''اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپؐ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا''
''اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپؐ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا''
=== حضرت براء بن عازبؓ کی روایت ===
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ غدیر خم کے میدان میں پہنچے ہمارے درمیان منادی کرائی گئی ''الصلوٰۃ جامعہ'' اور دو درختوں کے پیچھے حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کےلیے پردہ بنایا گیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے نماز ظہر ادا فرمائی۔ نماز کے فوراً بعد خطبہ شروع کیا اورحضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ غدیر خم کے میدان میں پہنچے ہمارے درمیان منادی کرائی گئی ''الصلوٰۃ جامعہ'' اور دو درختوں کے پیچھے حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کےلیے پردہ بنایا گیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے نماز ظہر ادا فرمائی۔ نماز کے فوراً بعد خطبہ شروع کیا اورحضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
الست اولی بکم من انفسکم؟ قالو ابلی۔ قال فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اللھم و ال من والاہ و عاد من عاداہ
الست اولی بکم من انفسکم؟ قالو ابلی۔ قال فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اللھم و ال من والاہ و عاد من عاداہ
کہ کیا میں تمہاری جانوں سے بھی زیادہ ان پر حق تصرف نہیں رکھتا ہوں؟ تمام صحابہ کرامؓ نے کہا جی ہاں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔ اے اللہ تو اس کے ساتھ محبت کر جو علیؑ سے محبت کرے اور اس کے ساتھ عداوت رکھ جو علیؑ سے عداوت رکھے۔
کہ کیا میں تمہاری جانوں سے بھی زیادہ ان پر حق تصرف نہیں رکھتا ہوں؟ تمام صحابہ کرامؓ نے کہا جی ہاں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔ اے اللہ تو اس کے ساتھ محبت کر جو علیؑ سے محبت کرے اور اس کے ساتھ عداوت رکھ جو علیؑ سے عداوت رکھے۔
=== محدث ابن شاہین بغدادی ===
محدث ابن شاہین بغدادی متوفی 385 ھ نے اپنی کتاب ''شرح مذاہب اہل السنۃ'' صفحہ 103 پر لکھا ہے کہ کم و بیش سو صحابہ کرامؓ جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں، نے خطبہ غدیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث ثابت ہے میں (ابن شاہین) اس حدیث میں کوئی جرح نہیں پاتا۔ حضرت علی علیہ السلام کی اس فضیلت میں دوسرا کوئی ایک بھی شریک نہیں ہے۔ مزید برآں حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ غدیر سے فارغ ہوئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اے ابو طالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو کہ آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا و آقا بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
محدث ابن شاہین بغدادی متوفی 385 ھ نے اپنی کتاب ''شرح مذاہب اہل السنۃ'' صفحہ 103 پر لکھا ہے کہ کم و بیش سو صحابہ کرامؓ جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں، نے خطبہ غدیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث ثابت ہے میں (ابن شاہین) اس حدیث میں کوئی جرح نہیں پاتا۔ حضرت علی علیہ السلام کی اس فضیلت میں دوسرا کوئی ایک بھی شریک نہیں ہے۔ مزید برآں حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ غدیر سے فارغ ہوئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اے ابو طالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو کہ آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا و آقا بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
سطر 106:
سطر 106:
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے <ref>تاریخ بغداد جلد 8 ص 290، الامالی للشجری جلد 1 ص 42، 146</ref>۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے <ref>تاریخ بغداد جلد 8 ص 290، الامالی للشجری جلد 1 ص 42، 146</ref>۔
ذیل میں ہم حدیث غدیر کے تواتر میں اہل سنت کی تحقیقات قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
1۔ علامہ ذہبی مشہور مورخ ابن جریر الطبری متوفی 310ھ کی کتاب ''الولایۃ'' کے بارے میں کہتے ہیں: قلت رأیت مجلداً من طرق (حدیث غدیر) لابن جریر فاند ھشت لہ ولکثرۃ لتلک الطرق
میں کہتا ہوں کہ ابن جریری طبری کی حدیث غدیر کے کتاب ''الولایۃ'' کو میں نے دیکھا ہے کہ جس میں انہوں نے حدیث غدیر کے اسانید و طریق کو جمع کیا ہے تو میں کثرت طرق دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ ( تذکرۃ الحفاظ جلد 2 صفحہ 713 طبع حیدرآباد دکن)
اس سلسلے میں شمس الدین ذہبی نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ''طرق حدیث من کنت مولاہ'' کے نام سے تحریر کی ہے، جو عرب دنیا سے شایع ہوچکی ہے اور راقم السطور کے ذخیرہ کتب میں موجود ہے۔ حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی 774 ھ نے ''البدایہ و النھایہ جلد ۵ صفحہ 153، مطبعۃ السعادہ مصر میں اس حدیث کو کئی اسانید سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے
وصدر الحدیث متواتر أتیقن ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قالہ واما اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ، فذیادۃ قویۃ الاسناد،
حدیث غدیر کا پہلا حصہ، من کنت مولاہ فعلی مولاہ، متواتر ہے اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے واقعی حضرت علی علیہ السلام کے حق میں ایسا فرمایا ہے اور اللھم وال من والاہ کی اسناد بھی قوی ہیں۔
علامہ شمس الدین ذہبی ''سیر اعلام النبلاء'' جلد 8 صفحہ 335 پر ''مطب بن زیاد'' کے حالات میں لکھا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ کا بیان ہے کنا بالجحفۃ بغدیر خم فخرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من خباء او فُسطاط فاشار بیدہ ثلاثا فاخذ بیدہ علی رضی اللہ عنہ فقال من کنت مولاہ فعلی مولاہ، ھٰذا حدیث حسن عال جداً و متنہ فمتواتر
