"حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 80: | سطر 80: | ||
ابن حجر نے کتاب استیعاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر سلام ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عورتوں میں سے اور علی علیہ السلام کے مردوں میں سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہیں۔ | ابن حجر نے کتاب استیعاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر سلام ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عورتوں میں سے اور علی علیہ السلام کے مردوں میں سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہیں۔ | ||
=== فاطمہ سلام اللہ علیہا کا غضب خدا کا غضب ہے === | === فاطمہ سلام اللہ علیہا کا غضب خدا کا غضب ہے === | ||
حکیم نیشابوری لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: خدا ناراض سے ناراض اور راضی سے راضی ہوتا ہے، خدا تمہارے غضب سے ناراض ہوتا ہے اور تمہارے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے <ref>مستدرک الصحیحین 3 ،ص</ref> 154۔ | |||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} | ||
[[fa:حضرت فاطمه زهرا]] | [[fa:حضرت فاطمه زهرا]] | ||
[[زمرہ: چودہ معصومین ]] | [[زمرہ: چودہ معصومین ]] |
نسخہ بمطابق 05:30، 16 اپريل 2023ء
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، (5 بعثت -11ھ) پیغمبر اکرم و حضرت خدیجہ کی بیٹی، امام علی کی زوجہ اور امام حسن، امام حسین و حضرت زینب کی والدہ ماجدہ ہیں۔ آپ اصحاب کسا یا پنجتن پاک میں سے ہیں جنہیں شیعہ معصوم مانتے ہیں۔ زہرا، بَتول و سیدۃ نساء العالمین آپ کے القاب اور اُمّ اَبیها آپ کی مشہور کنیت ہے۔ حضرت فاطمہؑ واحد خاتون ہیں جو نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ میں پیغمبر اکرم کے ہمراہ تھیں۔ سورہ کوثر، آیت تطہیر، آیت مودت، آیت اطعام اور حدیث بِضعہ آپ کی شان اور فضیلت میں وارد ہوئی ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اکرم نے فاطمہ زہراؑ کو سیدۃ نساء العالمین کے طور پر متعارف کیا اور ان کی خوشی اور ناراضگی کو اللہ کی خوشنودی و ناراضگی قرار دیا ہے۔ آپ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کی مخالفت کی اور ابوبکر کی خلافت کو غصبی قرار دیتے ہوئے ان کی بیعت نہیں کی۔ آپ نے غصب فدک کے واقعے میں امیرالمومنین کے دفاع میں خطبہ دیا جو خطبہ فدکیہ سے مشہور ہے۔ حضرت فاطمہؑ پیغمبر اکرم کی وفات کے فوراً بعد ابوبکر کے حامیوں کی طرف سے آپ کے گھر پر کئے گئے حملے میں زخمی ہوئیں اور بیمار پڑ گئیں پھر مختصر عرصے کے بعد 3 جمادی الثانی سنہ 11 ہجری کو مدینہ میں شہید ہو گئیں۔ دختر پیغمبرؐ کو ان کی وصیت کے مطابق رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا اور ان کی قبر آج بھی مخفی ہے۔ تسبیحات حضرت زہراؑ، مصحف فاطمہؑ اور خطبہ فدکیہ آپ کی معنوی میراث کا حصہ ہیں۔ مصحف فاطمہ ایک کتاب ہے جس میں فرشتہ الہی کے ذریعہ آپ پر القاء ہونے والے الہامات بھی شامل ہیں جنہیں امام علیؑ نے تحریر فرمایا ہے۔ روایات کے مطابق صحیفہ فاطمہ ائمہ سے منتقل ہوتے ہوئے اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس ہے۔ شیعہ آپؑ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور آپ کی شہادت کے ایام میں عزاداری کرتے ہیں جو ایام فاطمیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ایران میں آپؑ کے روز ولادت (20 جمادی الثانی) کو یوم مادر اور یوم خواتین قرار دیا گیا ہے اور فاطمہ و زہراؑ لڑکیوں کے سب سے زیادہ رکھے جانے والے ناموں میں سے ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا کے القابات
ان کے عرفی ناموں میں زہرہ، صدیقہ، طاہرہ، رضیہ، مرضیہ، مبارکہ، بتول ہیں، ان میں زہرہ زیادہ مشہور ہے، جو کبھی اپنے نام (فاطمہ زہرا) کے ساتھ آتی ہے یا فاطمہ الزہرہ کے عربی مرکب کی شکل میں آتی ہے۔ . زہرا، جو فاطمہ سے زیادہ عام ہے، لفظی معنی چمکدار، روشن ہے۔ فاطمه(سلام الله علیه) دارای چند کنیه است که معروفترین آنها ام ابیها، ام الائمه، ام الحسن، ام الحسین و ام المحسن میباشد [1].
