"شام پر اسرائیل کا حملہ 2025ء" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) «حمله اسرائیل به سوریه 2025.jpg '''شام پر اسرائیل کا حملہ 2025ء''' بروز بدھ 20 محرم 1447 ہجری بمطابق 16 جولائی 2025 کو مذہبی اقلیت " دروز " کی حمایت کے بہانے شروع ہوا ۔ ان حملوں میں وزارت دفاع، آرمی ہیڈ کوارٹر، صدارتی محل، آرمی کمانڈ بلڈنگ اور شامی امو...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
| سطر 54: | سطر 54: | ||
شام پر حملہ کر کے اسرائیل ایران سمیت خطے کے ممالک کو پیغام دینا چاہتا ہے۔ ایک طرف یہ ان عرب ممالک کے لیے جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، خاص طور پر [[لبنان]] کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ یہ اقدام مزید تیزی سے کریں اور دوسری طرف خطے کے ممالک کے لیے یہ ایک طرح کی طاقت کا مظاہرہ ہے کہ انہیں تل ابیب کے مفادات اور فلسطینیوں کی حمایت کے خلاف کسی بھی اقدام کے خلاف خبردار کیا جائے<ref>[https://www.asriran.com/fa/news/1077736/%C2%A0%DA%86%D8%B1%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%DB%8C%DB%8C%D9%84-%D8%A8%D9%87-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%87-%D8%AD%D9%85%D9%84%D9%87-%DA%A9%D8%B1%D8%AF چرا اسراییل به سوریه حمله کرد؟](اسرائیل نے شام پر حملہ کیوں کیا؟)- شائع شدہ بہ تاریخ: 18 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء</ref>۔ | شام پر حملہ کر کے اسرائیل ایران سمیت خطے کے ممالک کو پیغام دینا چاہتا ہے۔ ایک طرف یہ ان عرب ممالک کے لیے جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، خاص طور پر [[لبنان]] کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ یہ اقدام مزید تیزی سے کریں اور دوسری طرف خطے کے ممالک کے لیے یہ ایک طرح کی طاقت کا مظاہرہ ہے کہ انہیں تل ابیب کے مفادات اور فلسطینیوں کی حمایت کے خلاف کسی بھی اقدام کے خلاف خبردار کیا جائے<ref>[https://www.asriran.com/fa/news/1077736/%C2%A0%DA%86%D8%B1%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%DB%8C%DB%8C%D9%84-%D8%A8%D9%87-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%87-%D8%AD%D9%85%D9%84%D9%87-%DA%A9%D8%B1%D8%AF چرا اسراییل به سوریه حمله کرد؟](اسرائیل نے شام پر حملہ کیوں کیا؟)- شائع شدہ بہ تاریخ: 18 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء</ref>۔ | ||
== رد عمل == | == رد عمل == | ||
=== اقوام متحدہ === | |||
شام پر صہیونی حکومت کی جارحیت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب | |||
شام پر اسرائیلی حملوں کے بعد الجزائر کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ | |||
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے الجزائر کی درخواست پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کے سلسلے میں شام کی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ | |||
یہ اجلاس جمعرات کی سہ پہر 3 بجے منعقد ہوگا، جس کا اعلان اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے عاصم افتخار احمد نے کیا۔ اس وقت پاکستان سلامتی کونسل کی عارضی صدارت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ | |||
واضح رہے کہ غاصب صہیونی حکومت نے شام کے مختلف علاقوں پر وسیع حملے کیے، جن میں دمشق، السویدا اور لاذقیہ کے صوبے شامل ہیں۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے مجموعی طور پر 160 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔ | |||
شامی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ ان حملوں میں دمشق میں تین افراد شہید اور 28 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ | |||
سلامتی کونسل کے اس ہنگامی اجلاس میں ممکنہ طور پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور شام کی خودمختاری کی حمایت سے متعلق قرارداد پر بحث کی جائے گی<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1934316/%D8%B4%D8%A7%D9%85-%D9%BE%D8%B1-%D8%B5%DB%81%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AD%DB%8C%D8%AA-%D8%A7%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%85-%D9%85%D8%AA%D8%AD%D8%AF%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%D9%84-%DA%A9%D8%A7 شام پر صہیونی حکومت کی جارحیت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب]-شائع شدہ از:17 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء</ref>۔ | |||
=== ایران === | |||
شام پر صہیونی جارحیت، یورپی یونین کی خاموشی شرمناک ہے۔ | |||
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شام پر صہیونی حکومت کی جارحیت کے باوجود یورپی یونین کی خاموشی شرمناک ہے۔ | |||
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسرائیل کی جانب سے شام پر کی گئی جارحیت سے متعلق یورپی یونین کے جانبدارانہ اور منافقانہ مؤقف پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ | |||
تفصیلات کے مطابق، اسماعیل بقائی نے یورپی یونین کی خارجہ سروس کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین نے اسرائیل کی واضح اور ننگی جارحیت کو صرف تناؤ میں اضافہ کہہ کر حقیقت کو مسخ کیا ہے اور اس طرح اخلاقی اصولوں کی محض ظاہری پاسداری بھی ترک کر دی ہے۔ | |||
ترجمان نے زور دے کر کہا کہ ایران نے ہمیشہ جارحیت اور قانون شکنی کے خلاف ڈٹ کر مزاحمت کی ہے۔ ہم یورپی یونین کی دوغلی پالیسیوں اور جانبدارانہ رویے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ | |||
انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ کی طرح شامی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی قومی خودمختاری اور ارضی سالمیت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1934355/%D8%B4%D8%A7%D9%85-%D9%BE%D8%B1-%D8%B5%DB%81%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%B1%D8%AD%DB%8C%D8%AA-%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%BE%DB%8C-%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D8%A7%D9%85%D9%88%D8%B4%DB%8C-%D8%B4%D8%B1%D9%85%D9%86%D8%A7%DA%A9-%DB%81%DB%92-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86 شام پر صہیونی جارحیت، یورپی یونین کی خاموشی شرمناک ہے، ایران]- شائع شدہ از: 18 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء</ref>۔ | |||
=== ترکی === | |||
اسرائیل کو نہ روکا گیا تو پورے خطے اور دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل دے گا، ترک صدر | |||
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے، جو کسی قانون یا ضابطے کو نہیں مانتی اور اگر اس کے مظالم کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ نہ صرف پورے خطے بلکہ دنیا کو بھی جنگ میں دھکیل دے گی۔ | |||
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے، جو کسی قانون یا ضابطے کو نہیں مانتی اور اگر اس کے مظالم کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ نہ صرف پورے خطے بلکہ دنیا کو بھی جنگ میں دھکیل دے گی۔ | |||
ترک صدر نے ان خیالات کا اظہار کابینہ اجلاس کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ | |||
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ظالم اور بے اصول ریاست ہے جو کھلم کھلا دہشت گردی کر رہا ہے۔ اس کا رویہ نہایت ہی گستاخانہ اور جارحانہ ہے۔ | |||
اردوان نے کہا کہ اسرائیل علاقے کو خون، افراتفری اور بدامنی میں جھونکنے کی مکمل کوشش کر رہا ہے۔ اس نے لبنان، یمن اور [[ایران]] پر حملے کیے، عام شہریوں کو قتل کیا اور غیر فوجی علاقوں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔ | |||
ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے دروزی کمیونٹی کو بہانہ بنا کر شام میں بھی اپنی بربریت کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ | |||
ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت اس وقت خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور اگر اسے فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ دنیا بھر میں جنگ اور تباہی کی آگ لگا سکتا ہے۔ | |||
انہوں نے واضح کیا کہ ترکی شام کی علاقائی سالمیت، وحدت اور کثیرالسانی و کثیرالمذہبی شناخت کا مکمل حامی ہے۔ ہم کل بھی شام کی تقسیم کے خلاف تھے، آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ جو لوگ شام کے شمال اور جنوب میں علیحدہ راہداری بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، ان کے خواب چکناچور ہوں گے۔ | |||
رجب طیب اردوان نے کہا کہ جو اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں، وہ جلد ہی سمجھ جائیں گے کہ وہ ایک بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی خواہش ہے کہ شام کے تمام شہری، چاہے وہ عرب ہوں، ترکمان، کرد، مسیحی، [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]]، علوی یا دروزی، سب امن کے ساتھ رہیں۔ | |||
آخر میں اردوان نے الجولانی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ وہ شام کے مسائل پر قابو پا لیں گے<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1934337/%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%D9%88-%D9%86%DB%81-%D8%B1%D9%88%DA%A9%D8%A7-%DA%AF%DB%8C%D8%A7-%D8%AA%D9%88-%D9%BE%D9%88%D8%B1%DB%92-%D8%AE%D8%B7%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AF%D9%86%DB%8C%D8%A7-%DA%A9%D9%88-%D8%AC%D9%86%DA%AF-%DA%A9%DB%8C-%D8%A2%DA%AF-%D9%85%DB%8C%DA%BA اسرائیل کو نہ روکا گیا تو پورے خطے اور دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل دے گا، ترک صدر]-شائع شدہ از: 18 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء</ref>۔ | |||
== متعلقہ تلاشیں == | == متعلقہ تلاشیں == | ||
شام | شام | ||
نسخہ بمطابق 00:17، 20 جولائی 2025ء
حمله اسرائیل به سوریه 2025.jpg شام پر اسرائیل کا حملہ 2025ء بروز بدھ 20 محرم 1447 ہجری بمطابق 16 جولائی 2025 کو مذہبی اقلیت " دروز " کی حمایت کے بہانے شروع ہوا ۔ ان حملوں میں وزارت دفاع، آرمی ہیڈ کوارٹر، صدارتی محل، آرمی کمانڈ بلڈنگ اور شامی اموی اسکوائر کو نشانہ بنایا گیا اور اسی دوران اسرائیلی زمینی افواج شام میں داخل ہوئیں اور ملک کے دارالحکومت سے 10 کلومیٹر کے اندر تھیں۔ ان حملوں میں دمشق میں فوجی اور شہری مراکز کو بھاری نقصان پہنچانے کے علاوہ ، 3 افراد ہلاک اور 34 زخمی ہوئے، اور عبوری حکومت کی تین اہم شخصیات بشمول وزیر دفاع معارف ابوقصرہ کو قتل کیا گیا۔ اپنی افواج کو اسرائیلی افواج پر حملہ نہ کرنے کا حکم دینے کے بعد، احمد الشرع مبینہ طور پر مستقبل میں اسرائیلی حکومت کے نئے منظرناموں کو نافذ کرنے کے لیے شام- ترکی سرحد کی طرف بھاگ گیا۔
شام پر اسرائیل کا حملہ 2025 واقعہ کا نامشام پر اسرائیل کا حملہ 2025واقعہ کی تاریخ25 ذی الحجہ 1404 ہجری بمطابق 20 محرم 1447 ہجری بمطابق 16 جولائی 2025 عیسویتقریب کا دنبدھواقعہ کا مقامشامعواملصیہونی حکومتاہمیت کی وجہشام میں بعض فوجی اور سویلین ٹھکانوں پر صیہونی حکومت کی صیہونی جارحیت بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔نتائج
عالمی برادری کی طرف سے اسرائیلی جرائم کی مذمت
زمان اور مکان
شام پر اسرائیل کا حملہ 2025ء بروز بدھ 25 تہر 1404 ہجری بمطابق 16 جولائی 2025ء کو دروز مذہبی اقلیت کی حمایت کے بہانے شروع ہوا ، جس نے پہلے شام میں وزارت دفاع، آرمی ہیڈ کوارٹر اور صدارتی محل کو نشانہ بنایا ، اور پھر اس حملے کی سب سے زیادہ توجہ فوجی کمانڈنگ کی عمارت اور اموی اور دمشق اسکوائر پر مرکوز کی گئی ۔ اور اس بمباری کے لاکھوں براہ راست ناظرین تھے۔ خاص طور پر جب حملے کی آواز نے صحافیوں اور مقررین کی خبریں کاٹ دیں اور انہیں خوفزدہ کرکے جائے وقوعہ سے دور کردیا۔
فضائی حملوں کے ساتھ ہی، اسرائیلی زمینی افواج شام میں داخل ہوئیں اور ملک کے دارالحکومت سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھیں، اور 15 فوجی اور بکتر بند گاڑیوں پر مشتمل اسرائیلی زمینی افواج کا ایک گروپ مقبوضہ گولان سے نکل کر دمشق کے جنوبی مضافات میں داخل ہوا ۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی افواج اب دمشق کے جنوبی نواحی علاقے "قطنا" میں داخل ہو چکی ہیں اور یہ دارالحکومت سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
جانی و مالی نقصانات
وزارت دفاع کی عمارت، صدارتی محل، اموی اسکوائر اور جولانی حکومت کی وزارت صحت کی عمارت کو وسیع نقصان پہنچانے کے علاوہ، اسرائیلی فضائی حملوں میں 3 افراد ہلاک اور 34 زخمی ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق اس کارروائی میں عبوری حکومت کی تین اہم شخصیات جن میں وزیر دفاع معارف ابو قصرہ بھی شامل ہیں، کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی وقت، ایک فوجی یونٹ اچانک دمشق میں سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی عمارت میں داخل ہوا اور مرکز کی کارروائیوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا[1]۔
اہداف
شام میں اسلام پسند حکمرانوں کے بارے میں سخت تشویش
اسرائیل شام کے نئے حکمرانوں ( احمد الشرع ) کے بارے میں پچھلے حکمرانوں ( بشار الاسد کی بعثی حکومت) سے کہیں زیادہ فکر مند ہے اور انہیں اپنے لیے ایک بڑا ممکنہ خطرہ سمجھتا ہے۔ شام کے نئے حکمران انتہا پسند اور غیر انتہا پسند اسلام پسند گروپوں پر مشتمل ہیں، جبکہ پچھلی حکومت سیکولر تھی۔ اسرائیلیوں کو شام کے موجودہ حکمرانوں کے روابط اور القاعدہ اور اس جیسے گروہوں کے ساتھ روابط کے ساتھ ساتھ شام میں مختلف ممالک سے اسلامی شدت پسند جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کے جمع ہونے پر تشویش ہے ۔
گولان کی پہاڑیوں اور فلسطین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے کی کوششیں شام پر حکومت کرنے والے اسلام پسند گروپوں میں شامل ہیں۔ پچھلے حکمرانوں (بعثی حکومت) کی فوجی اور متوقع جڑیں تھیں، لیکن نئے حکمرانوں کی جڑیں باغی گروپوں میں ہیں۔ اسرائیل نے شام کی سابقہ حکومت کے ساتھ تعلقات اور حملوں کے حوالے سے عمومی اور جزوی معاہدے کیے تھے اور سرخ لکیریں کھینچ دی تھیں۔ اسد کے زوال کے ساتھ ہی یہ تمام معاہدے ترک کر دیے گئے۔
ڈروز بفر زون بنانا

اسرائیل کا منصوبہ جنوبی شام (اسرائیلی سرحد سے متصل علاقے) میں ایک غیر فوجی بفر زون یا زیادہ سے زیادہ ریاست یا خود مختار علاقہ (کینٹن) بنانے کا ہے۔ اس سے دمشق اور اسرائیل کے درمیان زمینی رابطہ ختم ہو جائے گا اور اسرائیل کے خلاف شام سے زمینی خطرہ کم ہو جائے گا ۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران، ایران کے قریب اسرائیل مخالف گروہوں اور اسرائیل کے ساتھ شام کی سرحد کے قریب تعینات متعدد ایرانی افواج نے اسرائیل کے خلاف چھٹپٹ حملے شروع کر دیے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل ان علاقوں سے مزید حملوں کے امکانات کو صفر تک کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ایک وجہ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیلی فوجی گولان اور شام کے سرحدی علاقوں میں داخل ہوئے۔
شامی حکومت اور فوج کا زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا
رقبے اور آبادی دونوں لحاظ سے شام مصر کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا پڑوسی ہے۔ فرق یہ ہے کہ مصری حکومت اسرائیل کو تسلیم کرتی ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق ہیں لیکن شام نہ تو جنگ کی حالت میں ہے اور نہ ہی امن کی حالت میں۔ قاہرہ اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے ساتھ، اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے مصر کو واپس کر دیے گئے اور فی الحال مصری سرزمین کا کوئی حصہ اسرائیل کے قبضے میں نہیں ہے۔
لیکن شام میں گولان کی پہاڑیوں اور دیگر علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے عوام اسرائیل مخالف رہے۔ اسرائیل شام کو دشمن اور خطرہ سمجھتا ہے، چاہے اسد موجود ہو یا نہ ہو۔ نتیجتاً شام کو کمزور کرنے اور اسے کمزور رکھنے کے لیے ہر طرح کا اقدام اٹھاتا ہے۔
شامی گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختاری کی ضمانت
شام کی گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ شام اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ممکنہ معاہدے میں خطے کو واپس چاہتا ہے۔ تاہم اسرائیل نے اس خطے کو اپنے سرکاری علاقے میں شامل کر لیا ہے اور اسے اپنی سرکاری سرحدوں کا حصہ سمجھتا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ گولان پر اسرائیلی خودمختاری قابل مذاکرہ نہیں ہے۔ حافظ اور بشار الاسد حکومتوں نے بھی اسی وجہ سے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے انکار کر دیا، یعنی گولان کی واپسی سے اسرائیل کا انکار۔ اسرائیل دمشق پر حملوں کے خاتمے کو دمشق کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی شرط کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے نہ کہ گولان کی واپسی کو۔
اسرائیل شام مذاکرات میں ممکنہ اختلاف پر ردعمل
شام کی نئی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ اور بلا واسطہ رابطے اور مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ کچھ مواصلات متحدہ عرب امارات اور کچھ جمہوریہ آذربائیجان کے چینل کے ذریعے ثالثی کی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہوں اور اسرائیلی کوشش کر رہے ہیں کہ شامی فریق کو فوجی طریقے سے رعایت دینے پر مجبور کیا جائے۔
شام میں اقتدار حاصل کرنے کے عمل میں خلل ڈالنا
بشار الاسد کے خاتمے کے بعد شام نے تعمیر نو، اقتصادی خوشحالی، پابندیوں کے خاتمے، علاقائی اور عالمی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے درست اور آگے بڑھنے کے راستے پر گامزن کیا اور اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ جن میں سب سے اہم شام کو امریکی اور یورپی پابندیوں سے ہٹانا اور عرب اور مغربی ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ اسرائیل شام کو اس راستے پر روکنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ دشمن کو کمزور کیا جا سکے۔
نئے پوائنٹس حاصل کرنا
اسرائیل دروز اقلیت کی حمایت کر کے شام میں ایک نیا پلے کارڈ اور فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے وہ اس دشمن کے ساتھ فوجی یا سفارتی تصادم میں استعمال کر سکتا ہے۔
شام کے لیے امریکی حمایت میں خلل
امریکا نے اسرائیل کی رضامندی کے بغیر دمشق پر سے پابندیاں اٹھا لی تھیں جب کہ اسرائیل تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پابندیاں ہٹانے کی شرط لگانا چاہتا تھا۔ اسرائیل شام کی سیاسی اور اقتصادی ترقی کے راستے کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، چاہے اس میدان میں امریکہ ہی کیوں نہ ہو۔
ایران اور خطے کے ممالک کے لیے پیغام
شام پر حملہ کر کے اسرائیل ایران سمیت خطے کے ممالک کو پیغام دینا چاہتا ہے۔ ایک طرف یہ ان عرب ممالک کے لیے جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، خاص طور پر لبنان کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ یہ اقدام مزید تیزی سے کریں اور دوسری طرف خطے کے ممالک کے لیے یہ ایک طرح کی طاقت کا مظاہرہ ہے کہ انہیں تل ابیب کے مفادات اور فلسطینیوں کی حمایت کے خلاف کسی بھی اقدام کے خلاف خبردار کیا جائے[2]۔
رد عمل
اسرائیلی حکومت کی داخلی سلامتی کے وزیر
بنگویر، با انتشار سخنانی تند در واکنش به تحولات اخیر سوریه، خواستار «نابودی کامل» احمد الشرع ملقب به جولانی سرکرده هیئت تحریر الشام (رئیس دولت موقت سوریه) شد. وزیر تندروی امنیت داخلی رژیم صهیونیستی با اشاره به تصاویر منتشر شده از درگیریهای استان السویداء واقع در جنوب سوریه گفت: «تصاویر وحشتناک از سوریه فقط یک حقیقت را ثابت میکند؛ کسی که تکفیری بوده، تکفیری باقی میماند». ت کو معمول پر لانے کی شرط کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے نہ کہ گولان کی واپسی کو۔
اسرائیل شام مذاکرات میں ممکنہ اختلاف پر ردعمل
شام کی نئی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ اور بلا واسطہ رابطے اور مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ کچھ مواصلات متحدہ عرب امارات اور کچھ جمہوریہ آذربائیجان کے چینل کے ذریعے ثالثی کی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہوں اور اسرائیلی کوشش کر رہے ہیں کہ شامی فریق کو فوجی طریقے سے رعایت دینے پر مجبور کیا جائے۔
شام میں اقتدار حاصل کرنے کے عمل میں خلل ڈالنا
بشار الاسد کے خاتمے کے بعد شام نے تعمیر نو، اقتصادی خوشحالی، پابندیوں کے خاتمے، علاقائی اور عالمی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے درست اور آگے بڑھنے کے راستے پر گامزن کیا اور اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ جن میں سب سے اہم شام کو امریکی اور یورپی پابندیوں سے ہٹانا اور عرب اور مغربی ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ اسرائیل شام کو اس راستے پر روکنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ دشمن کو کمزور کیا جا سکے۔
نئے پوائنٹس حاصل کرنا
اسرائیل دروز اقلیت کی حمایت کر کے شام میں ایک نیا پلے کارڈ اور فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے وہ اس دشمن کے ساتھ فوجی یا سفارتی تصادم میں استعمال کر سکتا ہے۔
شام کے لیے امریکی حمایت میں خلل
امریکا نے اسرائیل کی رضامندی کے بغیر دمشق پر سے پابندیاں اٹھا لی تھیں جب کہ اسرائیل تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پابندیاں ہٹانے کی شرط لگانا چاہتا تھا۔ اسرائیل شام کی سیاسی اور اقتصادی ترقی کے راستے کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، چاہے اس میدان میں امریکہ ہی کیوں نہ ہو۔
ایران اور خطے کے ممالک کے لیے پیغام
شام پر حملہ کر کے اسرائیل ایران سمیت خطے کے ممالک کو پیغام دینا چاہتا ہے۔ ایک طرف یہ ان عرب ممالک کے لیے جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، خاص طور پر لبنان کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ یہ اقدام مزید تیزی سے کریں اور دوسری طرف خطے کے ممالک کے لیے یہ ایک طرح کی طاقت کا مظاہرہ ہے کہ انہیں تل ابیب کے مفادات اور فلسطینیوں کی حمایت کے خلاف کسی بھی اقدام کے خلاف خبردار کیا جائے[3]۔
رد عمل
اقوام متحدہ
شام پر صہیونی حکومت کی جارحیت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب شام پر اسرائیلی حملوں کے بعد الجزائر کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے الجزائر کی درخواست پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کے سلسلے میں شام کی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
یہ اجلاس جمعرات کی سہ پہر 3 بجے منعقد ہوگا، جس کا اعلان اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے عاصم افتخار احمد نے کیا۔ اس وقت پاکستان سلامتی کونسل کی عارضی صدارت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ غاصب صہیونی حکومت نے شام کے مختلف علاقوں پر وسیع حملے کیے، جن میں دمشق، السویدا اور لاذقیہ کے صوبے شامل ہیں۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے مجموعی طور پر 160 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔ شامی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ ان حملوں میں دمشق میں تین افراد شہید اور 28 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ سلامتی کونسل کے اس ہنگامی اجلاس میں ممکنہ طور پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور شام کی خودمختاری کی حمایت سے متعلق قرارداد پر بحث کی جائے گی[4]۔
ایران
شام پر صہیونی جارحیت، یورپی یونین کی خاموشی شرمناک ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شام پر صہیونی حکومت کی جارحیت کے باوجود یورپی یونین کی خاموشی شرمناک ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسرائیل کی جانب سے شام پر کی گئی جارحیت سے متعلق یورپی یونین کے جانبدارانہ اور منافقانہ مؤقف پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اسماعیل بقائی نے یورپی یونین کی خارجہ سروس کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین نے اسرائیل کی واضح اور ننگی جارحیت کو صرف تناؤ میں اضافہ کہہ کر حقیقت کو مسخ کیا ہے اور اس طرح اخلاقی اصولوں کی محض ظاہری پاسداری بھی ترک کر دی ہے۔
ترجمان نے زور دے کر کہا کہ ایران نے ہمیشہ جارحیت اور قانون شکنی کے خلاف ڈٹ کر مزاحمت کی ہے۔ ہم یورپی یونین کی دوغلی پالیسیوں اور جانبدارانہ رویے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ کی طرح شامی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی قومی خودمختاری اور ارضی سالمیت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں[5]۔
ترکی
اسرائیل کو نہ روکا گیا تو پورے خطے اور دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل دے گا، ترک صدر
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے، جو کسی قانون یا ضابطے کو نہیں مانتی اور اگر اس کے مظالم کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ نہ صرف پورے خطے بلکہ دنیا کو بھی جنگ میں دھکیل دے گی۔
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے، جو کسی قانون یا ضابطے کو نہیں مانتی اور اگر اس کے مظالم کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ نہ صرف پورے خطے بلکہ دنیا کو بھی جنگ میں دھکیل دے گی۔
ترک صدر نے ان خیالات کا اظہار کابینہ اجلاس کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ظالم اور بے اصول ریاست ہے جو کھلم کھلا دہشت گردی کر رہا ہے۔ اس کا رویہ نہایت ہی گستاخانہ اور جارحانہ ہے۔ اردوان نے کہا کہ اسرائیل علاقے کو خون، افراتفری اور بدامنی میں جھونکنے کی مکمل کوشش کر رہا ہے۔ اس نے لبنان، یمن اور ایران پر حملے کیے، عام شہریوں کو قتل کیا اور غیر فوجی علاقوں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے دروزی کمیونٹی کو بہانہ بنا کر شام میں بھی اپنی بربریت کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت اس وقت خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور اگر اسے فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ دنیا بھر میں جنگ اور تباہی کی آگ لگا سکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ترکی شام کی علاقائی سالمیت، وحدت اور کثیرالسانی و کثیرالمذہبی شناخت کا مکمل حامی ہے۔ ہم کل بھی شام کی تقسیم کے خلاف تھے، آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ جو لوگ شام کے شمال اور جنوب میں علیحدہ راہداری بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، ان کے خواب چکناچور ہوں گے۔
رجب طیب اردوان نے کہا کہ جو اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں، وہ جلد ہی سمجھ جائیں گے کہ وہ ایک بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی خواہش ہے کہ شام کے تمام شہری، چاہے وہ عرب ہوں، ترکمان، کرد، مسیحی، سنی، علوی یا دروزی، سب امن کے ساتھ رہیں۔ آخر میں اردوان نے الجولانی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ وہ شام کے مسائل پر قابو پا لیں گے[6]۔
متعلقہ تلاشیں
شام
دمشق
دہشت گردی
ابو محمد جولانی
صیہونی حکومت
- ↑ «جولانی» دمشق را ترک کرد؛ وزیر دفاع سوریه ترور شد(جولانی دمشق سے بھاگ گیا اور شام کے وزیر دفاع مارا گیا)- شائع شدہ از:27 تیر 1404ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
- ↑ چرا اسراییل به سوریه حمله کرد؟(اسرائیل نے شام پر حملہ کیوں کیا؟)- شائع شدہ بہ تاریخ: 18 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
- ↑ چرا اسراییل به سوریه حمله کرد؟(اسرائیل نے شام پر حملہ کیوں کیا؟)- شائع شدہ بہ تاریخ: 18 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
- ↑ شام پر صہیونی حکومت کی جارحیت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب-شائع شدہ از:17 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
- ↑ شام پر صہیونی جارحیت، یورپی یونین کی خاموشی شرمناک ہے، ایران- شائع شدہ از: 18 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء
- ↑ اسرائیل کو نہ روکا گیا تو پورے خطے اور دنیا کو جنگ کی آگ میں دھکیل دے گا، ترک صدر-شائع شدہ از: 18 جولائی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 19 جولائی 2025ء