اسلامی جمہوریہ ایران جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔ ملک کا سرکاری مذہب اور قومی اور بین النسلی زبان فارسی ہے اور اس کے سکے کو ریال کہتے ہیں۔ فارس، آذربائیجانی ترک، کرد (کردستانی)، لر (لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان اس ملک کے سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں۔

ایران
Flag of Iran.svg
Iran (orthographic projection).svg
سرکاری نامایران
پورا ناماسلامی جمہوریہ ایران
طرز حکمرانیوفاقی جمہوریہ
دارالحکومتتہران
آبادی88,915,440
مذہباسلام
سرکاری زبانفارسی
کرنسیریال

ایران کا سیاسی نظام جمہوری اسلامی ہے جو فروری 1357 سے قائم ہے۔ یہ نظام دو رکن مشروعیت اور مقبولیت پر قائم ہے جو حکومت ولی فقیہ کی بنیاد ہے۔یہ نظام ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب (22 بہمن 1357) کی کامیابی کے بعد وجود میں آیا۔اس سیاسی نظام کو یکم اپریل 1979 کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا۔ اس ریفرنڈم میں کل ووٹرز کے 98.2% نے حصہ لی جن میں سے 97% سے زیادہ افراد نے جمہوری اسلامی کے حق میں ووٹ دیا۔ ریفرنڈم میں کل20422438ووٹوں میں سے 20054834 ووٹ موافق اور367604 ووٹ مخالف تھے۔

ریفرنڈم کے خاتمے پر، یکم اپریل 1979کو رات 12 بجے، رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے اپنے ایک پیغام میں اس دن کو زمین پر خدا کی حکومت کا دن قرار دیا اور باضابطہ اسلامیہ جہوریہ کے قیام کا اعلان فرمایا۔ تہران ایران کا دار الحکومت ہے۔

جغرافیا

عرف عام میں ایران اور موجودہ فارسی نام جمهوری اسلامی ایران جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔

اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام اور فارسی ملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے۔ فارس، آذربائیجانی ترک، کرد (کردستانی)، لر(لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک کے سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں جو اس ملک میں زںدگی کرتے ہیں۔

ایران جغرافیائی اعتبار سے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اس کےدامن میں پوشیدہ ہیں۔ رقبہ کے اعتبار سے ایران دنیا میں 17ویں نمر پر ہے یہ ملک دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہےجو مدائن سلطنت 678 ق۔م سے لے کرصفوی سلطنت و پہلوی سلطنت تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایران اپنے تہذیب وتمدن کے اعتبار سے ایشیا میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے پر ہے۔ یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ یہ ملک اقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں یہ ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلب آریاؤں کی سرزمین ہے۔ ریاست ایران 1648195 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایران کی کل آبادی 85 ملین ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ایران دنیا میں سترہویں نمبر پر ہے۔

انتظامی تقسیم

ایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں یا استان میں تقسیم کیا گیا ہے۔

  • صوبہ اردبیل
  • صوبہ البرز
  • صوبہ آذربایجان شرقی
  • صوبہ آذربایجان غربی
  • صوبہ بوشہر
  • صوبہ چهارمحال و بختیاری
  • صوبہ فارس
  • صوبہ گیلان
  • صوبہ گلستان
  • صوبہ ہمدان
  • صوبہ ہرمزگان
  • صوبہ ایلام
  • صوبہ اصفہان
  • صوبہ کرمان
  • صوبہ کرمانشاہ
  • صوبہ خراسان شمالی
  • صوبہ خراسان رضوی
  • صوبہ خراسان جنوبی
  • صوبہ خوزستان
  • صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد
  • صوبہ کردستان
  • صوبہ لرستان
  • صوبہ مرکزی
  • صوبہ مازندران
  • صوبہ قزوین
  • صوبہ قم
  • صوبہ سمنان
  • صوبہ سیستان و بلوچستان
  • صوبہ تہران
  • صوبہ یزد
  • صوبہ زنجان

ایران ترقی کے راستے پر

یہ ملک مشرق وسطی میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قزوین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس اور خلیج عمان جبکہ مغرب میں عراق اور ترکی واقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہے۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھی بحیرہ قزوین کے اردگرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھ کوہ البرز واقع ہے۔

8 اپریل کی تاریخ ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن کے نام سے منائی جاتی ہے۔ اس دن کو مقامی ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں شروع کیے جانےکی مناسبت سے منایا جاتا ہے ۔ اس بڑی سائنسی کامیابی کے اعلان کے بعد ملک کے ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کی منظوری سے ایران کے جوان دانشوروں کی قابل افتخار کوششوں کی قدردانی کے مقصد سے 8 اپریل کی تاریخ کو ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے موسوم کیا گیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا اطلاق، ایٹم کے شگاف اور انھیں جوڑنے کی توانائی کے ذریعے قدرتی یورینیم کو افزودہ یورینیم میں تبدیل کرنے کی توانائی پر ہوتا ہے۔

پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔

ایران 1958ء میں IAEA کا رکن بنا اور 1968ء میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدےNPT پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔

سیاست

محمد رضا شاہ پہلوی، ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلےاس ملک کا بادشاہ تھے۔

ایران کا موجودہ آئین 1979ء میں انقلاب کی کامیابی کے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر انقلاب (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آج کل آیت اللہ علی خامنہ ای اس ملک کے سپریم لیڈر ہیں۔ رہبر کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس ،مجلس خبرگان رہبری کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما کا انتخاب کیا جاتاہے۔ سپریم لیڈر مسلح افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔

حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے اور صدر کو پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسیحیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لیے شورائے نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔

شورائے نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں یا نہیں۔ اس میں رہبر کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شورائے نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو رد کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔

قانون سازی کے حوالے سے مجلس شورائے اسلامی اور شورائے نگہبان کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے 1988ء میں "مجمع تشخیص مصلحت نظام" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔ اگست 1989ء سے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر کا مشیر ادارہ بن گئی ہے۔ اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شورائے نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ سپریم لیڈر تین سال کے لیے ارکان نامزد کرتا ہے۔

مجلس کی دو بڑی جماعتوں کو عموما اصلاح طلب (اصلاح پسند) اور اصول گرا(قدامت پرست) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یورینییم کی افزدوگی

تہران کا ایٹمی ری ایکٹر کینسر کے مریضوں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا ۔مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورینییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں، یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔

جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی

جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی، فیوز یعنی پگھلانے والی مشین تیار کرنا ہے۔ ایران اس وقت اس ٹیکنالوجی کے حامل دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے ۔ ایران اس سلسلے میں مشرق وسطی کا واحد ملک ہے جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔

امید کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا، توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے،ایران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں، ایران کا بائیکاٹ، نفسیاتی جنگ، سیاسی دباؤ،فوجی حملے کی دھمکی یہاں تک کہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر مخالفتوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے۔

بین الاقوامی تعلقات

1997ء میں صدر سید محمد خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔ 1998ء میں برطانیہ اور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کا سلمان رشدی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 1999ء میں برطانیہ اور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔

ایران اور امریکا کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے ہے ۔ جولائی 2001ء میں امریکا نے ایران اور لیبیا پر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کی توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو "بدی کے محور" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطی کے امن کو خراب کرنے کے خواہش مند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں، امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے۔

پاک ایران تعلقات

پاک ایران تعلقات میں بہتری کا سنہری موقع

گذشتہ ماہ خطہ میں چند اہم سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں، جن میں قابل ذکر ایران کے اہم صدارتی انتخابات اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ کو افغانستان کےخلاف پاکستانی سرزمین کا استعمال کرنے سے واضح انکار ہے۔ یہاں سب سے پہلے برادر اسلامی ملک ایران کے صدارتی انتخابات کا جائزہ لیتے ہیں۔ خطہ کے تیزی کے ساتھ بدلتے حالات کے تناظر، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں ایران کے حالیہ صدارتی انتخابات خاصی اہمیت اختیار کرگئے تھے۔ ایرانی قوم نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے ایران کی ایک اہم اور مضبوط شخصیت آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو ملک کی باگ دوڑ سونپی۔ جمہوری عمل سے ہونے والی اس اقتدار منتقلی پر حسب توقع استعماری طاقتوں کو پریشانی لاحق ہوئی اور تہران کے خلاف نئی صف بندیاں بھی کرلی گئی ہیں۔ تاہم اگر ایران سمیت خطہ اور امت مسلمہ کے مفاد کی بات کی جائے تو سید ابراہیم رئیسی کا صدر منتخب ہونا کسی نیک شگون سے کم نہیں۔

جو حلقے سید ابراہیم رئیسی کی شخصیت سے آگاہی رکھتے ہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ آیت اللہ رئیسی کن خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ ملت اسلامیہ کے لئے کس قدر درد اور احساس رکھتے ہیں، اسلام اور مسلمان دشمن قوتوں کے خلاف کس قدر جراتمندانہ موقف اپناتے ہیں، بدلتے ہوئے عالمی حالات پر ان کی نظر کیسی ہے، اپنے وطن سمیت برادر مسلم ممالک کی ترقی و خوشحالی کیلئے کیا کچھ کرسکتے ہیں اور خاص طور پر مزاحمتی محاذ کو مضبوط کرنے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بھی نئے ایرانی صدر کیلئے جذبہ خیر سگالی کا اظہار کیا گیا اور انہیں مبارکباد پیش کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایرانی صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے صرف 24 گھنٹوں کے بعد ہی ایرانی حکومت اور عوام کو کامیاب انتخابات کے انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے نومنختب ایرانی صدر کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

صدر عارف علوی نے آیت اللہ سید ابرہیم رئیسی کو انتخابات میں جیتنے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس انتخاب کو امن، خوشحالی اور ترقی کے حصول کیلئے ابراہیم رئیسی پر عوام کے بھروسے کا نتیجہ قرار دیا۔ صدر مملکت کے ٹوئٹر اکاونٹ سے جاری ایک پیغام میں فارسی زبان میں ابراہیم رئیسی کو صدارتی انتخابات میں فتح پر مبارکباد پیش کی گئی۔ انہوں نے سید رئیسی کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ ان کے دور صدارت میں ایران اور پاکستان کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک پیغام میں آیت اللہ رئیسی کو "برادر" کہتے ہوئے ان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارکباد دی۔ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ و نیز علاقے میں قیام امن، استحکام اور سلامتی کے سلسلے میں نومنتخب ایرانی صدر سے تعاون کا سلسلہ جاری رکھنے میں دلچسبی کا اظہار کیا۔

اس کے علاوہ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے بھی ایک پیغام میں اپنی طرف سے اور پاکستانی پارلیمنٹ اور حکومت کی طرف سے آیت اللہ رئیسی کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی۔ انہوں نے اس بات کی یقیین دہائی کرائی کہ سید ابراہیم رئیسی کے دور صدرات میں تہران اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ ہوگا۔ سنجرانی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ ایران سے اپنے برادرانہ اور گہرے تعلقات پر فخر کرتا ہے، اسے انتہائی اہم سمجھتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ علاقے میں امن اور سلامتی کے قیام کیلئے دونوں ممالک کے حکام کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نو منتخب ایرانی صدر کے بہت سارے تجربات ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان کے ساتھ تعاون سے باہمی تعاون کی تقویت اور علاقائی تعلقات کی توسیع کیلئے راستہ مزید ہموار ہوگا۔ سینیٹ کے چیئرمین نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کے مابین تاریخی، ثقافتی، مذہبی، معاشرتی اور جغرافیائی مشترکات دوطرفہ تعلقات اور تعاون کو مزید گہرا کرنے کے بہترین مواقع اور صلاحیتیں ہیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایرانی صدارتی انتخابات کے ایک دن بعد انطالیہ ڈپلومسی فورم کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے ایک ملاقات کے دوران، ایران میں کامیاب صدارتی انتخابات پر مبارکباد دیتے ہوئے آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی کامیابی کی دعا کی۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان سے ملاقات میں بھی پاکستانی حکومت اور عوام کی جانب سے ان کو سید ابراہیم رئیسی کی فتح پر مبارکباد پیش کی۔ نیز پاکستان کی متعدد سیاسی اور مذہبی شخصیات نے بھی حالیہ دنوں میں الگ الگ پیغامات میں ایرانی صدارتی انتخابات میں سید رئیسی کی فتح پر مباردکباد دی۔ اسی طرح نئے ایرانی صدر کی جانب سے بھی اپنے برادر ملک پاکستان کیلئے خیر سگالی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ تہران کے صدارتی انتخابات کے بعد خطہ میں ہونے والی سب سے اہم پیش رفت وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایک اہم انٹرویو کے دوران امریکہ کو کیا جانے والا وہ واضح انکار ہے، جو عالمی میڈیا کی زینت بنا۔

عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’پاکستان ہرگز امریکہ کو افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔‘‘ وزیراعظم نے اس اہم بیان کے بعد گذشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی بڑا جرات مندانہ خطاب کیا اور پاکستان کی مسئلہ افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پالیسی واضح الفاظ میں بیان کی۔ اس صورتحال میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ماضی کے مقابلہ میں اس مرتبہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ’’آقا و غلام‘‘ کے بجائے برابری اور قومی مفاد کی سطح پر چاہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا امریکہ مخالف بیان اور ایران میں ابراہیم رئیسی کا اقتدار سنبھالنا پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اگر ایک جانب امریکہ کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان کا کوئی متوقع پالیسی شفٹ ہوتا ہے تو تہران کی کوشش ہوگی کہ اسلام آباد کو قریب کرکے امریکہ مخالف بیانیہ کو تقویت دی جائے۔ دوسری جانب پاکستان بھی امریکہ کی مخالفت کی صورت میں ایران کو اپنے ساتھ کھڑا ہوا دیکھنا پسند کرے گا، لہذا یہ صورتحال دونوں برادر اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے مزید نزدیک لانے اور تعلقات کی مضبوطی کے نئے دور کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے [1]۔

پاک ایران تعلقات اور بھارت

بلوچستان کے ضلع پنجگور کے ایرانی سرحد کے قریب ایک گاؤں پر ایران کے اچانک حملے کا پاکستان نے جواب دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی بیرونی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتا۔جب پاکستان کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا تو کسی ملک کو ہماری سرزمین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہیے اور کسی بھی قسم کی جارحیت سے باز رہنا چاہیے۔

پاکستانی حملہ دراصل ترکی بہ ترکی جواب تھا جسے پاکستان کے تمام ہی حلقوں کی جانب سے سراہا گیا اور ملکی دفاع پر گہری نظر رکھنے اور فرض کی ادائیگی کو احسن طریقے سے انجام دینے پر تعریف کی گئی ۔مگر بدقسمتی سے اس حملے کو کچھ لوگوں نے غلط انداز سے لیا کہ اس جوابی حملے کا مطلب ہے کہ اب 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات ملتوی ہونے والے ہیں۔

کچھ لوگوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہنا شروع کردیا کہ اب انتخابات ہی ختم نہیں ہوں گے بلکہ ملک سے جمہوریت بھی ڈی ریل ہونے والی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مخصوص طبقے سے منسلک سوشل میڈیا نے تو باقاعدہ یہ مہم چلانا شروع کردی کہ پاکستان نے ایران کو جوابی حملہ کرکے ایران کو تو ضرور منہ توڑ جواب دیا ہے مگر ساتھ ہی ملک میں مارشل لا کے لیے راہ ہموار کردی ہے۔ یوں اب ملک سے جمہوریت کے بجائے پہلے کی طرح آمریت کا دور دورہ ہونے والا ہے۔

ایک اینکر نے تو باقاعدہ ٹویٹ کرکے مارشل لا کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ مگر شکر ہے کہ ایسا کچھ ہوا اور نہ ہونے والا تھا۔ حکومت کی جانب سے ان افواہوں کو ختم کرنے اور عوام کو صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے اعلان کیا گیا کہ انتخابات وقت مقررہ پر ہی ہوں گے اور ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایران پاکستان کا پرانا اور آزمودہ دوست ملک ہے۔ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور اس نوزائیدہ مملکت سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔

پاکستان میں سب سے پہلے کسی غیر ملک کے سربراہ کا دورہ ایرانی سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے کیا تھا۔ دونوں ممالک کے ہمیشہ ہی اچھے مثالی تعلقات قائم رہے ہیں۔ ایرانی حکومت نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاکستان کو ضروری اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔ پاکستان نے امام خمینی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ایران سے اپنے تعلقات بحال رکھے تھے اور ان میں مسلسل بہتری آئی تھی۔

ایران کی اسلامی حکومت کا پاکستان بہت مداح تھا۔ اس لیے کہ پاکستان خود ایک اسلامی نظام پر مبنی حکومتی ڈھانچہ اور معاشرہ تشکیل دینے پر غور کر رہا تھا۔ گو کہ پاکستان کے امریکا اور یورپی ممالک سے گہرے تعلقات قائم ہیں مگر پاکستان نے بلا جھجک ایرانی اسلامی حکومت سے بھی ہمیشہ دوستانہ ہی نہیں بلکہ برادرانہ تعلقات قائم رکھے اور امریکا کی پابندیوں کے باوجود بھی ایران سے کسی نہ کسی سطح پر تجارت بھی جاری رکھی۔

پاکستان تو اب بھی ایران سے گیس حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے مگر اسے امریکی اور بھارتی حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی۔ ایران پاکستانی مسلمانوں کے لیے مذہبی طور پر بھی کافی کشش رکھتا ہے کیونکہ وہاں کئی برگزیدہ ہستیوں کے مزارات موجود ہیں جن کی زیارت کرنے کے لیے سال بھر پاکستانی ایران جاتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر محرم کے ایام میں ہزاروں پاکستانی ایران جاتے ہیں اور ایرانیوں کے ساتھ مل کر غم حسینؓ مناتے ہیں۔

پاکستان کے ایران سے تعلقات کے خراب کرنے میں بھارت کا اہم کردار رہا ہے۔ جب پاکستان نے اپنی گوادر بندرگاہ کو ترقی دینا چاہا تو بھارت کے لیے یہ منصوبہ ایک بارگراں ثابت ہوا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کی کوئی بندرگاہ عالمی توجہ کا مرکز بن جائے اور اس کے سہارے پاکستان کی ترقی میں اضافہ ہو۔ گوادر بندرگاہ کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے ایران کی چا بہار بندرگاہ کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے گود لے لیا۔ بھارت نے گوادر کے مقابلے پر اسے ترقی دینے کے لیے کام شروع کردیا۔اس بندرگاہ کے ذریعے بھارت اپنی تجارت کو وسطی ایشیائی ممالک تک دراز کرنا چاہتا تھا مگر بدقسمتی سے اس نے اس بندرگاہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بھارتی جاسوس وہاں سے بلوچستان کا رخ کرتے اور وہاں دہشتگردی کا نیٹ ورک پاکستان کے خلاف منظم کرنے کے لیے بلوچ نوجوانوں کو استعمال کرتے۔ یہ دہشتگردی ایک زمانے تک بڑے پیمانے پر جاری رہی مگر پھر پاکستانی ایجنسیوں نے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کو گرفتار کرکے بھارتی دہشتگردی کو بڑی حد تک ختم کردیا۔

بھارت کی ہی کوششوں سے بلوچستان میں وطن عزیز کے خلاف دہشت گردی کو دائمی بنانے کے لیے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی کئی دہشتگرد تنظیمیں قائم کی گئیں۔ ان کی باقاعدہ فنڈنگ بھی کی گئی جو ابھی بھی جاری ہے۔ پہلے یہ دہشتگرد تنظیمیں بلوچستان میں ہی موجود تھیں مگر پاکستانی فوج کی ان کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے پہلے وہ افغانستان منتقل ہو گئیں بعد میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد ایران میں پاکستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں ڈیرے جما لیے۔

پاکستان ایران سے متعدد دفعہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا رہا کہ جیش العدل نامی دہشتگرد تنظیم بلوچستان میں موجود ہے جو ایران پر حملہ آور ہوتی رہتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ایران میں محمود احمدی نژاد صدر رہے پاکستان کے ایران سے تعلقات شک و شبے کے دائرے میں رہے۔ چا بہار بندرگاہ جسے بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا ان ہی کے دور میں اسے حاصل ہوئی تھی۔ پھر جب ایران میں صدارتی انتخابات ہوئے تو حسن روحانی صدر منتخب ہوگئے اس کے بعد سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بہتری آئی اور گرمجوشی کا آغاز ہوا۔جن دنوں طالبان افغانستان میں پیشی قدمی کر رہے تھے ، ایران میں محمود احمدی نژاد نے پاکستان کے خلاف بیانات دیے تھ۔ے اس سے قبل بھی وہ پاکستانی سرحد پر ایرانی پاسداران کی فائرنگ کی حمایت کرتے رہے تھے۔ جب یہ معاملہ زیادہ ہی بڑھا تو بانی تحریک انصاف اور سابق پاکستانی وزیر اعظم نے ایران جا کرآیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا تھا جس کے بعد ایرانی سرحد پر متعین کمانڈر کو ہٹا دیا گیا تھا جس کے بعد سرحد پر معاملات بہتر ہوگئے تھے۔

پاکستانی سرزمین پر حالیہ ایرانی حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب بھارتی وزیر خارجہ جے ایس شنکر ایرانی دورے پر آئے ہوئے تھے۔ وہ 15 جنوری کو امریکی حکومت کا پیغام لے کر تہران پہنچے تھے اور اس کے دوسرے ہی دن یعنی 16 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستانی سرحدی گاؤں پر حملہ کیا گیا۔اب پاکستانی جوابی حملے کے بعد ایرانی حکومت نے پاکستان کو کوئی دھمکی نہیں دی بلکہ اچھے تعلقات قائم رکھنے پر زور دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ آیندہ دونوں حکومتیں مل کر ایرانی اور پاکستانی سرحد کے اندر موجود دہشتگردوں کا قلع قمع کریں گی۔ اس طرح ثابت ہوا کہ ایرانی حکومت میں اب بھی پاکستان سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی خواہش موجود ہے۔

ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کا پتہ لگائے جو پاک ایران تعلقات کو سبوتاژ کرکے اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں اور انھیں ضرور قانون کے دائرے میں لانا چاہیے تاکہ مستقبل میں دونوں ممالک کی دوستی میں خلل نہ پڑ سکے [2]۔

پاک ایران تعلقات اور ہبر انقلاب

قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ ایک ملاقات میں دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان مجبت پر مبنی گہرے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمنوں کی خواہش کے برعکس پاک ایران تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ ہونے والی ملاقات میں ایرانی سپرم لیڈر نے ایران اور پاکستان کے عوام کے درمیان مشترکہ تاریخی اور ثقافتی تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بر صغیر کا عروج اسی وقت تھا جب مسلمانوں نے اس پر حکمرانی کی تھی اور برطانوی سامراج کی جانب سے اس اہم خطے کا سب سے بڑا نقصان وہاں کی اسلامی تہذیب کی تباہی تھا۔

