ایران

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 11:26، 27 جنوری 2024ء از Mahdipor (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (Mahdipor نے صفحہ مسودہ:ایران کو ایران کی جانب بدون رجوع مکرر منتقل کیا)
ایران
Flag of Iran.svg
Iran (orthographic projection).svg
سرکاری نامایران
پورا ناماسلامی جمہوریہ ایران
طرز حکمرانیوفاقی جمہوریہ
دارالحکومتتہران
آبادی88,915,440
مذہباسلام
سرکاری زبانفارسی
کرنسیریال

اسلامی جمہوریہ ایران جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔ اسلام ملک کا سرکاری مذہب اور فارسی ملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے اور اس کے سکے کو ریال کہتے ہیں۔ فارسوں، آذربائیجانی ترک، کردوں (کردستانی)، لروں (لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک میں سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں اور ایران کے سیاسی نظام اسلامی ہے جو ایران میں فروری 1357 سے قائم ہوا ہے۔ یہ نظام کے دو ستوں اسلامیت جو مشروعیت کی بنیاد اور جمہوریت جو حکومت ولی فقیہ کی مقبولیت کی بنیاد ہے، جو ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب (22 بہمن 1357) کی فتح کے بعد وجود میں آیا۔ 1957 کے انقلاب کے بعد اس سیاسی نظام کو، آمرانہ سامراجی اور شاہی نظام کا جانشین، 12 اپریل 1358 کو ہونے والے ریفرنڈم میں باضابطہ شکل دی گئی، جس میں ووٹ دینے کے اہل افراد میں سے 98.2 فیصد نے حصہ لیا، جن میں سے 97 فیصد سے زائد نے ووٹ دیا۔ اسلامی جمہوریہ کے لیے اس ریفرنڈم میں کل438 ،20،422 نے ہاں میں، 367،604نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ اس ریفرنڈم کے اختتام کے ساتھ ہی رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے 12 اپریل 1358 کو 24:00 بجے اپنے ایک پیغام میں اس دن کو زمین پر خدا کی حکومت کا دن قرار دیا اور باضابطہ اسلامیہ جہوریہ کے قیام کا اعلان فرمایا اور تہران میں ایران کے دار الحکومت شہر ہے۔

جغرافیا

عرف عام میں ایران اور موجودہ فارسی نام: جمهوری اسلامی ایران جو جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔ اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام اور فارسی ملک کی قومی اور بین النسلی زبان ہے اور اس کے را‏ئج سکے کو ریال کہتے ہیں۔ فارسوں، آذربائیجانی ترک، کردوں (کردستانی)، لروں (لرستانی)، بلوچی، گیلکی مازندرانی، خوزستانی عرب اور ترکمان ملک میں سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں جو اس ملک میں زںدگی کرتے ہیں۔ ایران جغرافیائی اعتبار سے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے قدرتی گیس، تیل اور قیمتی معدنیات اس کےدامن میں پوشیدہ ہیں۔ رقبہ کے اعتبار سے ایران دنیا میں 17ویں نمر پر ہے یہ ملک دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ اس ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہےجو مدائن سلطنت 678 ق۔م سے لے کرصفوی سلطنت و پہلوی سلطنت تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایران اپنے تہذیب تمدن کے اعتبار سے ایشیا میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے پر قابض ہے۔ یورپ اور ایشیا کے وسط میں ہونے کے باعث اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ یہ ملک اقوام متحدہ، غیر وابستہ ممالک کی تحریک (نام)، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) کا بانی رکن ہے۔ تیل کے عظیم ذخائر کی بدولت بین الاقوامی سیاست میں ملک اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ لفظ ایران کا مطلب آریاؤں کی سرزمین ہے۔ ریاست ایران 1648195 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ایران کی کل آبادی 85 ملین ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ایران دنیا میں ستارہویں نمبر پر ہے۔

انتظامی تقسیم

ایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں یا استان میں تقسیم کیا گیا ہے۔

  • صوبہ اردبیل
  • صوبہ البرز
  • صوبہ آذربایجان شرق
  • صوبہ آذربایجان غربی
  • صوبہ بوشہر
  • صوبہ چهارمحال و بختیاری
  • صوبہ فارس
  • صوبہ گیلان
  • صوبہ گلستان
  • صوبہ ہمدان
  • صوبہ ہرمزگان
  • صوبہ ایلام
  • صوبہ اصفہان
  • صوبہ کرمان
  • صوبہ کرمانشاہ
  • صوبہ خراسان شمالی
  • صوبہ خراسان رضوی
  • صوبہ خراسان جنوبی
  • صوبہ خوزستان
  • صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد
  • صوبہ کردستان
  • صوبہ لرستان
  • صوبہ مرکزی
  • صوبہ مازندران
  • صوبہ قزوین
  • صوبہ قم
  • صوبہ سمنان
  • صوبہ سیستان و بلوچستان
  • صوبہ تہران
  • صوبہ یزد
  • صوبہ زنجان

ایران ترقی کے راستے پر

یہ ملک مشرق وسطی میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قزوین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس اور خلیج اومان جبکہ مغرب میں عراق اور ترکی واقع ہیں۔ ملک کا وسطی و مشرقی علاقہ وسیع بے آب و گیاہ صحراؤں پر مشتمل ہے جن میں کہیں کہیں نخلستان ہیں۔ مغرب میں ترکی اور عراق کے ساتھ سرحدوں پر پہاڑی سلسلے ہیں۔ شمال میں بھی بحیرہ قزوین کے اردگرد زرخیز پٹی کے ساتھ ساتھ کوہ البرس واقع ہیں۔

8 اپریل کی تاریخ ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے مناسبت رکھتی ہے۔ اس دن مقامی ٹیکنا لوجی کی بنیاد پر یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیاں شروع کیے جانے سے مناسبت سے منایا جاتا ہے ۔ اس بڑی سائنسی کامیابی کے اعلان کے بعد اس ملک کے ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کی منظوری اور ایران کے جوان دانشوروں کی قابل افتخار کوششوں کی قدردانی کے مقصد سے 8 اپریل کی تاریخ کو ایران میں جوہری ٹیکنالوجی کے قومی دن سے موسوم کیا گیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا اطلاق، ایٹم کے شگاف اور انھیں جوڑنے کی توانائی کے ذریعے قدرتی یورینیم کو افزودہ یورینیم میں تبدیل کرنے کی توانائی پر ہوتا ہے۔ پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ایران سنہ 1958ء میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968ء میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔

سیاست

محمد رضا شاہ پہلوی، ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلےاس ملک کے بادشاہ تھے۔ ایران کے موجودہ آئین 1979ء کے انقلاب کے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر انقلاب (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آج کل آیت اللہ علی خامنہ ای اس ملک کے سپریم لیڈر ہیں۔ رہبر کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس (مجلس خبرگان رہبری) کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما منتخب کیے جاتے ہیں۔ رہبر معظم مسلح افواج کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔ حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے اور صدر کو پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسیحیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لیے شوریٰ نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔

شوری نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شوری نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو ویٹو کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔ قانون سازی کے حوالے سے مجلس شورای اسلامی اور شوری نگہبان کے درمیان میں پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے 1988ء میں "مجمع تشخیص مصلحت نظام" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔ اگست 1989ء سے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر کا مشیر ادارہ بن گئی ہے اور اس کے سربراہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہیں اور اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شوری نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ رہبر تین سال کے لیے ارکان نامزد کرتا ہے۔ مجلس کے بڑے گروہوں کو عموما اصلاح طلب "اصلاح پسند" اور اصول گرا "قدامت پرست" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت مجلس میں "آبادگران" کا اتحاد غالب ہے۔ یہ قدامت پرست ہیں۔

یورینییم کی افزدوگی

تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورینییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں، یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔

جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی

جوہری شعبے میں ایران کی ایک اور کامیابی، فیوز یعنی پگھلانے والی مشین تیار کرنا ہے۔ ایران اس وقت اس حوالے سے ٹیکنالوجی رکھنے والے دنیا کے پانچ ملکوں میں شامل ہے اور ایران مشرق وسطی کا واحد ملک ہے کہ اس سلسلے میں جس کی سرگرمیاں آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں۔

امید کی جاتی ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں جوہری دنیا، توانائی کی پیداوار میں جوہری شگاف سے اسے پگھلانے کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایران اس وقت اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھہ مشترکہ جوہری منصوبوں منجملہ یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی فیوز کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی توانائی رکھتا ہے اور اس نے یہ ٹیکنالوجی آئی اے ای اے کی زیر نگرانی ہی حاصل کی ہے مگر پھر بھی امریکا اور گنتی کے چند دیگر ممالک کہ جن سے ایران کی ترقی و پیشرفت برداشت نہیں ہوپا رہی ہے۔

ایران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہان تک کہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے۔

بین الاقوامی تعلقات

1997ء میں صدر سید محمد خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔ 1998ء میں برطانیہ اور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کا سلمان رشدی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 1999ء میں برطانیہ اور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔

ایران اور امریکا کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے ہے ۔ جولائی 2001ء میں امریکا نے ایران اور لیبیا پر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کے لیے توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو "بدی کے محور" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطی کے امن کو خراب کرنے کے خواہش مند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نانو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے جس کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ مطالب قارئین کی معلومات افزائی کے لیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ ائرواسپیس ایٹمی ٹیکنالوجی نانو ٹیکنا لوجی کلوننگ میڈیکل دفاعی

عراق سے تعلقات

1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن اس نے اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا عراق کی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرف معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں عراق کی مدد کر رہا ہے۔ 30 نومبر 2004ء کو عراق میں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب، کویت، ترکی، اردن اور مصر کے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔

افغانستان

ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آ رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پزیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اسرائیل

1979ء میں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے اقدامات پر بھی اعتراضات کرتا رہتا ہے اور مبینہ طور پر فلسطین اور لبنان کے ان اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔

آبادیات

ایران ایک متنوع ملک ہے جہاں بہت سے نسلی گروہ پائے جاتے ہیں، ان میں فارسی بولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایران کی آبادی تیزی سے بڑھی، 1956ء میں ایران کی آبادی صرف 19 ملین تھی جو 2009ء تک 79 ملین تک جاپہنچی۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں ایران کی شرح پیدائش میں نمایا کمی آئی ہے 2012ء میں لیے گئے اندازے کے مطابق ایران کی شرح پیدائش 1.29 فیصد رہی۔

ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر افغانستان اور عراق میں جاری جنگوں کے باعث ایران آئے ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق حکومتِ وقت پر ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں جن میں جان و مال کا تحفظ، طبی سہولیات، معزور افراد کی دیگ بال، وغیرہ شامل ہیں اور ان چیزوں پر خرچہ بجٹ کے ذریعے حاصل کردہ ریونیو (سالانہ آمدنی) سے کیا جاتا ہے۔

زبانیں

ملک کی اکثریت باشندے فارسی زبان بولتے ہیں جو اکثریتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سرکاری زبان بھی ہے۔ ایران میں بولے جانے والے زبانیں اکثر ہند-ایرانی زبانیں ہیں۔ اقلیتی زبانوں کی بات کی جائے تو ایران کے شمال مغرب میں آذربائجانی، شمال میں ترکمن اور مشرق میں پاکستانی سرحدوں کے قریب علاقے میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔

ایران میں 53 فیصد افراد کی فارسی، 16 فیصد کی آذربائجانی، 10 فیصد کی کردی، 7 کی فیصد گیلکی اور مزدارین، 7 فیصد کی لوری، 2 فیصد کی عربی اور 2 فیصد کی بلوچی مادری زبان ہے۔ تاہم ان تمام مادری زبانوں کا استعمال صرف بطور علاقائی زبان کیا جاتا ہے باقی ملک بحر میں فارسی ہی استعمال ہوتی ہے۔

مذہب

تاریخی طور پر زرتشتیت ایران کا قدیم مذہب تھا خاص کر ہخامنشی سلطنت، سلطنت اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے لگ بگ مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں سے آتش پرست ساسانی سلطنت کا سقوط ہو گیا، مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ ایران میں لوگ 15ویں صدی تک سنی اسلام کے پیروکار تھے، تاہم 1501ء میں صفوی سلطنت قائم ہو گیا جس نے 16ویں صدی میں مقامی سنی مسلم آبادی کو دباؤ کے ذریعے اثنا عشریہ اہل تشیع مسلم میں تبدیل کیا۔ آج اثنا عشرہ شیعہ اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کے پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی کے 2 فیصد غیر مسلم ہیں۔

امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں

امام خمینی نےاسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی۔ ہمارے زمانے میں جو چیزاسلامی انقلاب کے نام سے ظہور پذیر ہوئی ہیں، دوست او ر دشمن ہرایک کے تصورات سے بالا تر تھی۔ مختلف ممالک میں اسلامی تحریکوں کی مسلسل شکست کی وجہ سے مسلمان یہ سوچنے لگے تھے کہ جو وسائل دشمنان اسلام کے اختیار میں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت کی تشکیل عملاً ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف مخالفین اسلام بھی اپنے منصوبوں اور سازشوں کے تحت مطمئن ہو چکے تھے کہ خود مسلمانوں اور اسلامی ملتوں کے درمیان انہوں نے مذہب ، قوم ، نسل اور مسلک کے نام پر جو اختلافات پیدا کر دیئے ہیں ان کی بنیاد پر ان ممالک میں اسلامی حکومت نام کی کوئی شے وجود میں لانا اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ خود ایران کے اندر گزشتہ پچاس برسوں میں پہلوی حکومت کے ہاتھوں اسلام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں کی گئیں۔ پہلوی شہنشاہیت نے نہ صرف اپنے دربار میں بلکہ ملک کے تمام حساس مقامات پر اخلاقی اقدار کی پامالی کا بازار گرم کر رکھا تھا، شاہ ایران نے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن بر پا کر کے جو دراصل مجوسیت کا مظہر تھا اور ہجری تاریخ کا نام شہنشاہی تاریخ میں تبدیل کر کے علامی کفر اور استعار کے تسلط کے لئے مکمل طور پر زمین ہموار کر دی تھی ایسے ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی یقینا ًنا قابل تصور اور غیر معمولی چیز تھی۔

بلا شبہ جس ہستی نے اس انقلاب کی قیادت و رہبری کی ملکی و غیرملکی تما م تر رکاوٹوں اور مادی وسائل کی کمیوں کے باو جود پوری ملت کو اپنے گرد جمع کر کے نہ صرف اس اسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی یقینا ًیہ ہستی عالم اسلام کی ایک غیر معمولی اور استثنائی شخصیت کی حامل ہے۔ ظاہر ہے اس عظیم ہستی نے مسلمانوں کی آگاہی او ربیداری، ان کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور ان کے امراض کی تشخص اور علاج کے سلسلہ میں بے پناہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائی ہیں،کل(3جون)کی تاریخ کوعالم اسلام نے ایک بارپھر سید روح اللہ خمینیؒ کوان کی 29ویں برسی پریادکیا ۔امام خمینیؒ کی قیادت میں 1979 میں دنیائے اسلام کا پہلا عوامی انقلاب رونما ہوا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کا سب سے طاقتور شاہی نظام حکومت زمین بوس ہوگیا۔ کسی اہل نظر نے کیا خوب کہا ہے کہ جب مصر میں الازہر الشریف کا علمی دبدبہ، صوفیاءکی روحانیت اورہردلعزیزی اوراخوان المسلمین کا نظم وضبط سب آپس میں مل جائیں تو انقلاب ظہور پذیر ہوگا۔ ایران کے تناظر میں یہ تینوں چیزیں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی شخصیت میں جمع کردی تھیں۔امام خمینی علم فقہ کے بلند ترین مقام پر فائز تھے اور ایرانی عوام کی عظیم اکثریت مسائل فقہ میں ان ہی کی طرف رجوع کرتی تھی۔ تصوف وعرفان کے لحاظ سے ان کا شمار صاحب حال اہل اللہ میں ہوتا تھا۔ ان کی عارفانہ غزلیں حافظ کی غزلوں کے برابر مانی جاتی ہیں۔ ان کے پیروکاروں اور مریدوں نے بالعموم اورطلباءو تلامذہ نے بالخصوص کمال نظم وضبط کے ساتھ ان کے انقلابی پیغام کو ایران کے شہرودیہات اورکوچہ وبازار میں اس طرح سے پھیلایا کہ شاہی جبرواستبداد کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور انقلاب کی پرنور صبح کے طلوع ہونے کا راستہ ہموار کیا۔

امام خمینی کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح سے دنیا کے دیگر علاقوں میں جابر اور سامراج نظام کی بدعنوانی اور فسادی سرگرمیاں بے نقاب ہوئیں۔آیت اللہ خمینی ؒ ایک اصولی اور گہری سوچ رکھنے والے لیڈر تھے جنہوں نے ایران میں انقلاب کے شروع دن سے عوام کے دل جیت لئے۔انہوں نے ایران میں اسلامی نظام کی بنیاد رکھ کر دنیا میں نئی حکمرانی کا طریقہ روشناس کرایا۔آپؒ نے جمہوریت کو اپنے مقاصد کا اہم ستون قرار دیا اورآج انقلاب کی فتح سے 40 سال گزرنے کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں جمہوریت روشن ستارے کی طرح چمک رہی ہے۔آیت اللہ خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے دنیا کو اچھی حکمرانی اور اصولی نظام متعارف کرایا اور اسی وجہ سے اسلامی انقلاب سے دشمنی کا آغاز ہوا بالخصوص امریکہ اوراس کے اتحادی سعودی عرب سمیت بیشترعرب ممالک ایران کی طاقت سے خوفزدہ ہوگئے۔یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ امریکہ، سعودی عرب اور ناجائز صہیونی ریاست دور حاضر کی کشیدگی اور ابتر صورتحال کی جڑ ہیں جو یہ نہیں چاہتے کے مشرق وسطی میں جمہوریت قائم ہو۔ امام خمینی ؒ مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کے توسیع پسندانہ اقدامات کے شدید مخالف تھے جبکہ آج سعودی عرب امریکہ کادم چھلہ بناہواہے جس کا مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ا

نقلاب کے بعد ایران میں امام خمینی اور ان کے ہم فکر علماء کے اسلامی تصورات پر مبنی نظام حکومت جس طرح کامیابی سے چل رہا ہے وہ ہر مسلمان کے لئے باعث اطمینان اورقابل تقلیدہے۔ عالم اسلام میں سیاسی اصلاحات اور مثبت تبدیلیوں کے لئے ایران کے انقلابی نظام سیاست کی کامیابی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے عالم اسلام کے مستقبل پر سیاسی لحاظ سے انتہائی گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی نت نئی کامیابیوں سے مسلمانوں کا مغرب زدگی کا شکار انتہا پسند طبقہ چڑتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ ایران کا انقلابی نظام حکومت جمہوری نہیں ہے۔ کیونکہ جمہوری نظام حکومت کے مقابلے میں دنیا میں استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی نظام ہائے حکومت رائج ہیں اس لئے ان مغرب زدہ لوگوں کا کسی نظام کو غیر جمہوری کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظام استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت سے عبارت ہے۔کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری نظاموں میں عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔قانونی مساوات، آزاد عدلیہ، حکومت کا عوام اور عوامی نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہونا اور افراد پر قانون کی بالادستی جمہوریت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اس لئے اگر کسی نظام کو جمہوری کہاجائے تو گویا اسے اچھا نظام حکومت ہونے کی سند دی جاتی ہے اورجس نظام کو غیر جمہوری اور استبدادی کہا جائے تو اسے گویا ناپسندیدہ اوربرا نظام قرار دیا جاتا ہے۔

