"حزب اللہ لبنان" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 74: سطر 74:


دوسری جانب مقبوضہ علاقوں کے سرحدی قصبے کریات شمونہ کے میئر نے آج ایک بیان میں لبنان کی حزب اللہ کے خلاف صیہونی لیڈروں کی گیدڑ بھبکیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: کیا حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اسرائیل لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنے کے لئے التماس کرنے لگا ہے؟!<ref>صیہونی رجیم کی حزب اللہ کے خلاف گیدڑ بھبکیاں!،[https://ur.mehrnews.com/news/1921976/%D8%B5%DB%8C%DB%81%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%B1%D8%AC%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D8%B2%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%DA%AF%DB%8C%D8%AF%DA%91-%D8%A8%DA%BE%D8%A8%DA%A9%DB%8C%D8%A7 mehrnews.com]</ref>۔
دوسری جانب مقبوضہ علاقوں کے سرحدی قصبے کریات شمونہ کے میئر نے آج ایک بیان میں لبنان کی حزب اللہ کے خلاف صیہونی لیڈروں کی گیدڑ بھبکیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: کیا حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اسرائیل لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنے کے لئے التماس کرنے لگا ہے؟!<ref>صیہونی رجیم کی حزب اللہ کے خلاف گیدڑ بھبکیاں!،[https://ur.mehrnews.com/news/1921976/%D8%B5%DB%8C%DB%81%D9%88%D9%86%DB%8C-%D8%B1%D8%AC%DB%8C%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D8%B2%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%81-%DA%AF%DB%8C%D8%AF%DA%91-%D8%A8%DA%BE%D8%A8%DA%A9%DB%8C%D8%A7 mehrnews.com]</ref>۔
 
== حزبُ الله کے جنرل سیکریٹری سید مقاومت حسن نصرُالله کے پوتے شہید ==
حزبُ اللہ نے اعلان کیا ہے کہ عباس خلیل جو سید مقاومت کے پوتے ہیں وہ بھی اُن جنگجووں میں سے ایک ہیں جو یروشلم کے راستے پر شہید ہوگۓ ہیں۔
سید مقاومت کے بیٹا بھی 1997 میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شہید ہو گۓ تھے، جس پر حسن نصراللہ نے کہا تھا ” مجھے اپنے بیٹےکی شہادت پر فخر ہے۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 17:59، 5 مارچ 2024ء

المقاومه.jpg

حزب اللہ لبنان میں شیعوں کی ایک طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم ہے۔ ایران کی حمایت سے 1980ء میں تشکیل پانے والی اس تنظیم نے لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلاء کے لیے جدوجہد کی۔ اس تنظیم کو مئی 2002ء میں اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس عمل کے پس منظر میں جماعت کی عسکری شاخ اسلامی مزاحمت یا اسلامک ریزسسٹینس کا ہاتھ تھا۔ لبنان پر اسرائیلی قبضے کے بعد علما کے ایک چھوٹے سے گروہ سے ابھرنے والی اس تنظیم کے مقاصد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت جنگ، لبنان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء، لبنان کی کثیر المذہبی ریاست کی جگہ ایرانی طرز کی اسلامی ریاست کی تشکیل ہے۔ لبنان میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور یہ تنظیم لبنان کے شیعوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ لبنان سے اسرائیلی فوجوں کے انخلاء سے اس تحریک نے عام لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ اس وقت لبنان کی پارلیمان میں اس تنظیم کے امیدواروں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ حزب اللہ سماجی، معاشرتی اور طبی خدمات کے حوالے سے لوگوں میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ اس تنظیم کا اپنا ٹی وی سٹیشن المنار کے نام سے قائم ہے۔ اس تنظیم کا موجودہ سربراہ سید حسن نصر اللہ ہے۔

