"اسرار احمد" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
| سطر 109: | سطر 109: | ||
ڈاکٹر اسرار احمد نے خراب صحت کی وجہ سے اکتوبر 2002ء میں تنظیم اسلامی کی قیادت سے دستبردار ہو گئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے حافظ عاکف سعید کو تنظیم کا امیر مقرر کیا تھا (2002 سے 2020 تک) جس کے لیے تنظیم کے تمام رفقا نے تجدید کی۔ | ڈاکٹر اسرار احمد نے خراب صحت کی وجہ سے اکتوبر 2002ء میں تنظیم اسلامی کی قیادت سے دستبردار ہو گئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے حافظ عاکف سعید کو تنظیم کا امیر مقرر کیا تھا (2002 سے 2020 تک) جس کے لیے تنظیم کے تمام رفقا نے تجدید کی۔ | ||
== رد عمل == | == رد عمل == | ||
اسرار احمد کی موت کے بعد ایک بڑے پاکستانی انگریزی زبان کے اخبار نے تبصرہ کیا، "انجمن خودمول قرآن، تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت جیسی متعدد تنظیموں کے بانی، ان کے پیروکار پاکستان، ہندوستان اور خلیجی ممالک میں، خاص طور پر سعودی عرب میں تھے۔ انھوں نے قرآن پر مبنی اسلامی فلسفے میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش میں تقریباً چار دہائیاں گزاریں۔ | اسرار احمد کی موت کے بعد ایک بڑے پاکستانی انگریزی زبان کے اخبار نے تبصرہ کیا، "انجمن خودمول قرآن، تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت جیسی متعدد تنظیموں کے بانی، ان کے پیروکار پاکستان، ہندوستان اور خلیجی ممالک میں، خاص طور پر سعودی عرب میں تھے۔ انھوں نے قرآن پر مبنی اسلامی فلسفے میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش میں تقریباً چار دہائیاں گزاریں۔ | ||
نسخہ بمطابق 14:01، 25 اپريل 2025ء
| اسرار احمد | |
|---|---|
![]() | |
| دوسرے نام | ڈاکٹر اسرار احمد |
| ذاتی معلومات | |
| پیدائش | 1932 ء، 1310 ش، 1350 ق |
| یوم پیدائش | 26 اپریل |
| پیدائش کی جگہ | ہندوستان |
| وفات | 2010 ء، 1388 ش، 1430 ق |
| وفات کی جگہ | لاہور پاکستان |
| مذہب | اسلام، سنی |
| اثرات |
|
| مناصب |
|
اسرار احمد ایک مشہور پاکستانی اسلامی محقق تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکا میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ وہ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ اسرار احمد نے اسلام اور پاکستان پر تقریباً 60 کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے انتیس کا انگریزی سمیت کئی دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ 1956ء میں انہوں نے جماعت اسلامی کو چھوڑ دیا، جو انتخابی سیاست میں شامل ہو گئی تھی، تاکہ انھیں تنظیم اسلامی مل سکے۔ بہت سے دوسرے سنی اسلامی کارکنوں/احیا پسندوں کی طرح انھوں نے تبلیغ کی کہ قرآن اور سنت کی تعلیمات اور شریعت کے الہی قانون کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کیا جائے اور خلافت کو ایک حقیقی اسلامی ریاست کے طور پر بحال کیا جانا چاہیے اور یہ کہ مغربی اقدار اور اثرات اسلام اور پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ اس عقیدے کے لیے بھی جانا جاتا تھا کہ عرب سرزمین نہیں بلکہ پاکستان کو نئی خلافت کی بنیاد بننا چاہیے۔ اس کو 1981ء میں پاکستان کے تیسرے اعلی ترین شہری اعزاز ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔
سوانح عمری
اسرار احمد 26 اپریل 1932ء کو موجودہ بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع حصار میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہو گئے۔
