جیش العدل

ویکی‌وحدت سے
نظرثانی بتاریخ 14:00، 5 فروری 2024ء از Mosavisajad (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
جیش العدل
جیش العدل.png
پارٹی کا نامجیش العدل
بانی پارٹی
  • عبد الملک ریگی
پارٹی رہنماصلاح‌الدین فاروقی
مقاصد و مبانی
  • ایرانی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد

جیش العدل ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ایک سنی عسکریت پسند گروپ ہے جو ایران کی حکومت کے ساتھ مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہ تنظیم 2012 میں وجود میں آئی جس کی بنیاد جند اللہ کے اراکین نے رکھی۔ 2010 میں جندل اللہ کے سربراہ عبدالمالک کی پھانسی کے بعد ان کے بھائی عبد الرؤف نے جیش النصر کی بنیاد رکھی جو بعد میں جیش العدل ہو گئی جبکہ صلاح الدین فاروقی جیش العدل کے موجودہ کمانڈر ہیں۔ اس تنظیم کی تین عسکری شاخیں ہیں۔ عبدالملک ملا زادہ عسکری گروپ، شیخ ضیائی عسکری گروپ اور مولوی نعمت اللہ توحیدی عسکری گروپ شامل ہیں۔

ان تینوں گروہوں کے ساتھ ’زبیر سمائل زاہی‘ کی انٹیلی جنس برانچ بھی سرگرم ہے۔ زبیر سمائل زاہی ’نعمت اللہ توحیدی‘ گروپ کا کمانڈر تھا، جو ایک فوجی آپریشن کے دوران مارا گیا۔

یہ گروہ خود کو ایران کی بلوچستان سنی اقلیت کے حقوق کا محافظ اور شامی حکومت کا حامی قرار دیتا ہے۔

جیش العدل نے 2012 میں پاسداران انقلاب کے 2 اہلکاروں کو مار کر اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا تاہم ایرانی فوجی اور عام لوگوں کے خلاف کئی حملوں اور اغوا کی ذمہ دار بھی یہی تنظیم رہی ہے۔

ایران کا فضائی حملہ

گزشتہ شام ایران نے بلوچستان کی سرحد سے منسلک علاقے پنجگور میں جیش العدل کے ٹھکانوں کو میزائل سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 2 بچے جانبحق ہوگئے۔ اس حوالے سے وی نیوز نے پنجگور میں مامور لیویز اہلکار سے گفتگو کی ہے اور واقعے کی تفصیلات حاصل کی ہیں۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پنجگور میں لیویز اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ روز مغرب کے وقت پنجگور کی تحصیل کلگ کے گاؤں کوہ سبزہ میں ایرانی طیاروں کی جانب سے مقامی آبادی پر 4 میزائلوں سے حملہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کی خاتون سمیت 4 افراد زخمی ہوئے، جن کی شناخت مریم، رقیہ، عاصمہ اور عائشہ کے ناموں سے ہوئی ہے۔ ’واقعہ کے فوراً بعد زخمیوں کو پنجگور سول اسپتال منتقل کیا گیا جہاں 2 بچیاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں، میزائل حملے سے قریبی مسجد شہید جبکہ اطراف کے گھر شدید متاثر ہوئے، تاہم سیکیورٹی فورسز نے تاحال علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے جبکہ شواہد اکٹھے کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔‘

لیویز اہلکار نے مزید بتایا کہ میزائل حملوں کے سبب علاقے میں شدید خوف و حراس پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مکین اپنے گھروں میں خوف کے مارے محصور ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو رات گئے اپنے گھروں سے نقل مکانی کرچکے ہیں [1]۔

چین کا ردعمل

چین نے بدھ کو پاکستان اور ایران پر زور دیا کہ وہ ’تحمل‘ کا مظاہرہ کریں۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ’ہم دونوں فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے، کشیدگی میں اضافے کا باعث بننے والے اقدامات سے گریز کرنے اور امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کی اپیل ہیں۔‘ ترجمان نے کہا کہ ’ہم (چین) ایران اور پاکستان دونوں کو قریبی پڑوسی اور بڑے اسلامی ممالک سمجھتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان دونوں بیجنگ کے قریبی شراکت دار اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں۔

جیش العدل کا ردعمل

جیش العدل تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کے پاسدان انقلاب کی طرف سے تنظیم کے ’مجاہدین‘ کے کئی گھروں کو چھ ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا جہاں بچے اور خواتین رہائش پذیر تھیں۔

تنظیم کی طرف سے کہا گیا کہ ان حملوں میں دو گھر تباہ ہو گئے جہاں مقیم اہلِ خانہ بشمول بچے مرنے اور زخمیوں میں شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’یہ ایک مجرمانہ حملہ تھا جس میں دو چھوٹے بچے شہید جب کہ دو خواتین اور نوجوان لڑکی شدید زخمی ہوئی۔‘

جیش العدل سنی مسلح گروہ ہے جس نے اپنی سرگرمیاں ایران کے شہر سیستان سے شروع کی تھیں۔ یہ گروپ علاقے کے ایک اور مسلح گروپ جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کی گرفتاری اور پھانسی کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔

اس گروپ پر 2005 میں ایران کے اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد پر مسلح حملے سمیت متعدد دھماکوں اور حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

حملے بلوچستان کے کس علاقے میں ہوئے

حملے کا مقام ضلع پنجگور کا سرحدی علاقہ کوہ سبز کی ذیلی تحصیل کلک تھا۔ خضدار میں انڈپینڈنٹ کے صحافی عامر بجوئی کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والا علاقہ ایک پرامن خطہ سمجھا جاتا ہے، جو تجارت کے حوالے سے اہم ہے۔ یہ سرحد کے مرکزی تجارتی پوائنٹ چیدگی سے تقریباً 40 سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ دھماکے میں ایک مسجد کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ علاقہ کے مکینوں کے مطابق ایک جہاز آیا، جس کے ذریعے دھماکا کیا گیا۔ یہ علاقہ، سنگلاخ اور میدانی ہے، جہاں دوسرے ذرائع آمدن نہ ہونے باعث لوگ سرحدی تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔ مرنے والوں کی شناخت عمیرہ اور سلمان کے طور پر ہوئی ہے جبکہ زخمیوں میں عاصمہ، رقیہ، عائشہ اور مریم شامل ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پہلے ہی تہران میں ایرانی وزارت خارجہ میں متعلقہ سینیئر عہدیدار کے پاس شدید احتجاج ریکارڈ کروا دیا ہے اور ایرانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں بلا کر شدید مذمت بھی کی گئی ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ اس خلاف ورزی کے ’نتائج کی ذمہ داری صرف ایران پر ہو گی۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ دہشت گردی خطے کے تمام ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے جس کے لیے مشترکہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی یکطرفہ کارروائیاں اچھے ہمسایہ تعلقات کے لئے مناسب نہیں ہیں اور یہ دو طرفہ اعتماد کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔‘

یہ حملہ ایران اور پاکستان کی مشترکہ بحری مشقوں کے خاتمے کے ایک دن بعد ہوئے ہیں۔ ایرانی نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق ان مشقوں میں دونوں ممالک کی بحری افواج کے میزائل لانچرز اور جنگی جہاز تعینات کیے گئے، جو آبنائے ہرمز اور خلیج عرب میں واقع ہوئیں۔

دوسری جانب منگل کو ہی ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقعے پر ملاقات اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ ایران کے وزیر خارجہ اور پاکستان کے نگراں وزیر اعظم نے منگل کو ہی ڈیووس اجلاس کے موقع پر ملاقات اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔

ایران کے وزیر خارجہ اور پاکستان کے نگراں وزیراعظم نے اس ملاقات میں باہمی روابط اور تعاون میں فروغ کا جائزہ لینے کے ساتھ ہی علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی گفتگو کی، تاہم سرکاری اعلامیے میں سرحدی کشیدگی پر بات چیت کا ذکر نہیں ہوا۔

دونوں رہنماؤں نے مغربی ایشیا کے حالات، غزہ کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں، مظلوم فلسطینی عوام کی نسل کشی اور بحیرہ احمر میں کشیدگی کے بارے میں بھی تفصیل سے گفتگو کی [2]۔

ایران کے جيش العدل تنظيم پر حملوں کے محرکات اور حکومت پاکستان کی مذمت کے تناظر میں کچھ گزارشات

ایران نے جيش العدل نامی سعودي حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد گروہ کے پاکستان میں موجود خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس پر پاکستان نے سرکاری طور پر شدید الفاظ میں مذمت کی ہے جس کے بعد کچھ عناصر سیخ پا نظر آتے ہیں اور اسے پاکستان کی خودمختاری پر حملہ قرار دے رہے ہیں تو اول تو عرض ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ یہ حملے پاکستانی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر کئے گئے ہوں کیونکہ حالیہ چند دنوں سے ایران و پاکستان کے اعلی عہدیداروں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے.

دوم یاد رکھیں کہ یہ ہر حکومت کی میڈیا پالیسی ہوتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات پر بظاہر مذمت کرتی ہے ورنہ یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک نے اپنے اندر دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے. اگرچہ تلخ حقیقت یہی ہے۔

تیسری بات بفرض محال اگر پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر یا پاکستان کی عدم رضا مندی کے ساتھ یہ قدم اٹھایا گیا ہے تو یہ سوال حکومت پاکستان سے ہونا چاہئے کہ کیونکر ایک آزاد اور خودمختار ملک کے اندر ایسی دہشتگرد تنظیم کے ٹھکانے موجود ہیں جو سال ہا سال سے ہمسایہ ملک میں جا کر آئے دن نہتے افراد کا خون بہا کر دوبارہ ہمارے ملک میں آکے پناہ گزین ہو جاتے ہیں آپ ایران کی جگہ پاکستان کو رکھ لیں کیا ہمارے ساتھ ایسا ہو تو ہمارا کیا رد عمل ہوگا اور پھر یہ چند دنوں کی بات نہیں بلکہ سالہا سال یہ سلسلہ چل رہا ہے جہاں ایک طرف سینکڑوں ایرانی پولیس اور فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہیں بڑی تعداد میں عام نہتے شہریوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے یاد رہے کرمان میں ہونے حالیہ بم حملوں سے لیکر چند روز قبل ایرانی پولیس آفیسرز کے قتل کے تانے بانے بھی اسی تنظیم سے ملتے ہیں. ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم مسلے کو يا تو شیعہ سنی بن کے دیکھتے ہیں یا پھر وطن دوستی کے تناظر میں دیکھتے ہیں جبکہ اگر وطن دوستی کے تناظر میں بھی دیکھا جائے تو یہ عناصر نہ فقط ایران بلکہ ملک عزیز پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں اور ہر پاکستانی محب وطن شہری کو اپنے سیکیورٹی اداروں کے سامنے یہ آواز اٹھانی چاہیئے کہ ان دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرکے انکی جڑوں کو ملک عزیز پاکستان سے کاٹ پھینکنا چاہیے تاکہ آیندہ کسی اور ملک کو اس قسم کی کارروائیوں کا موقع نہ مل سکے۔

ایران نے پاکستان میں موجود جیش العدل گروہ پر کیوں حملہ کیا ؟ جیش العدل کون ہیں ؟ جیش العدل نے ایران میں کیا کیا؟

جیش العدل ایران کے جنوب مشرق میں اور خاص طور پر صوبہ سیستان و بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں میں سے ایک کا نام ہے، اس کی بہت سی قوتیں اپنی جنگی طاقت کو منظم کرنے اور بڑھانے کے لیے پاکستان میں سرگرم ہیں۔ یہ گروہ ایران مخالف اور سیستان و بلوچستان کی ایران سے علیحدگی کیلئے سرگرم ہے۔ اس دہشت گرد گروہ نے ایران میں کئی دہشت گرد اور خودکش کارروائیاں کی ہیں اور درجنوں ایرانی فوجی اور سویلین فورسز کے جوانوں کو شہید کیا ہے۔ جیش العدل نامی اس دہشت گرد گروہ نے 2017 کو پاسداران انقلاب اسلامی کے سرحدی محافظ دستوں کو لے جانے والی بسوں میں سے ایک کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں درجنوں فوجی اہلکار شہید اور زخمی ہوئے۔

گروپ کمانڈ

اس گروہ کا سرغنہ رسول الدین فاروقی راسک کا رہنے والا ہے۔ وہ عبدالمالک ریگی کی قیادت میں جنداللہ دہشت گرد گروہ کی سابقہ افواج میں سے ایک ہے، جس نے اس دہشت گرد گروہ کے خاتمے کے بعد جیش العدل دہشت گرد گروہ کو فعال کیا۔

تنظیم

جیش العدل دہشت گرد گروہ کی تین معروف عسکری شاخیں ہیں: "عبدالمالک ملا زادہ" ملٹری گروپ، "شیخ ضیائی" ملٹری گروپ، اور "مولوی نعمت اللہ توحیدی" ملٹری گروپ۔ ان تینوں گروپوں کے ساتھ ساتھ "زبیر سمائل زاہی" انفارمیشن برانچ بھی فعال ہے۔ زبیر سمائل زاہی "نعمت اللہ توحیدی" گروپ کا کمانڈر تھا، جو ایک فوجی آپریشن کے دوران مارا گیا

اس گروہ کی کچھ دہشت گردانہ کارروائیاں

جیش العدل دہشت گرد گروہ نے 2010 میں شہریار میں انقلاب اسلامی کے درجنوں سپاہیوں کی شہادت کا دعویٰ کیا تھا۔ اسی سال اس گروہ نے ایک بار پھر پاسداران انقلاب اسلامی کے 10 اہلکاروں کی شہادت کا دعویٰ کیا۔ 3 نومبر 2013 کو اس دہشت گرد گروہ کے ارکان نے سراوان کے علاقے میں سرحدی گشت پر اچانک حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایرانی سرحدی پولیس کے 14 اہلکار شہید اور 7 زخمی ہوگئے۔ حملے کے بعد حملہ آور ایران پاکستان سرحد عبور کر کے پاکستان میں چھپ گئے۔ اپنے سرکاری بلاگ پر شائع ہونے والے بیان میں، انہوں نے اس کارروائی کی وجہ "ایرانی بلوچ نوجوانوں کے دفاع" اور شام کی خانہ جنگی میں ایران کی مداخلت کو بھی بتایا۔ اس واقعے کے بعد ایران کی عدلیہ نے ایک بے مثال اقدام کرتے ہوئے اس گروہ کے 16 افراد کو پھانسی دے دی۔ نجا بارڈر پولیس کے سربراہ سردار حسین ذوالفقاری نے اس کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "ان مجرموں کو اس دن پھانسی نہیں دی جانی تھی، ان کی سزا پہلے ہی جاری اور منظور ہو چکی تھی، لیکن عدالتی نظام نے سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا تاکہ ان مجرموں کو پھانسی دی جائے۔ ان کے ساتھ اسلامی سلوک کیا جا سکتا ہے۔" سراوان میں دہشت گردی کے واقعے کے رونما ہونے کے ساتھ ہی، اہلکار اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ دوسرے مقاصد کا تعاقب کر رہے تھے، اور اس کے نتیجے میں، انہوں نے رفعت کو چھوڑ دیا۔"

ایرانی سرحدی محافظوں کا اغوا

جیش العدل دہشت گرد گروپ نے فروری 2013 میں ایران پاکستان سرحد کے قریب سے پانچ ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا کیا تھا اور کچھ عرصے بعد ان کی ایک تصویر شائع کی تھی۔ بعد ازاں سرحدی محافظوں میں سے ایک کی شہادت اور چار دیگر سرحدی محافظوں کی شہادت کے حوالے سے جیش العدل کی دھمکیوں کی رپورٹ شائع کی گئی۔ جیش العدل نے اس گروپ کے 50 قید ارکان، ایران میں قید 200 شہریوں اور 50 خواتین کی رہائی کا مطالبہ کیا، جنہیں جیش العدل کے مطابق شام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

پولیس فورس کے آٹھ سرحدی محافظوں کی شہادت

17 اپریل 2015 کو اس دہشت گرد گروہ کے ارکان جاکیگور کے نیچے 239 سرحدی میل کے فاصلے پر ناگور کے علاقے میں پاکستان کی حدود سے ایران کی حدود میں داخل ہوئے اور آٹھ ایرانی سرحدی محافظوں کو شہید کر کے پاکستان واپس آگئے۔

میرجاویہ بارڈر پر نو ایرانی سرحدی محافظوں کی شہادت

اس دہشت گرد گروہ کے ارکان نے 6 مئی 2016 بروز بدھ کو پاکستان کے اندر سے فائرنگ کر کے چاہندو گروپ (میرجاوی بارڈر رجمنٹ) کے دس ایرانی سرحدی محافظوں کو شہید کر دیا تھا جو مل 100 چوکی پر تعینات تھے۔ اور رات آٹھ بجے چوکی پر ڈیلیور کرنے والے تین کیڈر اور چھ سپاہی شہید ہو گئے۔

ایرانی فوجی دستوں کا ایک بار پھر اغوا

24 اکتوبر 2017 بروز منگل اس دہشت گرد گروہ کے ارکان پاکستان کی حدود سے صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہر میرجاوہ سے 50 کلومیٹر دور "رگ ملک" سیکشن میں "لولکدان" کے علاقے میں گھس آئے اور سرحد کے چودہ مسلح ارکان کو نشانہ بنایا۔ اس علاقے میں گارڈز مارے گئے۔ دیگر کو گرفتار کر کے پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔

11 مارچ 2018 کو جیش العدل نے حملہ کر کے دو ایرانی سپاہیوں کو زخمی کر دیا۔

اسی سال اپریل میں میرجاویہ میں ایک پولیس چوکی کے قریب ایک دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے تین ایرانی افسران اور تین دہشت گرد مارے گئے تھے۔ 26 جون کو، دہشت گردوں نے میرجاوہ میں آئی آر جی سی کی ایک پوسٹ پر دوبارہ حملہ کیا، حملے میں تین دہشت گرد اور چار فوجی مارے گئے۔ 16 اکتوبر کو، جیش العدل نے میرجاوہ میں دوبارہ حملہ کر کے 12 سیکورٹی اہلکاروں کو زہر دے کر اغوا کر لیا، اور پاکستان لے جایا گیا۔ 5 یرغمالیوں کو 15 نومبر 2018 کو رہا کیا گیا تھا، اور 22 مارچ 2019 کو مزید چار یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ جیش العدل نے اغوا کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ دسمبر 2018 میں اس گروہ نے بندرگاہی شہر چابہار میں ایک خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں دو پولیس افسران ہلاک اور بیالیس دیگر زخمی ہوئے۔


29 جنوری 2019 کو، گروپ نے زاہدان میں ایک دوہرے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔


تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق 2 فروری 2019 کو جیش العدل نے جنوب مشرقی ایران میں بسیج نیم فوجی اڈے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس حملے میں ایک نیم فوجی اہلکار ہلاک اور پانچ دیگر زخمی ہوئے۔

زاہدان کور کے عملے کی بس میں دھماکہ

13 فروری 2019 کو جیش العدل دہشت گرد گروہ نے خاش-زاہدان روڈ پر پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس کیمپ سے فوجیوں کو لے جانے والی بس پر دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کا استعمال کرتے ہوئے خودکش حملہ کیا۔ آئی آر جی سی کے اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 27 اور زخمیوں کی تعداد 13 ہے۔ قدس ہیڈ کوارٹر نے اس واقعے کے کچھ دیر بعد ایک نوٹس جاری کیا۔ 30 جون کو ایران کے شہر زاہدان کے علاقے کورین میں اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے قافلے پر دھماکہ خیز مواد سے دھماکہ ہوا جس میں ایک فوجی زخمی ہوا۔ جیش العدل نے بعد میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ 8 جولائی 2023 کو، گروپ نے زاہدان میں ایک پولیس اسٹیشن پر حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں دو پولیس افسران ہلاک ہوئے۔ چاروں مسلح مجرموں کی جائے وقوعہ پر ہی موت ہو گئی۔ جبکہ حال ہی میں دسمبر 2023 میں اس گروہ نے ایران کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا اور متعدد پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ ایران نے کئ بار اس حوالے سے پاکستان سے بات کی کہ بارڈر سے اس دہشت گردی کو روکا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہ کرنے کے باعث ایران نے خود اس دہشت گرد گروہ جو ایرانی حکومتی کارندوں اور فورسس کے قتل میں ملوث ہے پر راکٹوں سے حملہ کیا۔ جیش العدل نے اپنے بیان میں اس بات کو تسلیم کیا کہ ہمارے اڈے پر ایرانی مزائلوں سے حملہ کیا گیا ہے اور ہیڈ کوارٹر کو تباہ کیا گیا ہے۔ جبکہ پاکستانی حکومت نے اس حملے کی مذمت کی اور بیان دیا کہ اس سے دو معصوم بچے ہلاک ہو گئے ہیں، جبکہ جیش العدل اپنے بیان میں اسے اپنے اڈوں پر حملہ تسلیم کر چکا ہے [3]۔

پاک ایران کشیدگی، نقصان امریکہ و بھارت کا

اردو میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ بعض مبصرین کے خیال میں موجودہ حالات میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ اگر پاکستانی افق پر حالیہ دنوں پر غور و فکر کیا جائے تو اس بات میں کوئی شک موجود نہیں ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کافی سنجیدہ ہیں۔ خاص طور پر جب سے جنرل سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی ہے، دہشت گردی کو ختم کرنے کا ارادہ قوی طور پر پایا گیا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی اسی کی ہی ایک کڑی ہے۔ اسی طرح آرمی چیف نے تمام علماء کو دعوت دے کر نہایت کھل کر افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں گفتگو کی اور کہا کہ پاکستان تحریک طالبان خوارج ہیں اور علماء کو باقاعدہ تنبیہ کی گئ کہ علماء ان کی پشت پناہی سے بعض آجائیں۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کا حالیہ دورہ افغانستان کو بھی نہایت اہمیت حاصل ہے، جس میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان فوج نے مولانا فضل الرحمن کے زریعے افغانستان کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب سے طالبان کی دہشت گردوں کی پشت پناہی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی مسلک دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا کا تعلق بھی مسلک دیو بند سے ہے، اس لیے ان میں آپس میں قرابت پائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے جید علماء نے بھی پاکستانی ریاست کے خلاف کالعدم ٹی ٹی پی کے جہاد کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ سب وہ اقدامات ہیں جنہیں نہایت ہی واضح طریقے سے پاکستان کے افق پر دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایسے میں ایک طرف اگر پاکستان تحریک طالبان کیخلاف اقدامات ہو رہے ہیں اور بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے متعلق کچھ نہ سوچا جائے تو پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ فقط ایک خواب ہے۔ کیونکہ BLA اور BLF باقاعدہ معصوم پاکستانی شہریوں اور افواج پاکستان کے قتل میں باقاعدہ ملوث ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک طرف پاکستانی ریاست افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کو نظر میں رکھے لیکن بلوچستان سے ہونے والی دہشت گردی کو نظر انداز کر دے، جبکہ ان دہشت گرد تنطیموں کو غیر ملکی امداد حاصل ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ ایک طرف بلوچستان مسنگ پرسن کے حوالے سے اسلام آباد میں حالات گرم ہیں، جہاں پر بلوچستان سے لوگ آکر باقاعدہ دھرنہ دے رہے ہیں اور انہیں عوام کی پذیرائی و ہمدردی بھی حاصل ہے۔ لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے بھی رشتہ دار ہوتے ہیں، کل کو وہ آکر دھرنے دیں تو کیا انہیں چھوڑ دیا جائے، البتہ اس حوالے سے حکومت کی طرف سے کمیشن بنانے کی پیشکش بھی کی گئ ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ ہمیشہ جب کسی گروہ کیخلاف کاروائی کی جاتی ہیں ان میں معصوم افراد بھی بعض اوقات نشانہ بن جاتے ہیں۔ لیکن حکام نے میڈیا پر برملا بتایا ہے کہ ان دھرنہ دینے والوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس بھارت سے چلائے جا رہے ہیں اور بھارت ان کا ٹرنڈ بنانے میں پیش پیش ہے۔ یہ صورتحال پاکستانی ریاستی اداروں کیلئے نہایت ہی پیچیدہ اور پریشان کن ہے۔

کیونکہ اس بات کے واضح ثبوت دیے جا سکتے ہیں کہ بھارت BLF اور BLA کے پیچھے ہے، کلبوشن یادو جو کہ RAW کا ایجنٹ تھا، اس کا بلوچستان سے پکڑے جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے۔بھارتی حاضر سروس نیول افسر، کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مارچ 2016 میں اس وقت گرفتار کیا جب وہ پاکستان کے بلوچستان میں واقع سراوان علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ بھارت کی مداخلت نے پاکستان کی قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی پر سنگین مضمرات پیدا کیے ہیں۔ مزید برآں، یہ بالآخر خطے میں مستقل عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کو حکومت پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں باغی گروپوں کو بھارتی سرپرستی کے ڈوزیئر بھی فراہم کیے گئے تھے جن میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی مالی اعانت شامل تھی۔ایسے میں پاکستان میں بھارتی مداخلت عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے اور پاکستان حالیہ واقعات جو اسلام آباد میں ہو رہے ہیں، اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔

عین اسی طرح جیش العدل جن کا تعلق ایرانی صوبہ بلوچستان و سستان سے ہے، یہ گروہ ایرانی حکومت کی نظر میں ایک دہشت گرد گروہ ہے، اس دہشت گرد گروہ کی لمبی تاریخ ہے اور اس کے معصوم ایرانی شہریوں اور ایرانی افواج کو قتل کرنے کی لمبی داستان ہے۔ ایرانی اینٹیلجنس ایجنسی کے مطابق اس گروہ کے باقاعدہ امریکہ و عرب ممالک سے تعلقات ہیں اور جو ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ ایران کے مطابق خاص طور پر اس گروہ کے پاکستان اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی CIA کے عہدیداروں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ایران میں حملوں کے بعد وائس آف امریکہ اکثر اس گروہ کی وکالت کرتے ہوئے نظر آیا ہے۔ اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایران جو امریکہ کا دشمن ہے، اگر امریکہ کو کوئی ایسے گروہ مل جائے جو اس کی نیابت میں ایران کے اندر جڑیں کاٹے تو اس سے بہتر اور امریکہ کیلئے کیا ہو سکتا ہے ؟ جس طرح BLA اور BLF پاکستان میں بلوچستان کے حوالے سے علیحدگی پسند تحریک چلاتے ہیں اور عسکری حملے کرتے ہیں، عین اسی طرح جیش العدل بھی ایران میں بلوچستان و سیستان کے حوالے سے علیحدگی پسند تحریک چلانے اور ایران میں عسکری کاروائیاں کرتے ہیں اور ان کے پیچھے بھارت و امریکہ کی سپورٹ و اشیر باد شامل حال ہے۔ کیونکہ پاکستان اور ایران میں ان کے علاقے آپس میں ملحق ہیں، اس لیے ایک قوم ہونے کے ناطے جیش العدل اور BLA BLF میں آپس میں بھی رابطے موجود ہیں۔ ایسے میں یہ گروہ پاکستان و ایران دونوں کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں !

یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی پر قابو پانے اور بارڈر سکیورٹی پر زور دیتے آئے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں اس حوالے سے زیادہ پختہ ارادہ نظر آتا ہے۔ جس دن ایران نے پاکستان کی سرزمین پر حملہ کیا اس سے ایک دن پہلے افغانستان کیلئے ایرانی سفیر کی پاکستان کی دعوت پر موجودگی پر مبصرین نہایت غور و فکر کر رہے ہیں۔ اس دورے کی دعوت خود پاکستان نے دی تھی۔ جس میں کئ معاملات پر بات چیت کی گئ، موجودہ حالات میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے آمادہ ہے، ایسے میں افغانستان و ایران میں دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے بھارت و غیر ملکی طاقتوں کی شمولیت اور اس کے سدباب کا معاملہ ضرور زیر بحث آیا ہوگا

موجودہ حالات میں جہاں ایران دنیا بھر میں امریکہ و اسرائیل کیخلاف سرگرم ہے، ایسے میں پاکستان کو بتائے بغیر پاکستان کے ساتھ ایک نیا محاز کھڑا کر دے اور اپنے لیے نقصان کو دعوت دے، مبصرین کے خیال میں یہ نا ممکن ہے، بلکہ ان کا خیال ہے کہ ان حملوں سے پہلے پاکستان و ایران دونوں کو معلوم تھا اور انہوں نے آپس میں باہمی ہم آہنگی کے بعد یہ اقدامات کیے ہیں۔ لیکن چونکہ پاکستان کی سیاسی و معاشی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں اور دوسری طرف امریکہ و یورپ کے نور نظر ٹھہرنے کیلئے یہ اعلان کیا کہ ہم اس کا علم نہیں تھا اور ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئ ہے۔ ایسے میں پوری دنیا میں اسے ایران پاکستان جنگ کہا جا رہا ہے اور پوری دنیا کی نگاہیں اس طرف لگ گئ ہیں، گویا امریکی و اسرائیلی خوش ہو رہے ہیں کہ ایران اور پاکستان آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے ملکی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر نشانہ لگایا ہے اور عالمی میڈیا اور عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے کہ گویا ایران و پاکستان کے حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان نے عربوں اور یورپ کی ہمدردی کے ساتھ ساتھ اپنے ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے راہ ہموار کرلی ہے، یہی عوام جو کل پاکستانی اداروں پر انگلیاں اٹھا رہی تھی اور بلوچ دہشت گردوں پر کاروائیوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، آج وہ ریاستی اداروں کو گن گا رہے ہیں۔ اس طرح ریاستی اداروں نے کمال مہارت سے اپنے لیے حمایت بھی حاصل کر لی، اب یہ معاملہ شاید کچھ عرصہ چلے گا، ایران اور پاکستان دونوں نے بلوچستان سرحد کے قریب فوجوں کو بڑھا دیا ہے اور بارڈر کی کڑی نگرانی اور دہشت گردوں کے حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں، لیکن دنیا کی نظر میں یہ سب پاک ایران کشیدگی کی وجہ سے ہو رہا، جبکہ حقیقتا" یہ امریکہ و بھارت کے حمایت یافتہ گروہوں کو کچلنے کیلئے ہو رہا، جو کہ شاید پاکستان میں شاید حقوق انسانی کی تنظیموں کے ہوتے ہوئے اور بلوچ نسل کشی پر سیاست کرنے والوں کے ہوتے ہوئے بہت مشکل ہوتا، لیکن اس طرح پاکستان بھارت کی چالوں پر کاری ضرب لگانے کیلئے آمادہ ہو گیا ہے۔ گویا سانپ بھی مرے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ اس طرح پاکستان ایران کشیدگی سے بالآخر نقصان امریکہ و بھارت کا ہو گا [4]۔

جیش العدل اسرائیل کا ایجنٹ

افغانستان والے فوج کی طرف سے کئ ملین ڈالر کی لگائ گئ باڑ بھی بارڈر سے اکھاڑ کر لے گئے۔ چند ماہ پہلے چترال سے افغانستان آرمی طالبان نے حملہ کیا اور کئ پاکستانی فوجی مارے اور کئ چوکیاں تباہ کردیں 20 میل تک افغانستان طالبان آرمی پاکستان میں گھس آئے تو پھر بھی پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں کئے ۔

افغانستان سے روزانہ میزائل پاکستان میں داغے جاتے ہیں پچھلے 40 سال سے کئ بار دراندازی ہوتی ہے افغانستان سے پاکستان۔ ساری دہشت گردی افغانستان سے پاکستان منتقل ہوئی پھر بھی کبھی پاکستان نے افغانستان سے تعلقات منقطع نہیں کئے ۔