قائد اسلامی انقلاب نے پاکستان کے عظیم شخصیتوں جیسے علامہ اقبال لاہوری اور محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات، دونوں ملکوں کےمفادات میں ہیں۔ لیکن بعض دشمن عناصر پاک ایران تعلقات میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں تا ہم ان کی خواہشوں کے برعکس باہمی تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی مسائل کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دہشتگرد عناصر جو مشترکہ سرحدوں میں بدامنی پھیلاتے ہیں وہ دشمنوں کے حمایت یافتہ ہیں اور ان کے مقاصد میں سے ایک، پاک ایران تعلقات کو خراب کرنا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے پاکستان کی جانب سے ایران میں سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان بھیجنے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عمران خان کے دورہ ایران اور امام رضا (ع) کے روضہ پاک کی زیارت کو ایک اچھی بات قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کردیا کہ امام رضا (ع) کی عنایات سے یہ دورہ، دونوں ملکوں کیلئے مثبت اور تعمیری ہوگا۔

اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بھی شریک تھے۔

اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کے ایرانی حکام کے ساتھ تعمیری مذاکرات ہوئے اور بہت سارے مسائل بھی حل ہوگئے جبکہ ان کے وفد میں شامل پاکستانی وزرا نے بھی اپنے ایرانی ہم منصبوں سے مثبت مذاکرات کیے۔

عمران خان نے ایران اور بھارت کے درمیان تاریخی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں نے 600 سال بھارت پر حکمرانی کی اور اس کے نتیجے میں بھارت کی سرکاری زبان فارسی مقرر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے بھارت پر حکمرانی کے زمانے میں اس ملک کے سارے مال و دولت اور ذخائر کو یرغمال کیا اور وہاں کی تعلیمی نظام کو تباہ کرکے آخر کار بھارت کو اپنے قیمتی مستعمرہ کا نام دے دیا۔پاکستانی وزیر اعظم نے دشمنوں کی جانب سے ایران اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات میں خلل ڈالنے کی کوششوں کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ ان کے عزائم کے برعکس ہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید اضافہ کرنے کی کسی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے [3]۔

پاک ایران تعلقات بہتری کی طرف

ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے تہران میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو سے سفارتی اسناد قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کو تہران اور اسلام آباد کے تعلقات خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی مشترکہ سرحدیں معاشی اور سلامتی فروغ کا بہترین موقع ہیں جنہیں ہر طرح کی بدامنی سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ایران اور پاکستان کے تعلقات گہرے اور مضبوط ہیں جس کی بنیاد مشترکہ دین، فرہنگ اور تمدن پر استوار ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایران کی پالیسی ہمسایہ ممالک کے ساتھ اتحاد پر مبنی ہے اور وہ پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے امریکی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو علاقے کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا۔اس موقع پر پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے بھی تہران اور اسلام آباد کے گہرے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان دشمنوں کو مشترکہ سرحدوں کا غلط استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ پاکستان، ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا نیا باب کھولنے کے لئے تیار ہے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ایرانی حدود کے اندر 9 پاکستانیوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ ”تناؤ بھڑکانے“کی کوششوں کا مقابلہ کیا جائے۔اتوار کو ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان بھی ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی نے ان کے ساتھ اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاک ایران تعلقات کئی صدیوں پر محیط ہیں اور اگر دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو کسی نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔ اْنہوں نے کہا کہ تمام چیلنجوں سے نبٹنے کے لئے سفارتی اور عسکری سطح سمیت ہر طرح کے رابطے بحال ہیں۔ دونوں وزرائے خارجہ کا موقف تھا کہ پاک ایران سرحد پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں اور اْن کا قلع قمع کیا جانا ضروری ہے [4]۔

ایران اور پاکستانی وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس

ایرانی وزیر خارجہ:ہم پاکستان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں،۔

پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردوں کو مشترکہ سلامتی کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان تعمیری اور مضبوط تعلقات ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی نگران وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم ایران اور پاکستان میں مقیم افراد کو ایک ہی قوم سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ اہم برادرانہ تعلقات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان کی سرحدوں پر دہشت گردوں کو تیسرے گروہ کی حمایت حاصل ہے جو کبھی بھی ہمارے تعلقات کے خیر خواہ نہیں رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جغرافیائی تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی ہمارے لیے مقدم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران دہشت گردوں کو کوئی موقع نہیں دیں گے۔ دہشت گردوں نے ایران کوبہت نقصان پہنچایا۔ بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کےلیے خطرہ ہیں۔ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ مذاکرات کے دوران دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر گفتگو ہوئی، بارڈر پر موجود تجارتی مراکز کو فعال کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کومشترکہ سلامتی کونقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کسی بھی قسم کا سرحدی تنازع نہیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ ہمیں پاکستانی حکومت کی طرف سے آیت اللہ رئیسی کے دورے کی باضابطہ دعوت موصول ہوئی ہے، اور ہم مل کر پوری طرح کوشش کریں گے کہ ایرانی صدر جلد پاکستان کا دورہ کریں۔

پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات دونوں کی ترقی کیلئے اہم ہیں۔ پاکستانی نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان دوست ہمسایہ ملک ہیں۔ ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔ ہم ایران سے تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینےکے خواہاں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ دونوں ممالک سیاسی اور سیکیورٹی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے ایک خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی سلامتی اور خودمختاری کا احترام اولین ترجیح ہے۔ ہم سرحدوں پر معاشی مواقع پیدا کرنے کے خواہاں ہیں، پاکستان اور ایران کے درمیان گہرا اور مضبوط سفارتی تعلق ہے [5]۔

ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات ہوئی جہاں پاک-ایران دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ہونے والی ملاقات میں باہمی تعلقات کو فروغ دینے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کی تشویش کو سمجھنے کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا۔اس موقع پر پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ خودمختاری اور جغرافیائی سرحدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔دونوں جانب سے اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے [6]۔

عراق سے تعلقات

1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن ساتھ ہی اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا عراق کی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرفہ معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں عراق کی مدد کر رہا ہے۔ 30 نومبر 2004ء کو عراق میں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب، کویت، ترکی، اردن اور مصر کے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔

افغانستان

ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آ رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پزیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اسرائیل

1979ء میں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ایران مبینہ طور پر فلسطین اور لبنان کے اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔

آبادی

ایران ایک متنوع ملک ہے جہاں بہت سے نسلی گروہ پائے جاتے ہیں، ان میں فارسی بولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایران کی آبادی تیزی سے بڑھی۔ 1956ء میں ایران کی آبادی صرف 19 ملین تھی جو 2009ء تک 79 ملین تک جاپہنچی۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں ایران کی شرح پیدائش میں نمایاں کمی آئی ہے ۔2012ء میں لیے گئے اندازے کے مطابق ایران کی شرح پیدائش 1.29 فیصد رہی۔

ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر افغانستان اور عراق میں جاری جنگوں کے باعث ایران آئے ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق حکومتِ وقت پر ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں جن میں جان و مال کا تحفظ، طبی سہولیات، معزور افراد کی دیکھ بھال، وغیرہ شامل ہیں اور ان چیزوں پر خرچہ بجٹ کے ذریعے حاصل کردہ ریونیو (سالانہ آمدنی) سے کیا جاتا ہے۔

زبانیں

ملک کے اکثرباشندے فارسی زبان بولتے ہیں جو اکثریتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سرکاری زبان بھی ہے۔ ایران میں بولے جانے والی زبانیں اکثر ہند-ایرانی زبانیں ہیں۔ اقلیتی زبانوں کی بات کی جائے تو ایران کے شمال مغرب میں آذربائجانی، شمال میں ترکمن اور مشرق میں پاکستانی سرحدوں کے قریب علاقے میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔

ایران میں 53 فیصد افراد کی فارسی، 16 فیصد کی آذربائجانی، 10 فیصد کی کردی، 7 کی فیصد گیلکی اور مزدارین، 7 فیصد کی لوری، 2 فیصد کی عربی اور 2 فیصد کی بلوچی مادری زبان ہے۔ تاہم ان تمام مادری زبانوں کا استعمال صرف بطور علاقائی زبان کیا جاتا ہے باقی ملک بھر میں فارسی ہی استعمال ہوتی ہے۔

مذہب

تاریخی طور پر زرتشتیت ایران کا قدیم مذہب تھا۔ خاص کر ہخامنشی سلطنت، سلطنت اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے آس پاس مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں آتش پرست ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ آج اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کی پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی 2 فیصد غیر مسلم ہیں۔

امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں

امام خمینی نے نہ صرف ایران میں اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں بیداری اور آگاہی کی ایک نئی انقلابی کیفیت پیدا کر دی۔

ہمارے زمانے میں جو چیزاسلامی انقلاب کے نام سے ظہور پذیر ہوئی ،وہ دوست او ر دشمن ہرایک کے تصورسے بالا تر تھی۔ مختلف ممالک میں اسلامی تحریکوں کی مسلسل شکست کی وجہ سے مسلمان یہ سوچنے لگے تھے کہ جو وسائل دشمنان اسلام کے اختیار میں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت کی تشکیل عملاً ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف مخالفین اسلام بھی اپنے منصوبوں اور سازشوں کے تحت مطمئن ہو چکے تھے کہ خود مسلمانوں اور اسلامی ملتوں کے درمیان انہوں نے مذہب ، قوم ، نسل اور مسلک کے نام پر جو اختلافات پیدا کر دیئے ہیں ان کی بنیاد پر ان ممالک میں اسلامی حکومت نام کی کوئی شے وجود میں لانا اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ خود ایران کے اندر گزشتہ پچاس برسوں میں پہلوی حکومت کے ہاتھوں اسلام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں کی گئیں۔ پہلوی شہنشاہیت نے نہ صرف اپنے دربار میں بلکہ ملک کے تمام حساس مقامات پر اخلاقی اقدار کی پامالی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ شاہ ایران نے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن بر پا کر کے جو دراصل مجوسیت کا مظہر تھا اور ہجری تاریخ کا نام شہنشاہی تاریخ میں تبدیل کر کے کفر اور استعمار کے تسلط کے لئے مکمل طور پر زمین ہموار کر دی تھی۔ ایسے ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی یقینا ًنا قابل تصور اور غیر معمولی چیز تھی۔

بلا شبہ جس ہستی نے اس انقلاب کی قیادت و رہبری کی، ملکی و غیرملکی تما م تر رکاوٹوں اور مادی وسائل کی کمیوں کے باو جود پوری ملت کو اپنے گرد جمع کر کے نہ صرف اس اسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیاا ور مسلمانوں میں بیداری اور آگاہی کی ایک ْنئی انقلابی کیفیت پیدا کر دی یقینی طور پر وہ عالم اسلام کی ایک غیر معمولی اور استثنائی شخصیت کی حامل ہے۔ ظاہر ہے اس عظیم ہستی نے مسلمانوں کی آگاہی او ربیداری، ان کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور ان کے امراض کی تشخص اور علاج کے سلسلہ میں بے پناہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائی ہیں ۔

امام خمینیؒ کی قیادت میں 1979 میں دنیائے اسلام کا پہلا عوامی انقلاب رونما ہوا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کا سب سے طاقتور شاہی نظام حکومت زمین بوس ہوگیا۔ کسی اہل نظر نے کیا خوب کہا ہے کہ جب مصر میں الازہر الشریف کا علمی دبدبہ، صوفیاءکی روحانیت اورہردلعزیزی اوراخوان المسلمین کا نظم وضبط سب آپس میں مل جائیں تو انقلاب ظہور پذیر ہوگا۔ ایران کے تناظر میں یہ تینوں چیزیں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی شخصیت میں جمع کردی تھیں۔امام خمینی علم فقہ کے بلند ترین مقام پر فائز تھے اور ایرانی عوام کی عظیم اکثریت مسائل فقہ میں ان ہی کی طرف رجوع کرتی تھی۔ تصوف وعرفان کے لحاظ سے ان کا شمار صاحب حال اہل اللہ میں ہوتا تھا۔ ان کی عارفانہ غزلیں حافظ کی غزلوں کے برابر مانی جاتی ہیں۔ ان کے پیروکاروں اور مریدوں نے بالعموم اورطلباءو تلامذہ نے بالخصوص کمال نظم وضبط کے ساتھ ان کے انقلابی پیغام کو ایران کے شہرودیہات اورکوچہ وبازار میں اس طرح سے پھیلایا کہ شاہی جبرواستبداد کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور انقلاب کی پرنور صبح کے طلوع ہونے کا راستہ ہموار کیا۔