تعلیم
ایک مقامی ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، احمد 1950ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے۔ انہوں نے 1954ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور طب کی مشق شروع کی۔ اس کے علاوہ، انھوں نے 1965 میں کراچی یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔
تحریک آزادی میں شمولیت
اسرار احمد نے تحریک آزادی میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیے مختصر طور پر کام کیا اور 1947ء میں پاکستان کی تشکیل کے بعد اسلامی جماعت طالبان کے لیے اور پھر 1950ء میں ابوالاعلی مودودی کی قیادت میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے پارٹی چھوڑ دی جب 1957ء میں مؤخر الذکر نے اس یقین کے ساتھ انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا انتخاب کیا کہ قومی سیاست میں شمولیت 1947 سے پہلے کے عرصے میں جماعت کے ذریعہ اپنائے گئے انقلابی طریقہ کار سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
اسلام اور فلسفہ میں ان کی دلچسپی مزید بڑھ گئی اور اس کے بعد وہ 1960ء کی دہائی میں کراچی چلے گئے، جہاں انھوں نے اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ڈاکٹر اسرار نے زندگی کے ابتدائی ایام میں جو تحریک آزادی کے دن تھے۔ اس دوران آپ مسلم لیگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا حصہ بنے۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے کراچی بعد ازاں لاہور سکونت اختیار کی۔ جہاں سے 1954 ء میں کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کا امتحان پاس کیا۔
سیاسی سرگرمیاں
دوران تعلیم آپ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کر دیا اور 1975ء میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے۔
1981ء میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا۔ آپ مروجہ انتخابی سیاست کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے۔ آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصاً امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے۔
مذہبی سرگرمیاں
تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لیے وقف کردی تھیں۔ آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں۔ مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انھوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کیے۔
عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی۔ بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
جماعت اسلامی کی بنیاد
اس تنظیم کی ایک رکن کی حثییت سے اسرار احمد نے کہا کہ وہ انتخابی سرگرمی کی طرف اس کے رخ سے مایوس ہو گئے، "اہم پالیسی امور" پر اس سے اختلاف کرتے ہیں، جس میں وہ "انقلابی عمل کے ذریعے اسلامی نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کی کوششوں کی کمی" کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے "اقتدار کی سیاست کے میدان" میں "ڈوبنے" کو "تباہ کن" قرار دیا۔
اسرار احمد نے اور کچھ دیگر افراد نے جے آئی سے استعفی دے دیا اور 1956ء میں تنزیم اسلامی کے مرکز کی بنیاد رکھی، جس نے ایک قرارداد منظور کی "جو بعد میں تنزیم اسلام کا مشن بیان بن گیا۔" " قرآن پر مرکوز اسلامی دائمی فلسفہ اور عالمی نظریہ" کو بحال کرنے کے اپنے کام کے ساتھ ساتھ اسرار احمد نے کہا کہ ان کا مقصد اور ان کی تنظیموں کا مقصد "معاشرے کو عملی انداز میں اصلاح کرنا تھا جس کا حتمی مقصد ایک حقیقی اسلامی ریاست یا نظام خلافت قائم کرنا تھا۔"
