یحیی حسین الدیلمی ‌‌‌‌یحییٰ بن حسین بن محمد الدیمی، جنوری 1961ء میں پیدا ہوئے، زیدی فرقہ کے مراجع تقلید، مذہبی اسکالر، ایک اسلامی مفکر اور اسلامی اتحاد کے داعی، انسانیت کا احترام کرنے، بدعنوانی سے لڑنے اور فرقہ وارانہ اختلافات کو مسترد کرنے والوں میں سے ہیں۔ آپ فلسطین کے کاز اور یمن میں عرب اور ملت اسلامیہ کے مسائل کے دفاع کے علمبرداروں میں سے ہیں اور کئی بین الاقوامی اور علاقائی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ الدیلمی عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی کے رکن ہیں۔ 20 اگست 2019ء کو علامہ الدیلمی کو اس ملک کے دارالحکومت صنعاء کے شمال مشرق میں واقع یمن کے صوبے مارب میں حج سے زمینی راستے سے واپسی پر اغوا کیا گیا۔

یحیی الدیلمی
یحیی الدیلمی.jpg
دوسرے نامسید یحیی حسین الدیلمی
ذاتی معلومات
یوم پیدائشجنوری
پیدائش کی جگہیمن
مذہباسلام، زیدی
مناصب

سوانح عمری

یحییٰ بن حسین بن محمد الدیلمی، یکم جنوری 1961ء کو یمن کے شہر صنعا میں پیدا ہوئے۔ آپ یمن کے ایک دور حاصر کے زیدی عالم دین اور صنعاء میں النہرین مسجد کے مبلغ اور پیش امام ہیں۔ الدیلمی اسلامی اتحاد کے علمبردار ہیں، انسانیت کا احترام کرنے والے اور فرقہ وارانہ تنازعات کو مسترد کرتے ہیں۔ انہیں فلسطینی کاز اور عرب اور اسلامی قوم کے مسائل کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ کئی بین الاقوامی اور علاقائی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کی ہیں۔ 20 اگست 2019ء کو، انہیں ماریب میں زمینی راستے سے اغوا کر لیا گیا تھا، یہ یمن کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ شہر دارالحکومت صنعا، سے تقریباً 173 کلومیٹر دور ہے۔ اماریب میں پولیٹیکل سیکیورٹی جیل میں اغوا اور جبری گمشدگی کے ایک سال چالیس دن کے بعد، انہیں اور ان کے ساتھی کو 22 ستمبر کو رہا کیا گیا۔

تعلیم

عربی زبان میں بیچلر آف آرٹس اور اسلامیات میں بیچلر

اساتذہ

  • حمود عباس المؤيد،
  • محمد بن محمد المنصور،
  • مجد الدين المؤيدی،
  • بدر الدين الحوثی،
  • أحمد بن محمد زبارة،
  • يحيى محمد الديلمی،
  • عبد الحميد معياد

فکری اور نظریاتی سرگرمیاں

  • 2000ء اور 2004ء میں، انہوں نے صنعاء یوتھ موومنٹ کی بنیاد رکھی، جس کے ذریعے انہوں نے مسلسل اور تندہی سے مسلمانوں کو ملک کے اہم مسائل سے متعارف کرانے کی کوشش کی، جن میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین ہے۔ ذاتی کوششوں اور مساجد کے مبلغین کے تعاون سے، اس عقیدہ کے تحت کہ یہ امت مسلمہ اہم مسئلہ ہے۔
  • مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کے لیے بہت سے علماء اور مختلف اسلامی فرقوں اور مکاتب فکر کے علماء سے ملاقات کے لیے یمن کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔
  • انہوں نے درجنوں اسلامی اسکالرز، الازہر کے علماء، اور شیعہ اثنی عشریہ علماء سے ملاقاتیں کیں اور مصر، ایران، عمان، لبنان اور دیگر میں بہت سی اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔
  • انہوں نے اٹلی اور وفاقی جمہوریہ جرمنی کی وزارت خارجہ کی سرکاری دعوت پر بہت سی کانفرنسوں میں شرکت کی جس میں امن کا مطالبہ کیا گیا اور اس دوران آپ دوسرے مذاہب کی بہت سی مذہبی شخصیات سے ملے۔

