امیر علی حاجی زادہ

امیر علی حاجی زادہ2018 ء سے اسلامی انقلابی گارڈ کور کی فضائیہ کے کمانڈر ہیں۔ 1359 ہجری سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں شرکت، والفجر آٹھ میں سنائپر، کربلا چار اور پانچ آپریشن، اس کے کمانڈر سردار حسن تہرانی مقدم کے ساتھ الحدید میزائل بریگیڈ کا قیام، ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے دوران ایران کے میزائلوں کے باپ، 2005 سے پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی فضائی دفاعی کمانڈ ان کے ریکارڈ میں سے ایک ہے۔ وعدہ صادق کا قابل فخر آپریشن، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع کوہ سبز نامی علاقے میں دہشت گرد گروہ جیش العدل کے ٹھکانوں پر میزائل حملہ، عراق کے کردستان علاقے میں موساد کے جاسوسی کے ہیڈ کوارٹر کے ساتھ ساتھ شام میں داعش کے دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر، عراق کے شمالی علاقے میں علیحدگی پسند گروپوں کا ہیڈ کوارٹر، عراق کے صوبہ الانبار میں واقع عین الاسد اڈہ امریکہ اور 30 جون 2018 کو امریکی گلوبل ہاک جارح ڈرون کی تباہی، کے درمیان۔ میزائل اور ڈرون سائنس نے اپنی ذمہ داری کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی طاقت اور دفاعی صلاحیت کو اس سرحد پر دشمنوں کے حملوں کے جواب میں دکھایا۔

امیر علی حاجی زادہ
امیرعلی حاجی زاده.jpg
دوسرے ناممیزائلوں کے باپ
ذاتی معلومات
پیدائش1340 ش، 1962 ء، 1380 ق
پیدائش کی جگہایران
مذہباسلام، شیعہ
مناصبگارڈ کور کی فضائیہ کے کمانڈر

سوانح عمری

سردار امیر علی حاجی زادہ 9 مارچ 1340ھ کو تہران میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

سردار حاجی زادہ نے عسکری میدان میں آنے سے پہلے اپنے تعلیمی راستے میں اہم قدم اٹھائے اور اپنی تعلیم میں ترقی کی۔ اس کے علمی اور علمی شعبے کے بارے میں تفصیلی معلومات محدود ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس نے ملٹری یا ایرو اسپیس مینجمنٹ سے متعلق کسی شعبے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ان مطالعات نے انہیں حکمت عملی اور آپریشنل شعبوں میں ایک قابل کمانڈر کے طور پر پہچانے جانے اور فضائیہ کے تزویراتی اور تکنیکی امور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ہے۔

جنگ میں شرکت

1359 ہجری سے 19 سال کی عمر میں مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی باطل کے خلاف حق کے محاذوں پر چلے گئے اور آپریشن میں سپنر کے طور پر والفجر آٹھ، کربلا چار اور پانچ میں، جنگ کے اختتام محاذ پر رہے۔

ذمہ داریاں

انہوں نے کئی سالوں تک IRGC کے حساس میزائل مراکز میں شہید حسن تہرانی مقدم کے ساتھ کام کیا، جو ایران کے میزائلوں کے باپ تھے۔ اور جب سردار تہرانی مقدم اور ایک ٹیم فوجی تربیت کے لیے شام گئے تاکہ تربیت مکمل کرنے کے بعد ایران کے پہلے میزائل یونٹ کو لانچ کر سکیں۔ نوجوان میزائل افسروں کی غیر موجودگی میں، سردار امیر علی حاجی زادہ کی تدبیر سے، حدید میزائل بریگیڈ کا آغاز کیا گیا تاکہ جب حسن تہرانی مقدم اور ان کی ٹیم ایران واپس آئے تو آئی آر جی سی کی سرگرمیوں کے آغاز کے لیے ضروری میکانزم اور پلیٹ فارم تیار کیے جائیں۔ پہلی میزائل ٹیم دستیاب ہوگی۔

