3,909
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←نظریہ) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 30: | سطر 30: | ||
"اہلِ حدیث جماعت کے جوش وخروش کا دوسرا نتیجہ "طبقہ اہل القرآن" کا آغاز ہے، اہلِ حدیث اپنے آپ کوغیرمقلد کہتے ہیں، وہ فقہی ائمہ مثلاً ابوحنیفہ کی تقلید سے آزاد ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کئی طبیعتوں کو جو زیادہ آزاد خیال تھیں فقط فقہاء کی تقلید سے آزادی کافی معلوم نہ ہوئی اور انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پراحادیث سے بھی آزادی حاصل کرنا چاہی، اس گروہ کا ایک مرکز پنجاب میں ہے، جہاں لوگ اُنہیں چکڑالوی کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کواہل القرآن کا لقب دیتے ہیں، اس گروہ کا بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلِ حدیث تھا"۔ | "اہلِ حدیث جماعت کے جوش وخروش کا دوسرا نتیجہ "طبقہ اہل القرآن" کا آغاز ہے، اہلِ حدیث اپنے آپ کوغیرمقلد کہتے ہیں، وہ فقہی ائمہ مثلاً ابوحنیفہ کی تقلید سے آزاد ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ کئی طبیعتوں کو جو زیادہ آزاد خیال تھیں فقط فقہاء کی تقلید سے آزادی کافی معلوم نہ ہوئی اور انہوں نے مختلف اسباب کی بناء پراحادیث سے بھی آزادی حاصل کرنا چاہی، اس گروہ کا ایک مرکز پنجاب میں ہے، جہاں لوگ اُنہیں چکڑالوی کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کواہل القرآن کا لقب دیتے ہیں، اس گروہ کا بانی مولوی عبداللہ چکڑالوی پہلے اہلِ حدیث تھا"۔ | ||
<ref>موجِ کوثر، ص۵۲</ref>۔ | <ref>موجِ کوثر، ص۵۲</ref>۔ | ||
چکڑالوی صاحب کا یہ تبصرہ صرف اس امت پر نہیں، وہ پہلی اُمتوں کوبھی برابر کامجرم قرار دیتے ہیں اور مولوی کا دعویٰ ہے کہ اتباعِ حدیث کی تجویز پہلے ادوار میں بھی تھی، فرعون اہلِ حدیث میں سے تھا اور موسیٰ علیہ السلام تورات کے سوا اور کسی چیز کوبنواسرائیل کے لیے حجت نہ سمجھتے تھے اور نہ آپ نے کبھی کسی اور بات کی دعوت دی تھی، مولوی صاحب کی یہ بات "پنسبہ کجا کجا نہم" کا مصداق ہے، ہم ان کی کس کس بات پرمرہم رکھیں اور ان کے لگائے کس کس زخم کومندمل کرنے کی کوشش کریں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی تھی اور وہ اسرائیل کے لیے بے شک تشریعی پیغمبر تھے، ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام توصاحب کتاب نہ تھے؛ پھرقرآن کریم میں یہ بات کیوں ہے کہ انہوں نے بھی قوم کواپنی پیروی کی دعوت دی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اور رسول اسی لیے توبھیجے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے؟ اور ان سے رضاءِ الہٰی کے طریقے جاری ہوں؟ بنی اسرائیل جب سامری کے چکر میں گھرے توحضرت ہارون علیہ السلام نے کیا یہ نہ کہا تھا: | چکڑالوی صاحب کا یہ تبصرہ صرف اس امت پر نہیں، وہ پہلی اُمتوں کوبھی برابر کامجرم قرار دیتے ہیں اور مولوی کا دعویٰ ہے کہ اتباعِ حدیث کی تجویز پہلے ادوار میں بھی تھی، فرعون اہلِ حدیث میں سے تھا اور موسیٰ علیہ السلام تورات کے سوا اور کسی چیز کوبنواسرائیل کے لیے حجت نہ سمجھتے تھے اور نہ آپ نے کبھی کسی اور بات کی دعوت دی تھی، مولوی صاحب کی یہ بات "پنسبہ کجا کجا نہم" کا مصداق ہے، ہم ان کی کس کس بات پرمرہم رکھیں اور ان کے لگائے کس کس زخم کومندمل کرنے کی کوشش کریں، تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کوملی تھی اور وہ اسرائیل کے لیے بے شک تشریعی پیغمبر تھے، ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام توصاحب کتاب نہ تھے؛ پھرقرآن کریم میں یہ بات کیوں ہے کہ انہوں نے بھی قوم کواپنی پیروی کی دعوت دی؟ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ نبی اور رسول اسی لیے توبھیجے جاتے ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے؟ اور ان سے رضاءِ الہٰی کے طریقے جاری ہوں؟ بنی اسرائیل جب سامری کے چکر میں گھرے توحضرت ہارون علیہ السلام نے کیا یہ نہ کہا تھا: | ||
"يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي" | "يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي" |