فضل ہمدردایک سنی عالم دین ہیں اور پاکستان میں بین المذاھب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں اور اسلامی تاریخ کے ماہر،شیعہ سنی اتحاد کے علمبردار، مبلغ ومناظر معروف اہل سنت اسکالر ہیں۔

فضل ہمدرد
فضل ہمدرد.jpg
ذاتی معلومات
پیدائش کی جگہپاکستان
مذہباسلام، سنی
مناصب
  • اسلامی اسکالر
  • بین المذاھب ہم آہنگی کے علمبردار

سوانح عمری

آپ کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذھبی گھرانے سے ہے ان کے والد ایک صوفی عالم دین ہیں۔ آپ نے عالم دین کورس میں ماسٹر کی ڈگری کراچی میں ہی حاصل کی تھی۔ ان کی خاندانی زبان پشتو ہے

سرگرمیاں

اسی طرح پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بھی بلند کرتے ہیں اور ان کی سوشل تعاون بھی کرتے ہیں۔

بین المذاہب ہم آہنگی

ان کا کہنا ہے کہ تمام مذاھب انسانیت سے پیار کا درس دیتے ہیں اور مذاھب کے ماننے والوں کو امن کے ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے کے کام آنا چاہیے اور سب انسان برابر ہیں۔ مذھب کے نام ہر تشدد اور نفرت نہیں ہونا چاہیے۔ اگر دنیا کو امن و سکون چاہیے تو ہر ایک کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔ علی کو مولا تسلیم کرنا فرقہ واریت نہیں، اتحاد امت ہے[1]۔

ایران کا دورہ

پاکستان میں اہل سنت کے معروف عالم دین اور محقق مفتی فضل ہمدرد نے اپنے ایران کے دورہ کے دوران قم المقدسہ میں موجود مؤسسہ احیاء آثار برصغیر کا دورہ کی۔ رپورٹ کے مطابق مؤسسہ احیاء برصغیر کے سرپرست حجت الاسلام والمسلمین طاہر عباس اعوان نے مفتی فضل ہمدرد کو خوش آمدید کہا اور کتابخانہ کا وزٹ کروایا اور موسسہ کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

مفتی فضل ہمدرد نے کتابخانہ کے وزٹ کے دوران مختلف کتب کا مشاہدہ کیا اور کتابخانہ میں اہل سنت کی شہیر کتب کی موجودگی کو بھی سراہا۔ اس مؤسسۂ کے سرپرست نے اس ادارہ میں موجود کتب کے حوالے سے بتایا کہ مرکز احیاء آثار برصغیر جس میں 35 ہزار سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے متعدد علماء کرام اور دانشور حضرات دورہ داد تحسین دےچکے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ ایران کے شہر قم یہ واحد عمومی کتابخانہ ہے جس میں برصغیر کی تاریخ کے علاوہ شیعہ کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے اکثر مکاتب فکر جیسے حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی اور اسی طرح دیوبندی، بریلوی، سلفی، اہل حدیث وغیرہ کی عربی فارسی کے بعد اردو زبان میں سب سے زیادہ کتابیں اس کتابخانہ میں موجود ہیں جس سے طلاب حوزہ علمیہ قم اپنی تعلیمی و تحقیقی تشنگی بجھانے کے لئے استفادہ کرتے ہیں [2]۔

فضل ہمدرد ایک مصنف سنی عالم دین

حق و حقیقت کو بیان کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھے جانے والے اس دور میں اہل سنت میں سے کچھ منصف مزاج جرات مند علماء تحقیق کرنے نکلے ہیں اور وہ اپنی منصفانہ تحقیق کی بنیادوں پر حقائق عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک مفتی فضل ہمدرد ہیں۔ انتہائی منصفانہ امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کیلئے ہمدردانہ گفتگو فرماتے ہیں۔۔ انکو ایک اہلسنت عالم دین ہی سمجھ کر سنیں۔ انہوں نے فدک کے معاملے کو انتہائی منصفانہ اور منطقی انداز میں بیان کیا ہے۔ جب جذبات اور احساسات و عواطف سے ہٹ کر قرآنی اور عقلانی اصول و ضوابط کی روشنی میں گفتگو ہو تو پھر سب کو قبول کرنی چاہے۔