امام خمینی کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح سے دنیا کے دیگر علاقوں میں جابر اور سامراجی نظام کی بدعنوانی اور فسادی سرگرمیاں بے نقاب ہوئیں۔آیت اللہ خمینی ؒ ایک اصولی اور گہری سوچ رکھنے والے لیڈر تھے جنہوں نے ایران میں انقلاب کے شروع دن سے عوام کے دل جیت لئے۔انہوں نے ایران میں اسلامی نظام کی بنیاد رکھ کر دنیا میں نئی حکمرانی کا طریقہ روشناس کرایا۔آپؒ نے جمہوریت کو اپنے مقاصد کا اہم ستون قرار دیا اورآج انقلاب کی فتح سے 40 سال گزرنے کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں جمہوریت روشن ستارے کی طرح چمک رہی ہے۔آیت اللہ خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے دنیا کو اچھی حکمرانی اور اصولی نظام متعارف کرایا اور اسی وجہ سے اسلامی انقلاب سے دشمنی کا آغاز ہوا بالخصوص امریکہ اوراس کے اتحادی سعودی عرب سمیت بیشترعرب ممالک ایران کی طاقت سے خوفزدہ ہوگئے۔یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ امریکہ، سعودی عرب اور ناجائز صہیونی ریاست دور حاضر کی کشیدگی اور ابتر صورتحال کی جڑ ہیں جو یہ نہیں چاہتے کے مشرق وسطی میں جمہوریت قائم ہو۔ امام خمینی ؒ مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کے توسیع پسندانہ اقدامات کے شدید مخالف تھے جبکہ آج سعودی عرب امریکہ کادم چھلہ بناہواہے جس کا مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

انقلاب کے بعد ایران میں امام خمینی اور ان کے ہم فکر علماء کے اسلامی تصورات پر مبنی نظام حکومت جس طرح کامیابی سے چل رہا ہے وہ ہر مسلمان کے لئے باعث اطمینان اورقابل تقلیدہے۔ عالم اسلام میں سیاسی اصلاحات اور مثبت تبدیلیوں کے لئے ایران کے انقلابی نظام سیاست کی کامیابی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے عالم اسلام کے مستقبل پر سیاسی لحاظ سے انتہائی گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی نت نئی کامیابیوں سے مسلمانوں کا مغرب زدگی کا شکار انتہا پسند طبقہ چڑھتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ ایران کا انقلابی نظام حکومت جمہوری نہیں ہے۔ کیونکہ جمہوری نظام حکومت کے مقابلے میں دنیا میں استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی نظام ہائے حکومت رائج ہیں اس لئے ان مغرب زدہ لوگوں کا کسی نظام کو غیر جمہوری کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظام استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت سے عبارت ہے۔کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری نظاموں میں عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔قانونی مساوات، آزاد عدلیہ، حکومت کا عوام اور عوامی نمائندوں کے سامنےجواب دہ ہونا اور افراد پر قانون کی بالادستی جمہوریت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اس لئے اگر کسی نظام کو جمہوری کہاجائے تو گویا اسے اچھا نظام حکومت ہونے کی سند دی جاتی ہے اورجس نظام کو غیر جمہوری اور استبدادی کہا جائے تو اسے گویا ناپسندیدہ اوربرا نظام قرار دیا جاتا ہے۔

انقلابی اسلامی چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کا پہلا عوامی انقلاب تھاجس کے بعد ایک نئے نظام کی تشکیل وتعمیرکے عمل کا آغاز ہوا۔ یہ نظام نہ صرف جمہوری بلکہ مثالی جمہوری نظام ہے جو کامیابی کے ساتھ گذشتہ چالیس سالوں سے جاری وساری ہے۔انقلاب کے بعد ایک آئین مرتب کیا گیا۔یکم اپریل 1979 کے دن یہ دستور عوام کے سامنے منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ ایرانی عوام نے بیک آواز اس کو منظوری دے دی۔ جمہوری نظاموں میں آئین عوام یا عوام کے نمائندے منظور کرتے ہیں اورایران میں بھی عوام نے اسلامی جمہوری آئین کا انتخاب کیا۔ایران کے آئین کی رو سے رہبر کا منصب سب سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ پہلے رہبر کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ایران کی اکثریت کا مرجع تقلید ہونا شرط تھا۔ چونکہ تقلید عام مسلمان اپنی آزاد مرضی سے کرتے ہیں اس لئے یہ طریقہ بھی عین جمہوری تھا۔اس وقت مجلس خبرگان کا رہبر کے انتخاب میں یہ کام تھا کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کس مجتہد کی ایرانی عوام کی اکثریت تقلید کرتی ہے۔ بعد میں مرجعیت کی شرط کو حذف کیا گیا اور اب مجلس خبرگان بوقت ضرورت رہبر کا انتخاب کرنے کی مجاز ہے۔

ایران کے موجودہ رہبرحضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای عوام کی منتخب مجلس خبرگان سے منصب رہبری کے لئے چنے جانے سے پہلے دومرتبہ ایران کے صدارتی منصب پر براہ راست انتخابات کے ذریعے بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے۔ایران میں مقننہ یعنی مجلس شوریٰ کا انتخاب وقفے وقفے سے علماءاورعوام بالغ رائے دہی کے اصول پر کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ہمیشہ مجلس کا انتخاب آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے، چاہے جنگ ہویا امن۔ایران میں انتظامیہ کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب بھی عوام براہ راست بالغ رائے دہی کے اصول پر وقفے وقفے سے کرتے ہیں۔ انقلاب سے لے کر آج تک ہمیشہ صدارتی انتخابات آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتے رہے ہیں۔ صدر کابینہ کے وزراء کو نامزد کرتا ہے اورعوام کی منتخب مجلس کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرتا ہے۔

انقلابی ایران ایک فلاحی ریاست ہے اور ہر ترقی یافتہ جمہوری معاشرے اورملک کی طرح ایران میں بھی لوگوں کوآزادی اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ عدلیہ بالکل انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہے۔ قانونی مساوات بھی ہے اور قانون وآئین کی بالادستی بھی۔ نیچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئی دستور کا پابند ہے۔ ہر حکومتی عہدہ دار کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ وزرا، صدر اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔صدر پارلیمان ،رہبر کے سامنے جوابدہ ہے اور رہبر منتخب مجلس خبرگان کے سامنے جوابدہ ہے۔ کوئی شخص آئین وقانون سے برتر نہیں اوراعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز ہر شخص آئین وقانون کا زیردست ہے چاہے وزرا ہوں صدر ہو یا رہبر۔آمراورمطلق العنان حکمرانوں کوایران کا نظام حکومت ہمیشہ کھٹکتارہاہے۔ کیونکہ اس نظام میں بادشاہ نہیں بلکہ عوام کامنتخب کردہ نمائندہ حکمرانی کرتاہے جوبراہ راست عوام کوجواب دہ ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے ہمیشہ ایران کے خلاف پروپیگنڈاکیا۔مگرتاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگوں کوہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔انقلاب اسلامی کے خلاف امریکہ کی تمام گھناؤنی سازشیں ناکام ہوگئیں اور اسلامی جمہوریہ ایران 40 سال بعد علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔

آج ایران کی ترقی اور استحکام اور قومی اتحادو یگانگت نے اسلامی جمہوریہ کو ایک مضبوط قوت میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور یہ کریڈٹ بھی قائد انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی کو ہی جاتا ہے کہ ایران آج دنیا کی سپر طاقتوں امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔امریکہ ایران کو دھمکیاں ضرور دیتا ہے مگر اس میں اب اتنی جرأت نہیں کہ وہ ایران پر چڑھ دوڑے۔ایران کے اسلامی انقلاب نے ملک و ملت کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دی ہے ، ہر طبقہ فکر کو اس کے حقوق حاصل ہیں،کچھ گروپوں کی طرف سے احتجاج اور یورش کے باوجود حکومت اپنے مقاصد کو پروان چڑھا رہی ہے۔ایرانی قوم میں موجود اتحاد و اتفاق اور قوم پرستی کی بدولت یہ مٹھی بھرسازشی عناصر اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔کیونکہ عوام کی اکثریت اسلامی انقلاب کے ثمرات سے کماحقہ استفادہ کر رہی ہے [7]۔

قدرتی آفات

ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔

آئین

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کا مجوزہ متن ماہرین اور دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو عبوری حکومت (جون 1358) کی طرف سے دستیاب کرایا گیا اور 1358 میں عام انتخابات کے ذریعے اس کے حتمی جائزے کے لیے آئینی ماہرین کی اسمبلی تشکیل دی گئی۔ آئین کا آخری ورژن اسی سال دسمبر میں تھا۔ ایک ریفرنڈم ایران کے معزز لوگوں نے منظور کیا تھا [8]۔

آئین پر نظر ثانی

کچھ ابہام اور ناپختگیوں کی موجودگی اور آئین میں کچھ ترمیم کی ضرورت کے باعث امام خمینی نے پارلیمنٹ کے اراکین اور سپریم جوڈیشل کونسل کی درخواست پر آئین پر نظر ثانی کے لیے ایک کونسل مقرر کی تاکہ آئین پر نظر ثانی کا کوئی حل فراہم کیا جا سکے۔

مذکورہ کونسل نے 7 مئی کو نظرثانی کا کام شروع کیا اور جون 1368 میں امام خمینی کی وفات کے بعد اس نے اپنا مشن جاری رکھا اور نظر ثانی شدہ اور ترمیم شدہ آئین کو اگست 1368 میں ایک ریفرنڈم میں قوم سے منظور کیا گیا [9]۔

اسلامی جمہوریہ کے مبانی

جمہوری نظام کے اصولوں میں چار اجزاء شامل ہوتے ہیں:

  • حکمراں کا انتخاب براہ راست یا بالواسطہ (پارلیمنٹ کے ذریعے)خود عوام کرتی ہے۔
  • حکمران کی حکمرانی کی محدود مدت ہوتی ہے اور اس کا دوبارہ انتخاب ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
  • قانون کے سامنے حکمران کی حیثیت ملک کے دوسرے لوگوں کے مساوی ہوتی ہے اور وہ قانون کا تابع اور اپنے تمام اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
  • حکمران پر قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے [10]۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام مذکورہ چاروں اجزاء کا حامل ہے کیونکہ:

  • ملک کی حکمرانی اور نظم و نسق، خواہ رہبر کے انتخاب میں ہو (بالواسطہ ووٹ کے ذریعے) یا صدر کے انتخاب میں (براہ راست ووٹ کے ذریعے) نیز حکومت کی تشکیل (اسلامی پارلیمنٹ کے اعتماد کے ووٹ کے ذریعہ)، عوامی ووٹوں کی بنیاد پر مبنی ہے۔
  • صدر کے عہدے کی مدت (ایک بار دوبارہ انتخاب کے امکان کے ساتھ) چار سال ہے۔
  • رہبر، صدر اور دیگر ارباب اقتدار قانون کے سامنے ملک کے دیگر افراد کے برابر حیثیت رکھتے ہیں۔
  • رہبر معظم ، صدر جمہوریہ اور دیگر وزراء کے لیے قانونی ذمہ داری مقدمہ اور سزا کی حد تک اور سیاسی ذمہ داری معزولی کی حد تک ہے [11]۔

