"توفیق الشاوی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| سطر 17: | سطر 17: | ||
| known for = {{ اخوان المسلمون کے بانی رکن، قاہرہ یونیورسٹی کے قانون کی فیکلٹی کے پروفیسر، منصورہ میں ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر، رباط، مراکش میں محمد وی یونیورسٹی کے قانون کی فیکلٹی میں تدریس، رباط کی سپریم کورٹ کے جج، سپریم کورٹ آف مراکش کی سپریم کونسل کے مشیر، پارلیمنٹ کے قانونی مشیر برائے قانون ، عبدالعزیز یونیورسٹی، سعودی عرب کی معاشیات کے استاد}} | | known for = {{ اخوان المسلمون کے بانی رکن، قاہرہ یونیورسٹی کے قانون کی فیکلٹی کے پروفیسر، منصورہ میں ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر، رباط، مراکش میں محمد وی یونیورسٹی کے قانون کی فیکلٹی میں تدریس، رباط کی سپریم کورٹ کے جج، سپریم کورٹ آف مراکش کی سپریم کونسل کے مشیر، پارلیمنٹ کے قانونی مشیر برائے قانون ، عبدالعزیز یونیورسٹی، سعودی عرب کی معاشیات کے استاد}} | ||
}} | }} | ||
'''توفیق الشاوی''' ، ایک مصری مسلمان قانون دان، دینی مفکر اور نواندیش تھے۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء، مراکش کے رباط میں محمد پنجم یونیورسٹی، اور سعودی عرب میںبادشاه عبدالعزیز یونیورسٹی کے فیکلٹی آف اکنامکس میں تقابلی قانون کے استاد رہے۔ وہ مراکش کی سپریم جوڈیشل کونسل کے مشیر اور اخوان المسلمون کی مؤسس (بانی) مجلس کے رکن بھی تھے۔ | '''توفیق الشاوی''' ، ایک مصری [[مسلمان]] قانون دان، دینی مفکر اور نواندیش تھے۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء، مراکش کے رباط میں محمد پنجم یونیورسٹی، اور سعودی عرب میںبادشاه عبدالعزیز یونیورسٹی کے فیکلٹی آف اکنامکس میں تقابلی قانون کے استاد رہے۔ وہ مراکش کی سپریم جوڈیشل کونسل کے مشیر اور [[اخوان المسلمین|اخوان المسلمون]] کی مؤسس (بانی) مجلس کے رکن بھی تھے۔ | ||
توفیق الشاوی 8 اپریل 2009ء، مطابق 12 ربیع الثانی 1430 ہجری کو 91 سال کی عمر میں قاہرہ میں وفات پائے۔ ان کی اہم فکری آرا میں شامل ہیں: شورا کی بنیاد پر خلافت کی بازسازی، اسلامی خلافت کی نئی قرأت، امتِ مسلمہ کا اتحاد، اور امام خمینی کے سیاسی فقہ کے نقطۂ نظر کی اہمیت۔ | توفیق الشاوی 8 اپریل 2009ء، مطابق 12 ربیع الثانی 1430 ہجری کو 91 سال کی عمر میں قاہرہ میں وفات پائے۔ ان کی اہم فکری آرا میں شامل ہیں: شورا کی بنیاد پر خلافت کی بازسازی، اسلامی خلافت کی نئی قرأت، امتِ مسلمہ کا اتحاد، اور [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] کے سیاسی فقہ کے نقطۂ نظر کی اہمیت۔ | ||
==سوانحِ زندگی== | ==سوانحِ زندگی== | ||
توفیق محمد ابراہیم الشاوی 15 اکتوبر 1918ء، مطابق 9 محرم 1337 ہجری، مصر کے صوبہ دمیاط کے شہر فارسکور کے گاؤں الغنیمیہ میں پیدا ہوئے۔ | توفیق محمد ابراہیم الشاوی 15 اکتوبر 1918ء، مطابق 9 محرم 1337 ہجری، مصر کے صوبہ دمیاط کے شہر فارسکور کے گاؤں الغنیمیہ میں پیدا ہوئے۔ | ||
==تعلیم== | ==تعلیم== | ||