فاطمہ کے معنی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام فاطمہ رکھا۔ لفظ فاطمہ ایک مضمون اسم ہے جو غیرمعمولی "فاطمہ" سے ماخوذ ہے۔ عربی میں فاطمہ کا مطلب ہے کاٹنا، کاٹنا اور الگ کرنا۔ اس نام کی وجہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ: انا اللہ عزوجل فاطمہ بنت فاطمہ، ان کی اولاد، اور ان سے محبت کرنے والوں کو فاطمہ کی زہر آلود دھات کی آگ سے، خدا، میری بیٹی فاطمہ، ان کے بچوں اور ان سے محبت کرنے والے تمام لوگوں کو۔
ایک اور جگہ فاطمہ کا نام رکھنے کی وجہ ہر قسم کی برائی سے کٹ جانا بیان کیا گیا ہے۔
حضرت زہرا کی ولادت
شیعہ اور سنی منابع میں فاطمہ کے نطفہ کے حاملہ ہونے کے بارے میں روایات موجود ہیں، جن کا خیال ہے کہ رسول خدا نے خدیجہ کو خدا کے حکم سے چالیس راتوں تک چھوڑ دیا، اور چالیس دن کی عبادت اور روزے کے بعد، پھر معراج پر جاکر کھانا کھایا۔ آسمانی خوراک یا پھل خدیجہ کے پاس آیا اور فاطمہ کا نور خدیجہ کے حضور میں رکھا گیا م[2]۔
فاطمہ کی ولادت کا مقام مکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا۔ لیکن شیعہ اور سنی ذرائع میں ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل سنت نے لکھا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سال پہلے اور کعبہ کی عمارت کی تجدید کے سال پیدا ہوئے تھے۔ لیکن کلینی کافی میں کہتے ہیں: فاطمہ کی ولادت نبوت کے پانچ سال بعد ہوئی۔ [3].
یعقوبی لکھتے ہیں: وفات (شہادت) کے وقت فاطمہ کی عمر 23 سال تھی۔ اس لیے ان کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سال میں ہوئی ہوگی۔ یہ بیان شیخ طوسی کے قول کے مطابق ہے، جو فاطمہ کی عمر کو اس وقت سمجھتے ہیں جب انہوں نے علی سے شادی کی تھی (ہجری کے پانچ ماہ بعد) اس کی عمر 13 سال تھی۔
شیعہ کیلنڈر میں 20 جمادی الثانی زہرا سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت ہے۔ امام خمینی نے اس دن کو خواتین کا دن قرار دیا۔ اور یہ ایرانی کیلنڈر میں یوم خواتین (ماں کا دن بھی) کے طور پر درج ہے [4]۔
بچپن اور مدینہ کی طرف ہجرت
فاطمہ سلام اللہ علیہا کی پرورش اپنے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور ان کی دینی تعلیم میں ہوئی۔ ان کے بچپن کا دور - جو اسلام کی پختگی کا دور ہے اور مشرکین کی طرف سے مسلمانوں پر لگائی گئی پابندیاں ہیں - مسلمانوں کے لیے آزمائشوں اور اذیتوں کا دور ہے۔ اس دور میں شعب ابی طالب کی خشک اور جلتی ہوئی وادی میں معاشی اور سماجی محاصرہ ہوا، جس میں بھوک، پیاس اور مصائب بھی شامل تھے۔
فاطمہ سلام اللہ علیہا کے چاہنے والوں کی وفات بھی اسی دور میں ہوئی: ان کی والدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بھی اس دور کے اہم حامی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ الحزن کے دسویں سال میں پیش آیا۔ یہ وہ دور تھا جب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی اپنے والد کی حمایت اور ان کی تسلی کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ام ابیحہ کا لقب دیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال کی نظر میں مقام و مرتبہ [5]
اس دور میں مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی جو بعد میں مسلم تاریخ کا ماخذ بنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لے جانے کے بعد آپ کے اہل خانہ بھی وہاں چلے گئے۔ بلاذری لکھتے ہیں: زید بن حارثہ اور ابو رافع کو فاطمہ سلام اللہ علیہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم کے ساتھ مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن ابن ہشام نے لکھا ہے کہ عباس بن عبد المطلب اسے لے جانے کے ذمہ دار تھے۔
حضرت فاطمہ زہرا کی درخواست اور شادی
فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بہت سے دوست تھے اور بہت سے بزرگ اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن میں عمر، ابوبکر، عبدالرحمٰن بن عوف اور... جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا۔
اور ان کے جواب میں فرمایا: فاطمہ جوان ہیں اور جب علی (علیہ السلام) نے ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا تو آپ نے قبول کرلیا۔ اور آپ نے فاطمہ سے فرمایا: تم ملت اسلامیہ کی سب سے پرانی بیوی ہو، میں نے تمہیں پہلی مسلمان کی بیوی بنایا ہے۔
