مندرجات کا رخ کریں

"بقیع" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 6: سطر 6:
اس کا محل وقوع یہ ہے کہ یہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے، اس کے ارد گرد مکانات اور باغات تھے اور تیسری صدی میں جو مدینہ منورہ کی فصیلی دیوار تعمیر ہوئی اس سے یہ ملا ہوا تھا، اس فصیل کی تجدیدات متعددبار ہوئی ہے، جن میں آخری تجدید عثمانی ترکی دور میں سلطان سلیمان قانونی کے زمانہ میں ہوئی، پھر اس ملک میں امن قائم ہوجانے کے بعد اس فصیلی دیوار کو منہدم کر دیا گیا۔
اس کا محل وقوع یہ ہے کہ یہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے، اس کے ارد گرد مکانات اور باغات تھے اور تیسری صدی میں جو مدینہ منورہ کی فصیلی دیوار تعمیر ہوئی اس سے یہ ملا ہوا تھا، اس فصیل کی تجدیدات متعددبار ہوئی ہے، جن میں آخری تجدید عثمانی ترکی دور میں سلطان سلیمان قانونی کے زمانہ میں ہوئی، پھر اس ملک میں امن قائم ہوجانے کے بعد اس فصیلی دیوار کو منہدم کر دیا گیا۔


پھر مسجد نبوی شریف کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی شریف کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، ان دنوں کے درمیان جو محلہ آباد تھا، وہ اغوات کے نام سے مشہور تھا، مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی شریف کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اللہ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے اپنا مسکن و وطن بنایا، تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے لگی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے، اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (بقیع کی) جگہ تشریف لائے، تو ارشاد فرمایا؛
پھر مسجد نبوی شریف کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی شریف کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، ان دنوں کے درمیان جو محلہ آباد تھا، وہ اغوات کے نام سے مشہور تھا، مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی شریف کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اللہ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے اپنا مسکن و وطن بنایا۔
 
تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے لگی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے، اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (بقیع کی) جگہ تشریف لائے، تو ارشاد فرمایا:" مجھے اس جگہ (یعنی بقیع) کا حکم (قبرستان کے لیے) دیا گیا ہے" <ref>مستدرک امام حاکم 11/193)
</ref>۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (بقیع کی) جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا اور یہیں سے اس جگہ یعنی بقیع قبرستان کی فضیلت کی ابتدا ہوتی ہے۔
 
== انہدام بقیع ==
== انہدام بقیع ==
آل سعود اور وہابی تکفیری دہشت گردوں نے یہ سیاہ کارنامہ 8 شوال 1344 ہجری قمری میں انجام دیا۔ انھوں نے یہ مجرمانہ عمل اسلامی تعلیمات کی آڑ میں انجام دیا ، جبکہ [[اہل السنۃ والجماعت|اہلسنت]] علماء اور [[شیعہ]] علماء قبور کی تعمیر اور ان کی حرمت کے قائل ہیں ۔ شیعہ اور سنی علماء اور دانشور انبیاء، اولیاء، اوصیاء ، صحابہ کرام ، آئمہ معصومین (ع) اور امہات المؤمنین کی قبور کی بے حرمتی کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔  
آل سعود اور وہابی تکفیری دہشت گردوں نے یہ سیاہ کارنامہ 8 شوال 1344 ہجری قمری میں انجام دیا۔ انھوں نے یہ مجرمانہ عمل اسلامی تعلیمات کی آڑ میں انجام دیا ، جبکہ [[اہل السنۃ والجماعت|اہلسنت]] علماء اور [[شیعہ]] علماء قبور کی تعمیر اور ان کی حرمت کے قائل ہیں ۔ شیعہ اور سنی علماء اور دانشور انبیاء، اولیاء، اوصیاء ، صحابہ کرام ، آئمہ معصومین (ع) اور امہات المؤمنین کی قبور کی بے حرمتی کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔  

نسخہ بمطابق 21:44، 6 اپريل 2025ء

بقیع جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع اہم قبرستان ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیھم السلام ،امہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبریں موجود ہیں۔ ان مطہر اور مبارک قبروں پر بنے گنبدوں کو آل سعود نے 8 شوال 1344 ہجری قمری میں شہید کردیا تھا۔ جنت البقیع کے انہدام ، آل رسول (ص) ، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کی قبروں کی توہین اور انھیں شہید کرنے کے بعد سعودی عرب کے جاہل و نادان حکمرانوں کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے مزید نمایاں ہوگيا۔

