"امریکا پر بھروسه کرنے کی قیمت(نوٹس)" کے نسخوں کے درمیان فرق
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م Saeedi نے صفحہ مسودہ:امریکا پر بھروسه کرنے کی قیمت(نوٹس) کو امریکا پر بھروسه کرنے کی قیمت(نوٹس) کی جانب منتقل کیا |
||
| (ایک دوسرے صارف 5 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
| سطر 1: | سطر 1: | ||
[[فائل: تاوان اعتماد به آمریکا (یادداشت).jpg |تصغیر|بائیں|]] | [[فائل: تاوان اعتماد به آمریکا (یادداشت).jpg |تصغیر|بائیں|]] | ||
'''"امریکا پر بهروسه کرنے کی قیمت"''' ایک نوٹ کا عنوان ہے جو امریکہ پر قطر کے اعتماد اور خوش گمانی اور قطر پر اسرائیلی جنگی طیاروں کے حملے کے موضوع پر بحث کرتی ہے۔ | '''"امریکا پر بهروسه کرنے کی قیمت"''' ایک نوٹ کا عنوان ہے جو امریکہ پر قطر کے اعتماد اور خوش گمانی اور قطر پر اسرائیلی جنگی طیاروں کے حملے کے موضوع پر بحث کرتی ہے۔ | ||
قطر پر اسرائیلی جنگی طیاروں کا یہ حملہ، جو امریکہ اور برطانیہ کی انٹیلی جنس اور آپریشنل مدد سے ہوا، بہت سی مفروضوں اور تقسیم بندیوں کو درہم برہم کر گیا۔ اس حملے نے ممالک کو امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے دوست اور دشمنوں میں تقسیم کرنے کی تفہیم کو باطل کر دیا، اور مغرب کے ساتھ دوستی اور دشمنی کا تصور ٹوٹ کر بکھر گیا۔ | قطر پر اسرائیلی جنگی طیاروں کا یہ حملہ، جو امریکہ اور برطانیہ کی انٹیلی جنس اور آپریشنل مدد سے ہوا، بہت سی مفروضوں اور تقسیم بندیوں کو درہم برہم کر گیا۔ اس حملے نے ممالک کو امریکہ، برطانیہ اور [[اسرائیل]] کے دوست اور دشمنوں میں تقسیم کرنے کی تفہیم کو باطل کر دیا، اور مغرب کے ساتھ دوستی اور دشمنی کا تصور ٹوٹ کر بکھر گیا۔ | ||
یہ مشترکہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مغربی دنیا پوری عالم اسلام کو، اس کے اندرونی اختلافات کے باوجود، "کھلی دشمنی" کے نقطے پر رکھتی ہے۔ اور جب بھی وہ اس کے ایک حصے سے نمٹنا ختم کر لیتی ہے، تو وہ باقی حصوں کی طرف مائل ہوتی ہے، اور مکمل تسلط اور اس کی شناخت کو مٹانے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ | یہ مشترکہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مغربی دنیا پوری عالم [[اسلام]] کو، اس کے اندرونی اختلافات کے باوجود، "کھلی دشمنی" کے نقطے پر رکھتی ہے۔ اور جب بھی وہ اس کے ایک حصے سے نمٹنا ختم کر لیتی ہے، تو وہ باقی حصوں کی طرف مائل ہوتی ہے، اور مکمل تسلط اور اس کی شناخت کو مٹانے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ | ||
یہ معاملہ موجودہ صدر ٹرمپ کے دور میں عیاں ہوا ہے، وگرنہ یہ مغربی دنیا کی اصل فطرت اور افعال میں پہلے سے موجود تھا اور اس پر عمل پیرا رہا ہے۔ | یہ معاملہ موجودہ صدر ٹرمپ کے دور میں عیاں ہوا ہے، وگرنہ یہ مغربی دنیا کی اصل فطرت اور افعال میں پہلے سے موجود تھا اور اس پر عمل پیرا رہا ہے۔ | ||
== مغرب کی پالیسی اور اسرائیل کی بالاد== | == مغرب کی پالیسی اور اسرائیل کی بالاد== | ||
80 سال سے بھی زائد عرصے سے، مغرب نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وسیع کوششیں کی ہیں کہ عالم اسلام کا کوئی بھی ملک یا ممالک کا مجموعہ، جعلی اسرائیلی ریاست سے اقتصادی، جغرافیائی، سیاسی یا فوجی لحاظ سے بہتر یا برابر کی پوزیشن پر نہ ہو۔ | 80 سال سے بھی زائد عرصے سے، مغرب نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وسیع کوششیں کی ہیں کہ عالم [[اسلام]] کا کوئی بھی ملک یا ممالک کا مجموعہ، جعلی اسرائیلی ریاست سے اقتصادی، جغرافیائی، سیاسی یا فوجی لحاظ سے بہتر یا برابر کی پوزیشن پر نہ ہو۔ | ||