2۔ حافظ جلال الدین سیوطی نے ''قطف الازھار المتناثرۃ فی الاخبار المتواترۃ'' صفحہ 277 طبع مکتب اسلامی دمشق 1985 میں اسے متواتر کہا ہے۔ علامہ محمد عبدالرؤف منادی متوفی 1031ھ نے حدیث کی معروف کتاب الجامع الصغیر کی شرح میں ایک کتاب فیض القدیرکے نام سے ضخیم جلدوں میں تحریر کی ہے، اس کی جلد 6 صفحہ 282 حدیث 9000 کی شرح میں کہا ہے وقال السیوطی حدیث متواتر۔ علامہ سیوطی نے کہا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے۔
3۔ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ نے ''مرقاۃ شرح مشکوٰہ جلد 11 صفحہ 342 طبع مکتبہ امدادیہ ملتان'' میں لکھا ہے والحاصل ان ھٰذا الحدیث صحیح لا مریۃ فیہ بل بعض الحفاظ عدہ متواتراً اذ فی روایۃلاحمدانہ سمعہ من النبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ثلاثون صحابیاً و شھدو ابہ لعلی لما نوزع ایام خلافتہ
بحث کا حاصل یہ ہے کہ بلاشک و شبہ یہ حدیث صحیح ہے بلکہ بعض حفاظ نے اسے متواتر شمار کیا ہے۔ احمد بن حنبل کی روایت کے مطابق اسے تیس (30) صحابہ کرام ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے سنا ہے۔ ان صحابہ ؓ نے حضرت علیؑ کے ایام خلافت میں اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے۔
4۔ حافظ ابوالخیر محمد بن محمد ابن الجزری الدمشقی متوفیٰ 660ھ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ھذا حدیث حسن من ھذا الوجہ، صحیح من وجوہ کثیرۃ، تواتر عن امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ وھو متواتر ایضا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ حدیث اس سند سے ''حسن'' ہے بہت سی سندوں سے صحیح ہے۔ حضرت امیر المؤمنین علی ؓ سے تواتر کے ساتھ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی متواتر ہے (اسنی المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب صفحہ3، مطبوعہ میریہ مکہ مکرمہ) نیز موصوف صفحہ 4 پر مزید لکھتے ہیں اور صحابہ کی جماعت سے یہ حدیث صحیح سند سے نقل ہوئی ہے۔ ان میں ایسے حضرات بھی ہیں جن کی خبر سے قطعیت حاصل ہوتی ہے اور یہ ثابت ہے کہ یہ حدیث پیغمبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن اس خطبہ میں ارشاد فرمائی تھی جو آپ نے حضرت علی ؑ کے حق میں 10 ہجری 18 ذی الحج کو حجۃ الوداع سے واپسی پر دیا تھا۔
5۔ مشہور محدث محمد بن اسماعیل الامیر الکحلانی صاحب سبل السلام شرح بلوغ المرام متوفی 1184ھ حدیث متواتر کے احکام و شرائط بیان کرتے ہوئے خطبہ غدیرکے متعلق رقمطراز ہیں: حدیث غدیر خم رواہ جماعۃ من الصحابۃ و تواتر النقل بہ حتی دخل حد التواتر و ذکر محمد بن جریر حدیث غدیر خم و طرقہ من خمسۃ و سبعین طریقاً وافرد لہ کتاباً سماہ ''کتاب الولایۃ'' و صنف الذھبی جزأ و حکم بتواترہ۔
حدیث غدیر کو صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے اور ہر زمانے میں تواتر سے نقل ہوتی آرہی ہیں، یہاں تک کہ حد تواتر کو پہنچ گئی ہے۔ حافظ ابن جریر طبری نے حدیث غدیر خم کو 75 سندوں سے ذکر کیا ہے اور موضوع پر ''الولایۃ'' کے نام سے ایک مستقل کتاب تحریر کی ہے اور علامہ ذہبی نے بھی حدیث غدیر پر ایک رسالہ تصنیف کیا اور اس پر متواتر کا حکم لگایا۔
(اسبال المطر علیٰ قصب السّکر صفحہ 27 طبع دارالسلام الریاض) اسی طرح اپنی دوسری شہرہ آفاق کتاب ''الروضۃ الندیہ شرح القصیدۃ العلویہ'' صفحہ 47 مطبع انصاری دہلی 1323ھ میں شرح و بسط کے ساتھ اسے متواتر ثابت کیا ہے۔
6۔ حافظ شیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الشافعی متوفی 1162ھ نے اس کے متعلق کہا: فالحدیث متواتر او مشہور ''یہ حدیث متواتر ہے یا مشہور ہے''
7۔ قاضی سناء اللہ عثمانی پانی پتی متوفی 1225ھ اپنی تفسیر مظہری آیت ولایت انما ولیکم اللہ۔ الخ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وقدبلغ ھٰذا الحدیث مبلغ التواتر رواہ جمع من المحدثین فی الصحاح والسنن و المسانید۔۔۔۔ الخ
حدیث غدیر حد تواتر تک پہنچ چکی ہے۔ محدثین کی ایک جماعت نے کتب صحاح، کتب سنن اور کتب مسانید میں اس کو روایت کیا ہے۔
(تفسیر مظہری جلد 4 صفحہ 134 طبع ندوۃ المصنفین دہلی) اسی طرح موصوف نے اپنی دوسری کتاب ''السیف المسلول'' صفحہ108 مطبع احمدی دہلی 1268ھ میں کہا ہے: حدیث من کنت مولاہ درجۃ صحت بلکہ بدرجہ تواتر رسیدہ ''حدیث من کنت مولاہ صحت کے درجہ پر ہے بلکہ تواتر کے درجہ پر پہنچی ہوئی ہے''۔
8۔ علامہ کتانی نے ''نظم المتناثر من الحدیث المتواتر'' صفحہ 206 طبع مکتبۃ المعارف الریاض 1995 میں حدیث غدیر کو متواتر قرار دیا گیا ہے۔
9۔ ناصر الدین الالبانی نے ''سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ'' جلد 4 صفحہ 344 حدیث 1750، طبع المکتب الاسلامی بیروت میں بڑی تصریح کے ساتھ اس حدیث کا تواتر ثابت کیا ہے۔
10۔ شاہ ولی اللہ الدہلوی نے ''ازالۃ الخفأ جلد 2 صفحہ 260 باب ماثر الامام علی بن ابی طالب مطبع صدیقی بریلی میں اس حدیث کو متواتر کہا ہے۔
11۔ نواب صدیق حسن خان نے تحریر کیا ہے حدیث غدیر را جماعتی از صحابہ راوی است و نقل برآن متواتر شدہ تا آنکہ داخل حدتواتر گشتہ و محمد ابن جریر الطبری برائے حدیث غدیر ہفتاد و پنج طرق ذکر کردہ و آن را در کتابے مفرد درج نمودہ نامش کتاب الولایۃ نہادہ و حافظ ذہبی جزئے در طرق وے نگاشتہ و حکم بتواترش فرمودہ و ابوالعباس ابن عقدہ حدیث غدیر را بہ یک صد و پنجاہ طریق آوردہ و کتابے مقرر نگاشتہ۔
حدیث غدیر کو صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور اس کی نقل و روایت حد تواتر میں داخل ہوگئی ہے۔ محمد ابن جری طبری نے حدیث غدیر کے 75 طرق ذکر کیے ہیں اور اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے جس کا نام کتاب الولایۃ ہے۔ حافظ ذہبی نے بھی ایک رسالہ اس حدیث کے طرق میں لکھا ہے اور اس میں اس حدیث کے متواتر ہونے کا حکم لگایا ہے۔
12۔ ابوالعباس ابن عقدہ نے اس حدیث کو 150 سندوں سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی تالیف کی ہے۔ (منہج الوصول الیٰ اصطلاح احادیث الرسول صفحہ 12، 13، 93 مطبع شاہجہانی بھوپال) اور دیگر بہت سے نامور علماء نے اس حدیث کو صحیح و معتبر کہا ہے جن میں سے امام ترمذی نے اپنی ''سنن'' جلد 2 صفحہ 213، طبع دہلی، امام غزالی نے ''سر العالمین کشف ما فی الدارین'' صفحہ 9، المقالۃ الرابعۃ، طبع بمبئی، امام نووی نے ''فتاوی الامام النووی'' صفحہ 151، طبع دارالفکر دمشق، ابن حجر ہیتمی مکی نے ''صواعق محرقہ'' صفحہ42،122 طبع قاہرہ، علامہ مرزا محمد معتمد خان بدخشی نے کتاب ''نزل الابرار'' صفحہ 21 طبع بمبئی، علامہ برہان الدین حلبی نے ''سیرت حلبیہ'' جلد 3 صفحہ 308 اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ''لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح'' جلد 8 صفحہ 570 وغیرہ نے اس حدیث پر صحیح کا حکم لگایا ہے۔
