سید عمار حکیم
حجتالاسلام والمسلمین سیدعمار حکیم ایک عراقی شیعہ عالم اور سیاست دان، عراق میں تيار الحكمة الوطني پارٹی کے رہنما، اور عراق کی سپریم اسلامی اسمبلی کے سابق سربراہ ہیں۔ وہ عالمی اسمبلی برائے تقریب مذاهب اسلامی کی سپریم کونسل کے رکن ہیں.
سید عمار حکیم | |
---|---|
پورا نام | سید عمار حکیم |
ذاتی معلومات | |
پیدائش | 1971 ء، 1349 ش، 1390 ق |
پیدائش کی جگہ | نجف |
مذہب | اسلام، شیعہ |
مناصب |
|
سوانح حیات
آپ نجف اشرف کے ایک بااثر مذہبی اور سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، سید عبدالعزیز حکیم عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک بااثر سیاست دان اور عالم دین تھے۔ ان کے چچا، سید محمد باقر حکیم، بعث حکومت کے خلاف سرکردہ شخصیات اور عراقی شیعہ علماء میں سے تھے۔ ان کے دادا، سید محسن طباطبائی حکیم، اپنے وقت میں دنیا شیعوں کے سب سے ممتاز مرجع تقلید میں سے تھے۔ اپنی والدہ کی طرف سے، ان کا تعلق صدر خاندان سے ہے، جو ایران، عراق اور لبنان کے مشہور شیعہ خاندانوں میں سے ایک ہے۔ آپ اپنے چچا سید محمد باقر حکیم کے داماد ہیں۔
تعلیم
آپ نے اپنی تعلیم تہران میں مکمل کی اور پھر حوزه علمیه قم میں داخل ہوئے اور حوزہ میں رائج اجتہاد کے لئے درس خارج تک تعلیم حاصل کی۔ ان کے پاس الہیات اور اسلامی علوم میں ماسٹرز ڈگری بھی ہے۔ آپ فقہ اور قانون میں مہارت رکھتے ہیں۔ 9 سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ عراق چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور پہلے دمشق اور پھر تہران چلے گئے۔
ایران میں سرگرمیاں
بعث حکومت کے زوال سے پہلے (2003 ء میں) آپ تبلیغی اور ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور بہت سے معاملات میں ثقافتی اور سیاسی تقریبات اور پروگراموں میں اپنے چچا سید محمد باقر حکیم کی نمائندگی کرتے تھے اور اس ملک سے باہر رہنے والے عراقی شہریوں، من جملہ یورپ اور آسٹریلیا میں موجود عراقیوں سے رابطہ میں تھے۔ آپ دار الحکمہ للعلوم الاسلامیہ مرکز کے انچارج بھی تھے [1]۔
عراق میں سرگرمیاں
2007 میں وہ عراق کی اسلامی سپریم کونسل کے نائب صدر منتخب ہوئے اور 2009 میں اپنے والد کی وفات کے بعد متفقہ طور پر اس کونسل کے صدر منتخب ہوئے۔
تيار الحكمة الوطنی کی بنیاد
24 جولائی 2017 کو المجلس الأعلی الإسلامی العراقی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے عراق میں تيار الحكمة الوطنی قائم کی۔ اور یکم دسمبر 2017 کو اس تحریک کے بانی بورڈ کے اجلاس میں انہیں اس کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ 5 ستمبر 2016 کو آپ عراقی پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی تنظیم عراقی نیشنل الائنس کے سربراہ کے طور پر منتخب ہوئے.
یکم مارچ 2012 کو بصرہ میں انہوں نے بصرہ کو عراق کے اقتصادی دارالحکومت کے طور پر منتخب کرنے کا مسئلہ اٹھایا اور اس مسئلے کو ان سے وابستہ سیاسی قوتوں نے بار بار اٹھایا، یہاں تک کہ آخر کار 2017 میں اسے عراقی پارلیمنٹ نے اسے منظور کر لیا۔ جسے عراقی صدر نے بھی منظوری دے دی۔ [2]
آثار
- قانون کے مقالے کی تفصیل۔
- حکومت کی تعمیر اور انتظامیہ
- عراق میں سیاسی پیش رفت
اتحاد کے بارے میں ان کی تقریر
انہوں نے اسلامی وحدت کی بین الاقوامی کانفرنس میں کہا: وحدت، انضمام اور نظریات کی وحدت کسی بھی گروہ اور پروگرام کی کامیابی کی بنیاد ہے اور وحدت کے بغیر کوئی طاقت مکمل نہیں ہے۔ اسلامی وحدت امت کا مقدر ہے۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے پاس پیداواری اور تخلیقی قوموں میں سے ایک بننے کی تمام ضروری صلاحیتیں ہیں۔ خواہ ہم ان قوموں کے سربراہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ہماری سرزمین میں بے شمار دولتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ہمارے انسانی وسائل انتہائی قابل اور ذہین ہیں۔ ہمارے پاس ایک نوجوان اور پرجوش آبادی ہے اور ان تمام خصوصیات کے لیے ایک وسیع افق اور منصوبہ بندی اور ترجیح کی ضرورت ہے۔ ایسی کمیٹیاں ہونی چاہئیں جو ان معاملات کی پیروی کریں تاکہ ہم اتحاد کے اجلاسوں سے کسی ٹھوس حقیقت تک پہنچ سکیں۔ [3].