نیز مہاجرین کے ایک گروہ نے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح خدا کے ساتھ ہے نہ کہ کسی اور سے، اگر وہ چاہے گا اور اچھا سمجھے گا تو کرے گا۔ اور میں خدا کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہوں۔ [6] حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا حضرت علی علیہ السلام سے نکاح دوسرے سال ہجری میں ہوا۔ پیغمبر کی بیٹی کے کیبن کی قیمت 400 درہم یا اس سے کچھ زیادہ یا کم تھی اور امام علی علیہ السلام نے اپنا ایک سامان بیچ کر یہ رقم کمائی۔ وہ اس کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شمار کیے بغیر کچھ رقم بلال رضی اللہ عنہ کو دے دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لیے ایک اچھا عطر خرید لو! پھر اس نے باقی رقم ابوبکرؓ کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کو جو ضرورت ہے تیار کرو۔ عمار یاسر اور ان کے چند ساتھی ابوبکر کے ساتھ اپنی صوابدید کے ساتھ زہرا کا سامان تیار کرنے کے لیے گئے۔ شیخ طوسی نے اپنی کتاب امالی میں ان آلات کی فہرست ذکر کی ہے۔ [7]
حضرت فاطمہ زہرا کے فضائل
احادیث کی رو سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے چند فضائل و مناقب درج ذیل ہیں:
- حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امیر المومنین اور حسنین سلام اللہ علیہا کے ساتھ عصمت اور پاکیزگی کے مقام میں شریک ہونا (حقیقت میں ان کی روایتوں کے مطابق عصمت ہے) الہی کوبرا)۔
- حضرت صدیقہ کو اپنے والد، بیوی اور بچوں کے ساتھ ہر حال میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہونے اور رہنے کی اجازت دینا۔
- وہ امام اطہر علیہ السلام کی والدہ ہیں۔
- جب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی تو ان کے نور سے مکہ کے تمام گھر بھر گئے۔
- زہرا سلام اللہ علیہا کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
- عرش کی ٹانگوں اور جنت کے دروازوں پر فاطمہ کا نام لکھا ہوا ہے۔
- اس کے ساتھ جنگ یا صلح ایسی ہے جیسے پیغمبر، علی اور حسنین کے ساتھ جنگ اور صلح۔
- سیدہ جہان کی خاتون ہیں۔
- اس کے ساتھ دوستی اور دشمنی نبی کے ساتھ دوستی اور دشمنی کی طرح ہے۔
- کہ حضرت محدث ہیں یعنی فرشتے ان سے باتیں کرتے تھے۔
اس پیغمبر کے شیعوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
- اس کے مخالفین فنا ہو جائیں گے۔
- قیامت کے دن اسے اپنے باپ، بیوی اور بچوں کی طرح گھیر لیا جائے گا۔
- کوبرا کی شفاعت قیامت کا دن ہے۔
- فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی محبت ہر ایک پر واجب ہے، جس طرح ان کی معصوم بیوی اور بچوں کی محبت (جو انبیاء کے آخری مشن کا صلہ ہے)۔
- وہ اپنے والد، بیوی اور بچوں کے ساتھ گنبد وسیلہ یا جنت کے وسیلہ کے درجے میں رکھے جاتے ہیں۔
- اپنے والد، بیوی اور بچوں کے ساتھ نور کے ایک گنبد میں جو تخت کے نیچے کھڑا ہے اور اس بلند مقام پر پانچ لوگوں کے علاوہ کسی کے لیے جگہ نہیں ہے۔
- روحانی خصوصیات اور اقدار کے لحاظ سے وہ امام علی علیہ السلام کے برابر ہیں۔
- حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری عمر تک بنی نوع انسان کو حضرت صادقہ زہرا سلام اللہ علیہا سے اپیل کی جاتی رہی ہے۔
- جب فاطمہ سلام اللہ علیہا محشر کے منظر میں داخل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا: اے اہل محشر اپنی نگاہیں نیچی رکھو تاکہ فاطمہ گزر جائیں [8]۔
اہل سنت کے منابع میں حضرت فاطمہ کے فضائل
اسلام کی عظیم خاتون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکلوتی بیٹی حضرت صدیقہ اطہر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و عظمت کے بارے میں دونوں شیعوں میں بہت بات کی گئی ہے۔ اور سنی ذرائع.. اس کے فضائل اتنے ہیں کہ اس میں کسی قسم کے شبہ یا انکار کی جگہ نہیں۔ ہم اس نبی کے ان گنت فضائل کا ذکر کرتے ہیں جو سنی منابع میں موجود ہیں۔
طہارت کی آیت اور قصا کی حدیث
ام سلمہ نے کہا: تزکیہ کی آیت میرے گھر میں نازل ہوئی۔ اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فاطمہ، علی، حسن اور حسین علیہما السلام تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلام اہل بیت، یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں۔ حاکم حسکانی اپنی کتاب "التزیل کے ثبوت برائے القوام التفسیل" میں لکھتے ہیں: جب لوگوں کو نماز اور صبر کا حکم دینے والی آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ہر نماز میں علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کے دروازے کے سامنے اہل بیت [9]۔
ابن عساکر، دمشق کی تاریخ کی کتاب میں، امیر المومنین علی علیہ السلام کے ترجمے میں جو ابی سعید خدری نے لکھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کے بارے میں۔ آیت کے نزول کے بعد آٹھ مہینے تک صبح کی نماز میں لوگوں کو نماز پڑھنے اور صبر کرنے کا حکم دو، آپ علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے دروازے کے سامنے آتے تھے۔ اور کہے گا: صلاۃ، خدا تجھ پر رحم کرے، لیکن خدا آپ کو اہل بیت کی شرمندگی سے نوازے اور مجھے پاک کرے [10]۔
مباہلہ آیت
ابن سعد کتاب طبقات الکبری میں الحسین علیہ السلام کے ترجمے میں لکھتے ہیں: نجران کے علماء سے بحث کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میرے بچے ہیں [11]۔
حکیم نیشاابوری کتاب مستدرک الصحیحین میں لکھتے ہیں: جب مباہلہ کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام کی تلاوت فرمائی اور فرمایا: (اے اللہ! خدا کی قسم یہ میرے لوگ ہیں [12]۔
حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی
اہل سنت و الجماعت کے بزرگوں کی تحریروں کے مطابق خلیفہ اول حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو تجویز دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اپنی تجویز کا اظہار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نکاح کے بارے میں خدا کے حکم کا انتظار کر رہا ہوں، خلیفہ اول نے اس جواب کو نفی سمجھا۔
دوسرا خلیفہ بھی اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور پہلے خلیفہ کی طرح نفی میں جواب ملا۔ پھر علی علیہ السلام کے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جائیں تاکہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تجویز کریں۔ حضرت تشریف لے گئے اور ان کی تجویز قبول کر لی گئی۔
ابن عباس نے کہا: علی علیہ السلام کے ساتھ فاطمہ س کے نکاح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاطمہ کے سامنے تھے اور جبرائیل دائیں طرف تھے۔ اور میکائیل بائیں طرف تھے اور ستر ہزار فرشتہ حضرت زہرا کے سر کے پیچھے چل رہا تھا اور یہ بہت سے فرشتے صبح تک خدا کی تسبیح اور تقدیس میں مصروف تھے [13] ۔
فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں سب سے محبوب خاتون ہیں
حکیم نیشابوری نے کتاب المستدرک میں بیان کیا ہے: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال غزہ سے واپس آئیں گے تو دو رکعت تک مسجد کا سفر کریں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ سے ہمبستری کرے گی، پھر شادی کرے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنگ یا سفر سے واپس آتے تو مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے اور انہیں برکت دیتے اور پھر اپنی بیویوں کے پاس جاتے [14]۔
ابن حجر نے کتاب استیعاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر سلام ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عورتوں میں سے اور علی علیہ السلام کے مردوں میں سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہیں۔
فاطمہ سلام اللہ علیہا کا غضب خدا کا غضب ہے
حکیم نیشابوری لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: خدا ناراض سے ناراض اور راضی سے راضی ہوتا ہے، خدا تمہارے غضب سے ناراض ہوتا ہے اور تمہارے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے [15] 154۔
- ↑ معانی الاخبار، ص: 396
- ↑ حلاتی، حضرت فاطمہ اور ان کی بیٹیوں کی زندگی، صفحہ 7-8
- ↑ کلینی، اصول کافی، ج1، ص530
- ↑ شیہدی، فاطمہ زہرا کی زندگی، صفحہ 35
- ↑ شیہدی، فاطمہ زہرا کی زندگی، صفحہ 45-39
- ↑ قزوینی، فاطمۃ الزہرہ ولادت سے شہادت تک، ص 191
- ↑ الکاشف، ج4، ص670؛ مجلم البیان، ج10، ص611-614؛ روح المعانی، جلد 16، جلد 29، صفحہ 270-269
- ↑ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی کتاب علامہ عبدالحسین امینی نے لکھی ہے
- ↑ التنزیل کا ثبوت برائے القوام التفضیل 1 ص 497 526
- ↑ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ترجمہ امام علی علیہ السلام ص 89
- ↑ طبقات الکبری، ابن سعد، ترجمہ الحسین، البیت انسٹی ٹیوٹ، صفحہ 139 اور 140
- ↑ مستدرک الصحیحین 3، ص 150
- ↑ تاریخ بغداد 5، ص 7
- ↑ اعیان الشیعہ 1، ص 307
- ↑ مستدرک الصحیحین 3 ،ص