مذہبی تعصبات سے دوری

ہميں مذہبی تعصبات سے بچنا چاہیئے۔ ہمیں تعصبات کی بجائے اصول و ضوابط کو کسوٹی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر عقلانی و اسلامی اصولوں میں تبدیلی سے گریز کو یقینی بنایا جائے تو نہ لڑائی و جھگڑا، نہ فتنہ و فساد، نہ غیر مقدس افراد کو مقدس بنانے کی زحمت، نہ توہین کا تصور، نہ حق دار کے حقوق کا ضیاع، نہ ملک و وطن اور قوم کے غداروں کو NRO جیسے کالے قانون کے سائے میں ریلیف ملنے کا چانس۔ پس اگر قانون کی بالادستی اور اصولوں کی پاسداری کا خیال رکھا جائے تو مجرم کٹہرے میں، مفسد اور قاتل تختہ دار پر اور قومی مجرم پروٹوکول کے بجائے سلاخوں کے پیچھے ہونگے۔

اگر ایسا ہوتا تو عوام کا خون بے رنگ اور بہت ارزاں، جبکہ امیروں اور صاحب اقتدار شخصیات کا خون بہت زیادہ رنگیں اور قیمتی تصور نہ کیا جاتا۔۔ اسلام نے امیر اور غریب کے خون میں کوئی فرق نہیں رکھا، غریب کی جان و مال اور اولاد و ناموس کا بھی اتنا ہی تقدس و احترام ہے، جتنا امیروں اور صاحب اقتدار کے جان و مال عزت و ناموس کے لئے ہے۔ تاریخ اٹھا کر ورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ استثنا اور چُھوٹ اور غیر اسلامی رویہ اور طریقہ عرصہ دراز کی کہانی ہے۔ وہی سلسلہ اب تک چلا آرہا ہے اور ان غیر اسلامی اصولوں کا شروع سے دفاع ہوتا رہا ہے۔

مذہبی طبقے کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حق و حقیقت لوگوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے اور کسی بھی مصلحت کا شکار نہ ہو، لیکن ایک بہت بڑا مذہبی طبقہ اس سے عاری نظر آتا ہے، اپنی دکان چلانے اور دال روٹی کی خاطر حق و حقیقت لوگوں کو بتانے سے کتراتا ہے۔ اسی وجہ سے تاریخ اور حقائق کو مسخ کرتے ہوئے عقلانی اور اسلامی قواعد، ضوابط و اصولوں سے کوسوں دور من پسند قوانین کو اصول بنا کر تاریخ کی عظیم شخصیات کی توہین و تحقیر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ کائنات کی عظیم ہستیوں کے مقابلے میں کچھ غیر معصوم شخصیات کو اوپر لانے کی خاطر اُن کے منکرین اور ان پر علمی تنقید کرنے والوں پر کفر و ارتداد کے فتوئے دینے کے ساتھ اُن کے خون تک کو مباح قرار دیا گیا ہے۔

فضل ہمدرد کی ہمدرد دانہ گفتگو

ایسا نام نہاد مذہبی شدت پسند طبقہ اپنے سوا باقی سب کو ٹھکانے لگانے کا قائل ہے۔ جو بھی ان کے اعتقادات کے خلاف زبان کھولے تو وہ کبھی مرتد اور کبھی کافر قرار پاتا ہے۔ حق و حقیقت کو بیان کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھے جانے والے اس دور میں اہل سنت میں سے کچھ منصف مزاج جرات مند علماء تحقیق کرنے نکلے ہیں اور وہ اپنی منصفانہ تحقیق کی بنیادوں پر حقائق عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک مفتی فضل ہمدرد صاحب ہیں۔ انتہائی منصفانہ امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہمدردانہ گفتگو فرماتے ہیں۔۔ ان کو ایک اہل سنت عالم دین ہی سمجھ کر سنیں۔ انہوں نے فدک کے معاملے کو انتہائی منصفانہ اور منطقی انداز میں بیان کیا ہے۔ جب جذبات اور احساسات و عواطف سے ہٹ کر قرآنی اور عقلانی اصول و ضوابط کی روشنی میں گفتگو ہو تو پھر سب کو قبول کرنی چاہے[3]۔