انقلابی اسلامی چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کا پہلا عوامی انقلاب تھاجس کے بعد ایک نئے نظام کی تشکیل وتعمیرکے عمل کا آغاز ہوا۔ یہ نظام نہ صرف جمہوری بلکہ مثالی جمہوری نظام ہے جو کامیابی کے ساتھ گذشتہ چالیس سالوں سے جاری وساری ہے۔انقلاب کے بعد ایک آئین مرتب کیا گیا۔یکم اپریل 1979 کے دن یہ دستور عوام کے سامنے منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ ایرانی عوام نے بیک آواز اس کو منظوری دے دی۔ جمہوری نظاموں میں آئین عوام یا عوام کے نمائندے منظور کرتے ہیں اورایران میں بھی عوام نے اسلامی جمہوری آئین کا انتخاب کیا۔ایران کے آئین کی رو سے رہبر کا منصب سب سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ پہلے رہبر کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ایران کی اکثریت کا مرجع تقلید ہونا شرط تھا۔ چونکہ تقلید عام مسلمان اپنی آزاد مرضی سے کرتے ہیں اس لئے یہ طریقہ بھی عین جمہوری تھا۔اس وقت مجلس خبرگان کا رہبر کے انتخاب میں یہ کام تھا کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کس مجتہد کی ایرانی عوام کی اکثریت تقلید کرتی ہے۔ بعد میں مرجعیت کی شرط کو حذف کیا گیا اور اب مجلس خبرگان بوقت ضرورت رہبر کا انتخاب کرنے کی مجاز ہے۔

ایران کے موجودہ رہبرحضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای عوام کی منتخب مجلس خبرگان سے منصب رہبری کے لئے چنے جانے سے پہلے دومرتبہ ایران کے صدارتی منصب پر براہ راست انتخابات کے ذریعے بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے۔ایران میں مقننہ یعنی مجلس شوریٰ کا انتخاب وقفے وقفے سے علماءاورعوام بالغ رائے دہی کے اصول پر کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ہمیشہ مجلس کا انتخاب آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے، چاہے جنگ ہویا امن۔ایران میں انتظامیہ کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب بھی عوام براہ راست بالغ رائے دہی کے اصول پر وقفے وقفے سے کرتے ہیں۔ شاہ انقلاب سے لے کر آج تک ہمیشہ صدارتی انتخابات آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتے رہے ہیں۔ صدر کابینہ کے وزراء کو نامزد کرتا ہے اورعوام کی منتخب مجلس کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرتا ہے۔

انقلابی ایران ایک فلاحی ریاست ہے اور ہر ترقی یافتہ جمہوری معاشرے اورملک کی طرح ایران میں بھی لوگوں کوآزادی اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ عدلیہ بالکل انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہے۔ قانونی مساوات بھی ہے اور قانون وآئین کی بالادستی بھی۔ نیچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئی دستور کا پابند ہے۔ ہرکسی حکومتی عہدہ دار کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ وزرا، صدر اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔صدر پارلیمان ،رہبر کے سامنے جوابدہ ہے اور رہبر منتخب مجلس خبرگان کے سامنے جوابدہ ہے۔ کوئی شخص آئین وقانون سے برتر نہیں اوراعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز ہر شخص آئین وقانون کا زیردست ہے چاہے وزرا ہوں صدر ہو یا رہبر۔آمراورمطلق العنان حکمرانوں کوایران کا نظام حکومت ہمیشہ کھٹکتارہاہے کیونکہ اس نظام میں بادشاہ نہیں بلکہ عوام کامنتخب کردہ نمائندہ حکمرانی کرتاہے جوبراہ راست طورپرعوام کوجواب دہ ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے ہمیشہ ایران کے خلاف پروپیگنڈاکیامگرتاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگوں کوہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔انقلاب اسلامی کے خلاف امریکہ کی تمام گھناؤنی سازشیں ناکام ہوگئیں اور اسلامی جمہوریہ ایران 40 سال بعد علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔

آج ایران کی ترقی اور استحکام اور قومی اتحادو یگانگت نے اسلامی جمہوریہ کو ایک مضبوط قوت میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور یہ کریڈٹ بھی قائد انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی کو ہی جاتا ہے کہ ایران آج دنیا کی سپر طاقتوں امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔امریکہ ایران کو دھمکیاں ضرور دیتا ہے مگر اس میں اب اتنی جرأت نہیں کہ وہ ایران پر چڑھ دوڑے۔ایران کے اسلامی انقلاب نے ملک و ملت کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دی ہے ، ہر طبقہ فکر کو اس کے حقوق حاصل ہیں،کچھ گروپوں کی طرف سے احتجاج اور یورش کے باوجود حکومت اپنے مقاصد کو پروان چڑھا رہی ہے ،ایرانی قوم میں موجود اتحاد و اتفاق اور قوم پرستی کی بدولت یہ مٹھی بھرسازشی عناصر اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔کیونکہ عوام کی اکثریت اسلامی انقلاب کے ثمرات سے کماحقہ استفادہ کر رہی ہے [1]۔

قدرتی آفات

تہران عجائب گھر برائے عصری فنون، اس عجائب گھر کو مغربی نودرات کے حوالے سے یورپ اور شمالی امریکا کے بعد سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔[10]

ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔

آئین

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کا مجوزہ متن ماہرین اور دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو عبوری حکومت (جون 1358) کی طرف سے دستیاب کرایا گیا اور 1358 میں عام انتخابات کے ذریعے اس کے حتمی جائزے کے لیے آئینی ماہرین کی اسمبلی تشکیل دی گئی۔ آئین کا آخری ورژن اسی سال دسمبر میں تھا، ایک ریفرنڈم ایران کے معزز لوگوں نے منظور کیا تھا [2]۔

آئین پر نظر ثانی

کچھ ابہام اور ناپختگیوں کی موجودگی اور آئین میں کچھ ترمیم کی ضرورت کے باعث امام خمینی نے پارلیمنٹ کے اراکین اور سپریم جوڈیشل کونسل کی درخواست پر آئین پر نظر ثانی کے لیے ایک کونسل مقرر کی تاکہ آئین پر نظر ثانی کا کوئی حل فراہم کیا جا سکے۔ مذکورہ کونسل نے 7 مئی کو نظرثانی کا کام شروع کیا اور جون 1368 میں امام خمینی کی وفات کے بعد اس نے اپنا مشن جاری رکھا اور نظر ثانی شدہ اور ترمیم شدہ آئین کو اگست 1368 میں ایک ریفرنڈم میں قوم سے منظور کیا گیا [3]۔