اسی اصول کے تحت، جب کسی اسلامی ملک کو مغربی ٹیکنالوجی، خاص طور پر فوجی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی بات آتی ہے، چاہے وہ ملک مغرب کا مکمل طور پر فرماں بردار اور مطیع ہی کیوں نہ ہو، تو اسرائیل کی بالادستی کو برقرار رکھنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے غاصب اسرائیلی حکومت کی اجازت کو پیشگی شرط کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ | اسی اصول کے تحت، جب کسی اسلامی ملک کو مغربی ٹیکنالوجی، خاص طور پر فوجی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی بات آتی ہے، چاہے وہ ملک مغرب کا مکمل طور پر فرماں بردار اور مطیع ہی کیوں نہ ہو، تو [[اسرائیل]] کی بالادستی کو برقرار رکھنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے غاصب اسرائیلی حکومت کی اجازت کو پیشگی شرط کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ | ||
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور اسی نوعیت کے دیگر ممالک کے ساتھ مغرب کے صنعتی اور فوجی معاہدوں کا جائزہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے۔ | سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور اسی نوعیت کے دیگر ممالک کے ساتھ مغرب کے صنعتی اور فوجی معاہدوں کا جائزہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے۔ | ||
== صلیبی جنگوں کی تلافی== | == صلیبی جنگوں کی تلافی== | ||
جس وقت عراق سینکڑوں ہزار امریکی-برطانوی فوجی اور انٹیلی جنس فورسز کے ذریعے زیرِ قبضہ آیا اور اس ملک کے سینکڑوں ہزار عرب مسلمان باشندے قربان ہوئے، جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا: "اب مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا انتقام لے لیا گیا ہے اور صلیبی جنگوں میں مغرب کی شکست کی تلافی کر دی گئی ہے۔" البتہ، تھوڑی دیر بعد چونکہ ان کے مشیران اس طرح کے بیانات کو امریکہ کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد کرنے کا سبب سمجھتے تھے، انہوں نے کوشش کی کہ مغرب کے عزائم کو عراق کے ڈکٹیٹر کا تختہ الٹنے اور عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (Weapons of Mass Destruction - WMDs) کے ذخیرے کا مقابلہ کرنے جیسی دوسری عبارات سے نرم کر دیں۔ | جس وقت [[عراق]] سینکڑوں ہزار امریکی-برطانوی فوجی اور انٹیلی جنس فورسز کے ذریعے زیرِ قبضہ آیا اور اس ملک کے سینکڑوں ہزار عرب مسلمان باشندے قربان ہوئے، جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا: "اب مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا انتقام لے لیا گیا ہے اور صلیبی جنگوں میں مغرب کی شکست کی تلافی کر دی گئی ہے۔" البتہ، تھوڑی دیر بعد چونکہ ان کے مشیران اس طرح کے بیانات کو امریکہ کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد کرنے کا سبب سمجھتے تھے، انہوں نے کوشش کی کہ مغرب کے عزائم کو عراق کے ڈکٹیٹر کا تختہ الٹنے اور عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (Weapons of Mass Destruction - WMDs) کے ذخیرے کا مقابلہ کرنے جیسی دوسری عبارات سے نرم کر دیں۔ | ||
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جارج بش نے عالمِ اسلام کے خلاف مغربی طاقتوں کے ناپاک عزائم سے پردہ اٹھا دیا تھا – خواہ مسلمان حامی ہوں یا مخالف، یا کٹّر اور اعتدال پسند ہوں، کوئی تفریق نہیں رکھی۔ جیسا کہ اس کے بعد عراق، | لیکن حقیقت یہ ہے کہ جارج بش نے عالمِ [[اسلام]] کے خلاف مغربی طاقتوں کے ناپاک عزائم سے پردہ اٹھا دیا تھا – خواہ مسلمان حامی ہوں یا مخالف، یا کٹّر اور اعتدال پسند ہوں، کوئی تفریق نہیں رکھی۔ جیسا کہ اس کے بعد عراق، [[افغانستان]]، [[پاکستان]]، [[یمن]]، صومالیہ، لیبیا، اور [[شام]] میں عوام کے خلاف امریکی جنگی طیاروں کے حملے اور برما کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اقدامات، جبکہ یہ ممالک مغرب کے بارے میں اپنے مؤقف اور نظریے کے لحاظ سے ایک ہی حالت اور سطح پر نہیں تھے، اور اسی طرح قطر پر اسرائیلی، امریکی اور برطانوی حکومتوں کا حملہ اور اس سے پہلے [[ایران]] پر حملہ بھی یقیناً اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ | ||