انہوں نے ابتدائی تعلیم دمیاط میں حاصل کی، اور بعد ازاں منصورہ میں ثانوی تعلیم مکمل کی جہاں وہ پوری مصر میں دوسرے نمبر پر آئے۔ اس کے بعد انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ | انہوں نے ابتدائی تعلیم دمیاط میں حاصل کی، اور بعد ازاں منصورہ میں ثانوی تعلیم مکمل کی جہاں وہ پوری [[مصر]] میں دوسرے نمبر پر آئے۔ اس کے بعد انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ | ||
1945ء میں انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ مل گئی اور وہ ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی تعلیم کے لیے فرانس چلے گئے۔ پاریس یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1949ء میں انہوں نے قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں وہ مصر واپس آئے اور قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ | 1945ء میں انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ مل گئی اور وہ ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی تعلیم کے لیے فرانس چلے گئے۔ پاریس یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1949ء میں انہوں نے قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں وہ [[مصر]] واپس آئے اور قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ | ||
==جماعتِ اخوان المسلمون== | ==[[اخوان المسلمین|جماعتِ اخوان المسلمون]]== | ||
وہ 1937ء میں قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء میں داخلہ لینے کے بعد جماعتِ اخوان | وہ 1937ء میں قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء میں داخلہ لینے کے بعد [[اخوان المسلمین|جماعتِ اخوان المسلمین]] سے وابستہ ہوئے۔ [[حسن البنا| حسن البنّا]] نے انہیں اس وقت، جب وہ ابھی طالب علم ہی تھے، ادارے کے شعبۂ رابطہ باالعالم الاسلامی میں کام کرنے کے لیے مقرر کیا، جہاں انہوں نے غیر ملکی طلبہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔ | ||
وہ اخوان | وہ [[اخوان المسلمین]] کی مؤسس (بانی) کمیٹی کے رکن تھے اور بعد ازاں 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں اس جماعت کی عمومی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ | ||
==یونیور سٹی سے برطرفی== | ==یونیور سٹی سے برطرفی== | ||
| سطر 42: | سطر 42: | ||
رہائی کے بعد وہ مراکش لوٹ آئے اور پھر شاہ فیصل کی دعوت پر سعودی عرب کا سفر کیا۔ | رہائی کے بعد وہ مراکش لوٹ آئے اور پھر شاہ فیصل کی دعوت پر سعودی عرب کا سفر کیا۔ | ||
==مصر واپسی== | ==[[مصر]] واپسی== | ||
توفیق الشاوی 1975ء میں مصر لوٹ آئے، جب انور سادات نے ان کی واپسی کی اجازت دی۔ سادات نے انہیں اور اُن تمام افراد کو، جو 1954ء میں یونیورسٹی سے برطرف کیے گئے تھے، دوبارہ ان کے عہدوں پر بحال کر دیا۔ واپسی کے بعد وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جماعت کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔<ref>[https://ikhwan.site/pv-79 توفیق محمد ابراہیم الشاوی، اخوان المسلمون نیوز ایجنسی](زبان فارسی)درج شده تاریخ:... اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/ 2025ء</ref> | توفیق الشاوی 1975ء میں مصر لوٹ آئے، جب انور سادات نے ان کی واپسی کی اجازت دی۔ سادات نے انہیں اور اُن تمام افراد کو، جو 1954ء میں یونیورسٹی سے برطرف کیے گئے تھے، دوبارہ ان کے عہدوں پر بحال کر دیا۔ واپسی کے بعد وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جماعت کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔<ref>[https://ikhwan.site/pv-79 توفیق محمد ابراہیم الشاوی، اخوان المسلمون نیوز ایجنسی](زبان فارسی)درج شده تاریخ:... اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/ 2025ء</ref> | ||