سیاسی سرگرمیاں

  • انہوں نے 2003ء میں عراق پر امریکی قبضے کی مذمت کرتے ہوئے صنعا میں ایک ملین افراد کے مظاہرے کی قیادت کی، اور اس کے بعد حکام نے اسے اور تین دیگر کو گرفتار کر لیا۔
  • 2004ء میں جب صعدہ جنگیں شروع ہوئیں تو انہوں نے یمنی علماء کو فوری طور پر اکٹھا کیا جس میں یمنی خون بہنے سے روکنے کے لیے کارروائی کی گئی۔ الشوکانی مسجد میں نماز جمعہ کے بعد حمود المیادی اور محمد المنصور کی موجودگی میں۔
  • 2011ء میں، تغییر اسکوائر میں نوجوانوں کے انقلاب کا آغاز، آپ تبدیلی کے پہلے حامیوں میں سے ایک تھے اور نوجوانوں کی تحریک کو چینج اسکوائر پر لے جانے والے تھے۔
  • 2014ء میں یمنیوں کے درمیان جنگ نے صلح اور خونریزی روکنے پر زور دیا۔
  • جب 2015ء میں یمن کے خلاف جارحیت شروع کی گئی تو انہوں نے فوری طور پر اسے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی، بچوں اور خواتین کے قتل، عام شہریوں کو نشانہ بنانے، گھروں کی مسماری، خون بہانے اور یمن کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کی مذمت کی۔

گرفتاری اور سزا

9 ستمبر 2004 کو صعدہ میں بار بار جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے انہیں الفلیحی مسجد میں فجر کی نماز سے نکلتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔ ان کو خصوصی فوجداری عدالت (اسٹیٹ سیکیورٹی کورٹ) میں مقدمے کے لیے لایا گیا، جہاں سزائے موت سنائی گئی۔ ان کی گرفتای کے خلاف مظاہرے اور دھرنے ہوئے اور عوامی رائے عامہ کے مسئلے میں تبدیل ہو گئے اور عوامی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت 25 مئی 2006 کو انہیں رہا کرنے پر مجبور ہو گئی اور سزا پر عمل درآمد معطل کر دیا گیا اور ان کا ماہانہ وظیفہ بھی بند کر دیا گیا۔

امت اسلامی کی خاموشی لمحۂ فکریہ

الدیلمی نے کہا: امت اسلامیہ تمام طاقتوں کے حامل ہونے کے باوجود تماشائی بنی ہوئی ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموش ہے۔ انہوں نے کہا: مسلمان نہ خدا، پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت(ع) کے احکامات کی اطاعت کرتے ہیں اور نہ ہی ان مسلم رہنماؤں کی دعوت کو مانتے ہیں جو اسلام کی عزت، وقار، ترقی، ترقی اور بھلائی کے سوا کچھ نہیں چاہتے ہیں۔ انہوں لے کہا: امت مسلمہ کے اپنے مسائل بالخصوص غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تماشائی ہونے کی وجوہات کے بارے میں کہا: پہلی وجہ خالص دین محمدی اور قرآن کریم کے تصورات سے امت کی علیحدگی اور جدا ہونا ہے۔ دوسری وجہ مغربی ثقافت کی طرف مسلمانوں کا رجحان ہے۔

الدیمی نے مزید کہا: کہ عرب دنیا اور اسلامی ممالک اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے، انہوں نے دین اسلام کے بارے میں امت کی جہالت، ان کی تقسیم اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے ساتھ ساتھ علماء کے درمیان اختلافات اور جدائی کی طرف اشارہ کیا۔ مذہبی تنازعہ اور اختلافات ہیں جو مذہب کے مفاد میں نہیں ہے۔ شیخ دلمی نے فلسطین کے ساتھ یمن کی یکجہتی اور صیہونی حکومت کے بحری جہازوں کے خلاف اس ملک کی مسلح افواج کے آپریشن اور اس حکومت سے متعلق، نیز قابض حکومت کے ٹھکانوں پر میزائلوں اور ڈرونوں کے داغے جانے کے بارے میں کہا:

