شیخ غازی حنینہ ایک لبنانی سنی عالم دین، اتحاد بین المسلمین کا داعی اور فلسطین کا مدافع اور اسرائیل کے سخت مخالفین میں سے ہے۔ ان کے نزدیک امت اسلامی کی اختلافات وجہ سے عالمی استکبار اسلامی ممالک پر مسلط ہو چکا ہے۔

غازی حنینہ
شیخ غازی حنینہ.jpg
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہلبنان
مذہباسلام، سنی
مناصبانجمنِ علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ

اسلامی ممالک پر عالمی استکبار کا تسلط تفرقہ اہم ترین میں آثار

لبنان کے مشہور سنی عالم دین، شیخ غازی یوسف حنینہ نے تہران میں نماز جمعہ سے پہلے اپنے خطبات میں قرآن کریم کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے اسلامی اتحاد کو ضروری قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا: قرآن کریم کی تاکید نیز پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت کی سیرت بھی یہی ہے کہ مسلمان اسلامی اتحاد کی حفاظت پر توجہ دیں اور تفرقہ سے بچیں۔ لبنانی سنی عالم نے تفرقہ کو امت اسلامیہ میں مختلف فتنوں کا اصل ذریعہ قرار دیا اور تاکید کی: اگر ہم اسلامی امت میں خوش و خرم زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں تفرقہ سے بچنا چاہیے اور اخوت کی راہ پر چلنا چاہیے۔

شیخ حنینہ نے اسلامی اتحاد پیدا کرنے میں علمائے کرام کے کردار کو بہت اہم قرار دیا اور کہا: علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اسلامی مسائل بالخصوص اتحاد کے معاملے میں اسلامی مسائل کی تبیین کریں۔ انہوں نے قرآن، رسول اکرم (ص) اور قبلہ جیسی مشترکات پر مسلمانوں کی خصوصی توجہ کی تاکید کرتے ہوئے یاد دہانی کرائی: امت اسلامیہ میں عمومی اور کلیدی مسائل میں بہت سی مشترکات ہیں، اگرچہ معمولی مسائل پر اختلاف پایا جاتا ہے۔

امریکہ اور صہیونی حکومت مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بازی بھر پور کوشش

انہوں نے مزید کہا: ہمیں معمولی اور جزئی مسائل کو بڑا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہئے اور اہم مسائل اور متعدد مشترکات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ شیخ حنینہ نے تفرقہ بازی کا سب سے اہم اثر اسلامی ممالک پر عالمی سامراج بالخصوص امریکہ کے تسلط کو قرار دیا اور یاد دلایا: امریکہ اور صیہونی حکومت جیسے استکباری ممالک مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

امت اسلامیہ؛ کیونکہ تقسیم امت اسلامیہ کے بہت سے وسائل اور مختلف صلاحیتوں پر غلبہ پانے کا سبب بنتی ہے۔ شیخ حنینہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی اتحاد کے پرچم بردار کے طور پر سراہتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک کو اس پرچم کے نیچے قدم رکھنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا: تمام اسلامی ممالک کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اسلامی اتحاد کی سمت بڑھیں۔ کیونکہ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق امت اسلامیہ ایک امت ہے اور اسے تقسیم نہیں ہونا چاہیے [1]۔

امت مسلمہ کی کامیابی کا واحد راستہ وحدت و اتحاد ہے

انجمنِ علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں اسلامی وحدت و اتحاد سے متعلق مختلف خطرات، مشکلات اور سختیوں کا سامنا ہے اور اس راستہ میں بہت سی شہادتیں بھی دی ہیں، لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود امتِ مسلمہ کی کامیابی کا واحد راستہ وحدت و اتحاد ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انجمنِ علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ شیخ غازی حنینہ نے حوزہ ہائے علمیہ خواہران ایران کے سربراہ حجۃ ‌الاسلام والمسلمین مجتبی فاضل اور دیگر اراکین سے مرکزِ مدیریت حوزہ ہائے علمیہ میں ملاقات کی اور اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اسلامی وحدت و اتحاد پر زور دیا۔

