تصوف

ویکی‌وحدت سے

تصوف اسلامی شریعت الہی کی سختی سے پابندی کا نام تصوف ہے۔ تصوف کا لفظ سین سے تھا اور اس کا مادہ صوف تھا جو یونانی زبان میں حکمت کے لیے بولا جاتا ہے۔ تصوف میں ہر سلسلے کا اپنا مخصوص فکری نظام رہا ہے اور ہر سلسلے میں اوراد، بیعت، تعلیم و تربیت، ذاکر و اذکار اور معاشرت کے طور پر طریقے دوسرے سلسلوں سے مختلف ہوتے ہیں اور اخلاقی زندگی کو تصوف میں خلق روجانی زندگی کی بنیاد کو کہتے ہیں۔

تصوف کے معنی

  • صوفیوں کا عقیدہ
  • علم معرفت
  • دل سے خواہشوں کو دور کرکے اللہ تعالی کی طرف دھیان لگانا
  • تزکیہ نفس کا طریقہ
  • پشمینہ پہننا [1]۔

ابوالحسن سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں صوفی کا لفظ صفا سے ماخوذ ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ صوفی کو صوفی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے معاملات صفا اور صاف ہوتے ہیں تو صفا کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے اس کو صوفی کہا جاتا ہے۔ بشر بن الحارث کا اس بارے میں خیال یہ ہے کہ صوفی اس کو کہتے ہیں جس نے اپنے معاملات اللہ کے حوالے کر دیئے ہوں تو اللہ پاک بھی اسے عزت اور کرامت سے نوازتے ہیں۔ ایک اور گروہ کا خیال ہے کہ صوفیوں کو صوفی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ صف اول میں ہیں یعنی بلند خیال اور مشقت و محنت کی وجہ سے وہ اللہ کے انتہائی قریب ہوتے ہیں اور اپنے تمام معاملات اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ صف اول میں ہونے کی وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ صوفیوں کو صوفی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں وہ اوصاف عادات اور صفتیں پائی جاتی ہیں جو اہل صفہ کی تھیں۔ اہل صفہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں فقرا اور مساکین کا ایک گروہ تھا ان کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔ جس نے ان کی نسبت اصحاب صفہ اور صوف یعنی اون کی جانب کی ہے تو اس نے ان کے ظاہری احوال کو سامنے رکھا اس لیے کہ صوفی حضرات دنیا کو چھوڑنے گھربار سے نکلنے، بستر سے دور رہنے، شہروں کی سیر کرنے، بھوکا رہنے، برہنہ رہنے پر یقین رکھتے ہیں [2]۔

تصوف کا آغاز

ایک قسم کی رہبانیت سے ہوا اور دوسری صدی ہجری میں صوفیاء کی جماعتوں اور سلسلوں کا آغاز ہوا۔ تصوف میں امیر و غریب، عالم و جاہل، شریف و رذیل کی تمیز جو ہر مذہب کے روایتی نظام میں کم و بیش پائی جاتی ہے اس لیے یوں کہنا کہ تصوف جمہوریت کے اصول اخوت و مساوات کی طرح اثر رکھتی ہے۔ مسلم آبادی کا تصوف کی طرف مائل ہونے کی یہی وجہ ہے۔ تصوف میں صوفیاء کی خانقاہیں اور سلسلے قائم ہیں، اسلامی صوفیوں کی پہلی خانقاہ رملہ کی خانقاہ ہے جو فلسطین میں ہے چونکہ صوفیوں کے مختلف شجروں کے منتہی حضرت علی علیہ السلام ہی قرار پاتے ہیں۔ شیعوں کی طرح صوفیہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو اپنا پیشوا اور امام مانتے ہیں شاہ ولی اللہ کے ںزدیک حضرت علی علیہ السلام اس امت کے پہلے مجذوب اور پہلے صوفی و عارف ہیں اگرچہ صوفیہ کرام کی بھاری اکثریت کا تعلق تو سنی مسلک سے رہا ہے پھر بھی انہوں نے تمام صحابہ کرام میں سے حضرت علی علیہ السلام ہی کو انتخاب کیا۔ حضرت علی علیہ السلام کو ایک مخصوص علم عطا کیا گیا تھا اور وہی علم در اصل تصوف کا سرچشمہ ہے صوفیہ کرام کے تمام سلسلے سوائے نقشبندی سلسلے کے جو ابوبکر صدیق سے منسوب ہے باقی تمام سلسلے حضرت علی علیہ السلام کی ذات پر ختم ہوئے ہیں۔ تصوف کا مظہری معراج کرامات ہوتی ہیں تصوف میں اولیاء کرام کی کرامات کا ذکر ہوتا ہے اور جتنے بڑے اولیاء اللہ ہوں گے اتنی ہی بڑی کرامات کا ذکر تصوف میں ملے گا ہند و پاک میں تصوف کی ابتداء تصور شیخ سے کی جاتی ہے۔