حزب اللہ کی تشکیل

طالبان کی طرح حزب اللہ کے جنم کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ ایک مکتبہ فکر کے مطابق 20ویں صدی کے چھٹے عشرے میں ذرائع مواصلات میں بے پناہ ترقی کی وجہ سے لبنان سے مسلمان بھی عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہونے لگے۔ کچھ لبنانی مسلمان فلسطین کی آزادی کی مختلف تحریکوں سے وابستہ ہوگئے جبکہ بعض ممتاز شیعہ عالم امام موسی صدر کی مسلمانوں کی فلاح کے لیے تشکیل دی گئی تنظیم حرکت المحرومین میں شامل ہوگئے۔ امام موسی صدر 15 مئی 1928ء کے ایران کے شہر قم میں پیدا ہوئے۔ 1956ء میں انہوں نے اسلامی فقہ و قانون میں ڈگری حاصل کی اور مختلف مذہبی اداروں میں مذہب کی تعلیم دیتے رہے۔ 1960ء میں وہ لبنان کے شہر طائر میں آباد ہوگئے۔ وہ مذہبی تعلیم دینے کے علاوہ لبنان میں شیعہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ 1974ء میں حرکت المحرمین کے جھنڈے تلے انہوں ںے دیہی علاقوں میں پسماندگی کے خاتمے میں لبنانی حکومت کی عدم دلچسپی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران انہوں نے الامل نامی تحریک کا آغاز کیا جو حرکت المحرومین کی ذیلی تنظیم تھی۔ 1978ء میں دورہ لیبیا کے دوران وہ پر اسرار طور پر لاپتہ ہوگئے جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی علم نہ ہوسکا۔

حرکت الامل، حرکت المحرومین کا فوجی ونگ تھا جو جلد ہی ایک سیاسی پارٹی کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ 1982ء میں اسرائیل نے لبنان میں اپنے حامی تلاش کرنے کے لیے طائر میں ایک سنٹر قائم کیا جس کا سربراہ امریکی نژاد اور اسرائیلی پروفیسر اور علوم شرقیہ کے ماہر 70 سالہ بیلے کو مقرر کیا گیا۔ بیلے نے 1982ء کے آخر میں اپنے منصوبے کا آغاز کیا۔ بیلے لبنان کے مختلف افراد سے ملاقات کرتا اور ان کو اسرائیل کے جنوبی لبنان میں کردار کے حولے سے قائل کرتا۔ شاطر یہودیوں نے جلد ہی حرکت الامل میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔ تحریک کے کچھ لوگ خفیہ طور پر اسرائیل کی مدد کو تیار ہوگئے۔ لیکن الامل جلد ہی انتشار کا شکار ہو کر کئی گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔ الامل سے علیحدہ ہونے والے ایک گروپ نے حزب اللہ کے نام سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔

لیطانی آپریشن

1970ء کے عشرے میں اردن کے فلسطینیوں کے خلاف رسوائے زمانہ کریک ڈاؤن کے دوران جان بچا کر فلسطینی جنوبی لبنان میں آباد ہوگئے۔ اسرائیل نے فسلطینیوں کو جنوبی لبنان سے نکالنے لے لیے آپریشن لیطانی شروع کیا۔ اسرائیلی فوجین بغیر کسی بڑی مزاحمت کے 20 میل تک لبنان کے اندر دریا‎ۓ لیطانی کے جنوبی کنارے پر آکر رک گئیں۔ لبنان کی سرحدی پٹی میں آباد فلسطینی مقامی راستوں سے زيادہ آشنائی نہیں رکھتے تھے۔ اسرائیل نے عالمی دباؤ کے زیر اثر جنوبی لبنان خالی کردیا لیکن دریائے لیطانی کے جنوبی کنارے تک علاقے پر اندھا دھند بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسرائیل و‌‌زیر دفاع (بعد ازاں صدر) اذرویزلسن نے ہر چلتی ہوئی چیز پر چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہو، بمباری جاری رکھنے کا حکم دیا۔ اسرائیل چاہتا تھا کہ علاقہ انسانی آبادی سے بالکل خالی ہوجائے۔ اسرائیلی طیارے ہر حرکت کرتے انسان کو فلسطینی کوریلا سمجھ کر نشانہ بنارہے تھے۔ مارکیٹ میں فروخت کے لیے تمباکو اور دوسری زرعی اجناس لے کر جانے والے کسان، پہاڑوں سے پکنک مناتے خاندان، گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچے، گھریلو کام میں مصروف عورتیں اور بمباری سے جان بچا کر علاقے سے دور ہونے کی کوشش کرنے والے عام شہری سب اس بمباری کا شکار ہو‏گئے۔ اسرائیلی بمباری سے بچ کر بیروت پہنچنے والے خوش نصیبوں کی بڑی تعداد ان بد نصیب بچوں پر مشتمل تھی جن کے والدین لقمہ اجل بن چکے تھے۔ ان بے گھر خاندانوں کو مقامی تنظیمون نے بیروت ائیرپورٹ اور دریائے لیطانی کے درمیان بنجر پٹی میں آباد کیا یہاں ایا نیا شہر آباد ہوا جس کا نام ضائیہ رکھا گیا۔ تعاقب کرتے ہوئے اسرا‏ئیلی طیاروں کے خوف سے بچ جانے والے یہ بچے جب بڑے ہوئے تو ان کی نظر میں اسرائیل سے انتقام کرنے علاوہ اور کوئی جذبہ نہیں تھا۔