اس ملاقات کے آغاز میں، حوزہ ہائے علمیہ خواہران ایران کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین فاضل نے ہفتۂ وحدت کی مبارکباد پیش کی اور شیخ غازی حنینہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج عالمِ اسلام میں اتحاد کو برقرار رکھنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ ضرورت، خطے کی موجودہ سیاسی صورتحال بالخصوص فلسطین، شام اور لبنان کی صورتحال کے پیش نظر زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

اس دوران انجمنِ علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ شیخ غازی حنینہ نے نیز ہفتۂ وحدت اور میلاد پیغمبرِ اسلام(ص) اور امام صادق(ع) کی مناسبت سے تبریک و تہنیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امتِ محمدی (ص) ہونے کی حیثیت سے دلی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ موجودہ اتحاد و وحدت کی فضاء کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بعض نام نہاد مسلمان، مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنا چاہتے ہیں، ان کا یہ نظریہ، دلی اتحاد و وحدت پر مبنی نہیں ہے اور اس نظریے کا تعلق آج کل سے نہیں بلکہ 1400 سال پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔

شیخ غازی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تاریخِ اسلام میں شیعہ اور سنی کے مابین فکری اختلافات رہے ہیں، کہا کہ اگر آج کوئی مسلمانوں کے درمیان مسائل، اختلافات اور تفرقے کو ہوا دے رہے ہیں تو وہ بنی امیہ کے پیروکاروں کا کام ہے اور وہ صرف اقتدار اور حکمرانی کے بھوکے ہیں اور مسلمانوں کے اتحاد و وحدت سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اتحاد و وحدت کی بنیاد، ایمان اور بھائی چارگی پر ہے اور ہمارے رہبرِ معظم حضرت آیۃ اللہ امام خامنہ ای کے ارشاد کے مطابق، ہمارا اتحاد اقوام و ملت کا اتحاد ہے اور اس سلسلے میں ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمیں اسلامی وحدت و اتحاد سے متعلق خطرات، مشکلات اور سختیوں کا سامنا ہے اور اس راہ میں بہت سی شہادتیں بھی ہوئیں ہیں، کہا کہ ان تمام مشکلات کے باوجود امتِ مسلمہ کی کامیابی کا واحد راستہ وحدت و اتحاد ہے۔

آخر میں، انجمنِ علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ نے کہا کہ مغرب اور غاصب صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کے خواہاں عرب ممالک در حقیقت اتحاد و وحدت کے خواہاں نہیں بلکہ وہ بنی امیہ کے پیروکار ہیں اور ان کا منصوبہ مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کر کے موجودہ اتحاد و وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے [2]۔

امت مسلمہ کی سعادت رہبرِ انقلابِ اسلامی کی پیروی میں ہے

جمعیت علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ نے کہا کہ سوال ہوتا ہے کہ کیسے ایک اہل سنت عالم دین کا ولی شیعہ علماء میں سے ایک ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان کا اپنا ایک مذہب ہوتا ہے، لیکن سختیوں سے گزرنے، ایک امت بننے اور امت مسلمہ کی سعادت کی راہ، ایک محور اور رہبر پر منحصر ہے اور اس عہدے پر رہبرِ انقلابِ اسلامی فائز ہیں، لہٰذا سب کو ان کی پیروی کرنی چاہیئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جمعیت علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ شیخ غازی یوسف حنینہ نے مؤسسہ سراج المنیر میں منعقدہ تکفیری اور افراطی گرہوں سے مقابلہ کی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علمائے مسلمان 41 سال قبل، کثیر تعداد میں علمائے اسلام کی موجودگی میں وجود میں آئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت کی تاسیس کے دوران امام راحل نے حمایت کی، یہ جمعیت 350 فلسطینی اور لبنانی شیعہ سنی علماء کی موجودگی میں وجود میں آئی۔