== مشرق وسطیٰ کی تبدیلی == | == مشرق وسطیٰ کی تبدیلی == | ||
1980ء کی دہائی میں، جو شمسی ہجری سال 1360 شمسی کے مطابق ہے، مغربی دنیا پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ مسلسل اور ہمہ گیر مغربی ظلم کی وجہ سے عالم اسلام ایک انفجار (دھماکے) کی دہلیز پر ہے اور مغرب کے خلاف مسلمانوں کی تحریک لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی ہے۔ اس بنا پر، امریکیوں، برطانویوں اور صہیونی ریاست نے اس کی بنیادی وجہ کو اپنے ظالمانہ رویوں میں تلاش کرنے کے بجائے، مسلمانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ایک نئے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔ | 1980ء کی دہائی میں، جو شمسی ہجری سال 1360 شمسی کے مطابق ہے، مغربی دنیا پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ مسلسل اور ہمہ گیر مغربی ظلم کی وجہ سے عالم اسلام ایک انفجار (دھماکے) کی دہلیز پر ہے اور مغرب کے خلاف مسلمانوں کی تحریک لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی ہے۔ اس بنا پر، امریکیوں، برطانویوں اور صہیونی ریاست نے اس کی بنیادی وجہ کو اپنے ظالمانہ رویوں میں تلاش کرنے کے بجائے، مسلمانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ایک نئے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔ | ||
| سطر 22: | سطر 22: | ||
میں ایک اے آئی اسسٹنٹ ہوں اور آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں۔ آپ کا فراہم کردہ متن اسلامی دنیا کے حوالے سے امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے اقدامات کے تجزیے پر مشتمل ہے اور اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: | میں ایک اے آئی اسسٹنٹ ہوں اور آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں۔ آپ کا فراہم کردہ متن اسلامی دنیا کے حوالے سے امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے اقدامات کے تجزیے پر مشتمل ہے اور اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: | ||
== مشرق اسطی میں تبدیلی کا منصوبه 25سال گذرنے کے بعد== | == مشرق اسطی میں تبدیلی کا منصوبه 25سال گذرنے کے بعد== | ||
امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کی جانب سے قطر پر حملے کے بعد ایک بار پھر ان کی اسلامی دنیا کے خلاف کارروائیوں کی نوعیت بے نقاب ہو گئی ہے۔ اس حملے سے پہلے، سعودی عرب جیسی کچھ حکومتیں یہ سمجھتی تھیں کہ صیہونی حکومت کے حملے اور مغرب کا اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ صرف فلسطین اور اس کی اسلامی تحریکوں تک محدود ہے۔ آج، سعودی عرب، مصر، ترکی، اور اردن ان ممالک میں شامل ہیں جو اس قسم کے حملوں، اور یہاں تک کہ اس سے بھی کہیں زیادہ شدید حملوں کے خطرے میں ہیں اور وہ اس بات کو محسوس کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلامی دنیا میں اس اسلام مخالف رویے کو روکنے کے لیے اجتماعی سوچ نہ اپنائی گئی، تو سعودی عرب، مصر اور ترکی جیسے ممالک کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسی طرح کے فوجی حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ | امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کی جانب سے قطر پر حملے کے بعد ایک بار پھر ان کی اسلامی دنیا کے خلاف کارروائیوں کی نوعیت بے نقاب ہو گئی ہے۔ اس حملے سے پہلے، سعودی عرب جیسی کچھ حکومتیں یہ سمجھتی تھیں کہ صیہونی حکومت کے حملے اور مغرب کا اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ صرف [[فلسطین]] اور اس کی اسلامی تحریکوں تک محدود ہے۔ آج، سعودی عرب، مصر، ترکی، اور اردن ان ممالک میں شامل ہیں جو اس قسم کے حملوں، اور یہاں تک کہ اس سے بھی کہیں زیادہ شدید حملوں کے خطرے میں ہیں اور وہ اس بات کو محسوس کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلامی دنیا میں اس اسلام مخالف رویے کو روکنے کے لیے اجتماعی سوچ نہ اپنائی گئی، تو سعودی عرب، مصر اور ترکی جیسے ممالک کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسی طرح کے فوجی حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ | ||
تاہم، اس واقعے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2001 میں افغانستان پر حملے سے لے کر اب تک، امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے فوجی حملے، ان 25 برسوں میں، کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ غزہ کے خلاف اسرائیل کی شدید اور مسلسل جنگ، جسے شروع ہوئے تقریباً دو سال ہو چکے ہیں، ابھی تک کسی انجام پر نہیں پہنچی ہے اور فلسطینی قوم نے بھاری قیمت چکانے کے باوجود میدان نہیں چھوڑا ہے اور اسرائیل کے جارحانہ منصوبوں کو مسلسل ناکام بنایا ہے۔ اور آج، اسرائیل کے اندر بھی غزہ کی پٹی پر دائمی قبضے کے لیے فوج کے منصوبے، جسے "اربات گدعون" کہا جاتا ہے، کی ناکامی کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں، حالانکہ اسے شروع ہوئے دو ہفتے سے زیادہ نہیں ہوئے ہیں۔ | تاہم، اس واقعے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2001 میں افغانستان پر حملے سے لے کر اب تک، امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے فوجی حملے، ان 25 برسوں میں، کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ غزہ کے خلاف اسرائیل کی شدید اور مسلسل جنگ، جسے شروع ہوئے تقریباً دو سال ہو چکے ہیں، ابھی تک کسی انجام پر نہیں پہنچی ہے اور فلسطینی قوم نے بھاری قیمت چکانے کے باوجود میدان نہیں چھوڑا ہے اور اسرائیل کے جارحانہ منصوبوں کو مسلسل ناکام بنایا ہے۔ اور آج، اسرائیل کے اندر بھی [[غزہ]] کی پٹی پر دائمی قبضے کے لیے فوج کے منصوبے، جسے "اربات گدعون" کہا جاتا ہے، کی ناکامی کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں، حالانکہ اسے شروع ہوئے دو ہفتے سے زیادہ نہیں ہوئے ہیں۔ | ||
پال ولفووِٹز کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کا منصوبہ لاگو ہوئے 25 سال ہو چکے ہیں، اور اس کے نتیجے میں افغانستان سے لے کر فلسطین تک 13 جنگیں ہو چکی ہیں، لیکن مغربی ایشیا، جسے وہ مشرق وسطیٰ کہتے ہیں، میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، بلکہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے مقابلے میں خطے کا اتحاد مزید بڑھ گیا ہے۔ | پال ولفووِٹز کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کا منصوبہ لاگو ہوئے 25 سال ہو چکے ہیں، اور اس کے نتیجے میں افغانستان سے لے کر فلسطین تک 13 جنگیں ہو چکی ہیں، لیکن مغربی ایشیا، جسے وہ مشرق وسطیٰ کہتے ہیں، میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، بلکہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے مقابلے میں خطے کا اتحاد مزید بڑھ گیا ہے۔ | ||
== امریکا، برطانیه اور اسرائیل سے نفرت== | == امریکا، برطانیه اور اسرائیل سے نفرت== | ||
