي نظام برقرار هو ۔آپ فرماتے هيں مشرق ومغرب کے استعماري کارندے عالم اسلام کے خدادادي انساني ؛مادي اور معنوي ذاخائر کى غارت گري کے لئے همارے درمیاں تفرقه اور ناچاکى کو همارے هي خلاف اسلحے کے طور پر استفاده کرتے هيں اور وهي اختلافات امت مسلمه کى ذلت و خواري ؛ نابودي اور اسلام کى عظمت وابوهت کے هاتھ سے چلے جانے اور تمام گرفتاريوں کے منشاء هونے کے ساتھ سپر پاور شيطاني کارندوں کے هم پر سلطه جمانے کا بهترين وسيله بھى هے [18]. اور فرماتے تھے جو لوگ شيعه سني کے نام پر اختلاف پھيلانے کى کوشش کرتے هيں وه نه شيعه هيں نه سني [19].

رهبر ایران سید علي خامنه اي الحسيني

عصر حاضر ميں ولي امر مسلميں ايۃا۔۔۔ العظمي سيّد علي خامنه اي الحسيني اسلامي ممالک اور خصوصا مسلمانوں کے درميان اتحاد کى بحالي اور اسے برقرار رکھنے کے لیے جتني کوششيں مبذول فرمارهے هيں وه سب کے سامنے هيں اور کسي پر مخفي نهيں هے پھر بھى اتحاد کى خاطر جو تاریخي فتاوے ديے هيں ان ميں سے ايک دو مورد هم يهاں بطور نمونه لے آتے هيں ۔ رهبر انقلاب ولي امر المسلميں فرماتے هيں: هم سب کو يه معلوم هونا چاهيے که عالم اسلام ميں وحدت اور همبستگي وسيله نهيں بلکه خود سب سے اهم اور بلند هدف هے اور عالم اسلام اپني کھوئي هوئي عزت وشرف اورپائمال شده حقوق اس وقت دوباره پلٹا سکتے هيں اور اسلامي احکامات پر اس وقت معاشرے ميں عمل کرسکتے هيں جب همارے درميان حقيقي وحدت اور بھائي چاره گي وجود ميں آجائے پس ميڈیا ؛ ذمدار افراد اور حکومتوں کى اهم ذمداري يه هے که وه اتحاد اور انسجام کے لیے کوشش کريں جمع از نويسنىد گان. [20]. اور انکا يه فتواي مشهور هے جس ميں آپ فرماتے هيں: ميرے نزدیک کسي مسلمان کشي ميں کسي طرح سے بھى ملوث هونا حرام اور گناه کبيره هے۔ [21].

رهبر انقلاب کا تاریخي فتوا

اور اسي طرح آپکا وه تاریخي فتوا بھى سب کے سامنے هے جب آپ سے سعودي عرب کے شهر احساء کے رهنے والے علماء کے ايک گروه نے عايشه کى صريح الفاظ ميں اهانت یا ادب کے خلاف تحقير آميز الفاظ کے ساتھ خطاب کرنے کے بارے ميں سوال کيا تو آپ جواب ميں فرمایا۔ اهل سنت برادران کے مقدسات کى اهانت اور حتک حرمت کرنا حرام هے چه جائیکه پيغمبر اکرم کى زوجه کى اهانت اور انکے حق ميں ايسے رکیک الفاظ استعمال کرنا جسے مخل شرافت سمجھا جائے جبکه يه امر گذشته انبیاء کى ازواج کے حق ميں بھى ممتنع هے [22].