  • 2005 سے ایران کے پاسداران انقلاب اسلامی کی ایئر ڈیفنس کمانڈ؛
  • 2008 سے ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور کے ایرواسپیس کمانڈر۔

فلسطینی خطے اور دنیا کی تاریخ بدل دیں گے

سپاہ پاسداران کی فضائیہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فلسطینی خطے اور دنیا کی تاریخ بدل دیں گے۔ طوفان الاقصی کے بعض شہداء کے اہل خانہ نے تہران کے ائیرفورس نیشنل پارک میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے سربراہ جنرل امیر علی حاجی زادہ سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران جنرل حاجی زادہ نے کہا کہ فلسطین اور لبنان میں ہمارے دوستوں کے ہتھیاروں سے واضح ہے کہ ایران ان کی مدد کررہا ہے۔ ہم اپنی توانائی کے مطابق ہر طرح کی مدد کریں گے اور اس سلسلے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی مقاومت اور عوام کے ساتھ ممکنہ حد تک ہیں اور ساتھ رہیں گے۔ چنانچہ رہبر معظم نے فرمایا کہ فلسطینی قوم ہر حال میں کامیاب ہوگی۔ آپ کی استقامت اور مقاومت باقابل بیان ہے۔ اس مجمع میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے تیس سے چالیس عزیز شہید ہوگئے ہیں۔ بیرونی دنیا کے لئے یہ قابل فہم نہیں ہے۔ مقاومت آپ کے لئے مبارک ہو۔ جنرل حاجی زادہ نے فلسطینی شہداء کے لواحقین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مطمئن رہیں کہ آپ دنیا کی تاریخ بدل کر رکھ دیں گے۔ ایسا ہوکر رہے گا اور آپ خطے اور دنیا میں تاریخ رقم کریں گے۔ ہم آخری دم تک آپ کے ساتھ ہیں اور فلسطینی دوستوں کے لئے جو کچھ ہوسکا انجام دیں گے [1]۔

اسرائیل نے ایران سے قونصل خانے پر بمباری کا جواب نہ دینے کی درخواست کی

سپاہ پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کی انتقامی کارروائیوں نے قابض رجیم کی کو ہلا کر رکھ دیا، یہی وجہ ہے کہ صیہونی اعلی حکام نے کئی ذرائع سے اسلامی جمہوریہ سے مزید کارروائی نہ کرنے کی درخواست کی۔

سپاہ پاسداران انقلاب کے ایرو اسپیس ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ہفتے کے روز کہا کہ اسرائیلی حکام نے اپریل کے اوائل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر حملہ کرکے ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا۔

انہوں نے کہا: ایرانی حکام جنگ نہیں چاہتے۔ لیکن وہ بعض ریڈلائنز کراس کرنے کی سخت سزا دیتے ہیں جس پر اسرائیلیوں نے غور نہیں کیا تھا۔ انہیں ایران کے جواب کی توقع نہیں تھی"۔ جنرل حاجی زادہ نے واضح کیا کہ اسرائیلی حکام کو ایران کے تادیبی ردعمل کے بارے میں 10 اپریل کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی تقریر کے بعد معلوم ہوا، جب انہوں نے کہا کہ ایرانی سفارتی مشن پر حملے کی تل ابیب رجیم کو "سزا ملنی چاہیے اور سزا دی جائے گی"۔

جس پر انہوں نے اپنے دھمکی آمیز پیغامات کو ثالثوں کے ذریعے پہنچایا۔ لیکن انہیں دنوں بعد احساس ہوا کہ ایران دھمکیوں پر توجہ نہیں دے گا اور خطے میں اتحادی گروہوں کے بجائے اپنے علاقوں سے براہ راست جواب دینے پر غور کر رہا ہے"۔ سپاہ پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈر نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکام نے کچھ پڑوسی ممالک میں اپنے ہم منصبوں سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ایرانی مسلح افواج کو اپنے ردعمل کی شدت کو کم کرنے پر راضی کریں۔

