"حسین نوری ہمدانی" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 71: | سطر 71: | ||
== قزل قلعہ جیل== | == قزل قلعہ جیل== | ||
حضرت امام کو ترکی جلاوطن کرنے کے بعد، جو بھی حکومت مخالف اعلامیے قم سے جاری ہوتے تھے، ان پر میرے دستخط بھی ہوتے تھے۔ اس لیے اس وقت ساواک کے کچھ اہلکار ہمارے گھر میں گھس آئے اور ہر جگہ کی باریک بینی سے تلاشی لی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کتابوں کے ورق بھی پلٹ رہے تھے۔ وہ کچھ کتابیں اٹھا کر لے گئے اور مجھے بھی گرفتار کر کے ساواک قم لے گئے جو ریلوے روڈ پر واقع تھا۔ ایک رات میں نے وہاں گزاری؛ پھر مجھے تہران، قزل قلعہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ قزل قلعہ شاہی حکومت کی ان جیلوں میں سے ایک تھی جہاں لوگوں کو اس وقت لے جایا جاتا تھا۔ جیل میں مجھے پتہ چلا کہ وہاں اور بھی حضرات موجود ہیں؛ اگرچہ ہم سب انفرادی سیلوں میں تھے اور دن میں صرف تین بار صبح، دوپہر اور شام سیل کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور ہمیں وضو کرنے کے لیے باہر جانے کی اجازت تھی۔ جب وہ مجھے بیت الخلا لے جا رہے تھے تو میں نے دور سے ان حضرات کو دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ یہ حضرات بھی یہاں موجود ہیں۔ | حضرت امام کو ترکی جلاوطن کرنے کے بعد، جو بھی حکومت مخالف اعلامیے قم سے جاری ہوتے تھے، ان پر میرے دستخط بھی ہوتے تھے۔ اس لیے اس وقت ساواک کے کچھ اہلکار ہمارے گھر میں گھس آئے اور ہر جگہ کی باریک بینی سے تلاشی لی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کتابوں کے ورق بھی پلٹ رہے تھے۔ وہ کچھ کتابیں اٹھا کر لے گئے اور مجھے بھی گرفتار کر کے ساواک قم لے گئے جو ریلوے روڈ پر واقع تھا۔ ایک رات میں نے وہاں گزاری؛ پھر مجھے تہران، قزل قلعہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ | ||
قزل قلعہ شاہی حکومت کی ان جیلوں میں سے ایک تھی جہاں لوگوں کو اس وقت لے جایا جاتا تھا۔ جیل میں مجھے پتہ چلا کہ وہاں اور بھی حضرات موجود ہیں؛ اگرچہ ہم سب انفرادی سیلوں میں تھے اور دن میں صرف تین بار صبح، دوپہر اور شام سیل کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور ہمیں وضو کرنے کے لیے باہر جانے کی اجازت تھی۔ جب وہ مجھے بیت الخلا لے جا رہے تھے تو میں نے دور سے ان حضرات کو دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ یہ حضرات بھی یہاں موجود ہیں۔ | |||
سیل کے اندر کوئی لیمپ نہیں تھا؛ دروازے کے اوپر موجود ایک چھوٹے سے سوراخ سے ہال کی تھوڑی اور مدھم روشنی سیل کے اندر پڑتی تھی۔ یہ سیل اتنے چھوٹے تھے کہ اگر ہم اپنے ہاتھ کھولتے تو وہ دونوں طرف کی دیواروں کو چھو جاتے۔ سیل کے فرش کو ناہموار اینٹوں سے ڈھانپا گیا تھا جس کی وجہ سے سوتے وقت کمر اور پشت میں شدید تکلیف ہوتی تھی۔ | سیل کے اندر کوئی لیمپ نہیں تھا؛ دروازے کے اوپر موجود ایک چھوٹے سے سوراخ سے ہال کی تھوڑی اور مدھم روشنی سیل کے اندر پڑتی تھی۔ یہ سیل اتنے چھوٹے تھے کہ اگر ہم اپنے ہاتھ کھولتے تو وہ دونوں طرف کی دیواروں کو چھو جاتے۔ سیل کے فرش کو ناہموار اینٹوں سے ڈھانپا گیا تھا جس کی وجہ سے سوتے وقت کمر اور پشت میں شدید تکلیف ہوتی تھی۔ | ||
میں تقریباً تین مہینے بغیر کسی مقدمے اور ملاقات کی اجازت کے ان حالات میں ان سیلوں میں رہا اور وضو کرنے کے وقت کے علاوہ میں اس سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ مقدمے کے بعد، وہ ہمیں دن میں صرف دس منٹ کے لیے جیل کے صحن میں چہل قدمی کرنے کے لیے لے جاتے تھے۔ جب وہ مجھے پوچھ گچھ کے لیے لے گئے تو ان کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ حضرت امام کے حامی ہیں اور ان کی حمایت میں اعلامیے لکھتے اور دستخط کرتے ہیں۔ مقدمے کی تاریخ گزرنے کے تقریباً دو مہینے بعد میں رہا ہو گیا۔ | میں تقریباً تین مہینے بغیر کسی مقدمے اور ملاقات کی اجازت کے ان حالات میں ان سیلوں میں رہا اور وضو کرنے کے وقت کے علاوہ میں اس سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ مقدمے کے بعد، وہ ہمیں دن میں صرف دس منٹ کے لیے جیل کے صحن میں چہل قدمی کرنے کے لیے لے جاتے تھے۔ | ||