جمعیت علمائے مسلمان لبنان نے کہا کہ جمعیت کی اولین ترجیح، شعیہ سنی علماء کے مابین یکجہتی اور وحدت ہے، یہاں کسی کو تشیع یا تسنن کی دعوت نہیں دی جاتی، بلکہ اسلام ناب محمدی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی جانب بلایا جاتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چار مذاہبِ اسلامی کا ماننے والا مسلمان ہے اور ہم بھی انہیں مسلمان سمجھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت علمائے مسلمان وحدت امت کے ساتھ ساتھ اسلام کے اصل چہرے کو آشکار اور اسلامی مزاحمتی محاذوں کی حمایت کرتی ہے، کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ مزاحمت ہی وہ واحد راستہ ہے جو فلسطین کو اہل فلسطین کے حوالے کر دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کے درمیان موجود اختلاف و افتراق کی اصل جڑ، وہابی تفکر ہے اور ہم اس تفکر کے ساتھ مقابلے میں ہیں۔

جمعیت علمائے مسلمان لبنان کے سربراہ نے کہا کہ اسلامی معاشرے کی قیادت، اسلامی معاشرے کی عزت و آبرو کا باعث ہے اور ہم اس میدان میں رہبرِ انقلابِ اسلامی کو رہبر کے عنوان سے قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزاحمتی محاذ کی حمایت کرنے والے ممالک ایک ہی خط پر گامزن ہیں۔ حقیقت میں اس مزاحمت کا محور رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای ہیں کہ آپ اس کو منزل مقصود تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔

شیخ حنینہ نے کہا کہ سوال ہوتا ہے کہ کیسے ایک اہل سنت عالم دین کا ولی شیعہ علماء میں سے ایک ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان کا اپنا ایک مذہب ہوتا ہے، لیکن سختیوں سے گزرنے، ایک امت بننے اور امت مسلمہ کی سعادت کی راہ، ایک محور اور رہبر پر منحصر ہے اور اس عہدے پر رہبرِ انقلابِ اسلامی فائز ہیں، لہٰذا سب کو ان کی پیروی کرنی چاہیئے [3]۔

لبنان میں شیعہ اور سنی اتحاد کے ذریعے ہی اسرائیل کا خاتمہ ہوگا

رئیس مسلم علماء کونسل لبنان کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چیئرمین نے کہا ہے کہ لبنان میں شیعہ اور سنی اتحاد کے ساتھ اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس اتحاد کے ذریعے صہیونی دشمن کو شکست دیں گے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رئیس مسلم علماء کونسل لبنان کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چیئرمین، شیخ غاذی یوسف حنینہ نے کہا ہے کہ لبنان میں شیعہ اور سنی اتحاد کے ساتھ اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس اتحاد کے ذریعے صہیونی دشمن کو شکست دیں گے۔ انہوں نے امام خمینی (رح) کے اس پیغام کو دہرایا کہ مسلمانوں کو متحد ہو کر صہیونیوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

بوشہر میں امام خمینی (رح) قرآنی مدرسہ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے شیخ غاذی حنینه نے کہا کہ لبنان میں شیعہ اور سنی آبادی تقریباً برابر ہے، شمالی علاقوں میں زیادہ تر سنی جبکہ جنوبی لبنان میں شیعہ آبادی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم علماء کونسل لبنان کا قیام 42 سال قبل ہوا تھا، جس میں 340 علمائے کرام شامل ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد شیعہ و سنی اتحاد کو فروغ دینا اور فلسطین کے عوام کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیلی قبضے سے آزادی حاصل کرنا ہے۔

شیخ یوسف غازی نے اس بات کا ذکر کیا کہ ابتدائی دور میں لبنان کے علماء نے امام خمینی (رح) سے ملاقات کی اور صہیونی دشمن کے خلاف اتحاد کا فیصلہ کیا، جس کی امام خمینی (رح) نے بھرپور تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ اس تحریک کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے لبنان کی مزاحمتی تحریک کی حمایت کی، خاص طور پر اسلحے کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ لبنان میں اسلامی مزاحمتی تحریک نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس میں ایران کا کردار کلیدی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی تحریک حماس کو اسلحے کی فراہمی کا منصوبہ بھی شہید قاسم سلیمانی کی قیادت میں عمل میں آیا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ لبنان کے شیعہ اور سنی متحد ہیں اور امام خمینی (رح) کے فرمان کے مطابق صہیونیوں کو شکست دینے کے لیے اپنے اتحاد کو برقرار رکھے ہوئے ہیں [4]۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی مقاومتی بلاک کی حمایت ہمیشہ کے لیے