فاذ اللہ اور حزب اللہ

حرکت المحرومین کے زوال کے بعد یہ بے گھر یتیم بچے جو اب جوان ہوچکے تھے ممتاز شاعر اور عالم دین محمد حسین فاذ اللہ کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔ 67 سالہ محمد حسین فاذ اللہ بڑی کرشماتی شخصیت کے حامل عالم دین تھے۔ ضائیہ کی مقامی آبادی میں اتنے مقبول ہیں کہ 20 ہزار افراد کی امامت میں نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ فاذ اللہ حزب اللہ کے ساتھ اپنے کسی بھی تعلق کا انکار کرتے ہیں لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ حزب اللہ کی روح رواں ہیں اور وہ جان بوجھ کر خود کو مخفی رکھتے ہیں۔ کئی عشروں پر محیط جنوبی لبنان کے ان مسلمانوں کو مسلسل دربدری اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے اسرائیلی درندگی کا شکار ہونے کے ناقابل فراموش مناظر، بے روزگاری اور غربت نے بہت زیادہ راسخ العقیدہ بنا دیا۔

حزب اللہ اور انقلاب اسلامی ایران

افغانستان میں مجاہدین کی فتح اور آنے والے ایرانی انقلاب نے انہیں اپنے سب بہت زیادہ طاقتور دشمن سے لڑنے کا حوصلہ بخشا۔ یہ تمام عوامل حزب اللہ کے قیام کی وجہ بنے۔ حزب اللہ کی پارٹی کی عمارت چار ستونوں پر کھڑی ہے۔ ان میں سیاسی جد و جہد، سماجی و فلاحی خدمات، جہاد اور گوریلا جنگ ہے۔ حزب اللہ نے کبھی اپنے مقاصد خفیہ نہیں رکھے۔ حزب اللہ کی منزل مقصود یروشلم کی آزادی اور لبنان میں اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ حزب اللہ کے ترجمان نے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک فلسطین کو آزاد نہیں کروا لیتے اور فلسطین میں آباد کار یہودیوں کو ان ممالک کو واپس جانے پر مجبور نہیں کرلیتے جہاں سے وہ آئے تھے۔ حزب اللہ کے مجاہدین کی تعداد 3 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ 20 ہزار کے قریب مسلح رضا کار ہیں۔ حزب اللہ جدیدیت کی قائل ہے اور وہ پراپیگنڈہ جنگ کے رموز سے آشنا ہے۔

قائدین

اسرائیل امریکہ مشرکہ آپریشن کا مقصد لبنان کی اسرائیل کے مخالف مزاحمت کو کچل کر فلسطینیوں کے آزادی کے عزائمم کو کچلنا ہے۔ لیکن میں عالم اسلام کے شہریوں پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ 1991ء میں عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ 1992ء میں حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری موسوی اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہو گئے اور ان کی جگہ حسن نصر اللہ کو حزب کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔ نصر اللہ اپنے پیش روؤں کے برعکس لیڈر ثابت ہوئے جو عملی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے سماجی میدان میں بے پناہ خدمات انجام دے کر عام لبنانی شہری کا دل جیت لیا۔ انہوں نے سکول، ہسپتال اور شیعہ آبادی کے علاقوں میں مکانات تعمیر کروائے۔