تنظیم اسلامی کی بنیاد
197ء میں اسرا احمد نے "اسلام کی بحالی کے لیے تحریک شروع کرنے" کے لیے اپنی طبی پریکٹس ترک کر دی۔ "ان کی کوششوں کے نتیجے میں" مرکزی انجمن خدام القران لاہور 1972ء میں قائم ہوا، تنظیم اسلامی کی بنیاد 1975ء میں رکھی گئی اور تحریک خلافت پاکستان کا آغاز 1991 میں ہوا۔
میڈياتی سرگرمی
آپ زیادہ معروف نہیں تھے اور تنظیم اسلامی (1981ء تک نسبتاً چھوٹا تھا جب اس وقت کے صدر محمد ضیا الحق-جو پاکستان کو "اسلامی" بنانے کے لیے کام کر رہے تھے-نے سرکاری پاکستان ٹیلی ویژن چینل (پی ٹی وی) سے کہا کہ وہ ڈاکٹر اسرار کو ہفتہ وار شو دے۔ یہ پاکستان میں پہلے شوز میں سے ایک بن گیا جہاں ایک اسکالر "سامعین کے سامنے بیٹھ کر اسلام پر لیکچر دیتا"۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس دوران پاکستان ٹی وی میں تبدیلیاں لانے میں ڈاکٹر اسرار احمد کا اہم کردار رہا ہے جس میں خواتین کے لیے مغربی لباس کو ختم کیا گیا اور انھیں حجاب کی ضرورت پڑی۔ اس کے بعد اس کے پروگرام کے کچھ حصوں میں ٹیلی ویژن پر کرکٹ میچوں پر پابندی کا مطالبہ سنسر کیے جانے کے بعد ڈاکٹر اسرار نے ٹی وی پر آنے سے انکار کر دیا، لیکن اس وقت تک پاکستان میں اس کی بڑی تعداد میں پیروکار پیدا ہو چکے تھے۔
تنظیمی سفر
اس عہد کے بہت سے انقلابی نوجوانوں کی طرح اسرار احمد کو بھی سید مودودی کی فکر نے متاثر کیا۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوتے ہوئے جماعت اسلامی تک جا پہنچے۔ بعد میں نظریاتی اختلاف کی وجہ سے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اور خلافت کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے غیر سیاسی جماعت تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی۔ تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں خلافت کے قیام کے لیے کوشاں رہے۔ سود کے خاتمہ کے لیے کئی کانفرنسز منعقد کروائیں۔
آپ عالمی سیاسی حالات پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی جمہوریت کے ناقد تھے۔
اردو کے سب سے بڑے مفسر قرآن
ڈاکٹر اسرار احمد کی شخصیت سے کون ناآشنا ہو گا؟ وہ اپنی ذات میں ایک قرآن اکیڈمی تھے۔
کئی احباب کی طرح میرے ایسا دنیاوی اور غافل بھی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی فکر سے متاثر ہوا۔ جس کا پہلا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ میں قرآن مجید کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھنے کی طرف راغب ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے درس قرآن کے لیکچرز سننا شروع کیے تو قرآن سے ایک عجب سا لگاؤ ہو گیا اور اسے پڑھنے، سیکھنے اور سمجھے کی طرف متوجہ ہو گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ساری زندگی قرآنی تعلیمات کی ترویج و توسیع میں واقف کر دی۔ ان گنت اذہان و قلوب کو اپنی علمی و فکری سوچ سے منور کیا۔ ان کی زندگی کے ابتدائی پندرہ برس نکال دیں تو باقی عمر قریباً ساٹھ سال قرآن کا درس دینے میں بسر کر دی۔ آپ کے بہت سے ایسے وصف تھے جو انہیں ہم عصروں سے جدا کرتے تھے۔
ان میں سے ایک جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی اساس قرآن مجید کے پیغام کو عام الناس تک پہنچنا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جسم و جاں کی تمام تر توانائیوں اور فکر و دانش کی ساری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے درس قرآن کو جاری رکھا۔ اسرار احمد کا امتیاز یہ تھا کہ آپ دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم تاریخ، فلسفہ، سائنس اور معاشرت پر بھی دسترس رکھتے تھے۔
