ابراہیم عقیل
ابراہیم عقیل | |
---|---|
دوسرے نام | الحاج تحسین، الحاج عبدالقادر |
ذاتی معلومات | |
یوم پیدائش | 24دسمبر |
پیدائش کی جگہ | لبنان |
یوم وفات | 20 ستمبر |
وفات کی جگہ | حارہ حریک |
مذہب | اسلام، شیعہ |
مناصب | حزب اللہ لبنان کے رضوان یونٹ کے کمانڈر |
سید ابراہیم عقیل حزب اللہ لبنان کے ایک اعلیٰ کمانڈر تھے اور انہوں نے حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورسز کی قیادت کی۔ رضوان فورسز کو اسرائیل اور لبنان کے ساتھ اپنی سرحد سے مزید دور دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابراہیم عقیل حزب اللہ کی اعلیٰ ترین جہاد کونسل کے رکن بھی تھے۔ ابراہیم عقیل امریکہ کی مطلوبہ فہرست میں شامل تھے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ عقیل اس گروپ کا حصہ تھے جس نے 1983ء میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر بمباری کی اور جرمن اور امریکیوں کو یرغمال بنانے کا منصوبہ بنایا[1]۔
اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ کے دوران کلیدی کردار
شہید ابراہیم عقیل حزب اللہ کے خصوصی یونٹ رضوان کے اعلی کمانڈر تھے جو صہیونی حکومت کے حملے میں شہید ہوگئے۔ مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ حزب اللہ کے اعلی کمانڈر ابراہیم عقیل المعروف تحسین جمعہ کے دن صہیونی حکومت کے ضاحیہ پر دہشت گرد حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ نے رسمی طور پر ان کی شہادت کی تصدیق کردی ہے۔
شہید ابراہیم عقیل حزب اللہ کے خصوصی دستے رضوان کے اعلی کمانڈر تھے۔ شہید فواد شکر کے بعد ان کا شمار حزب اللہ کے بڑے کمانڈروں میں ہوتا تھا۔ امریکہ نے ان کی شہادت، گرفتاری یا اطلاعات دینے پر 7 ملین ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔ شہید ابراہیم عقیل حزب اللہ کی کاروائیوں کے دوران مرکزی کردار ادا کرتے تھے۔ مسلح کاروائیوں کے دوران ان کو حاج عبدالقادر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انہوں نے تنظیم کی سرگرمیوں اور جہادی کاروائیوں میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ کے دوران کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس جنگ میں حزب اللہ نے پیچیدہ جنگی تیکنیک کے ذریعے صہیونی حکومت کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ شہید ابراہیم عقیل نے صہیونی حکومت کے خلاف کاروائیوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ 33 روزہ جنگ کے دوران حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں صہیونی فوج کو ناکوں چنے چبوایا تھا۔ جنگ کے بعد غیر جانبدار حلقوں نے حزب اللہ کو جنگ کی فاتح قرار دیا تھا۔ شہید عقیل اور دوسرے کمانڈروں کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے حزب اللہ خطے میں مزید اہم کردار ادا کرنے لگی۔
مختلف جہادی کاروائیوں کے دوران اپنی کارکردگی کی وجہ سے شہید عقیل کا نام حزب اللہ کے سرفہرست رہنماوں میں آگیا جنہوں نے صہیونی حکومت کے مقابلے میں لبنانی سرحدوں کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔ صہیونی حکومت اور عالمی سامراج کے خلاف کامیاب کاروائیوں کے بعد امریکہ سمیت مغربی ممالک نے ان کا بلیک لسٹ میں شامل کردیا اور ان کے اثاثے ضبط کرتے ہوئے ان پر سفری پابندی عائد کردی۔
شہید ابراہیم عقیل نے خطے کی مقاومتی تنظیموں حزب اللہ اور حماس کے درمیان روابط برقرار کرنے کے لئے بنیادی کردار ادا کیا جس کی وجہ سے صہیونی حکومت اور سامراجی طاقتوں کے خلاف مقاومت میں اہم پیشرفت ہوئی[2]۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ اب ایک نئی سمت میں بڑھ چکی ہے جہاں تشدد کا مرکز غزہ سے لبنان منتقل ہو گیا ہے۔حزب اللہ نے اپنے اہم اور سینئر کمانڈر اور الرضوان فورس کے سربراہ ابراہیم عقیل عُرف باسم الحاج عبدالقادر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ تنظیم کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملے میں الرضوان فورس کے متعدد دیگر کمانڈر بھی مارے گئے ہیں۔ العربیہ اور الحدث نیوز چینلوں کے ذرائع کے مطابق اسرائیلی "ایف 35" لڑاکا طیارے نے بیروت کے جنوبی مضافات میں حملہ کیا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کے مطابق عقیل کے ہمراہ حزب اللہ کے تقریبا 10 سینئر لیڈر ہلاک ہوئے۔
