اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان اور حماس کے سینئر سیاسی رہنما ہیں۔ وہ 29 مارچ 2006 سے 14 جون 2007 تک فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم رہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے 14 جون 2007 کو فتح حماس تنازعہ کے عروج پر ہنیہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا، لیکن ہنیہ نے اس حکم کو نظر انداز کر دیا اور غزہ کی پٹی میں وزارت عظمیٰ کا اختیار برقرار رکھا۔ فلسطینی قانون ساز کونسل اب بھی ان کے اختیارات کو تسلیم کرتی ہے۔ 6 مئی 2017 کو وہ حماس کے دفتر کے نئے سربراہ بنے اور خالد مشعل کی جگہ لی۔

اسماعیل ہنیہ
اسماعیل عبدالسلام هنیه.jpg
پورا ناماسماعیل ہنیہ
ذاتی معلومات
پیدائش1963 ء، 1341 ش، 1382 ق
پیدائش کی جگہفلسطین، غزه
وفات2024 ء، 1402 ش، 1445 ق
یوم وفات31 جولای
مذہباسلام، سنی
مناصبتحریک حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ

سوانح عمری

اسماعیل ہنیہ اکپورا اسماایل عع یل عبدالسلام احمدے سات،ی نام ابو ال۔ وہ د ہے، 29 جنوری 1963 کو غزہ کے الشاطی کیمپ میں پیدا ہوئے۔ مجدال اشکیلون (اسکیلون، اسرائیل) کے گاؤں الجورہ کے بے گھر ہونے سے پہلے ان کے خاندان کی زندگی کا اہم مقام وہ تھا جب وہ 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران پناہ گزین بن نئ ے۔ اس کی تین بہنیں اسرائیلی شہری ہیں اور 1970 کی دہائی سے صحرائے نیگیو میں رہ رہی ہیں۔ ہنیہ کی متعدد بھانجیاں بھی اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے چکی ہیں [1]

تعلیم

اس نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم غزہ کے اسکولوں میں مکمل کی۔ انہوں نے اپنی ہائی اسکول کی تعلیم غزہ میں الازہر دینی مدرسے سے مکمل کی اور 1981 غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اس یونیورسٹی کی اسلامی انجمن کے رکن بن گئے۔

وہ 1983 سے 1984 تک یونیورسٹی کی طلبہ کونسل کے رکن اور 1985 سے 1986 تک یونیورسٹی کی طلبہ کونسل کے صدر بھی رہے۔ 1987 میں انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ایجوکیشن سے عربی میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

جلاوطنی

12/17/1992 کو، انہیں حماس اور اسلامی جہاد کے 415 رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ جنوبی لبنان کے مرج الزہر میں جلاوطن کر دیا گیا، جن میں احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور حماس کے دیگر سینئر سیاستدان شامل ہیں۔

دہشت

اسماعیل ہنیہ نے اپنے ناکام قاتلانہ آپریشن کی تفصیلات اس طرح بیان کی ہیں:

9/6/2003 کو ہم شیخ احمد یاسین کے ساتھ ڈاکٹر مروان ابورس کے پاس گئے۔ جب ہم نے ان کے گھر دوپہر کا کھانا کھایا تو اچانک ایک F-16 طیارے نے اس جگہ پر بمباری کی جہاں ہم تھے۔ چھت گر گئی اور ہر طرف دھواں اور گردوغبار پھیل گیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم گھر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور اللہ نے ہمیں اور ڈاکٹر ابورس کے اہل خانہ کو بچا لیا۔

حماس

1997 میں حماس کے روحانی پیشوا احمد یاسین کی رہائی کے بعد ہنیہ کو ان کے دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اسے 2003 میں یروشلم میں خودکش بم حملے کے بعد اسرائیلی شہریوں کے خلاف حملوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے نشانہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ حماس کی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش کرنے والی اسرائیلی فضائیہ کے حملے کے نتیجے میں ان کے ہاتھ پر معمولی چوٹ آئی۔

حماس کے اندر ان کی پوزیشن یاسین کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں حماس کی قیادت کے ایک بڑے حصے کے قتل کی وجہ سے مضبوط ہوئی اور دوسری انتفاضہ کے دوران انہیں ایک خاص مقام حاصل ہوا۔ دسمبر 2005 میں، ہنیہ کو حماس پارٹی کونسل کا سربراہ منتخب کیا گیا، جس نے اگلے مہینے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