آپ نے بہت سے مغربی دانشوروں جیسے کانٹ، فرائیڈ، مارکس وغیرہ کو بھی پڑھ رکھا تھا۔ شاعری سے بھی رغبت تھی اور مختلف شعراء کے اشعار کو تقریر کی زینت بناتے تھے۔ اقبال کی شاعری سے متاثر تھے۔ سورہ الحدید سے قلبی لگاؤ تھا۔ اس سورت کی ترتیب اور تدوین کے بعد اسے کتابی شکل بعنوان "ام المسبحات" کے نام سے شائع بھی کیا گیا۔ آپ نے انگریزی زبان میں بھی کئی لیکچرز ریکارڈ کروائے۔ آپ کو پی ٹی وی کے پروگرام ”الہدی“ سے خاصی شہرت حاصل ہوئی۔ دینی و ملی خدمات کے پیش نظر حکومت پاکستان کی طرف سے 1981 ء میں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
اسرار احمد کی 26 سال پرانی پیش گوئی جو آج سچ ہوتی نظر آ رہی ہے
ڈاکٹر اسرار احمد نے فلسطین پر ہونے والے ظلم کے بارے میں بھی کئی بار اپنے خطبات اور بیانات میں واضح انداز میں گفتگو کی تھی۔ اْنہوں نے ہمیشہ امت مسلمہ کو خبردار کیا تھا کہ فلسطین صرف عربوں کا مسئلہ نہیں، یہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ مسجد اقصیٰ ہماری پہلی قبلہ گاہ ہے، اور اس پر ہونے والا ظلم پوری امت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
جب تک مسلمان امت ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوگی، اور اپنے حقیقی دینی تشخص کو اختیار نہیں کرے گی، تب تک یہ مظالم جاری رہیں گے۔وہ اکثر اسرائیل کے قیام کو ایک عالمی سازش قرار دیتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ یہودی صرف ایک ریاست کے قیام پر نہیں کریں گے، ان کا ہدف پورا مشرق وسطیٰ اور پھر دنیا پر غلبہ ہے۔ مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے جاگنا ہوگا، ورنہ فلسطین کے بعد ہر ملک نشانے پر ہوگا۔
مسلمانوں کی اپنی بے عملی کی وجہ سے صیہونی ان پر حاوی ہوں گے
احادیث مبارکہ کی روشنی میں ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم) کی ایک تقریر یا وعظ کی آڈیو وائرل ہوئی ہے۔ یوں تو ان کی تقریروں کی بہت سی آڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہیں تاہم یہ قیامت کی آمد کے حوالے سے ہے اور اس خطبے میں جو کچھ بتایا گیا، اس کا تعلق حالات حاضرہ اور خصوصاً خطہ فلسطین سے ہے۔ پوری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اپنی بے عملی کی وجہ سے صیہونی ان پر حاوی ہوں گے۔
یہ حضرات اللہ کی رسی کو چھوڑ کر آپس میں متحد نہیں رہیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ صیہونی ریاست اسرائیل پاؤں پھیلاتی چلی جائے گی نہ صرف فلسطین بلکہ صحرائے سینا، شام اور اردن کے علاوہ سعودی عرب کے شمالی حصے پر بھی قابض ہوجائے گی اور یہ سب بے عملی کی وجہ سے ہوگا اور یہ حالات بھی قیامت قریب آ جانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس سلسلے میں پہلے بھی عرض کر چکا کہ دجال کی آمد سے قبل مشرق وسطیٰ میں دولت کی ریل پیل ہوگی، ریت سیال سونا اگلے گی اور ریت میں بلند بالا آسمان کو چھوتی عمارتیں بنیں گی۔ مسلمان بے عمل ہوتے چلے جائیں گے اور اسرائیل پھیلتا چلا جائے گا۔
صیہونی بالآخر مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی بھی بنا لیں گے
اس سلسلے میں یہ بھی بتا چکا ہوا ہوں کہ ہمارے بزرگ علامہ ابوالحسنات نے میرے استفسار پر فرمایا تھا کہ جو بھی حضور اکرمؐ اور ان کے بعد یا اس دور میں صحابہ کرامؓ نے فرمایا وہ اٹل ہے تاہم اگر اسے آگاہی تصور کیا جائے تو بہتر ہوگا اور جو لوگ صاحب عمل ہوں گے ان کے دور میں یہ سب نہیں ہوگا اور زمانہ آگے بڑھ جائے گا،یہ بھی فرمایا گیا کہ دجال کی آمد سے قبل ایسے کئی حضرات آئیں گے جو اس کے ہی پیرو کار ہوں گے۔