اسلامی جمہوریہ میں اسلام اور شیعیت کا مقام

دیگر عام جمہوری نظاموں کے مقابلے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی امتیازی خصوصیت، اس نظام کا اسلامی اور مذہبی ہونا ہے، یعنی ایرانی عوام کی اکثریت نے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے، اسلام اور اسکی تعلیمات کو حکومت کے مواد اور بنیاد کے طور پر انتخاب کیا ہے۔

اسلامی شیعہ اصول عقائد (توحید، رسالت، قیامت، عدل اور امامت)اورانسانی کرامت اور آزادی،انسانی مسئولیت کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام اور بقا کے ستون ہیں ۔

عدل و انصاف، آزادی اور قومی یکجہتی نظام کے مقاصد عالیہ میں شامل ہیں اور ان کے حصول کے لیے اسلامی جمہوریہ کے آئین میں مختلف طریقے اور عمومی احکامات مقرر کیے گئے ہیں جن میں جامع الشرائط فقہاء کا مسلسل اجتہاد، جدید ترقی یافتہ انسانی علوم و فنون اور تجربات کا استعمال اور انہیں ترقی دینے کی کوشش،(ملکی سطح پر) ظلم کرنے اور ظلم سہنے اور(بین الاقوامی سطح پر) مسلط ہونے اور دوسروں کے تسلط کو قبول کرنے کی نفی شامل ہے (اصول 2 اور 152)

اسلامی جمہوریہ کے نظام میں اسلام اور شیعہ اثناعشری مذہب کی حاکمیت کا تقاضا ہے کہ قانونی، عدالتی، سیاسی اور سماجی معاملات میں اس دین اور مذہب کے معیارات اور تعلیمات غالب اور موثر ہوں۔ اس کے باوجود دیگر اسلامی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی) کے پیروکاروں کے حقوق شیعوں کے برابر ہوں گے[12]۔

دوسرے مذاہب کے پیروکار جن میں زرتشتی، کلیمی اور عیسائی شامل ہیں اور جو اہل کتاب کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کے بھی مندرجہ ذیل حقوق ہیں:

قانون کے حدود میں مذہبی تقریبات انجام دینے کی آزادی،ذاتی احوال اور دینی تعلیمات میں اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ، مذہبی، ثقافتی، سماجی اور فلاحی تنظمیں بنانے کی آزادی، اسلامی پارلیمنٹ میں نمائندگی، اور سماجی، انتظامی اور روزگار کے حقوق [13]۔

غیر الہی مذہبی اقلیتیں بھی ، بشرطیکہ وہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازش نہ کریں،معینہ حقوق کےساتھ ساتھ اخلاق حسنہ اور اسلامی عدل و انصاف سے مستفید ہوں گی [14]۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر

اسلامی جمہوری نظام میں، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو متقابل ہمہ گیر نگرانی کی روش کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ریاست اور عوام کے ذریعہ اس روش کا مسلسل نفاذ اچھائیوں کے فروغ اور برائیوں کے سد باب کا باعث بن سکتا ہے ۔

حکومتی ادارے (رہبری اور تینوں حکومتی قوتیں) اس اصول کو اس طرح نافذ کرتے ہیں کہ:

  • رہبر معظم مجموعی نگرانی کرتے ہیں اور سماجی اصلاح کے لیے پالیسیاں اور قوانین بناتے ہیں۔
  • انتظامیہ ان پالیسیوں اور قوانین کو نافذ کرتی ہے۔
  • عدلیہ ان پالیسیوں اور قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔

اس کے علاوہ، عوام کے ذریعے حکومت پر نظر رکھنے کے طریقہ کار (جس میں پریس اور میڈیا، سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں، اور اجتماعات اور جلوس شامل ہیں) کے ذریعے بھی اس اصول کو نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

جمہوری اسلامی نظام میں، یہ فرض کرتے ہوئے کہ حکمران اخلاقی طور پر اہل ہیں اور یہ کہ عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے خودمختار ہیں، اصل ہشتم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو عوام کا باہمی فریضہ قرار دیا گیا ہے

اسے انجام دینے کا طریقہ ایک دوسرے کو نصیحت اور یاد دہانی ہے، لیکن عملی کارروائی اور سزا دینا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، عوام کی نہیں۔ [15]۔

خارجہ پالیسی

اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے اصول یہ ہیں:

  • خارجہ پالیسی کے نفاذ میں قومی خودمختاری کی بالادستی۔اس کے لئے ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور تسلط جوئی اور تسلط پذیری کو مسترد کرنے کی پالیسیوں پر عمل کیاجاتا ہے۔
  • تسلط پسند طاقتوں کے سے عدم وابستگی اور غیر متحارب ریاستوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے ذریعے بین الاقوامی اتحاد اور ہم آہنگی۔
  • اسلامی ممالک کا اتحاد جس کا مقصد عالم اسلام کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اتحادتک پہنچنا ہے۔
  • بین الاقوامی سطح پر انسانی امداد، جس میں مسلمانوں، مظلوموں، محروموں اور پناہ گزینوں کی حمایت شامل ہے [16]۔

خارجہ پالیسی کا اعلیٰ ترین انتظام رہبر کے پاس ہوتا ہے، جو ملک کے خارجہ امور کے بارے میں عام پالیسیوں کا تعین کرتا ہے، جنگ اور صلح کا اعلان کرتا ہے، افواج کو متحرک کرتا ہے اور ملک کے خارجہ امور کی نگرانی کرتا ہے جیسے قومی سلامتی کونسل کی منظوریوں کی توثیق کرنا اور اہم مسائل پر رہنمائی فراہم کرنا۔

رہبر کے بعد، صدر جمہوریہ ، قومی خودمختاری کی علامت اور ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی اتھارٹی کے طور پر اورسفیروں کو بھیجنے اور وصول کرنے اور بین الاقوامی معاہدوں پردستخط کے ذریعے، خارجہ تعلقات قائم کرنے کے ذمہ دار کی حیثیت سے ملک کی خارجہ پالیسی کے انچارج کا کردار ادا کرتا ہے۔

اسلامی کونسل ، بین الاقوامی معاہدوں کی نگرانی، خارجہ پالیسی کے قوانین بنانے، خارجہ پالیسی کمیشن، اور نمائندوں کے ذریعےملک کی خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔نمائندے خارجہ پالیسی کے مسائل پر رائے دیتے ہیں، یاد دہانی کراتے ہیں، اور وزیر خارجہ اور صدر جمہوریہ سے سوال کرتے ہیں اور وضاحت طلب کرتے ہیں۔ [17]۔

سرکاری ادارے اور ڈھانچے

اسلامی جمہوریہ کے آئین میں حاکمیت الٰہی اور انسانی ہے۔ خدائی حاکمیت اس تعلیم سے ماخوذ ہے کہ حاکمیت اور قانون سازی صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کی اجازت کے بغیر لوگوں کے جان و مال میں تصرف کرے اور ان کے لئے قانون وضع کرے۔کلامی اور فقہی مباحث کے مطابق، امام مہدی(عج) کی غیبت کے دوران، فقیہ جامع الشرائط امام معصوم(ع) کی طرف سے مجاز ہے کہ وہ دین کے بنیادی ذرائع سے احکام شرعیہ کا استنباط کرے اور ان امور میں مداخلت کرے جن کی اسلام نے اجازت دی ہے۔اس بنیاد پر ، ولی فقیہ کی نگرانی میں اسلامی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے قوانین کی تدوین، الہی حاکمیت کی ضامن ہے۔

حاکمیت کا انسانی پہلو خدا پر ایمان اور دنیا اور انسان پر اس کی مکمل حاکمیت پر یقین سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ کہ اس نے انسان کو اپنی تقدیر بنانے کا اختیار دیا ہے۔ لہٰذا اپنی سماجی اور سیاسی تقدیر پر لوگوں کی حاکمیت ایک الٰہی حق ہے اور اس میں ان کی عملی اور ہمہ گیر شرکت کی ضرورت ہے۔ متعدد قانونی اور سیاسی راہیں خود مختاری کے اس پہلو کی ضامن ہیں جیسے صدر اور اسلامی کونسل کے نمائندوں و غیرہ کے انتخاب میں عوام کی براہ راست اور بالواسطہ شرکت اور سیاسی جماعتوں اور تنظموں اور تجارتی یونینوں کا حق آزادی[18]۔

حکومت کی شکل

اسلامی جمہوری نظام میں حکومت کی شکل تین قوتوں (مقننہ، مجریہ اور قضائیہ) پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے سے آزاد ہیں اور رہبر معظم (ولی فقیہ) کی نگرانی میں کام کرتی ہیں۔ اس لیے تقسیم کار کا یہ نمونہ روایتی نظاموں میں تقسیم کار کے نمونے سے بہت مختلف ہے۔حکومت نیم صدارتی اور نیم پارلیمانی ہے۔ یہ نیم صدارتی ہے کیونکہ صدر کو عوام منتخب کرتے ہیں اور نیم پارلیمانی ہے کیونکہ وزراء اور کابینہ کے دیگر ارکان کو صدر نامزد کرتا ہے اور پارلیمنٹ ان کی منظوری دیتی ہے۔

نظام کی جامعیت اور انسجام کا تقاضا ہے کہ اختیارات کی علیحدگی کے باوجود تینوں طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی قائم رہے۔اس مقصد کے لیے، تینوں قوتوں کے درمیان تعلقات اور ان کی آزادی کی حدود کو واضح کیا گیا ہے اور ایک سے زیادہ عہدوں پر فائز ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔[19]۔

تینوں قوتوں کے علاوہ، جو رہبر معظم کی نگرانی میں کام کرتی ہیں، جمہوری اسلامی کی حاکمیت کو نافذ کرنے کے لیے کچھ مخصوص ادارے بھی موجود ہیں۔ ان اداروں میں اسلامی کونسلز،ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا ادارہ، قومی سلامتی کونسل، ثقافتی انقلاب کونسل، اور مجمع تشخیص مصلحت نظام شامل ہیں۔

ارکان حکومت

اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے مندرجہ ذیل ارکان ہیں:

ولایت فقیہ اور رہبری

اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا پہلا ستون ولایت اور رہبری ہے۔آئین کے دیباچے اور اس کے اصول 5 اور 57 کے مطابق ولایت مطلقہ فقیہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت کی اسلامیت کی بنیاد ہے۔ حکومت کی اسلامییت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں موجود قوانین، ہر لحاظ سے، اسلامی معیارات پر مبنی ہیں اور آئین کی قانونی حیثیت شریعت کے ساتھ اس کی مطابقت سے وابستہ ہے [20]۔ولایت فقیہ کا تصور آئین (اصول 5) میں ادارہ جاتی طریقے سے فراہم کیا گیا ہے۔ فقیہ میں درج ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے:

  • مختلف فقہی ابواب میں افتاء کی علمی صلاحیت
  • عدالت اور تقویٰ
  • صحیح سیاسی اور سماجی بصیرت
  • تدبیر، شجاعت، اور انتظامی صلاحیت
  • قیادت کی ضروری اہلیت (اصل 109؛ ہاشمی، 1374ش، ج 2، ص 45) [21]

فقہی اور سیاسی مسائل میں اعلمیت اور عوام الناس میں مقبولیت مجلس خبرگان کے ذریعے رہبر کے انتخاب کے بنیادی شرائط ہیں۔

رہبر کے اختیارات اور فرائض

جمہوری اسلامی ایران میں حکومتی ادارے رہبری کی نگرانی میں کام کرتے ہیں ۔ رہبر درحقیقت حکومت کا سب سے اعلیٰ مقام اور مرجع ہے۔ اس کو تفویض کردہ اہم اختیارات اور فرائض اس عہدے کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