| سطر 59: | سطر 59: | ||
# فقہ الشوری و الاستشارہ (شورا اور مشاورت کا فقہی مطالعہ) | # فقہ الشوری و الاستشارہ (شورا اور مشاورت کا فقہی مطالعہ) | ||
# الشوری أعلى مراتب الدیمقراطیہ (شورا: جمہوریت کی بلند ترین صورت) | # الشوری أعلى مراتب الدیمقراطیہ (شورا: جمہوریت کی بلند ترین صورت) | ||
# فقہ الحکومۃ الاسلامیہ(بین السنۃ | # فقہ الحکومۃ الاسلامیہ(بین السنۃ و[[شیعہ|الشیعۃ]] وقراءۃ فی فکر الثورۃ الایرانیۃ) | ||
(اسلامی حکومت کا فقہ — اہل سنت و شیعہ کے درمیان تقابلی مطالعہ اور ایرانی انقلاب کی فکری خواندگی) | (اسلامی حکومت کا فقہ — [[اہل سنت]] و شیعہ کے درمیان تقابلی مطالعہ اور ایرانی انقلاب کی فکری خواندگی) | ||
==نکتۂ نظر== | ==نکتۂ نظر== | ||
| سطر 83: | سطر 83: | ||
وہ بنیادی طور پر خلافت کے آئینی اور حقوقی ڈھانچے یا ارکان کا تجزیہ نہیں کر رہے بلکہ ان کا مقصد خلافت کے ذریعے اسلامی معاشروں اور ریاستوں میں مقبول اور مؤثر تعلقات قائم کرنا ہے۔ | وہ بنیادی طور پر خلافت کے آئینی اور حقوقی ڈھانچے یا ارکان کا تجزیہ نہیں کر رہے بلکہ ان کا مقصد خلافت کے ذریعے اسلامی معاشروں اور ریاستوں میں مقبول اور مؤثر تعلقات قائم کرنا ہے۔ | ||
==وحدت امت اسلامی== | ==[[وحدت اسلامی|وحدت امت اسلامی]]== | ||
الشاوی کے نزدیک، فقہا نے غلط فہمی میں امت مسلمہ کی وحدت کو صرف اسلامی ریاست کی وحدت کے مترادف سمجھا اور اسے خلافت کی مشروعیت کا ذريعہ قرار دیا۔ حالانکہ مسلم قومیں ثقافتی روابط اور عقیدتی یکجہتی کے ذریعے، چاہے مختلف ریاستوں کے تحت ہوں، دین اور شریعت کے مقاصد پورے کر سکتی ہیں۔ | الشاوی کے نزدیک، فقہا نے غلط فہمی میں امت مسلمہ کی وحدت کو صرف اسلامی ریاست کی وحدت کے مترادف سمجھا اور اسے خلافت کی مشروعیت کا ذريعہ قرار دیا۔ حالانکہ مسلم قومیں ثقافتی روابط اور عقیدتی یکجہتی کے ذریعے، چاہے مختلف ریاستوں کے تحت ہوں، دین اور شریعت کے مقاصد پورے کر سکتی ہیں۔ | ||
وہ سید جمال الدین اسدآبادی کے برخلاف، جو مسلم معاشروں کے سیاسی اتحاد کے بارے میں سوچتے تھے، امت مسلمہ کی عقیدتی اور ثقافتی وحدت پر زور دیتے ہیں۔ | وہ [[سید جمال الدین افغانی|سید جمال الدین اسدآبادی]] کے برخلاف، جو مسلم معاشروں کے سیاسی اتحاد کے بارے میں سوچتے تھے، امت مسلمہ کی عقیدتی اور ثقافتی وحدت پر زور دیتے ہیں۔ | ||
الشاوی کی رائے میں، ثقافتی وحدت کو مضبوط کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا قیام ضروری ہے، جیسے اسلامی کانفرنس کی تنظیم۔ ان کے مطابق، یہ تنظیمیں ریاستوں کے درمیان ثقافتی تعلقات قائم کرنے، دینی اعتقادات کی ترقی اور ثقافتی اداروں کے انتظام و انصرام میں مؤثر کردار ادا کریں گی۔ | الشاوی کی رائے میں، ثقافتی وحدت کو مضبوط کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا قیام ضروری ہے، جیسے اسلامی کانفرنس کی تنظیم۔ ان کے مطابق، یہ تنظیمیں ریاستوں کے درمیان ثقافتی تعلقات قائم کرنے، دینی اعتقادات کی ترقی اور ثقافتی اداروں کے انتظام و انصرام میں مؤثر کردار ادا کریں گی۔ | ||