لہٰذا یہ آپ کا بہت ہی طویل وعریض آخری خطبہ تھا کہ جس میں مسلمانوں کی باہمی وحدت ویگانگت کی اہمیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اگر ہم تمام مسلمان اس خطبہ غدیر کی روشنی سےاپنی زندگیوں کو منور کریں تو ہمارا معاشرہ صلح و سلامتی اور امن و آشتی کا مرقع بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غدیر ، تاریخ اہل بیت ؑ کا ایک انوکھا باب
از: پروفیسر عبد الحمید مدنی
رسول رحمت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کی تاریخ کا جس جہت سے بھی مطالعہ کیا جائے وہ،انوکھی اور نرالی ہے ، کہیں قربانیوں کی ان گنت داستانیں ، کہیں سخاوتوں کے بہتے دریا ، کہیں علم و حکمت کے بحر ہائے ناپید کنار اور کہیں زہد و تقویٰ کی اجلی کہکشائیں نظر آئیں گی۔ اُمت جس جہت سے رزق ِ ہدایت ونور حاصل کرنا چاہے اہل بیت علیہم السلام کی سلطنت کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھلے ہیں۔ نور ہدایت کے ان دروازوں میں سے ایک غدیر بھی ہے ، غدیر پر بہت کچھ لکھا گیا ، پڑھا گیا اور سنایا گیا۔ کہیں واقعاتی جزئیات کے رنگ بکھرے ہیں ، کہیں معجزاتی اسلوب کے آ
معمار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مزدور علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے مل کر لگایا تھا اس قصر عظیم ہنگ ، کسی نے جادو بیانی کا سہارا لیا اور کسی نے جذبات کی روانی پر تکیہ کیا ، یہ سارے انداز بسر وچشم لیکن راقم کے نزدیک دعوت ِ غدیر کا فلسفہ سمجھنے کے لیے دعوت ذوالعشیر کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ اس کے واقعاتی پہلووں اور ان کی جزئیات سے سب واقف ہیں۔یہاں صرف چند استدلالی اور استنباطی جہتوں کو سامنے لانا مقصود ہے ، اُمید ہے قارئین ِ گرامی کو سوچنے کے لیے چند نئے زاویے ہاتھ آئیں گے۔
1: دعوت ذوالعشیر دراصل منشائے ایزدی کے سائے میں تعمیر ہونے والے قصر نبوت کی بنیاد کی پہلی اینٹ تھی جسے اس قصر کے کے نقشہ کو وجود بخشنے کے لیے جس ہستی نے زمین فراہم کی اور اس کی تعمیر میں ایک سہولت کا ر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں تاریخ اہل بیت علیہم السلام اس ہستی کو ابو طالب کے نام سے یاد کرتی ہے۔
2۔ قصر نبوت کی بنیاد اور تعمیر کے مراحل میں مذکور تینوں شخصیات کے علاوہ چوتھا کوئی نظر نہیں آتا قصر نبوت کی تعمیر سے پہلے بھی ایک قصر کی تعمیر بہت مشہور ہے جسے تاریخ اسلام بیت اللہ کی تعمیر سے یاد کرتی ہے اس تعمیر میں معمار حضرت ابراہیم علیہ السلام اور مزدور حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے یہ تعمیر بھی منشائے ایزدی کے سائے تلے تھی اس کی تکمیل کا نکتہ منتہیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
3۔ ان دونوں کی تعمیر میں بہت فرق ہے جن کا احصاء مقصود نہیں بلکہ اہم فرق واضح کرنا مطلوب ہے کہ قصر ایزدی یعنی بیت اللہ کی تعمیر میں مقصود اصلی معمار تھا نہ مزدور بلکہ یہ کسی دوسری تکمیل کے لیے سہولت کار و معاون کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے تھے جبکہ قصر ایزدی کی تعمیر کے معمار اور مزدور دونوں مقصود مطلوب بھی تھے۔
4۔ قصر ایزدی کی تعمیر کا راز اس وقت کھلا جب قصر نبوت کی تکمیل کا نکتہ عروج علی المرتضیٰ کر م اللہ وجہہ اس میں متولد ہوئے یہی وجہ تھی کہ وہاں غیر اللہ کا وجود برداشت نہ ہوا معمار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی کعبۃاللہ کے بت توڑے اورمزدور قصر نبوت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے بھی کعبۃاللہ کے بت توڑے۔
قصر نبوت کی تعمیر وتکمیل میں شریک مزدور علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اس قصر کے نقشہ کی جملہ باریکیوں سے واقف تھے آپ کو بخوبی علم تھا کہ اس کا دشمن کہاں سے نقب لگا سکتا ہے اس لیے اس کی تکمیل کے بعد کی حفاظت و نگہبانی کا حق بھی آپ سے بہتر کوئی ادا نہیں کر سکتا تھا پھراس قصر کے معمار کو بھی اس کے مزدور پر اس قدر بھروسہ و اعتماد تھا کہ اس قصر سے بٹنے والی خیرات کا شہر اور اس مزدور کو اس کا دروازہ قرار دیا۔
ذوالعشیرہ کی دعوت جہاں دین کی بنیاد رکھنے کا اہتمام تھا وہاں قصر نبوت کی تکمیل کے آخری نکتہ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے تعارف کا اعلان بھی تھا مذکورہ بالا چند اہم نکات کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ نقشہ قصر نبوت کا رازداںعلی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ہی غدیر کے دولہا ہیں جن کے مقدس خون نے قیامت تک اس قصر نبوت کے نقشہ پر کی گئی تعمیر کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنی ہے چنانچہ قصر نبوت کے نقشہ پر کی گئی اس تعمیر میں ہزاروں یزیدوں نے نقب لگانے کی کوششیں کیں لیکن امام حسین علیہ السلام سے لے کر امام مہدی علیہ السلام تک غدیر کے دولہا کی اولاد نے ہر دور میں سب کچھ قربان کرکے اس کی حفاظت کا حق ادا کیا اور کرتے رہیں گے اسی لیے اس قصر نبوت کے معمار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا تھا ــ( جس جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں) دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قصر نبوت کے معمار اور علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اس کے محافظ ہیں۔
المختصر قصر نبوت کی تکمیل اس کے عظیم القدر معمار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ پر ہوتی ہے تو اس تکمیل پر شکر خداوندی کی ادائیگی لازمی تھی نیز اس کے جلیل الشان مزدور علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو بارگاہ خداوندی سے مزدوری بھی ملنا تھی لہذا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکمیل قصر نبوت پر وحی الہیٰ کے ذریعہ حکم دیا گیا کہ شکرانہ ِتکمیل کے طور پر مولائیت مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا اعلان کر دیں اور قصر نبوت کے جلیل القدرمزدور علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو مزدوری تعمیر کے طور پر کائنات کے جملہ مومنین کا مولا ہونے کی نوید جانفرا سنائی جائے۔
.......................