میری رہائی کو چند مہینے ہی گزرے تھے کہ میں نے ہمدان کا سفر کیا۔ ہمدان میں علماء اور غیر علماء مجھ سے ملنے آئے۔ گرمیوں کا موسم تھا، میں نے ہمدان کے ایک مدرسے میں ایک درس شروع کیا جسے خوب پذیرائی ملی۔ ساواک ہمدان اس بات سے پریشان تھی کہ شہر کے نوجوان اور لوگ مجھ سے رابطہ رکھتے ہیں اور درس اور بحث میں آتے ہیں؛ اس لیے انہوں نے مجھے ایک بہانے سے گرفتار کیا اور تہران بھیج دیا۔ دوبارہ مجھے قزل قلعہ جیل بھیج دیا گیا اور میں کئی مہینے وہاں قید رہا۔ جیل سے رہائی کے بعد، میں طویل عرصے تک نام نہاد ممنوع المنبر رہا اور مجھے وعظ و نصیحت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں رفسنجان چلا گیا۔ دو تین منبروں کے بعد، ساواک کرمان کو پتہ چل گیا اور انہوں نے لیکچرز کے سلسلے کو جاری رکھنے سے روک دیا۔" | |||
جب وہ مجھے پوچھ گچھ کے لیے لے گئے تو ان کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ حضرت امام کے حامی ہیں اور ان کی حمایت میں اعلامیے لکھتے اور دستخط کرتے ہیں۔ مقدمے کی تاریخ گزرنے کے تقریباً دو مہینے بعد میں رہا ہو گیا۔ | |||
میری رہائی کو چند مہینے ہی گزرے تھے کہ میں نے ہمدان کا سفر کیا۔ ہمدان میں علماء اور غیر علماء مجھ سے ملنے آئے۔ گرمیوں کا موسم تھا، میں نے ہمدان کے ایک مدرسے میں ایک درس شروع کیا جسے خوب پذیرائی ملی۔ | |||
ساواک ہمدان اس بات سے پریشان تھی کہ شہر کے نوجوان اور لوگ مجھ سے رابطہ رکھتے ہیں اور درس اور بحث میں آتے ہیں؛ اس لیے انہوں نے مجھے ایک بہانے سے گرفتار کیا اور تہران بھیج دیا۔ دوبارہ مجھے قزل قلعہ جیل بھیج دیا گیا اور میں کئی مہینے وہاں قید رہا۔ جیل سے رہائی کے بعد، میں طویل عرصے تک نام نہاد ممنوع المنبر رہا اور مجھے وعظ و نصیحت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں رفسنجان چلا گیا۔ دو تین منبروں کے بعد، ساواک کرمان کو پتہ چل گیا اور انہوں نے لیکچرز کے سلسلے کو جاری رکھنے سے روک دیا۔" | |||
== سنہ 1356شمسی کا تاریخی دن 19 دی== | == سنہ 1356شمسی کا تاریخی دن 19 دی== | ||
== اطلاعات اخبار میں امام خمینی کی توہین== | == اطلاعات اخبار میں امام خمینی کی توہین== | ||
حالیہ نسخہ بمطابق 22:57، 25 جولائی 2025ء
| حسین نوری ہمدانی | |
|---|---|
| پورا نام | حسین نوری ہمدانی |
| دوسرے نام | آیت الله العظمی شیخ حسین نوری ہمدانی |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1304 ش، 1926 ء، 1343 ق |
| پیدائش کی جگہ | ایران، ہمدان |
| اساتذہ | آخوند ملا علی ہمدانی، حجت کوہ کمرهای، علامہ طباطبائی، بروجردی اور حضرت امام خمینی |
| مذہب | اسلام، شیعہ |
| مناصب | مرجع تقلید شیعه |
آیت اللہ العظمیٰ حسین نوری ہمدانی (پیدائش 1304 ش) شیعہ تقلید کے مرجع اور قم کے علمیہ حوزہ کے درس خارج کے استاد ہیں۔ ان کی رکنیت خبرگان رہبری کونسل اور خمینی شہر میں جمعہ کے خطیب کے طور پر بھی رہی ہے۔ وحدت اور تقریب کے امور میں ان کی دلچسپی، ملکی اور بین الاقوامی دورے، اسلامی مذاہب کے ممتاز شخصیات اور علماء سے ملاقاتیں، اور ان کے پیغامات تقریب کے امور پر عمل درآمد کے لیے رہنمایانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ آیت اللہ نوری ہمدانی کو امام خمینی سے امور حسبیہ کے انتظام کی اجازت حاصل تھی۔ وہ مکتب اسلام میگزین کے بانیوں اور ہیئت تحریریہ شامل تھے اور قم میں مہدی موعود (عج) علمیہ اسکول کے بانی تھے۔ پہلوی حکومت کے خلاف حسینیہ ارشاد میں تقریر، اعلانات کی ترتیب اور اشاعت، سید روح اللہ خمینی کی مرجعیت کے اعلان پر دستخط، 19 دی کے مظاہروں میں تقریر، تہران میں قید، اور خلخال اور سقز میں جلاوطنی اسلامی انقلاب ایران سے قبل نوری ہمدانی کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کی عملی رسالہ 1371 ش میں شائع ہوئی۔ ان کی کئی تصنیفات شائع ہو چکی ہیں جن میں معجم الروات الثقات، جہاد، انسان و جہان، اسلامی دنیا میں عورت کا مقام وغیرہ شامل ہیں۔ نوری ہمدانی کے نزدیک مسلمانوں کا ایک دوسرے کے مقدس مقامات کی توہین کرنا وحدت کو مضبوط کرنے میں رکاوٹ ہے۔
سوانح حیات
“آپ نے 1304 شمسی میں ہمدان شہر میں ایک مذہبی گھرانے میں جنم لیا۔ آپ کے والد مرحوم حجت الاسلام والمسلمین حاج شیخ ابراہیم نوری ہمدانی، ہمدان کے ممتاز علماء میں سے تھے، جو آیت اللہ العظمیٰ آخوند ملا علی ہمدانی کے ہم عصر اور ان کے ہم حجره (ہم جماعت) تھے۔”
تعلیم
