مندرجات کا رخ کریں

"ولايت تكويني" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
م Saeedi نے صفحہ مسودة: ولايت تكويني کو مسودہ:مسودة: ولايت تكويني کی جانب منتقل کیا
م Saeedi نے صفحہ مسودہ:مسودة: ولايت تكويني کو ولايت تكويني کی جانب منتقل کیا
 
(کوئی فرق نہیں)

حالیہ نسخہ بمطابق 11:35، 9 اکتوبر 2025ء

ولايت تكويني علمي اصطلاح ميں کائنات اور موجودات میں ایک خارق العادہ تصرف کی قدرت کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں تصرف کی قدرت رکھتا ہے اور کائنات کے موجودات کے امور کی تدبیر کی طاقت رکھتا ہے، لهذا کوئی انسان جو معنوی کمال کو پہنچ چکا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کائنات میں خلاف معمول تصرف كرسكتا ہے۔ مثلاً پیغمبروں اور اولیاء اللہ کا مردوں کو زندہ کرنا یا لاعلاج بیماریوں کو شفا دینا۔ چناچه قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ مذکور ہے کہ انہوں نے مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں پھونک ماری تو وہ اللہ کے حکم سے زندہ پرندہ بن گیا۔ وَ یُعَلِّمُهُ الکِتابَ وَالْحِکْمَهَ وَ التَّوراهَ وَالانْجیلَ- وَ رَسُولًا الی بَنی اسْرائیلَ انّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیهٍ مِنْ رَبِّکُمْ انّی اخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینَ کَهَیْئَهِ الطَّیْرِ فَانْفُخُ فیهِ فَیَکُونُ طَیْراً بِاذْنِ اللَّهِ وَ ابْرِءُ الاکْمَهَ وَ الابْرَصَ وَ احْیِی الْمَوْتی بِاذْنِ اللَّهِ وَ انَبِّئُکُمْ بما تَأکُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ فی بُیُوتِکُمْ انَّ فی ذلِکَ لآیَهَ لَکُمْ انْ کُنْتُمْ مُؤمِنینَ اسی طرح انہوں نے اللہ کے اذن سے اندھے اور کوڑھی کو شفا دی اور مردوں کو زندہ کیا۔ تو قرآن پاک کی اس آیت پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرندے کی تخلیق کا سہرا اللہ کے سر باندھتے ہیں، جبکہ تین دیگر معجزات (مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا اور مردوں کو زندہ کرنا) اپنی طرف منسوب کرتے ہیں — لیکن اللہ کے اذن اور حکم سے۔ یہی "ولایت تکوینی" کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے خاص بندوں کو ایسی قدرت عطا فرماتا ہے کہ وہ اس کے حکم سے کائنات اور عالم طبیعت میں تصرف کر سکیں، عام اسباب کو توڑ کر مردوں کو زندگی بخشیں یا ناقابل علاج بیماریوں کو شفا دے دیں۔ یہ ولایت تکوینی کی ایک واضح مثال ہے جو اللہ نے اپنے بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائی، اور اسی طرح کے اختیارات دوسرے انبیاء یا ائمہ معصومین علیہم السلام کو دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

ولايت كے اقسام

قرآن و احادیث کی روشنی میں دو قسم کی ولایت پائی جاتی ہیں

ولایت تشریعی

یعنی لوگوں کی رہبری، حکومت، شرعی قوانین کی تبلیغ اور راہ راست کی ہدایت ،قانون سازی اور حکم دینے کا اختیار ہے.

ولایت تکوینی

ولایت تکوینی کائنات اور موجودات میں ایک خارق العادہ تصرف کی قدرت کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں تصرف کی قدرت رکھتا ہے اور کائنات کے موجودات کے امور کی تدبیر کی طاقت رکھتا ہے، کوئی انسان جو معنوی کمال کو پہنچ چکا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کائنات میں خلاف معمول تبدیلی لے آتا ہے۔

ولایت تکوینی كےمصاديق

ولایت تکوینی کی بعض مصادیق مندرجہ ذیل ہیں:

  1. انبیاء اور ائمہ معصومین کے معجزے اور کرامات
  2. انبیاء اور ائمہ معصومین کے واسطه فیض هونا
  3. طی الارض جیسے خلاف معمول کام
  4. پانی پر چلنا
  5. دوسروں کے باطن کو جاننا
  6. حیوانات سے بات کرنا
  7. بدن کا انسانی روح سے خالی ہونا (اختیاری موت)
  8. روح کی طاقت سے عالم طبیعت میں تصرف کرنا.

پیغمبر اکرمؐ اور ائمہؑ کی ولایت تکوینی

شیعہ علما کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہؐ اور ائمہ معصومینؑ کے پاس ولایت تکوینی ہے لیکن اس کے حدود اور اختیارات کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے: ایک گروہ کا کہنا ہے کہ معصومینؑ طبیعت اور فطرت میں بعض تصرفات کرسکتے ہیں؛ لیکن یہ تصرفات عمومی نہیں ہیں اور بعض استثنائی موارد کے ساتھ مختص ہے۔ شهيد مرتضی مطہری، صافی گلپایگانی اور جعفر سبحانی اسی گروہ میں سے ہیں۔ ان کے مطابق ولایت تکوینی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر چیز معصومینؑ کو تفویض اور ان کے حوالے ہوئی ہو اور کائنات کی مدیریت ان کے اختیار میں ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے خلق کرتے ہوں اور موت اور حیات دیتے ہوں۔شیخ صدوق اور شیخ مفید مخلوقات کے امور کو رسول خداؐ اور ائمہ معصومین کی طرف تفویض ہونے کو غالیوں کا عقیدہ سمجھتے ہوئے اسے رد کرتے ہیں۔ [1]. ان کے مقابلے میں محمد حسین غروی اصفہانی اور سید محمد حسین حسینی تہرانی جیسے بعض علما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ اور ائمہ معصومینؑ ہر چیز پر ولایت تکوینی رکھتے ہیں اور کائنات کے لئے واسطہ فیض ہیں.

ولايت تكوني كے متعلق تحقيقي جائزه

ولایت تکوینی کے دو معنی ہو سکتے ہیں:

خلقت اور کائنات کی تخلیق میں ولایت

اللہ کسی بندے یا فرشتے کو یہ طاقت دے کہ وہ نئی دنیائیں(کائنات) تخلیق کرے یا موجودہ کو فنا کر دے۔ یہ نا ممکن نہیں، کیونکہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔لیکن قرآن میں واضح ہے کہ آسمانوں، زمینوں، انسانوں اور دیگر مخلوقات کی تخلیق صرف اللہ نے کی ہے۔ چنانچه: وكان الرضا (علي بن موسى) ( عليه السَّلام ) يقول في دعائه : اللهم إنّي أبرأ إليك من الحول والقوّة ، فلا حول ولا قوّة إلاّ بك. اللّهم إنّي أبرأ إليك من الذين ادّعوا لنا ما ليس لنا بحق. اللّهمّ إنّي أبرأ إليك من الذين قالوا فينا ما لم نقله في أنفسنا، اللّهم لك الخلق ومنك الأمر وإيّاك نعبد وإياك نستعين اللّهمّ أنت خالقنا وخالق آبائنا الأوّلين وآبائنا الآخرين اللّهم لا تليق الربوبية إلاّ بك ، ولا تصلح الإلهية إلاّ لك ، فالعن النصارى الذين صغّروا عظمتك ، والعن المضاهئين لقولهم من بريتك ، اللّهمّ انّا عبيدك وأبناء عبيدك لا نملك لأنفسنا نفعاً ولا ضراً ولا موتاً ولا حياة ولا نشوراً ، اللّهم من زعم أنّا أرباب فنحن منه براء ، ومن زعم أنَّ إلينا الخلق و إلينا الرزق فنحن براء منه كبراءة عيسى بن مريم ( عليه السَّلام ) من النصارى . ترجمه: اور امام رضا (علی بن موسیٰ علیہ السلام) اپنی دعا میں فرماتے تھے: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کسی بھی طاقت اور قوت سے، کیونکہ نہ کوئی طاقت ہے نہ قوت مگر تیری طرف سے۔ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں ان لوگوں سے بیزار ہوں جنہوں نے ہمارے لیے وہ بات ثابت کی جو ہمارے حق میں نہیں۔ اے اللہ! میں تیرے حضور ان لوگوں سے بری الذمہ ہوں جنہوں نے ہمارے بارے میں وہ کہا جو ہم نے خود اپنے لیے نہیں کہا۔ اے اللہ! تیرے ہی لیے ہے خلق کرنا اور تیرا ہی ہے حکم چلانا، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اے اللہ! تو ہی ہمارا خالق ہے اور ہمارے اگلے اور پچھلے سب باپ دادا کا خالق ہے۔ اے اللہ! ربوبیت صرف تیرے لیے زیبا ہے اور معبود ہونے کیلیے صرف تو ہی لائق ہے۔ پس تو لعنت کر ان نصرانیوں پر جنہوں نے تیری عظمت کو چھوٹا کیا، اور لعنت کر اپنی مخلوق میں سے ان پر جو ان (نصاریٰ) کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیرے بندے ہیں اور تیرے بندوں کی اولاد ہیں، ہم اپنے لیے نہ نفع کے مالک ہیں نہ نقصان کے، نہ موت کے نہ زندگی کے اور نہ ہی دوبارہ اٹھنے کے۔ اے اللہ! جو یہ گمان کرے کہ ہم رب ہیں، تو ہم اس سے بیزار ہیں، اور جو یہ کہے کہ خلق کا اختیار صرف ہمارے پاس ہے اور رزق هم هي دیتے ہیں، تو ہم اس سے اسی طرح بیزار ہیں جیسے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نصرانیوں سے بیزار تھے۔" [2]. نوت: ان احادیث کا واضح مقصد جو رزق دینے کی صلاحیت کو ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) سے نفی کرتی ہیں، یہ ہے کہ: امورِ عالم میں "تفویض مطلق" کو(کامل اختیار کی منتقلی) نہیں ہوئی ہے، بلکہ ائمہ (ع) بغیر خدا کے اذن کے کوئی فعل سرانجام نہیں دیتے۔ یعنی تمام تصرفات اللہ کی مشیت اور اجازت کے تابع ہیں، کیونکہ حقیقی فاعل صرف اللہ ہے۔ ائمہ (ع) بھی اسی اصول کی تائید کرتے ہیں، جیسا کہ امام رضا (ع) کی دعا ("لَا نَمْلِكُ لِأَنْفُسِنَا نَفْعًا وَلَا ضَرًّا") میں واضح ہے۔

عالم تکوین میں ایک خارق العادہ تصرف کی قدرت

یہ کہ کوئی انسان جو معنوی کمال کو پہنچ چکا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کائنات میں خلاف معمول تبدیلی لے آتا ہے. چنانچه انبیاء اور ائمہ (علیہم السلام) اگر ضرورت پیش آئے تو اللہ کے اذن سے عالم تکوین (خلقت) میں تصرف کر سکتے ہیں۔ من جمله:

فیض کا وسیلہ ہونا

اللہ کی رحمت، برکت اور طاقت اولیاء اللہ کے ذریعے مخلوقات تک پہنچتی ہے۔لیکن یہ اللہ کے اذن سے ہی ممکن ہے۔ دليل: بعض روایات کے روشنی میں یه واضح هوتا هے که امام واسطه فیض وبرکت هیں

پهلی روایت

چنانچه جناب شیخ مفید ابن عباس کے واسطے رسول خدا ﷺ سے نقل کرتے هیں : قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكري عبادة و ذكر علي عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذي بعثني بالنبوة و جعلني خير البرية إن وصيي لأفضل الأوصياء و إنه لحجة الله على عباده و خليفته على خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدي بهم يحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم يمسك السماء أن تقع على الأرض إلا بإذنه و بهم يمسك الجبال أن تميد بهم و بهم يسقي خلقه الغيث و بهم يخرج النبات أولئك أولياء الله حقا و خلفائي صدقا عدتهم عدة الشهور و هي اثنا عشر شهرا..... ‏ “ آنحضرتﷺ نے فرمايا :اﷲکا ذکر اور ميرا ذكر عبادت هے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمهؑ کا ذکر بھی عبادت هے ، قسم اس ذات کى جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کىا هے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمه ھداء ؑ هونگے انھیں کے واسطے اﷲ تعالی اهل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا اور انھیں کى برکت سے آسمان ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کى خاطر پهاڑوں کو بکھر جانے نهیں دے گا اور انھین کے طفیل سے اپنى مخلوقات کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزه نکالے گا ،وهی لوگ هیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین هىں. [3].