لبنانی مسلم علماء کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سربراہ نے مقاومتی بلاک کی تشکیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس اسلامی فکر کی تشکیل جنوبی لبنان میں اسلامی جمہوریہ کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے ہوئی۔ اور اس کے بعد سے اسلامی جمہوریہ نے ہمیشہ مزاحمتی فکر کی حمایت کی ہے۔

لبنان میں شیعوں اور سنیوں کا اتحاد

بوشہر سے فارس خبررساں ایجنسی کے مطابق، لبنانی مسلم علماء کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سربراہ شیخ غازی یوسف حنینہ نے بوشہر میں امام خمینی کے قرآنی مدرسے کے طلباء سے ملاقات میں کہا کہ لبنان میں شیعوں اور سنیوں کی آبادی تقریباً ہے۔ انہوں نے مزید کہا: کہ لبنان کے شمال میں زیادہ تر سنی شام کے قریب ہیں، اور اس کے جنوب میں زیادہ تر شیعہ رہتے ہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ لبنانی مسلم علماء بورڈ کی عمر 42 سال اور 340 لبنانی علمائے کرام اس کے رکن ہیں۔

سنی علماء کرام کی امام خمینی سے ملاقات

انہوں نے کہا: تہران میں لبنانی شیعہ اور سنی علمائے کرام کے کام کے آغاز میں امام خمینی (رح) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صیہونی دشمن کے خلاف متحد ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے اس فیصلے کا اعلان امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو کیا اور فرمایا کہ اپنے اتحاد سے صیہونی دشمن کو شکست دیں اور اس کے بعد ہم نے لبنان میں مسلمانوں کے اجتماع کا اہتمام کیا، ہم نے لبنان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک اتحادی ملک قائم کیا جس کا ہدف:

  • فلسطینی عوام کی حمایت
  • فلسطین کو عالمی استکبار سے ہاتھوں سے نجاب
  • وہابیت اور تکفیری سوچ کا مقابلہ کرنا۔

مسلم علماء کے اجتماع کے تشکیل کا ہدف

مسلم علماء کے اجتماع میں موجود علماء کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے، خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، صوفی، حتیٰ کہ غیر تکفیری سلفی بھی اس میں شامل ہیں۔ نیز ان علماء کا تعلق فلسطین، لبنان اور شام کے مسلم ممالک سے ہے۔ ان کی تمام تر کوششیں مسلمانوں کے اتحاد کو برقرار رکھنے اور کسی بھی تعصب اور فرقہ واریت سے دور رہ کر دین اسلام کا روشن چہرہ پیش کرنا ہے۔

ان کا مقصد سنی اور شیعہ رجحانات کی طرف دعوت دینا نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کو خدا کی کتاب قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے گرد جمع کرنا ہے، لہذا ہم خدا کے گھر کی طرف نماز پڑھتے ہیں۔ قبلہ ایک ہے، اور ہم سب رمضان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہیں، اور حج کے دنوں میں ہم بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں، اور خود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اتحاد برقرار رکھنے اوراللہ کی رسی کو تھامے رکھنے کی دعوت دینا ہے [5]۔

لبنانی شیعہ کے قیام نے اسلامی مزاحمت کو جنم دیا

حنینہ نے مزید کہا: اس مجلس میں ہماری کوئی فقہی سرگرمیاں نہیں ہیں، لیکن ہمارا کام امت اسلامیہ کے بارے میں بحث کرنا اور لبنان اور خطے کے ممالک میں امت اسلامیہ کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ فلسطین کی جنگ میں مختلف ادوار میں لبنانی شیعوں نے فلسطین کے ساتھ غیر منظم طریقے سے حمایت کرتے رہے۔ انہوں نے کہا: فلسطینی عوام کی لبنان کی طرف ہجرت کے ساتھ ہی بہت سے دشمن لبنان میں آئے جن میں اسرائیل اور امریکہ بھی شامل تھے اور اس کے بعد سے شیعہ اور سنی جوان اٹھ کھڑے ہوئے۔ صیہونی دشمن کے خلاف شیعہ لبنان کے جنوب سے اٹھے اور اس کی وجہ سے لبنان میں اسلامی مزاحمتی تنظیم کی تشکیل ہوئی۔