اور ان کے جھوٹ پر بھی یقین کیا جائے گا جہاں تک دجا ل کی آمد اور پھر حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ کی واپسی کا تعلق ہے تو یہ بھی دجال کے ظلم کے بعد اس کے خاتمے کیلئے تشریف لائیں گے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی آڈیو میں تو خبردار کیا گیا اور بتایا گیا کہ صیہونی بالآخر مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی بھی بنا لیں گے اور اس سارے عمل میں عیسائیوں کے گروہ بھی ان کے ساتھ مل کر مسلمانوںں پر؟
میری ان گزارشات کو اور بزرگوں کی باحالات حاضرہ کی روشنی میں دیکھ کر غور کریں، ماضی میں امریکہ نے مختلف عذر بنا کر عراق، شام، اردن اور الجزائر جیسی اپنے دور کی حکومتوں کو تہ و بالا کیا اور اسرائیل کو مضبوط کیا۔ اسرائیل نے شام اور مصر سے لڑائی کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا وہ آج بھی اسی کے پاس ہیں اور اب تک غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں کی کوئی بھی جدوجہد بار آور نہیں ہوئی۔
اور اسرائیل نے کسی بھی عالمی اصول کی پرواہ کئے بغیر وہی کیا جو اس کا من چاہا، یروشلم کو دارالخلافہ بنایا تو امریکہ، برطانیہ نے تسلیم کرلیا، غزہ کی سرزمین پر بتدریج قبضہ بڑھایا تو دنیا نے اس پر بھی کوئی ایکشن نہ لیا اور اسرائیل ہر تجویز کو رد کرتا چلا گیا۔ صیہونی گریٹر اسرائیل کیلئے قدم بڑھاتے چلے گئے[1]۔
علمی آثار
آپ نے متنوع موضوعات پر کتب بھی تحریر کیں۔ آپ نے سو سے زائد کتب تحریر کیں:
- قرآن کریم کی تفسیر
- سیرت نبوی صلی علیہ و سلم پر کئی کتابیں تحریر کیں۔
- ملفوظات ڈاکٹر اسرار احمد
- اصلاح معاشرہ کا قرآنی تصور
- نبی اکرم سے ہماری تعلق کی بنیادیں
- توبہ کی عظمت اور تاثیر
- حقیقت و اقسام شرک
- قرآن کے ہم پر پانچ حقوق
- اسلام اور پاکستان
- علامہ اقبال اور ہم
- استحکام پاکستان
- مسلمان امتوں کا ماضی, حال اور مستقبل
- پاکستانی کی سیاست کا پہلا عوامی و ہنگامی دور
- مسلمان امتوں کا ماضی
- حال اور مستقبل پاکستانی کی سیاست کا پہلا عوامی و ہنگامی دور وغیرہ قابل ذکر ہیں{[اختتام}}
وفات
اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010ء کی شب 01:30 پر 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن، لاہور کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
جانشین
ڈاکٹر اسرار احمد نے خراب صحت کی وجہ سے اکتوبر 2002ء میں تنظیم اسلامی کی قیادت سے دستبردار ہو گئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے حافظ عاکف سعید کو تنظیم کا امیر مقرر کیا تھا (2002 سے 2020 تک) جس کے لیے تنظیم کے تمام رفقا نے تجدید کی۔
رد عمل
اسرار احمد کی موت کے بعد ایک بڑے پاکستانی انگریزی زبان کے اخبار نے تبصرہ کیا، "انجمن خودمول قرآن، تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت جیسی متعدد تنظیموں کے بانی، ان کے پیروکار پاکستان، ہندوستان اور خلیجی ممالک میں، خاص طور پر سعودی عرب میں تھے۔ انھوں نے قرآن پر مبنی اسلامی فلسفے میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش میں تقریباً چار دہائیاں گزاریں۔
- ↑ محمد اکرم چوہدری،تنازعہ فلسطین ،جماعت اسلامی میدان عمل اور ڈاکٹر اسرار احمد کی رائے- شائع شدہ از: 21 اپریل 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 25 اپریل 2025ء