ہند و پاک میں تصوف کی ابتداء

ہندوستان میں صوفیاء خانقاہوں کا ذکر ہمیں پرتھوی راج کے عہد ہی سے ملنے لگتا ہے سب سے پہلے چشتہ اس کے بعد سہروردیہ اور پندرھویں صدی میں عبدالحق محدث نعمت اللہ قادری نے سلسلہ قادریہ کو فروغ دیا اور اکبر کے عہد میں خواجہ باتی باللہ نے سلسلہ نقشبندی شروع کیا اور اس سلسلہ کی تکمیل ان عزیز مرید مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے ہاتھوں ہوئی۔ مغلوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں صوفیوں کی مقبولیت عام ہوچکی تھی۔ بابا فرید گنج شکر نظام الدین اولیاء اور میر خسرو کی مقبولیت کے قصے تصوف کی کتابوں میں کثرت سے ملیں گے۔ اکبر کے زمانہ میں بابا سلیم چشتی کے خیالات عروج پر تھے۔ سہروردی اور چشتی صوفیاء شریعت کے پابند تھے۔ ہندوستان میں سہروردی کے سلسلے کے بانی شیخ شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی فکر و عمل کے اعتبار سے اسلام کے نمائندہ علماء میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ دوسرے چشتی صوفیاء سماع کو روحانی ترقی کے لیے معاون تصور کرتے تھے۔ چشتی سلسلہ ہندوستان کا سب سے مقبول اور معروف سلسلہ تصوف ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، فرید الدین گنج شکر، نظام الدین اولیاء اور شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی جسیے عالموں سے ہند و پاک کے لوگ مستفید ہوتے رہے۔ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ہندوستان کے مشہور صوفی ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پیر مکی سید عزیز الدین ان کے بعد خواجہ معین الدین چشتی کا دور آتا ہے۔ لعل شہباز قلندر خلیفۂ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی خواجہ غلام فرید پنجابی صوفی شاعر ہیں۔

تصوف کے بنیادی عقائد

تصوف کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنی فکری کاوشوں ( یعنی انسانی ذرائع علم) کے بغیر براہ راست اللہ سے علم حاصل کرسکتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے قرآن نے وحی کہہ کہ پکار اور ارباب تصوف نے اس علم کا وحی کی بجائے کشف و الہام یا باطنی علم رکھ لیا۔ لیکن یہ صرف نام کا فرق ہے۔ اصل میں کشف اور الہام میں کوئی فرق نہیں اہل تصوف کا دعوی ہے کہ اس علم میں انسانی عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اس لیے اہل تصوف اس باطنی علم کو اہمیت دیتے ہيں۔ صوفیہ کرام کی بھاری اکثریت کا تعلق مسلمانوں کے خلفائے ثلاثہ کے طبقے سے ہیں لیکن ان کے بہت سے عقائد و نظریات عام سنی مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ حلول، وحدت الوجود، اتحاد، رجال الغیب بھی تصوف کے بنیادی عقائد میں سے ہیں۔ شام (عربی سوریہ) مغربی ایشیا کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ شام اسلامی ممالک میں سے ایک ہے اور اس کے شمال میں ترکی ، مشرق اور جنوب مشرق میں عراق ، جنوب میں اردن ، جنوب مغرب میں فلسطین اور مغرب میں لبنان واقع ہے۔ یہ ملک دنیا کے قدیم تریں ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا شام (سوریہ) 1946ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہو گیا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جن میں اکثریت عربوں کی ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں سریانی، کرد، ترک اور دروز بھی اس ملک میں رہتے ہیں۔ شام کا دار الحکومت دمشق ہے، دیگر اہم شہروں میں حلب، حمص، حماہ اور لاذقیہ ہیں۔

تصوف کی قسمیں

تصوف اس کا مطلب موٹا کپڑا یا اون کا کمبل نما کپڑا کے ہیں اور اس لفظ کی مناسبت سے مسلک تصوف کی بنیاد پڑی۔ تصوف کے ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کی تین قسمیں ہیں۔ صوفی، متصوف اور معصوف

صوفی

صوفی کو صف سے ماخوذ کیا گیا ہے جو صوفیاء وہ لوگ ہیں جو اللہ کے حضور صف اول میں کھڑے ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں صوفی وہ ہے جو خود کو فنا کرکے حق کے ساتھ مل جائے اور خواہشات نفسانیہ مثلا عورت۔ دولت، زمین، باغات، مکانات اور تجارت کی محبت اپنے دل سے بالکل خارج کردیتا ہے۔ اور اللہ کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور جب ایک شخص ایسا کرتا ہے تو وہ بالکل خود بخود صوفی بن جاتا ہے۔

حوالہ جات

  1. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسا‏ئیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء، ص180-181
  2. احسان الہی ظہیر، تصوف تاریخ اور حقائق، ادارہ ترجمان السنۂ لاہور پاکستان، 2010ء، ص 31-32