اسلامی انقلاب کے بعد لبنان میں تبدیلی

شیخ یوسف حنینہ نے اعلان کیا: اس جہادی تحریک کی تشکیل کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے ان نوجوانوں کو تقویت دینے کے لیے مختلف مدد فراہم کی۔ یہ اسلامی فکر جنوبی لبنان میں اسلامی جمہوریہ کی مثال پر قائم ہوئی اور اس کے بعد اسلامی جمہوریہ نے ہمیشہ مزاحمتی محاذ کی حمایت کی ہے اور ہمارے پاس صہیونیوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیاروں کی کمی ہے۔

حماس کے قائدین کی آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کے دوران حماس نے کہا کہ ہمارے پاس اسلحوں کی کمی ہے تو آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے شہید جنرل قاسم سلیمانی سے کہا کہ وہ فلسطینی عوام اور حماس کو ہتھیار دیں اور انہوں نے یہ کام بھی کیا۔

مقاومتی بلاک کو مضبوط بنانے میں شہید قاسم سلیمانی کا کردار

حماس کے زیر زمین سرنگیں کھودنا حاج قاسم کا نظریہ تھا۔ انہوں نے تاکید کی: تہہ خانے، زیر زمین گزرگاہیں اور ہتھیاروں اور میزائلوں کو ذخیرہ کرنے کے لیے سرنگیں بنانے کا نظریہ حاج قاسم اور عماد مغنیہ کا تھا۔ جس طرح یہ سرنگیں غزہ میں زیر زمین بنائی گئی ہیں، لبنان میں بھی بنائی گئی ہیں۔ عماد چہار کی ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ مزاحمتی محاذ ایسے ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے کہ نیتن یاہو یہ ماننے پر مجبور ہو گئے کہ اگر وہ بیروت سے ٹکرائیں گے تو ہم حیفا کو ماریں گے، انہوں نے کہا: لبنان میں شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور ہم اپنے اتحاد سے صہیون کو تباہ کر دیں گے جیسا کہ امام خمینی (رح) نے ہمیں یہ حکم جاری کیا تھا [6]۔

حوالہ جات

  1. شیخ غازی یوسف حنینه در نماز جمعه تهران: تسلط مستکبرین جهان بر کشورهای اسلامی، از مهمترین آثار تفرقه است(شیخ یوسف غازی حنینہ تہران کے نماز جمعہ میں:عالمی استکبار کا اسلامی ممالک پر تسلط، تقرفہ کے اہم ترین آثار میں سے ہے)-iuc.taqrib.ir(فارسی زبان)- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
  2. امت مسلمہ کی کامیابی کا واحد راستہ وحدت و اتحاد ہے، شیخ غازی حنینہ-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 22 اکتوبر 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 نومبر 2024ء۔
  3. امت مسلمہ کی سعادت رہبرِ انقلابِ اسلامی کی پیروی میں ہے-ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 4 فروری 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
  4. لبنان میں شیعہ اور سنی اتحاد کے ذریعے ہی اسرائیل کا خاتمہ ہوگا- ur.hawzahnews.com- شائع شدہ از: 16 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 نومبر 2024ء۔
  5. معرفی تجمع علمای مسلمین لبنان در مصاحبه با آقای شیخ غازی حنینه(مجمع علماء اسلام کا تعارف جناب شیخ غازی حنینہ سے گفتگو میںseraj-monir.ir/fa(فارسی زبان)- شائع شدہ از: 30 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 نومبر 2024ء۔
  6. شیخ غاذی حنینه: حمایت جمهوری اسلامی از جبهه مقاومت همیشگی است(شیخ غازی حنینہ: اسلامی جمہوریہ کی مزاحمتی محور کی حمایت ہمیشہ کے لیے ہے)-farsnews.ir/Fateme(فارسی زبان)-شائع شدہ از: 15 اکتوبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 8 نومبر 2024ء۔