“شیخ حسین نے سات سال کی عمر میں تعلیم شروع کی۔ انہوں نے اپنے محترم والد سے فارسی ادبیات، گلستانِ سعدی، انشاء، ترسل نصاب اور دیگر علوم جیسے معالم الاصول سیکھے۔ پھر 1321 شمسی میں مرحوم آخوند ہمدانی کے مدرسے میں داخل ہوئے اور وہاں تقریباً ڈیڑھ سال تک علوم حاصل کئے۔ لیکن ان کا حصولِ علم کا شوق اور بے مثال ذہانت نے انہیں قم کے مقدس شہر کی طرف کوچ کرنے پر مجبور کیا، جہاں وہ اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کے آستانے میں مقیم ہوئے اور اس زمانے کی تمام سخت مشقتیں برداشت کرتے ہوئے قم کے علمیہ حوزہ کے ممتاز اساتذہ کے دروس سے مستفید ہوئے۔”
اساتذه
“آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، پھر حوزہ علمیہ ہمدان کے اکابرین، بالخصوص مرحوم آیت اللہ العظمیٰ آخوند ملا علی ہمدانی سے کسبِ فیض کیا۔ حوزہ علمیہ قم میں داخل ہونے کے بعد، آپ نے آیات عظام: داماد، حجت کوہ کمرهای، علامہ طباطبائی، بروجردی اور حضرت امام خمینی (علیہم الرحمہ) سے زیادہ سے زیادہ علمی استفادہ کیا۔”
تدریس
“حضرت آیت اللہ نوری نے حوزہ علمیہ قم میں داخل ہوتے ہی تعلیم کے ساتھ تدریس بھی شروع کردی اور فقہی، اصولی، کلامی، اخلاقی اور دیگر مختلف موضوعات میں آپ کی درس گاہ میں کافی رش رہتا تھا اور بہت سے شاگرد آپ کے بابرکت علم سے فیضیاب ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ مسجد اعظم میں آپ کے درسِ نہج البلاغہ کو اس وقت کے حوزہ علمیہ کے پرمغز دروس میں شمار کیا جاتا تھا۔ آپ کی گفتگو کے منطق اور استدلال نے طاغوتی حکومت کے کارندوں کو اس قدر تنگ کر دیا کہ انہیں اسے بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔
اس درس کو بند کرنے سے سیکڑوں فضلاء حوزہ علمیہ جو اب حوزہ کے بڑے اور نظام مقدس جمہوری اسلامی کے خدمت گزار سمجھے جاتے ہیں، اس نعمت سے محروم ہو گئے۔ اور اب تقریباً تیس سال سے درسِ خارج میں مشغول ہیں اور تقریباً ایک ہزار ممتاز علماء اور فضلاء آپ سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔”
تالیفات اور تصنیفات
“حضرت آیت اللہ العظمی نوری همدانی علمی مضامین لکھنے پر خاص توجہ دیتے ہیں اور طلباء کو ان کی ایک اہم نصیحت یہ ہے کہ انہیں اہل قلم ہونا چاہیے اور مختلف شعبوں میں لکھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اسی اصول کی بنیاد پر، انہوں نے مختلف موضوعات پر بہت سی تحریریں لکھی ہیں جو 50 جلدوں سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ تحریریں شائع ہو چکی ہیں، کچھ زیرِ اشاعت ہیں اور کچھ طباعت کے لیے تیار کی جا رہی ہیں۔ وہ کتابیں جو اب تک شائع ہو چکی ہیں، درج ذیل ہیں:
- الخمس
- مسائل من اجتهاد و تقلید
- امر به معروف و نهی از منکر از دیدگاه اسلام (عربی)
- امر به معروف و نهی از منکر از دیدگاه اسلام (فارسی)
- اسلام مجسم (شرح حال علمای بزرگ اسلام)
- جایگاه بانوان در اسلام
- جهاد (فارسی)
- ربا
- دانش عصر فضا
- شگفتیهای آفرینش
- جهان آفرینش
- انسان و جهان
- خوارج از دیدگاه نهجالبلاغه
- یک حرکت انقلابی در مصر
- داستان باستان
- ما و مسائل روز
- بیتالمال از دیدگاه نهجالبلاغه
- اقتصاد اسلامی
- منطق خداشناسی
- جمهوری اسلامی
- رساله توضیح المسائل
- آمادگی رزمی و مرزداری در اسلام
- هزار و یک مسئله فقهی (استفتائات جلد 1 و 2)
- مناسک حج (عربی)
- مناسک حج (فارسی)
- منتخب المسائل (عربی)
سیاسی اور سماجی سرگرمیاں
چونکہ آپ حضرت امام خمینی (رح) کے شاگرد تھے اور ان سے حد درجہ عقیدت رکھتے تھے، اس لیے وہ ہر لحاظ سے، خاص طور پر سیاسی طور پر، بانیِ جمہوری اسلامی کی تعلیمات سے گہرا اثر رکھتے تھے۔ لہٰذا، گہری علمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، انہوں نے سیاسی اور سماجی میدان میں قدم رکھنے سے غفلت نہیں برتی، وہ مسلسل شاہی حکومت کے خلاف جدوجہد میں صف اول میں رہے اور اس راہ میں جیل اور جلاوطنی وغیرہ سے نہیں ڈرے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے تمام خطرات کو برداشت کیا اور اپنی انقلابی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے پوری کوشش کی۔
اس سلسلے میں ان کی کچھ سرگرمیاں خود ان کی زبانی سنیے: ‘میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں یہ توفیق حاصل ہوئی کہ میں نے کچھ سال حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی کے پُر فیض مکتب میں تعلیم حاصل کی اور علمی مضامین کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی خوبیوں سے بھی مستفید ہوا۔ ان سالوں کے دوران، اسلامی متون اور معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں نے محسوس کیا کہ روحانیت کی ذمہ داری صرف پڑھنے اور پڑھانے تک محدود نہیں ہے۔ اس لیے جس دن سے انہوں نے انقلاب اور تبدیلی کا آغاز کیا، میں نے کوشش کی کہ میں اپنی استطاعت کے مطابق ان کے پیچھے قدم اٹھاؤں۔