وزیر اعظم

25 جنوری 2006 کو حماس کی "تبدیلی اور اصلاحات کی فہرست" کی فتح کے بعد ہانیہ کو 16 فروری 2006 کو وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ ان کا نام باضابطہ طور پر 20 فروری کو محمود عباس کو پیش کیا گیا اور انہوں نے 29 مارچ 2006 کو حلف اٹھایا۔

14 جون 2007 کو محمود عباس نے ہنیہ کو وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر دیا اور ان کی جگہ سلام فیاض کو مقرر کیا۔ یہ حماس کی مسلح افواج کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کی پوزیشنوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کارروائی کے بعد ہوا، جو کہ مسلح الفتح ملیشیا کے کنٹرول میں تھی اور جسے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی [2] ۔

سرگرمیاں

  • غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے سابق سیکرٹری؛
  • اسلامی یونیورسٹی غزہ کے انتظامی امور کے سابق سربراہ؛
  • غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کے سابق اکیڈمک ڈائریکٹر؛
  • غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کے سابق رکن؛
  • حماس کی اعلیٰ کمیٹی کے رکن دیگر فلسطینی گروپوں اور خود مختار تنظیموں کے ساتھ مذاکرات؛
  • حماس کی جانب سے اعلی انتفاضہ فالو اپ کمیٹی کے رکن؛
  • شیخ احمد یاسین کے دفتر کے سربراہ؛
  • تحریک حماس کی سیاسی قیادت کا ایک رکن؛
  • جمعیت اسلامی غزہ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سابق ممبر؛

آپریشن طوفان الاقصیٰ

حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ مزاحمتی قوتوں نے طوفان الاقصی آپریشن کے ذریعے تاریخ رقم کردی ہے اور یہ آپریشن ہماری سرزمین اور قدس سے غاصبوں کے زوال کا آغاز ہوگا۔ ہنیہ نے مزید کہا کہ غاصب صیہونیوں نے فلسطین کے مظلوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام پر کمر کس لی ہے تاکہ قسام بریگيڈ کے ذریعے ان کو جس شکست اور فضیحت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی بھرپائی کرسکیں۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کی بزدل فوج میں ہمارے شجاع و دلیر جوانوں سے مقابلے کی طاقت نہیں ہے اسی لئے وہ قتل عام کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور مغرب کی مکمل حمایت سے غاصب دشمن کی کارروائیوں کے باوجود، ہم آزادی اور واپسی کی حکمت عملی دوبارہ شروع کریں گے۔ غزہ کے لوگ اپنی سرزمین سے گہری وابستگي رکھتے ہيں اور وہ غزہ کو نہیں چھوڑیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے مطالبہ کیا ہے کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں دس لاکھ سے زائد فلسطینی شمالی غزہ سے نکل جائیں [3]

اسماعیل ہنیہ کی ایرانی صدر سے ملاقات

خطے میں نا امنی کی بنیادی وجہ اسرائیل ہے، صدر رئیسی

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت خطے میں نا امنی اور عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے۔

ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے تہران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ غزہ کے مظلوم عوام کی زبردست مزاحمت کے باعث مسئلہ فلسطین عالم انسانیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج پوری دنیا جرائم پیشہ صیہونی حکومت اور اس کے حامی امریکہ سے شدید نفرت کرتی ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ جو چیز آج دنیا کے تمام لوگوں کے لیے ثابت ہوئی ہے وہ مسئلہ فلسطین کی قانونی حیثیت ہے، جب کہ جعلی اور قاتل صیہونی حکومت خطے میں تمام تر نا امنی کی جڑ اور استحکام کی دشمن ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے حالیہ واقعات امریکہ اور بعض مغربی ممالک کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں کہ جنہوں نے بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کی پشت پناہی کی۔

صدر رئیسی نے زور دے کر کہا کہ بلاشبہ حتمی اور یقینی فتح فلسطینی قوم کی ہے۔

اس ملاقات میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کرنے پر اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم کا شکریہ ادا کیا [4]۔

اسماعیل ہانیہ کے خانوادے کی گاڑی پر میزائیل حملہ۔ تین بیٹے اور تین نواسے پوتیاں شھید

اسرائیل کا حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کے خانوادے کی گاڑی پر میزائیل حملہ۔ تین بیٹے((حازم، أمير اور محمد) اور تین نواسے پوتیاں شھید اسماعیل ہنیہ کا اللہ کی بارگاہ میں اظہار شکر[5]۔ میں اس مقام پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس سے اس نے ہمیں، میرے تین بیٹوں اور چار پوتوں کی شہادت سے نوازا۔ میرے بچوں کا خون غزہ میں ہمارے شہید لوگوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ وہ سب میرے بچے ہیں۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور یروشلم اور الاقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے اپنے راستے پر گامزن رہیں گے۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم قدس اور الاقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے اپنے راستے پر گامزن رہیں گے۔ میرے خاندان کے تقریباً 60 افراد پہلے ہی شہید ہو چکے ہیں، ان میں اور دوسرے فلسطینیوں میں کوئی فرق نہیں ہے[6]۔

