یحییٰ ابراہیم حسن سنوار آپ فلسطینی سیاست دان، مزاحمتي بلاک کے سرکردہ اور 13 فروری 2017 سے غزہ میں مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اور سیکورٹی اپریٹس (مجد) کے بانیوں میں سے شمار هوتے ہیں۔ جسکی زمه داری[اسرائیلی] جاسوسوں کا پیچھا کرنا ہے۔ صہیونی غاصب حکومت انهین اپنی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کارروائیوں کے لیے ایک اسٹریٹجک ہدف سمجتها ہے۔

یحییٰ سنوار
فائل:یحییٰ سنوار
پورا نامیحییٰ ابراہیم حسن سنوار
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہفلسطین
مذہباسلام، سنی
اثراتاسلامی مزاحمتی تحریک کے سیاسی بیورو کے سربراہ

حالات زندگی

یحییٰ ابراہیم حسن سنوار 29 اکتوبر 1962 کو غزہ کے خان یونس کیمپ، فلسطین میں پیدا ہوئے، اور ان کی اصليت "المجدل عسقلان" کے شہر میں جاتی ہے یه قدیم ترین فلسطینی شہروں میں سے ایک شمار هوتا هے اور غزہ کے شمال مشرق میں واقع ہے، اور۔1948 میں، یہ قابض اسرائيلي فوج کے ہاتھ میں چلا گیا، انهون نے اس کا نام بدل کر "اشکلون" رکھ دیا هے انکا کا بھائی بهی القسام بریگیڈز کا رہنما هے ۔[1]

تعلیم

انهون نے ابتدائی تعلیم خان یونس کیمپ کے سکولوں میں حاصل کی یہاں تک که خان یونس سیکنڈری سکول فار بوائز میں ایف کی تعلیم مکمل کی پھراسلامی یونیورسٹی آف غزہ میں داخلہ لیا، اور عربی زبان میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اسی دوران انہوں نے پانچ سال تک سٹوڈنٹ کونسل میں کام کیا، جہاں وہ ٹیکنیکل کمیٹی، سپورٹس کمیٹی کے سیکرٹری، پهر نائب صدر، پھر کونسل کے صدر اور پھر نائب صدر رہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران انہوں نے "اسلامک بلاک" کی سربراہی بهی کی، جسے فلسطین میں اخوان المسلمین کا بازو سمحها جاتا ہے۔

حماس کے ساتھ انکا رابطه

غزہ کی اسلامک یونیورسٹی میں طالب علمی کے دوران، انهون نے اسلامک تحریک حماس میں شمولیت اختیار کی، اور 2011 میں شالیت ڈیل میں غاصب صهیونی جیل سے رہائی کے بعد، دوباره تحریک حماس میں ایک اہم رہنما کے طور پر واپس آئے اور 2012، حماس کے اندرونی انتخابات میں حصہ لیا اور تحریک کے سیاسی بیورو کی رکنیت حاصل کی۔ اور ساته مین انهون نے عزالدین القسام بریگیڈز کے ملٹری اپریٹس کی نگرانی کی ذمہ داری بهی سنبھالی جونهی حماس کے سیاسی بیورو اور عزالعزیز قسام کی قیادت کے درمیان رابطہ کاری کی ذمہ داری سنبھالی۔ چنانچه عز دین القسام بریگیڈز، حماس کے پولیٹیکل بیورو میں "بریگیڈز کے نمائندے" کے طور پر زمه داری انجام دیتیے رهین اورفروری 13 2017 کو، وہ اسماعیل کے بعد غزہ کی پٹی میں تحریک اسلامی حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ منتخب ہوئے۔ جبکہ خلیل الحیا کو انکا نائب منتخب کیا گیا۔

سنوار کا غزہ میں حماس کا سربراہی تحریک حماس کے داخلی الکشن کے ذریعے عمل مین آیا جس انهون غزه کے مختلف علاقوں مین اندرونی سطح پر انجام دیا حماس نے مارچ 2017 کے وسط میں سیاسی بیورو کے سربراہ کے انتخاب کے لیے مغربی کنارے اور فلسطین سے باہر میں اپنے انتخابات مکمل کر لیے۔ اسماعیل ہنیہ کو خالد مشعل کے جانشین کے طور پر اعلان کیا گیا، اور مارچ 2021 کے الکشن میں غزه مین حماس کے سربراہ کے طور پر دوسری چار سالہ مدت کے لیے منتخب ہوئے۔ سنوار ابهی اس وقت غزہ میں حماس کے اعلیٰ ترین عہدے دار اور غزہ کے حاکم ہونے کے ساتھ ساتھ اسماعیل ہنیہ کے بعد حماس کے دوسرے طاقتور رکن بهی ہیں۔