امریکہ کئ مزائل اور ڈرون حملے پاکستان میں کر چکا اور وزیرستان، باجوڑ ، مہمند ایجنسی ، بلوچستان کے علاقوں میں کئ معصوم شہریوں کو امریکہ مار چکا ھے ، امریکہ کے ساتھ تو احتجاج بھی نہیں کیا گیا۔ پاکستان میں جو 80 ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں دہشت گردی کی وجہ سے یہ افغانستان اور امریکہ کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ ہندوستان جو 76 سالوں سے روزانہ بارڈر پر کئ بار کراس بارڈر جنگ کرتا ہے اور فائرنگ کرتا ھے اس جیسے دشمن کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات پاکستان نے کبھی ختم نہیں کئے ۔ ایران نے دہشت گرد ٹھکانے تباہ کئے ہیں۔ یہ تنظیم جیش العدل موساد اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں کافی منظم ہو چکی تھی اور ایران میں کئ دہشت گردی کی وارداتیں کر چکی ہے ۔ اس تنظیم میں ذیادہ تر ایرانی لوگ ھیں جو پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ایران نے پاکستان کو کئ بار کہا کہ ان دہشت گردوں کا سدباب کریں یہ آپریشن جو ایران نے کیا ھے اس میں جیش العدل کے 100 سے ذیادہ دہشت گرد مارے گئے ان کے گھروں اور ٹریننگ کیمپوں پر مزائل مارے گئے۔ کوئی پاکستان کے شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ یہ سب امریکہ کا غلام میڈیا غلط پروپیگنڈہ کر رہا ہے اور چند متعصب لوگ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ پہلے جنداللہ تنظیم ایران پہ کئ بار اندر جا کر دہشت گردی کی کاروائیاں کر چکی ھے سب ثبوت پاکستان کی ایجنسیوں کے پاس ھیں۔ مگر کئ سال صبر کے بعد جب پاکستان نے کچھ خاص نہیں کیا تو اب ایران نے مجبورا یہ قدم اٹھایا ہے۔

ادھر پاکستان کا وزیر اعظم کاکڑ ایران کے وزیر خارجہ سے سویڈزرلینڈ میں ملا ہے اور گورنر سندھ کامران ٹسوری ایران کے دورہ پر ہے اور ایران سے کافی بزنس لا رہا ہے جو کہ آج 17 جنوری 2024 کو واپس کراچی پہنچے گا ۔ ادھر پاکستان کی بحری افواج اور ایران کی بحری افواج کی مشترکہ مشقیں شروع ہیں۔

ادھر پاکستان نے اسرائیلی بحری جہازوں کی مدد کے لئے یمن کے حوثیوں کے خلاف 3 بحری جہاز بھیجے ہیں۔ ادھر طالبان گورنمنٹ اب اکثر امپورٹ، ایکسپورٹ ایران کے ذریعے شروع کر رھی ھے اور طالبان ایران سے سستا گیس اور پیٹرول خرید رھے ھیں ، تو پاکستان کے متعصب لوگ اور صحافیوں کو طالبان پر بھی فتوی لگانا چاہئے۔ جبکہ افغانستان اور ایران کے درمیان بھی روزانہ بارڈر پر دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ سب کچھ سوچ سمجھ کر پاکستانیوں کو اور پاکستان کی حکومت کو بولنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کشمیر نہ آزاد ہو سکا۔

ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی ٹیلیفونک گفتگو

ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی ٹیلیفونک گفتگو، ایرانی وزیر خارجہ کو اسلام آباد کے دورے کی دعوت ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں کہا کہ ایرانی سیکورٹی فورسز کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی سے آغاز میں ہی نمٹ لیتی ہیں اور دہشت گردوں کو آپریشنل موومنٹ کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے پاکستانی ہم منصب جلیل عباس جیلانی کے فون کے جواب میں ایران کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی اہمیت اور ہمسائیگی کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ مناسب ہے کہ دوطرفہ سیکورٹی اور فوجی تعاون پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے، جس پر ماضی میں دونوں ممالک کے حکام نے اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی سیکورٹی فورسز کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی سے آغاز میں ہی نمٹ لیتی ہیں اور دہشت گردوں کو آگے بڑھنے کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتی ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے جیش العدل گروپ کے خلاف ایران کے حالیہ انسداد دہشت گردی آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے زور دے کر کہا: یہ ایک آپریشنل کارروائی تھی جو سیستان اور بلوچستان میں آپریشنل ہیڈکوارٹر کے دہشت گردی کے خطرے سے فوری نمٹنے کے پیشہ ورانہ فریضے کے مطابق ہے۔ چنانچہ ٹھوس شواہد اور دستاویزات کے مطابق پچاس سے زیادہ دہشت گرد اس جگہ پر ایران کے خلاف دہشت گردانہ کارروائی کرنے کی تیاری کر رہے تھے جو کہ ایرانی فورسز کی بروقت کارروائی کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔

امیر عبداللہیان نے اپنے دوست، برادر اور پڑوسی ملک پاکستان کی خودمختاری اور ارضی سالمیت کے احترام پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت ہمارے لئے قابل توجہ حد تک نہایت اہم ہے اور پاکستان کی سرزمین میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے اور غیر موئثر بنانے کے لئے دونوں ممالک کے درمیان تعاون بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے حالات میں جب صیہونی حکومت فلسطین میں خواتین اور بچوں کا قتل عام کر رہی ہے، عالم اسلام اور خاص طور سے بڑے اور موئثر ممالک کے اتحاد کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔

اس ٹیلی فونک گفتگو میں پاکستان کے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کے مشترکہ اہداف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ رویہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا بنیادی نکتہ ہے اور پاکستان نے ہمیشہ ایران کے ساتھ برادرانہ اور تعمیری تعلقات پر زور دیا ہے اور ملکی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام ہمیشہ اسلام آباد کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے پاکستان کی قوم اور حکومت کی خصوصی دلچسپی اور احترام پر تاکید کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تمام پہلوؤں میں برادرانہ تعلقات کے فروغ پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہم دو دیرینہ پڑوسی اور مسلمان ممالک ہیں۔ دہشت گردی ہمارا مشترکہ دشمن ہے اور ہمیں دہشت گردوں اور تہران اور اسلام آباد کے دشمنوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہئے۔ باہمی تعاون اور بھائی چارہ ہی ہمارا بنیادی ہدف ہے۔ اس دوران پاکستان کے وزیر خارجہ نے امیر عبداللہیان کو اسلام آباد کے سرکاری دورے کی دعوت دی [5]۔

سید حسن نصر اللہ کا پیغام پاکستانی عوام کے لیے

سید حسن نصر اللہ نے اپنے پیام میں کہا: صیہونی فنڈڈ تکفیری ایجنڈے کے پیچھے مت پڑو۔ ایران نے پاکستان پر حملہ نہیں کیا بلکہ پاکستانی سرزمین پر ایک مشہور دہشت گرد گروپ ہے۔ یہ نہ تو شیعہ سنی تنازعہ ہے اور نہ ہی پاکستان ایران جنگ کی کال ہے۔ دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ بہت برادرانہ تعلقات ہیں اور یہ رشتہ دونوں کے فائدے میں ہے اس لیے فرقہ واریت کی آگ پر تیل ڈالنے کے بجائے تھوڑا صبر کریں اور دونوں ریاستوں کی گورننگ باڈیز کو فیصلہ کرنے دیں کہ کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ امت کو متحد فرمائے۔