خطبہ غدیر خم
از: شیخ الحدیث مولانا سید لعل شاہ بخاری فاضل دیوبند
18 ذالحجہ 10 ہجری آنحضور صلی علیہ وسلم جب مناسک حج ادا کرنے کے بعد واپس مدینہ تشریف لارہے تھے، خُم نامی ایک مقام پر جو حجفہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے، ایک تالاب کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں پڑاؤ کیا اور نماز ادا کرنے کے بعد ایک اہم خطبہ دیا جسے علماء سیر وتواریخ خطبہ غدیر خُم کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ حج مختلف مواقع پر جو خطبات دیے ان میں وداع کا تذکرہ پایا جاتا ہے اور خطبہ غدیر خُم میں بھی آپ نے اپنے وداع کا تذکرہ فرمایا چنانچہ حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا:
ایّھا النّاس انّما اَنَا بشر یوشک ان یاتینی رسول ربی فاجیب
''اے لوگوں! بیشک میں ایک انسان ہوں عنقریب میرے پاس رب کا فرستادہ آئے گا اور میں اجابت کروں گا۔''
مقصود یہ ہے کہ میری رخصت کا وقت قریب آگیا ہے۔ پھر آپ نے بطور وصیت کچھ اشیاء کا تذکرہ فرمایا جو مختلف سندات سے مروی ہیں۔ اس خطبہ میں ان کلمات کا تذکرہ بھی ہے کہ انی تارک فیکم الثقلین احدھما کتاب اللہ ''بتحقیق میں تم میں دو وزن دار چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک ان میں اللہ کی کتاب ہے''۔ اس خطبہ میں اہل بیت کا تذکرہ بھی ہے (واہل بیتی) اور خطبہ غدیر خُم کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے متعلق فرمایا من کنت مولاہ فعلی مولاہ کہ جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے۔ اور بعض روایات میں یہ کلمات بھی پائے جاتے ہیں اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ جو علی کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو بھی اس کا دشمن ہو۔ اس خطبہ میں الفاظ من کنت مولاہ فعلی مولاہ کو حدیث موالاۃ یا حدیث ولایت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
علامہ ذہبی نے خود جناب علی المرتضیٰ علیہ السلام کے مناقب میں اس روایت سے استناد کیا ہے (تذکرہ الحفاظ، جلد1، صفحہ 10) نیز حاکم کے ترجمہ میں خطیب بغدادی کے نظریہ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اما حدیث من کنت مولاہ فلہ طرق جیدۃ وافردت ذالک ایضاََ حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے بہت سے طرق جیدہ ہیں، میں نے اس پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ تذکرۃ الحفاظ جلد 3، صفحہ 231۔
علامہ ابن حجر المکی الہیتمی فرماتے ہیں بیشک یہ حدیث صحیح ہے، اس میں شک کی بالکل گنجائش نہیں اور اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور اس کی بہت سی سندیں صحیح یا حسن درجہ کی ہیں۔ (صواعق محرقہ صفحہ 122، 42) حافظ نور الدین الہیتمی نے مجمع الزوائد جلد9 میں عنوان قائم کیا ہے کہ ''قولہ صلی اللہ علیہ وسلم من کنت مولاہ فعلی مولاہ '' اور صفحہ 103 اور صفحہ 109 تک بہت سی روایات لکھی ہیں اور بہت سی روایات پر صحت کا حکم لگایا ہے۔
علامہ آلوسی روح المعانی میں اس آیت یٰاایھا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ان اللہ لا یھدی القوم الکفرین۔ کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے کہ جس کی اسناد قوی جید ہے اور تمام رواۃ ثقہ ہیں۔ علامہ ذہبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث زید بن ارقم سے پایہ صحت کو پہنچی ہے اور علامہ ذہبی سے منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں من کنت مولاہ فعلی مولاہ متواتر ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات کہے ہیں۔ اللہم وال من والاہ کے کلمات کی زیادتی بھی قویۃ الاسناد ہے۔
قاضی ابوبکر ابن العربی ؒ فرماتے ہیں اما (اللہم وال من والاہ) فکلام صحیح دعوۃ مجابۃ (العواصم من القواصم صفحہ 192) حافظ ابن کثیر ارشاد فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں محفوظ روایت وہ ہے جسے امام احمدؓ نے حضرت بریدہؓ سے روایت کیا ہے من کنت مولاہ فعلی مولاہ (البدایۃ والنہایۃ جلد 7، صفحہ 343، نیز حافظ صاحب موصوف البدایۃ و النہایۃ جلد 5، صفحہ 346 تا 349 میں اور صفحہ 208 تا 214 میں اس روایت کی بہت سی سندات بیان کرکے بعض کی تصحیح کی ہے اور بعض کی تحسین کی ہے پھر فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ بھی یہ روایت بعض دیگر صحابہ ؓ سے مروی ہے لیکن ان کی اسانید ضعیف ہیں۔
محمد ابن السید درویش صاحب اسنی المطالب لکھتے ہیں کہ ''سنن ابو داؤد کے علاوہ دیگر اصحاب سنن، احمد ابن حنبل نے روایت کیا ہے جس کا میں مولا اس کا علی ولی ہے اسے احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے امام حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے (اسنی المطالب صفحہ 221) علامہ عجلونی لکھتے ہیں کہ اس کو طبرانی احمد اور ضیاء نے مختارہ میں حضرت زید ابن ارقم، حضرت علی اور تیس صحابی سے روایت کیا ہے پس یہ حدیث متواتر یا مشہور ہے (کشف الخفاء ومزیل الالباس جلد 2، صفحہ 274) ملا علی قاری ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں بلکہ بعض حافظان حدیث نے اس کو متواترات میں شمار کیا ہے۔
شیخ عبدالحق ؒ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے بلاشبہ اسے سولہ صحابہ کرام نے روایت کیا ہے اور اس کی زیادہ تر سندیں صحیح اور حسن ہیں (اشعتہ اللمعات جلد 4 صفحہ 660) اب حدیث غدیر سند کے ساتھ ملاحظہ فرمایئے چنانچہ محمد بن مثنی یحیی بن حماد سے، یہ ابو معاویہ سے، یہ اعمش سے، یہ حبیب بن ابوثابت سے، یہ ابوطفیل ؓسے اور یہ زید بن ارقمؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہوئے غدیر خم پر نزول فرمایا اور درختوں کے جھنڈ کے نیچے صفائی کا حکم دیا اور وہ جگہ صاف کی گئی تو فرمایا:
گویا مجھے دعوت دی گئی ہے اور میں نے اجابت کرلی یعنی میری رحلت کا وقت آگیا ہے اور میں تم میں دو وزن دار چیزیں چھوڑ چلا ہوں اللہ کی کتاب اور اپنی اولاد اہل بیت۔ پس تم دیکھو کہ تم میرے پیچھے ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہو۔ یہ دونوں باہم رہیں گی، جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملاقات کریں گی۔ اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا ولی ہوں پھر علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا من کنت مولاہ فھذا فعلی ولیہ اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ
اس روایت کے راویوں کا تعارف ملاحظہ ہو: محمد بن مثنی، یہ صحیحین (بخاری ومسلم) کا راوی ہے۔ (کتاب الجمع جلد 2، صفحہ 251) یحییٰ بن حماد، یہ صحیحین کا راوی ہے (کتاب الجمع جلد 2، صفحہ 559) ابو معاویہ، یہ صحیحین کا راوی ہے (کتاب الجمع جلد 2، صفحہ 437) الاعمش، یہ صحیحین کا راوی ہے (کتاب الجمع جلد 2، صفحہ 179) حبیب بن ابوثابت، یہ صحیحین کا راوی ہے (کتاب الجمع جلد 2، صفحہ 113) حضرت ابو طفیلؓ اور حضرت زید بن ارقم ؓ دونوں صحابی ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ ''السنن الکبریٰ'' کی یہ حدیث قطعاََ صحیح ہے اور بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔
سنن نسائی کی دوسری حدیث: بحوالہ خصائص مرتضوی صفحہ 48 (حدیث الثقلین والموالاۃ)
انبانا محمد بن المثنی قال حدثنا یحیی بن حماد قال اخبرنا ابو عوانہ عن سلیمان (یعنی ابن مہران الاعمش) حدثنا حبیب بن ابی ثابت عن ابی الطفیل عن زید بن ارقم قال۔۔ الخ
مثل روایت السنن الکبریٰ۔ اس حدیث کی سند کے تمام تر راوی سنن کبری کی حدیث کے راوی ہیں صرف ایک راوی کا فرق ہے کہ اس میں ابومعاویہ کے متبادل ابوعوانہ راوی ہیں اور ابو عوانہ بھی بخاری ومسلم کا راوی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس حدیث کے سارے راوی بھی صحیحین کے راوی ہیں اوریہ بھی قطعاََ صحیح ہے اور علی شرط الشیخین صحیح ہے۔
تنبیہ:
1۔ ان ہر دو حدیثوں میں (انی ترکت فیکم الثقلین) کے الفاظ بھی ہیں۔
2۔ ان ہر دو حدیثوں میں (من کنت مولاہ فھذا ولیہ) کے الفاظ بھی ہیں۔
3۔ ان ہر دوحدیثوں میں (اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ) کے الفاظ بھی ہیں۔
نسائی کی تیسری حدیث: محمد بن علاء فرماتے ہیں کہ میں نے ابومعاویہ سے، انہوں نے الاعمش سے، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، انہوں نے ابن بریدہ سے، انہوں نے اپنے باپ حضرت بریدہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من کنت مولاہ فعلی مولاہ
اس حدیث کے راویوں کا تعارف: محمد بن علاء، صحیحین (بخاری ومسلم) کا راوی ہے (کتاب الجمع جلد 2، صفحہ 247) ابو معاویہ اور اعمش دونوں صحیحین کے راوی ہیں، دیکھیں کتاب سنن نسائی کی پہلی حدیث، سعد بن عبیدہ، صحیحین کا راوی ہے (کتاب الجمع جلد 1، صفحہ161) ابن بریدہ، صحیحین کا راوی ہے (کتاب الجمع جلد 2، صفحہ 247) اور حضرت بریدہ الاسلمیؓ صحابی رسول ہیں۔ اس حدیث کے تمام راوی بخاری اور مسلم کے راوی ہیں لہٰذا یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔
.......................