آج اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان امریکہ، برطانیہ، اور اسرائیل سے نفرت 80 فیصد سے شروع ہو کر 98 فیصد تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح، آزادی پسند اور اسلام پسند تحریکوں کی وسعت مغربی افریقہ تک پہنچ چکی ہے اور ساحلِ عاج سے لے کر چاڈ تک ایک بہت بڑے جغرافیہ، یعنی پورے فلسطین کے جغرافیہ سے کئی گنا بڑا علاقہ، کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فلسطین کا دفاع، جو کچھ سال پہلے تک فلسطین کے ارد گرد چند اسلامی ممالک تک محدود تھا، آج انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک پوری اسلامی دنیا کو شامل کرتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی تین قابض حکومتوں کا قطر پر جاہلانہ حملہ اسلامی دنیا کے مؤقف کو مزید قریب لائے گا اور ترکی، مصر اور سعودی عرب جیسی ممالک کی حکومتوں میں امریکہ کے لیے موجود کسی بھی نیک نیتی کو بے معنی کر دے گا۔<ref>[https://kayhan.ir/fa/news/318092/%D9%82%D8%B7%D8%B1-%D8%AA%D8%A7%D9%88%D8%A7%D9%86-%D8%AD%D9%8F%D8%B3%D9%86%E2%80%8C%D8%B8%D9%86-%D8%A8%D9%87-%D8%A2%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%AE%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%D8%AF-%DB%8C%D8%A7%D8%AF%D8%AF%D8%A7%D8%B4%D8%AA-%D8%B1%D9%88%D8%B2 قطر | آج اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان امریکہ، برطانیہ، اور اسرائیل سے نفرت 80 فیصد سے شروع ہو کر 98 فیصد تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح، آزادی پسند اور اسلام پسند تحریکوں کی وسعت مغربی افریقہ تک پہنچ چکی ہے اور ساحلِ عاج سے لے کر چاڈ تک ایک بہت بڑے جغرافیہ، یعنی پورے فلسطین کے جغرافیہ سے کئی گنا بڑا علاقہ، کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فلسطین کا دفاع، جو کچھ سال پہلے تک فلسطین کے ارد گرد چند اسلامی ممالک تک محدود تھا، آج انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک پوری اسلامی دنیا کو شامل کرتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی تین قابض حکومتوں کا قطر پر جاہلانہ حملہ اسلامی دنیا کے مؤقف کو مزید قریب لائے گا اور ترکی، مصر اور سعودی عرب جیسی ممالک کی حکومتوں میں امریکہ کے لیے موجود کسی بھی نیک نیتی کو بے معنی کر دے گا۔<ref>[https://kayhan.ir/fa/news/318092/%D9%82%D8%B7%D8%B1-%D8%AA%D8%A7%D9%88%D8%A7%D9%86-%D8%AD%D9%8F%D8%B3%D9%86%E2%80%8C%D8%B8%D9%86-%D8%A8%D9%87-%D8%A2%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%D8%A7-%D8%B1%D8%A7-%D9%BE%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%AE%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%D8%AF-%DB%8C%D8%A7%D8%AF%D8%AF%D8%A7%D8%B4%D8%AA-%D8%B1%D9%88%D8%B2 قطر نے امریکہ (نوٹ آف دی ڈے) پر بھروسہ کرنے کی قیمت ادا کی تحریر: سعدالله زارعی، کیہان اخبار کی ویب سائٹ](زبان فارسی) درج شده تاریخ: 12/ستمبر/ 2025ء اخذشده تاریخ: 28/ستمبر/2025ء،</ref> | ||
==متعلقه تلاشیں== | ==متعلقه تلاشیں== | ||
* [[اسرائیل کا ایران پر حملہ 2025ء]] | |||
* [[قطر پر اسرائیلی حملہ ]] | |||
* [[فلسطین]] | |||
==حواله جات== | ==حواله جات== | ||
[[زمرہ:نوٹس اور تجزیے]] | [[زمرہ:نوٹس اور تجزیے]] | ||
حالیہ نسخہ بمطابق 19:24، 29 ستمبر 2025ء