اسلامی جمہوریہ کے مبانی

جمہوری نظام کے اصولوں میں چار اجزاء شامل ہیں: براہ راست یا بالواسطہ (پارلیمنٹ کے ذریعے) لوگوں پر حاکم کا انتخاب۔ حکمران کی حکمرانی کی مدت کی محدود مدت، جس کی وجہ سے اس کا دوبارہ انتخاب ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ ملک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ قانون کے سامنے حکمران کی برابری وہ قانون کے تابع بھی ہے اور اپنے تمام اعمال کا ذمہ دار بھی ہے۔ حکمران پر قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے [4]۔ ذکر کردہ اجزاء کو لاگو کرنے کے نتیجے میں، ہم مندرجہ ذیل امور کو دیکھیں گے: ملک کی حکمرانی اور نظم و نسق، خواہ رہنما کے انتخاب میں ہو (بالواسطہ ووٹ کے ذریعے) یا صدر کے انتخاب میں (براہ راست ووٹ کے ذریعے) نیز حکومت کی تشکیل (اسلامی کونسل کے اعتماد کا ووٹ)، عوامی ووٹوں کی بنیاد پر مبنی ہے۔ صدر کے عہدے کی مدت (ایک بار دوبارہ انتخاب کے امکان کے ساتھ) چار سال ہے؛ رہبر، صدر اور اقتدار میں موجود دیگر افراد قانون کے سامنے ملک کے دیگر افراد برابر ہیں۔ قیادت کے عہدے اور صدر اور وزراء کے لیے قانونی ذمہ داری (مقدمہ اور سزا کی حد تک) اور سیاسی ذمہ داری (مواخذے کی حد تک) ہے [5]۔

اسلامی جمہوریہ میں اسلام اور شیعیت کا مقام

اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا دیگر عام جمہوریہ نظاموں سے امتیازی خصوصیت اس نظام کا اسلامی اور مذہبی ہونا ہے، یعنی ایرانی عوام کی اکثریت نے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے، اسلام اور اسکی تعلیمات کو حکومت کے مواد اور بنیاد کے طور پر انتخاب کیا ہے۔ شیعہ اسلامی عقائد کے اصول (توحید، رسالت، قیامت، عدل اور امامت)اور کرامت انسانی اور آزادی جو انسانی ذمہ داری اصول کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام اور تسلسل کے ستون ہیں [6]۔ عدالت و انصاف، آزادی اور قومی یکجہتی نظام کے اعلیٰ مقاصد ہیں، اور ان کے حصول کے لیے اسلامی جمہوریہ کے آئین میں طریقے اور عمومی احکامات فراہم کیے گئے ہیں، جن میں: جامع فقہاء کا مسلسل اجتہاد، جدید انسانی علوم و تکنیک کا استعمال، اور آگے بڑھنے کی کوششیں وہ کسی بھی ظلم و جبر کی نفی کرتی ہیں (ملکی سطح پر ) اور تسلط و تسلط پذیری کی نفی (غیر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر )؛ (اصول 2 اور 152) اسلامی جمہوریہ کے نظام میں اسلام اور شیعہ اثناعشری مذہب کی رسمی اور حاکمیت کا تقاضا ہے کہ اس مذہب کے معیارات قانونی، عدالتی، سیاسی اور سماجی معاملات میں غالب اور موثر ہوں۔ اس کے باوجود دیگر اسلامی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی) کے پیروکاروں کے حقوق شیعوں کے برابر ہیں [7]۔ دوسرے مذاہب کے پیروکار جن میں زرتشتی، کلیمین اور عیسائی، جو اہل کتاب کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے بھی یہ حقوق ہیں: قانون کی حدود میں مذہبی تقریبات انجام دینے کی آزادی، اپنے مذہب کے مطابق ذاتی حالات اور مذہبی تعلیمات پر عمل کرنا، مذہبی، ثقافتی، سماجی اور فلاحی تنظمیں بنانا، اسلامی کونسل میں نمائندگی، اور سماجی، انتظامی اور روزگار کے حقوق [8]۔ غیر الہی مذہبی اقلیتیں، بشرطیکہ وہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازش نہ کریں، بعض حقوق [9]۔ کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق اور اسلامی انصاف سے بھی لطف اندوز ہونگے [10]۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا)

اسلامی جمہوریہ کے نظام میں، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، حکومت اور قوم کے عمومی اور مسلسل متحرک ہونے کے ذریعے اس طریقہ کار کا نفاذ خوبیوں کے فروغ اور بدعنوانی کے رد کی بنیاد بن سکتا ہے۔ بورڈ آف گورنرز (قیادت اور تین حکمران طاقتیں) اس اصول کے نفاذ کے لیے ذمہ دار ہے، قیادت کی نگرانی اور سماجی اصلاحات کی پالیسیوں اور قوانین کی تشکیل، انتظامی نگرانی اور عدالتی کارروائی کے ذریعے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اصول کو حکومت پر لوگوں کی نگرانی کے طریقہ کار کے ذریعے لاگو کیا جانا چاہیے (بشمول پریس اور ذرائع ابلاغ، سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں، اور اجتماعات اور مارچ)۔ اسلامی جمہوریہ نظام میں حکمرانوں کی اخلاقی قابلیت اور اپنی تقدیر کے تعین میں عوام کی حاکمیت کے مفروضے کے ساتھ آٹھویں اصول میں نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا عوام کا باہمی فریضہ ہے۔ اس کا طریقہ باہمی نصیحت ہے، لیکن عملی اقدام اور سزا حکمران کا کام ہے، عوام کا نہیں [11]۔