رہبرکے کچھ فرائض نظام کی اسلامی حیثیت کو برقرار رکھنے سے متعلق ہیں، جیسے نظام کی بنیادی پالیسیوں کا تعین، ان پالیسیوں کے نفاذ کی نگرانی، شورای نگهبان کے فقہا اورچیف جسٹس کی تقرری اور برطرفی، اور ان کے استعفے کو منظور یا مسترد کرنا۔

رہبر کے بعض فرائض تینوں قوتوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رکھتے، جیسے مسلح افواج اور انتظامی فورس کے کمانڈروں اور سربراہوں کی تقرری اور برطرفی، یا نشریاتی ادارے کے سربراہ کی تقرری۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اختیارات کا کسی ایک قوت کے پاس ہونا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

رہبر کے دیگر فرائض میں جنگ کا اعلان اور افواج کو متحرک کرنا، ریفرنڈم کا انعقاد، اور تینوں قوتوں کے درمیان اختلافات کو حل کرنا اور ان کے تعلقات کو منظم کرنا شامل ہے۔

اس طرح، رہبر حکومتی اختیارات کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کی بنیادی پالیسیوں کا تعین کرتا ہے اور ان کے فرائض کی انجام دہی میں پیش آنے والی مشکلات کو حل کرتا ہے۔

رہبر : تینوں قوتوں کا نگراں

رہبر انتظامیہ کی نگرانی دو طریقوں سے کرتا ہے:

  1. عوام کے ذریعہ صدر جمہوریہ کے انتخاب کے بعد، رہبر ان کے حکم نامے پر پر دستخط کرتا ہے۔
  2. رہبر کو ر سپریم کورٹ کی جانب سے صدر جمہوریہ کی نااہلی کے فیصلے یا پارلیمنٹ کے عدم اعتماد کے ووٹ کی صورت میں اسے ہٹانے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

رہبر ،مقننہ اور اس کے قوانین و مصوبات کی اسلامیت کی نگرانی اس طرح کرتے ہیں کہ وہ گارڈین کونسل میں فقہاکا تقرر کرتے ہیں۔گارڈین کونسل میں فقہاء کا فیصلہ شرعی معیارات کی پاسداری کے حوالے سے فیصلہ کن ہے۔رہبر عدلیہ کی نگرانی اس کی اعلیٰ ترین اتھارٹی کی تنصیب اور بر طرفی کے ذریعہ کرتا ہے۔[22]۔

اپنے فرائض انجام دینے کے لیے، رہبر اپنے مشیروں کے علاوہ مجمع تشخیص مصلحت نظام کے فکری تعاون اور ماہرین کی رائے سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ اس کونسل کے تمام ارکان کو رہبر مقرر کرتاہے۔یہ کونسل رہبر کو نظام کی بنیادی پالیسیوں کا تعین کرنے کے لیے مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ گارڈین کونسل اور پارلیمنٹ کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ، قانون اساسی کی نظر ثانی اور رہبر کے انتخاب کی کونسل میں بھی حصہ لیتی ہے۔

رہبر کا انتخاب

رہبرکا انتخاب مجلس خبرگان کی ذمہ داری ہے۔ یہ مجلس ملک بھر کے اول درجے کے علماء(مجتہدین) پر مشتمل ہے۔ وہ رہبر کے اعمال کی نگرانی اور س میں قیادت کی شرط کی بقا پر نظر رکھتے ہیں اور نااہلی کی صورت میں اسے ہٹا دیتے ہیں۔ رہبر کی برطرفی یا اس کے استعفیٰ یا موت کی صورت میں مجلس خبرگان کے ذریعے نئے رہبر کے انتخاب تک اس کی ذمہ داریاں عبوری قیادت کونسل کو سونپ دی جائیں گی۔ یہ کونسل صدر، چیف جسٹس اور گارڈین کونسل کے ایک فقیہ پر مشتمل ہے۔

مقننہ

اسلامی جمہوریہ کا دوسرا ستون مقننہ ہے۔ مقننہ ایک ایوانی نظام پر مبنی ہے اور دو الگ الگ ارکان پر مشتمل ہے: اسلامی کونسل(پارلیمنٹ) اور گارڈین کونسل۔ ان ارکان میں سے ہر ایک کے اپنے اپنے فرائض ہیں۔ اسلامی کونسل ایسے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے جو چار سال کے لیے عوام کے براہ راست اور خفیہ ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اپنے اعتبار نامہ کی توثیق اور حلف قرآن مجید کے سامنے حلف لینے کے بعد وہ کام شروع کر سکتے ہی۔

پارلیمنٹ کا بنیادی کام آئین کی حدود میں تمام امور اور مسائل پر قوانین بنانا ہے۔ یہ حدود سرکاری مذہب اور آئین کے شرعی اصولوں سے مطابقت رکھنا ہیں اور اس کی تشخیص گارڈین کونسل کی ذمہ داری ہے۔قوانین بنانے کے علاوہ، اسلامی کونسل کا ایک نگراں کردار بھی ہے، جس میں یہ چیزیں شامل ہیں:

  1. تاسیساتی نگرانی :حکومت کی تشکیل کی نگرانی، حکومت میں تبدیلیوں کی نگرانی اور حکومتی تنازعات کا حل و فصل۔
  2. اطلاعاتی نگرانی :تینوں قوتوں کے کام کے بارے میں لوگوں کی شکایات، وزیر یا صدر جمہوریہ کے طرز عمل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نمائندوں کی پہل، معلومات حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی پہل ، ملک کےتمام امور کی تحقیق اور تفتیش ۔
  3. استصوابی کر نگرانی: جس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ حکومت کے اہم اقدامات جیسے بین الاقوامی معاہدے کرنا، سرحدی لائنوں کو تبدیل کرنا، ہنگامی حالت کا اعلان کرنا، مالی تنازعات کو حل کرنا یا انہیں ثالث کے حوالے کرنا، غیر ملکیوں کو کمپنیاں اور ادارے بنانے کا پروانہ عطا کرنا اور بعض دوسرے حکومتی اقدامات کی نگرانی کرتا ہے جن میں قرض اور گرانٹ حاصل کرنااور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنا شامل ہے۔
  4. مالیاتی نگرانی: ملک کا سالانہ بجٹ تیار کرنا، مرتب کرنا اور منظور کرنا اور دیوان محاسبات کے ذریعے بجٹ کے اخراجات پر نظر رکھنا۔
  5. سیاسی نگرانی : وزرا اور صدر جمہوریہ کا استیضاح ۔مزید برآں، چونکہ پارلیمنٹ کو تمام امور میں قوانین بنانے کا حق ہے، اس لیے اس کے پاس عام قوانین میں تبدیلی اور عام قوانین کی تشریح کا اختیار بھی ہے۔ پارلیمنٹ کا اندرونی نظام، جسے اس کے اندرونی ضوابط طے کرتے ہیں، مختلف کمیشنوں اور ایک صدارتی بورڈ پر مشتمل ہے جن کا انتخاب سالانہ ہوتا ہے۔ شروع میں پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد 270 تھی جس میں آئین کی پیش گوئی کے مطابق آبادی میں اضافے کے ساتھ ہر دس سال میں زیادہ سے زیادہ بیس نمائندوں کے اضافے کا امکان ہے۔

گارڈین کونسل چھ فقہاء اور چھ قانون دانوں پر مشتمل ہے جن میں سے فقہاء کو رہبر مقرر کرتاہے اور قانون دانوں کو چیف جسٹس کی تجویز پر پارلیمنٹ کے نمائندوں کی رائے سے منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ کونسل وضع شدہ قوانین کے شرع اور آئین کے مطابق ہونے کی جانچ کے علاوہ، آئین کی تشریح اور انتخابات اور ریفرنڈم کی نگرانی کا کام بھی انجام دیتی ہے۔[23]۔

عدلیہ

جمہوری اسلامی ایران کا چوتھا رکن عدلیہ ہے۔ یہ ادارہ عدالتی امور اور انصاف کی فراہمی کا ذمہ دار ہے، اور جرائم سے نمٹنے اور افراد اور معاشرے کے حقوق کی حمایت کرنے کا مرجع ہے۔

عدلیہ کا سربراہ چیف جسٹس ہوتا ہے جس کا مجتہد ہونا ضروری۔ اسے رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران پانچ سال کے لیے مقرر کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کام عدالتی قوانین تیار کرنا اور ججوں کی تقرری اور برطرفی کرنا ہے۔ وہ اپنے کچھ اختیارات وزیر انصاف کو تفویض کر سکتا ہے۔ وزیر انصاف مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان تعلقات کو مربوط کرنے کا کام کرتا ہے۔

اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے عدلیہ کے پاس تنظیمیں اور ادارے ہیں جن میں شامل ہیں:

  • وزارت انصاف جو عوام کی شکایات اور مظالم کا مرجع ہے اور عام اور عمومی جرائم کی سماعت کرتی ہے۔
  • دیوان عدالت انتظامی جو سرکاری ملازمین اور اداروں کے خلاف شکایات اور اعتراضات کی جانچ پڑتال کے لیے قائم کیا گیا ہے اور وہ ان سرکاری ضوابط کو بھی کالعدم قرار دے سکتا ہے جو اسلامی قوانین کے خلاف یا مجریہ کے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں۔
  • پراسیکیوٹر کا دفتر اور فوجی عدالتیں جو فوجی یا انتظامی جرائم کی سماعت کے لیے تشکیل دی گئی ہیں۔
  • لک کی جنرل انسپیکشن آرگنائزیشن جو کہ انتظامی اداروں میں قوانین کے درست نفاذ پر محکمہ کے سربراہ کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ہے۔
  • ملک کی عدالت عالیہ جو عدالتوں میں قوانین کے درست نفاذ کی نگرانی کرتی ہے اور ملک کے عدالتی طریقہ کار میں اتحاد پیدا کرتی ہے۔ اس کا صدر عدلیہ کے سربراہ کے ذریعے مقرر کیا جاتا ہے۔
  • پراسیکیوشن جنرل: یہ ادارہ عوامی جرائم کے خلاف معاشرے کے حقوق کے دفاع کا کام کرتا ہے۔

جج عدلیہ کے اہم عناصر ہیں اور ان کے صفات اور شرائط فقہ سے اخذ کی گئی ہیں۔ جج عام اور تدوین شدہ قوانین کا ترجمان ہوتا ہے، اورکسی مسئلے پر کوئی حکم نہ ملنے کی صورت میں اسے فقہی نصوص سے رجوع کرنا چاہیے۔ جج عدالتی نظام کے اہم ترین عناصر ہیں اور ان کی صفات اور شرائط فقہ سے ماخوذ ہیں۔ جج عام اور مدون قوانین کا مفسر ہے اور اگر کسی مسئلے کا حکم نہ ملے تو اسے فقہی متون سے رجوع کرنا چاہیے۔محاکمات علنی ہو سکتے ہیں، سوائے اس کے کہ مقدمے کے فریقین محاکمے کے علنی نہ کرنے کی درخواست کرے یا عوامی عفت کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔

اسلامی جمہوریہ کے طرز حکمرانی میں بعض اداروں کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ کام کی نوعیت اور تنظیم کے لحاظ سے انہیں رہبری کے ادارے یا تین محکموں میں سے کسی ایک کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ خصوصی ادارے ہیں: اسلامی کونسلز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سپریم کونسل آف نیشنل سیکورٹی، سپریم کونسل آف کلچرل ریوولوشن، اور مجمع تشخیص مصلحت نظام۔

اسلامی انقلاب کے سائے میں ایران کی شاندار ترقی

اسلامی انقلاب نے ایرانی قوم کے اندر خود اعتمادی اور قومی وقار کا احساس جگایا جس کی وجہ سے ایران نے مختلف میدانوں میں شاندار بلکہ حیرت انگیز ترقی کی۔