اس وقت، ہم خیال دوستوں کے ساتھ ہماری باقاعدہ ملاقاتیں ہوتی تھیں جن میں موجودہ مسائل پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا اور معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے فیصلے کیے جاتے تھے۔ کبھی ہم حکومت اور بادشاہ کے خلاف اعلامیے پر دستخط کرتے تھے۔ یقیناً، ان میں سے کچھ اعلامیوں کا متن بھی بعض اوقات میں ہی ترتیب دیتا تھا۔ ان کی اشاعت اور تقسیم میں بھی میرا قریبی تعاون ہوتا تھا۔ ہم اس مقصد کے لیے مختلف لوگوں کو ملک کے مختلف حصوں میں بھیجتے تھے۔
قزل قلعہ جیل
حضرت امام کو ترکی جلاوطن کرنے کے بعد، جو بھی حکومت مخالف اعلامیے قم سے جاری ہوتے تھے، ان پر میرے دستخط بھی ہوتے تھے۔ اس لیے اس وقت ساواک کے کچھ اہلکار ہمارے گھر میں گھس آئے اور ہر جگہ کی باریک بینی سے تلاشی لی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کتابوں کے ورق بھی پلٹ رہے تھے۔ وہ کچھ کتابیں اٹھا کر لے گئے اور مجھے بھی گرفتار کر کے ساواک قم لے گئے جو ریلوے روڈ پر واقع تھا۔ ایک رات میں نے وہاں گزاری؛ پھر مجھے تہران، قزل قلعہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
قزل قلعہ شاہی حکومت کی ان جیلوں میں سے ایک تھی جہاں لوگوں کو اس وقت لے جایا جاتا تھا۔ جیل میں مجھے پتہ چلا کہ وہاں اور بھی حضرات موجود ہیں؛ اگرچہ ہم سب انفرادی سیلوں میں تھے اور دن میں صرف تین بار صبح، دوپہر اور شام سیل کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور ہمیں وضو کرنے کے لیے باہر جانے کی اجازت تھی۔ جب وہ مجھے بیت الخلا لے جا رہے تھے تو میں نے دور سے ان حضرات کو دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ یہ حضرات بھی یہاں موجود ہیں۔
سیل کے اندر کوئی لیمپ نہیں تھا؛ دروازے کے اوپر موجود ایک چھوٹے سے سوراخ سے ہال کی تھوڑی اور مدھم روشنی سیل کے اندر پڑتی تھی۔ یہ سیل اتنے چھوٹے تھے کہ اگر ہم اپنے ہاتھ کھولتے تو وہ دونوں طرف کی دیواروں کو چھو جاتے۔ سیل کے فرش کو ناہموار اینٹوں سے ڈھانپا گیا تھا جس کی وجہ سے سوتے وقت کمر اور پشت میں شدید تکلیف ہوتی تھی۔ میں تقریباً تین مہینے بغیر کسی مقدمے اور ملاقات کی اجازت کے ان حالات میں ان سیلوں میں رہا اور وضو کرنے کے وقت کے علاوہ میں اس سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ مقدمے کے بعد، وہ ہمیں دن میں صرف دس منٹ کے لیے جیل کے صحن میں چہل قدمی کرنے کے لیے لے جاتے تھے۔
جب وہ مجھے پوچھ گچھ کے لیے لے گئے تو ان کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ حضرت امام کے حامی ہیں اور ان کی حمایت میں اعلامیے لکھتے اور دستخط کرتے ہیں۔ مقدمے کی تاریخ گزرنے کے تقریباً دو مہینے بعد میں رہا ہو گیا۔ میری رہائی کو چند مہینے ہی گزرے تھے کہ میں نے ہمدان کا سفر کیا۔ ہمدان میں علماء اور غیر علماء مجھ سے ملنے آئے۔ گرمیوں کا موسم تھا، میں نے ہمدان کے ایک مدرسے میں ایک درس شروع کیا جسے خوب پذیرائی ملی۔
ساواک ہمدان اس بات سے پریشان تھی کہ شہر کے نوجوان اور لوگ مجھ سے رابطہ رکھتے ہیں اور درس اور بحث میں آتے ہیں؛ اس لیے انہوں نے مجھے ایک بہانے سے گرفتار کیا اور تہران بھیج دیا۔ دوبارہ مجھے قزل قلعہ جیل بھیج دیا گیا اور میں کئی مہینے وہاں قید رہا۔ جیل سے رہائی کے بعد، میں طویل عرصے تک نام نہاد ممنوع المنبر رہا اور مجھے وعظ و نصیحت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں رفسنجان چلا گیا۔ دو تین منبروں کے بعد، ساواک کرمان کو پتہ چل گیا اور انہوں نے لیکچرز کے سلسلے کو جاری رکھنے سے روک دیا۔"
سنہ 1356شمسی کا تاریخی دن 19 دی
اطلاعات اخبار میں امام خمینی کی توہین
اس تاریخ سے میں قم واپس آ گیا اور درس و بحث میں مشغول ہو گیا اور مناسب مواقع اور مختلف حالات میں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ 56 سال کا 19 دی کا واقعہ پیش آیا، اور وہ اس طرح ہے: 56 سال 17 دی کو اطلاعات اخبار میں حضرت امام کے خلاف ایک توہین آمیز اور سخت مضمون شائع ہوا، جو اس وقت نجف میں تشریف فرما تھے۔ اس مضمون کی اشاعت نے قم کے اساتذہ اور فضلا کے غصے کو بھڑکا دیا۔ اس موقع پر میرے گھر پر ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مشکینی اور وحید خراسانی صاحبان بھی موجود تھے۔"
قم میں ہرتال کا فیصلہ
اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایسے مضمون کی اشاعت پر احتجاج کے طور پر پہلے قدم کے طور پر قم کے حوزہ علمیہ اور بازار کو بند کیا جائے۔ قم کے حوزہ علمیہ اور بازار بند کر دیے گئے۔ حوزہ علمیہ کے فضلاء اور بازاری حضرات مراجع عظام اور بڑے اساتذہ کے گھروں پر جا رہے تھے، جہاں نظام کے خلاف احتجاجی جلسے منعقد کیے جا رہے تھے۔ 19 دی کے دن، جب حضرات قبل از ظہر بعض اساتذہ کے گھروں پر گئے تھے، تو انھوں نے طے کیا تھا کہ بعد از ظہر ہمارے گھر پر جمع ہوں گے۔ یہ فیصلہ نماز جماعت میں بھی سنا دیا گیا تھا۔ دوپہر ایک بجے سے ہی کچھ لوگ آئے اور گھر اور گلی میں کئی لاؤڈ اسپیکر نصب کر دیے۔ رفتہ رفتہ لوگ صحن اور چھتوں میں آنے لگے اور گلی لوگوں سے اس قدر بھر گئی کہ بھیڑ سڑک تک پہنچ گئی۔ سب سے پہلے میرے داماد سید حسین موسوی تبریزی نے تقریر کی، پھر میں نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور نظام ستم شاہی کے جرائم کو صراحت کے ساتھ بیان کیا۔ چنانچہ میں نے شاہ کے نظام کے جرائم کے خلاف ایک جامع اور سخت تقریر کی۔" "اس تقریر میں، میں نے ضروری سمجھا کہ جرائم کے اصل مرکز اور منبع کی نشاندہی کروں۔ لوگ اس جامع، منطقی اور زوردار گفتگو سے متاثر ہوئے اور شدید نعرے لگاتے ہوئے گھر سے روانہ ہوئے۔ میں نے بھی ضروری سمجھا کہ لوگوں کے ساتھ حرکت کروں۔ ہم باہر آئے، گلی سے گزر کر سڑک پر پہنچے۔ بھیڑ کا ابتدائی حصہ تھانے کے سامنے چوراہے پر پہنچ چکا تھا۔ یہاں نظام کے کارندوں نے لوگوں پر گولیاں برسائیں اور گرم ہتھیاروں سے ان لوگوں پر حملہ کیا جن کے پاس کوئی دفاعی ذریعہ نہیں تھا۔ بہت سے لوگ شہید ہوئے، بہت سے زخمی ہوئے اور کچھ جان بچانے میں کامیاب رہے۔ اس واقعے نے ایران کے دیگر مختلف شہروں میں لوگوں کی تحریک اور بغاوت کو جنم دیا۔ اس دن کے شہداء کی یاد میں، ایرانی قوم کی ہمہ گیر بغاوت تبریز سے شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ پورے ایران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسی مناسبت سے ہماری گلی کا نام کوچۂ قیام رکھا گیا۔ اور جب حضرت امام (رحمہ اللہ) قم تشریف لائے تو ہمارے گھر بھی تشریف لائے، اور ان کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اسلامی انقلاب کا آغاز اس گھر سے ہوا ہے۔ 19 دی کو اس تقریر کے بعد، میں اس انتظار میں تھا کہ ساواک میرے پیچھے آئے اور مجھے گرفتار کر لے۔ اسی لیے مجھے تہران میں ایک کام تھا اس کے لیے تہران چلا گیا۔ جب میں تہران گیا ہوا تھا، تو حکومت کے کارندے رات کو ہمارے گھر میں گھس آئے اور ہر جگہ کی تلاشی لی۔ جب میں تہران سے واپس آیا اور مجھے اس واقعے کے بارے میں بتایا گیا، تو میں نے خود کو مزید تیار کر لیا اور خدا حافظی اور تیار ہونے کے بعد، میں نے ساواک کو فون کیا اور کہا: اگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے تو میں تہران سے واپس آ گیا ہوں۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ آئے اور مجھے قم کے پولیس اسٹیشن لے گئے اور وہاں سے مجھے خلخال جلاوطن کر دیا۔ میری خلخال میں جلاوطنی کئی مہینوں تک جاری رہی۔ اس دوران مجھ پر بہت سختی کی جاتی تھی۔ ہر روز مجھے پولیس اسٹیشن جا کر ایک رجسٹر پر دستخط کرنا ہوتے تھے۔ ہمارے گھر کی سخت نگرانی کی جاتی تھی، یہاں تک کہ معمول کی آمد و رفت کو بھی زیر نظر رکھا جاتا تھا۔ انہوں نے ہمارے لیے عام ضروریات کی فراہمی مشکل بنا دی تھی اور دکانداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہمیں ضروری اشیاء فروخت کرنے سے گریز کریں۔ ایک صبح جب میں رجسٹر پر دستخط کرنے گیا تو مجھے بتایا گیا کہ اب گھر واپس نہ جاؤں، کیونکہ وہ مجھے سقز لے جانا چاہتے تھے۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ مجھے جانے دیا جائے اور کم از کم خبر دینے دی جائے، لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا۔ وہ مجھے کچھ اہلکاروں کے ساتھ سقز منتقل کر گئے۔ سقز میں میرے علاوہ چند اور حضرات بھی جلاوطن تھے۔ ہم جلاوطنی کا دور بہت مشکلات سے گزار رہے تھے۔ جب شریف امامی کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے اپنی نیک نامی کے حصول کے لیے - نام نہاد - سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا اور جلاوطنوں کو واپس بلانا شروع کیا۔ اس دوران میں بھی جلاوطنی سے آزاد ہو گیا۔ اپنی آخری جلاوطنی کی جگہ یعنی سقز کردستان سے جب میں آزاد ہوا تو امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) پیرس (نوفل لوشاتو) میں تھے۔ قم میں چند دن گزارنے کے بعد، میں پیرس گیا اور نوفل لوشاتو میں امام (رضوان اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور چند دن ان جلسوں میں شرکت کرتا رہا جو اسلامی تحریک کے علمبردار اور عظیم استاد کی موجودگی میں منعقد ہوتے تھے اور کئی بار ان سے نجی ملاقاتیں بھی کیں۔ اور ایران کی طرف روانگی کے وقت، انہوں نے مجھے ایک کاغذ دیا جو انہوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے لکھا تھا اور اس میں نظام ستم شاہی کے خاتمے کے بعد اسلامی حکومت کے بارے میں کچھ باتیں درج کی تھیں، تاکہ میں ڈاکٹر بہشتی اور استاد مطہری صاحبان کے ساتھ اس پر تبادلہ خیال کروں اور نوفل لوشاتو کو نتیجہ سے آگاہ کروں، جو میں نے کیا۔"
"حضرت امام خمینی کی مرجعیت کی تلاش
ان واقعات میں سے جو اس دور میں پیش آئے، آیت اللہ العظمی حکیم (رح) کی وفات کا واقعہ تھا۔ علمی خصوصیات اور دیگر روشن اور واضح خصائص کے لحاظ سے جو ہم نے حضرت امام میں دیکھے تھے، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کچھ ایسا کریں کہ ان کا چہرہ علمی حلقوں سے باہر بھی لوگوں کے لیے بہتر اور مکمل طور پر جانا جائے۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ایک اعلامیہ جاری کریں کہ مرحوم آقای حکیم کے بعد لوگ حضرت امام سے رجوع کریں۔ حوزہ علمیہ قم کے بارہ مدرسین نے، جن میں یہ ناچیز بھی شامل تھا، مرحوم آقای حکیم کے بعد حضرت امام کی مرجعیت کی تائید میں اس اعلامیہ پر دستخط کیے اور اسے شائع کیا۔ شہرستانوں کے علماء نے اس اعلامیہ کا اچھا استقبال کیا اور بعض مراکز میں حضرات نے منبر پر لوگوں کے سامنے یہ اعلامیہ پڑھا، جس کا اثر ہوا۔ اس اعلامیہ کے اجراء کے بعد، میں انتظار کر رہا تھا کہ وہ میرے پیچھے آئیں؛ کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایسے اعلامیہ کا اجراء بے نتیجہ نہیں ہوگا۔ ایسا ہی ہوا، ایک دن دوپہر کے وقت ساواک کے اہلکار ہمارے گھر میں گھس آئے اور ہم نے ان واقعات میں بھی اپنی ذمہ داری پوری کی۔"
علمی ثقافتی سفریں
آیت اللہ العظمی نوری ہمدانی نے قرآنی نصیحت “زمین میں چلو پھرو” سے متاثر ہوکر دنیا کے دور دراز مقامات کے بہت سے سفر کیے اور ان سفروں میں مختلف افکار اور ثقافتوں سے دوچار ہوکر علمی مباحثوں کے ساتھ اپنے تجربات میں اضافہ کیا۔
یورپ میں سید روح اللہ خمینی کی نمائندگی
میں شمسی سال تیره سو 58 اور 59 میں حضرت امام کا یورپ میں نمائندہ تھا اور میرا وہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ان دو سالوں میں قم میں دوران تعلیم میں تدریس میں مشغول رہا، لیکن حوزہ کی تعطیلات کے دوران میں یورپی ممالک جیسے انگلستان، فرانس، جرمنی، آسٹریا، اٹلی، سویڈن، بیلجیم، ہالینڈ، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ناروے، فن لینڈ، اسپین، یونان اور ترکی کا سفر کرتا تھا۔ ملاقاتوں، انٹرویوز اور مجالس کے انعقاد کے دوران میں اسلام کی حقیقتوں اور اسلامی انقلاب کی عظمت کو بیان کرتا تھا اور خدا کی توفیق سے سائنسی اور مذہبی سوالات کے جوابات دیتا تھا۔ میں نے پاکستان کے بھی سفر کیے اور ایک سفر تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اور ہندوستان کا بھی کیا، اور ان سفروں میں مختلف فرقوں کے ساتھ میل جول اور اسلام کے معارف اور مبانی کو بیان کرنے کے علاوہ، زیادہ توجہ اسلامی انقلاب ایران کے فوائد کو بیان کرنے اور عالمی استکبار کا چہرہ دکھانے پر تھی۔ میں حاضر ہوں۔ آپ کے فراہم کردہ اقتباس کا اردو ترجمہ یہ ہے:
تقریبی سفریں