اگر رہبر معظم کی قوت ارادی نہ ہوتی تو کوئی بھی ایسا اقدام اٹھانے کی جرات نہ کرتا۔ یہ آپریشن ہمارے لیے ایک تزویراتی فتح تھی اور اس نے اسرائیل کی ذلتوں اور ناکامیوں کی طویل فہرست میں اضافہ کیا‘‘ ۔ سپاہ پاسداران انقلاب نے 13 اپریل کو اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں کے خلاف وسیع پیمانے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ جوابی حملے "وعدہ صادق آپریشن" نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی اڈوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔

یہ جوابی کاروائی یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کے دہشت گردانہ حملے کے ردعمل میں کی گئی۔ اسرائیلی رجیم کی اس فضائی جارحیت میں دو اعلیٰ ایرانی فوجی مشیر اور ان کے پانچ ساتھی افسران شہید ہو گئے جو شام کی سرکاری دعوت پر اس ملک میں مشاورتی مشن پر تھے [2]۔

ایران نے اسرائیل کے خلاف جوابی کاروائی میں صرف 20 فیصد عسکری صلاحیت کا استعمال کیا

سپاہ پاسداران انقلاب کے ایک سینیئر کمانڈر کا کہنا ہے کہ ایران نے گزشتہ ماہ اسرائیل کے خلاف جوابی فضائی حملوں میں عسکری طاقت کا صرف ایک سا چھوٹا حصہ استعمال کیا۔ سپاہ پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران کے جوابی حملوں کو پسپا کرنے کے لئے امریکہ، برطانیہ اور فرانس اسرائیل کی مدد کو آئے۔ تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ نے اسرائیلی رجیم کے خلاف کارروائی میں فضائی صلاحیت کا صرف 20 فیصد استعمال کرکے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی عسکری بالادستی کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ حاجی زادہ نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل نے ایران کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے تمام فوجی وسائل کو متحرک کیا جب کہ امریکا نے بھی اسرائیل کی حمایت میں اپنے طیارہ، کروزر اور طیارہ بردار جہاز تعینات کئے لیکن وہ حملوں کو روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایران نے اپنی تمام تر طاقت کو بروئے کار نہیں لایا تھا، لیکن اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے پاس موجود تمام جنگی وسائل اور عسکری قوت کو استعمال میں لایا لیکن انہیں پھر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ایرانی جنرل نے مزید کہا کہ امریکہ نے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کا مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں ہے، لیکن وہ عین وقت اسرائیلی رجیم کی مدد کو آیا۔ سپاہ پاسداران کی ایرو اسپیس کے کمانڈر نے کہا کہ آپریشن وعدہ صادق کے بہت سے نکات سکیورٹی حکمت عملی کے پیش نظر بیان نہیں کئے جاسکتے۔

انہوں نے اس آپریشن کی کامیابی کو رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے دانشمندانہ رہنما اصولوں اور ایرانی افواج کے غیر متزلزل عزم کا نتیجہ قرار دیا۔

ایران نے یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں 13 اپریل کو مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی اہداف پر سینکڑوں ڈرون اور میزائل داغے۔ جنہیں اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن کے دفاعی نظام اور ائیر شیلڈز روکنے میں ناکام رہیں [3]۔

حوالہ جات

  1. فلسطینی خطے اور دنیا کی تاریخ بدل دیں گے، جنرل حاجی زادہ-ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 4 جولائی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2024ء۔
  2. اسرائیل نے ایران سے قونصل خانے پر بمباری کا جواب نہ دینے کی درخواست کی، ایرانی ائیر چیف- ur.mehrnews.com- شائع شدہ از: 22 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2024ء۔
  3. ایران نے اسرائیل کے خلاف جوابی کاروائی میں صرف 20 فیصد عسکری صلاحیت کا استعمال کیا- ur.mehrnews.com- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 اکتوبر 2024ء۔