ذر‏‏ائع ابلاغ

حزب اللہ کا سب سے خطرناک ہتھیار اس کے زیر اہتمام چلنے والا المنار ٹیلی ويژن اور النور ریڈیو سٹیشن ہے۔ المنار ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر نے سی- این- این اور الجزیرہ ٹیلی ويژن کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سی این این صہیونی نیٹ ورک، الجزیرہ غیر جانبدار جبکہ المنار فلسطینیوں کا حامی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہے [1]۔ حزب اللہ نے ایک ریڈیو سٹیشن بھی قائم کر رکھا ہے جو لبنانی شہریوں کو معلومات فراہم کرتا رہتا ہے۔ المنار ٹیلی ویژن کے ناظرین کی تعدار ایک کروڑ سے زائد ہے۔

اسلحے

مغربی ذرائع کے مطابق حڑب اللہ کے پاس روسی ساختہ ایرانی ماڈل کیتوشا راکٹ ہیں جن کی رینج چند کلو میٹر سے لے کر 70 کلو میٹر تک ہے۔ یہ راکٹ دنیا کے 50 سے زائد ملکوں کے زیر استعمال ہیں۔ حزب اللہ کے پاس ایرانی ماڈل فجر 3 کے 12 ہزار کے قریب راکٹ موجود ہیں۔ 5 ہفتوں سے جاری حزب اللہ اسرائیل جنگ میں حزب اللہ 100 راکٹ فی یوم کے حساب سے فائر کرتی رہی جس کی وجہ سے اسرائیلی صنعتی شہر حیفہ ویران ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے ذرا‏ئع کے مطابق حزب اللہ کے پاس زلزلہ نامی ایرانی ہیں۔ جن کی رینج 2 سو کلو میٹر سے زائد ہے اور وہ 400 کلو گرام گولہ بارود لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ

2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جنگ رہی اور اسرائیل‘ جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے‘ نے جو کچھ اُس کے پاس تھا اس جنگ میں جھونک دیا۔ بیروت اور دیگر شہروں پہ بے پناہ ہوائی بمباری ہوئی۔ 1200 کے لگ بھگ لبنانی سویلین اُس بمباری میں ہلاک ہوئے۔ لیکن میدان میں حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو مزہ چکھا دیا۔ جنگ میں تقریباً ڈیڑھ سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے جو کہ اسرائیل کے لئے بہت بھاری نقصان تھا۔ جیسا ہمارا ٹینک الخالد ہے‘ ویسا اسرائیل کا بھاری ٹینک 'مرکاوا‘ ہے۔ ایسے کئی معرکے ہوئے جس میں 'مرکاوا‘ آتے تھے اور حزب اللہ کے مجاہدین نزدیک جا کر ٹینک شکن میزائلوں سے انہیں نشانہ بناتے تھے۔ ایک قصہ اسرائیلی اخبار Haaretz میں جنگ کے کچھ دن بعد رپورٹ ہوا۔ ایک اسرائیلی جرنیل نوجوان فوجی افسروں سے مخاطب تھا۔ اُس نے حزب اللہ کو برا بھلا کہا۔ نوجوان فوجی افسروں نے کہا: ہم حزب اللہ سے لڑے ہیں اور وہ بہادر سپاہی ہیں۔ یہ تب کی بات تھی۔ اب سرزمینِ شام میں کامیاب فوجی حکمتِ عملی کے بعد حزب اللہ کی حیثیت کو مزید تقویت ملی ہے [2]۔