وجہ تسمیہ

مدینہ منورہ میں موجود قبرستان ہے۔ یہاں اصحابِ رسول، اہلِ بیتِ رسول اور کئی معزز شخصیات مدفون ہیں۔ بقیع اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہوں اور چونکہ بقیع قبرستان کی جگہ میں پہلے جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے عوسج یعنی غرقد کے پیڑ بکثرت تھے اس لیے اس قبرستان کا نام بھی بقیع غرقد پڑ گیا۔

محل وقوع

اس کا محل وقوع یہ ہے کہ یہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں واقع ہے، اس کے ارد گرد مکانات اور باغات تھے اور تیسری صدی میں جو مدینہ منورہ کی فصیلی دیوار تعمیر ہوئی اس سے یہ ملا ہوا تھا، اس فصیل کی تجدیدات متعددبار ہوئی ہے، جن میں آخری تجدید عثمانی ترکی دور میں سلطان سلیمان قانونی کے زمانہ میں ہوئی، پھر اس ملک میں امن قائم ہوجانے کے بعد اس فصیلی دیوار کو منہدم کر دیا گیا۔

پھر مسجد نبوی شریف کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد نبوی شریف کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا، ان دنوں کے درمیان جو محلہ آباد تھا، وہ اغوات کے نام سے مشہور تھا، مسجد نبوی شریف کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد نبوی شریف کے خارجی صحن سے مل چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات مہاجرین رضوان اللہ اجمعین نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت کر کے اپنا مسکن و وطن بنایا۔

تو اس شہر مبارک میں مزید تعمیری و تمدنی ترقی ہونے لگی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہو جائے، اسی مقصد کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (بقیع کی) جگہ تشریف لائے، تو ارشاد فرمایا:" مجھے اس جگہ (یعنی بقیع) کا حکم (قبرستان کے لیے) دیا گیا ہے" [1]۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (بقیع کی) جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا اور یہیں سے اس جگہ یعنی بقیع قبرستان کی فضیلت کی ابتدا ہوتی ہے۔

انہدام بقیع

آل سعود اور وہابی تکفیری دہشت گردوں نے یہ سیاہ کارنامہ 8 شوال 1344 ہجری قمری میں انجام دیا۔ انھوں نے یہ مجرمانہ عمل اسلامی تعلیمات کی آڑ میں انجام دیا ، جبکہ اہلسنت علماء اور شیعہ علماء قبور کی تعمیر اور ان کی حرمت کے قائل ہیں ۔ شیعہ اور سنی علماء اور دانشور انبیاء، اولیاء، اوصیاء ، صحابہ کرام ، آئمہ معصومین (ع) اور امہات المؤمنین کی قبور کی بے حرمتی کو جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

وہابی تکفیریوں نے اہلسنت کا لبادہ اوڑھ کر جنت البقیع میں انبیاء، اولیاء، اوصیاء ، صحابہ کرام ، آئمہ معصومین (ع) اور امہات المؤمنین کی قبور کو شہید اور منہدم کردیا، وہابیوں کے اس اقدام کی سن 1344 ہجری سے لیکر آج تک مذمت کا سلسلہ جاری ہے، عالم اسلام میں 8 شوال کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جنت البقیع مدینہ کا سب سے پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان ہے۔ شیعہ اماموں میں سے چار آئمہ(ع)، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ، صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اکابرین اسلام اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔

انہدام بقیع پر مسلمانوں کا احتجاج

آئمہ معصومین(ع) اور بعض دوسرے اکابرین کی قبروں پر گنبد و بارگاہ موجود تھی، جسے پہلی بار تیرہویں صدی ہجری اور دوسری بار چودہویں صدی ہجری میں وہابیوں نے شہید اور منہدم کردیا، جس پرپاکستان ، ایران اور ہندوستان سمیت مختلف اسلامی ممالک کے شیعہ اور سنی علماء اور عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ جنت البقیع قبرستان میں موجود چار آئمہ معصومین (ع) اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بیت الحزن پر موجود گنبد جو بیت الاحزان کے نام سے معروف تھا، وہابیوں کے پہلے حملے میں شہید ہو گئے۔

8 شوال 1344 قمری میں سعودی عرب کی حکومت نے قبور اہلبیت (ع) کی زیارت کو شرک اور بدعت قراردیتے ہوئے قبرستان بقیع کے تمام اسلامی اور تاریخی آثار کو شہید اور منہدم کر دیا۔ انبیا اور اولیاء ، اہلبیت (ع) اور صحابہ کرام کی قبور پر گنبد کی تعمیرکو اہلسنت اور شیعہ علماء جائز سمجھتے ہیں جبکہ وہابی علماء بے بنیاد اور سازشی وجوہات کی بنا پر ناجائز سمجھتے ہیں، وہابیوں نے مال و زر اور طاقت کے زور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے اسلامی آثار کو بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ محو کردیا اور آج بھی وہابی دہشت گرد تنظیمیں اولیاء کرام اور ممتاز اسلامی شخصیات کے مزاروں کو شہید اور منہدم کرنے کے عقیدے پر گامزن ہیں۔

