سید عقیل الغروری
| سید عقیل الغروری | |
|---|---|
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش کی جگہ | ہندوستان |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
سید عقیل الغروی آیت اللہ سید عقیل الغروی مشہور و نامور بین الاقوامی شہرت یافتہ ہندوستانی شيعہ عالم دين، ممتاز فلسفی، مفکر، شاعر، ادیب، ماہرِتعلیم، نقاد، فعالیت پسند اور مجتہد ہیں۔ وہ دورِ حاضر میں منبر اور مجالسِ عزا کی پہچان بن کر سامنے آئے ہیں۔ اردو دان طبقہ چاہے برِ صغیر و مشرقِ وسطٰی میں رہتا ہو یا امریکا، یورپ اور آسٹریلیا میں جہاں بھی اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں سید عقیل کے قدر دان ملیں گے۔ انہوں نے حوزہ علمیہ جامعہ الثقلین دہلی میں بحیثیت پرنسپل خدمات انجام دیں اور اس وقت سفینہ ہدایہ ٹرسٹ کے موجودہ چیئرمین (Chairman) ہیں۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن[7] ہونے کے علاوہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر بھی ہیں۔ آپ آیت اللہ شیخ محسن اراکی کی جانب سے مجمعِ تقریب کے بر صغیر میں نمائندہ ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں موجود فلسفے میں پی ایچ ڈی (Ph.D) کرنے والے طلبہ کے نگران (Supervisor) بھی رہ چکے ہیں۔ ان سب کے علاوہ غروی امامیہ اسلامک یونیورسٹی، دہلی کے سرپرست (Patron) اور فورم آف فلاسفرز، انڈیا کے معتمد (Secretary) کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سید عقیل الغروی ماہانہ شائع ہونے والے رسالے ادبی کائنات کے سرپرست ہیں۔ ادبی کائنات کی بنیاد 1981 میں رکھی گئی تھی اور تب سے ہی عوام کو بنارس میں معیاری طور پر اعلی درجے کا مواد فراہم کر رہا ہے
موت کے جمال و جلال سے واقفیت لازمی ہے
مجلسِ ایصالِ ثواب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موت کے جمال و جلال کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم مختصر زندگی میں علم اور تجربے کے ذریعے جلال و جمال کا لطف اٹھاتے ہیں، لیکن حقیقت میں زندگی کی دائمی حقیقت کے جمال و جلال کا مشاہدہ موت کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس حقیقت سے ناآشنا رہتے ہیں۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،علی گڑھ/ عالمی شہرت خطیب و عالم دین دین حجۃ الاسلام و المسلمین سید عقیل الغروی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس بیت الصلوٰۃ میں منعقدہ مجلسِ ایصالِ ثواب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موت کے جمال و جلال کو سمجھنا ضروری ہے۔
ہم مختصر زندگی میں علم اور تجربے کے ذریعے جلال و جمال کا لطف اٹھاتے ہیں، لیکن حقیقت میں زندگی کی دائمی حقیقت کے جمال و جلال کا مشاہدہ موت کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس حقیقت سے ناآشنا رہتے ہیں۔ کنیز سیدہ بنت سید محمد ہاشم رضوی مرحومہ کے ایصالِ ثواب کے لئے منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا موصوف نے کہا کہ مجلس ایک ایسا ادارہ، عبادت اور وسیلہ ہے، جو دنیا میں رہتے ہوئے بھی آخرت سے مسلسل مربوط رکھتا ہے۔ یہ ایک فکر انگیز اور حیات بخش ذریعہ ہے، جو دارِ فانی سے دارِ آخرت کے لیے حیاتِ جاوداں عطا کرتا ہے۔ سن 61 ہجری سے آج تک لاکھوں، کروڑوں مجالس برپا ہو چکی ہیں، اور نہ جانے مزید کتنی منعقد ہوں گی، لیکن نہ عزا کا حق ادا ہوگا اور نہ ہی سید الشہداء علیہ السلام کا۔ افسوس کہ لوگ مجلس کی برکات اور اس کی اہمیت کا مکمل اندازہ نہیں کر پاتے۔
حجۃ الاسلام سید عقیل الغروی نے مزید کہا کہ موت کے جمالیات ایک نہایت جمیل، پُر جلال اور پُر وقار حقیقت ہے، جس کا جلال و جمال، زندگی کے جمال و جلال سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان اپنی پوری زندگی امام علیہ السلام کی زیارت کی تمنا کرتا ہے اور عبادات، مالی و جسمانی قربانیوں میں مشغول رہتا ہے، لیکن آخری لمحہ، یعنی موت کے وقت، اسے امام امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ یہ امام (ع) کا وعدہ ہے، اور یہی موت کے جمال کا وہ پہلو ہے، جس کی معرفت ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔
مجلس میں معروف مرثیہ خواں استاد حسن علی مظفر نگری نے اپنے منفرد انداز میں مرثیہ پیش کیا۔ مجلس کا آغاز معروف قاری مولانا محمد مجلسی کی تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا۔ منعقدہ مجلس میں صدر شعبہ شیعہ دینیات اے ایم یو پروفیسر سید محمد اصغر، مولانا سید زاہد حسین رضوی، پروفیسر اصغر اعجاز قانمی، شبیہ حیدر، کاظم عابدی، ایڈوکیٹ جواد نقوی، حیدر نقوی، منصف عابدی، مبارک زیدی، فردوس زیدی، دانش زیدی، ڈاکٹر شجاعت حسین اور دیگر معززین سمیت یونیورسٹی کے پروفیسرز، ڈاکٹرز اور اہم شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی[1]۔
- ↑ موت کے جمال و جلال سے واقفیت لازمی ہے، حجۃ الاسلام سید عقیل الغروی- شائع شدہ از: 2 مارچ 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 فروری 2025ء۔