مسجد اقصی
مسجد اقصی فلسطین کے شہر یروشلم میں مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے جسے حضرت داؤد علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے مکمل کیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے سترہ ماہ بعد تک اسی مسجد کی طرف نماز پڑھتے رہے اور ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج اسی مسجد سے ہوا۔ مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس تریں مکان ہے۔ مقامی مسلمان اس المسجد الاقصی یا الحرم القدسی الشریف کہتے ہیں۔ یہ مسجد مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ 2000ء میں الاقصی انتفاضہ کے آغاز کے بعد سے یہاں غیر مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہے۔
مسجد الاقصی کی تاریخ
مسجد اقصی ان مساجد میں سے ہے کہ جس کو جلیل القدر انبیاء نے تعمیر کیا [1]۔ مسجد اقصٰی کی بنیاد مکہ مکرمہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے ڈالی۔ چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد اقصٰی کو تعمیر کیا۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہئ اول ہے، ہجرت کے بعد 16؍ سے 17؍ ماہ تک نبی کریمﷺ بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصٰی ہے۔ مسجد اقصٰی روئے زمین پر بنائی گئی دوسری مسجد ہے۔ جہاں ایک نماز کا ثواب ڈھائے سو اور بعض روایتوں کے مطابق 25؍ہزار ملتا ہے [2]۔ قرآن کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے [3]۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہ[4]۔
مسجد اقصیٰ کی عظمت
یہ مسجد روئے زمین پر حرام خانہ کعبہ کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے، جہاں آج بھی الحمد للہ پنج وقت نماز با جماعت کے علاوہ جمعہ، عیدین، تراویح، تہجد، اعتکاف اور درس و تدریس کا اہتمام ہے۔ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، فلسطین کی پاک سر زمین انبیاء کرام کامسکن رہاہے،اسی وجہ سے اسے سرزمین انبیاء بھی کہا جاتاہے۔ اس کے چپہ چپہ پر انبیاء کرام علیھم السلام کے نشانات موجود ہیں، گزشتہ قوموں کے آثار یہاں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، اس خطہ کے کھنڈرات، یہاں کی اجڑی ہوئی بستیاں، وادیاں، پہاڑ اور دریا، غرض ہر شئی اپنے دامن میں ایک مکمل تاریخ چھپائے ہوئے ہے، اس ارض مقدس (مَقْدَسْ بھی کہا گیا)کا مشہور اور قدیم شہر بیت المقدس ہے، اس کو اَلْقُدْسْ بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یروشلم (JERUSALEM )کہا جاتا ہے [5]۔ اس شہر القدس میں ایک تاریخی عمارت ہے جو صدیوں سے مختلف قوموں کا قبلہ چلی آتی ہے، یہ مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے ناموں سے بھی مشہور ہے، اور مسجد صخرہ (سنہری گنبد والی مسجد) بھی ہے۔ یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے ایک پرانا شہر ہے، دوسرا نیا شہر ہے۔ پرانے شہر کے چاروں طرف اونچی دیواروں کا احاطہ ہے اور اسی شہر میں تمام مقدس مقامات پائے جاتے ہیں۔ گنبد صخرہ، مسجد اقصیٰ اور قیام چرچ ہے۔
مسجد الاقصی کے دروازے
مسجد اقصی کے اطراف1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر9 دروازے ہیں، جو (1) باب رحمت (2) باب حطہ (3) باب فیصل (4) باب غواغہ (5) باب ناظر (6) باب حدید (7) باب قطانبین (8) باب سلسلہ (9) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔
گنبد صخرہ
مشہور ماہر آثار قدیمہ دان برجیم کہتا ہے کہ سادہ انداز کی نہایت متوازن عمارت بلا شبہ اسلامی تعمیرات کا قابل فخر سرمایہ ہے۔ اس کی تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے 68 ھ ۔ق مطابق 688 ء میں شروع کروایا جو چار سالوں بعد 72 ھ۔ق مطابق 691 ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی تھی۔ گنبد صخرہ کو (مسجد صخرہ بھی کہا جاتا ہے) حرم قدسی کی زمین سے 30 میٹر بلند ہے، یہ شہر کی سب سے بڑی نشانی ہے، یہ دو منزلہ عمارت ہے جو آٹھ کونوں والی ہے، ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کی دوری 20 میٹر اور اونچائی 15 میٹر ہے، نچلی منزل کے دیوار پر نہایت حسین سفید مرمر لگا ہوا ہے، جس پر فیروزے کلر کا ٹائلز بھی ہے، اور اس کے اندر سفید کلر میں سورہ ےٰ سین تحریر ہے، ان آٹھ گوشوں میں رنگین شیشے کی کھڑکیاں ہیں جس کی تعداد 56 ہے۔ اسی صخرہ کے نیچے غار انبیاء علیھم السلام ہے، جہاں پہنچنے کے لئے 11 سیڑھیاں ہیں، مسجد کے اندر دو پٹ والے چار دروازے ہیں، اس کے اندر سنگ مرمر سے بنے 16 ستون ہیں۔
مسجد اقصی کی تعمیر
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہٗ 14ھ مطابق636ء میں اپنے دور خلافت میں فتح کے بعد یہاں تشریف لائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر معراج کی منزل تلاش کیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا اور وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور وہاں حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز پڑھایا۔ یہاں سادہ مستطیل لکڑی کی مسجد تعمیر ہوئی۔ مسجد صخرہ (گنبدہ صخرہ) کی تعمیر کے بعد 72 ھ مطابق 691ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے دوبارہ اس کی تعمیر کا آغاز کیا، اور تکمیل ان کے فرزند ولید بن عبد الملک (چھٹویں خلیفہ) کے دور میں ہوئی، جس پر ولید کے دور حکمرانی کے 7 سال کے محاصل (ٹیکس) کی خطیر رقم اس تعمیر پر صرف ہوئی، مسجد اقصی کی لمبائی 80میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔ اور 23 مرمری اونچے ستونوں اور 49 چوکور چھوٹے ستونوں پر کھڑی یہ عمارت 705 ء میں مکمل ہوئی ہے، دروازوں پر سونے اور چاندی کی چادریں چڑھی ہوئی تھیں۔
مسجد کے گیارہ گیٹ ہیں جن میں سے سات شمال میں ہیں۔ پانچ بار اس کی تعمیر ہوئی، موجودہ تعمیر 1035 ء کی ہے۔ یروشلم شہر کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بہ یک وقت50,000 مسلمان نمازپڑھ سکتے ہیں،15/ جولائی1099 ء کو بیت المقدس پر عیسائی حملہ آوروں کا قبضہ ہوا۔ ہزارہا مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا، اور مسجد کو گرجا میں تبدیل کر دیا گیا، اس میں لہو لعب کے کام وہاں ہوئے اور کئی حصوں کو رہائش گاہوں کے طور پر استعمال کیاگیا۔ 12 /اکٹوبر 1187ء کو وہ عظیم الشان موقعہ آیا، جب مسجد اقصی عیسائی قابضین سے واپس مل گئی یہ عظیم کامیابی سلطان صلاح الدین ایوبی کے شہر فتح کرنے پر حاصل ہوئی، سلطان نے عمارات اور مسجد میں تبدیلیوں کو ختم کیا پھر مسجد اقصیٰ اصلی حالت پر لائی گئی۔ مسلمانوں نے مسلسل ایک ہفتہ تک پانی اور عرق گلاب سے غسل دیا۔ عظیم الشان نادر منبر سلطان صلاح الدین غازی نے حلب میں تیار کراکے مسجد میں نصب کیا۔ ۱۵/ اگست 1967ء بڑے کرب کا دن تھا جب ایک آسٹریلوی یہودی سیاح مائیکل روہن اسرائیلی حکومت کی ایماء پر مسجد اقصیٰ میں آگ لگا دیا، تقریباً چار گھنٹوں تک یہ آگ بھڑکتی رہی جس سے جنوب مشرقی سمت کی چھت شہید ہوگئی اور سلطان کا وہ نادر یادگار منبر جل کر راکھ ہوگیا۔سیاح روہن کو گرفتار کرکے معمولی سزا سنائی گئی۔