کہ یمنی قوم آج بھی دشمنوں کی جارحیت سے زخمی ہونے والے زخموں کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔ یمن اپنے ظہور کے بعد سے ظلم سے لڑنے اور اسلام کی مدد کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، اوس اور خزرج یمنی نژاد تھے۔ یمنی اسلامی فتوحات کے مشہور سپاہی ہیں اور مغرب اور بہت سے دوسرے ممالک کی فتح میں حصہ لیا۔

یمنی انقلاب کے مستقبل کے بارے میں انہوں کہا: ہر انقلاب رکاوٹوں اور مشکلات سے گزرتا ہے اور لوگوں کو توہمات، افواہوں اور جھوٹوں سے نجات دلانے میں وقت لگتا ہے، جس طرح ہر ایک انقلاب برپا ہوتا ہے۔ انقلاب کو مردوں کی ضرورت ہے کہ وہ امت اسلامیہ کے مسائل کے بارے میں علم، آگاہی اور بصیرت رکھتے ہوں، حکومت اور عدالتی نظام کے سربراہ میں تبدیلیاں آئی ہیں اور یمنی عوام کی ترقی کی بہت امیدیں ہیں۔

شیخ الدیلمی نے نشاندہی کی کہ سابق یمنی حکومت کے زندہ بچ جانے والے میڈیا یا سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے یمنی معاشرے میں مایوسی پھیلانے کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کے لیے صرف وہی چیز اہم ہے جو سابقہ حکومت اور ذاتی مفادات ہیں جو کہ اس کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا اور ان کا مقابلہ نہ کیا گیا تو وہ یمن میں آنے والی تبدیلی کے لیے خطرہ ثابت ہوں گے[1]۔

داعش کو اسلامی طرز حکومت کے نمونہ کے طور پر دکھانے کی کوشش

اسلام کے دشمنوں کی جانب سے داعش کو اسلامی طرز حکومت کی علامت کے طور پر دکھانے کی کوشش، الدیلمی نے داعش کو عالم اسلام پر ایک نئی آفت قرار دیا اور کہا: داعش مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے لیے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے کا بہانہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض عناصر داعش کو اسلامی طرز حکومت قرار دے کر اسلام کا چہرہ مسخ کرنے چاہتے ہیں۔

سلفیت کے پھیلاؤ میں آل سعود کی ناکامی

یمن میں جنگ ایک بہانہ تھا سعودی عرب یمن کے ساتھ جنگ کو ایران کے ساتھ جنگ قرار دیتا ہے۔ یمن کے امام جمعہ نے کا کہنا ہے کہ سعودی عرب یمن کے ساتھ جنگ کو ایران کے ساتھ جنگ قرار دیتا ہے اور چالیس سال سے زائد عرصے تک سلفیت کو پھیلانے میں سعودی عرب کی شکست دوچار ہوا ہے۔

کرمانشاہ سے فارس خبر رساں ایجنسی کے مطابق شیخ یحیی الدیلمی نے آج شام کرمانشاہ کے میڈیا کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ یمنی عوام کا دفاع کرتا ہے اور مزید کہا: یمن میں جنگ کا سب سے زیادہ شکار بچوں اور خواتین کو قرار دیا اور کہا: یمنی عوام کے لیے پانی تک رسائی مشکل ہو گئی ہے اور ہسپتالوں کو بھی خدمات فراہم کرنے کے لیے بجلی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے یمن کے مسائل کی اصل وجہ آل سعود کی ظالم حکومت کو قرار دیا اور کہا: اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ یمن میں 12 ملین سے زائد افراد کو خوراک کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ یمنی قوم ایک مستحکم اور استقامت والی قوم ہے کہا: میں عزم کے ساتھ کہتا ہوں کہ یمنی قوم حتی کہ بچے بھی سعودیوں اور ان کے حامیوں جیسا کہ امریکہ اور دوسرے ممالک جو سعودیوں کے اتحادی ہیں، سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ الدیلمی نے واضح کیا: یمنی قوم خدا کے سوا کسی سامنے کبھی نہیں جھکے گی اور یمن کے جسم پر یہ حملے ہی اس کی قوم کی ترقی کا باعث بنیں گے۔