سیکیورٹی اپریٹس (مجد) کا قیام

سنوار نے شیخ احمد یاسین کو کچھ تجاویز پیش کیے جو مزاحمت بلاک کے حفاظتی پہلو کو مضبوط کرنے کے متعلق تهین، خاص طور پر سیکیورٹی اینڈ پروپیگیشن سروس، "مجد" کا قیام، جو اندرونی سیکیورٹی فائلوں کو سنبھالتی ہے۔ اس کے بعد سنوار سیکیورٹی کیڈرز کے ایک مضبوط گروپ کی قیادت کرنے اور متعدد اسرائلی ایجنٹوں کا سراغ لگانے میں کامیاب رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، "مجد" حماس کے داخلی امنیتی نظام کو قائم کرنے کا پہلا مرکز بن گیا، اور اس کا کردار، اسرائیلی ایجنٹوں کے ساتھ تحقیقات کرنے کے علاوہ، خود انٹیلی جنس افسران اور اسرائیلی سیکیورٹی سروسز کے نشانات کا سراغ لگانے مین کام آیا.[2].


گرفتاریاں

سنوار کی غزه ک اندر کوششین قابض اسرائیل کی نظروں سے اوجھل نہ تھیں چنانچه اسرائیلی قابض فوج نے انہیں 1982 میں یعنی ’’مجد‘‘ اپریٹس کے قیام سے قبل گرفتار کیا اور اسرائیل کے خلاف سیکورٹی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزامات مین انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم، سب سے بھاری سزا 20 جنوری 1988 کو سنائی گئی، جب انہیں 30 سال قید کی سزا کے علاوہ چار مرتبه عمر قید کی سزا سنائی گئی، جب ان پر حفاظتی اپریٹس قائم کرنے اور تحریک کے پہلے فوجی دسته -جسے فلسطینی مجاہدین کے نام سے جانا جاتا هے-۔کے قیام میں حصہ لینے کا الزام عائد کیا گیا. جونهی سنوار نے 23 سال اسرائیلی جیلوں میں قیدی کے طور پر گزارے، یہاں تک 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے حصے کے طور پرکہ انکی رہائی ہوئی، جسے میڈیا میں "شلیٹ ڈیل" کے نام سے جانا جاتا هے۔ انهون نے قید میں اپنے طویل سالوں کے دوران، اسرائیلی معاشرے کا اچھی طرح مطالعه کیا، اور اس دوران وه مسلسل عبرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اخبارات پرتے تھے۔ اور ساته مین عبرانی زبان میں لکھی گئی بہت سی تحقیقیں بھی پڑھی تھیں جو که میں اسرائیلی داخلی صورت حال سے متعلق تھا،۔ جس انکے انداز اسرائیلی معاشرے کے ساته برتاو کا پیشہ ورانہ سلیقه آیا۔[3].

اسلامی اتحاد میں ان کی دلچسپی

انہوں نے اپنی تقریروں میں عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد، مفاہمت اور اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت پر بارہا بار زور دیا هے من جمله غزہ میں جمعہ کے دن14 اپریل 2023 کو بین الاقوامی قدس ڈے فیسٹیول کے دوران اپنی تقریر میں بھی اس بات پر زور دیا۔ اور کہا کہ یوم القدس کے موقع پر عرب، بین الاقوامی اور اسلامی شہروں میں بڑے پیمانے پر عوام کی شرکت اس بات کا حتمی ثبوت ہے کہ قدس اور مسجد الاقصیٰ اس امت کے دلوں میں زنده ہیں اور یه مسئلہ امت مسلمه کو متحد یک جا کرسکتا هے. ہم سمجھتے ہیں کہ ہم فلسطینی مسلمان، قدس اور مسجد اقصی کے ساته اس چپکنے والے مواد کی مانند ہیں جو اس بکهرے هوے امت کو اکٹھا کر سکتا ہے اور انکی صفوں مین وحدت ایجاد کرسکتا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی یروشلم ڈے کی مناسبت سے غزہ فیسٹیول میں اپنے خطاب کے ذریعے ایرانی صدر کی شرکت پر بہت زیادہ تعریف کی اور کہا: ہم فلسطینی مزاحمت بلاک کی حمایت کے لیے ایران کے عزم کی تجدید کو سراہتے ہیں.اسی طرح انهون نے سید حسن نصر اللہ (حزب الله کی جرنل سکیژی) کے فلسطین اور مقدس مقامات کے متعلق اعلان کردہ اور تجدید عہد کو بھی سراہا اور کہا:"ہم اسے جلال، فخر اور نور کے حروف میں درج کرتے ہیں۔" [4].