مسلم قبرستان
مسجد صخرہ اور مسجد اقصیٰ کے قریب قبرستان ہے جس کی بڑی اہمیت ہے، مدینہ منورہ کے بعد یہاں دفن کئے جانے کو ترجیح دیا گیاہے۔ اس قبرستان کے دروازوں کو متنازعہ کہ کر بند کر دیا گیا، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان ہی دروازوں سے مسیح علیہ السلام یروشلم میں داخل ہوں گے۔
جبل زیتون
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی آخرت میں یہاں دفن ہونے والوں کو بخش دے گا، اس لئے بھی یہ قبرستان ان کے لئے مقدس ہے، اسی قبرستان کے قریب یروشلم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قیام کیا تھا۔ عیسائیوں کی کتاب انجیل کے مطابق یہاں کوہ موریا پر حضر ابراہیم علیہ السلام اللہ کے اس امتحان میں کامیاب ہوئے تھے کہ وہ اپنے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہئے۔ یہودیوں کے مطابق یہ ان کی عظیم عبادت گاہ ہیکل سلیمانی کا دوسرا نام ہے۔ عیسائیوں کے یہاں مقدس مقامات بھی ہیں۔ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق عیسی علیہ السلام کو یہاں صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ یہودیوں کی کتاب تلمود کے مطابق یہی وہ مقام ہے جہاں کی مٹی سے آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے لئے قربانیاں پیش کی تھیں، یہاں مسیحا کی آمد پر مردوں کو بخشا جائے گا، یہاں ٹیلے کے ٹھیک نیچے مغربی دیوار ہے جس کو دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے یہ دیوار ان کی قدیم عبادت گاہ کا بچا ہوا حصہ ہے، اسی لئے ان کے لئے یہ عبادت کی سب سے مقدس جگہ ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں ہیکل سلیمانی تھا جسے586قبل مسیح بابل حکومت نے تباہ کردیا تھا۔ بعض مؤرخ کہتے ہیں یہاں دوسرا عبادت خانہ تھا جسے رومی فوج نے 70ء میں تباہ و تاراج کر دیا تھا۔ اس دیوار سے لگ کر یہودی اپنی مقدس عبادت گاہ کی تباہی کے غم میں گریہ کرتے ہیں، اسی لئے اس دیوار کو دیوار گِریہ کہتے ہیں۔دیوار گِریہ کو عربی میں ’’اَلْمَبْکٰی‘‘ انگریزی میںWailing Wall کہتے ہیں۔
حرم کے وسط میں ایک چبوترہ پر ایک مخروطی گنبد قبۃ الصخرہ ہے۔ حرم کے چاروں طرف حجرے ہیں، شمالی دیوار کے حجروں میں عربی یونیورسٹی تھی، جنوبی سمت مختصر عجائب گھر ہے، جس میں مختلف نوادرات ہیں، مغربی دیوار سے ملحقہ ایک حجرے میں شریف حسین شریف مکہ اور قریب میں مشہورمجاہدآزادی ہند مولانا محمد علی جوہر مدفون ہیں، اس مغربی دیوار کے بیرونی حصہ کانام دیوار گریہ ہے، جس کا طول 60 فٹ ہے، دیوار کے نچلے حصہ میں بادشاہ ہیروڈ کے زمانہ کے بڑے بڑے پتھر نہایت خوبصورتی سے لگے ہوئے ہیں، اوپری حصہ پر رومی طرز کے بڑے بڑے پتھر نصب ہیں، دیوار پر جدید طرز کی نقش و نگاری کی گئی ہے۔ اس دیوار کی اہمیت یہودیوں کی تاریخ اور دینی نسبت سے ہے، خاص طور پر یہودی مرد و زن مذہبی تہواروں کے علاوہ ہر سبت (ہفتہ واری) دیوار گریہ کی زیارت کرتے ہیں، اور 9/ اگست کو مہروں پر تابوت سکینہ اٹھائے جلوس کی شکل میں یہاں آتے ہیں، خاص عبادت کرتے اور تکلفا روتے ہیں، دعاء مانگتے ہیں۔ حالانکہ یہ دیوار حرم کی ہے اور حرم کی تعمیر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے عہد میں خود مسلمانوں نے کی ہے) بنی اسرائیل کے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم یہود کو لے کر برسوں صحرائے سینا میں پھرتے رہے، اس زمانہ میں انہوں نے اپنی قوم کے لئے ایک خیمہ عبادت کے لئے نصب کیاتھا۔ یہ خیمہ 45فٹ لمبا،5فٹ چوڑا اور 15 فٹ اونچا تھا۔ اس خیمہ میں قیام عبادت عود سوز اور تابوت سکینہ کی جگہ تھی، تابوت سکینہ2:502354تھا اس کی بلندی2 فٹ تھی،اس میں صحائف، الواح (تختیاں) اور من و سلویٰ تھے، یہ یہود کی مقدس ترین یادگاریں تھیں۔ حضرت جالوت کے وقت یہ خیمہ ایسا ہی رہا، اس زمانے میں یہود اس کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے تھے، گویا یہ خیمہ ان کا قبلہ تھا۔ 48 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے خیمہ عبادت کو شہر بیت المقدس میں کوہ صیہون میں ایک جگہ مستقل طور پر نصب کردیا، اس جگہ کا نام بیت ایل یعنی اللہ کا گھر پڑ گیا، یہاں اللہ تعالی حضرت داؤد علیہ السلام سے ہمکلام ہوا۔ 988قبل مسیح (طوفان نوح کے1048سال بعد) حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس خیمہ عبادت کی جگہ ہیکل کی مستقل عمارت بنوایا، ہیکل کی عمارت 20سال میں مکمل ہوئی۔ تورات کے بیان کے مطابق اس کام پر ستر ہزار بار بردار، اَسّی ہزار سنگتراش تین ہزار چھ سو ان کے نگران کار مقرر کئے گئے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہیکل کا طول 60 ہاتھ، عرض 20ہاتھ اور بلندی 20 ہاتھ تھی۔
حرم پہ کیا گزری
حضرت سلیمان علیہ السلام کے415سال بعد پانچ سو سال قبل مسیح کا واقعہ ہے بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس پر حملہ کیا، شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تبرکات کو لوٹ لیا اورکتاب مقدس کو نذر آتش کردیا ہیکل کو جلا کر راکھ کا ڈھیر کردیا۔ بخت نصر کے حملہ کے بعد موسی علیہ السلام کی یادگار داؤد علیہ السلام کی نشانی حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت صفحہ ہستی سے یکسر نابود ہوگئی۔ ستر سال بعد خسرو ذو القرنین ( معائرس اعظم) شاہ ایران بابل پر فتحیاب ہوا، اس کی فتحمندی سے یہودیوں کو آزادی نصیب ہوئی، اور ہیکل کی عمارت از سر نو تعمیر ہوئی،98 سال بعد (68 1ق م) ایک بار پھر اس گھر پر تباہی چھائی۔ انطاکیہ کے یونانی بادشاہ اینوٹینس نے شہر پر قبضہ کرلیا اور ہیکل کو بت کدہ میں تبدیل کردیا۔اس وقت کتاب مقدس کا واحد نسخہ بھی نذر آتش ہوگیا، اب یہودی لاوارث دین اور دنیا دونوں سے محروم ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، بیت المقدس سے چار میل کے فاصلہ پر قصبہ ناصریہ میں پیدائش ہوئی۔ شہر اور اطراف کے علاقہ کو اپنی تبلیغ کا مرکز بنایا، یوں یہاں دوبارہ رونق آئی، یہ خوش آئند بات بھی بہت جلد ختم ہوگئی، 70ء میں رومی سپہ سالار طیطوس نے بیت المقدس پر ایک شدید حملہ کرکے ہیکل کو مسمار کردیا اور قتل عام کرایا، زندہ رہ جانے والوں کو جلا وطن کردیا، اور شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں ہل چلادیا، تین صدی بعد حالات بدلے۔ 