یمنیوں کے عقیدہ کو تبدیل کرنے میں سعودی عرب کی ناکامی یمنی جنگ کی اصل وجہ ہے اور سعودی عرب کی طرف سے یمنی جنگ شروع کرنے کی بڑی وجہ یمنیوں کی عقیدہ کو تبدیل کرنے کی نصف صدی کی سعودی کوششوں کی ناکامی ہے۔ سعودی عرب یمینوں کو وہابی بنانا چاہتا ہے لیکن یمنی آج تک زیدی اور شافعی ہیں اور رہیں گے۔ جب سعودی عرب، یمنیوں کے عقیدے تبدیل کرنے میں شکست ہوئی تو طاقت کا سہارا لیا۔

بے گھر لوگوں کے لیے ایران کی امداد

بے گھر لوگوں کے لیے ایران کی امداد کو سراہتے ہوئے کہا: ایران واحد ملک ہے جو لیڈروں سے لے کر عام لوگوں تک یمن کی حمایت کرتے ہیں۔ یمن کے سانحات کے بارے میں عرب لیگ کی خاموشی کی صورت میں یمن کے امام جمعہ نے خطے کے عرب ممالک کی ہمدردی اور مدد کے حوالے سے کہا: اب تک کسی بھی عرب ملک نے مدد نہیں کی۔ درحالانکہ خطے میں عرب لیگ کے نام سے ایک علاقائی تنظیم موجود ہے جبوتی میں ایرانی امداد لے جانے والے جہاز کو اتارنے کا ذکر کرتے ہوئے الدیلمی نے کہا: آج ایران ایک بڑے جہاز کو 12000 ٹن لوڈ کر رہا ہے۔

انہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب سے دنیا کے ممالک بالخصوص عرب ممالک کے اثرات کو یاد دلایا اور کہا: بلاشبہ ایران کا اسلامی انقلاب اسلام کی حقیقت کو پیش کرنے کا ایک نیا موقع تھا[2]۔

ایران اور یمن کی قوموں کے درمیان تعلقات گہرے ہیں

ایران اور یمن کی قوموں کے درمیان تعلقات گہرے اور پائیدار ہیں۔ یمن کے شہر صعدہ کے امام جمعہ نے کہا: ایران اور یمن کے عوام کے درمیان تعلقات بہت گہرے ہیں اور اس گہرے تعلقات اسلام سے پہلے کے زمانے تک محیط ہیں۔ ارنا کے مطابق شیخ سید یحیی الدیلمی نے منگل کے روز صوبے میں مذہبی فقیہ کے نمائندے اور کرمانشاہ کے امام جمعہ کے ساتھ ملاقات میں مزید کہا: ایک روایت کے مطابق یمن میں اسلام قبول کرنے والا پہلا شخص ایرانی تھا جس کا نام بازان تھا۔ جو یمن کا ایرانی امیر تھا، اس کے اسلام قبول کرنے کے بعد یمن میں اسلام کے پھیلاؤ کے لیے موقع فراہم کرنے والا شخص ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ان روایات کے مطابق یمن کی سب سے مشہور مسجد جو جزیرہ نمائے عرب کی تیسری مسجد سمجھی جاتی ہے، پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے اس شخص کے گھر کے سامنے اونٹ کے کھڑے ہونے کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ الدیلمی نے یمن میں وہابیوں کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: پوری تاریخ میں اس ملک کے حکمرانوں کی اکثریت زیدیوں میں سے رہی ہے۔ لیکن وہابیوں نے انگلستان کی مدد سے وہ اس ملک میں لوگوں کی تربیت اور معاشرے کو منحرف کرنے کے لیے سات ہزار سکول بناتے ہیں لہذا سالوں کے بعد ایک مطیع حکومت کو اقتدار میں لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس انقلاب اور اس کے نظریات کے دفاع میں ملک میں بہت سی تحریکیں چلیں، جیسے کہ فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت، لبنان کی حزب اللہ وغیرہ، جنہیں حکومت نے سختی سے کچل دیا۔ مثال کے طور پر، مجھے ایران کے ساتھ تعاون کرنے پر موت کی سزا سنائی گئی۔ امام جمعہ نے فرمایا: لیکن اس جبر نے یمنی عوام کی انقلابی تحریک کو روکا نہیں اور آج تمام بیرونی اور اندرونی مسائل کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ یمن متحد اور پے در پے فتوحات کی طرف بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: یمن کی عوامی فوج، عوامی انقلابی فورسز اور حوثیوں نے زبردست فتوحات حاصل کی ہیں اور تقریباً تمام یمن ان فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ الدیلمی نے کہا: القاعدہ کی افواج اور مستعفی صدر منصور ہادی کے باقی ماندہ وفادار مکمل طور پر تباہ ہو رہے ہیں[3]