دوسری روایت

نیز امام علی ابن حسین فرماتے هین : وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِيدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِي الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا [4]. همارے ذریعه سے زمین اپنی اهل کے همراه پابرجا هے اور همارے ذریعه سے آسمان بارش برساتا هے اور اسکی رحمتین پهیل جاتی هین اور زمین سے برکات نکل آتی هین.

دعای ندبه کا ایک فقره

اسی طرح دعاے عدلیه کا فقره هے جس میں آیا هے  :“ثم الحجة الخلف القائم المنتظر المهدي المرجي .....ببقائه بقيت الدّنيا وبيمنه رُزق الوري وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه يملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواهی دیتا هوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مهدی عجل الله فرجه جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابسته هے انکے وجود سے دنیا باقی هے اور انکى برکت سے مخلوق روزی پارهی هے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم هیں اور انھیں کے زریعے خدا زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب که وه ظلم وجور سے بھر چکی هو گی.

نتیجه

پس ان روایات کی روشنی میں یه واضح هوتا هے که اس دور میں امام زمانه خالق ومخلوق کے درمیاں واسطه فیض هیں اور انکے واسطے سےزمىں وآسمان اپنى جگه ثابت اور حرکت مىں هىں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پهنچتى هے

انبیاء اور ائمہ معصومین کے خارق العاده تصرفات

کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ انبیاء یا ائمہ (ع) کے پاس خدا سے الگ کوئی خودمختار خلقی نظام ہے۔ بلکہ وہ ہر کام اللہ کے اذن اور اس کے حکم سے انجام دیتے ہیں۔ مثال: حضرت عیسیٰ (ع) کا مردوں کو زندہ کرنا یا اماموں کا معجزات دکھانا — یہ سب "بِإِذْنِ اللَّهِ" (اللہ کے حکم سے) ہوتا ہے۔ جبکه منکرینِ ولایت تکوینی سمجھتے ہیں کہ انبیاء کی ذمہ داری صرف دعوت و تبلیغ تک محدود ہے، اور اگر کوئی خارق العادہ کام ہو بھی تو صرف دعا کے ذریعے (جیسے عام مؤمنین کرتے ہیں)۔ جبکہ قرآن کی آیات (جیسے سورہ آل عمران:۴۹) اور روایات اس سے کہیں بالاتر فعال تصرفات کی گواہی دیتی ہیں۔

قرآنی ثبوت

حضرت عیسیٰ (ع) کا مٹی کے پرندے کو زندہ کرنا، بیماروں کو شفا دینا — یہ سب "بِإِذْنِ اللَّهِ" کے تحت تھا، مگر یہ عملی تصرف تھا نہ کہ صرف دعا۔ اسی طرح ائمہ (ع) بھی اللہ کے خاص اذن سے تکوینی امور میں اثر رکھتے ہیں۔

پهلی آیت

مثلاً پیغمبروں اور اولیاء اللہ کا مردوں کو زندہ کرنا یا لاعلاج بیماریوں کو شفا دینا۔ چناچه قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ مذکور ہے کہ انہوں نے مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں پھونک ماری تو وہ اللہ کے حکم سے زندہ پرندہ بن گیا۔ وَ یُعَلِّمُهُ الکِتابَ وَالْحِکْمَهَ وَ التَّوراهَ وَالانْجیلَ- وَ رَسُولًا الی بَنی اسْرائیلَ انّی قَدْ جِئْتُکُمْ بِآیهٍ مِنْ رَبِّکُمْ انّی اخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینَ کَهَیْئَهِ الطَّیْرِ فَانْفُخُ فیهِ فَیَکُونُ طَیْراً بِاذْنِ اللَّهِ وَ ابْرِءُ الاکْمَهَ وَ الابْرَصَ وَ احْیِی الْمَوْتی بِاذْنِ اللَّهِ وَ انَبِّئُکُمْ بما تَأکُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ فی بُیُوتِکُمْ انَّ فی ذلِکَ لآیَهَ لَکُمْ انْ کُنْتُمْ مُؤمِنینَ [5]. اسی طرح انہوں نے اللہ کے اذن سے اندھے اور کوڑھی کو شفا دی اور مردوں کو زندہ کیا۔ قرآن پاک کی اس آیت پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرندے کی تخلیق کا سہرا اللہ کے سر باندھتے ہیں، جبکہ تین دیگر معجزات (مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا اور مردوں کو زندہ کرنا) اپنی طرف منسوب کرتے ہیں — لیکن اللہ کے اذن اور حکم سے۔ یہی "ولایت تکوینی" کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے خاص بندوں کو ایسی قدرت عطا فرماتا ہے کہ وہ اس کے حکم سے کائنات اور فطرت میں تصرف کر سکیں، عام اسباب کو توڑ کر مردوں کو زندگی بخشیں یا ناقابل علاج بیماریوں کو شفا دے دیں۔ یہ ولایت تکوینی کی ایک واضح مثال ہے جو اللہ نے اپنے بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائی، اور اسی طرح کے اختیارات دوسرے انبیاء یا ائمہ معصومین علیہم السلام کو دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