حقیقت میں، ایسے ادارے جدید دور میں خلافت کی جگہ لے سکتے ہیں، اور خلافت کے فقہ کی ترقی اس دور کے نئے تقاضوں کے مطابق اسلامی معاشروں کے عقیدتی ربط کے دائرے میں زیر بحث آتی ہے۔<ref>[https://rasekhoon.net/article/show/655326 توفیق الشاوی کی تحریریں اور سیاسی رجحانات(1) ، رسیخ نیوز ایجنسی]( زبان فارسی) درج شده تاریخ: 18/ دسمبر/ 2012ء اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/2025ء</ref> | حقیقت میں، ایسے ادارے جدید دور میں خلافت کی جگہ لے سکتے ہیں، اور خلافت کے فقہ کی ترقی اس دور کے نئے تقاضوں کے مطابق اسلامی معاشروں کے عقیدتی ربط کے دائرے میں زیر بحث آتی ہے۔<ref>[https://rasekhoon.net/article/show/655326 توفیق الشاوی کی تحریریں اور سیاسی رجحانات(1) ، رسیخ نیوز ایجنسی]( زبان فارسی) درج شده تاریخ: 18/ دسمبر/ 2012ء اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/2025ء</ref> | ||
==امام خمینی کے سیاسی فقہ کے نقطۂ نظر کی اہمیت== | ==[[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] کے سیاسی فقہ کے نقطۂ نظر کی اہمیت== | ||
الشاوی چند واحد سنی قانون دانوں میں سے ہیں جنہوں نے منفی تعصبات سے دور رہ کر فقہی اور قانونی نقطۂ نظر سے امام خمینی کے سیاسی نظریات کا تجزیہ اور مطالعہ کیا۔ ان کے نزدیک امام خمینی سب سے پہلے ایک فقیہ اور نظریہ پرداز ہیں، جو شیعہ سیاسی فکر میں جدید نظریات پیش کرنے کی وجہ سے ایک سنگِ میل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ | الشاوی چند واحد سنی قانون دانوں میں سے ہیں جنہوں نے منفی تعصبات سے دور رہ کر فقہی اور قانونی نقطۂ نظر سے امام خمینی کے سیاسی نظریات کا تجزیہ اور مطالعہ کیا۔ ان کے نزدیک [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] سب سے پہلے ایک فقیہ اور نظریہ پرداز ہیں، جو شیعہ سیاسی فکر میں جدید نظریات پیش کرنے کی وجہ سے ایک سنگِ میل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ | ||
الشاوی کے مطالعے کا بنیادی ماخذ کتاب ولایت فقیہ امام اور قانون اساسی جمهوری اسلامی ایران ہے۔ ان کے مطابق امام خمینی کے سیاسی فقہ کی اہمیت کے تین بنیادی اسباب ہیں: | الشاوی کے مطالعے کا بنیادی ماخذ کتاب ولایت فقیہ امام اور قانون اساسی جمهوری اسلامی ایران ہے۔ ان کے مطابق امام خمینی کے سیاسی فقہ کی اہمیت کے تین بنیادی اسباب ہیں: | ||