"امریکا پر بهروسه کرنے کی قیمت" ایک نوٹ کا عنوان ہے جو امریکہ پر قطر کے اعتماد اور خوش گمانی اور قطر پر اسرائیلی جنگی طیاروں کے حملے کے موضوع پر بحث کرتی ہے۔ قطر پر اسرائیلی جنگی طیاروں کا یہ حملہ، جو امریکہ اور برطانیہ کی انٹیلی جنس اور آپریشنل مدد سے ہوا، بہت سی مفروضوں اور تقسیم بندیوں کو درہم برہم کر گیا۔ اس حملے نے ممالک کو امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے دوست اور دشمنوں میں تقسیم کرنے کی تفہیم کو باطل کر دیا، اور مغرب کے ساتھ دوستی اور دشمنی کا تصور ٹوٹ کر بکھر گیا۔ یہ مشترکہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مغربی دنیا پوری عالم اسلام کو، اس کے اندرونی اختلافات کے باوجود، "کھلی دشمنی" کے نقطے پر رکھتی ہے۔ اور جب بھی وہ اس کے ایک حصے سے نمٹنا ختم کر لیتی ہے، تو وہ باقی حصوں کی طرف مائل ہوتی ہے، اور مکمل تسلط اور اس کی شناخت کو مٹانے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ یہ معاملہ موجودہ صدر ٹرمپ کے دور میں عیاں ہوا ہے، وگرنہ یہ مغربی دنیا کی اصل فطرت اور افعال میں پہلے سے موجود تھا اور اس پر عمل پیرا رہا ہے۔
مغرب کی پالیسی اور اسرائیل کی بالاد
80 سال سے بھی زائد عرصے سے، مغرب نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وسیع کوششیں کی ہیں کہ عالم اسلام کا کوئی بھی ملک یا ممالک کا مجموعہ، جعلی اسرائیلی ریاست سے اقتصادی، جغرافیائی، سیاسی یا فوجی لحاظ سے بہتر یا برابر کی پوزیشن پر نہ ہو۔ اسی اصول کے تحت، جب کسی اسلامی ملک کو مغربی ٹیکنالوجی، خاص طور پر فوجی ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی بات آتی ہے، چاہے وہ ملک مغرب کا مکمل طور پر فرماں بردار اور مطیع ہی کیوں نہ ہو، تو اسرائیل کی بالادستی کو برقرار رکھنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے غاصب اسرائیلی حکومت کی اجازت کو پیشگی شرط کے طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور اسی نوعیت کے دیگر ممالک کے ساتھ مغرب کے صنعتی اور فوجی معاہدوں کا جائزہ اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے۔
صلیبی جنگوں کی تلافی
جس وقت عراق سینکڑوں ہزار امریکی-برطانوی فوجی اور انٹیلی جنس فورسز کے ذریعے زیرِ قبضہ آیا اور اس ملک کے سینکڑوں ہزار عرب مسلمان باشندے قربان ہوئے، جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا: "اب مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا انتقام لے لیا گیا ہے اور صلیبی جنگوں میں مغرب کی شکست کی تلافی کر دی گئی ہے۔" البتہ، تھوڑی دیر بعد چونکہ ان کے مشیران اس طرح کے بیانات کو امریکہ کے مقابلے میں مسلمانوں کو متحد کرنے کا سبب سمجھتے تھے، انہوں نے کوشش کی کہ مغرب کے عزائم کو عراق کے ڈکٹیٹر کا تختہ الٹنے اور عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (Weapons of Mass Destruction - WMDs) کے ذخیرے کا مقابلہ کرنے جیسی دوسری عبارات سے نرم کر دیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جارج بش نے عالمِ اسلام کے خلاف مغربی طاقتوں کے ناپاک عزائم سے پردہ اٹھا دیا تھا – خواہ مسلمان حامی ہوں یا مخالف، یا کٹّر اور اعتدال پسند ہوں، کوئی تفریق نہیں رکھی۔ جیسا کہ اس کے بعد عراق، افغانستان، پاکستان، یمن، صومالیہ، لیبیا، اور شام میں عوام کے خلاف امریکی جنگی طیاروں کے حملے اور برما کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اقدامات، جبکہ یہ ممالک مغرب کے بارے میں اپنے مؤقف اور نظریے کے لحاظ سے ایک ہی حالت اور سطح پر نہیں تھے، اور اسی طرح قطر پر اسرائیلی، امریکی اور برطانوی حکومتوں کا حملہ اور اس سے پہلے ایران پر حملہ بھی یقیناً اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی تبدیلی