312ء شہنشاہ روم قسطنطین اعظم نے عیسائی مذہب قبول کیا، اس سے بنی اسرائیل کو کچھ قوت ملی، لیکن یہ دور بھی تادیر قائم نہ رہا۔ تین سو سال بعد رومۃ الکبریٰ کی سطوت پھر پارہ پارہ ہوگئی، ارض مقدس پر شہنشاہ ایران کا قبضہ ہوگیا۔ ساتویں صدی عیسوی میں ظہور الاسلام ہوا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے دور خلافت 14ہجری 636ء میں جنگ کے بغیر بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔
مسجد الاقصی اسلامی دور میں
ہجرت کے پندرہویں سال ہیکل کی آخری تباہی کے 569 سال بعد 636ء میں دنیا کی بے مثال فتح کے ذریعہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا، اسقف اعظم سفر ونیس (Sophronips ) نے شہر کی چابیاں خود امیر المؤمنین کو پیش کردیا۔
جب وقت نماز آیا
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز ادا کرنے کے لئے جگہ دریافت کیا، پادریوں نے ہیکل کی اجڑی ہوئی جگہ کا نشان بتایا، جہاں کھنڈر کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں نماز ادا کی، اسی جگہ حرم کے دیڑھ ہزار فٹ لمبے اور ایک ہزار فٹ چوڑے احاطہ کا سنگ بنیاد رکھی، اس کے اندر زیتون اور سرو کے درخت لگائے، ایک حصہ پر چھت ڈالی گئی، یہ جگہ نماز کے لئے مخصوص ہوگئی، یہ مسجد عمر رضی اللہ عنہ کہلائی، ساڑھے تیرہ سو سال سے مسجد عمر، حرم اور اس کی تمام متعلقہ عمارات مسلمانوں کے قبضے میں چلی آ رہی ہیں۔
حرم پر مالکیت کا دعوی
جس زمانہ میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ اور اقتدار قائم ہوا تھا، اس وقت یہودیوں نے اس دیوار پر اپنا حق ملکیت قائم کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ دیوار حرم کی ہے۔ 1929ء میں یہودیوں نے اقوام عالم (انجمن اقوام متحدہ League of Nations ) میں دیوار گریہ پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا۔ انجمن نے ایک کمیشن قائم کی۔ فریقین نے کمیشن کے سامنے اپنے دلائل اور شواہد پیش کئے، جس نے مکمل چھان بین کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ قانونی اور تاریخی اعتبار سے دیوار گریہ حرم کا ایک حصہ ہے، جس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے، اور ان کے مالکان حقوق بالکل درست ہیں۔ یہودیوں کو صرف اس قدر حق ہے کہ وہ اس کی زیارت کے لئے یہاں آسکتے ہیں۔ لیکن بعد میں برطانیہ اور مغربی اقوام کی سازش سے فلسطین میں یہ المناک صورت پیدا ہوئی کہ14,15 جولائی 1948ء کی درمیانی رات ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا (انا للہ وانا الیہ راجعون) اور شہر بیت القدس کے کچھ حصہ پر بھی یہود کی اس نام نہاد حکومت کو قبضہ دیدیا گیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سازش ہے۔اور ایسی سازشوں کا سلسلہ مسلم امت کے خلاف جاری ہے۔
یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی رواداری