# شیعہ امامیہ کے فقہ میں تجدید: امام خمینی نے فقہ میں عوامی ارادے کو شامل کیا، جس کے تحت غیبت میں فقیہ کے انتخاب کی بنیاد قائم کی گئی۔ | # [[شیعہ]] امامیہ کے فقہ میں تجدید: امام خمینی نے فقہ میں عوامی ارادے کو شامل کیا، جس کے تحت غیبت میں فقیہ کے انتخاب کی بنیاد قائم کی گئی۔ | ||
# فقہ شیعہ اور سنی کے درمیان تقارب: حکومت کے قیام میں آزاد بیعت کے اصول کو متعارف کروا کر وصیت یا وراثت کی بجائے عام عوام کی شمولیت ممکن بنائی۔ | # فقہ شیعہ اور سنی کے درمیان تقارب: حکومت کے قیام میں آزاد بیعت کے اصول کو متعارف کروا کر وصیت یا وراثت کی بجائے عام عوام کی شمولیت ممکن بنائی۔ | ||
# اسلامی اصولوں کی مضبوطی: ایرانی عوام میں انقلابی توانائی کو ابھارا تاکہ شاہنشاہی جبر و ظلم کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔<ref>[https://rasekhoon.net/article/show/655328 توفیق الشاوی کی تحریریں اور سیاسی رجحانات(2) ، رسیخ نیوز ایجنسی]( زبان فارسی) درج شده تاریخ: 18/ دسمبر/ 2012ء اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/2025ء</ref> | # اسلامی اصولوں کی مضبوطی: ایرانی عوام میں انقلابی توانائی کو ابھارا تاکہ شاہنشاہی جبر و ظلم کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔<ref>[https://rasekhoon.net/article/show/655328 توفیق الشاوی کی تحریریں اور سیاسی رجحانات(2) ، رسیخ نیوز ایجنسی]( زبان فارسی) درج شده تاریخ: 18/ دسمبر/ 2012ء اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/2025ء</ref> | ||
نسخہ بمطابق 19:54، 11 دسمبر 2025ء
| توفیق الشاوی | |
|---|---|
![]() | |
| پورا نام | توفیق محمد الشاوی |
| دوسرے نام | توفیق محمد ابراهیم الشاوی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1918 ء، 1296 ش، 1335 ق |
| یوم پیدائش | 1 15 اکتوبر |
| پیدائش کی جگہ | مصر، صوبه دمیاط |
| وفات | 2009 ء، 1387 ش، 1429 ق |
| یوم وفات | 8 اپریل |
| مذہب | اسلام، اهل سنت |
| اثرات |
|
| مناصب | {{ اخوان المسلمون کے بانی رکن، قاہرہ یونیورسٹی کے قانون کی فیکلٹی کے پروفیسر، منصورہ میں ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر، رباط، مراکش میں محمد وی یونیورسٹی کے قانون کی فیکلٹی میں تدریس، رباط کی سپریم کورٹ کے جج، سپریم کورٹ آف مراکش کی سپریم کونسل کے مشیر، پارلیمنٹ کے قانونی مشیر برائے قانون ، عبدالعزیز یونیورسٹی، سعودی عرب کی معاشیات کے استاد}} |
توفیق الشاوی ، ایک مصری مسلمان قانون دان، دینی مفکر اور نواندیش تھے۔ وہ قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء، مراکش کے رباط میں محمد پنجم یونیورسٹی، اور سعودی عرب میںبادشاه عبدالعزیز یونیورسٹی کے فیکلٹی آف اکنامکس میں تقابلی قانون کے استاد رہے۔ وہ مراکش کی سپریم جوڈیشل کونسل کے مشیر اور اخوان المسلمون کی مؤسس (بانی) مجلس کے رکن بھی تھے۔
توفیق الشاوی 8 اپریل 2009ء، مطابق 12 ربیع الثانی 1430 ہجری کو 91 سال کی عمر میں قاہرہ میں وفات پائے۔ ان کی اہم فکری آرا میں شامل ہیں: شورا کی بنیاد پر خلافت کی بازسازی، اسلامی خلافت کی نئی قرأت، امتِ مسلمہ کا اتحاد، اور امام خمینی کے سیاسی فقہ کے نقطۂ نظر کی اہمیت۔
سوانحِ زندگی
توفیق محمد ابراہیم الشاوی 15 اکتوبر 1918ء، مطابق 9 محرم 1337 ہجری، مصر کے صوبہ دمیاط کے شہر فارسکور کے گاؤں الغنیمیہ میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