دوسري آيت

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [6]. وہ شخص جس کے پاس کتاب (الہی) کا کچھ علم تھا، بولا: میں اس تخت کو تمہارے پاس لے آؤں گا، اس سے پہلے کہ تمہاری پلک جھپکے! پھر جب سلیمان نے اسے اپنے سامنے موجود دیکھا تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزار ہوں یا ناشکرا؟ اور جو شکر کرے تو اپنے ہی فائدے کے لیے، اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور کریم ہے.

آیت کی تفسیر

اس آیت میں ایک ولایت تکوینی کی دوسری مثال بیان ہوئی ہے:

  • حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ کون ملکہ سبا کا تخت اس سے پہلے لا سکتا ہے کہ وہ خود حاضر ہو؟
  • ایک طاقتور جن نے کہا کہ وہ تخت لا سکتا ہے، لیکن اسے کچھ وقت درکار ہوگا۔
  • مگر "وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا" (جس کا نام قرآن میں نہیں لیا گیا) نے کہا کہ وہ پلک جھپکتے میں تخت حاضر کر دے گا — اور ایسا ہی ہوا!
ایک اهم نکتہ
  • یہ شخص کوئی نبی یا ولی تھا جسے اللہ نے "علم الکتاب" (آسمانی علم) کی بدولت یہ غیر معمولی قدرت دی تھی۔
  • اس نے عام قوانین فطرت (طبیعی اسباب) کو توڑ کر فوری طور پر تخت کو منتقل کر دیا، جو ولایت تکوینی کی واضح مثال ہے۔
  • حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے دیکھ کر فوراً کہا: "یہ میرے رب کا فضل ہے"، یعنی یہ قدرت اللہ کی عطا کردہ تھی۔

ولایت تکوینی کا ثبوت احادیث میں

شیعہ اور اہل سنت کی معتبر کتب میں مشہور واقعہ ہے کہ جنگ خیبر کے دوران، جب کئی سپہ سالاروں کی کوششوں کے باوجود فتح ممکن نہ ہوئی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"کل میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے، اور اللہ اس کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائے گا۔" پھر آپ ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو بلوایا، جو اس وقت آنکھوں کے شدید درد میں مبتلا تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا لعابِ دہن مبارک ان کی آنکھوں پر لگایا، اور اس کے بعد سے حضرت علی علیہ السلام کو کسی قسم کا درد محسوس نہ ہوا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ میں پرچم تھمایا، اور بالآخر قلعہ خیبر فتح ہو گیا۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے اذن سے اپنی ولایت تکوینی کے ذریعے حضرت علی علیہ السلام کی آنکھوں کو شفا بخشی۔ یہ معجزہ نہ صرف شیعہ کتب بلکہ اہل سنت کی معتبر احادیث میں بھی موجود ہے، جیسے:صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر)صحیح مسلم (کتاب فضائل الصحابہ) [7].

