Jump to content

"سید محمد دہلوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 61: سطر 61:
1963ء میں سانحہ ٹھیڑی، سندھ میں پیش آیا اس پر کوئی خاص احتجاج و دادرسی نہ ہو سکی۔ درسی کتب میں دل آزار مواد شامل ہو گیا۔ دینیات کے نام پر ایک خاص نکتہ نظر کو پڑھایا جانے لگا۔ عزاداری کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی ہونی شروع ہو گیں۔ شیعہ افسران سے تعصب برتا جانے لگا، انہیں اہم ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا جانے لگا۔ غرضیکہ مسائل بڑھتے چلے گئے۔  
1963ء میں سانحہ ٹھیڑی، سندھ میں پیش آیا اس پر کوئی خاص احتجاج و دادرسی نہ ہو سکی۔ درسی کتب میں دل آزار مواد شامل ہو گیا۔ دینیات کے نام پر ایک خاص نکتہ نظر کو پڑھایا جانے لگا۔ عزاداری کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی ہونی شروع ہو گیں۔ شیعہ افسران سے تعصب برتا جانے لگا، انہیں اہم ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا جانے لگا۔ غرضیکہ مسائل بڑھتے چلے گئے۔  
=== پہلا منظم اجتماع ===
=== پہلا منظم اجتماع ===
ان حالات میں سید محمد دہلوی مرحوم نے 5، 6، 7 جنوری 1964ء کو کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم اجتماع امام بارگاہ شاہ کربلا، رضیہ کالونی، کراچی میں منعقد ہوا جس میں دو سو سے زیادہ علماء کرام،اور ممتاز شیعہ رہنماؤں نے شرکت کی۔ تمام مسائل پر تفصیلی گفتگو کے بعد مجلس عمل علمائے شیعہ تشکیل دی گئی اور اتفاق رائے سے خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی مرحوم کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ طے پایا کہ درج ذیل مطالبات حکومت کو پیش کئے جائیں:
ان حالات میں سید محمد دہلوی مرحوم نے 5، 6، 7 جنوری 1964ء کو کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم اجتماع امام بارگاہ شاہ کربلا، رضیہ کالونی، کراچی میں منعقد ہوا جس میں دو سو سے زیادہ علماء کرام،اور ممتاز شیعہ رہنماؤں نے شرکت کی۔ تمام مسائل پر تفصیلی گفتگو کے بعد مجلس عمل علمائے شیعہ تشکیل دی گئی اور اتفاق رائے سے خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی مرحوم کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا۔  
* شیعہ طلباء کے لیے مدارس میں علیحدہ دینیات کا انتظام
خطیب اعظم کادوسرا اوراہم کارنامہ جوآپ نے اپنی زندگی کے آخری چندسالوں میں انجام دیاوہ شیعہ قوم کو اجتماعی شعوردلاتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پرجمع کرناتھااس سلسلے میں پانچ تاسات جنوری١٩٦٤ء کوامام بارگاہ رضویہ کالونی کراچی میں کل پاکستان علمائے شیعہ کنوشن کا انعقادکیاگیاجس میں پاراچناراورساحل چین سے لے کرکراچی تک کے سیکڑوں علماء نے شرکت کی،اس اجلاس میں پاکستان شیعہ مطالبات کمیٹی اورایک مجلس علمائے شیعہ پاکستان تشکیل دی گئی جس کاسربراہ خطیب اعظم کومقررکیاگیااورطے پایاکہ مندرجہ ذیل شیعہ مطالبات حکومت کوپیش کئے جائیں:
* شیعہ اوقاف کے لیے حکومت کی زیر نگرانی شیعہ بورڈ کا قیام
* آزادانہ طورپرعزاداری امام حسین علیہ السلام کی اجازت ہونی چاہئے اوراس کے تمام تر حفاظتی امورحکومت پرعائدہوتے ہیں۔
* تحفظ عزاداری
* شیعہ اسٹوڈنس کے لئے اسکولوں میں جداگانہ اپنی فقہ کے مطابق نصاب دینیات کاانتظام ہوناچاہئے۔
* درسی کتب سے قابل اعتراض ودل آزار مواد کا اخراج
* درسی کتب سے قابل اعتراض ودل آزارموادکااخراج کیاجائے۔
آپ کے دور ِ
* تمام ترشیعہ اوقاف کی نگرانی کے لئے شیعہ بورڈکاقیام عمل میں لایاجائے۔
شیعہ رہنما سیدمحمددہلوی،کل پاکستان علمائے شیعہ کنونشن میں طے پانے والی تمام قرار دادوں سے اپنی قوم کوروشناس کرانے کے لئے ملک گیرسطح پردورہ جات کئے اورپاکستان کے گوشہ گوشہ میں اپنے مطالبات دھراتے رہے مگرحکومت نے اپنی گذشتہ تاریخ کے مطابق ہمیشہ کی طرح شیعہ مطالبات کو نظراندازکرنے کاروایتی اندازاپنایاجس کے نتیجہ میں اکتوبر١٩٦٤ء کوعوامی سطح پرملک گیراحتجاج میں حکومت کی اس روایتی اندازکی بھرپورالفاظ میں مذمت کی گئی اورمطالبہ کیاگیاکہ کل پاکستان علمائے شیعہ کنونشن کے تمام ترمطالبات پر عمل درآمد کیا جائے ۔
 
سیدمحمددہلوی کی حکمت عملی موثرواقع ہوئی اورصدرایوب خان نے شیعہ اکابرین اورعلماء پرمشتمل ٥٠ رکنی وفدسے ملاقات کی اورشیعہ مطالبات کوحق بجانب سمجھتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لئے پانچ شیعہ اورچارحکومت کی نمائندگی میںمشتمل افرادپرایک کمیٹی بنانے کااعلان کیا۔شیعہ نمائندگی میں جن پانچ افراد کے نام تھے ان میں علامہ سیدمحمددہلوی کے علاوہ مرحوم علامہ مفتی جعفرحسین جیسی اہم شخصیات تھیں،چانچہ آپ کی اورآپ کے ساتھیوں کی تگ و دو سے دونومبر١٩٦٨ء کو حکومت نے نصاب تعلیم کے مطالبہ کوتسلیم کرلیا جس پرقوم نے خطیب اعظم کی اس پرخلوص اوربے لوث خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو”قائدملت جعفریہ ”کاخطاب دیا اور اس طرح پہلی بارپاکستان کی تاریخ میں قائدملت جعفریہ پاکستان کاٹائٹل ابھرکرسامنے آیا۔
 
== دوران قیادت خدمات ==
== دوران قیادت خدمات ==
قیادت کوایک ترتیب دی گئی ہے اس کی ایک جھلک قارئین کے سامنے آ جائے گی:
قیادت کوایک ترتیب دی گئی ہے اس کی ایک جھلک قارئین کے سامنے آ جائے گی: