مندرجات کا رخ کریں

"سید محمد حسین بروجردی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 104: سطر 104:
== دیگر اقدامات ==
== دیگر اقدامات ==
انہوں نے حوزہ علمیہ قم کے تحفظ اور ارتقا کے لیے حکومت سے مکمل بے نیازی اور عدم احتیاج اور وابستگی کا اظہار و اعلان کیا اور طلبہ کو پرسکون رہنے اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد وغیرہ کو اہمیت نہ دینے کی تلقین کرتے ہوئے اس سلسلے میں اہم اقدامات انجام دیے منجملہ:
انہوں نے حوزہ علمیہ قم کے تحفظ اور ارتقا کے لیے حکومت سے مکمل بے نیازی اور عدم احتیاج اور وابستگی کا اظہار و اعلان کیا اور طلبہ کو پرسکون رہنے اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد وغیرہ کو اہمیت نہ دینے کی تلقین کرتے ہوئے اس سلسلے میں اہم اقدامات انجام دیے منجملہ:
* انھوں نے علمی لحاظ سے فقہی مباحث کی تحقیق و تدریس میں اپنی نئی روشیں متعارف کرائیں جو قبل ازاں قم میں بروئے کار نہیں لائی گئی تھیں اور انھی روشوں سے باصلاحیت شاگردوں کی ایک نسل کو پروان چڑھایا جو ان کے بعد حوزہ کے اساتذہ اور مراجع تقلید قرار پائے،
* انھوں نے حدیث، فقہ اور رجال میں بنیادی شیعہ کتب کے احیاء اور طباعت و اشاعت کے لیے انتھک کوششیں کیں،
* طلبہ کو حصول علم جاری رکھنے کی ترغیب دلائی اور مختلف روشوں سے باصلاحیت طلبہ کی حوصلہ افزائی کی انھیں فقہ اور رجال کے مسائل و مباحث کے مبانی و مبادی اور ہر ایک کے ماخذ کے بیان کرنے کی صحیح روشوں سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں آگاہ کر دیا کہ کون سا مسئلہ کس وقت اور کیوں اسلامی حلقوں میں داخل ہوا ہے۔<ref>اشتهاردی، مصاحبه، ص186، 191</ref>۔


<ref>انھوں نے علمی لحاظ سے فقہی مباحث کی تحقیق و تدریس میں اپنی نئی روشیں متعارف کرائیں جو قبل ازاں قم میں بروئے کار نہیں لائی گئی تھیں اور انھی روشوں سے باصلاحیت شاگردوں کی ایک نسل کو پروان چڑھایا جو ان کے بعد حوزہ کے اساتذہ اور مراجع تقلید قرار پائے،
انھوں نے حدیث، فقہ اور رجال میں بنیادی شیعہ کتب کے احیاء اور طباعت و اشاعت کے لیے انتھک کوششیں کیں،
طلبہ کو حصول علم جاری رکھنے کی ترغیب دلائی اور مختلف روشوں سے باصلاحیت طلبہ کی حوصلہ افزائی کی انھیں فقہ اور رجال کے مسائل و مباحث کے مبانی و مبادی اور ہر ایک کے ماخذ کے بیان کرنے کی صحیح روشوں سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں آگاہ کر دیا کہ کون سا مسئلہ کس وقت اور کیوں اسلامی حلقوں میں داخل ہوا ہے۔<ref>اشتهاردی، مصاحبه، ص186، 191</ref>۔
== تبلیغی سرگرمیاں ==
== تبلیغی سرگرمیاں ==
=== مبلغین کو بیرون ملک بھیجنا آیت اللہ بروجردی کی لازوال خدمت تھی ===
=== مبلغین کو بیرون ملک بھیجنا آیت اللہ بروجردی کی لازوال خدمت تھی ===

نسخہ بمطابق 10:20، 25 مئی 2025ء

سید محمد حسین بروجردی
دوسرے نامآیت اللہ العظمی سید محمد حسین طباطبائی بروجردی
ذاتی معلومات
پیدائش1875 ء، 1253 ش، 1291 ق
یوم پیدائش3 فرودین
پیدائش کی جگہایران بروجرد
وفات کی جگہقم
اساتذہآخوند خراسانی
مذہباسلام، شیعہ
مناصبمجتہد اور شیعہ مرجع تقلید

سید محمد حسین بروجردی آیت اللہ العظمی سید حسین بروجردی یا سید حسین بن علی طباطبائی بروجردی، شیعہ مجتہد ،آیت اللہ اور مرجع تقلید تھے۔ 1292 ہجری 1875ء میں ایران کے شہر بروجرد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شجرہ نسب حسن مثنی، امام حسن بن علی بن ابی طالب سے ملتاہے۔ سید حسین طباطبائی 15 سال کی عمر میں دنیا کے تمام شیعوں کے اکیلے مرجع تقلید اور مجتہد تھے اور 17 سال کی عمر میں قم کے حوزہ علمیہ کے سربراہ بنے۔ ان کی وفات شوال 1380قمری ( 1960) میں قم میں ہوئی تھی۔

ولادت و خاندان

سید حسین احمدی طباطبائی 1254 ہجری شمسی میں بروجرد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرحوم آقا سید علی طباطبائی اور والدہ دونوں، سید محمد طباطبائی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو ایک علمی اور دینی خاندان تھا۔

آیت اللہ بروجردی، آمنہ بیگم مجلسی (جو ملا محمد تقی مجلسی کی بیٹی تھیں) کے بڑے پوتے تھے۔ انہوں نے ایک رسالے میں، جس میں اپنے خاندان کی علمی شیعہ سلسلے سے نسبت کو بیان کیا، آمنہ بیگم کے بارے میں لکھا: "یہ روایت میری جدہ، عالمہ، فاضلہ، زاہدہ، عابدہ آمنہ نے اپنے والد علامہ مولیٰ محمد تقی مجلسی سے نقل کی ہے۔

تعلیم اور اساتذہ

سید حسین طباطبائی نے سات سال کی عمر میں بروجرد میں دینی تعلیم کی ابتدا کی۔ پھر 1271 ہجری شمسی میں اپنے والد کے مشورے سے اصفہان گئے تاکہ وہاں کے حوزہ علمیہ میں اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔ انہوں نے جامع المقدمات، سیوطی، منطق اور گلستانِ سعدی مکتب میں پڑھی، اور نحو، صرف، بدیع، فقہ و اصول جیسے علوم مدرسہ نوربخش میں سیکھے [1]۔

انہوں نے اپنے چچازاد بھائی آقا نوح الدین کے ساتھ مدرسہ صدر میں رہائش اختیار کی۔ آقا نوح الدین نے ابتدا میں ہی ان سے کہا: اگر تم علم حاصل کرنے اور تدریس میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو علمی محفلوں میں سوالات کرو اور اساتذہ سے گفتگو کرو، ورنہ گمنامی میں زندگی گزرے گی [2]۔

ان کے دیگر اساتذہ میں سید محمد باقر درچئی، ملا محمد کاشی، میرزا ابوالمعالی کلباسی، سید محمد تقی مدرس، اور معروف حکیم میرزا جہانگیر قشقائی شامل تھے۔ آیت اللہ بروجردی کو ربیع الاول 1314 ہجری قمری میں ان کے والد نے بروجرد واپس بلایا، جہاں انہوں نے 22 سال کی عمر میں شادی کی۔3 کچھ مہینوں بعد وہ دوبارہ اصفہان چلے گئے [3]۔

1320 ہجری قمری (1280 شمسی) میں وہ اپنے چھوٹے بھائی سید اسماعیل کے ساتھ نجف اشرف روانہ ہوئے۔ اس وقت وہ 28 برس کے تھے اور ایک جوان مجتہد سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے آیت اللہ آخوند ملا محمد کاظم خراسانی کے درس میں شرکت کی اور ان کے خاص شاگرد بن گئے۔ شاگردوں نے ان سے درخواست کی کہ استاد کے درس کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔ یوں انہوں نے استاد کے دروس کی تقاریر شروع کی [4]۔

بعد میں انہیں اپنے استاد سے اجازہ اجتہاد ملا

نجف اشرف میں انہوں نے آخوند خراسانی کے علاوہ شیخ الشریعہ اصفہانی اور سید محمد کاظم یزدی جیسے بزرگ علماء سے بھی علم حاصل کیا۔ وہ خود بھی طلبہ کو اصول فقہ کے موضوع "فصول" کی تعلیم دیتے رہے۔ آخرکار 1328 ہجری قمری کے آخر میں والد کے اصرار پر بروجرد واپس آ گئے۔

تدریس اور شاگرد

آیت اللہ بروجردی کا ارادہ تھا کہ وطن میں مختصر قیام کے بعد نجف واپس جائیں، لیکن والد کی بیماری اور وفات نے ان کا ارادہ بدل دیا۔ آخوند خراسانی کے محبت بھرے تعزیتی پیغام نے انہیں تسلی دی اور نجف میں ان سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا تاکہ وہ یہاں کے تمام امور سے فارغ ہوکر نجف تشریف لے آئیں۔ لیکن جیسے ہی وہ نجف جانے کی تیاری کر رہے تھے، انہیں استاد کے رحلت کی خبر ملی، جس سے وہ شدید غمگین ہوئے۔ وہ کہا کرتے تھے: "چھ مہینے کے اندر دو باپ (والد و استاد ) کی وفات میرے لیے بہت بھاری تھی"

اسی لیے آیت اللہ بروجردی نے ہجرت کا خیال ترک کیا اور بروجرد میں تدریس اور رہنمائی کا سلسلہ شروع کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ ان کی علمی عظمت کو پہچاننے لگے۔ آیت اللہ شیخ محمد رضا دزفولی کی ان سے محبت اور عقیدت نے ان کی شہرت اور وقار میں اضافہ کیا۔ دزفولی کی وفات کے بعد ان کے بیشتر مقلدین نے آیت اللہ بروجردی کی تقلید اختیار کر لی، اور وہ علاقائی سطح پر مرجع تقلید بن گئے۔

شاگرد

آیت اللہ بروجردی نے اپنی علمی زندگی میں کئی عظیم شاگرد تیار کیے، جن میں سے بعض اعلیٰ درجے کے مراجع تقلید بنے۔ ان میں سے چند مشہور نام درج ذیل ہیں:

  • امام خمینی رہ
  • شہید مرتضی مطہری رہ
  • محمد فاضل لنکرانی رہ
  • سید علی سیستانی حفظہ اللہ
  • لطف اللہ صافی گلپایگانی رہ
  • ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ
  • جعفر سبحانی حفظہ اللہ
  • سید موسی شبیری زنجانی حفظہ اللہ [5]۔

آثار و تألیفات

آیت اللہ بروجردی تدریس اور روزمرہ کے کاموں کے ساتھ ساتھ تحقیق کا کام بھی انجام دیتے تھے اور اپنی تحقیقات کے نتائج کو قلمبند کرتے تھے۔ اس عالم ربانی کی چند علمی تصانیف درج ذیل ہیں: جامع احادیث الشیعہ: آیت اللہ بروجردی نے اپنی زندگی کے آغاز سے ہی یہ ارادہ کیا تھا کہ ایسی مجموعہ حدیث تیار کریں جو فقہاء کو احکام کے استنباط میں مدد دے اور انہیں متعدد روایتی کتب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ جب آپ قم تشریف لائے اور ماہر شاگردوں کی تربیت کی، تو ان کے تعاون سے آٹھ سال کی مدت میں بیس جلدوں پر مشتمل "جامع احادیث الشیعہ" کی تیاری مکمل کی اور اسے اشاعت کے لیے پیش کیا۔

  • تجرید اسانید الکافی
  • تجرید اسانید التہذیب
  • اسانید کتاب من لایحضره الفقیه
  • اسانید رجال کشی
  • اسانید الاستبصار
  • اسانید کتاب خصال شیخ صدوق
  • اسانید کتاب امالی
  • اسانید کتاب علل الشرائع شیخ صدوق
  • تجرید فہرست شیخ طوسی
  • تجرید رجال نجاشی
  • الحاشیۃ علی الکفایۃ (کفایۃ الاصول پر حاشیہ)
  • شیخ طوسی کی "النہایہ" پر حاشیہ
  • عروۃ الوثقی پر حاشیہ
  • فہرست شیخ منتجب الدین رازی پر
  • شیخ منتجب الدین رازی کی فہرست پر حواشی اور تکمیلات
  • کتاب مبسوط پر حواشی
  • صحیفہ سجادیہ کی سند کے بارے میں ایک رسالہ
  • رجال طوسی کی اصلاح اور تکمیلات
  • شیعہ گھرانے / شیعہ خاندان
  • تین تقریرات
  • نہایۃ التقرير فی مباحث الصلاۃ،

مرجعیت عامہ

194ء کے عشرے کے اوائل میں حوزہ علمیہ قم کے بعض عالی رتبہ اساتذہ ہے جو حوزہ کے مربوط اور ہمآہنگ اور مرتکز انتظام نہ ہونے کی وجہ سے فکرمند تھے اور دوسری طرف سے آیت اللہ حاج آقا حسین بروجردی کے علمی مراتب اور سماجی اور دینی اثر و رسوخ سے آگہی رکھتے تھے، ان سے درخواست کی کہ بروجرد سے قم آجائیں۔

اس سلسلے میں امام خمینی اور خرم آباد کے نامی گرامی عالم دین حاج آقا روح اللہ کمالوند نے زیادہ کوششیں مبذول کیں۔ آیت اللہ بروجردی نے اس درخواست کو منظور کیا اور محرم الحرام 1364 ہجری قمری / دسمبر 1944ء کو قم میں سکونت پزیر ہوئے [6]۔ قیام قم کے دوران بروجردی کی منزلت و مرجعیت کے استحکام میں بھی امام خمینی کا کردار ناقابل انکار تھا۔ آیت اللہ بروجردی کی قم آمد پر حوزہ علمیہ قم کی رونق بڑھی گئی اور اس کی علمی نشاط و بالیدگی دوچند ہوئی اور اس کی علمی اساس کو تقویت ملی۔

حوزہ علمیہ قم کی حفاظت اور تقویت

اپنی زعامت کے دور میں بروجردی کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حوزہ علمیہ قم کے تحفظ و ترقی کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ انھوں نے قم آکر ثمر آور تدریس کا آغاز کیا۔ ان کے درس میں حاضرین کی تعداد کا 500 سے 600 تک، تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ان کی قویّ اور مرتکز و مربوط زعامت و انتظام کی وجہ سے ان کے قیام قم کے آغاز پر (سنہ 1947 عیسوی میں) طلبہ کی تعداد 2000 تھی [7]۔

جو 1960ء کے عشرے میں 8700، تک پہنچی۔ سنہ 1947 عیسوی میں آیت اللہ برجردی سمیت پانچ اعلی اساتذہ "سید محمد حجت کوہ کمرہ ای، میرزا محمد فیض قمی، سید محمد تقی خوانساری اور صدر" درس خارج پڑھاتے تھے۔ جبکہ ان کی حیات کو اواخر میں درس خارج کے ان اساتذہ میں خاطرخواہ اضافہ ہوا تھا جن کے شاگردوں کی تعداد 50 سے 250 تک تھی؛ بالخصوص عبد الکریم حائری کے مشہور و نمایاں شاگردوں منجملہ شیخ محمدعلی اراکی، سید محمد رضا گلپایگانی، سید محمد داماد، امام خمینی، سید کاظم شریعتمداری اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے درس خارج کا اپنا اپنا حلقہ تھا [8]۔

بروجردی نے جو مرجع علی الاطلاق اور حوزہ علمیہ قم کے سربراہ تھے نے ـ ایران کی اعلی ترین علمی - دینی شخصیت کے عنوان سے ـ دین اور حوزہ علمیہ کے معاملات آگے بڑھانے کے لیے بعض افراد کو حکومت کے ساتھ رابط کے عنوان سے مقرر کیا تھا اور اپنے پیغامات، تنبیہات اور اعتراضات کو ان کے ذریعے، شاہ یا دوسرے سرکاری حکام تک پہنچا دیتے تھے [9]۔

سیاسی اور سماجی اقدامات

بروجردی کے دیگر سیاسی اور سماجی اقدامات میں درج ذیل اقدامات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے: انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ سرکاری اسکولوں کے نصاب میں دینی تعلیمات (دینیات) کو بحیثیت ایک درسی مضمون شام کیا جائے اور حکومت نے ان کی یہ تجویز منظور کرلی، انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ ریل گاڑیوں کو نماز کے وقت اسٹیشن میں روکا جائے تاکہ مسافرین نماز ادا کریں، سرکاری مراکز اور اداروں میں بہائیت کی ریشہ دوانیوں اور اثر و رسوخ کا مقابلہ، فلسطینی عوام کی حمایت اور اس سلسلے میں سنہ 1948 عیسوی اعلامیہ جاری کرنا (غاصب صہیونی ریاست کی تاسیس کا اعلان اسی سال ہوا تھا) [10]۔

بین الاقوامی اقدامات

  • بین الاقوامی سطح پر سید محمد تقی طالقانی آل احمد کو سنہ 1952ء میں اور ان کی وفات کے بعد سید احمد لواسانی اور ان کے بعد شیخ عبدالحسین فقیہی رشتی کو شیعیان مدینہ کی سرپرستی کے لیے روانہ کیا،
  • سید زین العابدین کاشانی کو کویت،
  • سید محمد حسن ناشرالاسلام شوشتری کو زنگبار،
  • شریعت زادہ اصفہانی کو پاکستان، مہدی حائری یزدی کو امریکا
  • اور صدر بلاغی کو یورپ میں اپنے سیّار (Ambulatory) نمائندے کی حیثیت سے مقرر کیا

[11]۔

آیت اللہ بروجردی کے دیگر بین الاقوامی اقدامات میں سے یہ تھا کہ انھوں نے مصر میں دارالتقریب کی تاسیس کے لیے شیخ محمد تقی قمی کی حمایت و تائید حاصل کی۔ محمد تقی قمی کی کوششوں کے نتیجے میں ہی جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ محمود شلتوت نے سنہ 1958 عیسوی میں مذہب جعفری کو اہل سنت کے چار مذاہب کے ساتھ تسلیم کیا [12]۔

دیگر اقدامات

انہوں نے حوزہ علمیہ قم کے تحفظ اور ارتقا کے لیے حکومت سے مکمل بے نیازی اور عدم احتیاج اور وابستگی کا اظہار و اعلان کیا اور طلبہ کو پرسکون رہنے اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد وغیرہ کو اہمیت نہ دینے کی تلقین کرتے ہوئے اس سلسلے میں اہم اقدامات انجام دیے منجملہ:

  • انھوں نے علمی لحاظ سے فقہی مباحث کی تحقیق و تدریس میں اپنی نئی روشیں متعارف کرائیں جو قبل ازاں قم میں بروئے کار نہیں لائی گئی تھیں اور انھی روشوں سے باصلاحیت شاگردوں کی ایک نسل کو پروان چڑھایا جو ان کے بعد حوزہ کے اساتذہ اور مراجع تقلید قرار پائے،
  • انھوں نے حدیث، فقہ اور رجال میں بنیادی شیعہ کتب کے احیاء اور طباعت و اشاعت کے لیے انتھک کوششیں کیں،
  • طلبہ کو حصول علم جاری رکھنے کی ترغیب دلائی اور مختلف روشوں سے باصلاحیت طلبہ کی حوصلہ افزائی کی انھیں فقہ اور رجال کے مسائل و مباحث کے مبانی و مبادی اور ہر ایک کے ماخذ کے بیان کرنے کی صحیح روشوں سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں آگاہ کر دیا کہ کون سا مسئلہ کس وقت اور کیوں اسلامی حلقوں میں داخل ہوا ہے۔[13]۔

تبلیغی سرگرمیاں

مبلغین کو بیرون ملک بھیجنا آیت اللہ بروجردی کی لازوال خدمت تھی

حجۃ الاسلام والمسلمین انصاریان نے کہا:حضرت آیت اللہ بروجردی رحمۃ اللہ علیہ نے حوزہ علمیہ میں لا تعداد طلباء کی تربیت کی جن میں سے کچھ عصر حاضر کے مرجع تقلید بنے، اور انہوں نے بعض شاگردوں میں دنیا کے کونے کونے میں بھیجا جو کہ تبلیغ دین کے میدان میں کارآمد ثابت ہوئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ بروجردی (رحمۃ اللہ علیہ) کی 65 ویں برسی حرم معصومہ قم میں واقو مسجد اعظم میں منعقد ہوئی جس میں علمائے کرام اور مراجع تقلید کے نمائندے، حوزہ علمیہ کے اساتذہ ، طلباء اور عوام نے شرکت کی۔

اس پروگرام میں حجۃ الاسلام والمسلمین حاج شیخ حسین انصاریان نے اس مرجع تقلید کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا:آیت اللہ العظمیٰ بروجردی اپنی زندگی کے آخری لمحات تک تعلیمات اہل بیت(ع) کی اشاعت اور اسلام اور شیعیت کی ترویج میں مصروف رہے۔

انہوں نے مزید کہا: مصری مصنفین کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ وہ مستند شیعہ ثقافت کو بچوں اور لوگوں کے لیے کہانیوں کی شکل میں لکھیں، اپنی وفات سے ایک دن پہلے آپ نے اپنی آنکھیں کھولیں تو آپ نے اپنے اردگرد جمع لوگوں سے پوچھا کہ کیا میں نے جس مبلغ کو مصر تبلیغ کے لئے جانے کو کہا تھا وہ مصر گیا یا نہیں؟ اگر وہ ابھی تک نہیں گیا ہے تو اسے بھیج دیں۔

حجۃ الاسلام انصاریان نے مزید کہا: آیت اللہ بروجردی اخلاقی اعتبار سے عروج پر تھے، اگر ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بخوبی ان کے اخلاق کو اچھی طرح درک کیا جا سکتا ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین انصاریان نے کہا:حضرت آیت اللہ بروجردی رحمۃ اللہ علیہ نے حوزہ علمیہ میں لا تعداد طلباء کی تربیت کی جن میں سے کچھ عصر حاضر کے مرجع تقلید بنے، اور انہوں نے بعض شاگردوں میں دنیا کے کونے کونے میں بھیجا جو کہ تبلیغ دین کے میدان میں کارآمد ثابت ہوئے[14]۔

سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں

جب عظیم مرجع آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی کا انتقال ہوا تو آیت اللہ بروجردی کی مرجعیت عام ہو گئی، اور مؤمنین ہر طرف سے اس آزاد منش فقیہ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ عوام کی اس رجحان میں الٰہی عنایات اور تائیدات کا بڑا دخل تھا۔ مثال کے طور پر آیت اللہ شیخ علی اکبر نهاوندی، جو خود شیعہ روحانیت کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے، نے اپنی امامت آیت اللہ بروجردی کے سپرد کی اور نجف چلے گئے۔ آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی جو بیماری میں مبتلا تھے، انہوں نے مرحوم نهاوندی کو نماز جماعت کی امامت کا حکم دیا۔ شیخ نهاوندی اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

"پہلی رات جب میں اُن کی جگہ نماز جماعت پڑھانے کے لیے گیا، اور جب میں جائے نماز پر بیٹھا تو ایک آواز سنی جو کہہ رہی تھی: 'عظّمتَ ولدی عظّمتُک'؛ تُو نے میرے بیٹے کی تعظیم کی، میں نے تجھے عظمت دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، ہر طرف دیکھا، لوگ صفوں میں بیٹھے تھے، لیکن اس غیبی پیغام کو میرے سوا کسی نے محسوس نہ کیا۔"

آیت اللہ بروجردی علمی کوششوں اور ماہر شاگردوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ، گذشتہ علماء کی علمی میراث کی حفاظت کو بھی بڑی اہمیت دیتے تھے۔ مختلف مواقع پر نایاب و قلمی علمی آثار کو شائع کراتے تھے۔ چھوٹی اور بڑی لائبریریاں قائم کرتے تھے تاکہ اہل علم کے لیے ان آثار تک رسائی ممکن ہو۔ قم کی مسجد اعظم کے ساتھ ان کی عظیم لائبریری، اس شیعہ مرجع کی اس خدا پسندانہ کام میں دلچسپی کی علامت ہے۔

آیت اللہ بروجردی کی خدمات، آیت اللہ ملکوتی کی بیانات کی روشنی میں

اپریل 2025ء کو مسجد اعظم قم میں آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی سالانہ برسی کی پُر وقار تقریب منعقد ہوئی، جس میں علمائے کرام، طلاب اور عوام الناس نے بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر معروف محقق و مصنف عبد الرحیم اباذری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم آیت اللہ حاج شیخ مسلم ملکوتی کی یادوں کو تازہ کیا، جو آیت اللہ بروجردی کے ممتاز شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔

انہوں نے اپنی گفتگو میں آیت اللہ ملکوتی کی کتاب خاطرات سے منتخب اقتباسات بھی پیش کیے۔ ان یاد داشتوں میں آیت اللہ ملکوتی بیان کرتے ہیں کہ قم کی حوزہ علمیہ اس وقت قیادت کے فقدان کا شکار تھی، کیونکہ چار مختلف مراجع کرام کی سربراہی میں تقسیم تھی۔ ایسے نازک وقت میں حضرت امام خمینی اور دیگر بزرگان حوزہ نے ایک فیصلہ کن اقدام کرتے ہوئے آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کو قم بلایا، تاکہ قیادت کو مرکزیت دی جا سکے۔

آیت اللہ بروجردی کی آمد پر قم کے تمام مراجع نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ آیت اللہ سید صدر الدین صدر نے صحن مطہر حضرت معصومہؑ میں اپنی نماز اور درس کی جگہ انہیں پیش کر دی، جو حوزوی عرف میں ان کے علمی و فقهی مقام کی بڑی علامت تھی۔

آیت اللہ ملکوتی لکھتے ہیں کہ جب وہ آیت اللہ بروجردی کے درس رجال میں شریک ہوئے تو پہلا موضوع "حسن بن محبوب" تھا۔ بعد میں وہ ان کے دروس خارج فقہ و اصول میں بھی شرکت کرتے رہے۔ آیت اللہ بروجردی نے نہ صرف قم کی حوزہ علمیہ میں تعلیمی انقلاب برپا کیا بلکہ فقه شیعہ کو از سر نو احیا کیا۔ ان کی علمی منزلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ آخوند خراسانی کے شاگرد اور محقق نائینی و آقا ضیاء عراقی کے ہم پلہ سمجھے جاتے تھے۔

آیت اللہ بروجردی کا تدریسی انداز شیخ طوسی سے مشابہ تھا۔ وہ اہل سنت کے اقوال و روایات کا گہرائی سے مطالعہ کر کے فقه شیعہ کی برتری واضح کرتے۔ حضرت امام خمینی انہیں "شیخ طوسی زمان" قرار دیتے تھے۔

آیت اللہ ملکوتی نہ صرف علوم دینیہ بلکہ تاریخ ایران، تاریخ حوزہ اور روحانیت میں بھی گہری بصیرت رکھتے تھے۔ انقلاب اسلامی کے بعد وہ امامت جمعہ تبریز اور ولی فقیہ کی نمائندگی جیسے اہم مناصب پر فائز رہے، اور ہمیشہ حوزہ اور روحانیت کی عظمت اور استقلال کے تحفظ میں کوشاں رہے۔

ہم آج آیت اللہ حاج شیخ مسلم ملکوتی کی گیارہویں برسی کے موقع پر ان کی علمی، فقہی و انقلابی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ تمام فقہائے عظام کے لیے درود و سلام اور صلوات بھیجتے ہیں[15]۔

سماجی سرگرمیاں

  • حوزہ علمیہ قم کی توسیع؛
  • مذہب تشیع کو مقبول عام مذہب بنانے کی کوشش؛
  • تعلیم و تربیت کی نصابی کتب میں دینی تعلیم کا شامل کیا جانا؛
  • اجتہاد میں نئی روح پھونکنا اور فقاہت کی باریک بینیاں؛
  • غیر ملکی ممالک میں مبلغین اور مذہبی نمائندوں کو بھیجنا تاکہ وہاں کے لوگوں کو حقیقی اسلام سے روشناس کرایا جا سکے؛
  • اسلامی وحدت، باہمی افہام و تفہیم اور اسلامی مذاہب کے درمیان وحدت اور تقریب بین المذاهب کی کوشش۔
  • دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے فلاحی خدمات انجام دینا، جن میں شامل ہیں: ایران، عراق، لبنان، افریقہ اور یورپ میں ہزار سے زائد مساجد، مدارس، ہسپتال، کتب خانے، حمام اور پرائمری اسکولوں کا قیام [16]۔

وفات

شوال ۱۳۸۰ ہجری قمری میں بیماری نے عالمِ اسلام کے اٹھاسی سالہ مرجع پر غلبہ پایا۔ انہی دنوں میں کچھ عقیدت مند ان کی عیادت کے لیے پہنچے۔ استاد جو بہت غمگین نظر آتے تھے، سر اُٹھا کر بولے:

"خلاصہ یہ ہے کہ ہماری عمر گزر گئی، ہم رخصت ہو رہے ہیں اور ہم کچھ بھی اپنے آگے نہ بھیج سکے، کوئی قیمتی عمل انجام نہ دے سکے۔" ان میں سے ایک شخص نے کہا: "آقا، آپ ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ الحمدللہ، آپ نے اتنے نیک آثار چھوڑے ہیں، پرہیزگار شاگردوں کی تربیت کی ہے، قیمتی کتابیں تحریر کی ہیں، مسجدیں اور کتب خانے تعمیر کیے ہیں۔ ایسے الفاظ تو ہمیں کہنے چاہئیں!"

تو اس شیعہ پرہیزگار فقیہ نے فرمایا:

"خَلِّصِ العَمَل فَانَّ الناقِدَ بصیر بصیر"

"اپنے عمل کو خالص اللہ کے لیے کرو، کیونکہ وہ ہر چیز کو دیکھنے والا اور انسان کی نیتوں سے باخبر ہے۔"

یہ بات سن کر سب حاضرین بہت متاثر ہوئے

آخرکار، تیرہ شوال ۱۳۸۰ ہجری قمری (مطابق دس فروردین ۱۳۴۰ ہجری شمسی) کو وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اور قم کے مسجدِ اعظم اور حرم کے درمیانی راہداری میں سپرد خاک کیے گئے[17]۔

حوالہ جات

  1. گلشن ابرار، جلد 2، زندگی‌نامه "آیت الله بروجردی" از عباس عبیری
  2. "آیت الله بروجردی"، پژوهشگاه باقرالعلوم علیه‌السلام، فریبا مرادی، بازیابی: 14 اسفند 1392
  3. خاطرات زندگانی آیه الله بروجردی، ص 27
  4. خاطرات زندگانی آیه الله بروجردی، ص 31، 32
  5. مجله نور علم، نمبر 12، آبان 1364ش، ص 87- 89
  6. شریف رازی، آثار الحجۂ، ج2، ص2
  7. فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص175
  8. شریف رازی، آثار الحجة، ج2، ص172176
  9. حائری یزدی، مہدی، خاطرات، ص47، 56-57
  10. امینی، مرجعیت در عرصه اجتماع و سیاست، ص457، سند شماره 36-38
  11. شریف رازی، آثار الحجة، ج2، ص14
  12. فلسفی، خاطرات و مبارزات، ص179ـ 180
  13. اشتهاردی، مصاحبه، ص186، 191
  14. مبلغین کو بیرون ملک بھیجنا آیت اللہ بروجردی کی لازوال خدمت تھی- شائع شدہ از: 24 اپریل 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 مئی 2025ء
  15. آیت اللہ بروجردی کی خدمات، آیت اللہ ملکوتی کی بیانات کی روشنی میں- شائع شدہ از: 24 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 24 مئی 2025ء
  16. زندگی نامه آیه الله بروجردی، ص 139
  17. مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمی سید حسین طباطبایی بروجردی رضوان اللہ علیہ- شائع شدہ از: 13 مئی 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 مئی 2025ء