انہوں نے ابتدائی تعلیم دمیاط میں حاصل کی، اور بعد ازاں منصورہ میں ثانوی تعلیم مکمل کی جہاں وہ پوری مصر میں دوسرے نمبر پر آئے۔ اس کے بعد انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء سے قانون میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ 1945ء میں انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ مل گئی اور وہ ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی تعلیم کے لیے فرانس چلے گئے۔ پاریس یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1949ء میں انہوں نے قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں وہ مصر واپس آئے اور قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔
جماعتِ اخوان المسلمون
وہ 1937ء میں قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء میں داخلہ لینے کے بعد جماعتِ اخوان المسلمین سے وابستہ ہوئے۔ حسن البنّا نے انہیں اس وقت، جب وہ ابھی طالب علم ہی تھے، ادارے کے شعبۂ رابطہ باالعالم الاسلامی میں کام کرنے کے لیے مقرر کیا، جہاں انہوں نے غیر ملکی طلبہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔ وہ اخوان المسلمین کی مؤسس (بانی) کمیٹی کے رکن تھے اور بعد ازاں 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں اس جماعت کی عمومی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔
یونیور سٹی سے برطرفی
1954ء میں توفیق الشاوی کو کئی دوسرے اساتذہ کے ساتھ یونیورسٹی سے برطرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد مراکش کی حکومت نے انہیں رباط میں محمد پنجم یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء میں تدریس کے لیے مدعو کیا۔ 1959ء میں انہیں رباط کی سپریم کورٹ میں جج مقرر کیا گیا۔ انہوں نے پہلے محمد پنجم یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں، پھر اعلیٰ عدلیہ کی سپریم کونسل کے مشیر، اور بعد ازاں مراکش کی پارلیمنٹ کے قانونی مشیر کے طور پر کام کیا۔
گرفتاری اور قید
منشیہ واقعے کے بعد، یعنی 26 اکتوبر 1954ء کو اس وقت کے مصری وزیراعظم جمال عبدالناصر پر فائرنگ کے واقعے کے بعد، توفیق الشاوی کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ مارچ 1956ء تک فوجی جیل میں قید رہے۔ رہائی کے بعد، 1958ء میں وہ ملازمت کے سلسلے میں مراکش چلے گئے۔
جمال عبدالناصر نے انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش کی، جو ناکام رہی، لہٰذا ان کا مصری پاسپورٹ منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں شاہ محمد پنجم نے انہیں عارضی مراکشی پاسپورٹ جاری کیا۔ 1965ء میں لبنان کے راستے واپس آتے ہوئے، جمال عبدالناصر کی سیکیورٹی فورسز نے انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ منصوبہ ناکام رہا۔ البتہ وہ استاد بہاء العامری اور عصام العطار کے ساتھ دو ماہ کے لیے بیروت میں قید رہے۔ رہائی کے بعد وہ مراکش لوٹ آئے اور پھر شاہ فیصل کی دعوت پر سعودی عرب کا سفر کیا۔
مصر واپسی
توفیق الشاوی 1975ء میں مصر لوٹ آئے، جب انور سادات نے ان کی واپسی کی اجازت دی۔ سادات نے انہیں اور اُن تمام افراد کو، جو 1954ء میں یونیورسٹی سے برطرف کیے گئے تھے، دوبارہ ان کے عہدوں پر بحال کر دیا۔ واپسی کے بعد وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جماعت کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔[1]