1980ء کی دہائی میں، جو شمسی ہجری سال 1360 شمسی کے مطابق ہے، مغربی دنیا پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ مسلسل اور ہمہ گیر مغربی ظلم کی وجہ سے عالم اسلام ایک انفجار (دھماکے) کی دہلیز پر ہے اور مغرب کے خلاف مسلمانوں کی تحریک لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی ہے۔ اس بنا پر، امریکیوں، برطانویوں اور صہیونی ریاست نے اس کی بنیادی وجہ کو اپنے ظالمانہ رویوں میں تلاش کرنے کے بجائے، مسلمانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ایک نئے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔ معتبر دستاویزات کے مطابق جو خود امریکی حلقوں نے غرور اور اس اعتماد کے ساتھ شائع کیں کہ ان کے نفاذ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں ہوگی، 1994ء (1373 شمسی) میں، امریکہ کے میری لینڈ ریاست میں واقع نیول پوسٹ گریجویٹ اسکول (Naval Postgraduate School) میں امریکی فوجی، انٹیلی جنس اور سیاسی ماہرین کا ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا تاکہ "مشرق وسطیٰ کی تبدیلی" کے منصوبے کو ترتیب دیا جا سکے۔ 300 سے زائد افراد پر مشتمل اس ٹیم نے، جس میں امریکہ کی نامور انٹیلی جنس اور سیاسی شخصیات شامل تھیں، سات سال تک اس منصوبے کی تفصیلات کو واضح کرنے اور اس کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقوں کی تلاش کے لیے کام کیا۔ اس ٹیم نے ایک طویل اسٹریٹجک متن تیار کیا، اور اس منصوبے کے سربراہ "پال ولفووِٹز" نے اس مدت کے اختتام پر اعلان کیا کہ "مشرق وسطیٰ کی تبدیلی" کا منصوبہ قابلِ عمل ہونے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ اس منصوبے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کو ان منصوبوں کی افادیت پر نظرثانی کرنی چاہیے جن کی بنیاد ڈاماتو پابندیوں جیسی پابندیاں ہیں، اور ایک بڑے اور فوری کام کی طرف بڑھنا چاہیے، جس سے مراد جنگ اور فوجی قبضے کے ذریعے اہداف کا حصول تھا۔
جنگجو نیوکونز کا اقتدار
مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کے منصوبے کا آغاز جنگ جو نیوکونز (Neocons) کو 2000 میں جارج بش کی قیادت میں اقتدار میں لانے سے ہوا، اور جلد ہی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس منصوبے کو جواز فراہم کرنے اور یورپی حکومتوں کو شامل کرنے کے ساتھ، مغربی اتحاد (Western Coalition) تشکیل پا گیا۔ اس کے فوراً بعد، بہت کم وقت کے وقفے سے، افغانستان اور عراق کو فوجی طور پر قبضے میں لے لیا گیا، اور باقی ممالک، بشمول ایران کو بھی، خطرے سے دوچار کیا گیا۔ ابتدائی طور پر، مغربی طاقتیں منافقانہ طور پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (Weapons of Mass Destruction - WMDs) اور بعض حکومتوں کی ان کو حاصل کرنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ دہشت گردی جیسے موضوعات اٹھا رہی تھیں، لیکن یہ محض ایک ظاہری دکھاوا تھا۔ خطے کی اسلامی حکومتوں اور قوموں نے اسی وقت اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا۔ مثال کے طور پر، جب امریکہ نے افغانستان پر قبضے کا حکم دیا اور "گریٹر مڈل ایسٹ" (Greater Middle East) کا منصوبہ پیش کیا، تو اس وقت کے مصری صدر حسنی مبارک نے ایک ایرانی اہلکار سے کہا کہ یہ منصوبہ جلد ہی مصر اور سعودی عرب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ جیسا کہ بعد میں ہوا، جب اسی منصوبے کی چھوٹی شکلیں، جیسے کہ "صدی کی ڈیل" (Deal of the Century) سامنے آئیں، تو خطے کی امریکہ پر منحصر عرب حکومتوں نے شدید خطرہ محسوس کیا اور اس کی حمایت نہیں کی، جس کے نتیجے میں امریکہ اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ میں ایک اے آئی اسسٹنٹ ہوں اور آپ کی مدد کے لیے تیار ہوں۔ آپ کا فراہم کردہ متن اسلامی دنیا کے حوالے سے امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے اقدامات کے تجزیے پر مشتمل ہے اور اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