ہم ایران کے عوام اور حکومت کو اپنا حامی سمجھتے ہیں

صنعاء شہر کے امام جمعہ نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ یمن میں سعودی عرب سیاسی خودکشی کر رہا ہے اور زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ آل سعود تاریخ میں صرف ایک ذلت آمیز نام رہ جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا: سعودی عرب کو یمنی عوام کے دشمنوں کی بھرپور فوجی اور مالی امداد صاف ظاہر ہے اور کوئی بھی ان سے انکار نہیں کرسکتا۔ الدیلمی نے کہا: ایران کے عوام کئی سالوں سے استکبار اور بین الاقوامی استعمار کی طرف سے مسلط کردہ تباہ کن جنگ کا سامنا کر رہے ہیں اور خدا کے فضل سے وہ اپنی سرزمین کو محفوظ رکھنے اور اس کا کچھ حصہ غیروں کو نہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔

اب تک ایران کے عوام اور سیاستدان یمن کے مظلوم عوام کے بنیادی حمایتی رہے ہیں اور دوسری طرف یمن کے عوام نے ان تمام حمایتوں کوکبھی فراموش نہیں کریں گے۔ الدیلمی نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے تمام وجود کے ساتھ اپنی تمام تر حمایت کا اظہار کیا ہے اور سعودی عرب کو جان لینا چاہیے کہ یمنی قوم تنہا نہیں ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کا یمنی عوام کی حمایت

ایران کے صنعاء شہر کے امام جمعہ نے کہا: جب میں نے دیکھا کہ ایران کے رہبر نے براہ راست آل سعود کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں خبردار کیا ہے کہ وہ جلد از جلد یمن پر جارحانہ حملوں کو ختم کر دیں تو مجھے اپنے آپ پر فخر ہوا کیونکہ یہ ثابت ہوا کہ ایران کا رہنما یمن کا حامی ہے اور اس سے خوفزدہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ الدیلمی نے یہ بھی کہا: یمنی عوام نے اپنی سرزمین، عزت و آبرو کے دفاع کا حلف اٹھایا ہے اور وہ دھمکیوں، پابندیوں اور جنگ سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔

یمن کے عوام نے امام خمینی (رہ) کو اپنا رول ماڈل بنایا

یمن کے عوام نے امام خمینی (رہ) کو اپنا رول ماڈل بنایا ہے اور ایران کے رہبر، مسؤولین اور عوام کی حمایت سے وہ فتح کا راستہ اختیار کریں گے اور آل سعود کو شکست دیں گے۔ صنعاء شہر کے امام جمعہ نے مزید کہا: حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمران عرب سیاسی خودکشی کر رہے ہیں اور وہ اپنی جعلی اور بوسیدہ حکومت کو بچانے کے لیے سب کچھ کرتے ہیں اور ان چیزوں میں سے ایک انتہائی شرمناک اور ذلت آمیز یمنی پر حملہ ہے۔

یمن اب سعودی عرب کا دوسرا حصہ نہیں

الدیلمی نے اشارہ کیا: آل سعود کو معلوم ہونا چاہیے کہ یمن اب سعودی عرب کا دوسرا حصہ نہیں ہے اور وہ یمن کی سرزمین کو اپنی سرزمین میں شامل کرنے کی اس خواہش کو پورا نہیں کرے گا۔ یمن کے عوام، نسلی، قبائلی اور فرقہ وارانہ مسائل کی وجہ سے جو سعودی عرب نے ان کے لیے گذشتہ برسوں میں پیدا کیے تھے، اس ملک کے رہنماؤں کے خلاف شدید رنجش رکھتے ہیں، اور اب انھیں انتقام لینے کا موقع مل گیا ہے۔

سعودی حکومت پر، آخری دم تک، آخری سانس تک اپنی سرزمین اور وطن کی حفاظت کے لیے سعودی عرب اور کسی بھی دشمن حکومت کے خلاف کھڑے رہے ہیں اور رہے گا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سعودی عرب صرف ایک نام ہے اور ہم تاریخ میں ذلیل نہیں ہوں گے[4]۔