میں نے شیعوں کی مجلس میں کیا دیکھا؟

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) اہل سنت عالم دین مفتی فضل ہمدرد نے اہل تشیع کی مجلس عزا کا آنکھوں دیکھا حال اپنی تحریر میں بیان کیا ہے جو تحریر درج ذیل ہے۔ برادر عزیز واجب الاحترام علامہ سید حسن ظفر نقوی صاحب نے میرے بارے میں اظہار خیال کیا اور مجلس میں آنے پر مجھے پوری ملت تشیع کی جانب سے خوش آمدید کہا، پروردگار امۃ مسلمہ کو وحدت عطاء فرمائے، آج حضرت کی تین مجالس میں ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا، شروع سے آخر تک سنا ، فضائل امام علی ؑاور اہل بیت بیان ہوئے۔

میں کافی عرصے سے سوچتا تھا کہ شیعہ مکتب فکر کی مجالس میں شریک ہوں گا تاکہ سنوں تو سہی کہ ان کی مجلسوں میں یہ کیا بیان کرتے ہیں اور ہوتا کیا ہے اور یہ میری زندگی کی پہلی شرکت رہی ہے۔ آج بعد نماز مغرب متصل علامہ صاحب کی مجلس میں شریک ہوا یہ امام بارگاہ شریکۃ الحسین کے نام سے گلستان جوہر میں واقع ہے، اس کے بعد حضرت کے ساتھ ہی دوسری امام بارگاہ بوتراب (عزیز آباد) اور تیسری امام بارگاہ (اورنگی ٹاؤن) میں مجلس سننے کا موقع ملا یہ میرے لیے خوشی اور سعادت کی بات ہے، ان کی مجلسوں میں علی ؑعلی ؑہوتا ہے، فلسفہ، علم اور معرفت کی باتیں ہوتی ہيں۔

میں نے یہ اندازہ کیا کہ ملت تشیع کو ذکر علیؑ و حسینؑ متحد کیے ہوئے ہے اور یہی وہ چیز ہے جو پوری امت کو بھی متحد کرسکتی ہے۔ اگر ہم اپنے فرقہ وارانہ اختلافات اور سیاسی مصالح کو ایک طرف رکھ کر ملت کے وسیع تر مفاد میں سوچیں، آج کی نوجوان نسل ان اشتعال انگیزیوں اور نفرت پر مبنی سوچ سے تنگ آگئی ہے جس نے صدیوں ملت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔

ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں جھوٹ بات کرنے سے رکنا ہوگا، یہ بات بالکل درست ہے کہ اہل تشیع کے اہل سنت کے ساتھ کچھ تاریخی چیزوں پر اختلاف ہے اور جسے اہل تشیع کے سنجیدہ ذاکرین بہتر اسلوب کے ساتھ بیان بھی کرتے ہیں لیکن ان مسائل کی وجہ سے تکفیر، تفسیق و تضلیل ہر گز درست نہیں ہے۔ یہ فروعی اختلافی باتیں ہیں جو شروع دور سے چلتی آرہی ہیں۔ میں نے سید السیستانی صاحب کے بارے میں پڑھا ہے وہ فرماتے ہیں کہ:" اہل سنت کو اپنا بھائی مت کہو بلکہ یوں کہو اہل سنت ہماری جان ہیں"۔ ((لاتقولوا اخواننا اھل السنۃ بل قولوا انفسنا )) ضرورت اس امر کی ہے قرآن و اہل البیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اخلاق پر عمل پیرا ہوکر ساری امت متحد ہوجائے اور یہی کربلاء کا پیغام اور مقصد ہے [4]۔