دونوں ہمسائیہ ممالک تاریخی ، ثقافتی ، مذہبی تعلقات میں بندھے ہیں ،تحمل کا مظاہرہ کریں گے

قائد ملت جعفریہ پاکستان کی پاک ایران اشتعال انگیز سرحدی صورتحال پر تشویش کا اظہار؛ خطہ اور عالم اسلام جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے، ایسے مراحل میں کشیدگی سے دشمن قوتیں اور استعمار فائدہ اٹھائےگا، علامہ ساجد نقوی قائد ملت جعفریہ پاکستان: دونوں ہمسائیہ ممالک تاریخی ، ثقافتی ، مذہبی تعلقات میں بندھے ہیں ،تحمل کا مظاہرہ کریں گے حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں پاکستان اور ایران دونوں برادر ہمسائیہ ملک مشکل ترین صورتحال میں نہ صرف ایک دوسرے کےساتھ کھڑے رہے بلکہ مسئلہ فلسطین اور دہشت گردی سمیت کئی امور پر یکساں موقف رکھتے ہیں غزہ جنگ کے بعد کی صورتحال میں جس طرح مشرق وسطیٰ، ہمارا خطہ اور عالم اسلام جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ایسے مراحل میں دو برادر ممالک کی سرحدی کشیدگی دشمن قوتوں اور استعمار کو فائدہ اٹھانے کا جواز فراہم کرسکتی ہے امور کوباہمی مشاورت، سفارتی اور سیکورٹی چینلز کے ذریعے حل کیا جائے گا۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے ایران،پاکستان کی حالیہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کا فورم ہو ، اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین ہو ، توہین آمیز خاکوں کا معاملہ ہو یا پھر خطے کی صورتحال، پاک ایران موقف کئی حوالوں سے یکساں رہا ہے کیونکہ دونوں ممالک نہ صرف گہرے ثقافتی، تاریخی اور مذہبی تعلقات میں بندھے ہیں بلکہ ریاستوں کے ساتھ عوام بھی گہرے مراسم میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اطمینان ہے کہ فریقین جومعاملے کی نزاکت بخوبی سمجھتے ہیں تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور معاملات کو باہمی گفت و شنید کے ساتھ حل کریں گے۔ انہو ں نے مزید کہاکہ دہشت گردی خطے سمیت پاکستان اور ایران کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کے خاتمے کےلئے دونوں ممالک میں مذاکرات کے کئی اعلیٰ سطحی دور ہوئے ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کےلئے دونوں ممالک نے باہمی مشاورت سے لائحہ عمل تشکیل دے رکھا ہے امید ہے دونوں ممالک اب مزید کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائینگے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو یا بھائی چارہ متاثرہو [6]۔

پاکستان ایران تناؤ مشترکہ اور موقع پرست دشمنوں کے ناپاک عزائم کی تقویت کا باعث بنے گا

پاکستان ایران تناؤ مشترکہ اور موقع پرست دشمنوں کے ناپاک عزائم کی تقویت کا باعث بنے گا، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اپنے پیغام میں چیئرمین ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ دہشتگردی دونوں برادر ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کیلئے لاتعداد قربانیاں دی گئیں ہیں، اس طرح کے واقعات دونوں برادر ہمسایہ اسلامی ممالک کے دیرینہ اور تزویراتی تعلقات کو خراب کرنے کا باعث نہیں ہونے چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چیئرمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران دو برادر ہمسایہ ممالک ہیں، جن کا ماضی دوستی اور بھائی چارے کے لازوال رشتے سے عبارت ہے، دونوں برادر ممالک کے درمیان کسی بھی قسم کا تناؤ یا کشیدگی مشترکہ اور موقع پرست دشمنوں کے ناپاک عزائم کی تقویت کا باعث بنے گی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ عالمی منصوبہ ساز طاقتیں اسلام دشمنی میں پیش پیش اور موقع کی تاک میں ہیں، دشمن کی شاطرانہ چالیں صبر، حکمت اور بصیرت سے مل کر ناکام بنانی ہوں گی، تمام تنازعات کا بہترین حل سیاسی و سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعے نکالا جانا چاہیئے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مزید کہا کہ دہشت گردی دونوں برادر ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لئے لاتعداد قربانیاں دی گئیں ہیں، اس طرح کے واقعات دونوں برادر ہمسایہ اسلامی ممالک کے دیرینہ اور تزویراتی تعلقات کو خراب کرنے کا باعث نہیں ہونے چاہیئے، اس وقت غزہ سنگین انسانی المیہ سے دوچار ہے، یہود و نصاریٰ بے گناہ فلسطینیوں پر آگ و بارود کی بارش برسا رہے ہیں، مسلم امہ کی غیرت ایمانی کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ غزہ کے مسلمانوں پر مرکوز رکھیں، یہ وقت باہم الجھنے کا نہیں بلکہ مشترکہ دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور انہیں ناکام بنانے کا ہے [7].

پاکستان و ایران دو ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کی طویل سرحدی حدود ہیں

پاکستان و ایران دو ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کی طویل سرحدی حدود ہیں، علامہ امین شہیدی دھشتگرد گروہوں کو روکنا پاکستان اور ایران کی مشترکہ ذمہ داری ہے،پاکستانی بلوچستان میں مشکل اس وقت یہ درپیش ہے کہ سیکورٹی کے اداروں کی گرفت ہر حصہ پر قائم نہیں ہے اسی باعث یہاں جیش العدل، داعش، بی ایل اے اور دیگر دہشتگرد گروھوں کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔ حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے BBC کے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ پاکستان اور ایران دو ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کی طویل سرحدی حدود ہیں۔دونوں کے اس خطہ میں مشترکہ مفادات ہیں،ملک عزیز پاکستان داخلی طور پر جن مشکلات کا شکار ہے ان میں معیشت اور داخلی امن و امان سر فہرست مسائل ھیں، معیشت کی کمزوریوں کی وجہ سے پاکستان ایک ایسی صورتحال میں داخل ہوچکا ہے کہ کچھ عرب ممالک اور یورپ اور امریکہ پر پاکستان کا انحصار بڑھتا چلا جارہا ہے،اس انحصار کے باعث پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی میں بہت سی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں جس کا اثر پاکستان اور ایران کے باھمی دوستانہ تعلقات پر بھی رونما ہورہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں امن و امان نام کی کوئی چیز نظر نھیں آتی،گذشتہ دو سالوں میں پاکستان کی مسلح فورسز پر حملوں اور سرحد کے اس پار ایرانی علاقوں میں دھشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، دونوں جانب فوجی اور غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جارہا ہے، پاکستانی بلوچستان میں ایک بڑی تعداد میں فوجی جوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جبکہ ایران کے اندر بھی گذشتہ دو ماہ میں ہونے والے خود کش حملوں میں سینکڑوں عسکری اور سویلین لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان دہشت گرد گروہوں میں سے بعض کی سرپرستی اسرائیل امریکہ اور بعض عرب ممالک کرتے رہے ہیں دہشت گردگروپس اور انکے یہ مراکز افغانستان اور دیگر ممالک کے تعاون سے آپریٹ ہوریے ہیں اور سرحد کے دونوں جانب دہشت گردی اور خود کش دھماکوں کے ذریعے شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ شہید سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کی سالگرہ پر کرمان کا خود کش حملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