یمن ہمیشہ فلسطین کا دفاع کرتے رہے گا

یمنی مفکر نے تاکید کی: یمن اسلامی اخوت کے دائرے کو نہیں چھوڑے گا اور فلسطین اور امت اسلامیہ کے مسائل اور تمام مسلمانوں اور مظلوموں کا پوری طاقت سے دفاع کرے گا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یمنی مفکر یحییٰ دیلمی نے اسلامی اتحاد کی دوسری بین الاقوامی کانفرنس طوفان الاقصی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اب ہم صیہونی جنگ کے چوتھے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں کہا: جس طرح تمام اسلام ایک آئیڈیل اور ایک شناخت ہے اسی طرح فلسطین ایک آئیڈیل اور ایک شناخت ہے۔ اس یمنی عالم نے کہا: اسلام کا مسئلہ انسان ہے کیونکہ اسلام انسان کو آزادی کی طرف لانا چاہتا ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فلسطین، یمن، شام اور لیبیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر ہمارے آنسو بہے، ہمارے دل غمگین اور ہمارے جسم کانپنے لگے، انہوں نے واضح کیا: اس سب کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اسلام کی عظمت اور اس کی قدر و منزلت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ دیلمی نے مزید کہا: یمن اسلامی اخوت کے دائرے کو نہیں چھوڑے گا اور یمن محاصرے اور امارات اور سعودی عرب کے حملوں کی وجہ سے تباہ ہونے والے بنیادی ڈھانچے کی کمی کے باوجود فلسطین اور امت اسلامیہ اور تمام مسلمانوں اور مظلوموں کے مسائل کا پوری طاقت سے دفاع کرے گا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ یمنی اپنے میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ میدان میں اترے ہیں تاکہ دنیا کو یہ اعلان کر دیا جائے کہ مسئلہ ناکہ بندی اور انفراسٹرکچر کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کا ہے۔ انہوں نے کانفرنس میں موجود علماء سے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا: جب تک آپ مسلمانوں کے مسائل کی خدمت کرتے رہیں گے، آپ سیدھے راستے پر ہیں۔ اس یمنی مفکر نے کہا کہ ہم اس دور میں ہیں جب لوگ فضول مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔ وہ کتوں کی پرواہ کرتے ہیں لیکن انسانوں کی نہیں۔ انہوں نے تاکید کی: امت اسلامیہ اور خاص طور پر علماء کے لیے ضروری ہے کہ وہ حیا، آزادی، اخوت اور ان کی قوموں کے دلوں میں پروان چھڑائیں۔ انہوں نے مزید کہا: یمن کے لوگ ایمان، عمل، فکر اور رحمت کے لوگ ہیں جو نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ تمام لوگوں کے ساتھ مہربان ہیں [5]۔

حوالہ جات

  1. اندیشمند یمنی: امت اسلامی با وجود در اختیارداشتن عناصر قدرت تماشاچی است(یمنی مفکر: امت اسلامیہ کی خاموشی لمحۂ فکریہ)-19 اگست 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 دسمبر 2024ء۔
  2. شکست آل‌سعود در اشاعه سلفی‌گری بهانه جنگ یمن بود/عربستان جنگ با یمن را مصاف با ایران می‌داند- شائع شدہ از: 26 مئی 2015-اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 دسمبر 2024ء۔
  3. امام جمعه صعده: رابطه بین ملت های ایران و یمن عمیق و ریشه دار است(صعدہ کا امام جمعہ: ایران اور یمنی ملتوں کا رابطۂ پائیدار اور گہرے ہیں)-شائع شدہ از: 15اگست 2015-اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 دسمبر 2024ء۔
  4. امام جمعه صنعا: مردم و دولت ایران را حامی خود می‌دانیم( صنعا کا امام جمعہ: یمن کے عوام، ایرانی حکومت اور عوام کو اپنے حامی سمجھتے ہیں)- شائع شدہ از: 22 جون 2015ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 دسمبر 2024ء۔
  5. یمن، از دایره برادری اسلامی خارج نمی‌شود(یمن اپنے اسلامی دا‏ئرے سے خارج نہیں ہوگا)- شائع شدہ از: 8 مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 دسمبر 2024ء۔

}}