دنیا بھر کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کو وہابیوں کے اس مکروہ ،بھیانک ، ناپاک اور گمراہ کن عقیدے کا باہمی اتحاد اور اتفاق کے ذریعہ مقابلہ کرنا چاہیے۔ تاریخ اسلام کے مطابق مغربی طاقتوں کی ایما پر خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے بعد وہابی تکفیری دوبارہ حجاز میں داخل ہوئے۔ اِس مرتبہ بھی انھوں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ تمام اسلامی و تاریخی ورثہ کو مسمار کر دیا۔

اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں واقع قبرستان "جنت المعلی” اور نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آبائی گھر کو گرا دیا۔ وہابی تکفیریوں نے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے سرزمینِ حجاز کا نام بدل کر سعودی عرب رکھ دیا۔اس قبیح فعل کے ردِ عمل میں تمام اسلامی دنیا نے صدائے احتجاج بلند کیا گيا۔ متحدہ ہندوستان میں آلِ سعود کے مذکورہ اقدام کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ ایران ،عراق ،مصر ، انڈونیشیا اور ترکی میں مظاہرے ہوئے۔

مکہ مکرمہ میں جن محترم و بزرگ ہستیوں کی قبور کو منہدم کیا گیا ان میں حضرت بی بی آمنہ (س) حضرت خدیجہ بنتِ خویلد (س) حضرت ابو طالب (ع) اور حضرت عبدالمطلب (ع) کی قبریں شامل ہیں۔ جبلِ احد پر حضرت حمزہ (ع) اور دوسرے شہدا اور جدہ میں حضرت بی بی حوا (س) کی قبریں بھی آلِ سعود کے وحشانہ عقیدے کا نشانہ بنیں۔

اس کے علاوہ بنو ہاشم کے مخصوص افراد کے گھر بھی ڈھا دیے گئے جن میں حضرت علی (ع) سیدہ فاطمہ زہرا (ع) اور حضرت حمزہ (ع) کے گھر شامل ہیں۔ مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع میں دخترِ رسول حضرت فاطمہ زہرا (س)، امام حسن (ع)، امام زین العابدین (ع)، امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) کے روضوں کو منہدم کیا گیا۔

فرزندِ رسول حضرت ابراہیم (ع) ازواجِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ حضرت فاطمہ بنتِ اسد (س) حضرت ام البنین (س) حضرت حلیمہ سعدیہ (س) حضرت عثمان (رض) اور دوسرے صحابہ کرام (رض) کی قبور کی اونچائی کو ختم کر دیا گیا۔ زائرین کو قبور کے پاس جانے اور فاتحہ خوانی کی اجازت نہیں کیونکہ آج بھی سرزمین حجاز (سعودی عرب) پر آلِ سعود قابض ہیں۔ آلِ سعود کی سرپرستی میں اسلامی مقدسات کے انہدام اور توہین کا سلسلہ آج بھی جاری ہے[2]۔

انہدم جنت البقیع کے اسباب

جنت البقیع کے انہدام پرپوری مسلم دنیا نے احتجاج کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سنی بھائیوں نے اس واقعہ کو بھلا دیا اور آج فقط شیعہ 8 شوال کو یوم انہدام جنت البقیع کو منا کر اہلبیت رسول اللہ(ص) سے محبت کا فریضہ اور اجر رسالت ادا کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی।قالت سیدۃ زینب سلام اللہ علیہا:’’فَوَ اللَّهِ لَا تَمْحُو ذَکَرْنَا وَ لَا تُمِیتُ وَحْیَنَا و لا تدرک أمرنا ‘‘[3]۔ 8 شوال عالم اسلام کا ایک غم انگیز دن ہے آج سے چند سال پہلے 1344 ھ۔ ق 1926/ء کو استعمار اور طاغوت کے پرورش یافتہ فرقہ وہابیت نے مدینۃ الرسول کے تاریخی قبرستان’’ جنت البقیع‘‘ میں موجود قبروں منہدم و مسمار کر دیا تھا۔ قبرستان جو کہ مدینہ منوّرہ کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ہے ۔جس میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجداد،اہلبیت علیھم السلام(امام حسن مجتبیٰؑ،امام زین العابدینؑ،امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ)، امہات المؤمنین اور ان کے علاوہ کتنے ہی جلیل القدر اصحاب اور تابعین کی قبور بھی موجود ہیں ۔