آیت اللہ حسین نوری ہمدانی بعض پہلوؤں سے ایک بے مثال مرجع تقلید ہیں۔ ان پہلوؤں میں سے ایک ان کے غیر ملکی ممالک کے سفر ہیں جو مسلمانوں بالخصوص شیعوں کے اجتماعات میں شرکت اور ملاقات کے لیے کیے جاتے ہیں؛ تنزانیہ، کینیا، روس، عراق اور جمہوریہ آذربائیجان۔ وہ سال 1394 ش میں باکو گئے تاکہ ایران کے شمالی ہمسایہ ملک کے لوگوں اور مذہبی حکام کے ساتھ 5 روزہ ملاقات میں گفتگو کریں۔ یہ سفر غالباً شیخ الاسلام اللہ شکور پاشازادہ کی طرف سے دو سال قبل کی گئی دعوت کا جواب تھا جو قفقاز کے مسلمانوں کے ادارے کے سربراہ ہیں، جو ایران آئے اور آیت اللہ نوری ہمدانی سمیت کئی مراجع سے ملاقات میں انہیں باکو کے سفر کی دعوت دی۔ آذربائیجان پہنچنے پر آیت اللہ نوری ہمدانی نے اس اسلامی ملک کے سفر کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور دونوں ممالک کے درمیان یکجہتی کو مضبوط کرنا قرار دیا۔ انہوں نے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد اور یکجہتی کو امت مسلمہ اور مسلم ممالک کی اشد ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے اپنے سفر کے پہلے دن موسی بن جعفر (کاظم) (ع) کی بیٹی بی بی حکیمہ کے روضہ مطہر کی زیارت کی اور بی بی حکیمہ کے زائرین اور مجاورین سے ملاقات اور گفتگو کی۔ قفقاز کے علاقے کی سب سے بڑی مسجد کا دورہ اور جمہوریہ آذربائیجان کے شہداء کے مقام کو خراج تحسین پیش کرنا بھی اس مرجع تقلید کے سفر کے پہلے دن کے پروگراموں میں شامل تھا۔ اسی دن آذربائیجان کی ممتاز مذہبی شخصیات جن میں اس ملک کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت شیخ الاسلام پاشازادہ بھی شامل ہیں، اس مرجع تقلید کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کے لیے پہنچیں۔ جمہوریہ آذربائیجان کے علماء اور روحانیوں کے اجتماع میں مسجد تازہ پیر باکو میں شرکت اور خطاب آیت اللہ کے سفر کے دوسرے دن کا سب سے اہم پروگرام تھا۔ اس ملاقات کے آغاز میں اللہ شکور پاشازادہ نے نوری ہمدانی کے باکو کے سفر کو آذربائیجان کی تاریخ میں ایک سنگ میل قرار دیا۔ آیت اللہ نوری ہمدانی نے بھی اپنے خطاب میں عالم اسلام کو ہر وقت سے زیادہ اتحاد اور یکجہتی کا محتاج قرار دیا۔ آیت اللہ نوری ہمدانی نے اپنے سفر کے تیسرے دن شماخی شہر کا دورہ کیا اور مقامی حکام سے ملاقات کے ساتھ شماخی کی تاریخی جمعہ مسجد کا دورہ کیا اور اس علاقے کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے اجتماع میں فرمایا: امت اسلامی کے درمیان تفرقہ نے تاریخ میں نہ صرف مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے بلکہ اسلام کو بدترین ضربیں لگائی ہیں۔ اس مسجد کو 1859 اور 1902 کے زلزلوں اور اسی طرح 1918 میں بالشویک اور آرمینیائیوں کے حملے میں نقصان پہنچا تھا جسے گزشتہ برسوں کے دوران جمہوریہ آذربائیجان کی حکومت نے دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ آذربائیجان میں ہمارے ملک کے سفیر محسن پاک آئین نے آیت اللہ نوری ہمدانی کی موجودگی کے بارے میں مہر نیوز ایجنسی کو بتایا: سنی نشین شہروں کی مساجد میں خاص طور پر شاماخی مسجد میں سنی بھائیوں نے شیعوں کے ساتھ ایک ہی صف میں آیت اللہ نوری ہمدانی کی امامت میں نماز ادا کی اور پھر آیت اللہ کے وحدت آفرین خطابات سنے۔ گنجه شہر میں موجودگی اور امامزادہ محمد ابن باقر (ع)، مرقد نظامی گنجوی کی زیارت اور اسی طرح مسجد شاہ عباس کا دورہ آیت اللہ نوری ہمدانی کے آذربائیجان میں موجودگی کے چوتھے دن کے پروگرام تھے۔ انہوں نے مرقد نظامی گنجوی میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ وہ فارسی ادب کے بڑے شعراء میں سے ایک ہیں، اس بات پر زور دیا کہ فارسی اور آذربائیجانی ثقافت، فن اور ادب کی حیثیت پر توجہ دینا قرآنی معارف اور اہل بیت کی منتقلی اور ترویج کا ایک اہم ترین راستہ ہے۔ آیت اللہ نوری ہمدانی جن کا گنجه کے حکام نے استقبال کیا، نے گنجه شہر کے مسلمانوں کے اجتماع میں اس بات پر زور دیا: اسلام مساوات، بھائی چارے اور برابری کا دین ہے، دینی اور قرآنی تعلیمات کے نقطہ نظر سے کسی بھی قوم کو کسی دوسری قوم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اور سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں برابر ہیں۔ اس تقریب میں قفقاز کے مسلمانوں کے مذہبی مرکز کے سربراہ نے جمہوریہ آذربائیجان میں نوری ہمدانی کے سفر کو سراہتے ہوئے ان کے علمی اور سیاسی مقام اور پس منظر کو بیان کیا اور کہا: وہ تقلید کے عظیم مراجع میں سے ہیں جنہوں نے اپنی بابرکت زندگی کے دوران متعدد کتابیں لکھ کر اور بہت سے شاگردوں کی تربیت کرکے عالم اسلام کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس مرجع تقلید نے جمعہ کا دن جمہوریہ آذربائیجان کے دارالحکومت میں گزارا۔ انہوں نے آذربائیجان میں مقیم ایرانیوں کے حسینیہ اہل بیت میں منعقدہ ہزاروں آذری مسلمانوں کے پرجوش اجتماع میں ائمہ اطہار (ع) سے جمہوریہ آذربائیجان کے لوگوں کی محبت اور عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس اسلامی ملک میں محرم اور صفر کے مہینوں میں عزاداری کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ نوری ہمدانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ حضرت سید الشہداء (ع) کا مکتب، مکتب "ھَیْھَاتَ مِنَّا الذِّلَّة" ہے، کہا: جو کوئی ذلت سے نجات پانا چاہتا ہے اسے اس مکتب سے وابستہ ہونا چاہیے، جیسا کہ ایران میں ملک پر مستکبر اور غیر ملکی حکومتوں کے کئی صدیوں کے تسلط کے بعد امام خمینی (رہ) نے اسلام اور عاشورا کے مکتب کو زندہ کرکے قوم کو مستکبروں کے جوئے سے نجات دلائی۔ اس مرجع تقلید نے مزید کہا: ایران کا اسلامی انقلاب ولایت کی برکت سے حاصل ہوا اور اس کے آرمان آج پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں، ایران کے اسلامی انقلاب نے ملک میں مستکبروں کے تسلط کو ختم کردیا اور دنیا کے تمام مظلوموں اور محروموں کو بیدار کردیا۔ آذربائیجان میں ہمارے ملک کے سفیر اس خطاب اور اس کے حواشی کے بارے میں کہتے ہیں: خطاب کے دوران بہت سے حاضرین موبائل فون کیمروں سے تصاویر ریکارڈ کر رہے تھے اور عام طور پر آیت اللہ نوری ہمدانی کے خطابات کے ان حصوں میں جو آذریوں کی اہل بیت سے محبت اور عقیدت سے متعلق تھے، وہ بار بار صلوات کے ساتھ ان کے خطابات کی تائید کر رہے تھے۔ پاک آئین کا کہنا ہے: خطاب کے اختتام کے بعد بھی اکثر حاضرین آیت اللہ نوری ہمدانی سے قریب سے ملاقات کے لیے قطار میں کھڑے ہوئے اور ان سے مصافحہ کیا۔ ہفتہ، سفر کا آخری دن تھا جو جمہوریہ آذربائیجان میں مقیم ایرانیوں سے ملاقات، پارلیمنٹ کے چند نمائندوں سے ملاقات اور مذہبی کارکنوں اور حوزوی اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء کے اجتماع میں خطاب کے لیے وقف تھا۔ مذہبی کارکنوں اور یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ ملاقات میں جمہوریہ آذربائیجان کی اسلامی پارٹی کے سیاسی کارکنوں نے اس ملک میں حجاب سے متعلق قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح باکو میں مقیم ایرانیوں کے ساتھ ملاقات کے موقع پر آذربائیجان کے ایک جوڑے نے اس مرجع تقلید کے ذریعے خطبہ عقد پڑھنے سے اپنی مشترکہ زندگی کا آغاز کیا۔ بلاشبہ اس مرجع تقلید کی جمہوریہ آذربائیجان میں موجودگی اور اس ملک کے مختلف شہروں کے لوگوں کے اجتماعات میں دورہ اور خطاب ایک لازوال اور بہت قابل قدر اقدام ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ دونوں ممالک کے علماء اور روحانیوں کے درمیان رابطے اور آمد و رفت کے باوجود یہ پہلی بار تھا کہ تقلید کے منصب پر فائز ایک ممتاز عالم دین نے آذربائیجان کا سفر کیا تھا۔ یہ اقدام ایک طرف آیت اللہ کی عالمی، علاقائی اور خاص طور پر شیعوں کے حالات سے متعلق بہتر، زیادہ درست اور تازہ ترین آگاہی کا باعث بنتا ہے، جو یقیناً ایک ممتاز مذہبی شخصیت کے نقطہ نظر اور نقطہ نظر میں، بالخصوص تقلید کے منصب پر فائز ہونے کی صورت میں بہت ضروری ہے اور دوسری طرف ان ممالک کے شیعوں کے لیے جن کی اکثریت مہجور ہے اور انہوں نے اپنی زندگی میں ممکن ہے کبھی بھی کسی ممتاز عالم دین کو نہ دیکھا ہو، اس کے بہت سے فوائد ہیں جن کے ثمرات ممکن ہے کئی سالوں تک باقی رہیں۔
قرہ باغ کے موضوع پر اظہار خیال
آیت اللہ نوری ہمدانی نے آذربائیجان کے کچھ متدین افراد کے سوال کے جواب میں قرہ باغ کے بحران کے بارے میں اپنی رائے کا اعلان کیا۔ انہوں نے آذربائیجان کے کچھ متدین افراد کے سوال کے جواب میں درج ذیل متن لکھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم سلام علیکم مجھے آذربائیجان کے خطے سے جو واقفیت ہے اور سفر کے دوران وہاں کے کچھ لوگوں سے ملاقات کی توفیق حاصل ہوئی اور میں نے اسی سفر میں عرض کیا تھا کہ قرہ باغ عالم اسلام کا حصہ ہے اور اسے اسلامی ملک میں واپس آنا چاہیے اور اس سرحدی علاقے کے شیعوں کے انقلابی جذبے کے ساتھ اسے آزاد ہونا چاہیے اور دشمنوں کو بھی جان لینا چاہیے کہ وہ ایران اور آذربائیجان کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی فکر نہ کریں اور ہم اس علاقے کے شیعوں کے ساتھ ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ ان کے مطالبات پورے ہونے چاہییں۔[1]
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ آیت الله العظمی نوری همدانی کی سوانح حیاتnoorihamedani.ir درج شده تاریخ: 19/اپریل/2018ء اخذ شده تاریخ: 25/جولائی/2025ء