خارجہ پالیسی

اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے اصول یہ ہیں: خارجہ پالیسی کے نفاذ میں قومی خودمختاری کی بالادستی (ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور تسلط جویی اور تسلط پذیری کو مسترد کرنے کی پالیسیوں پر عمل کرنے سے ممکن ہوسکتا ہے) دبنگ طاقتوں کے خلاف عدم عزم اور غیر متحارب ریاستوں کے ساتھ پرامن تعلقات کے ذریعے بین الاقوامی اتحاد اور بقائے باہمی؛ اسلامی ممالک کا اتحاد جس کا مقصد عالم اسلام کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اتحاد (اسلامی دنیا کی امت) کو حاصل کرنا ہے بین الاقوامی سطح پر انسانی امداد، بشمول مسلمانوں، مظلوموں، پسماندہوں اور پناہ گزینوں کی حمایت [12]۔ خارجہ پالیسی کا اعلیٰ انتظام قیادت کی ذمہ داری ہے، جو خارجہ امور میں نظام کی عمومی پالیسیوں کا تعین کرنے، جنگ اور امن کا اعلان کرنے، افواج کو متحرک کرنے، اور ملک کے خارجہ امور کی قیادت کی نگرانی کے ذریعے کیا جاتا ہے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی منظوری اور اہم امور پر رہنمائی فراہم کرنا)۔ قیادت کے بعد، صدر، قومی خودمختاری کے مجسم اور ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی اتھارٹی کے طور پر اور خارجہ تعلقات قائم کرنے کا ذمہ دار ہے (سفیروں کو بھیجنے اور وصول کرنے اور بین الاقوامی معاہدوں کے ذریعے)، ملک کی خارجہ پالیسی کا انچارج ہے۔ اسلامی کونسل، بین الاقوامی معاہدوں کی نگرانی، خارجہ پالیسی کے قوانین کے قیام، خارجہ پالیسی کمیشن، اور نمائندوں کے ذریعے (خارجہ پالیسی کے مسائل پر تبصرہ، یاد دہانیوں، سوالات اور صدر اور وزیر سے خارجہ پالیسی کے میدان میں مواخذے کے ذریعے۔ خارجہ پالیسی میں ملک کی رائے کا اطلاق ہوتا ہے [13]۔

سرکاری ادارے اور ڈھانچے

اسلامی جمہوریہ کے آئین میں حاکمیت الٰہی اور انسانی ہے۔ خدائی حاکمیت اس تعلیم سے ماخوذ ہے کہ حاکمیت اور قانون سازی صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کی اجازت کے بغیر جائیداد اور لوگوں اور قانون سازی پر قبضہ کرے۔ مذہبی اور فقہی بحثوں کے مطابق، امام عصر (ع) کی غیبت کے دوران، امام معصوم کے لیے دین کے اہم ماخذ کی بنیاد پر قانونی احکام کا استنباط کرنا، اور شریعت کی طرف سے اجازت یافتہ امور میں مداخلت کرنا جائز ہے۔ اس بنیاد کے ساتھ، ولایت فقیہ کی نگرانی میں اسلامی معیارات پر مبنی تمام ضوابط کا قیام، الہی حاکمیت کا ضامن ہے۔ حاکمیت کا انسانی پہلو خدا پر ایمان اور دنیا اور انسان پر اس کی مکمل حاکمیت پر یقین سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ کہ اس نے انسان کو اپنی تقدیر پر خود مختار بنایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کی اپنی سماجی اور سیاسی تقدیر پر حاکمیت ایک الٰہی حق ہے اور اس میں ان کی عملی اور ہمہ گیر شرکت کی ضرورت ہے۔ خودمختاری کے اس پہلو کے ضامن متعدد قانونی (صدر، اسلامی کونسل کے نمائندوں اور دیگر کے انتخاب میں عوام کی براہ راست اور بالواسطہ شرکت) اور سیاسی (تنظیموں اور جماعتوں اور سیاسی و تجارتی یونینوں کی آزادی کا حق) ہیں [14]۔

حکومت کی شکل

اسلامی جمہوریہ کے نظام میں حکومت کی شکل تین شاخیں (مجلس شورای اسلامی، (قانون ساز اسمبلی انتظامیہ) اور عدلیہ) ایک دوسرے سے آزاد اور رہبر (ولی فقیہ) کی نگرانی میں ہیں، اس لیے اس میں اختیارات کی علیحدگی کا طریقہ بنیادی طور پر مختلف ہے۔اسی لحاظ سے روایتی نظاموں میں اختیارات کی علیحدگی کے لحاظ بنیادی اختلافات رکھتے ہیں۔ انداز سے حکومت نیم صدارتی اور نیم پارلیمانی ہے۔ یہ نیم صدارتی ہے کیونکہ عوام صدر کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ نیم پارلیمانی ہے کیونکہ صدر حکومت کے ارکان کو پارلیمنٹ میں تجویز کرتا ہے اور پارلیمنٹ ان کی منظوری دیتی ہے۔ نظام کی جامعیت اور دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اختیارات کی علیحدگی کے باوجود تینوں طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی ہو۔ اس مقصد کے لیے تینوں شاخوں کے تعلقات اور ان کی آزادی کی حدود کو واضح کیا گیا ہے اور ملازمتوں کی وصولی پر پابندی کے اصول کی پیشین گوئی کی گئی ہے [15]۔ رہبر کی نگرانی میں تین طاقتوں کے علاوہ، اسلامی جمہوریہ کی خودمختاری کے نفاذ میں خصوصی ادارے ہیں؛ ادارے جیسے اسلامی کونسلز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل، سپریم کونسل آف کلچرل ریوولوشن، اور ایکسپیڈینسی کونسل۔

حکومت کے ستون

اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے ستون یہ ہیں:

ولایت فقیہ اور قیادت

اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا پہلا ستون ولایت اور قیادت ہے۔ آئین کے دیباچے اور اس کے اصول 5 اور 57 کے مطابق فقیہ کا مکمل اختیار اسلامی جمہوریہ کی اسلامی حکومت کی بنیاد ہے۔ حکومت کی اسلامییت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں موجودہ قوانین، ہر لحاظ سے، اسلامی معیارات پر مبنی ہیں، اور آئین کی قانونی حیثیت اس کی شریعت کے ساتھ مشروط ہے [16]۔ ولایت فقیہ کا تصور آئین (اصول 5) میں ادارہ جاتی طریقے سے فراہم کیا گیا ہے۔ ایک فقیہ میں درج ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے: فقہ کے مختلف ابواب میں بیان کرنے کے لیے درکار فقہی قابلیت، عدل و تقویٰ، صحیح سیاسی اور سماجی بصیرت، وسائل کی مہارت، جرأت، انتظام اور قیادت کے لیے کافی طاقت [17]۔ ماہرین کی کونسل (ایران۔ آئین، اصول 107 اور 109) کے ذریعہ رہنما کے انتخاب کے لیے فقہی اور سیاسی مسائل کا علم اور عام لوگوں کی طرف سے قبولیت ایک اہم شرط ہے۔