تکفیری ناصبی دہشتگردوں کا حملہ

تکفیری وناصبی دہشت گردوں نے معروف یوٹیوبر اور اہل سنت عالم دین مفتی فضل ہمدرد کو حملہ کر کے زخمی کردیا، دعوت حق دینے اوراہل بیت رسول اکرم ؐ کی فضیلت کا اظہار کرنے کے جرم میں مفتی فضل ہمدرد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ آپ اپنے گھر سے روزمرہ کی خریداری کے سلسلے میں باہر نکلے ہی تھے کہ راستے میں تکفیری وناصبی دہشت گردوں موٹر سائیکل سواروں نے انہیں روکا اور تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ حملہ آوروں نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی اور وارننگ دے کر سڑک کنارے چھوڑ کر فرار ہوگئے۔

ان کے چہرے پر گہری چوٹیں آئیں ہیں۔مفتی فضل ہمدرد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اتحاد بین مسلمین کو فروغ دیتے ہیں اور مذہبی ہم آہنگی کو کھلے دل سے سپورٹ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ عوام میں کافی مقبول ہیں۔ ان پر ہونے والے حملے سے جہاں ان کے ہزاروں فالوورز میں غم و غصہ پایا جاتا ہے وہیں تدریس و تحقیق سے تعلق رکھنے والے افراد بھی تشویش کا شکار ہیں [5]۔

محب اہل بیتؑ اسکالر مفتی فضل ہمدرد پر تکفیری ناصبی دہشت گردوں کاقاتلانہ حملہ

واضح رہے کہ مفتی فضل ہمدرد اپنی بے لاگ گفتگو، دوٹوک موقف اور تاریخ اسلام کی حقیقی تشہیر کے سبب ہمیشہ سے ہی ملک دشمن تکفیری ناصبی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے ہیں،اس سے قبل بھی ان پر جاں لیوہ حملہ کیا جاچکا ہے۔

پاکستان میں اتحاد امت محمدیؐ کے داعی اور محب اہل بیتؑ اہل سنت اسکالر مفتی فضل ہمدرد پر کراچی میں تکفیری و ناصبی دہشت گردوں کا قاتلانہ حملہ، مفتی فضل ہمدرد شدید زخمی، اسپتال منتقل، ڈاکٹرز کی جانب سے ابتدائی طبی امداد کی فراہمی۔

تفصیلات کے مطابق اسلامی تاریخ کے ماہر،شیعہ سنی اتحاد کے علمبردار، مبلغ ومناظر معروف اہل سنت اسکالر مفتی فضل ہمدردپر ملک دشمن دہشت گرد جماعت کالعدم سپاہ صحابہ کے تکفیری وہابی دہشت گردوں نے قاتلانہ حملہ کردیا۔ از ذرائع کے مطابق مفتی فضل ہمدرد کو کراچی کے علاقے قائد آباد میں نشانہ بنایا گیا، دہشت گردوں نے ان پر بلیڈ سے حملہ کیا جس کے سبب ان کی گردن اور بازوں سمیت مختلف اعضاء پر شدید زخم آئے۔ ان کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں فوری ابتدائی طبی امداد فراہم کی، ذرائع کا کہنا ہے کہ مفتی فضل ہمدرد کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔

واضح رہے کہ مفتی فضل ہمدرد اپنی بے لاگ گفتگو ، دوٹوک موقف اور تاریخ اسلام کی حقیقی تشہیر کے سبب ہمیشہ سے ہی ملک دشمن تکفیری ناصبی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے ہیں،اس سے قبل بھی ان پر جاں لیوہ حملہ کیا جاچکا ہے[6]۔