قدس فورس کے ساتھ انکا رابطه

سنہ 2016 میں سنوار کی ایک آڈیو فائل شائع ہوئی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ کے پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی نے ان سے فون پر گفتگو میں کہا تھا کہ "حماس کے لیے قدس کی دفاع کے جنگی تمام ضروریات فراهم کرینگے۔ یہ آڈیو فائل، -جو کہ سنوار کی اس فون کال کی بیانیہ ہے جو شہید سلیمانی نے ان کے ساتھ کی تھی- لبنانی "المیادین" نیٹ ورک نے 4 جنوری 2017 کو شائع کی تھی۔ کہ "پاسداران انقلاب اور قدس فورس قدس کے دفاع کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ ہے۔" مزید انهون نے کہا کہ یہ تحریک (حماس) اور فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک سلیمانی کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ جب شہید قائد سلیمانی کو شهید کیا گیا تو تحریک حماس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا: فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ایرانی قیادت اور ایرانی عوام کے ساتھ دلی تعزیت اور ہمدردی پیش کرتی ہے، جنرل سلیمان ایران کے ممتاز ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک تهے جنہوں نے مختلف شعبوں میں فلسطینی مزاحمت بلاک کی حمایت میں نمایاں کردار ادا کیا تها۔ اسی طرح تحریک حماس نے امریکی حملے کے نتیجے میں عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس سمیت متعدد فداکارون کی شہادت پر عراقی عوام سے تعزیت کا اظہار کیا۔ یاد رهے تحریک حماس کے ایک وفد نے ایران میں شهید جنرل قاسم سلیمانی کے جنازے میں بھی شرکت کی، جس کی قیادت اس تنظیم کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کی، اور اس وفد مین صالح العروری، موسیٰ ابو مرزوق، عزت الرشق، اسامہ حمدان، اور تہران میں کے نمائندے، خالد قدومی بهی شامل تهے۔ وفد کے ترجمان نے کہا کہ یہ دورہ کمانڈر شهید سلیمانی اور انکے فلسطینی عوام کی والهانه حمایت کی وفا اور تکمیل کے لیے آیا ہے۔ وفد کے ترجمان اسماعیل هنیه نے میت کی تشیع کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سلیمانی کا قتل ایک گھناؤنا جرم تھا، انہوں نے فلسطین کے اندر اور باہر انکے رہنماؤں کے قتل کے باوجود مزاحمت تحریک کو جاری رکھنے کا وعدہ کیا اور کہا، "ہم فلسطین سے تعزیت لیفٹیننٹ جنرل سلیمانی کی شہادت پر رهبر انقلاب سید علی خامنہ ای اور اسلامی جمہوریہ۔ کی خدمت مین تعزیت پیش کرتے کی جسنے فلسطین اور مزاحمت بلاک کو اس مرحل تک پهنچایا جس طرح سے ابهی موجود هین " اسی وجہ انهون نے جرنل سلیمانی کو شہید قدس کے لقب سے پکارا.[5].

امریکہ کی دہشت گردی

ستمبر 2015 میں، امریکہ نے سنوار کا نام بین الاقوامی دہشت گرهوں کی بلیک لسٹ میں شامل کیا، انکے ساتھ حماس تحریک کے دو دیگر رہنماؤں، القسام بریگیڈز کے کمانڈر چیف [[محمد الضیف] ]، اور پولیٹیکل بیورو کے رکن روحی مشتہی کو بهی بلیک لسٹ میں شامل کیا.

طوفان اقصیٰ

2023 میں اسرائیل اور حماس کے درمیانآپریشن الاقصیٰ کی جنگ کے تین ہفتوں کے تنازع کے بعد، سنوار نے کها اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی تجویز پیش کی۔ وال سٹریٹ جرنل اور فنانشل ٹائمز کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی حکام سنوار کو حماس کے انتہائی شدت پسند ارکان میں سے ایک سمجھتے ہیں اور انکو اس تحریک کے سیاسی رہنماؤں اور عسکری ونگ کے درمیان حلقه وصل سمجھتے ہیں۔ انکا کهنا هے عزالدین القسام بریگیڈز کے کمانڈر محمد ضییف نے اس مقاومت گروه کی طرف سے اسرائیلی شہروں اور قصبوں کے خلاف کیے گئے آپریشن کا بیان پڑھ کر سنایا اور اسے " اقصیٰ سیلاب" کہا۔ تب سے، سنوار۔ خاموش رہا هے. اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق افسر مائیکل ملسٹین کا خیال ہے کہ محمد ضیف نے 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کا نافذ کیا تھا لیکن سنوار اس حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔[6].

سرگرمیاں

  • انہوں نے اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران "اسلامی بلاک" کی سربراہی کی هے۔
  • اسلامی یونیورسٹی غزہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سابق سکریٹری رهے هین
  • 13 فروری 2017 سے اسلامی مزاحمتی تحریک کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ ہیں۔
  • حماس تحریک میں "مجد" ڈیوائس قائم کرنے میں حصہ لیا، جو کہ ایک سیکورٹی بازو شمار هوتا ہے.

حوالہ جات