استاد سید جواد نقوی

سید جواد نقوی پاکستان میں شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد کے حامی ہیں۔ اس لیے آپ نے اس حوالے سے بہت کوششیں کی ہیں۔ ان کے مطابق، شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد دو طرفہ اور تعمیری رابطے کا نتیجہ ہے، نہ کہ بیٹھ کر اتحاد کا نعرہ لگانا۔ ہفتہ وحدت کے دوران اسلامی مکاتب فکر کے پیروکاروں کو ہر ممکن حد تک قریب لانے کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ یہ امام امت، امام خمینی (رح) تھے جنہوں نے 12-17 ربیع الاول کو ہفتہ وحدت کا نام دیا آپ اتحاد امت کے مارچ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے مناسبت سے وحدت کانفرنس اور عروہ الوثقی کی طرف سے یوم ولادت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کی تقریب کو اسلامی اتحاد کی سمت میں ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر سنی پروگرام کریں تو ہم گھر بیٹھیں اور جس دن ہمارا پروگرام ہو اور سنی حضرات اس میں شرکت نہ کریں، یہ اتحاد سے خیانت ہے، لیکن اگر شیعہ سنی آپس میں متحد ہوں تو اسلامی اتحاد کا نظریہ مضبوط اور فرقہ واریت کے خلاف جنگ میں یہ ایک موثر اقدام ہو گا۔ [23]. يه تھیں ان سینکڑوں شخصیات ميں سے چند اهم شخصیات جنهيں هم نے نمونےکے طور پر ذکر کيا اور امید وار هيں که امت مسلمه بيدار هو کر فاسد اور استعمار کے آله کار حکام اور چند درباري ملاؤں کے تبليغاتي اور فتنه انداز فتاون کى زد ميں آنے کى بجائے دل سوز ؛ خیر خواه اور دین شناس علماء کے نقش قدم پر چلنے اور انکى پيروي کرنے کى کوشش کريں آمين!ثم آمين!

حوالہ جات

  1. السيد رضي، نهج البلاغه خطبه 3
  2. طباطبائى ، محىد حسين، ، مشرق زمىن كى بىدارى مىں سيّد جمال كا كردار، ص 77-128
  3. آبادى ، سيد جلال ، دور حاضر كے اسلامى تحرىكىن، ص 28 ۔۔۔۔۔30 ۔
  4. لاهوري، محمد اقبال : احىا تفکر اسلامى ؛ص 24 ۔25 ۔
  5. لاهوري، محمد اقبال : كليات اقبال : بانگ دار ٬جواب شكوه ص 202
  6. لاهوي، محمد اقبال، كلىات اقبال : بابنگِ درا ص 160 ۔
  7. لاهوي، محمد اقبال، مطالب اقبال اردو : ص 265.
  8. لاهوي، محمد اقبال، كلىات اقبال : بابنگ درا ص 165 ۔۔
  9. تسخيري، محمد على :رسالتنا تقرىب الفكر وتوحىد العمل ص 77 .
  10. آذر شىب، محمد علي،: ملف التقرىب ص 138 ۔۔
  11. الندوى، قاضى عبد الرشىد ، ابو الاعلى المودودى عبقرى القرن، ص 33.
  12. آذر شىب، محمد علي،: ملف التقرىب ص 99 ۔
  13. شهىد مطهرى يادشتهاى استاد مطھرى : ج 2 ص 211 ۔۔۔212 ۔
  14. چھے مقالے :ص 216۔۔۔217 ۔
  15. خمینی، روح الله، صحیفه امام : ج 7 ص 107 ۔
  16. خمینی، روح الله، صحیفه امام : ج8 ص 334 ۔
  17. خمینی، روح الله، صحیفه امام : ج 10 ص 340 ۔
  18. خمینی، روح الله، صحیفه امام، ج 6 ص 123 اور ج 13 ص 73
  19. محمد على تسخىرى وحدت اور التقرىب ص 110 ۔
  20. دیدار هم اندىشى علماء شىعه و اهل تسنن 1385۔ 10 ۔25 ش ۔
  21. سيّد جواد نقوى، وحدت امت مسلمه كا تارىخى مطالبه ص 179 ۔
  22. www.taghribnews.com.
  23. https://ur.wikivahdat.com/wiki/سید_جواد_نقوی