پیغمبر گرامی اسلام(ص) جب بھی بقیع کے قبرستان سے گزرتے فرماتے تھے:’’السلام علیکم من دیار قوم مؤمنین وانّا ان شاء اللہ بکم لاحقون‘‘۔امّ قیس کہتی ہیں: بقیع کے قبرستان میں رسول خدا(ص) کے ساتھ کھڑی تھی؛ حضرت(ص) نے فرمایا: ’’امّ قیس! ان قبروں سے ۷۰ ہزار ایسے لوگ مدفون ہیں جو بغیر حساب وکتاب کے بہشت میں داخل ہوں گے‘‘۔ لیکن اپنے آپ کو خادم حرمین شریفین کہلانے میں فخر محسوس کرنے والوں نے ایسے عظیم المرتبت افراد کی قبور کو منہدم ومسمار کر دینےمیں ذرّہ برابر بھی شرم محسوس نہ کی؛ اس لئے ان محرکات اور اسباب کا جاننا نہایت ضروری ہے جن کی وجہ سے اس تاریخی قبرستان کو مسمار کیا گیا۔بطور اختصار انہدام کرنے کے چند ایک اہم عوامل کو یہاں پربیان کر رہے ہیں ۔

1۔ صحیح دینی عقائد سے انحراف

جس دین میں شعائر اللہ کی تعظیم کو ایک پسندیدہ امر اور ثواب کا باعث شمار کیا گیا اسی دین میں وہابی فرقے کے بنیان گذار محمد بن عبد الوہاب نے تفسیر بالرائے اور اپنے غلط عقائد کو استعمال میں لاتے ہوئے آل سعود کے ساتھ خاص معاہدوں کی بنا پر ان غلط عقائد کا پرچار کروایا ۔گذشتہ چودہ صدیوں سے پورے عالم اسلام میں قبور کی زیارت، احترام،تعمیر ومرمت اور دیکھ بھال ہوتی آ رہی تھی اچانک اس نئے فرقے کے غلط عقائد نے ان تمام اعمال کو کفر و شرک کے زمرے میں شمار کرنا شروع کر دیا ۔ یہی غلط عقیدہ سبب بنا کہ جنت البقیع میں واقع اہلبیت رسول اللہ (ص) اور عظیم و جلیل القدر اصحاب کی قبور کو منہدم و مسمار کر دیا گیا۔

2۔ فکری اور مذہبی انتشار

انیسویں اور بیسیوں صدی میں اسلامی دنیا کے اندر ہلچل مچی ہوئی تھی اور یہ عیناً وہی وقت تھا جب وہابیت حجاز کے اندر جڑ پکڑ رہی تھی۔ طاغوتی اور استعماری طاقتوں نے اس فکری اور مذہبی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محمد بن عبد الوھاب جیسے افراد کی پشت پناہی شروع کر دی جس کے نتیجے میں آل سعود نے محمد بن عبد الوھاب کے ساتھ کئے گئے معاہدوں اور ان بد نظمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی ارزشمند آثار کو خراب اور مسمار کرنا شروع کردیا ۔ جس کے نتیجے میں اہل بیت علیھم السلام اور اصحاب رسول(ص) کی قبور بھی آل سعود کے مظالم کے سامنے محفوظ نہ رہ سکیں۔

3۔ اھلبیت(ع) سے دشمنی:

قبرستان جنت البقیع کو مسمار کرنے کے باوجود ؛ پیغمبر گرامی اسلام (ص) کے روضے کا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا اور یہ چیز خود اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت البقیع کو منہدم کرنے کا مسئلہ کوئی فقہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اہلبیت علیھم السلام سے ان کی دیرینہ دشمنی اور بغض وکینہ کی وجہ سے شرک و کفر کی آڑ آئمہ معصومین علیھم السلام کی قبروں کو مسمار کیا گیا ہے۔

جنت البقیع کے انہدام پرپوری مسلم دنیا نے احتجاج کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سنی بھائیوں نے اس واقعہ کو بھلا دیا اور آج فقط شیعہ 8 شوال کو یوم انہدام جنت البقیع کو منا کر اہلبیت رسول اللہ(ص) سے محبت کا فریضہ اور اجر رسالت ادا کرتے ہیں[4]۔

حوالہ جات: ۱۔ ۲۔ واحد تحقیقات مرکز تحقیقات رایانہ ای قائمیہ اصفہان، بانک جامع جنت البقیع،ص۲۰۶،نرم افزار تلفن ھمراہ و رایانہ

  1. مستدرک امام حاکم 11/193)
  2. جنت البقیع میں آل رسول (ص) اور صحابہ کرام کی قبروں کا انہدام آل سعود کے وحشیانہ جرائم کا مظہر- شائع شدہ از: 10 مئی 2022ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 اپریل 2025ء۔
  3. مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) –ج۴۵،ص۱۳۵، بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
  4. انہدم جنت البقیع کے اسباب- شائع شدہ از: 21 مئی 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 6 اپریل 2025ء۔