BBC کے ایک اور سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ ان دھشتگرد گروہوں کو روکنا پاکستان اور ایران کی مشترکہ ذمہ داری ہے،پاکستانی بلوچستان میں مشکل اس وقت یہ درپیش ہے کہ سیکورٹی کے اداروں کی گرفت ہر حصہ پر قائم نہیں ہے اسی باعث یہاں جیش العدل، داعش، بی ایل اے اور دیگر دہشتگرد گروھوں کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔ افغانستان کے امور میں ایرانی ذمہ دار جناب حسن کاظمی قمی کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر بھی مذاکرات کا ایک موضوع افغانستان میں دھشتگردی کے ٹھکانوں سمیت پاکستانی بلوچستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ باھمی بات چیت کا موضوع رہا، اس بنا پر میں یہ سب سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور ایران دونوں کو یہ معلوم تھا کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں جیش العدل کے جن مراکز کو ایران نے نشانہ بنایا ہے ان کی سرپرستی اسرائیل اور امریکہ کررہے ہیں اور اس تنظیم کو موساد اور CIA کی براہ راست مدد حاصل ہے اس تنظیم کے ممبران کی اکثریت ایرانی نیشنل ہے۔ پاکستان کھل کر اس موضوع پر اپنی سیاسی اور معاشی مسائل کی وجہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف لب کھولنے سے قاصر ہے جبکہ ایران اس وقت اسرائیل اور امریکی مفادات کے خلاف فلسطین لبنان شام عراق یمن اور کردستان میں مصروف عمل ہے۔ لہذا میرا خیال یہی ہے کہ بلوچستان میں جیش العدل کے ٹھکانوں پر حملے دونوں ممالک کی باہمی تفاہم اور انڈر سٹینڈنگ سے ہی انجام پزیر ہوئے ہیں لیکن چونکہ ایک طرف رائے عامہ اور دوسری جانب انٹرنیشنل پریشر اور امریکی سامراج کے خطے میں مفادات کی وجہ سے پاکستان کو حالیہ موقف اختیارکرنا پڑرہا ہے، ورنہ ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر ایسے آپریشنز بالعموم کامیاب نہیں ہوتے، ماضی قریب میں بھی تعاون کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ پاکستان نے ایرانی اور ایران نے پاکستانی فورسز کے تعاون سے اپنے اپنے دشمن دھشتگرد گروپس کے خلاف آپریشنز کئے ہیں پاکستان کو بھی گذشتہ دو برسوں میں اس خطے میں ماضی کی نسبت بھت زیادہ دہشت گردی کا سامنا ریے ہے ایران نے بھی ان دہشت گردوں کو نشانہ بنایا ہے جو اصل میں ایرانی ہیں اور پاکستانی بلوچستان میں چھپ کر سرحد پار کارروائیاں کرتے ہیں لہذاٰ ایسے اقدامات جب دونوں ممالک کی ہم آہنگی سے ہوں تو خطے میں امن قائم قائم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ بات دونوں ممالک کے طاقتور طبقات جانتے ہیں [8]۔

پاکستان کا ایران کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے، سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ

ذرائع نے کہا کہ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کسی بھی ہمسائے سے کشیدگی نہیں چاہتا جبکہ ایران بھی کشیدہ صورتحال کا خاتمہ چاہتا ہے۔ پاکستان نے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی ختم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے فوری بعد نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ کابینہ اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ ذرائع نے کہا کہ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کسی بھی ہمسائے سے کشیدگی نہیں چاہتا جبکہ ایران بھی کشیدہ صورتحال کا خاتمہ چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایران کے غلط قدم کا جواب دیا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ کابینہ نے ایران کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے ایران کے ساتھ تمام مسائل مل کر حل کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا جبکہ اعتماد کی فضا قائم کرنے کے لئے باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ آج پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب امیر عبدالہیان کے درمیان حالیہ واقعات کے بعد دوسرا ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جلیل عباس جیلانی نے ایران کے ساتھ باہمی اعتماد اور تعاون کے جذبے کی بنیاد پر تمام مسائل پر کام کرنے کے لیے پاکستان کی آمادگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی معاملات پر قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

اس سے قبل نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملکی سالمیت اور خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ قومی سلامی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، سربراہ پاک فضائیہ اور نیول چیف بھی شریک ہوئے۔ نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی، نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ اور انٹیلی جنس اداروں کے اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ایران کشیدگی پر غور کیا گیا، نگراں وزیر خارجہ نے سفارتی محاذ پر ہونے والی بات چیت پر بریفنگ دی [9]۔

حوالہ جات

  1. غالب نہاد، فضائی حدود کی ایرانی خلاف ورزی اور جیش العدل، ماجرا کیا ہے؟،wenews.pk
  2. ایران کے حملے پر پاکستان کا سنگین نتائج کا انتباہ، چین کا فریقین سے تحمل کا مطالبہ، independenturdu.com
  3. بعثت خبر 17 جنوری 2024
  4. بعثت خبر، 18 جنوری ،2024م
  5. ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی ٹیلیفونک گفتگو،mehrnews.com
  6. دونوں ہمسائیہ ممالک تاریخی ، ثقافتی ، مذہبی تعلقات میں بندھے ہیں ،تحمل کا مظاہرہ کریں گے، hawzahnews.com
  7. پاکستان ایران تناؤ مشترکہ اور موقع پرست دشمنوں کے ناپاک عزائم کی تقویت کا باعث بنے گا،islamtimes.org
  8. پاکستان و ایران دو ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کی طویل سرحدی حدود ہیں، علامہ امین شہیدی، hawzahnews.com
  9. پاکستان کا ایران کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے، سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ، islamtimes.org