سرگرمیاں اور عہدے
- قاہرہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف لاء میں اسسٹنٹ پروفیسر
- منصورہ میں معاون پبلک پراسیکیوٹر
- مراکش کے رباط میں یونیورسٹی محمد پنجم کے فیکلٹی آف لاء میں تدریس
- رباط کی سپریم کورٹ میں جج
- مراکش کی سپریم جوڈیشل کونسل کے مشیر
- مراکش کی پارلیمنٹ کے قانونی مشیر
- سعودی عرب میںشاه عبدالعزیز یونیورسٹی کے فیکلٹی آف اکنامکس میں تقابلی قانون کے استاد
علمی تصانیف
- فقہ الخلافہ و تطوّرها لتصبح أُمماً شرقیہ
(خلافت کے فقہی مباحث اور اس کی ترقی جو مشرقی اقوام کی صورت اختیار کرتی ہے)
- فقہ الشوری و الاستشارہ (شورا اور مشاورت کا فقہی مطالعہ)
- الشوری أعلى مراتب الدیمقراطیہ (شورا: جمہوریت کی بلند ترین صورت)
- فقہ الحکومۃ الاسلامیہ(بین السنۃ والشیعۃ وقراءۃ فی فکر الثورۃ الایرانیۃ)
(اسلامی حکومت کا فقہ — اہل سنت و شیعہ کے درمیان تقابلی مطالعہ اور ایرانی انقلاب کی فکری خواندگی)
نکتۂ نظر
توفیق الشاوی، ڈاکٹر عبدالرزاق السنہوری کے شاگرد اور داماد تھے اور ان کے افکار سے متاثر تھے۔ ایک مسلمان مفکر اور دینی نواندیش کے طور پر، وہ علی عبدالرزاق کے نظریات کے سخت نقاد تھے، جبکہ وہ غیر قوم پرست اور عالمی اسلام کے حامی بھی تھے۔ ان کی فکری دلچسپی اور توجہ اسلام کے نئے عالمی تقاضوں کے مطابق اس کی تطبیق پر مرکوز تھی۔
وہ خلافت کے حامی طبقات میں شمار ہوتے ہیں اور خلافت کی بحالی کو ضروری سمجھتے ہیں، لیکن وہ روایتی خلافت پسندی نہیں اپناتے۔ ان کے نزدیک خلافت کی تجدید اور اس کی بنیاد شورا پر ہونی چاہیے۔ ان کا خاص رجحان شورا پروری ہے؛ تاہم یہ عباس محمود عقاد کی طرح نہیں جو شورا کو جدید جمہوریت کے مطابق دیکھتے ہیں، بلکہ الشاوی کے نزدیک شورا جمہوریت سے برتر ہے، اس کے فوائد زیادہ ہیں اور یہ جدید دنیا میں مؤثر بھی ہے۔
الشاوی کے مطابق خلافت کے نظام کی کمزوری کی بنیادی وجہ شورا کا موقوف ہونا اور عوامی رائے کی غیر اہمیت ہے۔
ان کے نزدیک ایک مؤثر حکومت یا خلافت (یا جدید علاقائی ریاستیں) کے لیے درج ذیل اصول ضروری ہیں:
- حکمران کا عوام کی جانب سے آزادانہ انتخاب اور عوامی حکمرانی کی مشروعیت
- شورا کا لازمی ہونا
- حکمران کے اختیارات میں محدودیت
- حکمران کی بدکرداری یا غیر اخلاقی رویے کی صورت میں حکومت کا خاتمہ
- غیر مشروع نظام کے خلاف قیام کی ضرورت
- عدل اور مساوات کا قیام
- اسلامی خلافت کی نئی قرأت
توفیق الشاوی نے اپنی کتاب فقہ الخلافہ کے مقدمے میں اسلامی خلافت کی ایک نئی قرأت پیش کی ہے، جو ایک طرف فقہ اسلامی کے بنیادی اصولوں اور امهات پر مبنی ہے اور دوسری طرف جدید دور میں مقبول، عملی اور مؤثر بھی ہے، اور دیگر سیاسی نظریات کے مقابلے میں نظریاتی اور عملی طور پر کامیابی کا امکان رکھتی ہے۔
یہ نظریہ اس دور کے پس منظر میں پیش کیا گیا جب عثمانی خلافت منسوخ ہو چکی تھی اور اسلامی ممالک نے قوم پرستی (نیشنلزم) کی بنیاد پر اپنی ثقافتی اور سیاسی تعمیر نو کا آغاز کیا تھا۔ الشاوی کی اس قرأت میں زیادہ تر خلافت کے بین الاقوامی پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ وہ بنیادی طور پر خلافت کے آئینی اور حقوقی ڈھانچے یا ارکان کا تجزیہ نہیں کر رہے بلکہ ان کا مقصد خلافت کے ذریعے اسلامی معاشروں اور ریاستوں میں مقبول اور مؤثر تعلقات قائم کرنا ہے۔
