Jump to content

"بیت المقدس" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 19: سطر 19:
== ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس ==
== ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس ==
ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کردیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزير علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئۓ تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔  
ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کردیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ بیت المقدس کے اس دور بربادی میں حضرت عزير علیہ السلام کا وہاں سے گذر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر پھر کبھی آباد ہوگا؟ اس پر اللہ نے انہیں موت دے دی اور جب وہ سو سال بعد اٹھائے گئۓ تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پر رونق شہر بن چکا تھا۔  
بخت نصر کے بعد 539ء ق م میں شہنشاہ فارس کورش کبیر نے بابل فتح کرکے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کرلیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں کو مسمار کردیے۔
بخت نصر کے بعد 539ء ق م میں شہنشاہ فارس کورش کبیر نے بابل فتح کرکے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمانی پھر تعمیر کرلیے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں کو مسمار کردیا۔


== بیت المقدس میں گرجے کی تعمیر ==
== بیت المقدس میں گرجے کی تعمیر ==
سطر 25: سطر 25:


== بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ==
== بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ==
مسلم تاریخ:  جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایا معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۂ الصخرہ بنایا گیا۔
مسلم تاریخ:  جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، 2ھ بمطابق 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا۔یہاں تک کہ  حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۂ الصخرہ بنایا گیا۔


== بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ==
== بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ==
1099 ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیون کے قبضے سے چھڑایا۔
1099 ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔


== یہودیوں کا قبضہ ==
== یہودیوں کا قبضہ ==
جدید تاریخ اور یہودی قبضہ پہلی جنگ عظیم دشمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود اور نصاری کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضف میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70 ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچہ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے اسی لیے دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔
پہلی جنگ عظیم دشمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود اور نصاری کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب- اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70 ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے  دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔


== معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ==
== معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ==
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسموں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت کے بعدسے 16 سے 17 مہینوں تک مسلمان مسجد اقصی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔


== مسلم تعمیرات ==
== مسلم تعمیرات ==
مسلم تعمیرات جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔
مسلم تعمیرات جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔
یہی مسجد بعد میں مسجد اقصی کہائی کیونکہ قرآن مجید کی  سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصی میں تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا۔ نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
یہی مسجد بعد میں مسجد اقصی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کے سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصی میں تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187 ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو  جسے  خلیفہ دوم عمر ابن خطاب  نے  اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں۔ اس جگہ جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا، نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔


== سانحہ بیت المقدس ==  
== سانحہ بیت المقدس ==  
سانحہ بیت المقدس 21 اگست 19689ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصی تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود  منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدیر ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں گے۔
سانحہ بیت المقدس 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصی تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود  منبر بھی نذر آتش ہو گیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کرسکے۔
اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لیے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے کے بعد اسلامی ممالک نے مؤتمر عالم اسلامی ( او آئی سی ) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہو گئی۔ یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سجمھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکتے کہ ہیکل سلیمانی یہی تعمیر تھا۔
اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لیے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے کے بعد اسلامی ممالک نے مؤتمر عالم اسلامی ( او آئی سی ) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہو گئی۔ یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سجمھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہی تعمیر تھا۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed
821

ترامیم