قیادت کے اختیارات اور فرائض

اسلامی جمہوریہ ایران میں حکومتی افواج قیادت کی نگرانی میں کام کرتی ہیں اور درحقیقت قیادت ہی حکومت کی اعلیٰ ترین اتھارٹی اور اختیار ہے۔ اس کو تفویض کردہ اہم اختیارات اور فرائض اس عہدے کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ قیادت کے کچھ فرائض نظام کے اسلام کو برقرار رکھنے سے متعلق ہیں، جیسے نظام کی عمومی پالیسیوں کا تعین، ان پالیسیوں کے اچھے نفاذ کی نگرانی، برطرف اور نصب کرنا اور فقہا کے استعفیٰ کو قبول یا مسترد کرنا۔ قیادت کے کچھ فرائض کا تینوں طاقتوں سے بہت کم تعلق ہے، جیسے مسلح اور قانون نافذ کرنے والی افواج کے کمانڈروں اور سربراہان یا نشریاتی ادارے کے سربراہ کے استعفیٰ کو برطرف کرنا اور ان کو نصب کرنا اور قبول کرنا، کیونکہ بنیادی طور پر ان اختیارات کا ہونا کسی ایک طاقت کا ہاتھ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ قیادت کے کچھ اور فرائض جنگ کا اعلان اور افواج کو متحرک کرنا، ریفرنڈم کا حکم جاری کرنا اور تینوں افواج کے اختلافات کو دور کرنا اور ان کے تعلقات کو منظم کرنا ہیں۔ اس طرح قیادت حکومتی افواج کی نگرانی کرتے ہوئے ان کی میکرو پالیسیوں کا تعین کرتی ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں ان کے مسائل حل کرتی ہے۔

تینوں افواج کی قیادت کی نگرانی

ایگزیکٹو برانچ پر قیادت کی نگرانی صدارتی حکم نامے پر دستخط کے ذریعے کی جاتی ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی نااہلی کے فیصلے یا پارلیمنٹ کے عدم اعتماد کے ووٹ کی صورت میں اسے ہٹانے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ مقننہ کی نگرانی اور اس کے قوانین اور منظوریوں کی اسلامییت کی ضمانت گارڈین کونسل کے فقہاء کی تنصیب کے ذریعے ہے۔ گارڈین کونسل میں فقہاء کا فیصلہ شرعی معیارات کی پاسداری کے حوالے سے فیصلہ کن ہے۔ عدالتی شاخ کی نگرانی بھی اس شاخ کے اعلیٰ ترین اتھارٹی کی تنصیب اور برطرفی کے ذریعے کی جاتی ہے [18]۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں، اپنے مشیروں کے علاوہ، رہنما ایکسپیڈنسی کونسل کی دانشورانہ مدد اور ماہرین کی رائے سے بھی مستفید ہوتا ہے۔ یہ اسمبلی، جس کے تمام ارکان قائد کے ذریعے مقرر کیے جاتے ہیں، نظام کی عمومی پالیسیوں کے تعین کے لیے قیادت کو مشورہ دینے کے علاوہ، گارڈین کونسل اور اسلامی کونسل کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کا اختیار بھی ہے۔ نیز، اسمبلی آئینی نظرثانی کونسل اور لیڈر شپ سلیکشن کونسل میں حصہ لیتی ہے۔

رہبر کا انتخاب

قائد کا انتخاب قائدانہ ماہرین کی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ یہ اسمبلی ملک بھر کے اول درجے کے علماء پر مشتمل ہے۔ وہ اس کی قیادت اور اس کی حالت پر نظر رکھتے ہیں اور اس کی نااہلی کی صورت میں اسے ہٹا دیتے ہیں۔ رہنما کی برطرفی یا اس کے استعفیٰ یا موت کی صورت میں ماہرین کی اسمبلی کے ذریعے نئے رہنما کے انتخاب تک اس کی ذمہ داریاں عبوری قیادت کونسل کو سونپ دی جائیں گی۔ یہ کونسل صدر، عدلیہ کے سربراہ اور گارڈین کونسل کے ایک فقیہ پر مشتمل ہے۔

مقننہ

اسلامی جمہوریہ کا دوسرا ستون مقننہ ہے۔ یہ اتھارٹی ایک ایوانی نظام پر مبنی ہے اور دو الگ الگ ستونوں پر مشتمل ہے: اسلامی کونسل اور گارڈین کونسل۔ ان عناصر میں سے ہر ایک کے فرائض ہیں۔ اسلامی کونسل ایسے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے جو چار سال کے لیے عوام کے براہ راست اور خفیہ ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اپنی اسناد کی منظوری اور حلف لینے کے بعد وہ کام شروع کر سکتے ہی۔ پارلیمنٹ کا بنیادی فریضہ آئین کے دائرہ کار میں تمام معاملات اور معاملات میں قانون سازی کرنا ہے۔ یہ حدود سرکاری مذہب اور آئین میں شرعی معیارات سے متصادم نہیں ہیں، اور یہ آئین کی گارڈین کونسل کی ذمہ داری ہے۔ قوانین اور ضوابط کی منظوری کے علاوہ، اسلامی کونسل کا ایک نگران کردار بھی ہے، جس میں یہ چیزیں شامل ہیں: اسٹیبلشمنٹ کی نگرانی (حکومت کی تشکیل کی نگرانی، حکومت میں تبدیلیوں کی نگرانی اور حکومتی تنازعات کے حل)۔ اطلاعات کی نگرانی (تینوں قوتوں کے کام کے بارے میں لوگوں کی شکایات، وزیر یا صدر کے کام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نمائندوں کی پہل، معلومات حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی پہل (تمام میں تحقیق اور تفتیش) ملک کے معاملات. جان بوجھ کر نگرانی، جس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ حکومت کے اہم اقدامات جیسے کہ بین الاقوامی معاہدوں کو ختم کرنا، سرحدی لائنوں کو تبدیل کرنا، ہنگامی حالت کا اعلان کرنا، مالی تنازعات کو حل کرنا یا انہیں ثالثی کے حوالے کرنا، غیر ملکیوں کو کمپنیاں بنانے کا استحقاق دینا۔ اور ادارے، اور کچھ دوسرے۔ یہ حکومتی اقدامات کی نگرانی کرتا ہے جیسے قرض لینے اور گرانٹ اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنا۔ مالیاتی نگرانی (ملک کے سالانہ بجٹ کی تالیف، تیاری اور منظوری اور ملک کی احتساب عدالت کے ذریعے بجٹ خرچ کرنے کی نگرانی)۔ سیاسی نگرانی کیونکہ پارلیمنٹ کو تمام معاملات میں قوانین بنانے کا حق حاصل ہے، اس لیے اسے عام قوانین میں تبدیلی کا اختیار حاصل ہے، اور اسی لیے اسے عام قوانین کی تشریح کا اختیار بھی حاصل ہے پارلیمنٹ کی اندرونی تنظیم، جس کا تعین اس کے داخلی ضوابط سے ہوتا ہے، اس میں مختلف کمیشن اور بورڈ آف ڈائریکٹرز شامل ہیں، جن کا انتخاب سالانہ ہوتا ہے۔ شروع میں پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد 270 تھی جو کہ آئین کی دفعات کے مطابق آبادی میں اضافے کے ساتھ ہر دس سال بعد بیس ارکان تک بڑھنا ممکن ہے گارڈین کونسل چھ قانون دانوں اور چھ فقہا پر مشتمل ہے، جن کے فقہا کا تقرر لیڈر کرتا ہے، اور جن کے فقہاء کا انتخاب عدلیہ کے سربراہ کی تجویز اور پارلیمنٹ کی منظوری سے کیا جاتا ہے۔ شریعت اور آئین کے ساتھ متعلقہ قوانین کی مطابقت کو جانچنے کے علاوہ، یہ کونسل آئین کی تشریح اور انتخابات اور ریفرنڈم کی نگرانی کے لیے بھی ذمہ دار ہے [19]۔ مجلس اسلامی کونسل کے منظور شدہ قوانین، عمومی اور مخصوص سیاسی فیصلوں، انتظامی اداروں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے، قانونی چارہ جوئی کی منظوری یا ثالثی کے حوالے سے انتظامی ضوابط کی تالیف ہے۔ مسلح افواج میں فوج شامل ہے، جس کا مقصد ملک کی آزادی اور علاقائی سالمیت کی حفاظت کرنا ہے۔ اسلامی انقلابی گارڈ کور، ایک کثیر المقاصد ادارے (فوجی، قانون نافذ کرنے والے، سیاسی اور سماجی) کے طور پر اور انقلاب سے ابھرنے والے، انقلاب اور اس کی کامیابیوں کی حفاظت کے مقصد کے ساتھ؛ اور پولیس فورس، نظم و نسق قائم کرنے، عوامی اور انفرادی سکون فراہم کرنے اور انقلاب اسلامی کی کامیابیوں کی حفاظت کے مقصد سے۔ ملک کی مسلح افواج کی جنرل کمان قیادت کا انچارج ہے۔