اعلان غدیر اور وحدت اُمت
از: اظہر علی عابدی
اسلام ہدایت انسانی کےلیے اللہ کا آخری اور مکمل پیغام ہے۔ توحید باری تعالیٰ اور رسالت و ہدایت کے ساتھ ساتھ اسلام نے جس بات کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے وہ وحدت امت اور اتحاد و احترام انسانیت ہے۔ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا ''تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں''۔ گویا خلقت میں انسان ہونے کے ناتے سب برابر ہیں۔
اسی تصور کو امیرالمومنین حضرت علیؑ نے اپنے ایک عہدنامے میں جسے مالک اشتر کو مصر کا گورنر بناتے ہوئے ان کے حوالے کیا تھا، اس طرح فرمایا تھا ''دو قسم کے لوگ ہیں: ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوقِ خدا'' پس مولا علی دونوں کے حقوق کی نگہداری کا فرما رہے ہیں۔ امام علی کا یہی قول بڑے بڑے استقبالی بینرز کی صورت نجف اشرف میں آوایزاں کیا گیا، جب گذشتہ دنوں پوپ فرانسس آیت اللہ سیستانی سے ملے، کیونکہ وہ آیت اللہ سیستانی کی جانب سے عراق کے مسیحی بھائیوں کے حقوق کے دفاع میں دیے گئے فتوے کے تشکر کے طور پر ان کے پاس گئے۔
ہدایت انسانی کےلیے اللہ کے مکمل پیغام قرآن پاک میں پوری نسل انسانی کو ایک رشتے میں پروتے ہوئے خالق کائنات نے اس طرح بیان کیا:
''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ پیغام لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کےلیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی'' (سورہ المائدہ، آیت 32)۔
اسی طرح قرآن نے اہل کتاب کو مشترکہ عقیدے پر اتحاد و وحدت کا پیغام دیا ''کہہ دیجئے: اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں۔'' ( سورہ آل عمران، آیت 64)
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے جب تمام انسانیت کو ایک رشتے میں پرونے کی بات ہورہی ہے تو اپنی امت کےلیے ان کا آخری خطبہ پیغام وحدت سے خالی نہیں ہوگا۔
جلیل القدر محدثین و مفسرین کے مطابق اللہ کے آخری نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اصحاب کو اکٹھا ہونے کا اعلان فرماتے ہیں اور ایک خطبہ ارشاد کرتے ہوئے یہ اعلان فرماتے ہیں: ''اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے اولی ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔'' بقول امام احمد بن حنبل ؒ علیہ رسول اللہ یہ اعلان چار مرتبہ فرما کر اس کی انتہائی اہمیت کو باور کرواتے ہیں۔
''حضرت علی مرتضیٰ ؓ کےلیے ایک گو نہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقاماتِ وِلایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور انہی جیسے باقی خدمات ''آپ کے زمانہ سے لے کر دنیا کے ختم ہونے تک'' آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں۔ اہلِ وِلایت کے اکثر سلسلے بھی جنابِ مرتضیٰ ؓ ہی کی طرف منسوب ہیں، پس قیامت کے دن بہت فرمانبرداروں کی وجہ سے جن میں اکثر بڑی بڑی شانوں والے اور عمدہ مرتبے والے ہوں گے، حضرتِ مرتضیٰ ؓ کا لشکر اِس رونق اور بزرگی سے دکھائی دے گا کہ اس مقام کا تماشا دیکھنے والوں کےلیے یہ امر نہایت ہی تعجب کا باعث ہوگا۔'' (شاہ اسماعیل دہلوی، صراطِ مستقیم)
یہ فیضِ وِلایت کہ اُمتِ محمدی میں جس کے منبع و سرچشمہ سیدنا علی المرتضیٰؓ مقرر ہوئے اس میں سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراؑ اور حضرات حسنین کریمین ؑ بھی آپؓ کے ساتھ شریک کیے گئے ہیں، اور پھر اُن کی وساطت سے یہ سلسلۂ وِلایتِ کبریٰ اور غوثیتِ عظمیٰ اُن بارہ اَئمۂ اہلِ بیت میں ترتیب سے چلایا گیا۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں: ''اور ایک راہ وہ ہے جو قربِ وِلایت سے تعلق رکھتی ہے: اس راہ میں توسط ثابت ہے اور اس راہ کے واصلین کے پیشوا اور اُن کے سردار اور اُن کے بزرگوں کے منبعِ فیض حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم ہیں، اور یہ عظیم الشان منصب اُن سے تعلق رکھتا ہے۔ اس راہ میں گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قدم مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مبارک سر پر ہیں اور حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اِس مقام میں اُن کے ساتھ شریک ہیں۔ اور ان بزرگوں کے زمانہ میں اور اِسی طرح ان کے انتقال کے بعد جس کسی کو بھی فیض اور ہدایت پہنچی ہے انہی بزرگوں کے ذریعہ پہنچی ہے، اگرچہ اقطاب و نجبائے وقت ہی کیوں نہ ہوں اور سب کے ملجا و ماویٰ یہی بزرگ ہیں کیونکہ اطراف کو اپنے مرکز کے ساتھ الحاق کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔'' (امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، 3 : 251، 252، مکتوب نمبر: 123)۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام بھی کارِ ولایت میں حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے ساتھ شریک ہوں گے۔ (امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، 3 : 251، 252، مکتوب نمبر : 123)
یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں علم و ہدایت کے حصول کےلیے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے کسب فیض کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں۔ حدیث پاک ''میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں'' ایک مستند و معتبر حدیث ہے، جو ولایت علی کو علمی کسب فیض کے حوالے سے واضح کررہی ہے۔ ہمیں احادیث اور سیرت و تاریخ سے اس کے حوالے جابجا ملتے ہیں۔ اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا میں مومنین کا ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا۔ اس حدیث کو طبرانی نے ''المعجم الاوسط'' میں روایت کیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کے ارشادات پر مشتمل کتاب نہج البلاغہ خطبہ 133 میں موجود ہے کہ جب ارض روم کی طرف لشکر بھیجتے ہوئے حضرت عمر نے لشکر کے ساتھ اپنے جانے کے حوالے سے رہنمائی چاہی تو آپ نے فرمایا: اگر خود ان دشمنوں کی طرف بڑھے اور ان سے ٹکرائے اور کسی افتاد میں پڑگئے تو اس صورت میں مسلمانوں کےلیے دور کے شہروں کے پہلے کوئی ٹھکانا نہ رہے گا اور نہ آپ کے بعد کوئی ایسی پلٹنے کی جگہ ہوگی کہ اس کی طرف پلٹ کر آسکیں۔ آپ ان کی طرف (اپنے بجائے) کوئی آدمی بھیجو اور اس کے ساتھ اچھی کارکردگی والے اور خیر خواہی کرنے والے لوگوں کو بھیج دو۔ اگر اللہ نے غلبہ دے دیا تو آپ یہی چاہتے ہو اور اگر دوسری صورت (شکست) ہوگئی تو آپ لوگوں کےلیے ایک مددگار اور مسلمانوں کےلیے پلٹنے كا مقام ہوگے۔'' حضرت عمرؓ نے ایسا ہی کیا۔
اس جیسے اَن گنت واقعات تمام امت مسلمہ پر حجت ہیں کہ جب خلافت راشدہ کے دور میں اہم اور فیصلہ کن واقعات میں حضرت علیؓ سےمشورہ لیا جاتا تھا اور آپ مشورہ دیا کرتے تھے تو آج بھی مولا علی سے فیض حاصل کرتے ہوئے امت وحدت کی لڑی میں پروئی جانی چاہیے۔