خلاصہ: اللہ تعالیٰ جب چاہے اپنے خاص بندوں (انبیاء، اولیاء یا صالحین) کو ولایت تکوینی عطا فرماتا ہے، تاکہ وہ اس کے اذن سے کائنات میں تصرف کر سکیں۔ یہ معجزات یا کرامات اللہ کی قدرت کے تحت ہی ممکن ہیں، نہ کہ بندے کی ذاتی طاقت سے۔

نتیجہ

ولایت تکوینی اس معنی مین نہ صرف عقلی طور پر ممکن ہے بلکہ قرآن و احادیث سے ثابت بھی ہے۔ اللہ جسے چاہے یہ اختیار دے سکتا ہے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا۔ اسی طرح دیگر انبیاء یا ائمہ معصومین علیہم السلام کو بھی یہ ولایت حاصل ہو سکتی ہے۔

ولایت تکوینی اور تفویض میں فرق

بعض لوگ یہ غلط فہمی رکھتے ہیں کہ "ائمہ کی ولایت تکوینی" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے کائنات کے انتظام کو ائمہ کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ عقیدہ درحقیقت توحید افعالی (یہ کہ تمام افعال کی حقیقی فاعل صرف اللہ ہے) کے خلاف ہے۔ قرآن نے یہود کو بھی اسی طرح کے عقیدے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے [8]. جبکه ولایت تکوینی اور توحید میں ہم آہنگی پایی جاتی هے۔

  • پہلی بات: کائنات کے تمام معاملات ائمہ کے سپرد نہیں کیے گئے۔
  • دوسری بات: جس میدان میں بھی ائمہ تصرف کرتے ہیں، وہ اللہ کی خاص مرضی اور اذن کے تحت ہوتا ہے۔

ولایت تکوینی ائمہ کا ایک حقیقی مقام ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ:

  • ہم توحید کے دائرے سے نکل جائیں۔
  • یا ائمہ کے فضائل اور مقامات کو (جو درحقیقت توحید ہی کی ایک قسم ہیں) انکار کر دیں۔
  • ولایت تکوینی درحقیقت ایک ایسا مقام ہے جو اللہ کی طرف سے ائمہ کو عطا کیا گیا ہے۔ ان کا کائنات میں تصرف اور ان کی کرامات سب اللہ کی مرضی اور اذن کے تحت ہیں۔

جبکہ تفویض اور شرک اس وقت ہوتا ہے جب ہم ائمہ کو:

  • فاعل مستقل سمجھیں۔
  • یہ خیال کریں کہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی کام کر سکتے ہیں۔
  • یا انہیں خالق اور رازق سمجھنے لگیں

ائمہ کی ہدایات

ائمہ معصومین (ع) نے خود تاکید کی ہے کہ:

  • ہمارے بارے میں عبودیت کی حد سے تجاوز نہ کرو" [9]۔
  • اسی لیے زیارت جامعه کبیرہ جیسی متون میں، جہاں ائمہ کے بلند مقامات کا ذکر ہے، وہیں تکبیرات ثلاثہ کے ذریعے یہ واضح کیا گیا ہے کہ تمام عظمت صرف اللہ کے لیے ہے۔
  • ائمہ کو ہمیشہ بندہ اور مطیع خدا کے طور پر پیش کیا گیا ہے تاکہ تفویض یا غلو کا کوئی شائبہ نہ رہے۔

نتیجہ

ولایت تکوینی ائمہ کا ایک حقیقی مقام ہے، لیکن یہ کبھی بھی اللہ کی حاکمیت اور توحید کے منافی نہیں۔ تمام اختیارات اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہیں اور اسی کے اذن سے کام لیا جاتا ہے۔

حوالہ جات

  1. صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393شمسی، ص98
  2. شیخ صدوق الاعتقادات ص 99
  3. المجلسى - رحمه الله - فی البحار ج 9 ص 161
  4. ابن بابويه، كمال الدين و تمام النعمة / ج‏1 / 207 / 21 ص : 201
  5. سورہ آل عمران: 49
  6. النمل: 40
  7. المستدرک حاکم ج ۳، ص ۳۷
  8. سورہ مائدہ، آیت 64۔
  9. بحارالانوار، ج25، ص274

منبع

[علامہ سبحانی، کتاب العقیدہ الاسلامیہ] [علامہ جوادی آملی، تفسیر موضوعی] [شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان] [علامہ مجلسی، بحارالانوار]