صیہونی رژیم عالم اسلام اور عرب دنیا میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
عراق کے معروف شیعہ عالم دین اور قومی حکمت پارٹی کے سربراہ سید عمار حکیم نے بغداد میں نماز عید فطر کے خطبے میں اسلامی دنیا کے حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا: "خطے کے ممالک میں جہاں کہیں بھی سیاسی استحکام اور قیام امن کی کوششیں شروع کی جاتی ہیں صیہونی حکمران فوراً تناؤ اور بحران پیدا کرنے کیلئے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا: "اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم خون اور دنگا فساد کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتی اور واضح ترین بین الاقوامی معاہدوں کو پامال کرتی دکھائی دیتی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم انسانی اقدار کی کم ترین پاسداری بھی نہیں کرتی۔ سید عمار حکیم نے مزید کہا: کہ " اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی پر مبنی لازم الاجراء قرارداد کی منظوری کے باوجود غاصب صیہونی رژیم کے کان بہرے ہو چکے ہیں اور وہ غزہ میں جنگ بندی کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دے رہی جبکہ عالمی برادری بھی اس کے مجرمانہ اقدامات پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔"
عراق کی قومی حکمت پارٹی کے سربراہ نے دنیا بھر میں سرگرم صیہونی لابی کی دھوکہ دہی اور منافقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:
"غاصب صیہونی رژیم انتہاپسندی، شدت پسندی اور نفرت پھیلانے کے نظریے پر کاربند ہے اور دنیا کے ممالک کو یہ حقیقت اچھی طرح جان لینی چاہئے تاکہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے دھوکے میں نہ آئیں اور صیہونی لابی کی مکاریوں کے جال میں بھی نہ پھنسیں۔:
انہوں نے مزید نے کہا: "ہمارے خطے کے پاس قیام امن کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے جبکہ تمام ممالک کے مسلمہ حقوق کا احترام کئے بغیر وسیع پیمانے پر قیام امن ممکن نہیں ہو سکے گا۔" سید عمار حکیم نے خطبے کے آخر میں خبردار کرتے ہوئے کہا: "عرب اور اسلامی ممالک کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دینی چاہئے کہ غاصب صیہونی رژیم ہمارے خطے کا امن چرا کر لے جائے۔ انہیں چاہئے کہ وہ متحد ہو کر اختلافات، تفرقہ اور فتنہ گری کی تمام کوششیں ناکام بنا دیں جو امت مسلمہ کی وحدت اور مفادات کیلئے زہر قاتل ہیں" [4]۔
مغربی انسانی حقوق سمیت آزادی اظہارِ رائے کے دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں
نیشنل پارٹی حکمت عراق کے سربراہ نے کہا کہ عراق کا اسلامی جمہوریہ ایران اور عرب اسلامی ممالک کے ساتھ رابطہ صرف ایک حکومتی رابطہ نہیں ہے، بلکہ ایک اجتماعی، ثقافتی اور مذہبی رابطہ ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نیشنل پارٹی حکمت عراق کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید عمار حکیم نے اپنے دفتر میں مجمع جہانی تقریب مذاہبِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین حمید شہریاری اور مجمع کی اعلیٰ کونسل کی بعض علمی شخصیات سے ملاقات کی ہے۔
سید عمار حکیم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: کہ مغربی انسانی حقوق سمیت آزادی اظہارِ رائے کے دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ انہوں نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے سفر کی کامیابی کی دعا کی اور کہا کہ عراق تاریخی ممالک میں سے ایک ہے اور امام مہدی علیہ السّلام کی تحریک میں بھی اہم کردار ہے۔ یہ ملاقات غزہ میں غاصب اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی کے عنوان سے ہوئی تھی۔
سید عمار حکیم نے جس طرح سے مغربی ممالک کی غاصب اسرائیل کی حمایت غلط ہے اسی طرح سے ان کے انسانی حقوق سمیت آزادی اظہارِ رائے کے دعوؤں کی نیز کوئی حقیقت نہیں ہے۔
فلسطین کے حمایتی مؤقف کی قدر دانی کرتے ہوئے کہا کہ یورپ میں خاص طور پر یونیورسٹیوں کے طلباء کی جانب سے وسیع پیمانے پر جاری مظاہرے، فلسطینیوں کی حمایت اور ان کے حق بجانب ہونے کی عکاسی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی میڈیا بھی فلسطین کے حق اور غزہ کے بحران کے مقابلے میں فلسطینیوں کے حق میں تبدیل ہوگیا ہے۔ نیشنل پارٹی حکمت کے سربراہ نے فلسطین کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مؤقف کی قدر دانی کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے بحران کو اسلامی مسئلہ اور اس کا فلسطین کے دفاع میں کردار کے عنوان سے دیکھا جائے۔
انہوں نے فلسطین کی حمایت میں عراق کے مؤقف پر زور دیا اور کہا کہ عراق فلسطین کی حمایت میں میدان میں موجود ہے اور یہ مرجعیت کے بیانیے کا نتیجہ ہے۔ عراقی حکومت اور صدر کا نیز یہی مؤقف ہے۔ آخر میں حجت الاسلام سید عمار حکیم نے کہا کہ عراق کا اسلامی جمہوریہ ایران اور عرب اسلامی ممالک کے ساتھ رابطہ صرف ایک حکومتی رابطہ نہیں ہے، بلکہ ایک اجتماعی، ثقافتی اور مذہبی رابطہ ہے[5]۔
حوالہ جات
- ↑ شیعہ علماء اور روحانیون کی تربیت کے لیے قم میں ایک مرکز ہے
- ↑ burathanews.com
- ↑ 34ویں بین الاقوامی اسلامی وحدت کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب
- ↑ صیہونی رژیم عالم اسلام اور عرب دنیا میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے siasiyat.com-شائع شدہ: 12اپریل 2024ء-اخذ شدہ:15اپریل 2024ء۔
- ↑ مغربی انسانی حقوق سمیت آزادی اظہارِ رائے کے دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، سید عمار حکیم-ur.hawzahnews.com-شائع شدہ از: 8 مئی 2024-اخذ شدہ بہ تاریخ:8 مئی 2024ء۔