مشرق اسطی میں تبدیلی کا منصوبه 25سال گذرنے کے بعد
امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کی جانب سے قطر پر حملے کے بعد ایک بار پھر ان کی اسلامی دنیا کے خلاف کارروائیوں کی نوعیت بے نقاب ہو گئی ہے۔ اس حملے سے پہلے، سعودی عرب جیسی کچھ حکومتیں یہ سمجھتی تھیں کہ صیہونی حکومت کے حملے اور مغرب کا اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ صرف فلسطین اور اس کی اسلامی تحریکوں تک محدود ہے۔ آج، سعودی عرب، مصر، ترکی، اور اردن ان ممالک میں شامل ہیں جو اس قسم کے حملوں، اور یہاں تک کہ اس سے بھی کہیں زیادہ شدید حملوں کے خطرے میں ہیں اور وہ اس بات کو محسوس کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلامی دنیا میں اس اسلام مخالف رویے کو روکنے کے لیے اجتماعی سوچ نہ اپنائی گئی، تو سعودی عرب، مصر اور ترکی جیسے ممالک کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسی طرح کے فوجی حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، اس واقعے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2001 میں افغانستان پر حملے سے لے کر اب تک، امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے فوجی حملے، ان 25 برسوں میں، کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ غزہ کے خلاف اسرائیل کی شدید اور مسلسل جنگ، جسے شروع ہوئے تقریباً دو سال ہو چکے ہیں، ابھی تک کسی انجام پر نہیں پہنچی ہے اور فلسطینی قوم نے بھاری قیمت چکانے کے باوجود میدان نہیں چھوڑا ہے اور اسرائیل کے جارحانہ منصوبوں کو مسلسل ناکام بنایا ہے۔ اور آج، اسرائیل کے اندر بھی غزہ کی پٹی پر دائمی قبضے کے لیے فوج کے منصوبے، جسے "اربات گدعون" کہا جاتا ہے، کی ناکامی کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں، حالانکہ اسے شروع ہوئے دو ہفتے سے زیادہ نہیں ہوئے ہیں۔ پال ولفووِٹز کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کا منصوبہ لاگو ہوئے 25 سال ہو چکے ہیں، اور اس کے نتیجے میں افغانستان سے لے کر فلسطین تک 13 جنگیں ہو چکی ہیں، لیکن مغربی ایشیا، جسے وہ مشرق وسطیٰ کہتے ہیں، میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، بلکہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے مقابلے میں خطے کا اتحاد مزید بڑھ گیا ہے۔
امریکا، برطانیه اور اسرائیل سے نفرت
آج اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان امریکہ، برطانیہ، اور اسرائیل سے نفرت 80 فیصد سے شروع ہو کر 98 فیصد تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح، آزادی پسند اور اسلام پسند تحریکوں کی وسعت مغربی افریقہ تک پہنچ چکی ہے اور ساحلِ عاج سے لے کر چاڈ تک ایک بہت بڑے جغرافیہ، یعنی پورے فلسطین کے جغرافیہ سے کئی گنا بڑا علاقہ، کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فلسطین کا دفاع، جو کچھ سال پہلے تک فلسطین کے ارد گرد چند اسلامی ممالک تک محدود تھا، آج انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک پوری اسلامی دنیا کو شامل کرتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی تین قابض حکومتوں کا قطر پر جاہلانہ حملہ اسلامی دنیا کے مؤقف کو مزید قریب لائے گا اور ترکی، مصر اور سعودی عرب جیسی ممالک کی حکومتوں میں امریکہ کے لیے موجود کسی بھی نیک نیتی کو بے معنی کر دے گا۔[1]
متعلقه تلاشیں
حواله جات
- ↑ قطر نے امریکہ (نوٹ آف دی ڈے) پر بھروسہ کرنے کی قیمت ادا کی تحریر: سعدالله زارعی، کیہان اخبار کی ویب سائٹ(زبان فارسی) درج شده تاریخ: 12/ستمبر/ 2025ء اخذشده تاریخ: 28/ستمبر/2025ء،