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: اسلامی انقلاب نے ایرانی عوام کو مختلف شعبوں میں عظیم کامیابیاں عطا کی ہیں جن کا دائرہ خود اعتمادی، قومی وقار اور آزادی سے لے کر سول، عسکری، طبی، صنعتی اور تکنیکی شعبوں میں مادی ترقی تک پھیلا ہوا ہے۔

غور طلب ہے کہ یہ تمام تر پیش رفت اور حیرت انگیز ترقی امریکہ اور اس کے لے پالک ملکوں کی طرف سے عائد کردہ ہمہ جانبہ پابندیوں اور پیچیدہ اقتصادی دہشت گردی کے باوجود حاصل کی گئی ہے۔ ایرانی عوام کے اسلامی انقلاب کو ابھی ایک سال مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایرانی قوم کے خلاف امریکی حکومت کی ظالمانہ پابندیوں کا آغاز کر دیا گیا اور یہ سلسلہ ہر سال مزید شدت اختیار کر گیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے دیگر یورپی حکومتوں کے ساتھ مل کر، ایرانی عوام پر 8 سالہ جنگ مسلط کرنے کے لیے صدام کو اکسایا اور اسے بھاری اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کی۔

امریکیوں اور ان کے کاسہ لیس اتحادیوں نے ایرانی قوم اور نظام پر قابو پانے کے لیے سخت جنگ اور اقتصادی پابندیوں کے ساتھ ہائبرڈ یا ترکیبی جنگ کا محاذ کھولا جس کے لئے ہزاروں میڈیا چینلز کو نفسیاتی پروپیگنڈے اور ڈس انفارمیشن مہم کے لیے استعمال کیا گیا اور ایرانی عوام کو نفسیاتی میدان میں زیر کرنے کے لئے افراتفری اور انتشار کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی۔دشمن کی اس مشترکہ سخت اور نرم جنگ کے حربے کو ایرانی قوم اور اسلامی نظام نے بھرپور شکست دی۔

لیکن ان تمام مسلط کردہ جنگوں میں ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی سب سے اہم کامیابی اسلامی ایران کی قومی خود مختاری اور ارضی سالمیت کا استحکام ہے۔

درحقیقت دشمنوں کا اصل خواب اسلامی ایران کی تقسیم تھا۔ ایک سازش جو اسلامی انقلاب کے پہلے دنوں سے شروع ہوئی اورجس کی حالیہ فسادات تک دشمنوں نے سنجیدگی سے پیروی کی۔ دشمن کی اس مذموم سازش کو اسلامی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قومی اتحاد و اتفاق، نیز قائدین انقلاب کی رہنمائی اور ایران کے مومن اور انقلابی عوام کی بصیرت نے ناکام بنا دیا۔

اسلامی انقلاب نے جو قومی خود اعتمادی اور وقار پیدا کیا اس کی وجہ سے ایران کی دفاعی اور عسکری قوت بلندیوں کو چھونے لگی۔ آج دنیا کی کوئی طاقت ایران کو فوجی حملے کی دھمکی دینے کی جرأت تک نہیں کر پا رہی ہے اور "تمام آپشن میز پر ہیں" جیسی مضحکہ خیز گیدڑ بھبکیوں کو ایران کے خلاف امریکی لیڈروں کے لٹریچر سے حذف کر دیا گیا ہے۔

ایران کی دفاعی اور فوجی طاقت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مزاحمت ایسی ہے کہ اس نے دشمنوں کو ان کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ صہیونی میزائل انڈسٹری کے باپ کے طور پر جانے جانے والے یوزی رابن ایرانی انجینئروں کی میزائل بنانے کی صلاحیت کے بارے میں کہتے ہیں: "میں ایران کی میزائل پاور کے احترام میں اپنی ٹوپی اتارتا ہوں۔"

امریکی افواج کی مرکزی کمان سینٹکام کے کمانڈر "Michael Coryla" نے حال ہی میں امریکی سینیٹ میں ایک تقریر کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی طاقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "ایران کے پاس سب سے بڑی اور متنوع میزائل ٹیکنالوجی اور ہزاروں بیلسٹک اور کروز میزائل ہیں جو اس قابل ہیں کہ وہ پورے مشرق وسطیٰ بلکہ مشرق کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایرانی حکومت کے پاس اس وقت خطے کی سب سے بڑی ڈرون فورسز ہیں۔ گزشتہ 40 سالوں میں ایران کی فوجی طاقت میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ بے مثال ہے۔ آج کی سپاہ پاسداران انقلاب کو پانچ سال پہلے کی سپاہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

ہم دفاعی میدان کامیابیوں کے علاوہ، اسلامی ایران کی دیگر شعبوں میں بھی زبردست پیشرفت دیکھ رہے ہیں۔ وہ پیشرفت جو اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل ہوئی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ایرانی قوم کی ساکھ میں بہتری اور نوجوانوں کے خود اعتمادی کو تقویت دینے اور ان کی الہی صلاحیتوں کو نکھارنے کا باعث بنی ہیں۔

اسلامی ایران نے جن میدانوں میں بہت ترقی کی ہے ان میں سے ایک خلائی میدان ہے۔ ایران نے حالیہ برسوں میں کامیابی کے ساتھ کئی سیٹلائٹ تیار اور لانچ کیے ہیں۔ خلائی ٹیکنالوجی کے شعبے میں ملک کا پہلا قدم مختلف پیمائش اور ٹیلی کمیونیکیشن ایپلی کیشنز کے ساتھ سیٹلائٹس کی تعمیر تک محدود تھا، لیکن اب ملک کے انجینئر بنیادی خلائی ٹیکنالوجیز کی ترقی کے ساتھ، ان علوم کو جنگلات کی آگ کی نگرانی جیسے شعبوں میں استعمال کر رہے ہیں۔ گیلی زمینوں کی حالت کے ساتھ ساتھ کھیتوں اور گرین ہاؤسز کے دور سے کنٹرول کو بھی انہوں نے ممکن بنایا ہے۔

ابھی کچھ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ عشرہ فجر کے موقع پر تین ایرانی سیٹلائٹس کی کامیاب لانچنگ کی خبر عالمی سطح پر منظر عام پر آئی اور اعلان کیا گیا کہ 3 ایرانی سیٹلائٹس "مہدا"، "کیہان 2"، "ہاتف 1" اور سیمورگ سیٹلائٹ کیریئر کو کامیابی سے لانچ کیا گیا ہے۔ جوہری میدان میں اسلامی ایران کی پیشرفت زبردست اور غیر معمولی رہی ہے۔

ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس علم کی لوکلائزیشن ہے۔ اس لحاظ سے کہ ہمارے نیوکلیئر پاور پلانٹ کے منتظمین اور چلانے والے ایرانی ماہرین ہیں اور یہ مسئلہ ملک کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور قومی خوداعتمادی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ گھریلو تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کی ترقی کا واضح ثبوت ہے۔

ٹیلوریم 130 آئسوٹوپ جوہری صنعت کے نوجوان سائنسدانوں کی کامیابیوں میں سے ایک ہے، جو 20 سینٹری فیوج مشینوں کی مربع زنجیر کو ڈیزائن، تعمیر اور چلانے کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا، اور طبی میدان میں، خاص طور پر ریڈیو فارماسیوٹیکل کے لیے خام مال کی تیاری اور تشخیص، کینسر اور لاعلاج بیماریوں کی مختلف اقسام، دواسازی، صنعتی شعبوں، ارضیات، زراعت اور نیوکلیئر سائنسز میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔

آج ایرانی محققین جوہری علم کا استعمال کرتے ہوئے 50 سے زیادہ فالج اور علاج سے متعلق تشخیصی ریڈیو فارماسیوٹیکل تیار کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

ہیموسٹیٹ (Hemostat) یا "خون جمانے والا پاؤڈر" طب کے میدان میں جوہری سائنس کی دوسری کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا پڑودکٹ جو خون کو روکنے کے لیے سرجریوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ آج ایران ان 5 ممالک میں شامل ہے جو اس میڈیکل پروڈکٹ کو تیار کرنے کا تکنیکی علم رکھتے ہیں۔

نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں اسلامی ایران کی ترقی حیرت انگیز رہی ہے۔آج اسلامی ایران نینو سائنس کی پیداوار میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں اسٹریٹجک پلان کی اشاعت میں دنیا کا تیسرا ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ملک میں نینو سائنس کے 40,000 ماہرین کو تربیت دی گئی ہے۔

مذکورہ بالا اشارئے مختلف شعبوں میں ایران کی پیشرفت کے بہت ہی چھوٹے گوشے ہیں۔جو پیشرفت اسلامی انقلاب کی بدولت حاصل ہوئی ہے اور ان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ "مقامی" اور "انڈوجینس" ہے۔

اس بنا پر کہا جا سکتا ہے: "اسلامی انقلاب اپنے تاریخی افق میں "تقلید اور انحصار" کے خلاف اور "آزاد اور حقیقی پیش رفت" کے حصول کی سمت میں ایک بڑی تحریک رہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سال کے پہلے دن حرم رضوی کے زائرین کے اجتماع سے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کی کامیابیوں کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے شاندار ترقی کی ہے جس کے بارے میں مختصراً تذکرہ کروں گا۔

یہ تمام پیش رفت ہمہ جانبہ پابندیوں اور اقتصادی ناکہ بندی کے دوران تھی اور یہ سب سے شدید معاشی دباؤ کے دوران کی ترقی تھی۔ خود امریکیوں نے کہا کہ ہم نے ایران پر جو معاشی دباؤ ڈالا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ وہ اپنے تمام تر جھوٹ کے باوجود اس معاملے میں سچ بول رہے ہیں۔ انہوں نے سچ کہا؛ یہ سب سے بے مثال معاشی دباؤ تھا، ایسی حالت میں ملت ایران نے ترقی کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ قوم نے سائنس کے میدان میں ترقی کی، ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کو سائنس کے کچھ شعبوں میں دنیا کی پہلی صفوں میں رکھا گیا؛ ایک جگہ دنیا کے سرفہرست پانچ ممالک میں، ایک جگہ ٹاپ ٹین ممالک میں اور ایک جگہ دنیا کے تین سرفہرست ممالک میں شامل رہا۔ ہماری سائنسی اور تکنیکی ترقی کچھ اس طرح ہے؛ نینو، بائیو ٹیکنالوجی، صحت اور دیگر مختلف شعبوں میں ایران کی ترقی دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر رہی ہے۔ کورونا کے معاملے میں ایرانی کی سائنسی صلاحیت نمایاں طور پر سامنے آئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایٹمی توانائی، ایرو اسپیس اور خاص طور سے دفاعی شعبے میں تسلیم کرتے ہیں کہ ایران نے دفاعی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ہم نے بائیو ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ دنیا نے ہماری تعریف کی، دنیا کے سائنسدانوں نے ہمارے سائنسدانوں، نوجوان سائنسدانوں کی تعریف کی۔

انہوں نے فرمایا تھا: "ملک کے بنیادی ڈھانچے میں پیش رفت؛ سڑک، ریلوے ٹریک، ڈیم کی تعمیر، آب رسانی خاص کر غدیر واٹر سپلائی چینل جو حال ہی میں کھولا گیا، ریفائنری اور ہسپتالوں کی تعمیر وغیرہ جو 2023 میں کی گئی۔ ان میگا پروجیکٹس میں سے ایک جنوبی پارس ہے جو مکمل طور پر مقامی (ایرانی) ہے۔ ان شعبوں میں یہ ترقی اس وقت ہوئی جب ملک کو بہت ساری پابندیوں کا سامنا ہے۔ مائع گیس کی پیداوار میں پیشرفت جو کہ ایک اہم ترین کام تھا جس نے ملک کے لئے ترقی کا نیا باب کھولا، یہ کام بھی حالیہ دور میں ہوا۔ ماضی میں اہم اور شاندار ترقیاتی کام ہو چکے ہیں۔"