مولانا طارق جمیل
حضرت علیؑ کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ــ" من کنت مولاہ فعلی مولاہ" جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے ۔ اور یہاں مولا سے مراد دوست نہیں ہے ۔ عام دوست کا ترجمہ کرتے ہیں ، (اس کا ترجمہ ہے) آقا، سردار ۔ جس کا میں سردار ہوں، علی اس کے سردار ہیں۔۔۔۔ مجھے خیال آیا کہ ہمیں حضرت علی ؑ نہیں کہنا چاہیے ہمیں مولا علی ؑ کہنا چاہیے کہ میرے نبی ان کو ہمارا مولا بنا کے گئے ہیں۔۔۔ میں اب حضرت علیؑ نہیں کہتا ، میں کہتا ہوں مولا علی ، کہ ا ن کا حق ہے۔
You May Like
نسخہ بمطابق 11:38، 13 جون 2025ء
حجۂ الوداعاسلام پورے جزیرۂ العرب میں پھیل چکا تھا۔ لوگ یکے بعد دیگرے تقریباً سبھی قبائل مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالٰی کی طرف سے سورۂ فتح نازل ہوئی۔ جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اشارہ کے طور پر آگاہ کیا گیا تھا کہ آپ کا کام اب مکمل ہو گیا ہے چنانچہ آپ نے وصال سے پہلے تعلیمات اسلامیہ کو سارے عرب تک پہنچانے کے لیے حج کا ارادہ فرمایا مدینہ میں اعلان فرما دیا گیا کہ اس مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود حج کی قیادت فرمائیں گے۔ اس لیے تمام عرب سے مسلمان اُس میں شریک ہوں۔ اطراف عرب سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس شرف کو حاصل کرنے کی خاطر مدینہ پہنچی۔ ذوالحلیفہ کے مقام پر احرام باندھا گیا تو لبیک اللہم لبیک کی آواز سے فضا گونج اٹھی اور فرزندانِ توحید کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حج بیت اللہ کی غرض سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوا۔
اعمال
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر مرحلہ کے مناسک سے مسلمانوں کو آگاہ کیا حج کی رسومات میں سے جو مشرکانہ رسوم باقی تھیں ختم کر دی گئیں ہیں اور صدیوں کے بعد خالص ابراہیمی سنت کے مطابق فریضہ حج ادا کیا گیا۔ آپ نے مقام سرف میں قیام فرمایا۔ مقام ابراہیم میں دو رکعت نماز پڑھی اور اس کے بعد تعلیمات اسلامیہ کو لوگوں کے سامنے پیش فرمایا۔ توحید و قدرت الٰہی کا اعلان آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر فرمایا:
"خدا کے سوا کوئی اقتدار اعلٰی کا حامل اور لائق پرستش و بندگی نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کے لیے سلطنت ملک اور حمد ہے وہ مارتا ہے اور جلاتا ہے۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے۔ کوئی خدا نہیں مگر وہ اکیلا۔ خدا نے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے تمام قبائل کو شکست دی۔"
کوہ صفا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ مروہ پر مناسک حج طواف و سعی ادا کیے اور 8 ذوالحجہ کو مقام منٰی میں قیام فرمایا۔
خطبہ حجۂ الودع
تفصیلی مضمون کے لیے خطبہ حجۃ الوداع ملاحظہ کریں۔
خطبہ حجۃ الودع کی اہمیت
یہ خطبہ تمام دینی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس کا نقطہ آغاز اللہ اور اس کے بندے کے درمیان صحیح تعلق کی وضاحت کرتا ہے اور بھلائی کی تلقین کرتا ہے۔
خطبۂ حجۃ الوداع اسلام کے معاشرتی نظام کی بنیادیں مہیا کرتا ہے۔ معاشرتی مساوات، نسلی تفاخر کا خاتمہ، عورتوں کے حقوق، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت کا احترام، یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر اسلام کا معاشرتی نظام ترتیب پاتا ہے۔
اس خطبہ نے معاشی عدم توازن کا راستہ بند کرنے کے لیے سود کو حرام قرار دیا کیونکہ سود سرمایہ دار طبقہ کو محفوظ طریقہ سے دولت جمع کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور ان کی تمام افائش دولت سودی سرمائے کے حصول ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
خطبۂ حجۂ الوداع نے بہت سے اہم قانونی اصول متعین کیے ہیں۔ مثلاً انفرادی ذمہ داری کا اصول وراثت کے بارے میں ہدایت۔
سیاسی طور پر خطبہ اسلام کے منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر کو اس خطبہ کے ذریعہ بتایا گیا کہ اسلامی حکومت کن اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائے گی۔ اور ان اصولوں پر تعمیر ہونے والا یہ نظام انسانیت کے لیے رحمت ثابت ہوگا۔ اسی بنا پر ڈاکٹر حمید اللہ اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسے انسانیت کا منشور اعظم قرار دیا ہے
یہ ہمارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا آخری پیغام ہے اور اس میں ہم ہی مخاطب بنائے گئے ہیں۔ اس کی نوعیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کی سی ہے۔ اس کے ایک ایک بول پر حضور نے درد بھرے انداز سے آواز بلند کی ہے۔ کہ میں نے بات پہنچا دی ہے لہٰذا لازم ہے کہ اسے پڑھ کر ہماری روحیں چونک جائیں۔
ہمارے جذبے جاگ اٹھیں۔ ہمارے دل دھڑکنے لگیں۔ اور اہم اپنی اب تک کی روش پر نادم ہو کر اور کافرانہ نظاموں کی مرعوبیت کو قلاوہ گردنوں سے نکال کر محسن انسانیت کا دامن تھام لیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک دعوت انقلاب ہے۔
خطبۂ حجۃ الوداع ایک عالمی منشور
خطبۂ حجۃ الوداع دنیا بھر کے خطبوں میں الگ شان رکھتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایک خطبے میں اسلام کا پورا منشور بیان فرما دیا ہے۔ یہ خطبہ عرفات کے میدان میں اس وقت دیا گیا جب ایک لاکھ سے زائد جانثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبروموجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" اے لوگو! میں جو کچھ کہوں اسے غور سے سنو، شاید آئندہ سال اور اس کے بعد پھر کبھی یہاں تم سے ملاقات نہ ہو سکے۔"
پھر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے درج ذیل آٹھ عنوانات پربات فرمائی:
حقیقی روشن خیالی
انسانی جان کی حرمت
ادائے امانت
سود کی حرمت
قتل و قتال کی ممانعت
عملِ صالح
حقوقِ زوجین کا تحفظ
گمراہی سے حفاظت
دورِ حاضر میں روشن خیالی کا بڑا چرچا ہے۔ مسلمانوں کو رجعت پسند اور بنیاد پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے، لیکن ہمارے نبی نے جس روشن خیالی کا درس آج سے چودہ سو برس قبل دیا تھا، اس کے مطابق دورِ حاضر کی روشن خیالی، جہالت کا دوسرا نام ہے، مثلاً آج کی روشن خیالی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی عمر تقریباً سوا دو سو سال ہے۔ اس کی ابتدا انقلابِ فرانس سے ہوئی جب یورپ نے اپنی تمام فرسودہ باتوں سے جان چھڑا لی اور اپنی روایات، اپنی تہذیب حتیٰ کہ اپنے مذہب تک سے پیچھا چھڑا لیا، انسانی خواہشات کو اپنا حکمران بنا لیا اور درج ذیل کام کیے:
مذہب ہر انسان کاذاتی معاملہ ٹھہرا۔
قتلِ عام کو دہشت پسندی کے خلاف جنگ کا نام دے کر امن کے بخیے اُدھیڑ دئیے گئے۔