اسماعیل ہنیہ کا عراقی اعلی سیاسی رہنما سے رابطہ، فلسطین کی حمایت پر اظہار تشکر

حماس کے اعلی رہنما نے عراقی الفتح پارٹی کے سربراہ ہادی العامری سے ٹیلفونک رابطہ کرکے عراقی مقاومت کی جانب سے فلسطین کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے عراقی سیاسی جماعت الفتح کے سربراہ ہادی العامری سے ٹیلفون پر رابطہ کیا۔

ٹیلفونک گفتگو کے دوران اسماعیل ہنیہ اور ہادی العامری نے غزہ کے تازہ ترین حالات اور صہیونی حکومت کے حملوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

اسماعیل ہنیہ اس موقع پر اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا اور عراقی مقاومت اسلامی کی جانب سے فلسطین کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔

گفتگو کے دوران ہادی العامری نے کہا ہے کہ عراق ہمیشہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

العامری نے طوفان الاقصی کے دوران فلسطینی مجاہدین کی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلسطینی مقاومت کی شاندار حکمت عملی کی وجہ سے صہیونی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے[7]

طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کی بنیادوں کو ہلادیا

حماس کے اعلی رہنما نے کہا ہے کہ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کی بنیادوں کو ہلاتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر مزید اجاگر کیا۔ مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ سات اکتوبر کو فلسطینی مقاومت نے صہیونی حکومت کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا جس کی وجہ امریکہ کو فوری طور پر تل ابیب کی مدد کے لئے آنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی نے فراموشی کے سپرد ہوتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی محافل میں مزید اجاگر کردیا اور مقاومت نے ثابت کیا کہ دنیا کو اس اہم مسئلے سے چشم پوشی نہیں کرنا چاہئے۔ اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ ہم عوام کی خواہشات کو ہمیشہ مدنظر رکھیں گے۔ صہیونی حکومت ابتدا سے جنگ بندی کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

انہوں نے حماس کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ میں جنگ بندی اور صہیونی فوج کا انخلاء چاہتے ہیں۔ اس حوالے ہر مثبت اور نیک نیتی پر مبنی تجویز کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ اسرائیل وقت ضائع کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ مقاومت نے غزہ اور رفح میں کیا کردار ادا کیا۔ نو مہینے گزرنے کے باوجود مقاومت جاری ہے [8]۔

دہشت

حوالہ جات

  1. Hamas leader's three sisters live secretly in Israel as full citizens The Telegraph, Tim Butcher 02 Jun 2006 ۔
  2. David Rose, The Gaza Bombshell, Vanity Fair, April 2008
  3. https://urdu.sahartv.ir/news/islamic_world-i426510
  4. اسماعیل ہنیہ کی ایرانی صدر سے ملاقات؛mehrnews.com، -شائع شدہ از:27مارچ2024ء-اخذ شده به تاریخ:28مارچ 2024ء
  5. "ربنا يسهل عليهم".. هنية يعلق على نبأ استشهاد أبنائه(اسماعیل ہنیہ اپنے بیٹوں کی شہادت کے بعد ٹویٹ)aljazeera.net(عربی)-شائع شدہ: 10اپریل 2024ء-اخذ شدہ:10اپریل 2024ء۔
  6. مقتل 3 من أبناء إسماعيل هنية وعدد من أحفاده في قصف إسرائيلي استهدف سيارة بمخيم الشاطئ غرب غزة (اسماعیل ہانیہ کے خانوادے کی گاڑی پر میزائیل حملہ۔ تین بیٹے اور تین نواسے پوتیاں شھید) rt.com(عربی)-شائع شدہ:10اپریل2024ء-اخذ شدہ: 10اپریل 2024ء۔
  7. ہنیہ کا عراقی اعلی سیاسی رہنما سے رابطہ، فلسطین کی حمایت پر اظہار تشکر-شا‏‏ئع شدہ از: 9مئی 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 14 مئی 2024ء۔
  8. طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کی بنیادوں کو ہلادیا، اسماعیل ہنیہ-ur.mehrnews.com-شائع شدہ از: 22جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 جون 2024ء۔