مسلمانوں نے یہودیوں کی تمام شرارتوں کے باوجود انتہائی رواداری کا ثبوت دیا جاتا رہا۔ حتی کہ 1948ء کی جنگ کے دوران بھی دیوار گریہ کی زیارت کے لئے زائرین کی خاطر عارضی جنگ بندی اور مکمل حفاظتی پہرہ کے ساتھ یہود کے لئے وہاں زیارت و عبادات کے انتظامات کئے گئے۔ غضب الٰہی میں ہزاروں سال اللہ تعالی کے قہر و غضب کا نشانہ بنتے رہے، یہودیوں کو ہر قوم ٹھوکریں مارتی رہیں، جس ملک میں رہنے گئے وہاں سے ذلیل و خوار کرکے نکالے گئے، پھر بھی مسلمان روا داری کا ثبوت دیتے رہے۔ مسلمان باوجود اقتدار کے دیوار گریہ کی زیارت کی اجازت دیتے رہے۔ لیکن مارچ 1983ء میں ایک دن اچانک چند سر پھرے دہشت گرد یہودیوں نے حرم شریف (بیت المقدس) پر زبر دستی قبضہ کی کوشش کیا لیکن بفضل تعالی یہود اس ناپاک سازش میں ناکام رہے، ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ حرم شریف کو نیست و نابود کرکے دیوار گریہ اور ہیکل سلیمانی کا احیا کیا جائے۔
گنبد صخرہ اور مسجد اقصیٰ
فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں کی غرض سے شاید یہ منصوبہ اپنا یا جارہا ہے، مسلمانوں کے قبلہ اول کو نشانہ بنا کر سارے عالم اسلام کو برباد کردیا جائے اس کے لئے ساری دنیا کے ذہنوں سے مسجد اقصی کے خاکے کو مٹا یا جا رہا ہے۔ غور فرمائیے گنبد صخرہ (زرد گنبد) کو ہی مسجد اقصیٰ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد سنہرے گنبد والی مسجد کو ہی مسجد اقصی سمجھ رہی ہے۔
مسجد الاقصی محور اتحاد مسلمین
یہودی سازش کا پہلو یہ ہے کہ جب صیہونی یہودی اصل مسجد اقصی کو شہید کردیں گے تو عالم اسلام کا شدید رد عمل ناقابل برداشت رہے گا، اور تمام اختلافات ختم کرکے عالم اسلام ایک ہوجائے گا، مسجد اقصیٰ کا نام لیا جائے گا اور سنہرے گنبد کو دکھایا جاتا رہے گا۔ عیسائیت اور یہودیت کی عظیم اور ناپاک اتحادنے آخری اور فیصلہ کن جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ یہ حالات اس امت کے لئے کچھ نئے نہیں ہیں۔ قربِ قیامت میں پیش آنے والے حالات پہلے ہی بتائے جا چکے ہیں، اس وقت کا المیہ یہ ہے کہ اب تنہا امت کو ان حالات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ماضی میں کٹھن حالات کا مقابلہ دینی حمیت رکھنے والوں کے ساتھ کچھ خواص (یعنی حکمراں) بھی شامل رہے تھے۔
برکت کی جگہ
قرآن مجید نے پانچ جگہ تو یہ اعلان کیا کہ یہاں برکت ہے سورہ اعراف وَ اَوْرَثَنَا الْقَوْمَ [6]۔ میں سُبْحَانَ الَّذِیِ اَسْرٰی [7]۔ میں وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا۔ [8]۔ میں اسرائیل یہاں جم کر بیٹھا ہوا ہے اور عیسائی حفاظت کر رہے ہیں، سارے کفار تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ عالم اسلام انتشار کا شکار ہونے کے باوجود فلسطینی آج بھی نہتے مزاحمت کر رہے ہیں اور اسرائیلی درندگی کا ڈٹ کر سامنا کر رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم معصوم و مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر تائید کریں اور انہیں ان کا حق دلائیں ،ساتھ ہی ساتھ انسانیت کا مظاہرے کرتے ہوئے ہمیں انہیں دواء اور غذا بھی فراہم کرنا چاہئے۔
حوالہ جات
- ↑ ابوالحسن علوی، مسجد أقصی قرآن و سنت کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ، mohaddis.com
- ↑ بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں!baseeratonline.com
- ↑ سورہ الاسراء
- ↑ تاریخ بیت المقدس، kitabosunnat.com
- ↑ مسجد اقصیٰ تاریخ کے آئینے میں، fikrokhabar.com
- ↑ سورہ اسراء
- ↑ سورہ انبیاء
- ↑ سورہ سباء