گھر کی ملکہ عورت کو پاکیزگی کی دہلیز سے کھینچ کر کلبوں کے میدان میں کھڑا کر دیا گیا اور اسے حقوقِ نسواں کا حسین عنوان دیا گیا، نیز اسے پیسہ کمانے کی مشین بنا دیا۔
عریانی و فحاشی کا نام کلچر رکھ دیا گیا۔
سود کو منافع اور پرافٹ کا نام دے کربینکوں کا کاروبار بڑھایا گیا، نیز سرمایہ دارانہ نظام کو ورلڈ آرڈر کا نام دے کر دنیا پر ٹھونسنے کی کوشش کی گئی۔
انسانی اخلاق کی قدر وقیمت گرا دی گئی اور ہر مسئلے کا حل روپیہ کمانا ٹھہرا۔
خیانت اور دھوکے بازی کو سیاست کی پیکنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
یہ تھا مغرب کی روشن خیالی کا تصور، جبکہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ان تمام اقدار کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے فرمایا تھا: "میں نے جاہلیت کی تمام روایات اپنے قدموں تلے روند دی ہیں۔" اس ایک جملے میں آپ نے شرک، زنا، جوا، سود، بے حیائی، قتل، حق تلفی، تمام جاہلی معاملات کو یکسر ختم فرما دیا۔
مسلمانوں کے ہاں روشن خیالی‘ ربِ ذوالجلال کے حکم کے سامنے اپنی خواہشات کو دبادینے کا نام ہے، جبکہ اہلِ مغرب کے نزدیک معاشرے میں جنم لینے والے منتشر خیالات روشن خیالی ہیں، چنانچہ وہ ایسی اشیاء کو قانون کا حصہ بنا لیتے ہیں، اگرچہ اخلاقی اعتبار سے کتنی ہی گری ہوئی ہوں، جیسے ہم جنس پرستی کے جواز کا قانون، وغیرہ۔
مذہبی رواداری
دوسری چیز جسے اہلِ مغرب اپنے لیے فخر کی چیز سمجھتے ہیں وہ ہے دہشت گردی کے خلاف قتلِ عام، جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں بھی لائحہ عمل تجویز فرمادیا۔ فرمایا: "اے لوگو! تم پر ایک دوسرے کی جان و مال تا قیامت حرام ہیں، جس طرح آج کے دن اور اس مہینہ ذوالحجہ میں ایک دوسرے کی بے حرمتی نہیں کرتے۔"
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوسرے مذاہب کے افراد، خواتین، بچے، بوڑھے حتیٰ کہ زمینوں اور فصلوں تک کے حقوق متعین فرمادئیے اور انہیں بلا ضرورت کاٹنے، اور جلانے سے منع فرما دیا۔ فتح مکہ کے عظیم موقع پر اپنے جانی دشمنوں کو ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ (آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا) کی خوشخبریوں سے نواز دیا، حتیٰ کہ اپنے دشمن امیہ بن خلف کے بیٹے ربیعہ کو اسی خطبۂ حجۃ الوداع کا مُکبّر بنادیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ بلند آواز سے لوگوں تک انہی ربیعہؓ نے پہنچایا۔
مغربی اور اسلامی حقوق انسان کا بنیادی فرق
جبکہ تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیں تو دنیا کے بڑے بڑے انقلابات میں کروڑوں انسان ’’امن‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ انقلابِ فرانس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے، پہلی جنگ عظیم میں کم از کم ایک کروڑ انسان قتل ہوئے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلاب میں طرفین کے صرف ایک ہزار اٹھارہ (۱۰۱۸) آدمی موت کی نیند سوئے۔ پھر یہ انقلاب ایسا پُر اثر تھا کہ اس کی گونج آج بھی پوری قوت سے اطرافِ عالم میں سنائی دے رہی ہے۔
تیسری چیز جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی وہ ادائے امانت ہے۔ اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جس کسی کے پاس دوسرے کی امانت جمع ہو اس کے مالک کو لوٹا دی جائے۔"۔
نیز فرمایا: "اے لوگو! میری بات گوشِ ہوش سے سنو! دیکھو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور اس رشتہ کی وجہ سے کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان بھائی کی کسی شے پر اس کی اجازت کے بغیر تصرف روا نہیں ہے، ورنہ یہ ایک دوسرے پر ظلم ہو جائے گا۔"
سودی نظام کا خاتمہ
چوتھی چیز سود ہے جس کے خاتمے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے بارے میں یہ حکم فرمایا:
"آج سے ہر قسم کا سود ختم کیا جاتا ہے راس المال کے سوا۔ نہ تم ایک دوسرے پر ظلم کرو، نہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے ہی سود کو ممنوع فرما دیا ہے۔(میرے چچاحضرت) عباسؓ کا جو سود دوسروں کے ذمہ واجب الادا ہے، اسے موقوف کیا جاتا ہے۔"
انگریزی کے مشہور مقولے’’ Charity begins at the home ‘‘ کے تحت سود کے خاتمے کی ابتدا اپنے گھر سے کی اور پھر اسلام میں سود کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
پانچویں چیز جس کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا، وہ قتل و قتال کی حرمت ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر سے اس کی ابتدا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’جاہلیت کے مقتولین کا قصاص و دیت دونوں کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے میں ہی بنو ہاشم کے (ایک بچے) ابن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا بدلہ اور دیت معاف کرتا ہوں۔‘‘
نیز یہ بھی فرمایا:
عمل صالح فضیلت کا معیار
"اے لوگو! تم پر ایک دوسرے کی جان اور اسی طرح مال ہر ایک قیامت تک حرام ہے، جیسا کہ آج کے دن اور اس مہینہ میں تم کسی قسم کی بے حرمتی نہیں کر سکتے۔"
چھٹی چیز جس کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں فرمایا، اخلاقِ حسنہ، تقویٰ اور اعمالِ صالح ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع دیتے ہوئے اس بات کی طرف نشاندہی فرمائی کہ: ’’غور سے سنیے! اب عرب میں شیطان کی پرستش نہ کی جائے گی، لیکن اس کی پرستاری کی بجائے اگر شیطان کی صرف اطاعت ہی کی گئی تب بھی وہ بہت خوش ہوگا، اس لیے دینی امور میں شیطانی وساوس کو اپنے قریب نہ آنے دو۔"
نیز فرمایا: "اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں ہے، کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں ہے، ہاں! البتہ تقویٰ کی بنیاد پر (ان کو ایک دوسرے پر فضیلت ہوسکتی ہے)۔"
اسلام کے اسی سنہری اصول کی وجہ سے حبشی بلالؓ کو سیدنا بلالؓ کہہ کر پکارا گیا اور عطاء بن ابی رباحؒ جیسے سادہ شکل والے کے سامنے امیرالمومنین سلیمان بن عبدالملک بھی زانوئے تلمذ تہہ کرنا فخر سمجھتے تھے۔
ایک عجمی النسل محمد بن اسماعیل بخاریؒ کو امیر المومنین فی الحدیث کہا گیا اور ایک فارسی النسل امام غزالیؒ کے فلسفے کی دھوم چہار دانگ عالم میں ہے اور ایک غیر عرب نعمان بن ثابتؒ امام اعظم کہلاتا ہے، جبکہ ایک عربی النسل ہاشمی خانوادے کے فرزند ابولہب، اپنے زمانے کے ابوالحکم، عمرو بن ہشام (ابو جہل)کو انہی کی کیٹگری کے لوگ بھی اچھے الفاظ میں یاد کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔
ساتویں چیز جس کا ذکر اپنے خطبہ میں فرمایا، وہ خاندانی نظام کا تحفظ ہے۔
اسلام اور مغرب میں حقوق نسواں کا تصور
