"صاحب زادہ فضل کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←وفات) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←وفات) |
||
سطر 5: | سطر 5: | ||
انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز [[جمعیت علماء اسلام پاکستان|جمیعت علمائے پاکستان]] کے اسٹیج سے اس زمانے میں جب یہ جماعت پاکستان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب یہ جماعت مختلف دھڑوں کا شکار ہوئی تو آپ نے اپنی جماعت الگ منظم کی اور [[پاکستان مسلم لیگ|مسلم لیگ (ن)]] کے ساتھ اتحاد کر کے چار دفعہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ [[شہباز شریف]] کے سابقہ دور میں وہ وزیر اوقاف بھی رہے اور انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنا دور نبھایا۔ چند سال قبل جب ملک میں دہشت گردی کی وبا عام ہوئی اور مختلف گروہوں اور تنظیموں نے اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تو صاجب زادہ نے سید حسین الدین شاہ کے ایماء اور ہدایت پر [[اہل السنۃ والجماعت|اہل السنّت والجماعت]] کے دھڑوں کو منظم کرنے کی سعی بلیغ کی اور بالآخر سنی اتحاد کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اہل السنّت والجماعت کے مطالبات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد سے ان کے مخالف ہوئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے آخری دنوں میں [[پاکستان مسلم لیگ (ق)|مسلم لیگ (ق)]] سے اپنے روابط بڑھائے <ref>ادریہ، ماہنامہ ضیائے حرم، ص 10 مئی 2013ء</ref>۔ انہوں نے خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے ساتھ ساتھ لاہور کے داتا دربار سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، فضل کریم جمیعت علما پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہے، انہوں نے امریکا ،برطانیہ،مصر،[[شام]] سمیت بہت سے ملکوں کے دورے بھی کیے۔ صاحبزادہ فضل کریم انیس سو ترانوے سے ستانوے تک پنجاب اسمبلی کے رکن جب کہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ جب کہ انہوں نے دوہزار دو میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کامیابی حاصل کی پھر اسی نشست پر دوہزار آٹھ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ صاحبزادہ فضل کریم کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق موقف بھی واضح رہا،دوہزار تیرہ کے انتخابات کے لیے ن لیگ سے اختلافات کے باعث وہ پیپلزپارٹی اور قاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں تھے۔ | انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز [[جمعیت علماء اسلام پاکستان|جمیعت علمائے پاکستان]] کے اسٹیج سے اس زمانے میں جب یہ جماعت پاکستان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب یہ جماعت مختلف دھڑوں کا شکار ہوئی تو آپ نے اپنی جماعت الگ منظم کی اور [[پاکستان مسلم لیگ|مسلم لیگ (ن)]] کے ساتھ اتحاد کر کے چار دفعہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ [[شہباز شریف]] کے سابقہ دور میں وہ وزیر اوقاف بھی رہے اور انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنا دور نبھایا۔ چند سال قبل جب ملک میں دہشت گردی کی وبا عام ہوئی اور مختلف گروہوں اور تنظیموں نے اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تو صاجب زادہ نے سید حسین الدین شاہ کے ایماء اور ہدایت پر [[اہل السنۃ والجماعت|اہل السنّت والجماعت]] کے دھڑوں کو منظم کرنے کی سعی بلیغ کی اور بالآخر سنی اتحاد کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اہل السنّت والجماعت کے مطالبات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد سے ان کے مخالف ہوئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے آخری دنوں میں [[پاکستان مسلم لیگ (ق)|مسلم لیگ (ق)]] سے اپنے روابط بڑھائے <ref>ادریہ، ماہنامہ ضیائے حرم، ص 10 مئی 2013ء</ref>۔ انہوں نے خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے ساتھ ساتھ لاہور کے داتا دربار سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، فضل کریم جمیعت علما پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہے، انہوں نے امریکا ،برطانیہ،مصر،[[شام]] سمیت بہت سے ملکوں کے دورے بھی کیے۔ صاحبزادہ فضل کریم انیس سو ترانوے سے ستانوے تک پنجاب اسمبلی کے رکن جب کہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ جب کہ انہوں نے دوہزار دو میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کامیابی حاصل کی پھر اسی نشست پر دوہزار آٹھ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ صاحبزادہ فضل کریم کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق موقف بھی واضح رہا،دوہزار تیرہ کے انتخابات کے لیے ن لیگ سے اختلافات کے باعث وہ پیپلزپارٹی اور قاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں تھے۔ | ||
== وفات == | == وفات == | ||