وحدت امت اسلامی
الشاوی کے نزدیک، فقہا نے غلط فہمی میں امت مسلمہ کی وحدت کو صرف اسلامی ریاست کی وحدت کے مترادف سمجھا اور اسے خلافت کی مشروعیت کا ذريعہ قرار دیا۔ حالانکہ مسلم قومیں ثقافتی روابط اور عقیدتی یکجہتی کے ذریعے، چاہے مختلف ریاستوں کے تحت ہوں، دین اور شریعت کے مقاصد پورے کر سکتی ہیں۔
وہ سید جمال الدین اسدآبادی کے برخلاف، جو مسلم معاشروں کے سیاسی اتحاد کے بارے میں سوچتے تھے، امت مسلمہ کی عقیدتی اور ثقافتی وحدت پر زور دیتے ہیں۔ الشاوی کی رائے میں، ثقافتی وحدت کو مضبوط کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا قیام ضروری ہے، جیسے اسلامی کانفرنس کی تنظیم۔ ان کے مطابق، یہ تنظیمیں ریاستوں کے درمیان ثقافتی تعلقات قائم کرنے، دینی اعتقادات کی ترقی اور ثقافتی اداروں کے انتظام و انصرام میں مؤثر کردار ادا کریں گی۔
حقیقت میں، ایسے ادارے جدید دور میں خلافت کی جگہ لے سکتے ہیں، اور خلافت کے فقہ کی ترقی اس دور کے نئے تقاضوں کے مطابق اسلامی معاشروں کے عقیدتی ربط کے دائرے میں زیر بحث آتی ہے۔[2]
امام خمینی کے سیاسی فقہ کے نقطۂ نظر کی اہمیت
الشاوی چند واحد سنی قانون دانوں میں سے ہیں جنہوں نے منفی تعصبات سے دور رہ کر فقہی اور قانونی نقطۂ نظر سے امام خمینی کے سیاسی نظریات کا تجزیہ اور مطالعہ کیا۔ ان کے نزدیک امام خمینی سب سے پہلے ایک فقیہ اور نظریہ پرداز ہیں، جو شیعہ سیاسی فکر میں جدید نظریات پیش کرنے کی وجہ سے ایک سنگِ میل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ الشاوی کے مطالعے کا بنیادی ماخذ کتاب ولایت فقیہ امام اور قانون اساسی جمهوری اسلامی ایران ہے۔ ان کے مطابق امام خمینی کے سیاسی فقہ کی اہمیت کے تین بنیادی اسباب ہیں:
- شیعہ امامیہ کے فقہ میں تجدید: امام خمینی نے فقہ میں عوامی ارادے کو شامل کیا، جس کے تحت غیبت میں فقیہ کے انتخاب کی بنیاد قائم کی گئی۔
- فقہ شیعہ اور سنی کے درمیان تقارب: حکومت کے قیام میں آزاد بیعت کے اصول کو متعارف کروا کر وصیت یا وراثت کی بجائے عام عوام کی شمولیت ممکن بنائی۔
- اسلامی اصولوں کی مضبوطی: ایرانی عوام میں انقلابی توانائی کو ابھارا تاکہ شاہنشاہی جبر و ظلم کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔[3]
وفات
ڈاکٹر توفیق الشاوی 8 اپریل 2009ء، مطابق 12 ربیع الثانی 1430 ہجری، 91 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کی تشییع جنازہ کی تقریب مسجد الفاروق، معادی، قاہرہ میں منعقد ہوئی۔
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ توفیق محمد ابراہیم الشاوی، اخوان المسلمون نیوز ایجنسی(زبان فارسی)درج شده تاریخ:... اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/ 2025ء
- ↑ توفیق الشاوی کی تحریریں اور سیاسی رجحانات(1) ، رسیخ نیوز ایجنسی( زبان فارسی) درج شده تاریخ: 18/ دسمبر/ 2012ء اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/2025ء
- ↑ توفیق الشاوی کی تحریریں اور سیاسی رجحانات(2) ، رسیخ نیوز ایجنسی( زبان فارسی) درج شده تاریخ: 18/ دسمبر/ 2012ء اخذشده تاریخ: 11/دسمبر/2025ء