حزب اللہ کے حملے، اسرائیلی فوج کو جانی نقصانات

سرحدی علاقوں پر حزب اللہ کے حملوں میں اسرائیلی فوج کی تنصیبات تباہ ہونے کے علاوہ جانی نقصان ہوا ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، المیادین نے کہا ہے کہ لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ نے لبنانی سرحد پر صہیونی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق زرعیت قصبے میں حزب اللہ میزائل گرنے سے صہیونی فوجی تنصیبات کو نقصان ہوا ہے۔ حزب اللہ نے حملوں کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ صہیونی فوج لبنان پر حملے کی تیاری کررہی تھی تاہم حزب اللہ کے جوانوں نے بروقت کاروائی کرکے دشمن کے منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے شدید نقصان سے دوچار کیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے حملوں میں کم از کم ایک صہیونی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ کے میزائل حملوں کے بعد صہیونی بستی شومیرا اور جلیل علیا میں بھی خطرے کے سائرن بجائے گئے ہیں۔ دوسری طرف لبنانی سرحد اور غزہ کے اندر صہیونی فوج کو مسلسل شکست کے بعد تل ابیب کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ نتن یاہو کابینہ کے اجلاس میں اراکین کے درمیان تلخ کلامی اور الزامات کے ردوبدل کے بعد اجلاس ہنگامی کا شکار ہوگیا ہے۔ صہیونی میڈیا کے مطابق کابینہ کے اراکین ایک دوسرے پر چیخ رہے تھے۔ تلخی بڑھنے کے بعد وزیرجنگ یواو گیلانت نے اجلاس کو ترک کیا [3]۔

حزب اللہ نے صیہونی فوج کا مرکاوا ٹینک تباہ کر دیا

لبنان کی حزب اللہ نے شمالی مقبوضہ فلسطین میں البغدادی بیس میں صیہونی فوج کے مرکاوا ٹینک کو میزائل مار کر تباہ کرنے کی اطلاع دی ہے۔ مہر خبررساں ایجنسی نے المنار ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ لبنان کی حزب اللہ نے شمالی مقبوضہ فلسطین کے البغدادی اڈے پر صیہونی فوج کے مرکاوا ٹینک کو نشانہ بنایا ہے۔

حزب اللہ کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے مظلوم اور ثابت قدم عوام اور مزاحمتی فورسز کی حمایت میں حزب اللہ کے مجاہدین نے آج دوپہر کو صیہونی فوج کے اڈے البغدادی کو نشانہ بناتے ہوئے ایک مرکاوا ٹینک کو تباہ کر دیا۔ واضح رہے کہ حزب اللہ آج کے دن مقبوضہ شمالی فلسطین کے اسرائیلی جاسوسی اڈے "دوویو" کو بھی تباہ کر چکی یے [4]۔

لبنان اور مزاحمت کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے، ایرانی وزیر خارجہ

ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے لبنان پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی قیادت نے فلسطین اور لبنان میں سیاسی اور عملی میدان میں تدبر اور حکمت سے کام لیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان جمعہ کی شام بیروت پہنچ گئے۔ امیر عبداللہیان نے لبنان پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی قیادت نے فلسطین اور لبنان میں سیاسی اور عملی میدان میں تدبر اور حکمت سے کام لیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ فاتح فلسطینی مزاحمت نے حماس کے نام سے ایک سیاسی آپشن میز پر رکھ دیا ہے۔ ہم نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے کی نسل کشی میں صیہونیوں کی حمایت نہ کرے۔ ہم نے غزہ بحران کے آغاز پر ہی واضح اعلان کیا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی جانب سے صیہونی رجیم اور نیتن یاہو کی حمایت جاری رکھنے کا نتیجہ قطعی ناکامی اور شکست کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ صیہونی رجیم مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو جنگ کی دلدل میں دھکیلنا چاہتی ہے۔ ہم لبنان اور مزاحمت کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے کیونکہ لبنان کی سلامتی کو ایران اور خطے کی سلامتی سمجھتے ہیں [5]۔

حزب اللہ کے صہیونی فوج کے ٹھکانوں پر حملے

لبنانی تنظیم نے صہیونی قصبوں یارون اور بنت جبیل پر میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے لبنانی مقاومتی تنظیم کے حوالے سے خبر دی ہے کہ غزہ میں فلسطینی شہریوں پر حملوں کے جواب میں حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے ٹھکانوں پر حملے کئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق حزب اللہ نے شبعا فارم کے اطراف میں صہیونی فوج کے ٹھکانوں پر میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔

تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ السماقہ قصبے میں صہیونی فوج کے اجتماع پر حملے میں دشمن کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ علاوہ ازین تنظیم نے الظہرہ میں واقع اسرائیلی فوجی مرکز کو بھی نشانہ بنانے کا دعوی کیا ہے۔ دوسری طرف صہیونی فوج نے حزب اللہ کے حملوں کے جواب میں لبنانی قصبے یارون اور بنت جبیل پر حملہ کیا ہے [6]۔

صیہونی رجیم کی حزب اللہ کے خلاف گیدڑ بھبکیاں!

صہیونی حلقوں نے خبروں میں اعتراف کیا ہے کہ لبنان کی سرحد سے متصل شمالی محاذ پر لڑائی کے بارے میں صہیونی حکام کے میڈیا کے دعووں کے برعکس پردے کے پیچھے ایک اور صورت حال چل رہی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے العہد ویب سائٹ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ حالیہ دنوں میں صہیونی حکام نے مقبوضہ علاقوں کی شمالی سرحدوں میں لبنان کی حزب اللہ کے خلاف ہمہ گیر جنگ کے تناظر میں متعدد دعوے کیے ہیں۔

اس دوران صیہونی حکومت کے وزیر جنگ نے اس حقیقت کے باوجود کہ اسرائیلی فوج غزہ جنگ میں طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود ابھی تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے، شمالی محاذ میں ایک مکمل جنگ کی تیاری کی دھمکی دی ہے۔ جس پر صہیونی حلقوں نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے تل ابیب حکام کے پر فریب اور بزدلانہ موقف کو برملا کیا۔

لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کا سرحدی قصبہ کریات شیمونا عبرانی میڈیا نے خبر دی ہے کہ ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے امریکی حکومت کو بتایا کہ حزب اللہ کے خلاف تل ابیب کی دھمکیاں صرف نفسیاتی جنگ تک محدود ہیں اور اسرائیل کے پاس عملی طور پر حزب اللہ کو شمالی محاذ کی سرحدوں سے ہٹانے کی طاقت نہیں ہے۔

دوسری جانب مقبوضہ علاقوں کے سرحدی قصبے کریات شمونہ کے میئر نے آج ایک بیان میں لبنان کی حزب اللہ کے خلاف صیہونی لیڈروں کی گیدڑ بھبکیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: کیا حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اسرائیل لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنے کے لئے التماس کرنے لگا ہے؟![7]۔

حزبُ الله کے جنرل سیکریٹری سید مقاومت حسن نصرُالله کے پوتے شہید

حزبُ اللہ نے اعلان کیا ہے کہ عباس خلیل جو سید مقاومت کے پوتے ہیں وہ بھی اُن جنگجووں میں سے ایک ہیں جو یروشلم کے راستے پر شہید ہوگۓ ہیں۔ سید مقاومت کے بیٹا بھی 1997 میں اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شہید ہو گۓ تھے، جس پر حسن نصراللہ نے کہا تھا ” مجھے اپنے بیٹےکی شہادت پر فخر ہے۔

حوالہ جات

  1. محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء، ص53
  2. ایاز میر، ہمیں سبق حزب اللہ کی تاریخ سے سیکھنا چاہیے،www.taghribnews.com
  3. حزب اللہ کے حملے، اسرائیلی فوج کو جانی نقصانات، mehrnews.com
  4. حزب اللہ نے صیہونی فوج کا مرکاوا ٹینک تباہ کردیا، mehrnews.com
  5. لبنان اور مزاحمت کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے، ایرانی وزیر خارجہ، .mehrnews.com
  6. حزب اللہ کے صہیونی فوج کے ٹھکانوں پر حملے، .mehrnews.com
  7. صیہونی رجیم کی حزب اللہ کے خلاف گیدڑ بھبکیاں!،mehrnews.com