Jump to content

"رشید ترابی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 17: سطر 17:
| known for = {{افقی باکس کی فہرست|مجلس اتحاد المسلمین| }}
| known for = {{افقی باکس کی فہرست|مجلس اتحاد المسلمین| }}
}}
}}
'''علامہ رشید ترابی''' تشیع [[پاکستان]] کی تاریخ میں ایک ایسے بے بدل عالم دین ہیں جنہوں نے خطابت اور عزاداری سید الشہدا میں منبر پہ ذکر [[حسین بن علی|حسین ع]] کے وسیلے سے تعارف دین حق کا ایسا تبلیغی و تحقیقی انداز اپنایا کہ ان کا طریق خطابت برصغیر میں مقبول ترین انداز بن گیا۔
'''علامہ رشید ترابی'''رضا حسین المعروف علامہ رشید ترابی عالم اسلام کے بلند پایہ خطیب، عالم دین اور شاعر تھے اور تشیع [[پاکستان]] کی تاریخ میں ایک ایسے بے بدل عالم دین ہیں جنہوں نے خطابت اور عزاداری سید الشہدا میں منبر پہ ذکر [[حسین بن علی|حسین ع]] کے وسیلے سے تعارف دین حق کا ایسا تبلیغی و تحقیقی انداز اپنایا کہ ان کا طریق خطابت برصغیر میں مقبول ترین انداز بن گیا۔
== سوانح عمری ==
== سوانح عمری ==
ولادت، ابتدائی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم ، اساتذہ۔ عالم اسلام کے عظیم خطیب، عالم دین اور شاعرعلامہ رشید ترابی 9 جولائی 1908ء کو حیدرآباد دکن برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولوی شرف الدین ایک اعلٰی سرکاری عہدے پھر فائز تھے۔ان کا اصل نام رضا حسین تھا لیکن رشید ترابی کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم علامہ سید علی شوستری، آغا محمد محسن شیرازی، آغا سید حسن اصفہانی اور علامہ ابوبکر شہاب عریضی سے حاصل کی، شاعری میں نظم طباطبائی اور علامہ ضامن کنتوری کے شاگرد ہوئے اور ذاکری کی تعلیم علامہ سید سبط حسن صاحب قبلہ سے اور فلسفہ کی تعلیم خلیفہ عبدالحکیم سے حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور الٰہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ علامہ رشید ترابی نے 10 برس کی عمر میں اپنے زمانے کے ممتاز ذاکر مولانا سید غلام حسین صدر العلماء کی مجالس میں پیش خوانی شروع کردی تھی۔
ولادت، ابتدائی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم ، اساتذہ۔ عالم اسلام کے عظیم خطیب، عالم دین اور شاعرعلامہ رشید ترابی 9 جولائی 1908ء کو حیدرآباد دکن برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولوی شرف الدین ایک اعلٰی سرکاری عہدے پھر فائز تھے۔ان کا اصل نام رضا حسین تھا لیکن رشید ترابی کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم علامہ سید علی شوستری، آغا محمد محسن شیرازی، آغا سید حسن اصفہانی اور علامہ ابوبکر شہاب عریضی سے حاصل کی، شاعری میں نظم طباطبائی اور علامہ ضامن کنتوری کے شاگرد ہوئے اور ذاکری کی تعلیم علامہ سید سبط حسن صاحب قبلہ سے اور فلسفہ کی تعلیم خلیفہ عبدالحکیم سے حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور الٰہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ علامہ رشید ترابی نے 10 برس کی عمر میں اپنے زمانے کے ممتاز ذاکر مولانا سید غلام حسین صدر العلماء کی مجالس میں پیش خوانی شروع کردی تھی  اور 1942ء میں انہوں نے آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر جو تقاریر کیں وہ شہرت کا باعث بنیں <ref>علامہ رشید ترابی کی آج 50ویں برسی ،وجہ شہرت اور اصل نام کیا تھا ؟ جانیے، [https://www.24urdu.com/18-Dec-2023/90570 24urdu.com]</ref>۔
سولہ برس کی عمر میں انہوں نے عنوان مقرر کرکے تقاریر کرنا شروع کیں۔ تقاریر کا یہ سلسلہ عالم اسلام میں نیا تھا اس لیے انہیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔ 1942ء میں انہوں نے آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر جو تقاریر کیں وہ ان کی ہندوستان گیر شہرت کا باعث بنیں۔