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اور مذہبی رہنما صاحبزادہ فضل کریم 15 اپریل 2013ء پیر کو فیصل آباد میں انتقال کر گئے۔ وہ جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور 4 اپریل سے فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال میں زیر علاج تھے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کی عمر 59 سال تھی اور وہ ایک اہم مذہبی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہیں جھنگ بازار فیصل آباد میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام کے احاطے میں دفن کیا | سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اور مذہبی رہنما صاحبزادہ فضل کریم 15 اپریل 2013ء پیر کو فیصل آباد میں انتقال کر گئے۔ وہ جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور 4 اپریل سے فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال میں زیر علاج تھے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کی عمر 59 سال تھی اور وہ ایک اہم مذہبی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہیں جھنگ بازار فیصل آباد میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام کے احاطے میں دفن کیا گیا <ref>[https://waqtnews.tv/17-Feb-2024/175494 waqtnews.tv] | ||
</ref>۔ | |||
== جانشین == | == جانشین == | ||
صاحبزادہ فضل کریم کے صاحبزادے حامد رضا ان کے جانشین ہوں گے، ان کے سوگواران میں بیوہ، ایک بیٹی اور 4 بیٹے شامل ہیں۔ | صاحبزادہ فضل کریم کے صاحبزادے حامد رضا ان کے جانشین ہوں گے، ان کے سوگواران میں بیوہ، ایک بیٹی اور 4 بیٹے شامل ہیں۔ |
نسخہ بمطابق 10:49، 17 فروری 2024ء
صاحب زادہ فضل کریم محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد قادری کے صاحبزادے اور پاکستان کے ایک مذہبی سیاست دان تھے وہ مرکزی جمعیت علماء پاکستان اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ تھے آپ کے والد گرامی محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد قادری، اہل سنت بڑا عالم دین مولانا محمد احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی کے شجرہء طریقت سے فیض یافتہ تھے۔
تعلیم
صاحب زادہ فضل کریم نے دین کی ابتدائی تعلیم مولانا غلام رسول رضوی مفتی محمد نواب الدین اور مولانا عرفان الحق سے حاصل کی۔ انہوں نے انیس صد ستاسی میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد سے اسلامک سٹیڈیز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور دینی علوم کے علاوہ 1987ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری بھی حاصل کی اور عملی زندگی کا آغاز ایک کاروباری شخصیت کے طور پر کیا۔
سیاسی سرگرمیاں
انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جمیعت علمائے پاکستان کے اسٹیج سے اس زمانے میں جب یہ جماعت پاکستان کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب یہ جماعت مختلف دھڑوں کا شکار ہوئی تو آپ نے اپنی جماعت الگ منظم کی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کر کے چار دفعہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شہباز شریف کے سابقہ دور میں وہ وزیر اوقاف بھی رہے اور انتہائی کامیابی کے ساتھ اپنا دور نبھایا۔ چند سال قبل جب ملک میں دہشت گردی کی وبا عام ہوئی اور مختلف گروہوں اور تنظیموں نے اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تو صاجب زادہ نے سید حسین الدین شاہ کے ایماء اور ہدایت پر اہل السنّت والجماعت کے دھڑوں کو منظم کرنے کی سعی بلیغ کی اور بالآخر سنی اتحاد کونسل کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اہل السنّت والجماعت کے مطالبات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض افراد سے ان کے مخالف ہوئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے آخری دنوں میں مسلم لیگ (ق) سے اپنے روابط بڑھائے [1]۔ انہوں نے خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دینے کے ساتھ ساتھ لاہور کے داتا دربار سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ 1993 اور1997 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی اور 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، فضل کریم جمیعت علما پاکستان کے صدر اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین بھی رہے، انہوں نے امریکا ،برطانیہ،مصر،شام سمیت بہت سے ملکوں کے دورے بھی کیے۔ صاحبزادہ فضل کریم انیس سو ترانوے سے ستانوے تک پنجاب اسمبلی کے رکن جب کہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک صوبائی وزیر بھی رہے۔ جب کہ انہوں نے دوہزار دو میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کی نشست پر پہلی بار کامیابی حاصل کی پھر اسی نشست پر دوہزار آٹھ میں بھی کامیاب قرار پائے۔ صاحبزادہ فضل کریم کا دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق موقف بھی واضح رہا،دوہزار تیرہ کے انتخابات کے لیے ن لیگ سے اختلافات کے باعث وہ پیپلزپارٹی اور قاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں تھے۔
وفات
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اور مذہبی رہنما صاحبزادہ فضل کریم 15 اپریل 2013ء پیر کو فیصل آباد میں انتقال کر گئے۔ وہ جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور 4 اپریل سے فیصل آباد کے الائیڈ اسپتال میں زیر علاج تھے۔ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کی عمر 59 سال تھی اور وہ ایک اہم مذہبی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہیں جھنگ بازار فیصل آباد میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام کے احاطے میں دفن کیا گیا [2]۔
جانشین
صاحبزادہ فضل کریم کے صاحبزادے حامد رضا ان کے جانشین ہوں گے، ان کے سوگواران میں بیوہ، ایک بیٹی اور 4 بیٹے شامل ہیں۔
- ↑ ادریہ، ماہنامہ ضیائے حرم، ص 10 مئی 2013ء
- ↑ waqtnews.tv