مغرب اپنے حقوقِ نسواں کے نعرے پر بہت زور دیتا ہے۔ مغرب کا دعویٰ ہے کہ ہم نے عورت کو وہ حقوق دئیے ہیں جو اس سے پہلے کسی نے بھی اسے عطا نہیں کیے، لیکن غور کیا جائے تو مغرب نے عورت کو بجائے حقوق دینے کے اسے انہی خطوط پر چلانے کی سعی کی ہے جنہیں اسلام نے چودہ سو سال قبل جہالت کہہ کر پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔
ذرا غور فرمائیں! مغرب‘ عورت کو گھر کی دہلیز سے کھینچ کر سرِ بازار لے آیا ہے، مغربی مفکرین نے عورت کو مرد کے ہم پلہ قرار دیا، نتیجۃً مغرب نے عورت سے اس پر دوگنا بوجھ لاد دیا ہے۔
ایک تو وہ بوجھ ہے جو اس پر فطرتاً مسلط ہے، یعنی گھریلو امور کی نگرانی، بچے جننا، اور ان کی پرورش کرنا، وغیرہ، یہ کام مرد نہیں کر سکتا اور دوسرا بوجھ کمائی کرنا، نوکریاں کرنا، ڈیوٹیاں سرانجام دینا، وغیرہ، جبکہ اسلام نے دونوں فریقوں کے حقوق متعین کردئیے۔ اسلام نے مرد و عورت کو گاڑی کے دو پہیے قرار دیا، جس کی وجہ سے زندگی کی گاڑی کا چلنا نہایت آسان ہوگیا، جبکہ مغرب نے برابر کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ کر دونوں پہیے گاڑی کی ایک ہی سمت میں لگادئیے، چنانچہ ان کا گھریلو نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، جس کا اقرار اب خود مغربی مفکرین بھی کر رہے ہیں۔
عورت‘ جسے یونانیوں نے سانپ، سقراط نے فتنہ، قدیس جرنا نے شیطانی آلہ اور یوحنا نے شر کی بیٹی اور امن وسلامتی کی دشمن لکھا، جب گھر سے باہر نکلی تو اپنی حشر سامانیوں سمیت نکلی، مردوں کے سفلی جذبات کی تسکین ہوئی اور بے حیائی نے جڑ پکڑ لی، جب کہ اسلام نے اسی عورت کے قدموں تلے جنت بتلائی اور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے حقوق وضع کر کے اس کی باقاعدہ حیثیت متعین کر دی۔
خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ ارشاد فرمایا: ’’میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے جواب دہ ہیں، نیزکسی عورت کے لیے غیر مرد کو اپنے قریب کرنے کا حق نہیں، ورنہ شوہر کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی۔‘‘
اور یہ کہ ’’عورتوں کو بے حیائی کے ارتکاب سے مطلقاً کنارہ کش رہنا چاہیے، اگر ان سے یہ قصور ہو جائے تو ان کے شوہر انہیں بدنی سزا دے سکتے ہیں، مگر وہ سزا ضربِ شدید کی حد کے قریب نہ پہنچ جائے، (یعنی بدن پر داغ نہیں پڑنا چاہیے)۔ اگر عورتیں ایسا لا اُبالی پن چھوڑدیں تو دستورِ عام کے مطابق ان کے خوردونوش اور ان کے لباس کا پورا لحاظ رکھو اور ان کے معاملہ میں حسنِ سلوک سے ہاتھ نہ کھینچو، وہ تمہارے نکاح میں آجانے سے تمہاری پابند ہو جاتی ہیں اور (ان معنوں میں) اپنے نفس کی مالک نہیں رہتیں، لیکن تم بھی خیال رکھو کہ آخر کلمہ ایجاب و قبول کے ساتھ ہی تو تم نے اللہ کی اس امانت کو اپنی تحویل میں لیا ہے اور انہی کلمات کے ساتھ انہیں خود پر حلال کیا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ کے آخر میں اپنی اُمت کو گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے یہ جملہ ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! غور سے سنو! جو کچھ تم سے کہہ رہا ہوں اس کی وضاحت کے لیے جو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے تو کبھی ٹھوکر نہ کھاؤ گے۔ وہ چیز بجائے خود نہایت واضح ہے اور وہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت ہے۔‘‘
کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک ایسی چیز ہے جس پر عمل کر کے کوئی بھی فتنوں و شرور سے بچ سکتا ہے اور راہِ جنت کا راہی بن سکتا ہے۔
سب سے آخر میں ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! تو سن رہا ہے کہ میں نے اپنا فرض ادا کردیا۔‘‘ اور ہر طرف سے آوازیں بلند ہوئیں : ’’اللّٰھم اشہد، اللّٰھم اشہد‘‘ (یا اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فرض ادا فرما دیا)۔ اب ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس پر کتنے عمل پیرا ہوتے ہیں؟[1]۔
غدیر کی فضاؤں میں اعلانِ ولایت علیؑ کی گونج
بلاشک و شبہ یہ حدیث صحیح ہے بلکہ بعض حفاظ نے اسے متواتر شمار کیا ہے
جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔
من کنت مولاہ فعلی مولاہ
آقائے دو جہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے 10 ہجری کو آخری حج کا ارادہ فرمایا۔ لوگوں میں منادی کرادی گئی تو تمام مسلمان حج کےلیے جمع ہوئے۔ آپؐ نے ہجرت کے بعد اس حج تک کوئی دوسرا حج ادا نہیں فرمایا تھا۔
جب رسول محتشم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مناسک حج ادا کرکے واپس ہوئے تو 18 ذی الحجۃ بروز جمعرات مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقام غدیر خم پر پہنچے تو وہاں جناب جبرائیل امین اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر نازل ہوئے۔
"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ" [2]۔
اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپؐ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا
حضرت براء بن عازبؓ کی روایت
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ غدیر خم کے میدان میں پہنچے ہمارے درمیان منادی کرائی گئی الصلوٰۃ جامعہ اور دو درختوں کے پیچھے حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کےلیے پردہ بنایا گیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے نماز ظہر ادا فرمائی۔ نماز کے فوراً بعد خطبہ شروع کیا اورحضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
الست اولی بکم من انفسکم؟ قالو ابلی۔ قال فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اللھم و ال من والاہ و عاد من عاداہ
کہ کیا میں تمہاری جانوں سے بھی زیادہ ان پر حق تصرف نہیں رکھتا ہوں؟ تمام صحابہ کرامؓ نے کہا جی ہاں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ مولا ہے۔ اے اللہ تو اس کے ساتھ محبت کر جو علیؑ سے محبت کرے اور اس کے ساتھ عداوت رکھ جو علیؑ سے عداوت رکھے۔
محدث ابن شاہین بغدادی
محدث ابن شاہین بغدادی متوفی 385 ھ نے اپنی کتاب شرح مذاہب اہل السنۃ صفحہ 103 پر لکھا ہے کہ کم و بیش سو صحابہ کرامؓ جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں، نے خطبہ غدیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث ثابت ہے میں (ابن شاہین) اس حدیث میں کوئی جرح نہیں پاتا۔ حضرت علی علیہ السلام کی اس فضیلت میں دوسرا کوئی ایک بھی شریک نہیں ہے۔ مزید برآں حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ غدیر سے فارغ ہوئے تو حضرت عمرؓ نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اے ابو طالب کے بیٹے آپ کو مبارک ہو کہ آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے مولا و آقا بن گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
"اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا" [3]۔
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے [4]۔