سولہ برس کی عمر میں انہوں نے عنوان مقرر کرکے تقاریر کرنا شروع کیں۔ تقاریر کا یہ سلسلہ عالم اسلام میں نیا تھا اس لیے انہیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔ 1942ء میں انہوں نے آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر جو تقاریر کیں وہ ان کی ہندوستان گیر شہرت کا باعث بنیں۔ قرآن فہمی و قرآن شناسی تو اُن کا خصوصی میدان تھا ہی، جب کہ حدیث، تاریخ، فقہی تقابل، ادیانِ عالم، ادب، علم الکلام اور عالمی سیاسی و سماجی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ دینی تعلیم کی اسناد علّامہ نائینی، آیت اللہ برد جردی، آقائے محسن الحکیم طباطبائی مجتہدِ اعظم صدر حوضۂ علمیہ نجفِ اشرف آیت اللہ العظمیٰ آقائے الخوئی سے حاصل کیں۔نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ’’ مجلس اتحاد المسلمین‘‘ کے پلیٹ فارم پر بھی فعال رہے۔
آپ کے بھائی مظہرعلی خان پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے جبکہ دیگر تین بھائی بھی قابلیت کے مدارج پر فائز رہے۔
آپ کے بھائی مظہرعلی خان پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے جبکہ دیگر تین بھائی بھی قابلیت کے مدارج پر فائز رہے۔
== سیاست سے وابستگی اور قائد اعظم سے ملاقات ==
== سیاست سے وابستگی اور قائد اعظم سے ملاقات ==
علامہ رشید ترابی اس دوران عملی سیاست سے بھی منسلک رہے اور قائد ملت نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے پلیٹ فارم پرفعال رہے۔قائد اعظم کی ہدایت پر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1940ء میں حیدرآباد (دکن) کی مجلس قانون ساز کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
علامہ رشید ترابی اس دوران عملی سیاست سے بھی منسلک رہے اور قائد ملت نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے پلیٹ فارم پرفعال رہے۔قائد اعظم کی ہدایت پر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1940ء میں حیدرآباد (دکن) کی مجلس قانون ساز کے رکن بھی منتخب ہوئے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا سیکریٹری اطلاعات بنایا <ref>علامہ رشید ترابی کی 50 ویں برسی کل منائی جائے گی، [https://jang.com.pk/news/1300339 jang.com.pk]</ref>۔
دسمبر 1947ء میں علامہ رشید ترابی کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان مدعو کیا تاکہ حضرت مالک اشتر کے نام لکھے گئے [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی ابن ابی طالب]] کے مشہور خط کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔
دسمبر 1947ء میں علامہ رشید ترابی کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان مدعو کیا تاکہ حضرت مالک اشتر کے نام لکھے گئے [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی ابن ابی طالب]] کے مشہور خط کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔
== خطابت ==
== خطابت ==
وہ قرآن پاک کی تلاوت سے مجلس کا آغاز کرتے،پھر احادیث سے دلائل دیتے اور قرآن پر بات سمیٹ دیتے۔اُن کی مجالس میں ہر طبقے سے وابستہ افراد شرکت کرتے۔قیامِ پاکستان کے بعد قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کی خواہش پر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مالک اشتر کے نام لکھے گئے معروف خط کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جو بے حد مقبول ہوا۔ صدر ایّوب خان نے اپنے دورِ حکومت میں اسے 10 لاکھ کی تعداد میں چَھپوا کر انتظامیہ میں تقسیم کیا تھا <ref>سید ثقلین علی نقوی، علامہ رشید ترابیؒ کا یوم وفات، حالات زندگی پر طائرانہ نظر، [https://shianews.com.pk/allama-rasheed-turabi-biography/ shianews.com.pk]</ref>۔
ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کراچی سے مجلس شام غریباں سے آپ کے خطاب نے پورے پاکستان کو ذکر حسین ؑ کی جانب ایسا متوجہ کیا کہ مجلس ِ شام غریباں کا براہ راست نشر ہونا ایک ایسی روایت بن گئی کہ جس کا سامع پاکستان کا ہر صاحبِ درد مسلمان ہوتا ہے۔ آپ نے مجلس شام غریباں میں روایتی عزائی طریق میں ایک نئی بنیاد فضائل و مصائب کا ایسا انداز و طریق اختیار کیا کہ آپ کے بعد آنے والے ہر خطیب نے اسی طریق کو اپنایا،تقاریر کا یہ سلسلہ عالم [[اسلام]] میں نیا تھا اس لیے انہیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔
ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کراچی سے مجلس شام غریباں سے آپ کے خطاب نے پورے پاکستان کو ذکر حسین ؑ کی جانب ایسا متوجہ کیا کہ مجلس ِ شام غریباں کا براہ راست نشر ہونا ایک ایسی روایت بن گئی کہ جس کا سامع پاکستان کا ہر صاحبِ درد مسلمان ہوتا ہے۔ آپ نے مجلس شام غریباں میں روایتی عزائی طریق میں ایک نئی بنیاد فضائل و مصائب کا ایسا انداز و طریق اختیار کیا کہ آپ کے بعد آنے والے ہر خطیب نے اسی طریق کو اپنایا،تقاریر کا یہ سلسلہ عالم [[اسلام]] میں نیا تھا اس لیے انہیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔
علامہ رشید ترابی برصغیر کے آفتابِ خطابت تھے ۔لفظ آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے ۔سامعین میں ہر شخص کی آرزو ہوتی تھی کہ وہ علامہ کے ایک ایک لفظ کو اپنی سماعتوں میں محفوظ کر لے ۔
علامہ رشید ترابی برصغیر کے آفتابِ خطابت تھے ۔لفظ آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے ۔سامعین میں ہر شخص کی آرزو ہوتی تھی کہ وہ علامہ کے ایک ایک لفظ کو اپنی سماعتوں میں محفوظ کر لے ۔
سطر 31: سطر 32:
علامہ صاحب داستان گونہ تھے مگر ان کے طرز گفتار میں بلا کا سحر تھا – اپنی وسعت نظر و وسعت زبان کے باوجود وہ اپنے سامعین کو چند لمحوں میں اس طرح کر لیتے تھے کہ ایک ایک فقرے پر مجمع تڑپ اٹھتا تھا – وہ قرآن ، رومی ، حافظ اور اقبال کے مکمل حافظ تھے – انھیں نہج البلاغہ کے مکمل علم کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پر بھی تقریباً دسترس حاصل تھی۔
علامہ صاحب داستان گونہ تھے مگر ان کے طرز گفتار میں بلا کا سحر تھا – اپنی وسعت نظر و وسعت زبان کے باوجود وہ اپنے سامعین کو چند لمحوں میں اس طرح کر لیتے تھے کہ ایک ایک فقرے پر مجمع تڑپ اٹھتا تھا – وہ قرآن ، رومی ، حافظ اور اقبال کے مکمل حافظ تھے – انھیں نہج البلاغہ کے مکمل علم کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پر بھی تقریباً دسترس حاصل تھی۔
رشید ترابی اعلٰی اللہ مقامہٗ کی داستان نہ صرف فصاحت و بلاغت کی داستان ہے بلکہ ایک غیر معمولی حافظے کی داستان بھی ہے – یہ ایک اجتماعی شعور کی پرورش کی داستان ہے – یہ زندگی کے نصب العین سے وفا اور ایثار کی داستان ہے – یہ نہ صرف عزا ے حسین (ع) کی داستان ہے بلکہ یہ اردو زبان و ادب ، فلسفہ و منطق ، رجال ، کلام ، حرف و نحو اور اسلام کی داستان بھی ہے <ref>سید انجم رضا، جمع آوری و تدوین، ہفتہ روزہ رضا کار ، لاہور ، 10 جولائی بروز جمعۃالمبارک، 2020</ref>۔
رشید ترابی اعلٰی اللہ مقامہٗ کی داستان نہ صرف فصاحت و بلاغت کی داستان ہے بلکہ ایک غیر معمولی حافظے کی داستان بھی ہے – یہ ایک اجتماعی شعور کی پرورش کی داستان ہے – یہ زندگی کے نصب العین سے وفا اور ایثار کی داستان ہے – یہ نہ صرف عزا ے حسین (ع) کی داستان ہے بلکہ یہ اردو زبان و ادب ، فلسفہ و منطق ، رجال ، کلام ، حرف و نحو اور اسلام کی داستان بھی ہے <ref>سید انجم رضا، جمع آوری و تدوین، ہفتہ روزہ رضا کار ، لاہور ، 10 جولائی بروز جمعۃالمبارک، 2020</ref>۔
== تقاریر کے اثرات ==
قائداعظم کی رحلت کے بعد انہوں نے عملی سیاست کو ترک کردیا اور مجالس و محافلِ سیرت کے ذریعے فکری سطح پر اتحاد ملت کے خود کو وقف کردیا۔
علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ شاخ مرجان کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ 12 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں جو کہ عوام میں بہت مقبول ہوئیں۔ وہ ایک طرز کے خطیب تھے، محرم الحرام میں موضوعات کے تحت عشرہ ہائے مجالس سے خطاب کرتے تھے۔ قرآن، حضرت ختمی المرتبتؐ اور نہج البلاغہ ان کی فکر کے مرکز تھے۔ رمضان المبارک میں کسی ایک سورہ پر تفسیر کی ابتداء میں مسقط (عمان) سے ہوئی۔ پھر تفسیر کا یہ سلسلہ کراچی میں 1973ء تک جاری رہا۔ پاکستان میں انہوں نے اپنی پچیس سالہ زندگی میں پانچ ہزار سے زیادہ تقریریں کیں اور اب تک ان کی تقریبا دو ہزار تقریریں آن لائن دستیاب ہیں۔ ان کی وفات کے بعد بعض ناشرین نے ان کی تقاریر کو مجالسِ ترابی کے عنوان سے شائع کیا ہے۔
علامہ رشید ترابی کی تقاریر اور علمی صلاحیتوں کے ماننے والے صرف برصغیر ہی نہیں بلکہ عرب امارات، ایران، عراق، برما، جنوبی افریقہ اور برطانیہ میں بھی موجود تھے جہاں علامہ نے اپنی علمی صلاحیتوں کے موتی بکھیرے۔ خطابت کا یہ آفتاب 18 دسمبر 1973ء کو کراچی میں غروب ہوگیا۔ ان کے پس ماندگان میں لاکھوں چاہنے والوں کے ساتھ قابل اور باصلاحیت اولاد بھی شامل ہے، جس نے مختلف شعبوں میں خود کو منوایا۔ علامہ رشید ترابی نے کراچی کے علاقے، نارتھ ناظم آباد میں امام بارگاہ حسینیہ سجادیہ کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا، ان کی آخری آرام گاہ امام بارگاہ حسینیہ سجادیہ میں واقع ہے۔ ان کی پچاسویں برسی کے موقع پر علامہ رشید ترابی میموریل سینٹر کی جانب سے ان کی زندگی اور علمی خدمات پر ایک مستند ویب سائٹ کا آغاز کیا جارہا ہے خطابت کے <ref>آفتاب علامہ رشید ترابی کی پچاسویں برسی، [https://www.islamtimes.org/ur/article/1103176/%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D8%A2%D9%81%D8%AA%D8%A7%D8%A8-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D8%B1%D8%B4%DB%8C%D8%AF-%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%A8%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%DA%86%D8%A7%D8%B3%D9%88%DB% islamtimes.org]</ref>۔
== عشرہ مجالس ،پاکستان آمد ==  
== عشرہ مجالس ،پاکستان آمد ==  
=== عشرہ مجالس ===
=== عشرہ مجالس ===
سطر 44: سطر 49:
جناب مصطفی زیدی کی چہلم کی مجلس رضویہ کالونی کے امام بارگاہ میں منعقد ہوئی۔ اس مجلس میں جناب جوش صاحب نے سلام پڑھا۔ فیض صاحب اور تمام شعراء کرام شریک ہوئے وہ تقریر بھی ایک یادگار تقریر تھی جو کیسٹ میں محفوظ ہے ۔
جناب مصطفی زیدی کی چہلم کی مجلس رضویہ کالونی کے امام بارگاہ میں منعقد ہوئی۔ اس مجلس میں جناب جوش صاحب نے سلام پڑھا۔ فیض صاحب اور تمام شعراء کرام شریک ہوئے وہ تقریر بھی ایک یادگار تقریر تھی جو کیسٹ میں محفوظ ہے ۔
علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ '''شاخ مرجان''' کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مرتب کردہ کتابیں طب معصومین‘ حیدرآباد کے جنگلات اور دستور علمی و اخلاقی مسائل بھی شائع ہوچکی ہیں <ref>علامہ رشید ترابی، [http://www.maablib.org/scholar/allama-rasheed-turabi-aftab-e-khitabat/ maablib.org]</ref>۔
علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ '''شاخ مرجان''' کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مرتب کردہ کتابیں طب معصومین‘ حیدرآباد کے جنگلات اور دستور علمی و اخلاقی مسائل بھی شائع ہوچکی ہیں <ref>علامہ رشید ترابی، [http://www.maablib.org/scholar/allama-rasheed-turabi-aftab-e-khitabat/ maablib.org]</ref>۔
== تالیفات ==
شاخ مرجان
طب معصومین
حیدرآباد کے جنگلات
دستور علمی و اخلاقی مسائل
== وفات ==
== وفات ==
علامہ رشید ترابی 18 دسمبر 1973ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور حسینیہ سجادیہ کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوئے۔
علامہ رشید ترابی 18 دسمبر 1973ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور حسینیہ سجادیہ کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوئے۔