عدلیہ

اسلامی جمہوریہ کا چوتھا ستون عدلیہ ہے۔ یہ شاخ عدالتی امور اور انصاف کی انتظامیہ کے لیے ذمہ دار ہے، اور جرائم سے نمٹنے اور افراد اور معاشرے کے حقوق کے تحفظ کا اختیار ہے۔ اس شاخ کی تنظیم کے سربراہ عدلیہ کا سربراہ ہے، جس کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔ وہ قیادت کی طرف سے پانچ سال کی مدت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ وزیر انصاف انتظامی، قانون سازی اور عدالتی شاخوں کے درمیان تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے عدلیہ کے پاس تنظیمیں اور ادارے ہیں، بشمول: وزارت انصاف، جو لوگوں کی شکایات اور شکایات کا اختیار ہے اور عام اور عام جرائم سے نمٹتی ہے انتظامی انصاف کی عدالت، جو سرکاری اہلکاروں اور اکائیوں کے بارے میں شکایات اور اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کی گئی تھی، اور وہ حکومتی ضوابط کو بھی باطل کر سکتی ہے جو اسلامی قوانین کے خلاف ہوں یا ایگزیکٹو کے اختیارات سے باہر ہوں۔ پراسیکیوٹر کا دفتر اور فوجی عدالتیں، جو مسلح افواج کے فوجی یا تادیبی جرائم سے نمٹنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ ملک کی جنرل انسپیکشن آرگنائزیشن، جو کہ انتظامی اداروں میں قوانین کے درست نفاذ پر محکمہ کے سربراہ کی نگرانی کے لیے بنائی گئی تھی۔ ملک کی سپریم کورٹ، جو عدالتوں میں قوانین کے درست نفاذ کی نگرانی کرتی ہے اور ملک کے عدالتی طریقہ کار میں اتحاد پیدا کرتی ہے، اور اس کا صدر عدلیہ کے سربراہ کے ذریعے مقرر کیا جاتا ہے جنرل پراسیکیوٹر کا دفتر، جو عوامی جرائم کے خلاف معاشرے کے حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ جج عدلیہ کے اہم عناصر ہیں اور ان کی صفات اور شرائط فقہ سے اخذ کی گئی ہیں۔ جج عام اور میثاق شدہ قوانین کا ترجمان ہوتا ہے، اور اس مسئلے پر کوئی حکم نہ ملنے کی صورت میں، اسے فقہی نصوص سے رجوع کرنا چاہیے۔ پریشان ہونا۔ اسلامی جمہوریہ کی طرز حکمرانی میں بعض اداروں کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ کام کی نوعیت اور تنظیم کے لحاظ سے ان کو قیادت کے ادارے یا تین طاقتوں میں سے کسی ایک کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ خصوصی ادارے ہیں: اسلامی کونسلز، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، سپریم کونسل آف نیشنل سیکورٹی، سپریم کونسل آف کلچرل ریوولوشن، اور نظام کی اصلاح کی کونسل۔

حوالہ جات

  1. نواب علی اختر، امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں،qaumiawaz.com
  2. امام خمینی‌، ج‌۳، ص‌۴۸۶؛ روزها و رویدادها، ج‌۱، ص‌۸۱
  3. «متن کامل پیشنهادی پیش‌نویس قانون اساسی»، ص‌۵۶
  4. هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۵۳۵۴
  5. ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۶، ۸۷، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۳۳،
  6. رجوع کریں، هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۶۳۷۵
  7. آئین کے ان شقوں کا مطالعہ کریں: ۴۵، ۸، ۱۲، ۱۹۲۰، ۲۶، ۶۱، ۶۴، ۶۷، ۷۲، ۹۱، ۹۴، ۱۰۹، ۱۱۵، ۱۵۷، ۱۶۲۱۶۳، ۱۶۷
  8. اصول ۳، ۱۳، ۱۹۲۰، ۲۶
  9. اصول ۱۹۴۲
  10. مطالعہ کریں، هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۱۶۱۱۶۶
  11. مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۲۲۲۲۲۶، ۲۲۸۲۳۴
  12. مطالعہ کریں: ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۳، ۱۱، ۱۵۲، ۱۵۴،۱۵۵
  13. مطالعہ کریں: هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۴۱۲-۴۳۳؛ شفیعی‌فر، ص‌۸۴-۸۶
  14. هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۲، ص‌۱۷
  15. ہاشمی، 1925، جلد 2، ص1217
  16. اصول 4؛ شعبانی، ص 7983
  17. اصول 109؛ ہاشمی، 1994، جلد 2، صفحہ 45
  18. اصول 91، 96، 110
  19. ایران۔ آئین، اصول 91، 9899؛ مدنی، 13601369ش