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ خارجہ تعلقات کے میدان میں پیشرفت اور مغربی ممالک کا ایران کو تنہا کرنے کے لیے دباؤ۔امریکہ اور یورپ نے ایران کو تنہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ خارجہ پالیسی کی اصطلاح میں تنہائی کا مطلب ممالک کے ساتھ تعلقات منقطع کرنا ہے۔جب ممالک کسی ملک کے ساتھ تعلقات نہیں رکھتے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ الگ تھلگ ہے۔ جو ہوا اس کا الٹا نتیجہ نکلا۔ ہاں، مغربیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کمزور ہوئے، ہمارا امریکہ سے رشتہ نہیں رہا، یورپ سے بھی ہمارے تعلقات کمزور ہوئے، لیکن ہم نے ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو سو فیصد مضبوط کیا۔ ہم ایشیائی ممالک کے اہم حصے کے ساتھ اپنے سیاسی، اقتصادی، تکنیکی اور سائنسی تعلقات کو جاری رکھیں گے۔ہم کچھ اہم معاہدوں کے رکن بنے۔ دشمن ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتا تھا، ایرانی قوم کی کوششوں اور صلاحیتوں نے ہمیں کچھ اہم اور موثر علاقائی معاہدوں میں شامل ہونے کے قابل بنایا۔ ہم تنہا نہیں ہوئے، بلکہ اس کے برعکس ہم آگے بڑھے اور خطے کی حکومتوں اور قوموں سے ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ مضبوط روابط ہمارے منصوبوں میں شامل ہیں اور انشاء اللہ ہم اس منصوبے پر عمل کریں گے۔ یقیناً ہم یورپ سے بھی ناراض نہیں ہیں۔ ہم ان تمام یورپی ممالک اور حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جو امریکی پالیسیوں پر آنکھیں بند کرکے عمل نہیں کرتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پیش رفت ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی مضبوط بنیاد کی علامت ہے۔

یہ پیش رفت ایمان کے سائے میں، قومی فخر کے احساس کے سائے میں، اندرونی طاقت کی ضرورت کے احساس کے سائے میں ہوئی ہے۔ یعنی ہماری قوم اور ہمارے حکام نے محسوس کیا کہ انہیں اندرونی طاقت اور خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ پہلے وہ غیروں پر بھروسہ کرتے تھے، لیکن انہیں معلوم ہوا کہ دوسروں پر یہ بھروسہ درست نہیں ہے۔ بالاخر آپ کو ایک دن اپنی داخلی صلاحیت اور قومی خودی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ جب ہم نے مزاحمتی معیشت کا اعلان کیا تو ہم نے کہا کہ مزاحمتی معیشت درون زا (endogenous) اور برون گرا (exogenous) ہے؛

درون زا کا مطلب یہ ہے کہ اندرونی طاقت، ہنر اور صلاحیت معیشت کی خدمت میں ہونی چاہیے، اور برون گرا کا مطلب یہ ہے کہ ہم تمام ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے یہ محسوس کیا، ایرانی قوم نے محسوس کیا، ہمارے نوجوانوں نے محسوس کیا، اور ہمارے حکام نے محسوس کیا کہ انہیں اپنی اندرونی طاقت اور داخلی صلاحیت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے [24]۔

22 بہمن، جشن بہار انقلاب اسلامی، پورے ایران میں ریلیاں شروع

انقلاب اسلامی کی 45 ویں سالگرہ کے موقع پر آج اتوار 22 بہمن (11) فروری کو پورے ایران کے شہروں اور قصبوں میں عوام انقلاب اسلامی کا جشن منانے کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں پر ریلیاں نکال رہے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق امام خمینی رہ کی قیادت میں 1979 میں عوام کی وسیع حمایت میں اسلامی انقلاب رونما ہوا۔ آج ایرانی کلینڈر کے مطابق گیارہویں مہینے کی 22 تاریخ کو ایران کے کونے کونے میں زندگی کے ہر طبقے اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسلامی انقلاب کی کامیابی کا جشن منانے کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں پر نکل کر ریلیاں نکال رہے ہیں۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کےسلسلے میں مرکزی ریلی تہران میں نکلے گی۔ دارالحکومت کے مختلف حصوں سے لوگ مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے آزادی اسکوائر پر جمع ہوں گے جہاں صدر مملکت آیت اللہ رئیسی ریلی کے شرکاء سے خطاب کریں گے [25]۔

ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے

علامہ مرزایوسف حسین کے زیر صدارت، مولانا محمدامین انصاری کی میزبانی میں مختلف مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کی سیمینار میں شرکت

ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے۔متحدہ علماء محاذ

امام خمینی نے فلسطین ،وحدت امت وجذبہ حریت کیلئے بیداری پیداکی۔مقررین سیمینار

متحدہ علماء محاذ پاکستان کے زیراہتمام اسلامی انقلاب ایران کی 45ویں سالگرہ کے موقع پرپاک ایران تعلقات و یکجہتی فلسطین سیمینار مرکزی صدر علامہ مرزایوسف حسین کی زیر صدارت ، بانی سیکریٹری جنرل مولانا محمدا مین انصاری کی میزبانی میں مرکزی سیکریٹریٹ گلشن اقبال میں منعقدہواجس میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء و مشائخ ، سیاسی زعماء سمیت مہمانا ن خصوصی ممتاز محقق و دانشور مباہلہ ونر علامہ الیاس ستار، مرکزی چیئرمین علامہ عبدالخالق فریدی سلفی، فلسطین فائونڈیشن پاکستان کے بانی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابومریم، محاذ کراچی کے صدر شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد دائود، جے یو آئی (ف) کے رہنماشیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ترک، علامہ حسن شریفی، علامہ شیخ سکندر حسین نوربخشی،علامہ سید طاہر جمال تھانوی،مولانا منظرالحق تھانوی،علامہ سید سجادشبیر رضوی ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ایران کی طرح اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے۔امام خمینی نے فلسطین ،وحدت امت وجذبہ حریت کیلئے بیداری پیداکی۔،اسلامی انقلاب ایران نے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں میں حریت و بیداری کا جذبہ پیدا کیا۔بانی انقلاب امام خمینی نے قبلہ اول بیت المقدس کی جدوجہد آزادی کو تقویت دینے کیلئے یوم القدس کا جرأت مندانہ اعلان کرکے اسے دنیائے انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ بنادیاہے۔ ربیع الاول میں بعثت رسالت کے موقع پرہفتہ وحدت منانے کے ذریعہ استعمارکے خلاف عالمی اتحاد امت کیلئے گراں قدر خدمات لائق تقلید و ستائش ہیں۔مستحکم و پائیدار پاک- ایران تعلقات دونوں ممالک میں امن و استحکام ، اتحاد ، معاشی ترقی کیلئے سنگ میل ثابت ہوں گے۔پاک ایران تعلقات کی دشمن طاقتوں کے مذموم عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور امن و سلامتی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

غزہ فلسطین پر تاحال روز بروز بڑھتی ہوئی خونی جارحیت اور بمباری کو اقوام متحدہ اور مسلم حکمرانوں کیلئے کھلا چیلنج و تازیانہ قرار دیتے ہوئے فی الفور جنگ بندی اور غذائی و طبی امداد پہنچانے کا مطالبہ کیاگیا۔ حماس و دیگر مقاومتی مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یکجہتی کا اظہار کیاگیا۔سیمینار سے علامہ زاہد حسین ہاشمی مشہدی،مفتی وجیہہ الدین، علامہ مرتضیٰ خان رحمانی،علامہ ڈاکٹر شاہ فیروزالدین رحمانی ،مولانا محمد اظہر فاروقی،مولانا اقبال ڈھروی،نوجوان موٹیویشنل اسپیکرفضائل علی رانا، ڈاکٹر محمد یامین ،NPCIHکے مرکزی سیکریٹری جنرل سفیر امن و سلامتی برائے اقوام عالم پاکستان عمیر احمد آرائیں،سوشل اکٹیوسٹ غلام نبی ،تاجر رہنمامولانا فہیم الدین انصاری،علامہ علی سرکار نقوی،ہندو مذہبی اسکالر منوج چوہان، مولانا حافظ زہیر سلفی ،علامہ پروفیسر عزیز الرحمن صادق سلفی،انجینئر آفتاب عالم صدیقی، میڈیا کوآرڈینیٹر فاروق احمد ریحان ،تسنیم زیدی، مولانا رجب علی نوربخشی، مفتی وجیہہ کے نوعمر صاحبزادے حافظ نعمان نے خطاب کیا،مولانا پیر حافظ گل نواز خان ترک،حافظ محمد صہیب نے تلاوت قرآن پاک سے سیمینار کا آغاز کیاجبکہ معروف نعت و منقبت خواں خواجہ پیر سید معاذ علی نظامی ،حسین الدین شاہ رحمانی،کرامت علی نوربخشی نے بارگاہ رسالت ،اہل بیت اطہارو اصحاب رسول کی شان اقدس میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ علامہ مرزایوسف حسین نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی فتح یابی، افواج پاکستان کی کامیابی ،ملکی امن و استحکام کیلئے خصوصی اختتامی دعا کرائی [26]۔

حوالہ جات

  1. سید عدیل زیدی، پاک ایران تعلقات میں بہتری کا سنہری موقع، mam-khomeini.ir
  2. عثمان دموہی، پاک ایران تعلقات اور بھارت، express.pk
  3. اسلامی جمہوریہ ایران کیساتھ بدستور رابطے میں ہیں دشمنوں کی خواہش کے برعکس پاک ایران تعلقات میں مزید اضافہ کرنا ہوگا: ایرانی سپریم لیڈر، mfa.gov.ir
  4. پاک ایران تعلقات بہتری کی طرف، dailypakistan.com.pk
  5. ہم پاکستان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ، mehrnews.com
  6. ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات، mehrnews.com
  7. نواب علی اختر، امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں،qaumiawaz.com
  8. امام خمینی‌، ج‌۳، ص‌۴۸۶؛ روزها و رویدادها، ج‌۱، ص‌۸۱
  9. «متن کامل پیشنهادی پیش‌نویس قانون اساسی»، ص‌۵۶
  10. هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۵۳۵۴
  11. ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۶، ۸۷، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۳۳،
  12. آئین کے ان شقوں کا مطالعہ کریں: ۴۵، ۸، ۱۲، ۱۹۲۰، ۲۶، ۶۱، ۶۴، ۶۷، ۷۲، ۹۱، ۹۴، ۱۰۹، ۱۱۵، ۱۵۷، ۱۶۲۱۶۳، ۱۶۷
  13. اصول ۳، ۱۳، ۱۹۲۰، ۲۶
  14. مطالعہ کریں، هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۱۶۱۱۶۶
  15. مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۲۲۲۲۲۶، ۲۲۸۲۳۴
  16. مطالعہ کریں: ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۳، ۱۱، ۱۵۲، ۱۵۴،۱۵۵
  17. مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۴۱۲-۴۳۳؛ شفیعی‌فر، ص‌۸۴-۸۶
  18. هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۲، ص‌۱۷
  19. ہاشمی، 1925، جلد 2، ص1217
  20. اصول 4؛ شعبانی، ص 7983
  21. اصول 109؛ ہاشمی، 1994، جلد 2، صفحہ 45
  22. اصول 91، 96، 110
  23. ایران۔ آئین، اصول 91، 9899؛ مدنی، 13601369ش
  24. اسلامی انقلاب کے سائے میں ایران کی شاندار ترقی، mehrnews.com
  25. 22 بہمن، جشن بہار انقلاب اسلامی، پورے ایران میں ریلیاں شروع، mehrnews.com
  26. کراچی(راہ انصار نیوز15 فروری24)