تکفیری وناصبی سازشوں کا گلا گھونٹ دیا

پاکستان میں تکفیری وناصبی عناصر کی جانب سے پیدا کردہ فرقہ وارانہ کشیدہ حالات اور بنو امیہ کو افضل قرار دینے کی ناکام کوششوں کے تناظر میں نوجوان اہل سنت مفتی فضل ہمدرد نےاپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ امیر معاویہ کبھی بھی سنی مقدسات میں نہیں رہے۔ کل کو یزید کو بھی مقدسات میں شامل کرنے کا کہیں گے۔ شیعہ سنی فسادات کرانے کی ایک بار پھر کوشش ، تکفیری عناصر کا گٹھ جوڑ ملک پاکستان کے امن و امان کو خراب کرنا ہے۔

وطن عزیز میں سعودی نواز تکفیری وناصبی تنظیموں کی جانب سے امام حسین ؑ کے قاتل یزید لعین اور اس کے اسلام دشمن خاندان بنو امیہ کو بافضیلت اور یزید کو رضی اللہ قرار دینے کی مذموم کوششوں کو ایک جوان اہل سنت مفتی فضل ہمدرد نے بے نقاب کردیا۔ تاریخی حقائق اور روایات کی روشنی میں انہوں نے کہا کہ امیر معاویہ کبھی بھی اہل سنت کے مقدسات میں شامل نہیں رہے ہیں۔

آج امیر معاویہ تو کل یزید کو بھی اہل سنت کے مقدسات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ ایک منظم سازش کے تحت پاکستان میں بنو امیہ کی تکریم کی مہم چلائی جارہی ہے،ایک اکثریتی فرقہ اہل تشیع کو اقلیت قرار نہیں دیا جاسکتا،کراچی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کھلے عام خلاف قانون شیعوں کی تکفیر کی گئی جس پر قانون کو حرکت میں آنا چاہیے تھا [7]۔

فلسطین فائونڈیشن پاکستان کی جانب سے القدس کانفرنس و دعوت افطار کا اہتمام

اسرائیل سے عرب ممالک تعلقات قائم کر چکے تھے،استعماری طاقتوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ فلسطین فائونڈیشن پاکستان کی جانب سے مقامی لان میں القدس کانفرنس و دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں سیاسی ومذہبی ،سماجی جماعتوں کے رہنماوں اور اقلیتی برادری کے رہنماوں نے شرکت کی کانفرنس سیخطاب میں کانفرنس سے نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر معراج الہدی نے کہاکہ اسرائیل سے عرب ممالک تعلقات قائم کر چکے تھے۔

استعماری طاقتوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا گزشتہ سال رمضان میں ممبئی سے ریاض، ریاض تا تل ابیب سڑک بن رہی تھی۔ 7 اکتوبر سے شروع ہونے والا عظم و جرات کی داستان رقم کر رہا ہے۔ 1979 میں امام خمینی رح نے اس طاغوت کو دنیا کے سامنے عیاں کیا۔ امام خمینی کا احسان ہیکہ آج امت مسلمہ اپنے دشمن کو پہچانتے ہیں۔

ملکی عوام ماہ رمضان المبارک کو ماہ فلسطین کے ماہ کے نام سے منائیں

عالمی سامراجی قوتیں امت مسلم کے خلاف منظم سازشیں کر رہی ہیں۔ حماس و حزب اللہ عالم اسلام کے دو بازو ہیں۔ انشا اللہ بہت جلد فلسطین میں امریکہ و برطانیہ سمیت تمام شیطانی قوتوں کو شکست ہوگی۔کانفرنس سے خطاب میں مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صدر علامہ باقر عباس زیدی کا کہنا تھا کہ امریکہ و اسرائیلی اینجڈے کے تحت خطہ میں قرفہ واریت پھیلائی گئی۔

طوفان الاقصی فلسطینی جنگ نے دنیا کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ یورپی عوام فلسطین میں ہونے والے مظالم کے خلاف مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فلسطینی پرچم پر پابندی آئین پاکستان اور قائد اعظم کے نظریہ کی توہین ہے۔ حکومت کی اسرائیل نواز پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ نیشنل اسٹیڈیم میں فلسطینی پرچم چھین لینا بنیادی حقوق کے خلاف ورزی ہیپولیس اہلکاروں کو فلسطینی پرچم چھینتے اورشہریوں کو پولیس کی طرف سے زد کوب کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔

قائد اعظم کے پاکستان میں فلسطین کی آواز اٹھانا جرم بنا دیا گیا ہے اور حکومت امریکہ اور برطانیہ کی غلامی میں حد سے آگے نکل گئی ہے ۔کانفرنس سے ڈاکٹر صابر ابومریم نے اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ غزہ میں بچے بھوکے ہیں اورمسلم حکمران اسرائیل کو اس کی تمام تر جارحیت کے باوجود تیل، گیس اور امداد دے رہے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک کو ماہ فلسطین کے نام سے منا رہے ہیں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اقلیتی برادری کے قائدین اور ملکی عوام مسئلہ فلسطین اسرائیلی جارجیت کے خلاف اپنا بھر پور احتجاج جارہی رکھیں اور فلسطین کے حق میں دعا کریں۔

کانفرنس میں علامہ حسن ظفر نقوی ،علامہ عقیل انجم، یونس بونیری، بشیر سیدو زئی ،مفتی داود،مرتضی رحمانی ،علامہ قاضی احمد نورانی ،اسرار عباسی ،اظہر ہمدانی،میجر قمر عباس ،علامہ باقر حسین زیدی،مفتی فضل ہمدرد،مسلم پرویز،مفتی معاز نظامی ،ثاقب نوشائی ،علامہ صادق تقوی،قاری فرقان ،مولانا ملک عباس ،مہدی عباس،جمشید حسین ،علامہ مبشر حسن ،مختلف سیاسی ،مذہبی جماعتوں سماجی تنظیموں اور اقلیتی برادری کے رہنما منوج کمار،ارجن سنگھ ،پاسٹر صادق ڈینیئل، سمیت دیگر رہنمائوں نے شرکت کی [8]۔

حوالہ جات

  1. مسلم امہ کے تمام لیڈر مل کر مقدسات کی توہین کے خلاف عالمی قانون بنوائیں، علما و مشائخ-urdupoint.com- شائع شدہ از: 9 جولائی 2023ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 2 جون 2024ء۔
  2. مفتی فضل ہمدرد کا قم المقدسہ میں مؤسسہ احیاء آثار برصغیر کا دورہ-ur.hawzahnews.com- شا‏ئع شدہ از: 28مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 3جون 2024ء۔
  3. م- ع- شریفی-مفتی فضل ہمدرد صاحب۔۔۔ میرے مطابق-islamtimes.org-شا‏ئع شدہ از: 18دسمبر 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 3جون 2024ء۔
  4. نے شیعوں کی مجلس میں کیا دیکھا؟ اہلسنت مفتی فضل ہمدرد کی چشم کشا تحریر- shianews.com.pk-شا‏ئع شدہ از: 13اگست 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 2 جون 2024ء۔
  5. مفتی فضل ہمدرد پر تکفیری ناصبی دہشتگردوں کا حملہ-/shianews.com- شائع شدہ از: 7 نومبر 2022ء - اخذ شدہ بہ تاریخ 2جون 2024ء۔
  6. معروف اہل سنت محب اہل بیتؑ اسکالر مفتی فضل ہمدرد پر تکفیری ناصبی دہشت گردوں کاقاتلانہ حملہ-shianews.com.pk- شائع شدہ از: 1جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 2جون 2024ء۔
  7. اہل سنت مفتی فضل ہمدرد نے تکفیری وناصبی سازشوں کا گلا گھونٹ دیا-shianews.com.pk- شائع شدہ از:6 ستمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 3جون 2024ء۔
  8. فلسطین فائونڈیشن پاکستان کی جانب سے القدس کانفرنس و دعوت افطار کا اہتمام -urdupoint.com- شائع شدہ از: 17 مارچ 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 3جون 2024ء۔