امریکی نیوز ویب سائٹ axios نے بتایا ہے کہ حملے میں حزب اللہ کی الرضوان فورس کی پوری قیادت (20 کمانڈروں) کو ختم کر دیا گیا۔ ابراہیم عقیل کو فؤاد شکر کے بعد حزب اللہ کا دوسرا اہم عسکری اہل کار شمار کیا جاتا ہے جو واشنگٹن کو مطلوب تھا۔ فؤاد شکر 30 جولائی کو بیروت کے جنوبی مضافات میں اسرائیلی حملے میں مارا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ ابراہیم عقیل اور رضوان فورس کے رہنما ایک زیر زمین سرنگ میں تھے جب انہیں نشانہ بنایا گیا۔حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے رپورٹ کیا کہ وہ اسرائیل سے منسوب ریڈیو کمیونیکیشن ڈیوائس کے دھماکوں میں مارے گئے۔بدھ کے روز حزب اللہ کے مقتولین میں " رضوان فورس" کا فیلڈ کمانڈر علی جعفر معتوق اور جماعت کے پانچ ارکان بھی شامل تھے۔ سر پر7 ملین ڈالر انعام والا ابراہیم عقیل کون تھا؟
امریکی محکمہ خارجہ نے حزب اللہ کے ممتاز رہنما ابراہیم عقیل کی شناخت، اس کے ٹھکانے، یا اس کی گرفتاری تک پہنچانے والی معلومات فراہم کرے گا۔ 7 ملین ڈالر کے انعام کی پیشکش کی تھی۔ 1980 کی دہائی میں عقیل اسلامک جہاد موومنٹ کا ایک اہم رکن تھا۔ حزب اللہ کے دہشت گرد سیل جس نے اپریل 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
ابراہیم عقیل جسے تحسین بھی کہا جاتا ہے پارٹی کی اعلیٰ ترین فوجی کونسل یعنی جہاد کونسل کے رکن تھے۔ 1980 کی دہائی میں ابراہیم عقیل اسلامی جہاد تحریک کے ایک اہم رکن تھے۔ اس گروپ نے اپریل 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 63 افراد ہلاک ہوئے۔ تھے۔ گروپ نے اکتوبر 1983 میں امریکی میرین بیرکوں پر بمباری کی تھی اور اس میں 241 امریکی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
1980 کی دہائی میں عقیل نے لبنان میں امریکی اور جرمن باشندوں کو یرغمال بنانے اور وہاں رکھنے کے آپریشن کا بھی انتظام کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 10 ستمبر 2019 کو عقیل کو بین الاقوامی دہشت گرد کے طور پر نامزد کیا۔ ابراہیم عقیل کا تعلق جنوبی لبنان کے ایک قدامت پسند شیعہ ماحول سے ہے۔ وہ ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو 1980 کی دہائی کے اوائل میں حزب اللہ ملیشیا کی کارروائیوں سے وابستہ رہے ہیں۔
ابراہیم عقیل کی شخصیت میں ابہام اور رازداری کی خصوصیت تھی کیونکہ وہ میڈیا کی روشنی سے ہٹ کر پردے کے پیچھے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 8 اکتوبر 1997 کو امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کے سیکشن 219 کے تحت حزب اللہ کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا تھا۔
حکمہ خزانہ نے 31 اکتوبر 2001 کو حزب اللہ کو خصوصی طور پر نامزد بین الاقوامی دہشت گرد کے طور پر نامزد کیا تھا[3]۔
- ↑ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے حزب اللہ کے 7 اعلیٰ عہدے دار کون تھے؟-شائع شدہ از: 30 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔
- ↑ صہیونی حملے میں شہید ہونے والے اعلی کمانڈر ابراہیم عقیل کون تھے؟-شائع شدہ از: 21 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 ستمبر 2024ء۔
- ↑ اسرائیلی فوج کا حملہ، رضوان فورس چیف ابراہیم عقیل سمیت سب کمانڈرزشہید- شائع شدہ از: 21 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 15 دسمبر 2024ء۔